مکّی دور کے آغاز سے ہجرت تک کی تاریخ پر ایک مجموعی نظر ڈال کر [دیکھیں تو اس قافلۂ حق] کاابتدائی، یا صحیح تر الفاظ میں بنیادی، سرمایہ صرف محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات، آپؐ کی شخصیت اور آپؐ کی نبوت سے پہلے کی چہل سالہ زندگی تھی۔
ذاتی حیثیت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرب کے ایک شریف ترین خاندان سے تعلق رکھتے تھے، جس کے حسب و نسب کو تمام اہلِ عرب جانتے تھے۔ عرب کے بہ کثرت قبائل، جن کو اپنے نسب پر فخر تھا، اس بات سے واقف تھے کہ پدری اور مادری سلسلوں میں کہیں نہ کہیں جاکر اُن کا نسب آپؐ کے نسب سے مل جاتا ہے۔ اس لیے آپؐ کی حیثیت یہ نہ تھی کہ کوئی مجہول النسب، غیرمعروف، گمنام، یا کم اصل آدمی یکایک لوگوں کے سامنے ایک بہت بڑے دعوے کے ساتھ آکھڑا ہوا ہو، جسے دیکھتے ہی کہنے والے کہہ دیں کہ اس حیثیت کے آدمی پر تو یہ دعویٰ کسی طرح نہیں سجتا۔
پورے عرب میں کوئی شخص آپؐ کی شرافت ِنسبی پر شمّہ برابر بھی حرف گیری نہ کرسکتا تھا۔ خود شہر مکہ میں جتنے خانوادے اپنی عزت کے غرور میں ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے تھے، ان سب سے آپؐ کی اور آپؐ کے خاندان کی رشتہ داریاں تھیں۔ اُن میں سے بھی کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ آپؐ اپنے حسب و نسب اور معاشرتی مرتبے میں اُس سے کسی طرح کم تر ہیں۔ قریش جس کے ایک فرد آپؐ تھے، عرب میں سرداری کا مقام رکھتا تھا، اس کا اولادِ اسماعیلؑ سے ہونا ہر شک و شبہے سے بالاتر تھا۔ ملک کے اندر اور ملک سے باہر دور دور تک اس کے تجارتی روابط پھیلے ہوئے تھے۔ خانہ کعبہ کی تولیت اور حج کی کشش کے باعث عرب کے دور دراز گوشوں تک کے لوگوں کو بہر حال اُس سے سابقہ پیش آتا تھا۔
اِن وجوہ سے اِس قبیلے کو عرب میں وہ بلند مرتبہ حاصل تھا جو کسی دوسرے قبیلے کو حاصل نہ تھا۔ پس مکہ جیسے مرکزی مقام پر، قریش جیسے ایک قبیلے میں پید اہونا، عرب کے ماحول میں اس تحریک کے رہنما کے لیے مثالی موقع و محل تھا۔
اسماعیلی خاندان کی بزرگی و شرافت اور عزت و منزلت کے ساتھ یہ بات بھی خاص اہمیت رکھتی تھی کہ ڈھائی ہزار سال کی پوری تاریخ میں حضرت اسماعیلؑ کے بعد اس خاندان کے کسی فرد نے کبھی نبوت کا دعویٰ نہیں کیا تھا۔ اِسی بات کی نشان دہی بنی عامر بن صعصعہ کے ایک جہاں دیدہ شیخ نے اُس وقت کی تھی، جب اس کے قبیلے کے لوگوں نے حج سے واپس آکر رسولؐ اللہ سے اپنی ملاقات اور گفتگو کا ذکر اُس سے کیا تھا۔ انھوں نے جب اُس کو بتایا کہ قریش کے ایک صاحب ہمیں ملے تھے، جنھوں نے نبی کی حیثیت سے اپنا تعارف کرایا اور ہم سے یہ چاہا کہ ہم انھیں اپنے ساتھ اپنے علاقے میں لے چلیں اور اللہ کا پیغام پہنچانے میں ان کی مدد کریں، مگر ہم نے ان کی بات قبول نہ کی، تو اُس مردِ کہن سال نے اپنا سر پیٹ لیا اور کہا ’’اُس وقت تمھاری عقل کہاں چرنے چلی گئی تھی؟ خدا کی قسم! آج تک کسی اسماعیلی نے ایسی بات، جھوٹ گھڑ کر کبھی نہیں کہی ہے‘‘۔ یہ آں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے اولادِ اسماعیلؑ میں سے ہونے کا ایک اور فائدہ تھا۔ تاریخ یہ شہادت دے رہی تھی کہ آپؐ کا دعوائے نبوت برحق ہے، کیوں کہ اس خاندان کا کوئی شخص کبھی نبوت کا جھوٹا دعویٰ لے کر نہیں اٹھا تھا۔
جہاں تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کا تعلق تھا، آپؐ کی شکل و صورت اور وضع و ہیئت اور نشست و برخاست اور رفتار و گفتار اور شائستہ اطوار کو دیکھ کر بچپن ہی سے عرب کے قیافہ شناس یہ کہہ رہے تھے کہ یہ کوئی غیر معمولی ہستی ہے، جو عبد المطلب کے خاندان میں پیدا ہوئی ہے۔ آپؐ کی والدۂ ماجدہ، آپؐ کے جدِّامجد، آپؐ کے چچا، آپؐ کی رضاعی والدہ، سب کے تاثرات تاریخ میں محفوظ ہیں۔ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ کم سنی ہی میں جو لوگ آپ کو قریب سے دیکھ رہے تھے، وہ آپؐ کے اندر ایک نمایاں عظمت محسوس کر رہے تھے۔ ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ ایک بالکل اجنبی آدمی بیک نظر آپؐ کو دیکھ کر پکار اٹھتا کہ ’خدا کی قسم! یہ کسی جھوٹے انسان کا چہرہ نہیں ہے‘۔
جب آپؐ جوانی کی عمر کوپہنچے تو آپؐ کی شان ہی کچھ ایسی تھی کہ آپؐ کے اہلِ وطن اور اہلِ قبیلہ آپؐ کی شخصیت سے مرعوب ہوتے چلے گئے۔ لوگ خود بہ خود آپؐ کا احترام کرتے تھے، کیوں کہ وہ اپنے معاشرے کی عام سطح سے آپؐ کو بہت بلند پاتے تھے۔ آپؐ کی وجاہت، آپؐ کا وقار، آپؐ کی سنجیدگی، آپؐ کی نفاست و پاکیزگی، آپؐ کی عالی ظرفی، آپؐ کی کریم النفسی اور آپؐ کی بے داغ سیرت ایسی نمایاں تھی کہ جن لوگوں کو بھی آپؐ سے سابقہ پیش آیا تھا،وہ آپؐ کی تکریم و عزت کیے بغیر نہ رہ سکتے تھے۔ یہ رُعب اُس وقت بھی کار فرما رہا جب اسلام کی دعوت پیش کرنے کی وجہ سے قریش کے لوگ آپؐ کی جان کے دشمن ہوگئے تھے۔ دشمنی کے جوش میں پاگل ہوکر وہ بسا اوقات آپؐ کے ساتھ بڑی بڑی بے ہودگیاں کر بیٹھتے تھے۔ لیکن جس درجے کی دشمنی اُن کے سینوں میں آگ کی طرح بھڑک رہی تھی، اور جس دشمنی کی بنا پر وہ اپنے بیٹوں اور بھائیوں اور قریب ترین رشتہ داروں تک کو اذیت ناک مظالم سے معاف نہیں کر رہے تھے، اس کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کوئی خاص رُعب تھا ،جوآپؐ کے مقابلے میں آکر انھیں بے بس کر دیتا تھا۔
