زیرنظر کتاب میں دستور پاکستان کی تدوین کے سلسلے میں جماعت اسلامی کی جدوجہد کی تاریخ بیان کی گئی ہے۔ ہماری دستور ساز اسمبلی میں قرارداد مقاصد کی منظوری (۱۲ مارچ ۱۹۴۹ء) سے پارلیمنٹ میں آٹھویں ترمیم کی منظوری (۳۱ اکتوبر ۱۹۸۵ء) تک‘ دستورسازی کے مختلف مراحل اور مختلف دساتیر میں کی جانے والی ترمیمات کا احاطہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ دستورسازی کے ضمن میں ہونے والی ہمہ نوع کوششوں میں جماعت اسلامی سرگرم طریقے سے فعال رہی ہے۔
جماعت کی دستوری جدوجہد کی یہ تاریخ مربوط ہے اور مبسوط بھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مصنف ابتدا ہی سے جماعت سے وابستہ اور جماعت کے اہم عہدے دار رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ سندیافتہ وکیل ہونے کی وجہ سے قانون اور اس کے مضمرات کا بھی بخوبی ادراک رکھتے ہیں۔ دستور کو اسلامی خطوط پر مدون کرانے کے لیے جماعت کی جدوجہد کی پوری تاریخ ان کے سامنے ہے‘ اور اس جدوجہد میں وہ خود بھی عملاً شریک رہے۔ چنانچہ ہم اس کتاب کے مندرجات کی ثقاہت پر بخوبی اعتبار کر سکتے ہیں۔
بتایا گیا ہے کہ دستور پاکستان کو قرآن و سنت کی بنیاد پر مدون کرانے کی جدوجہدکا آغاز جماعت اسلامی نے قیام پاکستان سے تین مہینے پہلے سے ہی کر دیا تھا۔ ابھی تقسیم ہند کے سلسلے میں لارڈ مائونٹ بیٹن کا اعلان نہیں ہوا تھا کہ مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے‘ قیام پاکستان کے امکان کو اپنی چشم بصیرت سے دیکھا اور ۹مئی ۱۹۴۷ء کو جماعت کے مرکز دارالاسلام پٹھان کوٹ میں جماعت کے ایک اجتماع میں پاکستان کے لیے اپنے اس منصوبے کا اعلان کر دیا کہ ہم کوشش کریں گے کہ اس ریاست کے دستور کی بنیاد ان اصولوں پر رکھیں جسے ہم خدائی دستور کہتے ہیں (ص ۱۶)۔ پھر جب وطن عزیز وجود میں آگیا تو جماعت نے اپریل ۱۹۴۸ء میں چار نکاتی مطالبۂ نظام اسلامی پیش کر دیا۔ یہ کوشش اولاً قرارداد مقاصد کی شکل میں ۱۲ مارچ ۱۹۴۹ء کو بارآور ہوئی۔
جماعت اور اس کی ہم خیال دیگر دینی جماعتوں اور اسلام پسند شخصیات کی مسلسل جدوجہد کی وجہ سے ۱۹۵۲ء کی دستوری سفارشات میں‘ ۱۹۵۴ء میں دستور ساز اسمبلی کے منظور کیے ہوئے آئین میں‘ ۱۹۵۶ء اورکسی حد تک ۱۹۶۲ء اور ۱۹۷۳ء کے دساتیر میں‘ اور پھر ۱۹۸۵ء کی آٹھویں ترمیم میں اسلامی دفعات باقی رکھی گئیں جنھیں لادینیت پسند حکمران بھی خارج نہ کر سکے۔ لادینیت پسند حکمرانوں اور لادینی جماعتوں نے آئین کو سیکولر رنگ دینے کی جو سرتوڑ کوششیں کیں ان کا تذکرہ بھی اس میں موجود ہے بالخصوص راجا غضنفرعلی خاں‘ اسکندر مرزا‘ ایوب خاں‘ یحییٰ خاں‘ بھاشانی‘ ذوالفقار علی بھٹو‘ یا کمیونسٹ و سوشلسٹ پارٹیاں وغیرہ۔ جن دوسری شخصیات نے اسلامی دستور کی تدوین میں جماعت کے علاوہ سرگرم حصہ لیا ان میں اس کتاب کے مطابق مولانا شبیراحمد عثمانی‘ مولانا ظفر احمد انصاری‘ مولوی تمیزالدین خاں‘ سردار عبدالرب نشتر‘ چودھری محمد علی‘ ۲۲ نکاتی سفارشات تیار کرنے والے ۳۱ علما‘ جمعیت علماے اسلام‘جمعیت علماے پاکستان‘ مرکزی جماعت اہل حدیث اور شیعہ علما بھی شامل تھے۔
