خاتم الانبیا والمرسلین ہونے کے ناطے سیدنا محمد بن عبداللہ علیہ وعلیٰ آلہ الصلاۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے ان بہت سی خصوصیات سے سرفراز فرمایا ہے جن کا ذکر قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر وارد ہوا ہے مگر وہ اکثر دوسری سورتوں کے سیاق میں ہے۔ جہاں تک سورۃ الفتح اور سورۃ النصر کا تعلق ہے تو وہ آپؐ کی فتح و نصرت اور اس کے اسباب کے لیے خاص ہیں تو وہیں سورۃ الکوثر میں آپؐ کوخیرکثیر--- ہرمعنیٰ میں‘ ہر وقت‘ دنیا اور آخرت میں خیرکثیر---عطا کیے جانے کی بشارت اس طرح دی کہ اس کے پہلو بہ پہلو آپؐ کے دشمن کی جڑ--- خواہ کوئی کیوں نہ ہو‘ مادی ہو کہ معنوی --- کٹنے کی خوش خبری سنائی۔
اس نقطہء نظر سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ سورۃ الضحیٰ اور سورہ الم نشرح صرف آپؐ کی ذات بابرکات‘ اس سے اللہ تعالیٰ کا ہر لمحے تعلق--- نبوت سے مشرف ہونے سے قبل اور بعد کے تعلق --- کا مختلف پہلوئوں اور زاویوں اور وجوہات کے سبب اور آپؐ پر نظر خاص اور عنایت خاص کا ذکر ان دو سورتوں میں آیا ہے۔
سورۃ الضحیٰ اللہ تعالیٰ کا ہر لمحے آپؐ کے ساتھ ہونے‘ ساتھ دینے‘ نظر کرم رکھنے اور آپؐ پر اپنی مہربانیوں اور کرم فرمائیوں کی مسلسل بارش برسائے جانے سے عبارت ہے۔ اب رہی سورہ الم نشرح ‘ تو وہ اگرچہ الضحیٰ کا تکملہ اور تتمہ ہے مگر اس میں آپؐ کی ذاتِ بابرکاتؐ کے نبوی پہلو پر توجہ فرما کر اس سلسلے میں اللہ نے اپنی مہربانیوں اور کرم فرمائیوں کا ذکر فرمایا اور ساتھ ہی ساتھ اس غیر محدود اور غیر منقطع اجر کا بیان بھی کیا جو آپؐ کو عطا کیا گیا ہے۔
اسی میں اس عطاے عظیم کے ایک حصہ و جز--- محض ایک چھوٹے سے حصے اور جز--- کا ذکر بھی ہے جس کا وعدہ الضحیٰ میں یہ کہہ کر فرمایا تھا کہ بہت جلد تیرا رب تجھے اتنا کچھ عطا فرمائے گا کہ تم خوش ہو کر اس عطا سے اور خود عطا کرنے والے رب سے راضی ہو جائو گے۔ (وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰیo الضحیٰ ۹۳:۵)
آگے چل کر سورۃ التین میں البلد الامین --- مکۃ المکرمہ --- کی قسم اس سرزمین طور سینا کے ساتھ کھا کر جس میں انجیر اور زیتون پیدا ہوتے ہیں‘ آپؐ کے شہر اور فلسطین مبارک کے اٹوٹ رشتے کی طرف اشارہ فرما کر یہ ثابت کیا کہ آپؐ اسی شجرئہ طیبہ و مبارکہ کا ثمرہ طیبہ ہیں جس کا مبارک سایہ فلسطین کی مبارک سرزمین سے لے کر مکہ مکرمہ کے حرم تک پھیلا ہوا ہے اور جس کا بیج ڈالنے والے ابوالانبیا حضرت ابراہیم علیہ السلام تھے۔
علاوہ ازیں البلدالامین میں لطیف اشارہ ہے‘ اس مبارک شخصیت کی طرف‘ جس کے باشندے آپؐ کو الصادق الامین کہہ کر یاد کیا کرتے تھے۔ یوں یہ شہر بھی امانت دار قرار پایا اور اس کا ایک باشندہ بھی امانت دار ہونے کی صفت سے متصف ہوا۔