آپؐ نے دعوتِ عام شروع کرنے کے بعد سخت سے سخت حالات میں بھی کھلم کھلا اپنی تبلیغ جاری رکھی۔ شعبِ ابی طالب میں محصور ہوجانے کے باوجود آپؐ برابر اس حصار سے نکل کر دعوت کا کام انجام دیتے رہے۔ مکہ کے آخری تین سال، جو انتہائی سخت تھے، ان میں بھی آپؐ صرف مکے میں آنے والوں ہی سے نہیں، عُکاظ، اور مَجنَّہ اور ذی المجاز، اور منیٰ کے اجتماعات میں قبائل اور ان کے سرداروں سے بھی علانیہ ملاقاتیں کرکے اسلام کی دعوت پیش کرتے رہے۔ لامحالہ یہ ماننا پڑے گا کہ آپؐ کی شخصیت میں کوئی ایسی زبردست طاقت تھی، جس کی وجہ سے کوئی آپؐ کو فرائضِ رسالت انجام دینے سے باز نہ رکھ سکا۔
اب دیکھئے کہ نبوت سے پہلے چالیس سال تک آپؐ کی جو زندگی مکے میں گزری تھی، اُس کے اثرات کیا تھے؟
یہ زندگی صرف بے داغ ہی نہ تھی بلند ترین سیرت و کردار کا ایک نمونہ تھی۔ جس معاشرے میں آپؐ بچپن سے ادھیڑ عمر تک رہے بسے تھے، جس کے لوگوں کو ہر پہلو سے آپؐ کے ساتھ رشتہ داری، ہمسایگی، میل جول، دوستی، لین دین، غرض طرح طرح کے معاملات میں شب و روز سابقہ پیش آتا رہا تھا، ان میں سے کوئی ایسا نہ تھا جو آپؐ کی سچائی، آپؐ کی دیانت، آپؐ کی شرافت، آپؐ کی اخلاقی پاکیزگی، آپؐ کے حسن سلوک، آپؐ کی رحم دلی اور آپؐ کی ہمدردی و فیاضی کا معترف نہ ہو۔ آپؐ مجسم خیر تھے، کسی کو آپؐ سے شرکا تجربہ تو درکنار، اُس کا اندیشہ تک کبھی نہ ہوا تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر لوگوں کو اتنا اعتماد تھا کہ وہ آپؐ کو ’’امین‘‘ کہتے تھے، اور یہ اعتماد اُس وقت بھی قائم رہا جب اسلام کی دعوت پیش کرنے کی وجہ سے لوگ آپؐ کے دشمن ہوگئے تھے۔ اِس حالت میں بھی دوست دشمن، سب اپنی امانتیں آپؐ کے پاس رکھواتے رہے۔ کسی کو آپؐ سے خیانت کا خطرہ نہ تھا، اور آپؐ نے قتل گاہ سے نکلتے وقت بھی ان کی رکھوائی ہوئی امانتیں واپس کرنے کا اہتمام فرما کر اپنا کامل و اکمل امین ہونا قطعی طور پر ثابت کردیا۔
آپؐ کی صداقت اُس معاشرے میں اِس درجہ مسلّم تھی کہ جب آپؐ نے اسلام کی دعوت شروع کی اور قریش کے لوگوں نے اُس کو پورے زور شور کے ساتھ جھٹلایا، اُس وقت بھی مخالفین آپؐ کو جھوٹا کہنے کی ہمت نہ کرسکے، بلکہ اُس دعوت ہی کو جھوٹ کہتے رہے جو آپؐ نے پیش فرمائی تھی۔ بدترین عداوت کے دور میں بھی کوئی آپؐ کی سیرت و کردار پر کسی ادنیٰ درجے میں بھی حرف زنی نہ کرسکا۔ آپؐ سے قریب ترین تعلق جن لوگوں کا تھا، جن سے کوئی عیب نہ چھپ سکتا تھا اگر معاذ اللہ وہاں کوئی عیب ہوتا، وہی سب سے بڑھ کر آپؐ کے گرویدہ اور آپؐ کے فضائلِ اخلاق سے متاثر تھے۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے شادی کے لیے قریش کے بڑے بڑے سرداروں کی درخواستیں رَدّکردیں، اور خود خواہش کرکے آپؐ سے اِسی بنا پر شادی کی کہ وہ آپؐ کی اخلاقی خوبیوں پر فدا ہوگئی تھیں۔ پندرہ برس کی ازدواجی زندگی اس بات کے لیے بالکل کافی ہوتی ہے کہ بیوی اپنے شوہر کے عیب و صواب سے خوب واقف ہوجائے، خصوصاً جب کہ وہ شوہر سے عمر میں بڑی بھی ہو، عاقل و فرزانہ بھی ہو، اور شوہر اُسی کے مال سے کاروبارِ تجارت بھی کر رہا ہو۔ لیکن رسولؐ اللہ کے معاملے میں حضرت خدیجہ ؓ کے اِس طویل اور انتہائی قریبی مشاہدے اور تجربے کا نتیجہ جو کچھ نکلا وہ یہ تھا کہ انھوں نے آپؐ کو محض ایک بلند پایہ انسان ہی نہیں، بلکہ اتنا عالی مرتبہ انسان پایا کہ اُنھیں آپؐ کو رسولِ ربّ العالمین مان لینے اور آپؐ پر ایمان لے آنے میں ایک لمحہ بھر بھی تامُّل نہ ہوا۔ حالاں کہ ایک بناؤٹی آدمی کی دنیا دار بیوی اس کے مکر اور اس مکر کے فوائد میں چاہے کتنا ہی حصہ لیتی رہے،مگر وہ دل سے نہ کبھی ان کی معتقد ہوسکتی ہے اور نہ اس پر ایمان لاسکتی ہے۔
حضرت زیدؓ بن حارثہ کا تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غلامی کی حالت میں شروع ہوا تھا۔ آقا اور غلام کے درمیان خوش گوار رابطہ بھی ایک نادر الوقوع چیز ہے، کجا کہ غلام کو آقا سے محبت ہو، کیوں کہ وہ بالکل بے بس ہوتا ہے، اور آقا اُس سے ہر طرح خدمت لینے کا حق دار ہوتا ہے، خواہ وہ خدمت اُس کے لیے کتنی ہی شاق اور اس کی طبیعت پر کتنی ہی گراں ہو۔ اس کے علاوہ غلام کو آقا کی زندگی کے اچھے اور بُرے سب پہلو دیکھنے کا موقع ملتا ہے، اور ایک بے اختیار خادم کی حیثیت سے اس کے سامنے اپنے مختارِ مطلق آقا کی زندگی کے بُرے پہلو زیادہ آتے ہیں۔ لیکن حضورصلی اللہ علیہ وسلم ایسے آقا تھے کہ غلام آپؐ کا گرویدہ ہوتا چلا گیا، حتیّٰ کہ جب اس کے باپ اور چچا اسے غلامی سے چھڑانے کے لیے آئے، تو اس نے آزاد ہوکر اپنے باپ کے ہاں جانے کی بہ نسبت حضورؐ کی غلامی میں رہنے کو ترجیح دی۔
۱۵ سال آپؐ کی خدمت میں رہ کر یہ غلام، جسے آپؐ نے آزاد کرکے بیٹا بنا لیا تھا،آپؐ کے اخلاقِ کریمانہ سے اتنا متأثر ہوا کہ جب اُسے آپؐ کے منصبِ نبوت پر سرفراز ہونے کا علم ہوا تو اُس نے بھی حضرت خدیجہؓ کی طرح آپؐ پر ایمان لانے میں ایک لمحہ بھر بھی توقف نہ کیا۔ وہ کوئی ناسمجھ بچہ نہ تھا بلکہ ۳۰ برس کا جوان تھا، اور ایسا ذکی و دانش مند تھا کہ ۸ ھ میں وہ اس فوج کا کمانڈر بنا کر بھیجا گیا، جس میں حضرت جعفرؓ بن ابی طالب اور حضرت خالدؓ بن ولید جیسے لوگ اُس کے ماتحت تھے۔ اس لیے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ کوئی کم عقل خادم تھا، جسے نبوت و رسالت کی اہمیت معلوم نہ تھی اور محض اپنے مخدوم کی شخصیت سے مرعوب ہوکر وہ بے سمجھے بوجھے ایمان لے آیا تھا۔ بلکہ در حقیقت اُس نے اپنے پندرہ سال کے طویل تجربے میں آپؐ کو اِتنا عالی مرتبہ انسان پایا تھا کہ اسے آپؐ کے رسولِ خدا ہونے میں ذرہ برابر شک لاحق نہ ہوا۔ حضورؐ کی اِسی اخلاقی فضیلت کو چند سال پہلے وہ اپنے باپ کے ساتھ نہ جانے کی وجہ بتا چکا تھا۔
