مئی ۲۰۰۲

فہرست مضامین

کلام نبویؐ کی کرنیں

مولانا عبد المالک | مئی ۲۰۰۲ | فہم حدیث

Responsive image Responsive image

حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے اس حال میں تشریف لے گئے کہ خوش و خرم اور ہشاش بشاش تھے‘ واپس تشریف لائے تو غم زدہ تھے۔ میں نے پوچھا: یارسول اللہ! آپؐ میرے پاس سے گئے تھے تو خوش تھے‘ واپس تشریف لائے ہیں تو غمگین ہیں۔ کیا چیز اس کا سبب بن گئی؟ آپؐ نے فرمایا: میں کعبہ کے اندر داخل ہو گیا۔ بعد میں مجھے خیال آیا کاش میں داخل نہ ہوا ہوتا۔ مجھے ڈر ہے کہ میں نے داخل ہو کر اپنے بعد اُمت کو مشقت میں ڈال دیا۔ (ابن ماجہ‘ باب دخول الکعبہ‘ کتاب الحج‘ ص۲۲۶)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو عمل بھی کیااُمت کے لیے اس میں زبردست کشش ہے۔ اُمتی وہ کام کر کے رہتے ہیں۔ آپؐ کعبہ میں داخل ہوئے تو سب مسلمان کعبہ میں داخل ہونے کی کوشش کریں گے جو ان کے لیے تکلیف کا موجب بن جائے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی اُمت کو مشقت سے بچانے کی کتنی فکر تھی کہ ایک فعل کر لیا‘ پھر خیال آیا کہ اس سے اُمت مشقت میں پڑ جائے گی‘ لوگ ایک دوسرے پر ہجوم کریں گے۔ اتنی بات سے آپؐ غمگین ہو گئے۔ ابھی ہجوم ہوا نہیں تھا ‘کوئی کچلا نہیں گیا تھا محض اس کا خطرہ اور اس کا احساس آپؐ کو دامن گیر ہوگیا۔ وہ اُمت جس کے لیے اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فکرمندی‘ بے چینی اور بے قراری کا یہ حال ہے‘ وہ آج کس حال میں ہے اور اس کی خود اُمت کو کیا فکر ہے؟ اس کا جواب ہر کلمہ گو کو دینا ہے۔ کیا اس اُمت کے حصے بخرے کیے جا سکتے ہیں؟ اُمت کے کسی ایک حصے کے متعلق یہ امتیاز ہو سکتا ہے کہ پہلے اس کی فکر کرو پھر دوسروں کی‘ یا اپنے آپ کو دوسروںپر مقدم کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان اور کشمیر کی فکر کرو‘ افغانستان اور فلسطین کو چھوڑ دو۔ کیا ایسا ہو سکتاہے؟ آج مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جا رہا ہے۔ کسی کو اس کا دکھ درد اور غم ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی سی بات پر اتنے غم زدہ ہو گئے‘ نبی کے اُمتی کس مقام پر کھڑے ہیں۔ ایمانی جذبات‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت‘ اُمت سے لگائو‘ بھائیوں کے لیے ایثار و قربانی‘ سب چیزیں کہاں چلی گئیں؟ ہم کب بیدار اور کب زندہ ہوں گے؟ کب مسلمانوں کی تکلیف بسترِ استراحت کو چھوڑ کر ان کے دکھ درد میں شرکت کرنے پر آمادہ کرے گی؟


حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان پر گزر ہوا ‘جب کہ وہ زمین میں کچھ پودے لگا رہے تھے۔ آپؐ نے فرمایا: ابوہریرہ! کیا لگا رہے ہو؟ میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! کچھ پودے لگا رہا ہوں۔ اس پر رسولؐ اللہ نے فرمایا: میں تجھے ان پودوں سے بہتر پودے نہ بتلائوں؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں یارسولؐ اللہ! آپؐ نے فرمایا: سبحان اللہ‘ والحمدللہ‘ لا الٰہ الا اللہ ‘ واللہ اکبر کہو‘ ہر ایک کے بدلے میں اللہ تعالیٰ جنت میں تمھارے لیے ایک درخت لگا دیں گے۔ (ابن ماجہ‘ باب فضل التسبیح‘ ص ۲۷۸)