مگر اس وقیع کتاب میں یہ بات ناقابل فہم نظر آتی ہے کہ نفاذ اسلام کے لیے صدر ضیا الحق کی کوششوں کو قریب قریب نظرانداز کر دیا گیا ہے حالانکہ انھوں نے ایک دو نہیں بلکہ ۵۰سے زائد اقدامات کیے جن میں سے متعدد اقدامات آج تک باقی ہیں اور جیتی جاگتی حالت میں نظر آتے رہتے ہیں۔
کتاب اشاریے سے محروم ہے۔ امید ہے کہ آیندہ اشاعت میں ان دونوں کمیوں کو دُور کرنے کی طرف توجہ دی جائے گی۔ (ڈاکٹر حفیظ الرحمٰن صدیقی)
ماہ و سال بدلتے ہیں‘ مگر زمانہ نہیں بدلتا کہ وہ اللہ کی نشانی اور ایک سچائی ہے۔ زمانۂ قدیم سے لے کر آج تک انسان میں اللہ تعالیٰ کی کبریائی کو ماننے اور اس کی ربوبیت سے انکار کرنے کے رویے باہم برسرپیکار رہے ہیں‘ اور یہ عمل تاابد جاری رہے گا۔
نزول قرآن کے وقت‘ اہل کفارجو اعتراض کیا کرتے تھے‘ آج جیٹ‘ کمپیوٹر اور ایٹم کے زمانے میں بھی انھی اعتراضات کو دہرایا جاتا ہے۔ ان اعتراضات کا قرآن کریم نے اپنے نزول کے وقت جواب دے دیا تھا۔ آج پھر یہود و نصاریٰ اور ان کے ہم خیال دانش ور‘ قرآن کریم کی سچائی اور پیغام کی ابدیت کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ اس حوالے سے وقتاً فوقتاً مختلف شوشے چھوڑے جاتے اور اعتراضات کا نیا طوفان برپا کیا جاتا ہے۔ حالیہ برسوں میں اہل مغرب نے قرآن کریم کی استنادی حیثیت کو چیلنج کرنے کے لیے اپنی حد تک’’بھرپور حملہ‘‘ کیا۔
سہ ماہی مغرب اور اسلام نے اس اعتراض کو من و عن پیش کر کے اس کے تضادات اور دلائل کے ہلکے پن کو بڑی وضاحت اور مفصل نظائر کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اس ضمن میں ٹوبی لسٹر کے مضمون ’’قرآن کیا ہے‘‘ میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ قرآن کو ہدف بنانے کا مقصد کیا ہے؟ ہدف بنانے کی تاریخ اور طریقہ واردات کیا ہے؟ ڈاکٹر انیس احمد نے اپنے ادارتی مضمون میں‘ اہل ایمان کے لیے غوروفکر کے نکات اُبھارے ہیں‘ اس کے علاوہ ڈاکٹر محمد مصطفیٰ الاعظمی کے نہایت وقیع مقالے کا اُردو ترجمہ پیش کیا گیا ہے۔ ممتاز ماہر تعلیم اور پنجاب یونی ورسٹی اورینٹل کالج کے پرنسپل پروفیسر محمد اکرم چودھری نے قرآنی قرأت میں اختلاف کے مسئلے کی نوعیت کو بڑی محنت و کاوش سے متعین کیا ہے۔ علاوہ ازیں ڈاکٹرمونٹ گمری واٹ نے اپنے ہم قبیلہ مستشرقین کی وارداتوں کا اعتراف کیا ہے۔
اس وقت اسلام دشمن قوتیں‘ رسالت مآبؐ کی عفت‘ قرآن کریم کی مسلمہ حیثیت اور مسلمان عورت کے مقام و مرتبے کو ہدف بنائے ہوئے ہیں۔ ان موضوعات پر یورپی زبانوں میں تحریروں اور کتابوں کا ایک سیلاب آیا ہوا ہے۔ ہمارا دین دار طبقہ اپنی اپنی خانقاہوں اور آستانوں میں فکر جہاں سے بے نیاز ہوکر اپنی ہی دنیا میں مگن ہے اور اس سیل بلاخیز سے بالکل بے خبر ہے۔ کیا یہ بے خبری اور لاتعلقی آخرت میں نجات کا ذریعہ بن جائے گی؟ اس سوال پر غوروفکر‘ مشائخ عظام اور علماے کرام کے ذمے ہے۔