ایسا ہی معاملہ حضرت ابوبکر صدیق ؓکا تھا جو بیس سال سے آپؐ کے ہم نشین ہی نہیں بلکہ گہرے دوست تھے۔ حضرت علیؓ ابن ابی طالب کا تھا، جنھوں نے آپؐ کے گھر ہی میں پرورش پائی تھی۔ وَرقہ بن نوفل کا تھا جو بچپن سے حضورؐ کی زندگی دیکھتے چلے آرہے تھے اور حضرت خدیجہؓ کے قریبی رشتہ دار ہونے کی وجہ سے جنھیں آپؐ کو اور زیادہ جاننے اور سمجھنے کا موقع ملا تھا۔ حضرت عثمانؓ آپؐ کی پھوپھی کے نواسے تھے۔ حضرت زبیرؓ آپؐ کے پھوپھی زاد بھائی اور حضرت خدیجہؓ کے بھتیجے تھے۔ حضرت ابوسلمہؓ آپؐ کے دودھ شریک بھائی بھی تھے اور پھوپھی زاد بھائی بھی۔ حضرت جعفرؓ بن ابی طالب، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سگے چچا زاد بھائی تھے۔ حضرت عبد الرحمٰنؓ بن عوف اور حضرت سعدؓ بن ابی وقاص آپؐ کی والدۂ ماجدہ کے رشتے دار تھے۔ ان میں سے کوئی بھی ایسا نہ تھا، جو آپؐ کی سیرت و کردار کے ہر پہلو کو قریب سے نہ دیکھ چکا ہو، اور یہی لوگ آپؐ کی نبوت کو سب سے پہلے تسلیم کرنے والوں میں سے تھے۔
کسی تحریک کا آغاز ہی اگر ایسی عظیم و جلیل ہستی کی رہنمائی میں ہوتو یہ بجائے خود بہت بڑا سرمایہ ہے۔ لیکن شروع ہونے کے وقت سے ۱۳ سال تک اِس ابتدائی سرمایے میں جو مزید اضافے ہوئے، وہ اتنے قیمتی تھے کہ انسانی تاریخ اُن کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ سب سے پہلے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُن اوصاف کو دیکھیے، جو اِس دور میں نمایاں ہوکر سامنے آئے اور سب سے بڑھ کر اِس دعوت کو فروغ دینے کے موجب بنے۔
پھر جب فرائض نبوت کا بار آپؐ پر ڈالا گیا تو رفتہ رفتہ آپؐ نے اپنا سب کچھ اللہ کی راہ میں لگا دیا، اور آپؐ کے لیے یہ ممکن نہ رہا کہ تبلیغِ دین کے ساتھ اپنی تجارت بھی چلا سکیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ جب آپؐ طائف تشریف لے گئے تو آپؐ کو پیدل ہی جانا پڑا، کوئی سواری آپؐ کومیسر نہ تھی۔ ہجرت کی تو اس کے سارے مصارف حضرت ابوبکرؓ نے برداشت کیے، حتیّٰ کہ اہل و عیال کو مدینے بلانے کے لیے بھی آپؐ کو ۵۰۰ درہم جنابِ ابوبکر صدیقؓ سے لینے پڑے۔ آپؐ کا دست مبارک درہم و دینار سے بالکل خالی تھا۔
ظاہر ہے کہ جب ایک دعوت کا پیش کرنے والا خود اُس دعوت کے کام پر اپنے ذاتی مفاد کو اس طرح قر بان کر رہا ہو، تو ہر دیکھنے والا اس بات کا قائل ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے مقصد میں بالکل مخلص اور بے غرض ہے، حتیّٰ کہ دشمن اور مخالف تک زبانوں سے خواہ کچھ ہی کہتے رہیں، اپنے دلوں میں یہ مان جاتے ہیں کہ اِس دعوت کے ساتھ اُس کا کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہیں ہے۔ اور جو لوگ اس کی دعوت کو قبول کرکے اس کے ساتھ آتے ہیں، ان کے لیے ان کے رہنما کی مثال ایسی سبق آموز ہوتی ہے کہ وہ بھی حق کو محض حق ہونے کی بناپر مانتے ہیں، کسی ذاتی غرض کا لوث ان کے ایمان کے ساتھ لگا ہوا نہیں ہوتا، اور ایثار و قربانی میں بھی وہ اپنے ہادی و رہبر کی پیروی کرتے ہیں۔
غارِ ثور کے عین دہانے پر دشمن پہنچ جاتے ہیں، اور آپؐ پورے اطمینان کے ساتھ اُس وقت نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ عرض کرتے ہیں کہ یہ ظالم اپنے قدموں کی طرف نگاہ ڈالیں تو ہمیں دیکھ لیں گے۔ آپؐ بڑے ٹھنڈے دل سے، کسی ادنیٰ درجے کی پریشان خاطری کے بغیر فرماتے ہیں کہ ’’ابوبکر! تمھارا اُن دو آدمیوں کے متعلق کیا خیال ہے، جن میں تیسرا اللہ ہو؟ گھبراؤ نہیں، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘ دشمنوں نے آپؐ کے سرِ مبارک کے لیے انعام مقرر کر رکھا ہے۔ ہر طرف انعام کے لالچ میں آپؐ کی تلاش کے لیے لوگ دوڑے پھر رہے ہیں اور آپؐ اطمینان کے ساتھ قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے سفر کرتے چلے جا رہے ہیں۔ کسی طرف مڑکر بھی یہ نہیں دیکھتے کہ کہیں کوئی تعاقب میں تو نہیں چلا آرہا ہے۔
ایسے بہادر رہنما کے ساتھ بہادر لوگ ہی آتے ہیں، اور اس کی بہادری دیکھ دیکھ کر ان کی بہادری میں اور زیادہ اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ دشمن بھی خواہ دشمنی میں کتنا ہی اندھا ہوچکا ہو، اُس کے اِس وصف کی قدر کیے بغیر نہیں رہتا۔ اس [دشمن]کی ہمت بیٹھ جاتی ہے، جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا سابقہ ایک ایسے شخص سے ہے، جو ڈر نام کی کسی چیز کو جانتا ہی نہیں___ کسی تحریک کے لیے، اور خصوصاً اسلامی تحریک کے لیے اس کے رہنما کا نڈر اور بے خوف اور شجاع ہونا ایک بڑا اہم وصف ہے۔ رہنما کی بزدلی، بلکہ اس کی شجاعت میں ذرا سی کمزوری بھی آزمائش کے مواقع پر پوری تحریک کو لے بیٹھتی ہے۔
یہ وہ چیزتھی جو گرد وپیش کے معاشرے میں آپؐ کا اخلاقی وقار بڑھاتی چلی گئی اور آپؐ کے مخالفوں کو ہر اُس شخص کی نظر سے گراتی چلی گئی، جس کے اندر ذرہ برابر بھی اخلاق و شرافت کا کوئی جوہر موجود تھا۔ طائف سے زیادہ سخت وقت آپؐ پر کبھی نہ گزرا تھا۔ مگر اُس وقت بھی آپؐ کے دل اور زبان سے دعا ہی نکلی اور آپؐ اس پر راضی نہ ہوئے کہ اس ظلم کے بدلے میں ظالموں پر خدا کا عذاب نازل ہو۔ میدانِ جنگ سے پہلے اخلاق کے میدان میں آپؐ اپنے مخالفوں کو شکست دے چکے تھے، اور اس شکست پر آخری مہر اُس وقت لگ گئی جب قتل گاہ سے نکلتے وقت بھی آپؐ نے اہلِ مکہ کی امانتیں اُن کو واپس دینے کی فکر فرمائی۔ کوئی بالکل ہی مردہ ضمیر ہوگا جو اس کردار کو دیکھ کر اپنے دل میں مان نہ گیا ہو کہ جاہلیت کے حامی اُس شخص سے لڑ رہے ہیں، جو ان کی قوم ہی کا نہیں، ساری دنیا کا شریف ترین انسان ہے۔