دنیا کو آباد کرنا اس کے لیے شجرکاری ‘ کاشت کاری ‘ خرید و فروخت ‘ صنعت و حرفت‘ زمین کے خزانے نکالنا اور ان سے استفادہ کرنا‘سائنس و ٹکنالوجی کے ذریعے ترقی کے سازوسامان تیار کرنا‘ سہولتیں اورآسایشیں فراہم کرنا سب اپنی جگہ بجا لیکن یہ سب کام اسی وقت ٹھیک ہیں‘ جب کہ اصل جگہ کے لیے بھی جہاں ہمیشہ رہنا ہے‘ فکر کی جائے۔ آخرت کے لیے شجرکاری‘ تجارت‘ صنعت و حرفت‘ راحت کا سازوسامان پیدا کرنا‘ تو اصل کام ہے۔ کوئی ترک دنیا کا درس دیتا ہے اور کوئی دارآخرت سے غفلت میں مبتلا کرتا ہے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم انسان کی دنیا اور آخرت دونوں کو سنوارنے‘ بنانے ‘ راحت کا سامان کرنے اوریوں انسان کی ہر حال میں بھلائی کے لیے فکرمند ہیں۔ ادنیٰ کے لیے اعلیٰ‘ دنیا کی خاطر آخرت کو نظرانداز کرنے کو گوارا نہیں فرماتے۔ بہتر پودے‘ بہتر کاروبار‘ بہتر صنعت و حرفت اور بہتر سہولتیں آخرت کی ہیں۔ آج کتنے ہیں جو بہتر سے غافل اور ادنیٰ میں اندھادھند مگن ہیں۔ ذکر وتسبیح تو آخرت کے سامان ہیں۔ دنیا کے کام شریعت کو ملحوظ رکھ کر ‘ اطاعت رب کی نیت سے ہوں‘ تو یہ بھی آخرت کا سامان ہے۔ ۲۴گھنٹے جاگتے سوتے اللہ کی عبادت ہو سکتی ہے بشرطیکہ کوئی عبادت کرنا چاہے اور آخرت کے لیے فکرمند ہو۔


حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو بھی حرام کیا ہے اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ تم میں سے کوئی نہ کوئی اس کا مرتکب ہوگا۔ سنو! میں تمھیں تمھاری کمروں سے پکڑ پکڑ کر آگ میں گرنے سے روکتا ہوں۔ تم اسی طرح آگ میں دوڑ دوڑ کر گرتے ہو جس طرح پروانے اور مکھیاں آگ میں گرا کرتی ہیں۔ (الفتح الربانی‘ باب ماجاء فی المفردات من المناہی‘ ج۱۹‘۲۰)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعالمین اور ایمان والوںکے لیے رئوف و رحیم ہیں۔ ایمان والوں کے ساتھ ہمدردی‘ محبت اور تعلق کا تقاضا کیا ہے‘ انھیں دوزخ میں گرنے سے بچانا۔ اس کے لیے دوڑ دھوپ کرنا اور اپنا آرام ترک کرنا پڑتا ہے۔ لوگ تو آگ میں چھلانگیں لگا رہے ہیں۔ کوئی ہانک پکار پر کان نہیں دھرتا۔ شیطان کو راضی کرنے کے لیے دوزخ کی آگ اور کفار کی طرف دوڑ رہے ہیں۔ بے قصورلوگوں کو تہ تیغ کرنے‘ گرفتار کرنے‘ بوڑھوں‘ بچوں‘عورتوں اور نوجوانوں کو ظلم و جور کا نشانہ بنانے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے نبی کا اسوہ اور تعلیم زبانی نہیں بلکہ عملاً لوگوں کو دوزخ میں گرنے‘ ظلم و جور اور قتل و غارت گری سے روکنے کی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ تو یہ ہے‘ تب کتنے ہیں جو اپنے گھروں سے باہر نکل کر ظالموں کو دوزخ کی آگ میں گرنے سے عملاً روک رہے ہوں۔ کون ہے لوگوں کو کمروں سے پکڑنے والا‘ ان کو ہاتھ سے روکنے والا‘ اپنے آرام و راحت کو قربان کرنے والا‘ اپنے آپ کو آزمایش اور تکلیف کے لیے پیش کرنے والا بنے۔ نبیؐ کے راستے پر چلے بغیر‘ معرکہ خیروشر میں کودے بغیر‘ لوگوں کو کمر سے پکڑ پکڑ کر بچائے بغیر کیسے اتباع کا حق ادا کیا جا سکتا ہے۔ آیئے‘ آخرت کی کمائی کا بازار کھلا ہے۔ جس نے کمائی کرنی ہو‘ نبیؐ کے اسوہ حسنہ کو اختیار کر لے اور نیکیاں کماتا چلا جائے۔