یہ وہ امانت ہے جس کو خانۂ کعبہ اور سیدنا اسماعیل ؑ کی شکل میں سیدنا ابراہیم ؑ نے مکہ مکرمہ میں چھوڑا تھا اور جو اس شخص کے حوالے کی گئی جو ہر پہلو سے امانت دار ہونے کے ناطے اس کو اٹھانے‘ اس کی حفاظت کرنے اور اس کے حقوق ادا کرنے کا ہر طرح مستحق اور قابل تھا۔ یہ توحید اور عبودیت کی امانت ہے جس کو ایک لفظ ’’الاسلام‘‘ میں ادا کیا جاتا ہے اور جس کا پیغام لے کر آپؐ کو خاتم المرسلین ؐ کی حیثیت سے معبوث کیا گیا۔ اس پیغام کو اور اُس امانت کو جس کسی نے دل و جان سے قبول کیا اور اس کے حقوق حتی الامکان ادا کرنے کی بھرپور کوشش کی تو وہ اسفل السافلین میں شمار کیے جانے سے بچ کر نہ ختم ہونے والے اجر کا مستحق قرار پایا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ عدل کے ساتھ فیصلہ کر کے اجر عطا کرنے والا ہے۔ (التین ۹۵:۵-۸)
سورہ الم نشرح کا آغاز آپؐ پر اس بے مثال اور بے نظیر احسان سے ہو رہا ہے جس کو شرح صدر کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر ہم اپنے آپ سے یہ سوال کریں کہ انبیا کرام علیہم السلام میں سے صرف آپ ؐ کو اس خصوصیت سے کیوں خاص کیا گیا تو اس کا جواب ازخود سامنے آجائے گا۔
خاتم الانبیا ؑوالمرسلین ہونے کی وجہ سے آپؐ اس لمحے سے جب آپؐ پر غارحرا میں اقرا باسم ربک الذی خلق(پڑھ اپنے اس رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ العلق۹۶: ۱)نازل ہوئی‘ اس لمحے تک جب صوراسرافیل پھونکا جائے گا‘ آپؐ سارے ہی جن و انس کے نبیؐ اور رسولؐ بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ بالفاظ دیگر آپؐ ہزاروں سال پر پھیلے ہوئے زمینی فاصلے پر لاتعداد جن و انس کے لیے رسولؐ اور نبیؐ بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ یہ زمان و مکان اور وہ لامحدود تعداد جن و انس اور ان کی ہدایت اور نجات‘ فلاح و بہبود کے مسائل اور اس راہ میں شیطان اور اس کے چیلوں کی ریشہ دوانیاں اور ان سے پیدا ہونے والی رکاوٹیں‘ اور پھر بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ ساتھ‘ ساری ہی دنیا میں‘ جو دُور رس اور پیچیدہ تبدیلیاں وقوع پذیر ہونے والی تھیں‘ اور ان سے جو فکری‘ مادی‘ اخلاقی اور دینی فتنے اور فساد پیدا ہو کر پھیلنے والے تھے‘ ان کو اپنے دل و دماغ اور روح اور جسم میں سمانے اور ان کا مقابلہ کرنے‘ اور ان سے نمٹنے کے لیے ایک اُمت وسط پیدا کرنے‘ اور اپنے پیغام کو آخری لمحۂ دنیا تک جاری و ساری رکھنے اور اس کے اس لامحدود اور نامعلوم عرصے تک برقرار رکھنے کے لیے ایک ایسے دل کی ضرورت تھی جس میں یہ نامعلوم‘ غیر محدود اور ان گنت امور اور مسائل سما سکیں۔