اسلامی تحریک میں شامل ہونے والوں کی اخلاقی تربیت کے لیے بھی ہزار وعظوں سے بڑھ کر اپنے ہادی و رہبر کی یہ عملی مثال مؤثر تھی۔ اسی کا یہ اثر تھا کہ جس نے بھی آپؐ کی پیروی اختیار کی وہ اخلاق کے اعتبار سے اپنے معاشرے میں اتنا بلند ہوگیا کہ ہر دیکھنے والا علانیہ بُت پرست اور خُدا پرست کے فرق کو دیکھ سکتا تھا۔
مکے کے لوگ آپؐ کی گھر سے باہر کی زندگی ہی کو نہیں، گھر کے اندر کی زندگی کو بھی دیکھ سکتے تھے، کیوں کہ ان میں کتنے ہی لوگ آپؐ کے والد ماجد، یا آپؐ کی والدۂ ماجدہ، یا آپؐ کی اہلیہ محترمہ کے رشتے دار تھے۔ لیکن کوئی یہ نہ کہہ سکا کہ آپؐ دوسروں کو جن برائیوں سے روکتے ہیں وہ، یا ان میں سے کوئی ایک کم سے کم درجے کی برائی بھی آپؐ کی اپنی زندگی میں پائی جاتی ہے۔ اسی طرح جن نیکیوں اور بھلائیوں کی طرف آپؐ لوگوں کو دعوت دیتے تھے، سب سے بڑھ کر آپؐ خود اُن پر عمل پیرا تھے۔ آپؐ کی زندگی اُن کا مجسّم عملی نمونہ تھی۔ کوئی اس امر کی کبھی نشان دہی نہ کرسکا کہ آپؐ سے اُن بھلائیوں پر عمل کرنے میں کوئی ادنیٰ درجے کی بھی کوتاہی ظاہر ہوئی ہے۔
کسی تحریک کی کامیابی کے لیے عموماً اور اسلامی تحریک کے لیے تو خصوصاً، یہ بہترین ضمانت ہے کہ اس کا رہنما قول و عمل کے تضاد سے بالکل پاک ہو، اور اس کی تعلیم محض زبانی جمع خرچ نہ ہو بلکہ اس کی اپنی عملی زندگی اس تعلیم کی جیتی جاگتی تصویر ہو۔ اِس کا گہرا اثر لازماً ان لوگوں پر بھی پڑتا ہے، جو ایسے رہنما کی پیروی اختیار کرتے ہیں، اور وہ لوگ بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے، جوغیر متعصب نگاہ سے جستجوئے حق کی خاطر اسے دیکھتے ہیں، حتّیٰ کہ متعصب مخالفین میں سے بھی ایک بڑی تعداد بالآخر اس سے مسخر ہو کر رہتی ہے۔
یہی وہ چیز تھی جس نے اسلامی تحریک کے یومِ آغاز ہی سے اس کے ایک عالم گیر تحریک ہونے کی بنا ڈال دی تھی، اُمتِ مسلمہ کو ایک بین الاقوامی اُمت کی حیثیت بخش دی تھی، اسلام قبول کرنے والوں کے اندر سے اسلام و کفر کے سوا ہر دوسری بنیاد پر انسان اور انسان کے درمیان امتیاز کا احساس مٹا دیا تھا اور ان کی جماعت میں غلام اور آزاد، غریب اور امیر، برتر اور کم تر، عرب اور غیر عرب، سب بالکل مساوی حیثیت سے شریک تھے، اور شریک ہوسکتے تھے جب کہ وہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آئے ہوں۔ عرب کے قلیل التعداد متکبروں کو چھوڑ کر باقی عام آبادی کے لیے یہ چیز اپنے اندر ایک فطری کشش رکھتی تھی، جو بالآخر کارگر ثابت ہوکر رہی۔
یہ تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ اوصاف جو ۱۳ برس کے مکی دور میں ظاہر ہوئے اور جن کی زبردست قوتِ تاثیر سے دشمنوں کی ساری کوششوں کے علی الرغم اسلامی تحریک آگے ہی آگے بڑھتی گئی۔ مزید اوصافِ عالیہ ابھی آپؐ کے اندر مخفی تھے اور اپنے ظہور کے لیے دوسرے حالات کے متقاضی تھے جو آگے چل کر اسلامی تحریک کو مدینے میں میسر آئے۔
اِس تحریک کا دوسرا عظیم ترین سرمایہ قرآن مجیدتھا، جس کا دو تہائی سے کچھ کم حصہ مکّہ معظمہ میں نازل ہوا۔ عرب کے لوگ فصاحت و بلاغت اور زورِ بیان کے عاشق تھے۔ یہی عشق انھیں عُکاظ جیسے میلوں میں شعرا اور فصحا کا کلام سننے کے لیے کھینچ لے جاتا تھا۔ مگر قرآن سن کر ان کی نگاہ میں بڑے سے بڑے زبان آوروں کی کوئی وقعت باقی نہ رہی۔ شاعر و خطیب اس کے آگے گنگ ہوگئے۔ ادب کے لحاظ سے اس کی زبان اتنی بلند تھی کہ کوئی اس سے بلند تر تو درکنار، اس کے برابر بھی اونچے ادب کا تصور نہ کرسکتا تھا۔ اس کا بیان ایسا وجد آور تھا کہ لوگ ا س کو سن کر سردھننے لگتے تھے، مخالفین اسے سحر (جادو) کہتے تھے، اور غیر متعصب لوگ پکار اٹھتے تھے کہ یہ بشر کا کلام نہیں ہوسکتا۔
اس کی شدت تاثیر کا حال یہ تھا کہ حضرت عمرؓ جیسے سخت دشمنِ اسلام کا دل اس نے پگھلا دیا اور انھیں رسول اکرمؐ کے قدموں میں لا ڈالا۔ قریش کے ایک نامور سردار جُبیرؓ بن مُطعم جنگِ بدر کے بعد اسیروں کی رہائی پر بات چیت کرنے کے لیے مدینے گئے۔ وہاں نبیؐ مغرب کی نماز پڑھا رہے تھے اور اس میں سورۂ طور زیر ِتلاوت تھی۔ بخاری و مسلم میں ان کا اپنا قول منقول ہوا ہے کہ ’’آیات (۳۵ تا ۳۹ )جب حضورؐ پڑھ رہے تھے تو میرا دل سینے سے اڑا جاتا تھا‘‘۔ بعد میں ان کے مسلمان ہونے کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اس روز یہ آیات سن کر اسلام ان کے دل میں جڑ پکڑ چکا تھا۔ اِسی لیے دشمن کوشش کرتے تھے کہ لوگ اسے نہ سنیں، مگر خود اُن سے رہا نہ جاتا تھا اور چھپ چھپ کر اسے سنتے تھے۔
اِس انتہائی مؤثر کلام کے ذریعے سے شرک اور جاہلیت کے ایک ایک پہلو پر ایسی مدلل تنقید کی گئی کہ کسی معقول آدمی کے لیے یہ ممکن نہ رہا کہ اُن عقائد اور رسوم اور اخلاقی برائیوں کے حق میں ایک لفظ بھی کہہ سکتا، جن پر قریش اور عرب کے مذہب اور تمدن کی بنا قائم تھی۔ پھر اِسی کلام کے ذریعے سے کمال درجہ دل نشین پیرائے میں اسلام کے عقائد، اس کے اصولِ تہذیب و تمدّن اور اس کی اخلاقی تعلیمات کو پیش کیا گیا، جن کی تردید میں کسی بڑے سے بڑے مخالف کے لیے بھی زبان کھولنے کی گنجائش باقی نہ رہی۔ اس کے بعد کفّار مجبور ہوگئے کہ اسلام کو زک دینے کے لیے مارپیٹ، ظلم و ستم، گالی گلوچ، کذب و افترا اور شور و شغب کے ہتھیاروں سے کام لیں۔ مگر یہ بجائے خود اُن کی طرف سے دلیل و حجت اور اخلاق و شرافت کے میدان میں اپنی شکست کا عملی اعتراف تھا۔
