امریکہ ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے عالمی تجارتی مرکز پر حملوں کی آڑ میں دنیا بھر میں رفاہی کام کرنے والی مسلم تنظیموں اور اداروں تک کو مفلوج کرنے کے لیے سرگرم عمل ہے۔ دہشت گردی کے نام پر القاعدہ قرار دے کر ہر کسی کو پکڑا جا رہا ہے۔ دوسری طرف مسلمانوں کے خدمت خلق اور رفاہی ادارے‘ جو پریشان حال مسلمانوں کوکسی نہ کسی طور پر سنبھالے ہوئے ہیں‘ ان کے دفاتر بند کرنے اور اثاثے منجمد کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور دفاتر سے وابستہ کارکنوں کو تفتیش کے ذریعے ہراساں کیا جا رہا ہے۔ خاص طور پر داڑھی والے اور عرب رہن سہن کے حامل افرادان کا نشانہ ہیں۔ اس کا ایک مقصد فعال مسلمانوں کا گھیرائو ہے اور دوسرا یہ کہ رفاہی اداروں کو بند کر کے ‘ وسائل کی فراہمی کو منقطع کر کے مسلمانوں کو بے یارومددگار اور بے بس و لاچار کردیا جائے‘ اور بڑی جدوجہد کے بعد مسلمانوں نے امداد باہمی اور فلاح و بہبود کا جو نظام وضع کیا ہے‘ اسے برباد کر دیا جائے۔ مزید برآں امریکہ کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بہانے دنیا بھر کے ممالک میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کا موقع بھی مل رہا ہے۔
پکڑ دھکڑ کا یہ عمل افغانستان میں طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے دنیا بھر میں جاری ہے۔ امریکہ‘ یورپی ممالک‘ عرب ممالک‘ جنوبی ایشیا‘ وسطی ایشیا‘ فلپائن اور دیگر ممالک کے بارے میں ایسی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں۔ امریکہ کے دبائو پر حال ہی میں پاکستان میں فیصل آباد اور لاہور میں بھی القاعدہ سے وابستہ افراد کے نام پر پکڑ دھکڑ میں بہت سے لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ معصوم اور بے گناہ افراد کو گرفتار کیا جاتا ہے۔ لاہورسے کچھ لوگوں کو گرفتار کیا گیا کہ وہ عربی بول رہے تھے۔ بعد میں پتا چلا کہ ان کا القاعدہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ عدل و انصاف اور قانون اور ضابطے کی یوں سرعام پامالی کی جا رہی ہے۔ کچھ ایسا ہی منظر بلقان کی ریاستوں میں بھی دیکھنے میں آ رہا ہے۔
بلقان کے خطے میں ۱۱ ستمبر کے بعد ہی سے اسلام پسندوں اور فلاحی اداروں سے وابستہ ارکان کے خلاف امریکہ کے زیرنگرانی کریک ڈائون کا عمل جاری ہے۔ ۱۸ جنوری ۲۰۰۲ء کو اس ضمن میں ایک اہم واقعہ اس وقت پیش آیا جب بوسنیا کی حکومت نے امریکی حکام اور خفیہ اداروں کے کہنے پر چھ الجزائری باشندوں کو گرفتار کرلیا اور ان کے بارے میں اس شبہے کا اظہار کیا کہ ان کا تعلق القاعدہ سے ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کا تعلق دو اسلامی مسلح گروپوں: الجزائر آرمڈ اسلامک گروپ اور مصر کے الجمعیہ الاسلامیہ کے ساتھ ہے۔ لیکن کھلا تضاد یہ ہے کہ انھیں امریکی حکام کے حوالے بوسنیا کی سپریم کورٹ کے فیصلے کے صرف ایک روز بعد ہی رہا کر دیا گیا جس میں انھیں کسی ثبوت کے نہ ہونے کی وجہ سے بے گناہ قرار دے کر رہا کر دیا گیا تھا۔ گمان ہے کہ ان چھ افراد کو بھی گنٹانامو میں دیگر افغان قیدیوں کے ساتھ منتقل کر دیا گیا ہے۔