اس لیے آپؐ کے شرح صدر‘ خواہ وہ مادی ہو یامعنوی یا مادی اور معنوی دونوں ہی سے عبارت ہو‘ کی ضرورت تھی۔ اس کے بغیر یہ غیر محدود ذمہ داریاں جو نامعلوم زمان ومکان تک پھیلی ہوئی تھیں اٹھائی ہی نہیں جا سکتی تھیں۔ اس لیے آپؐ کے قلب مبارک میں وسعت پیدا کی گئی کیونکہ معمولی انسانی دل میں یہ امور سما ہی نہیں سکتے تھے اور نہ آج اور تاحیات سما سکتے ہیں۔ اگر بالجبر ان کو کسی معمولی انسانی دل میں سمونے کی کوشش کی بھی گئی تو وہ دل ہی پھٹ پڑے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عام انسانی دل ان لامحدود امور‘ مسائل اور ذمہ داریوں کو سہارنے کے لیے بنا ہی نہیں ہے۔ یہ اس کے بس کا روگ ہی نہیں ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ حضورؐ ان امور کی وسعتوں‘ گہرائیوں اور لامحدودیتوں کی وجہ سے اندر ہی اندر گھلے جا رہے تھے۔ یہ سوچ سوتے جاگتے‘ کھاتے پیتے‘ اٹھتے بیٹھتے‘ چلتے پھرتے ہمہ وقت آپؐ کا پیچھا کرتی رہتی تھی‘ جب کہ عالم یہ تھاکہ آپؐ معمول کی نبوی اور انسانی ذمہ داریاں پوری کرنے میں دل و جان سے جتے ہوئے تھے۔ اس ناقابل برداشت بوجھ تلے آپؐ کی کمر بیٹھی جا رہی تھی۔ عین ممکن تھا کہ آپؐ سخت بیمار ہو جاتے یا کسی لاعلاج مرض کا شکار ہو جاتے۔ اس لیے لطف ربانی نے آپؐ پر‘ آپؐ کی اُمت مرحومہ پر اور ساری ہی انسانیت پر تاقیامت مع عالم جن‘ رحم کی بارش کی اور آپؐ کے دل کو اتنی لامحدود زمانی و مکانی‘ وسعتوں سے روشناس فرمایا کہ ختم نبوتؐ کا کارہاے ناممکن آپؐ کے لیے بہت ہی آسان ہو گیا۔ آپؐ کے دل و دماغ سے یہ بوجھ اور دبائو ہٹ گیا اور اس کرم ربانی کی وجہ سے آپؐ ان امور کو قابل عمل اور قابل حصول سمجھنے لگے۔ آپؐ کی ہمت اور حوصلہ بڑھا اور آپؐ اپنے مشن کو کامیاب بنانے کے لیے مزید دل و جان اور روح و جسم کے ساتھ لگ گئے۔
ان حقائق کی طرف ہمیں قرآن مجید میں واضح اشارات ملتے ہیں:
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ o (الحجر ۱۵:۹) رہا یہ ذکر‘ تو اس کو ہم نے نازل کیا ہے اور ہم خود اس کے نگہبان ہیں۔
وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا o (البقرہ ۲:۱۴۳) اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’’اُمت وسط‘‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔
وَیَاْبَی اللّٰہُ اِلاَّ ٓ اَنْ یُّتِمَّ نُوْرَہٗ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ o (التوبہ ۹:۳۲) اور اللہ اس امر پر پوری طرح جما ہوا ہے کہ وہ اپنے نور (ہدایت) کو ہر سُو پھیلاکر ہی رہے گا خواہ یہ بات کافروں کو کتنی ہی ناگوار کیوں نہ ہو۔
اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان تین آیتوں میں ان راہوں کی نشان دہی کی گئی ہے جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب بندے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دل و دماغ کو سکون سے آشنا فرمایا۔ آپؐ کو اس کی تاکید یوں کی کہ اے محمدؐ! تمھاری وفات کے بعد اور تمھاری زندگی میں بھی ہم اس قرآن عظیم‘ اس کے معانی اور اس کے پیغام کی حفاظت کریں گے۔ تم اس معاملے سے بالکل ہی بے فکر ہو جائو اور اس پر غوروفکر اور اپنے آپؐ کو پریشان کرنا بالکل ہی ترک کر دو۔ وہ اس لیے کہ ہم نے تمھارے مبارک ہاتھوں اور تمھاری مبارک نگرانی میں ایک ایسی اُمت پیدا کرنے‘ اس کو جاری رکھنے اور اس کی آبیاری کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے جو اس پیغام اور اس کی ذمہ داری کو جس سے ہمارا قرآن عبارت ہے‘ بحسن و خوبی تمھارے بعد نبھائے گی۔ یہ پیغام اب ایک فرد ہی کا پیغام نہیں رہا ہے بلکہ اس کے لیے ایک اُمت کھڑی ہونے والی ہے جو اس کے لیے مرمٹنے والی ہوگی۔ یہ اس کے تمھارے بعد تاقیامت جاری و ساری رہنے کی بہترین ضمانت ہے۔
یہ بات بیان فرما کر اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو مزید اطمینان دلایا کہ ہم‘ خالق کائنات‘ خالق بشر اور خالق جن نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنا نور‘ جس کو قرآن کی شکل میں ہم نے تم پر نازل کیا ہے‘ قیامت تک دنیا میں ہرسُو پھیلاتے ہی رہیںگے۔ اس کے لیے ہر قسم کے اسباب مہیا کریں گے اور تمھاری اُمت کو وقت بوقت کمک پہنچاتے ہی رہیں گے تاکہ ہمارا نور ہر جن و انس تک پھیل سکے اور پہنچ سکے۔ تم تو جانتے ہی ہو اے محمدؐ! کہ ہم اس کائنات کے جن و انس کے‘ یکہ و تنہا خالق اور مالک ہیں۔ اس لیے ہمارے اس ارادے میں کوئی بھی حائل ہو کر کھڑا نہیں ہوسکتا خواہ وہ کفار جن و انس اور شیاطین کی ان گنت فوجیں ہی کیوں نہ ہوں۔ ہم ان کو تن تنہا شکست دینے پر قادر ہیں۔ اس لیے یہ امر ہر طرح سے مضبوط و محکم ہے۔ اس کے سارے انتظامات بذاتِ خود ہم نے کیے ہیں۔ لہٰذا اب تم اطمینان و سکون اختیار کرو اور اپنے کام میں مزید دلجوئی سے لگ جائو۔
آپؐ کا اجر و ثواب ‘ اس دنیا اور آخرت میں‘ اُن لامحدود ذہنی‘ فکری‘ روحانی اور جسمانی مصیبتوں اور تکلیفوں کے مقابلے میں جو آپؐ نے روزِ اوّل سے نور حق کو پھیلانے کے لیے اٹھائیں وہ بھی‘ رب کریم کی طرف سے‘ لامحدود اور ان گنت ہے۔ اس کو بھی شمار کرنا اور گنتی میں لانا ناممکن ہے کیونکہ اس اجر و ثواب کو شمار کرنے کی کوئی ایسی صورت نہیں کہ اس کا صحیح اندازہ لگایا جا سکے۔ اس کا احاطہ انسان کی محدود قدرت سے باہر ہے۔ اس کی وجہ آپؐ کا رفع ذکرہے۔ اس کی وہ شکلیں‘ جو اس خاکسار کے نوک قلم پر اس وقت آسکی ہیں وہ یہ ہیں:
اس میں‘ رفع ذکر کا یہ پہلو ہے کہ اللہ جل جلالہ کے نام پاک کے ساتھ اور پہلو بہ پہلو اس کے محبوب ترین بندے کا نام بولا اور لکھا جاتا ہے۔ یہاں عبودیت (عبد/بندہ) الوہیت کے پہلو بہ پہلو جگمگا رہی ہے۔ سبحان اللہ وتبارک اللہ۔ اس سے بڑھ کر اور کس طرح ذکر کو بلند کیا جا سکتا ہے!