ہر وہ شخص جس میں ذرا بھی معقولیت کا شائبہ پایا جاتا تھا، اس معرکے کے دونوں فریقوں کو دیکھ کر یہ محسوس کرتا چلا گیا کہ منکرین و مخالفین کے پاس قرآن کے دلائل اور اس کی پاکیزہ تعلیم کا کوئی جواب اوچھے ہتھکنڈوں اور انسانیت سے گری ہوئی چالوں کے سوا نہیں ہے۔ یہ کھلا کھلا معرکہ صرف مکے ہی میں لوگوں کے سامنے برپا نہ تھا، بلکہ تمام عرب کی نگاہیں بھی اس کو دیکھ رہی تھیں۔ مکے میں تو خیر شب و روز ہی عوام و خواص سب کسی نہ کسی طرح قرآن بھی سن رہے تھے، اور ان کارروائیوں کو بھی دیکھ رہے تھے جو سردارانِ قریش اور ان کے زیرِ اثر اوباش لوگ قرآن کے جواب میں کر رہے تھے۔ لیکن دس برس تک ہر سال رسولؐ اللہ عُکاظ سے منیٰ تک کے اجتماعات میں تشریف لے جاکر، عرب کے ہر حصے سے آئے ہوئے لوگوں کو قرآن سناتے رہے، اور ابو جہل اور ابولہب جیسے لوگ برسرِ عام آپؐ کو پتھر مار کر آپؐ پر خاک دھول اڑا کر اُن کو یہ بتاتے رہے کہ اس کلام کا جواب اُن کے پاس کیا ہے۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مکے میں بھی ساری رکاوٹوں کے باوجود اسلام پھیلتا چلا گیا، اور سرزمینِ عرب میں بھی کوئی قبیلہ ایسا نہ رہا، جس میں کچھ نہ کچھ لوگ اسلام سے متاثر نہ ہوگئے ہوں۔ مکّی دور میں صورتِ حال یہ تھی کہ علانیہ اسلام قبول کرلینے والے لوگ تو کم تھے، مگر اُن سے بیسیوں گُنے زیادہ ایسے اشخاص معاشرے میں موجود تھے، جن کے دلوں میں قرآن کی تعلیم، اور رسول اکرمؐ کی عظمت و تکریم، اور آپؐ کے مظلوم ساتھیوں کے لیے ہمدردی، اور قریش کے سراسر بے جا ظلم و ستم کے لیے نفرت جاگزیں نہ ہوگئی ہو۔ اِس دور کا یہ کام بھی پوری طرح بار آور ہونے کے لیے ایک مدینے کا طالب تھا، جو ٹھیک اپنے وقت پر اُس کے لیے آغوش کھول کر سامنے آگیا۔
تیسرا بڑا سرمایہ ایمان لانے والے مسلمانوں کا وہ چیدہ گروہ تھا، جو اِس تحریک کو ۱۳ سال کے دوران میںمیسر آیا۔ یہ وہ صاف دماغ اور سلجھے ہوئے ذہن کے لوگ تھے، جنھوں نے شرک و جاہلیت کے اُس تاریک ماحول میں پرورش پانے کے باوجود قرآن مجید کی تعلیمات سن کر اپنے دینِ آبائی کا غلط اور دینِ اسلام کا برحق ہونا تسلیم کرلیا اور کوئی تعصب انھیں ایمان لانے سے نہ روک سکا۔
اُن کو معلوم تھا کہ اپنے خاندان، اپنے قبیلے اور اپنے شہر کے عام لوگوں کی رائے کے خلاف اسلام قبول کرنے اور محمدؐ کی پیروی اختیار کرنے کے کیا معنی ہیں۔ ایمان لانے والوں پر جو عذاب توڑے جا رہے تھے وہ سب ان کی آنکھوں کے سامنے تھے۔ مگر وہ اِس دل گردے کے لوگ تھے کہ کوئی خوف انھیں باطل کو رد اور حق کو قبول کرنے سے نہ روک سکا۔ اُنھوں نے ہر طرح کے ظلم صرف اس لیے سہے کہ جس چیز کو وہ باطل سمجھ چکے تھے، اس کی پیروی کرنا انھیں کسی حال میںگوارا نہ تھا، اور جس چیز کا حق ہونا انھیں معلوم ہوچکا تھا، اُسے چھوڑنے کے لیے وہ تیار نہ تھے۔
انھیں بُری طرح مارا پیٹا گیا۔ اُنھیں الٹا لٹکایا گیا۔ انھیں بھوک پیاس کی مار دی گئی۔ انھیں باندھ کر قید تنہائی میں ڈال دیا گیا۔ اُن کو آگ کے انگاروں پر لٹایا گیا۔ ان کے بڑے بڑے باعزت لوگوں کو برسرِ عام ذلیل کیا گیا۔ مگر یہ سب کچھ انھوں نے محض حق کی خاطر برداشت کرلیا اور ان میں سے کسی ایک مرد یا عورت کو بھی ایمان سے کفر کی طرف نہ پھیرا جاسکا۔ انھوں نے اپنا ایمان بچانے کے لیے دو دفعہ حبش کی طرف اور آخر میں مدینے کی طرف ہجرت کی۔ گھر بار، مال اسباب، عزیز رشتہ دار، سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر خدا کی راہ میں نکل کھڑے ہوئے۔ ان میں سے بکثرت ایسے تھے، جو تن کے کپڑوں کے سوا کچھ نہ لے جاسکے۔ ان کے اس طرزِ عمل نے ثابت کردیا کہ اسلامی تحریک کو وہ انتہائی مخلص و جاں نثار فدائی مل گئے ہیں، جو اگرچہ مٹھی بھر ہیں، مگر ایسے بہادر ہیں کہ اپنے دین کے لیے ہر قربانی دے سکتے ہیں، ہر مصیبت جھیل سکتے ہیں، ہرتکلیف و اذیت برداشت کرسکتے ہیں، اور ہر بڑی سے بڑی طاقت سے ٹکرا سکتے ہیں۔
اِن خوبیوں کے ساتھ ایسا عظیم اخلاقی انقلاب قرآن کی تعلیم اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت سے ان کی زندگی میں رونما ہوگیا کہ اپنی راست بازی و دیانت، اپنی پرہیزگاری و طہارت، اپنی خداترسی و خدا پرستی، اپنی عفت و پاک دامنی، اپنی شرافت و شائستگی، اور اپنی مضبوط اور قابلِ اعتماد سیرت کے اعتبار سے صرف عرب ہی میں نہیں، دنیابھر میں ان کا جواب نہ پایا جاتا تھا۔ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس معاشرے میں ایک منارۂ نور کی طرح نمایاں تھے، اسی طرح آپؐ کے ساتھیوں کی زندگی کا اخلاقی انقلاب بھی اِس قدر ظاہر و باہر تھا کہ دیکھنے والی آنکھ کفار کی اخلاقی حالت اور اُن کی اخلاقی حالت کا فرق علانیہ دیکھ سکتی تھی۔ تعصب اور عناد کی بناپر مخالفین زبان سے اس کا انکار کرسکتے تھے، مگر ان کے دل جانتے تھے کہ قدیم جاہلیت کیا سیرت و کردار پیدا کرتی تھی، اور یہ نیا دین کس سیرت و کردار کے انسان پیدا کر رہا ہے۔
چوتھا عظیم اور بیش قیمت سرمایہ جو مکّی دور کے آخری تین سالوں میں اسلامی تحریک کو ملا، وہ مدینے کے انصار کا خلوصِ ایمانی تھا۔ ان لوگوں کو نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت و تربیت میسر آئی تھی، نہ آپؐ کی اور آپؐ کے صحابہؓ کی پاکیزہ زندگیوں کو دیکھنے کا موقع ملا تھا، نہ قرآن پاک کا اُتنا علم حاصل ہوا تھا جو مکے کے اہلِ ایمان کو حاصل تھا، لیکن یہ ایسے سلیم الطبع اور صحیح الدماغ لوگ تھے، جو حق کی ایک جھلک دیکھتے ہی اس پر فدا ہوگئے۔ صدیوں کی رَچی بسی مشرکانہ جاہلیت کو انھوںنے اسلام کی صراطِ مستقیم کا نشان پاتے ہی اپنے دل ودماغ سے گرد کی طرح جھٹک کرنکال پھینکا۔ وہ پکے پھلوں کی طرح اسلام کی جھولی میں یوں جھڑتے چلے گئے کہ ۱۳ سال کے اندر مکّے میں جتنے لوگ ایمان لائے تھے، تین سال میں ان سے بہت زیادہ مردوں اور عورتوں اور جوانوں اور بوڑھوں نے مدینے میں ایمان قبول کرلیا۔