تاہم‘ جدید درس گاہوں سے نکلنے والے وہ اصحاب ایمان‘ جن کے دلوں میں ایمان اور غیرت دینی کی کچھ رمق باقی ہے‘وہ اپنی قوت مجتمع کر کے اپنی سی قلمی جنگ میں مصروف ہیں‘ اور دیکھنے والے جانتے ہیں کہ ان کا قلم: ایمان‘ غیرت اور حمیت کے اس میزان پر پورا اُترتا ہے۔
مغرب اور اسلام کا یہ تازہ شمارہ ’’مستشرقین اور قرآن‘‘ کے موضوع پر ایک خصوصی اشاعت پر مشتمل ہے‘ جس کے مضامین عام مسلمانوں اور خاص طور پر علماے کرام اور ابلاغیات و اسلامیات سے متعلق اہل دانش کے لیے سرمۂ بصیرت ہیں۔ اس اشاعت پر ڈاکٹر انیس احمد اور معاون مدیر سید راشد بخاری‘ اسلامیانِ عالم کے شکریے کے مستحق ہیں۔ (سلیم منصور خالد)
حج کا سفر ہو یا عمرے کا ‘ حرمین شریفین کا ہر زائر ایک خاص کیفیت سے دوچار ہوتا ہے مگر سبھی زائرین کے محسوسات یکساں نہیں ہوتے۔ اپنے اپنے مزاج اور افتاد طبع کے باعث ہر زائر ایک جداگانہ تجربے سے گزرتاہے‘ زیارت حرمین کے سیکڑوں سفرنامے یا رودادِ مشاہدات انھی متنوع تجربات کے مرقع ہیں۔
عتیق الرحمن صدیقی حج بیت اللہ سے مشرف ہوئے۔ اس مقدس سفر کی روداد لکھتے ہوئے‘ ذاتی محسوسات و تاثرات کے ساتھ‘ وہ حج کے ہر ہر مرحلے کا تاریخی اور دینی پس منظر کا بیان بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ بعض اوقات وہ اپنے جذبات کو علامہ اقبالؒ کے اشعار کی زبان دیتے ہیں‘ کبھی اوراقِ تاریخ کی شہادت پیش کرتے ہیں اور کبھی تاثرات حج لکھنے والوں کے حوالے سے بات کرتے ہیں۔ اس طرح اپنے احساسات کو انھوں نے ’’گفتہ آید در حدیث دیگراں‘‘ کے طریقے سے پیش کیا ہے۔انھوں نے کئی جگہ حجاج کی تربیت اور حج کے انتظامات کو بہتر بنانے کے لیے مفید تجاویز بھی دی ہیں۔ حافظ محمد ادریس صاحب نے مقدمے میں بجاطور پر کہا ہے کہ یہاں ’’جذب دروں بھی ہے‘ شوق زیارت بھی۔ مقاماتِ مقدسہ کے ساتھ عقیدت و محبت بھی ہرسطر سے جھلکی پڑتی ہے۔ اور اس کے ساتھ حدود و آداب و شریعت کو بھی مکمل احتیاط کے ساتھ ملحوظ رکھا گیا ہے۔ مصنف کی عمر معلمی میں گزری‘ سو جہاں افراتفری یا دھکم پیل کا روح فرسا منظر سامنے آتا ہے یا بعض حجاج ترش رو اور سنگ دل بن جاتے ہیں (ص ۲۸‘ ۲۹) صدیقی صاحب رنجیدہ و افسردہ ہو جاتے ہیں۔
اشاعت و طباعت معیاری ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
]اسلام میں حزب اختلاف کا کردار [
The Role of Opposition in Islam
]آنحضورؐ کے اعلیٰ اخلاق[
Prophet Muhammad's High Manners
Keeping Promises and Repaying Debt in Islam
]اسلام میں ایفاے عہد اور قرض کی واپسی[
]اسلام میں یاوہ گوئی اور غیبت کی ممانعت[
Islam Bans Gossip And Backbiting
یہ چاروں کتابیں ۱۹۹۸ء‘ ۱۹۹۹ء میں شائع ہوئی ہیں۔ ان کے موضوعات تبلیغی اور دعوتی ہیں۔ مصنف فلسطینی ہیں جنھوں نے تل ابیب کی ہبریو یونی ورسٹی سے اسلامی تاریخ اور عربی لٹریچر میں ایم اے کے بعد یونی ورسٹی آف کیلی فورنیا سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔ اس وقت وہ امریکہ کے اسلامک کالج شکاگو میں پروفیسر ہیں۔ ان کی ۲۵ سے زائد کتب شائع ہو چکی ہیں۔