اس کلمہء شہادت کا ایک پہلو یہ ہے کہ یہ اسلام میں داخل ہونے کا دروازہ ہے۔ یہ دروازہ صرف اس شخص پر کھلتا ہے جو نہ صرف الوہیت الٰہی کا اعلان کرے اور اس کی شہادت دے بلکہ اس کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول اللہ ہونے کا اقرار‘ اعلان کرنا اور اس کی شہادت بھی دینا پڑتی ہے۔ اگر وہ صرف الوہیت الٰہی کا اعلان کرنے پر اکتفا کرے اور رسالت محمدیؐ سے انکار کرے‘ پہلوتہی کرے‘ یا چشم پوشی کرے‘ تو پھر وہ مسلم نہیں ہو سکتا ہے۔ گویا الوہیت الٰہی اور رسالت محمدیؐ دونوں ہی کی شہادت لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتی اور دائرہ اسلام میں داخل ہونے کی شرط اول ہے۔
یہ دعا پوری محبت‘ منت و سماجت اور لجاجت سے ہر مومن اور مسلم ہر اذان کے بعد کرتا ہے۔ کیونکہ فرمایا کہ اس دعا سے قیامت کے ہولناک دن آپؐ کی شفاعت اس کے حق میں واجب ہو جاتی ہے۔ اس شفاعت کے مستحق ہونے کے لیے اور اس ہولناک دن کی ناقابل تصور اورناقابل برداشت ہولناکیوں‘ تکلیفوں اور پریشانیوں سے نجات پانے کے لیے ہر شخص دل و جان سے یہ دعا کرکے آپؐ کا نام دل و جان سے لیتا ہے۔
یہ فرائض میں نو بار اور سنتوں میں بے شمار بار ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ فرائض اور سنتوں میں درودِ ابراہیمی میں دو بار آپؐ پر آپؐ کی آل پر صلاۃ اور برکت کی دعا مانگی جاتی ہے۔ اس کے بعد نماز کے خاتمے پر جو دعا کی جاتی ہے اس کو بھی آپؐ پر سلام اور صلاۃ پر تمام کرنا ایک امر ضروری ہے۔
آپ ان پانچوں وقتوں‘ مقاموں اور موقعوں پر ۲۴ گھنٹوں میں آپؐ کے نام کے وارد ہونے اور آپؐ پر درود و سلام بھیجے جانے اور آپؐ کے اور آپؐ کی آل کے لیے دعا کیے جانے کا شمار کریں۔ کیا آپ ایسا کر سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ یہ ان گنت گنتی ہے جو شمار میں نہیں آ سکتی ہے۔
خدارا اب آپ ہی بتایئے کہ کون نہیں چاہے گا کہ اس پیارے نبی و رسولؐ کا ایک بار نام لے کر اپنا ذکر--- اور وہ بھی اپنے خالق کی زبانی--- ملائکہ کے درمیان ہونا پسند نہ کرے ؟ یہ تو خیر ہی خیر اور نفع ہی نفع ہوا۔ اس لیے ہر مومن چلتے پھرتے‘ سوتے جاگتے‘ کھاتے پیتے اور کاروبار سرانجام دیتے ہوئے اپنے پیارے نبی اور رسولؐ پر درود و سلام بھیج کر اپنا ذکر اپنے رب کی محفل میں کروا لیتا ہے۔ صلاۃ و سلام ہو اس پیارے نبیؐ اور رسولؐ پر جس پر صلاۃ و سلام بھیجنے سے گناہ گاربندوں کا ایک بار کے بدلے ۱۰ بار ذکر دربار الٰہی میں ہوتا ہے۔
آپ دیکھیں کہ ثواب کے خواہاں لوگ ہمیشہ ہی صلاۃ و سلام نبی و رسول میں لگے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ بات بالکل صحیح اور سچ دکھائی دیتی ہے: اللّٰہ اللّٰہ خیرماصلّٰی (اللہ اللہ یہ کتنی خیر کی بات ہے کہ نبیؐ پر صلاۃو سلام بھیجا جائے)۔ یقینا یہ بہترین عمل ہے اور خوش بخت اور خوش قسمت ہونے کی علامت ہے۔
غور کیجیے کہ مشرق سے مغرب تک دن رات میں کتنے بچے اور بچیاں پیدا ہو کرآپؐ کا نام موذن کی زبان سے نکلواتے ہیں اور پھر ان کو اپنے اپنے کانوں میں بٹھا لیتے ہیں تاکہ موت کے وقت بھی وہ ان کے کانوں میں بیٹھا رہے اور زبان سے صادر ہو۔