انھوں نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ وہ ایسے خلوص کے ساتھ ایمان لائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپؐ کے ساتھی تمام اہلِ ایمان کو انھوں نے اپنے ہاں ہجرت کر آنے کی دعوت دے دی، حالاں کہ یہ دعوت دیتے وقت وہ خوب جانتے تھے کہ اس کے نتیجے میں انھیں تمام عرب کی دشمنی مول لینی ہوگی، جیسا کہ آخری بیعتِ عقبہ کے موقعے پر اُن کی تقریروں سے صاف ظاہر ہوتا ہے۔ اور بات صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ انھوں نے حضورؐ اور آپ کے مکّی صحابہؓ کے لیے اپنے شہر کو دار الہجرت کے طور پر پیش کردیا، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر انھوں نے پوری خوش دلی اور رضامندی سے آپؐ کو اپنا حاکم و فرماں روا تسلیم کیا، آپؐ کی وفا دار رعیت اور جاں نثار فوج بن گئے، آپؐ کے ساتھ ہجرت کرکے آنے والے مسلمانوں کو اپنے شہر میں اپنے ساتھ برابر کے حقوق دیے اور اپنے گھر، اپنے مال اور اپنی جائیدادوں تک کو ان کے لیے پیش کردیا۔
اسی چیز نے تاریخ کا رخ بدل ڈالا۔ اسلام کو ایک دعوت اور تحریک کے مقام سے اٹھا کر ایک معاشرے اور ریاست کی حیثیت دے دی، اور رسولؐ اللہ کو یہ موقع بہم پہنچا دیا کہ آپؐ ایک آزاد و خود مختار دارالاسلام میں اسلام کے ایک ایک پہلو کو عملی جامہ پہنا کر ساری دنیا کے سامنے یہ نمونہ پیش کردیں کہ اللہ وحدہٗ لاشریک کابھیجا ہوا یہ دین، کیسے افراد تیار کرتا ہے؟ کیسا معاشرہ بناتا ہے؟ کس قسم کی تہذیب اور کس قسم کا تمدن پیدا کرتا ہے؟ کیسی اخلاقی روح پورے معاشرے میں جاری و ساری کردیتا ہے؟ معیشت، معاشرت، تعلیم، سیاست، قانون اور عدالت کا کیسا نظام قائم کرتا ہے؟ جنگ میں اس کی تہذیب کیا ہے؟ فتح پاکر وہ مفتوحین کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے؟ معاہدے کرکے وہ ان کی کیسی پابندی کرتا ہے، اور بین الاقوامی تعلقات میں اس کا رویہ کیا ہے؟
[ سیرتِ سرورِ عالمؐ، دوم، ادارہ ترجمان القرآن، لاہور/ ماہ نامہ ترجمان القرآن، جون ۱۹۷۷ء]
حال ہی میں پاکستان کی ایک معروف یونی ورسٹی میں منشیات کے حوالے سے جو معلومات ابلاغ عامہ میں آئی ہیں، انھوں نے ہر باشعور پاکستانی کے سر کو شرم و ندامت سے جھکا دیا ہے۔ ہماری تاریخی، اسلامی تہذیبی روایات میں ایک جامعہ (یونی ورسٹی) کو مسجد کے برابر تقدس کا درجہ حاصل رہا ہے۔ اسلامی روایات میں استاد ،جامعہ اور طالب علم یکساں احترام کا مقام رکھتے ہیں، پھر ایک مسلم معاشرے میں اس حد تک شرمناک اقدام کیسے ہوا ، نیز کسی ایسی صورت حال سے بچنے کی کیا تدبیر ہو سکتی ہے؟بدعنوانی اور بے راہ روی کی تحقیقات اور واقعہ میں ملوث افراد کو اگر قرارِواقعی سزا بھی دے دی جائے جب بھی مسئلہ اپنے انجام کو نہیں پہنچتا۔ یہ دیگ کے چاول کے چند دانوں کی طرح ہمیں یہ بتا رہا ہے کہ نظامِ تعلیم ، تصورِ تعلیم اور طریقِ تعلیم و تربیت شدید مسائل کا شکار ہے۔
اس سے قبل بھی جامعات اور مدارس میں ایسے واقعات کا تذکرہ اخبارات میں آتا رہا ہے جو چونکا دینے والے ہیں، مثلاً ملک کے دارالحکومت کی ایک معروف سرکاری یونی ورسٹی میں مسلمان طلبہ و طالبات نےہندو تہوار ہولی کا اہتمام کیا ۔اطلاعات کے مطابق غیر مسلم طلبہ و طالبات اس تقریب کے نہ محرک تھے اور نہ تائید کرنے والے، لیکن ان کے نام کو استعمال کرتے ہوئے اس ہندووانہ مذہبی اور ثقافتی تہوار کا اہتمام،ہندو طلبہ کی مخالفت کے باوجود، بعض مسلمان طلبہ نے کیا اور انتظامیہ نے مجبوری میں اسے گوارا کیا۔
اسلام غیر مسلموں کو مکمل مذہبی اور ثقافتی آزادی دیتا ہے اوروہ ایک اسلامی ریاست میں اپنے رسوم و رواج پر آزادانہ عمل کر سکتے ہیں ،جب تک اس کے نتیجے میں امن عامہ میں خلل کا خطرہ نہ ہو ۔اور یہ شرط بھی تمام شہریوں کے لیے ہے، صرف غیر مسلموں کے لیے نہیں۔ تفصیلات میں جائے بغیر اس حد تک بات واضح ہے کہ ہولی کی تقریب ان مسلمان طلبہ و طالبات نے منعقد کی، جو اپنے آپ کو لبرل اورسیکولر کہتے ہیں، اپنی لادینیت اور نسلی قوم پرستی میں انتہا پسندی کی حد تک پہنچے ہوئے ہیں۔ یہ واقعہ اس طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ لادینیت پر مبنی تعلیم ایسے انفرادیت اور شدت پسند نفوس پیدا کرتی ہے جو زندگی کا مقصد تفریح ،لذت اور مادیت کا حصول سمجھتے ہوں۔
اس نوعیت کے واقعات ہر محب وطن پاکستانی کے ذہن میں یہ سوال پیدا کرتے ہیں کہ کیا پاکستان کے قیام کا مقصد ایک غیر ذمہ دار، لذت پرست معاشرہ وجود میں لانا تھا ،یا بانیٔ پاکستان نے لاکھوں افراد کی جان و مال اور عزّت کی قربانی اس لیے قبول کی تھی کہ پاکستان میں ایک ایسا معاشرہ پروان چڑھے جو ایمان و اتحاد اور تنظیم کے اصولوں پر مبنی ہو،جس کی ترجیح اول اس خطے میں ایمان یعنی اسلام کے عادلانہ اور پُرامن اخلاقی اصولوں پر مبنی خاندان، معاشرے،تعلیم و تہذیب اور معیشت اور سیاست کا قیام تھا؟وہ مسلمانوں کو رنگ و نسل، زبان ، برادری اور صوبائیت سے نکال کر ایک ایسے اتحاد میں منسلک کرنا چاہتے تھے جس کی بنیاد نہ معاشی وسائل ہوں، نہ عصبیتیں بلکہ صرف اور صرف اسلامی اخوت اور مقصد ِحیات کا اتحاد ہو۔اور اہلِ پاکستان میں وہ تنظیم پیدا ہو، جس میں معاشرتی فرائض کی ادائیگی عوام اور خواص دونوں کی ذمہ داری ہو۔