’’آنحضورؐ کے اعلیٰ اخلاق‘‘ میں ۲۱ عنوانات کے تحت آپؐ کی اخلاقی صفات کا تذکرہ ہے۔ مظلوموں کی مدد سے لے کر حس مزاح تک۔ ’’اسلام میں حزب اختلاف کا کردار‘‘ دراصل حضرت عمرؓ کے حالات زندگی کا مطالعہ ہے لیکن تقریباً نصف کتاب (۹۷ صفحات) میں مصنف نے اُمت مسلمہ کو یہ سمجھایا ہے کہ وہ کسی بادشاہ کی مملکت یا رعایا نہیں‘ بلکہ اللہ تعالیٰ کی رعایا ہیں۔ رسولؐ اللہ کے زمانے سے بنواُمیہ کے دور تک کا جائزہ لیا ہے کہ کس طرح صحابہؓ کرام ہر منکر کے خلاف کھڑے ہوتے رہے۔ رسولؐ اور اصحاب کے دور میں سیاسی نظام میں مشورے پر کتنا عمل رہا۔ اسلام میں اس طرح کی حزب اختلاف نہیں کہ لازماً حکومت کی ہر پالیسی کی مخالفت کرے بلکہ انفرادی طور پر ہر غلط بات کے خلاف کھڑے ہونے کا طریقہ رہا ہے۔ پھر حضرت عمرؓ کے دور کا مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔
آخری دو کتابیں معاملات کے حوالے سے اہم موضوعات پر ہیں‘ یعنی غیبت و بہتان‘ وعدے کا ایفا اور قرض کی ادایگی۔ اس حوالے سے ہمارے معاشرے میں اتنا بگاڑ ہے کہ اس کی جتنی تذکیر کی جائے‘ کم ہے۔ مصنف کا انداز بیان سادہ ہے۔ عام آسان انگریزی ہے۔ آیات‘ احادیث‘ سیرت رسولؐ اور سیرت صحابہؓ سے واقعات لیے گئے ہیں۔ آیات و احادیث کے عربی متن اعراب کے ساتھ حوالوں کے ساتھ دیے گئے ہیں۔ قیمت درج نہیں۔ویسے بھی ڈالروں کے دیس کی ایسی تبلیغی کتاب روپوں میںتو فروخت نہیں کی جا سکتی۔ (مسلم سجاد)
سیر وسیاحت اسلام کے آفاقی مزاج سے مناسبت رکھتی ہے۔ اسلام کی تہذیبی اور تمدنی تاریخ میں ہمیں مسلم سیاحوں کی کثیر تعداد ملتی ہے۔ مسلمان‘ دنیا میں جہاں بھی گئے انھوں نے اسی سرزمین کو اپنا وطن بنالیا۔ اطرافِ عالم میںاسلام کے پھیلائو کا ایک اہم سبب مسلمانوں کا یہی ہجرتی رویہ ہے‘ لیکن ہمارے ہاں سیروسیاحت بطور ایک رویے کے یا معمول حیات کے رواج نہیں پا سکی۔ کیا پابہ گل رہنے کا یہ رویہ ہندو تہذیب سے اثرپذیری کا نتیجہ ہے؟
اُردو ڈائجسٹ کا زیرنظر خاص نمبر ہمیں وطن عزیز کی اُن وادیوں‘ صحرائوں اور میدانوں اور مختلف علاقوں کی تاریخ‘ تمدن‘ عمارتوں اور شاہراہوں سے روشناس کراتا ہے جن سے ہم میں سے بیشتر لوگ بے خبر ہیں۔ اس میں بعض چھوٹے بڑے شہروں (لاہور‘ کراچی‘ کوئٹہ‘ ملتان‘ پشاور‘ بہاول پور‘ بھیرہ‘ چنیوٹ) کے ساتھ ساتھ بعض علاقوں (پوٹھوہار‘ تھر‘ آزاد کشمیر) اور بعض قدیم تہذیبوں کے مراکز (موہنجوڈرو ‘ ٹیکسلا‘ ہڑپہ) اور اس کے ساتھ شمالی علاقوں کی حسین و جمیل وادیوں‘ دریائوں‘ جھیلوں‘ پہاڑوں اور ان کی ڈھلانوں پر اُگے جنگلوں کا تذکرہ ہے۔ بعض مضامین تحقیقی اور معلوماتی ہیں۔ چند ایک سفرنامے ہیں اور کچھ تصاویر۔ یوں بڑے متنوع انداز و اسلوب میں کراچی اور گوادر کے ساحلوں سے لے کر اسکردو اور ہنزہ سے آگے برفانی چوٹیوں اور کاغان اور سوات کے دل فریب علاقوں اور وادیٔ کیلاش تک کی سیر کرائی گئی ہے۔
نئے پرانے مختصر اور طویل مضامین کا یہ مجموعہ ہمیں سیروا فی الارض کی پُرزور دعوت دیتا ہے۔ خیال آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت خاص سے نوازتے ہوئے ہمیں ایک حسین و دل کش خطہء زمین عطا کیا ہے لیکن--- ذرا سوچیے تو--- ہم اس کی ناقدری کے مرتکب تو نہیں ہو رہے؟ (ر-ہ)