اللہ اللہ یہ کیا رفع ذکر ہے! کیا اس کی کثرت اور بلندی ہے‘ اور کیا اس کے لیے محبت بھری سبقت ہے! جو نطق کلمہ اور پیدایش سے شروع ہو کر موت اور موت کے بعد تک بھی ہر فرد‘ مومن مرد اور عورت کے ساتھ لگی رہتی ہے اور اس کو اور اس کی زندگی اور موت اورمابعد الموت تک اس کوخیر و برکت اور خوشی اور مسرت اور خوش بختی اور خوش قسمتی سے ہم کنار کرتی اور ہم کنار رکھتی ہے۔
فرمایا کہ اے محمدؐ! تم آج دشمنوں کی کثرت‘ قوت و طاقت اور اپنے ساتھیوں کی قلت اور کمزوری دیکھ کر دل شکستہ اور پریشان نہ ہو۔ یہ بہت جلد پلٹا کھا کر ختم ہو جانے والا ہے۔ کیونکہ ہم نے اس دنیا میں ایک محکم سنت یہ جاری کر رکھی ہے کہ ہر قلت کے بعد کثرت‘ ہر تکلیف کے بعد راحت اور ہر تنگی کے بعد فراخی اور ہر شدت کے بعد آسانی اور ہر رات کے بعد اُجالا آئے گا۔ اس لیے عالم اسباب کے تقاضے پورے کرتے ہوئے تم اور تمھارے ساتھی اس نورکو پھیلانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دو‘ دن رات ایک کر دو‘ اور اپنی جانوں پر کھیل جائو اور ان کو دائو پر لگا دو۔ اس کا انجام کیا ہوگا؟ تم دیکھو گے کہ بہت جلد اہل عرب جوق در جوق اور فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہوںگے اور تمھاری اطاعت کو قبول کریں گے۔ پرچم توحید سربلند ہو کر لہرائے گا اور پرچم کفر و شرک سرنگوں ہوگا۔ تمھاری تگ و دو بالآخر اپنا رنگ دکھائے گی اور تمھاری محنت و مشقت ثمرآور اور بارآور ہوگی۔
اس حقیقت کو دہرا کر‘ یعنی دو آیتوں میں بیان کر کے اور وہ بھی صیغہ اسمیہ کی صورت میں بیان کر کے اس کی حتمیت کی طرف اشارہ فرمایا۔ (فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا o اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا o (الم نشرح ۹۴:۶-۷)
مزید فرمایا کہ اس جدوجہد کے لمبے اور جاں گسل سفر کا اگر کوئی کارآمد زادِ راہ ہے تو وہ ہے اپنے رب کی عبادت میں‘ جب بھی فرصت ملے اور موقع ملے‘ دل لگانا جس کی بہترین شکل پوری رغبت اور محبت اور خشوع و خضوع کے ساتھ نمازپڑھنا ہے۔ اس لیے رکوع و سجود کرتے رہو اور نئی نئی طاقت و قوت حاصل کرتے رہو اور اپنی عبودیت کا اظہار کرتے ہوئے میری الوہیت کا ڈنکا بجاتے رہو۔
یہ دو آخری نصیحتیں عام طور پر ہر اُمتی کے لیے دائمی اور ابدی ہدایات ہیں مگر وہ ان لوگوں کے لیے سرمدی ہدایات اور ارشادات ہیں جو اپنی زندگیوں کو نور حق ہرسُو پھیلانے کے لیے وقف کر دینا چاہتے ہیں اور انسان کو انسانوں کی غلامی سے آزاد کرا کر اللہ تعالیٰ کی بندگی میں داخل کرنا چاہتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے محبوب بندے محمد بن عبداللہ علیہ الصلاۃ والسلام کی راہ ہدایت پر چلنے اور دوسروں کو راہ حق پر چلنے کی دعوت دینے کی ہمت اور طاقت عطا فرمائے‘ اور آپ کی اُمت کو سربلند کرے اور کامیابیوں سے سرفراز فرمائے‘ اور آپؐ کے اورآپؐ کی دعوتِ حق کے دشمنوں کا سرنیچا کرے۔ آمین!