اس سے قبل بھی انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے تین عرب باشندوں کو کوسووا میں نیٹو کی سربراہی میں کے-فار (K-For) آپریشن کے تحت گرفتار کیا گیا۔ یہ گرفتاری گلوبل ریلیف فائونڈیشن کے دفتر کوسووا میں عمل میں آئی اور اسے ۱۴ دسمبر ۲۰۰۱ء کے آپریشن کے تحت گرفتاریوں کے تسلسل کا ایک حصہ قرار دیا گیا۔ کے-فار کے نمایندے کے بیان کے مطابق ایک مشترکہ سرچ آپریشن اقوام متحدہ کی پولیس کے تعاون سے پریسٹینا اور ڈی جیکوویکا میں گلوبل ریلیف فائونڈیشن کے دفاتر میں بھی کیا جا چکا ہے جس کے نتیجے میں بہت سے لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا اور بہت سی دستاویزات اورسامان بھی پکڑا گیا۔ گرفتار شدہ ان تین افراد کے نام تک نہیں بتائے جا رہے بلکہ صرف اتنا بتایا گیا ہے کہ یہ عرب باشندے ہیں جن سے مشکوک مواد برآمد ہوا ہے۔ مقامی پریس کے مطابق تین میں دو عراقی ہیں‘ جب کہ تیسرا شخص کوئی عرب ہے۔
کے-فار کے مطابق ان کے پاس مصدقہ اطلاعات ہیں کہ فائونڈیشن کے ملازمین عالمی دہشت گردی کی سرگرمیوں میں براہِ راست ملوث ہیں۔ ترجمان کے مطابق گلوبل ریلیف فائونڈیشن مبینہ طور پر امریکہ اور یورپ کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی میں بھی شامل ہے۔ البتہ کے-فار القاعدہ سے وابستگی یا کسی دوسری سرگرمی میں تنظیم کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت پیش کرنے کے لیے تیار نہیں۔انسانی حقوق کی علاقائی تنظیمیں اس اقدام کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ان کے مطابق اس بیان میں کوئی حقیقت نہیں۔
کوسووا میں ان اقدامات سے قبل ایف بی آئی نے شکاگو کے نزدیک گلوبل ریلیف اور بینوویلنس انٹرنیشنل کے مرکزی دفاتر پر چھاپہ مارا۔ دونوں اداروںنے جو ہر سال لاکھوں ڈالر جمع کر کے عالم اسلام میں مختلف فلاحی امور میں تقسیم کرتے ہیں‘ ان الزامات کو غلط قرار دیا اور اس بات کی قطعی تردید کی کہ ان کا القاعدہ یا کسی بھی دوسرے ایسے گروپ سے کوئی تعلق ہے۔ ربیح حدید کو جو لبنانی ہیں‘ گلوبل ریلیف کے صدر ہیں اور مشی گن میں رہایش پذیر ہیں‘ ۱۴ دسمبر کو ٹورسٹ ویزے کی مقررہ میعاد سے زیادہ قیام کرنے پر یوایس امیگریشن ڈیپارٹمنٹ نے گرفتار کرلیا۔
امریکی دبائو کے تحت بوسنیا کی حکومت نے بھی سرچ آپریشن کیا اور اس کے تحت دو فلاحی تنظیموں گلوبل ریلیف اور Talibah انٹرنیشنل کے دفاترپر سراجیوو میں چھاپہ مارا‘ اہم دستاویزات کو قبضے میں لے لیا اور سات ملازمین سے پوچھ گچھ کی گئی۔
بلقان کی دیگر حکومتوں کی طرح البانیہ نے بھی امریکہ کا’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ میں بھرپور ساتھ دینے کا اعلان کر رکھا ہے۔ البانوی وزیرداخلہ Ilir Gjoni نے ۱۵ ستمبر کو ایک اعلامیے کے تحت پولیس کو حکم دیا کہ وہ ملک بھر میں مقیم عرب باشندوں پر کڑی نگاہ رکھے اور ملک میں داخل ہونے والے اسلام پسند دہشت گردوں کو گرفتار کرنے کے لیے ہرممکن اقدام کرے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے البانوی پولیس ایف بی آئی کے ساتھ مکمل تعاون کر رہی ہے۔ اکتوبر میں ایک قانون کے تحت امریکی حکام کو دہشت گردوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ملک بھر میں اقدامات کرنے کی اجازت بھی دے دی گئی ہے۔ ۶ اکتوبر ۲۰۰۱ء کو تِرانہ میں پانچ عرب باشندوں کو جن میں دو مصری‘ دو عراقی اور ایک اُردنی شامل ہے‘ ۱۱ ستمبر کے واقعے کی تحقیقات کے سلسلے میں گرفتار کر لیا گیا۔
۲۲ جنوری ۲۰۰۲ء کو البانوی حکومت نے یسین القادی کو جو ایک سعودی تاجر اور موافق فائونڈیشن کا سرپرست تھا‘ گرفتار کر لیا۔ ۱۳ البانوی بنکوں میں موجود لاکھوں ڈالر کے اس ادارے کے اثاثے منجمد کردیے۔ موافق ان رفاہی اداروں میں سے ایک ہے جس پر امریکہ نے الزام لگایا ہے کہ اس کا القاعدہ سے تعلق ہے۔ قادی اسلامک ڈویلپمنٹ بنک کے اشتراک سے بننے والی ایک تعمیراتی کمپنی کا پارٹنر ہے۔ البانیہ میں اس کے بہت سے تعمیراتی منصوبے جاری تھے۔