حضرت ابوبکرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ظلم اور قطع رحمی سے بڑھ کر کوئی گناہ اس بات کا سزاوار نہیں کہ اس کا عذاب دنیا میں جلدی دے دیا جائے اور آخرت کا عذاب اس کے علاوہ ہو۔ (الفتح الربانی الترہیب‘ من قطع صلۃ الرحم‘ ج ۱۹‘۲۰‘ ص ۲۱۷)

تاریخ گواہ ہے کہ ظالموں کو اس دنیا میں عبرت ناک سزا ملتی ہے۔ ساری دنیا اپنی آنکھوں سے ان کے انجام کو دیکھتی ہے۔ بنی اسرائیل کی نسل کُشی کرنے والے فرعون کے دریاے نیل میں غرق ہونے سے لے کر آج تک ہر ظالم کی ہلاکت کے مناظر زمانے کے صفحات پر ثبت ہیں۔ لیکن ہر نئے دور کے ظالم ان سے عبرت حاصل کرنے کے بجائے اپنے پیش روئوں کی تقلید کرتے ہوئے ظلم میں آگے ہی آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں تاآنکہ اپنے انجام بد سے دوچار ہوجاتے ہیں‘ اور ارشاد رسولؐ کی صداقت سامنے آجاتی ہے۔


حضرت یزید بن الھادؓ حضرت محمد بن عبداللہ بن عمرؓ بن خطاب سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی کچھ لوگوں سے ملاقات ہوئی جو مروان سے مل کر آئے تھے۔ پوچھا: کہاں سے آئے؟ جواب دیا: امیرمروان سے مل کر آئے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے پوچھا: جو حق بات تم نے دیکھی اس کی تائید اور جو منکر نظر آیا اس کی تردید کی؟ جواب دیا: نہیں‘ اللہ تعالیٰ کی قسم‘ نہیں‘ بلکہ اس نے بعض منکر باتیں بھی کیں جن کے بارے میں ہم نے کہا اللہ آپ کو ٹھیک رکھے‘ آپ نے اچھا کیا۔ جب ہم اس کے پاس سے باہر نکلے تو ہم نے کہا اللہ اس کو ہلاک کرے‘ کتنا ظالم اور کتنا بدکار ہے۔ یہ سن کر حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے کہا: ’’رسولؐ اللہ کے زمانے میں ہم اس طرح کے طرزعمل کو نفاق قرار دیتے تھے‘‘۔ (الفتح الربانی الترہیب‘ من النفاق‘ ج ۱۹‘ ۲۰‘ ص ۲۳۰)

اس وقت تو چند ایسے لوگ تھے جو حکمرانوں کے سامنے ان کی تائید اور باہر نکل کر تردید کرتے تھے‘ یہ نفاق ہے۔ آج یہ نفاق اس قدر بڑھ گیا ہے کہ جب حکمران برسراقتدار ہوتا ہے تو وہ محبوب اور قائد ہوتا ہے اور جب اقتدار سے رخصت ہو جاتا ہے تو مبغوض اور لعنتی شمار ہوتا ہے۔ انسانوں کے بڑے بڑے ریوڑ حکمران کے دوراقتدار میں ساری دنیا کے سامنے اس کے مداح‘ اور اقتدار سے اُترنے کے بعد ساری دنیا کے سامنے‘ اس دنیا کے سامنے جس کے سامنے مدح کرتے تھے‘ مذمت کرتے ہیں اور گردن زدنی قرار دیتے ہیں۔ ریوڑوں کے ریوڑ بڑی بڑی پارٹیاں اور لیڈر‘ راہنما اور راہبر اس بیماری کا شکار ہیں‘ نعوذ باللہ۔


حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ حضرت جمیلہؓ بنت سلول نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں۔ عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میں ثابت بن قیس سے اس کے دین اور اخلاق کی بنا پر ناراض نہیں لیکن میں مسلمان ہوتے ہوئے ناپسند کرتی ہوں کہ (شوہر کی) ناشکری اور ناقدری کروں۔ (میں اسے اس کی شکل و صورت کی وجہ سے) طبعاً ناپسند کرتی ہوں اور اس لیے اسے برداشت نہیں کرسکتی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اس کا باغ واپس کرنے کے لیے تیار ہو؟ اس نے عرض کیا: ہاں۔ رسولؐ اللہ نے حضرت ثابت بن قیسؓ کو فرمایا: اس سے باغ لے لو اور (طلاق دے دو) اس سے مزید کچھ نہ لو۔ (ابن ماجہ‘ کتاب الطلاق‘ ص ۱۴۹)

نکاح کے بندھن میں آنے سے پہلے دیکھنا چاہیے کہ شوہر کیسا ہے‘ شکل و صورت کے لحاظ سے قابل قبول ہے کہ نہیں۔ اسی طرح سے بیوی کے بارے میں بھی پہلے سے فیصلہ کرنا چاہیے۔ نکاح کے بعد قانون میں اس کی گنجایش نہیں لیکن اگر کسی وجہ سے پہلے اس کا اہتمام نہ ہو سکا ہو تو پھر کیا ہو؟ کیا میاں بیوی کو اسی طرح قانون کی لاٹھی سے ہانکا جائے گا اور وہ ایک دوسرے کو نہ چاہتے ہوئے بھی نکاح کے بندھن میں بندھے رہیں گے؟ اگر ایسا کیا جائے تو گھرانے میں سکون و چین کیسے ہوگا؟ کیا میاں بیوی اسی طرح ایک دوسرے سے روٹھے‘ پیٹھ پھیرے‘ گھٹے گھٹے زندگی بسر کریں گے؟ کیا ایک دوسرے کے انسانی اور اسلامی حقوق کو پامال کرتے ہوئے ازدواجی زندگی بسر کریں گے؟ اس کا جواب اس حدیث میں ہے۔ ایسی صورت میں اخلاق اور مصالح کو پیش نظر رکھا جائے گا اور قانون کے بجائے مثالی اسلامی معاشرے کے آداب کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جائے گی۔بیوی شوہر کو ناپسند کرتی ہو تو شوہر کو سمجھایا جائے گا کہ اپنے گھر کو بے چینی اور بے اطمینانی کا گھر بنانے کی بجائے سکون اور راحت کا گھر بنائے۔ ایسی بیوی کو طلاق دے دو اور شادی پر جو ضروری اخراجات آئے ہیں‘ جو مہر دیا ہے وہ واپس لے لو اور اس سے دوسرا گھر بسائو۔

جبر و اکراہ کے ساتھ گھروں کو بسانے کی بجائے رضامندی سے معاملات طے کیے جائیں۔ شادی کرتے وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ شوہر بیوی پر شفقت کرے گا‘ خوش اخلاقی سے پیش آئے گا اور بیوی اس کی اطاعت اور شکرگزاری کرسکے گی۔ دونوں مل کر اپنے گھر کو مثالی اسلامی گھرانہ بنا سکیں گے۔ بعد میں اگر اختلاف پیدا ہو جائے تو اس کا حل بھی یہی ہے۔ مصالحت نہ ہو سکتی ہو تو زبردستی کی بجائے احسن طریقے سے جدائی کا راستہ اختیارکیا جائے۔ آج کتنے گھرانے ہیں جو اس طرح کی صورت حال سے دوچار ہیں۔ معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ باہمی عداوت کو بڑھانے کے بجائے اسلامی بھائی چارے کی بنیاد پر باہمی مشاورت سے مسائل کو حل کیا جائے۔ عدالتوںکے چکر سے بھی بچا جائے جو اسلامی احکام سے ناواقفیت کی بنا پر جاہلانہ فیصلے صادر کرتی ہیں۔