۱۱ ستمبر کے بعد امریکی حکام نے بوسنیا کی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس بات کی تحقیق کرے کہ ۱۹خودکش ہوا بازوں میں سے کس کا تعلق بوسنیا سے ہے۔عملاً ناکامی کے بعد مزید کچھ ناموں کی فہرست بھی دی گئی جن کا تعلق دہشت گردی سے جوڑا گیا تھا‘ البتہ نام ظاہر نہیں کیے گئے۔
مختصر اًیہ کہ بلقان کے خطے میں امریکی حکام نے مختلف بیانات اور اقدامات کے ذریعے مسلسل ایک خوف و ہراس کی فضا قائم کر رکھی ہے۔ کبھی سفارت خانوں اور قونصل خانوں کو بند کرنے کے احکام جاری کیے جاتے ہیں کہ دہشت گردی کا خدشہ ہے۔ Carla del Ponte نے جو کہ ہیگ میں بین الاقوامی جنگی جرائم ٹریبونل کی وکیل ہیں‘ نے ایک بیان میں کہا کہ القاعدہ سے وابستہ گروپ پورے بلقان میں منظم ہیں اور ٹربیونل ان کی سرگرمیوں کی تفصیلات جمع کر رہا ہے لیکن وہ کسی قسم کی سرگرمی کی نشان دہی نہیں کر سکیں۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل‘ جارج رابرٹسن نے اعلان کیا کہ کوسووا میں القاعدہ کے سیل دریافت ہو چکے ہیں۔ سرب وزیر داخلہ نے ایک بیان میں کہا کہ کوسووا میں بن لادن سے وابستہ مسلمان مجاہدین کے بارے میں اس نے امریکہ کو معلومات فراہم کی ہیں جو کوسووا‘ بوسنیا اور البانیہ میں تربیتی کیمپ چلا رہے ہیں۔ سرب نائب وزیراعظم Nebojsa Covic نے کہا کہ کوسووا میں سیکڑوں بن لادن پائے جاتے ہیں مگر ابراہیم روگوا‘ صدر ڈیمو کریٹک الائنس آف کوسووا نے اسے محض سرب پروپیگنڈا قرار دیا۔
سرب اور مقدونیا میڈیا اس پروپیگنڈے کو خوب اُچھال رہا ہے۔ اس قسم کی رپورٹیں شائع کی جارہی ہیں کہ بلقان میں ۱۰ ہزار کے قریب عرب اور مسلمان مجاہدین موجود ہیں جو بن لادن کے حمایتی ہیں اور کچھ القاعدہ سے مالی امداد بھی وصول کرتے رہے ہیں۔ ان رپورٹوں میں اس بات کا دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ مسلمان مجاہدین اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے رفاہی اداروں کی آڑ لیے ہوئے ہیں۔
ان حالات کے پیش نظر ۱۱ ستمبر کے بعد بلقان کی ریاستوں کی صورت حال دنیا کے دیگر مسلمان ممالک سے کچھ زیادہ مختلف نظر نہیں آتی۔ امریکہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے ’’دہشت گردی کے خاتمے‘‘کی آڑ میں مسلمانوں‘ اسلامی تحریکوں اور مسلم رفاہی اداروں کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گیا ہے اور اس مقصد کے لیے اسے کسی بھی طرح کے اقدامات کرنے میں کوئی تامل نہیں ہے۔ اس کڑے وقت میں اُمت مسلمہ کو اپنے وجود اور زندگی کا ثبوت دینا چاہیے۔ دنیا میں صرف مسلمان ہی امن و انصاف کی یقینی ضمانت کے نظریے کے حامل ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ امریکہ کی غیر منصفانہ اور غیر معتدل پالیسی کے مقابلے کے لیے حکمت عملی وضع کی جائے‘ رائے عامہ کو ہر سطح پر ہموار کیا جائے‘ امریکی پالیسی سے خائف مغربی ممالک سے رابطہ کیا جائے‘ سفارتی کوششیں تیز کی جائیں‘ انسانی حقوق کی تنظیموں کا تعاون حاصل کیا جائے اور ایک بھرپور‘ پرامن مہم چلائی جائے۔ ظلم کے خلاف اور امن و انصاف کے لیے جدوجہد کے نتیجے میں دنیا میں ایک نئی لہر دوڑائی جا سکتی ہے۔ (ماخوذ: کریسنٹ انٹرنیشنل‘ کینیڈا‘ ۲۸ فروری ۲۰۰۲ء)