یہ تاریخی حقیقت ہے کہ علامہ اقبال ؒاور قائد اعظم ؒنے پاکستان کے قیام سے قبل منتشر مسلمانوں کے گروہ کو ایک ملّت میں منظم کیا۔ اس ملت نے جغرافیائی ، نسلی قومیت کی بنیاد پر نہیں بلکہ صرف اور صرف اپنے ایمانی اور اسلامی تشخص کی بنیاد پر اپنے ایک قوم ہونے کے احساس کو تازہ کیا۔ پھر جان و مال کی قربانیاں دے کر اپنے قومی تحفظ و بقا کے لیے ایک جغرافیائی خطّے کو حاصل کیا۔ اس طرح پاکستانی ملت یا قوم پاکستان کے قیام سے پہلے اپنے ایک آزاد وجود کے ساتھ تاریخ کے نقشے پر اُبھری۔ یہ وہ واحد قوم ہے جس نے اپنے آپ کو نہ زمین سے، نہ نسل اور رنگ اور نہ زبان سے منسوب کیا بلکہ اپنے عقیدے ،ثقافت اور تاریخ کی بنیاد پر ایک خطۂ زمین کا مطالبہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کی قربانیوں کو قبول کرتے ہوئے پاکستانی ملت کو ایک ملک دیا جہاں وہ قرآن و سنت کی روشنی میں ایک مثالی معاشرہ ،معیشت، انتظامیہ اور ابلاغ عامہ کے ادارے قائم کر سکے۔عقل مطالبہ کرتی ہے کہ اس قوم اور ملک کا تعلیمی نظام بھی اسی تصورِ قومیت پر مبنی ہو۔
قیامِ پاکستان کے فوراً بعد جو پہلی قومی تعلیمی کانفرنس۲۷نومبر ۱۹۴۷ء میں منعقد ہوئی اس کے لیے قائد اعظم نے جو پیغام دیا وہ ملکی تعلیم کے خد و خال کی طرف اشارہ کرتا ہے:
الغرض ہمیں آنے والی نسلوں کے کردار کی تعمیر کرنی چاہیے۔ جس میں وقار، راست بازی اور قوم کی بے لوث خدمت کا بے پناہ جذبہ اور احساسِ ذمہ داری پیدا کردیا جائے، اور اس بات کا بھی خیال رکھنا ہوگا کہ ان میں اقتصادی زندگی کے مختلف شعبوں میں کام کرنے کی اہلیت اور صلاحیت بدرجۂ اتم موجود ہو، اور اس طرح سے کام کریں جو پاکستان کے لیے نیک نامی کا باعث بنے۔(قائداعظم: تقاریر و بیانات، ج۴، ص۳۹۶)
قائد کی نگاہ میں تعلیم کا اصل مقصد تعمیرِ کردار تھا جس کے ذریعے وہ نسل وجود میں آئے جو اپنی عزّت، وقار، ایمانداری، بے لوثی اور احساس ذمہ داری کے ساتھ معاشی زندگی کی مختلف شاخوں میں مہارت رکھتی ہو تاکہ پاکستان کی بقا اور ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکے۔
۱۹۵۹ء میں قومی تعلیمی کمیشن نے ملک میں تعلیم کے حوالے سے جو تجاویز دیں، ان میں درجِ ذیل خاص طور پر توجہ کی مستحق ہیں:
۱- تعلیم بنیادی کردار ادا کرے ،ان مقاصد سے تحفظ اور بقا میں، جو پاکستان کی تخلیق کا سبب تھے۔ تعلیم ایسی متحدہ قوم کو وجود میں لائے جو اسلامی طریقۂ زندگی کے قیام اور تحفظ کی امین ہو۔
۲- تعلیم افراد میں اسلامی اقدار، حق و صداقت ،عدل، اشاعت خیر اور عالمی اخوت کی آبیاری کرے۔
۳- اسلام کی اخلاقی، روحانی اقدار، حق و صداقت ، عدل ،عزت نفس اورپاکستان کو تقویت دینے کے اصول ،نظام تعلیم کے رہنما اصول ہوں۔
۴- تعلیم قومی یک جہتی اور دینی اقدار کو افراد کے عمل و کردار میں جاگزیں کر دے اور فکری دیانت، کردار میں سچائی کے ساتھ معاشرتی عدل کے قیام اور معاشرے سے غربت اور کھنچاؤ کو دُور کرنے میں مددگار ہو۔
نہ صرف اس تعلیمی پالیسی میں بلکہ بعد میں آنے والی ۱۹۷۲ء کی تعلیمی پالیسی میں بھی مقصدِ تعلیم کو واضح الفاظ میں بیان کیا گیا۔ ۱۹۷۲ء کی پالیسی کے نمایاں خد و خال یہ تھے:
۱- اسلامی اقدار کا تحفظ اور قومی اتحاد اور ترقی کے لیے ان کی ترویج۔
۲- معاشرتی تبدیلی کے مؤثر عنصر کی حیثیت سے ترقی اور جمہوری معاشرے اور یکساں مواقع کے حصول میں امداد فراہم کرنا۔
۳- معاشی ضروریات کے پیش نظر نصابات پر نظر ثانی اور معیاری تعلیم کی فراہمی۔
۱۹۷۹ء کی قومی تعلیمی پالیسی میں تعلیم کے قومی اہداف اور مقاصد کی یوں وضاحت کی گئی:
۱- طلبہ اور پاکستانی باشندوں کے دل و دماغ میں اسلام اور پاکستان سے وفاداری کے جذبے کو مستحکم کرنا اور اس بنیاد پر ملک میں اتحاد و یک جہتی پیدا کرنے کے ساتھ معاشرتی عدل اور روحانی ترقی کے مواقع پیدا کرنا۔
۲- ہر طالب علم اور طالبہ کو یہ شعور دینا کہ وہ ملتِ پاکستان سے گہری وابستگی کے ساتھ مسلم امت کے ساتھ بھی مربوط ہے، اس لیے نہ صرف ملک بلکہ اسلامی دنیا کے لیے بھلائی اور ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا۔
۳- ایسی نئی نسل پیدا کرنا جو نظریۂ پاکستان سے آگاہ اور تحریک پاکستان کی نظریاتی بنیادوں، تاریخ اور ثقافت سے نہ صرف واقف ہو بلکہ اس پر فخر کے ساتھ پاکستان کے روشن مستقبل کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کر سکے اور پاکستان کو فلاحی اسلامی ریاست بنانے میں اپنا حصہ ادا کرے۔
۴- مذہبی اقلیتوں کو ان کی مذہبی اور ثقافتی ضروریات کے پیش نظر سہولت فراہم کرنا اور قومی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنےکے مواقع فراہم کرنا۔
۵- سائنسی تحقیقات اور ترقی میں قائدانہ کردار ادا کرنا۔
۱۹۹۲ءکی قومی تعلیمی پالیسی میں چار اہم پہلوؤں کو اُجاگر کیا گیا:
۱- موجودہ تعلیمی نظام کو جدید معلومات کی بنیاد پر اسلام کے اصولوں کی روشنی میں مرتب کرنا تاکہ ایک پُرامید مستقبل اور مسلم معاشرے کا حصول کیا جا سکے۔
۲- معاشرتی علوم کی اسلامی تدوینِ جدید کے ذریعے تنقیدی ذہن کے ساتھ اسلامی تصورِ کائنات، انسان اور معاشرے کی تعمیر۔
۳- مسلسل حصولِ علم کی تڑپ، پاکستان اور امت مسلمہ کی معاشی، سائنسی اور معاشرتی ترقی کے لیے علمی اور انسانی ذرائع کاحصول۔
۴- نظریۂ پاکستان کی عالمی سطح پر نمایندگی و اشاعت۔
یہی فکری تسلسل قومی تعلیمی پالیسی برائے ۱۹۹۸ء تا ۲۰۱۰ء میں اختیار کیا گیا اور تعلیم کے مقصد کو وضاحت سے بیان کیا گیا:
۱-قرآنی اصولوں اور اسلامی روایت کو نصاب تعلیم کا لازمی حصہ بناتے ہوئے تعلیم و تربیت کے ذریعے مستقبل کی پاکستانی نسل کو صحیح معنی میں باعمل مسلمان بنانا جو اعتماد،یقین ،حکمت، رواداری کے ساتھ اگلی صدی کے تقاضوں کو پورا کر سکے۔
۱۹۷۲ء کی نئی تعلیمی پالیسی ہو یا ۱۹۷۹ء کی قومی تعلیمی پالیسی یا ۱۹۹۲ء کی قومی تعلیمی پالیسی اور۱۹۹۸ء-۲۰۱۰ء کی تعلیمی پالیسی ، ان تمام سرکاری دستاویزات میں مختلف الخیال سیاسی حکومتوں اور قیادتوں کے با وجود جو عناصر مشترک نظر آتے ہیں ، ان میں واضح الفاظ میں نظریۂ پاکستان، اسلامی، علمی اور ثقافتی میراث کے ساتھ اسلامی شخصیت و کردار کی تعمیر کو ترجیحات میں شامل کیا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ ایک واضح قومی اجتماعی پالیسی کے باوجود اسے تعلیمی اداروں میں نافذ نہیں کیا گیا۔ ان تمام قومی تعلیمی پالیسیوں کا جائزہ لے کر دیکھا جائے تو علمی، تحقیقی اور ثقافت کے فروغ کے ساتھ ہر پالیسی کا لازمی جزو کے طور پر تین امور مشترک نظر آتے ہیں:
ان تین تصورات کے ساتھ یہ بات بھی پالیسی کا لازمی حصہ رہی کہ قومی زبان کو ذریعۂ تعلیم بنایا جائے تاکہ تمام صوبوں میں تعلیم پانے والے طلبہ و طالبات کاروبار اور ملازمتوں میں یکساں طور پر مقابلہ کرنے کے قابل بن سکیں۔
اس مختصر سے جائزے میں یہ بات کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں بیرونی امداد پر چلنے والے جن اداروں کے افراد نے حکومتی مشیر کی حیثیت سے تعلیم کو نظریۂ پاکستان سے کاٹنے اور ہر مضمون کے نصاب سے اخلاقی اور تربیتی پہلو کو خارج کرنے کا جو مشورہ دیا ،وہ قومی تعلیمی پالیسی کے متفقہ اصولوں کی ضد تھا، پھر مخصوص حکومتی اور بیورو کریسی کے حلقوں کی حوصلہ افزائی سے نصابات سے قرآنی اور اخلاقی تعلیمات کے اسباق کو مکمل طور پر نکال دیا گیا۔یہ اقدام نہ صرف تعلیمی پالیسی بلکہ دستور ِاسلامی جمہوریہ پاکستان کی کھلی خلاف ورزی تھا ، جسے قانونی طور پر بھی چیلنج کیا جا نا چاہیے تھا ۔بعد میں آنے والی تعلیمی پالیسیوں میں یکساں نصاب ِتعلیم کا تصور، ملکی وحدت اور ملکی یک جہتی کے لیے بڑا بنیادی اور مفید اقدام تھا، لیکن سیاسی رسّہ کشی اور تعصبات نے اس پر عمل درآمد نہیں ہونے دیا۔
تعلیمی پالیسی کی روشنی میں دیکھا جائے تو مروجہ نظام تعلیم اور پالیسی کے متفقہ اصولوں میں واضح خلیج نظر آتی ہے۔ گویا یہ تعلیمی پالیساں دستاویز سے زیادہ حیثیت نہیں اختیار کر سکیں اور ان کے ایک بڑے اور اہم حصے پر کسی بھی دور میں عمل نہیں ہوا۔مزید یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ تعلیم اور نظریۂ پاکستان اور اسلامی ثقافت ،اخلاقیات اور قرآن و سنت کی تعلیم پاکستان کی سیاسی تاریخ کے کسی مخصوص دور کی پیداوار نہیں ہے بلکہ قائد اعظمؒ کے تصور اور بعد میں تعلیمی ماہرین پر مبنی ہرسیاسی دور میں کمیشن نے جو پالیسی تجویز کی نظریۂ پاکستان اور اسلامی نظریۂ حیات کوبطور نصابات کی بنیاد کے ہر پالیسی کا لازمی جزو برقرار رکھا گیا۔یہ الگ بات ہے کہ جیسا عرض کیا گیا کہ پالیسی کی روح اور الفاظ دونوں پر کسی بھی دور میں بشمول فوجی اور غیر فوجی ادوار کے عمل نہیں کیا گیا۔ہماری نگاہ میں آج جو تعلیمی اور اخلاقی زوال پایا جاتا ہے اس کا ایک بنیادی سبب ملک کی متفقہ تعلیمی پالیسیوں کو دیدہ دلیری کے ساتھ نظر انداز کرنا ہے۔
اس بنیادی نقص کی وضاحت کے بعد یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ مروجہ نظام تعلیم میں نمایاں خرابیاں اور مسائل کیا ہیں؟
۱- مروجہ نظام کی فرسودگی: پالیسی کے برخلاف حکومتی تعلیمی اداروں اور نجی اداروں میں رائج نصابات کو دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں کیا گیا۔اور صدیوں پرانی برطانوی سامراجی تعلیمی روایت میں مصنوعی رد و بدل پر انحصار کر لیا گیا، نیز تیزی سے بدلتے تعلیمی تصورات سے کوئی استفادہ بھی نہیں کیا گیا ،حتیٰ کہ جو نصابی کتب قیام پاکستان کے وقت استعمال میں تھیں انھیں بھی تبدیل نہیں کیا گیا، اور بعد کے ایڈیشن معمولی ردو بدل کے ساتھ زیر استعمال ہیں۔
۲-غیر ترجیحی رویہ:یہ ایک المیہ ہے کہ جس دین نے ہر صاحب ِایمان پر حصولِ علم کو فریضہ قرار دیا ہو، جیسےنماز اور روزہ فرض ہے، اس دین کا دعویٰ کرنے والے معاشرے میں ابتدائی اور ثانوی تعلیم مسلسل عدم توجہی کا شکار ہو رہی ہے۔ اگر کسی شعبے کو اعلیٰ ٰترین سرمایہ کاری کا مستحق کہا جاسکتا ہے تو وہ صرف تعلیم کا شعبہ ہے کہ اس میں جو رقم بھی لگائی جائے گی، وہ قومی ترقی اور تعمیر کے لیے مضبوط بنیاد فراہم کرے گی، لیکن حقائق جو تصویر پیش کرتے ہیں، اس میں تعلیم قومی ترجیح میں بہت نیچے نظر آتی ہے۔ ۲۲-۲۰۲۱ء میں ہم نے جی ڈی پی کا ۱ء۷۷ فی صد مرکزی اور صوبائی دونوں سطح پر صرف کیا، جب کہ اسے کم سے کم ۴ فی صد ہونا چاہیے تھا ۔سرکاری ذرائع کے مطابق خواندگی کا تناسب ملک گیر بنیاد پر۶۲ء۳ فی صد ہے، جب کہ عملاً خواندگی اس سے بہت کم ہے۔ تعلیم کی عالمی درجہ بندی میں دنیا کے معاشی فورم کی۱۸-۲۰۱۷ء کی رپورٹ پاکستان کو ۱۳۷؍ اقوام کی فہرست میں ۱۲۹ویں نمبر پر دکھاتی ہے۔ تعلیم اور صحت میں پاکستان، بھارت، چین، بنگلہ دیش ، سری لنکا اور ملائشیا سے بہت پیچھے ہے۔ ملک کے۳۰لاکھ ۵ہزار ۷ سو ۶۳ تعلیمی اداروں میں ۱۲۵ ملین کی آبادی میں سے صرف ۵۱ کروڑ۱۸ لاکھ ۶۵ ہزار ۶سو ۹ طلبہ کو تعلیم فراہم کرنے کی گنجایش ہے۔ سرکاری تعلیم گاہیں ۲۸ء۴۹ ملین طلبہ کو تعلیم فراہم کر رہی ہیں، جب کہ ۷۰ء۲۲ملین بچے تعلیم کی سہولت سے محروم ہیں اور صرف کل نوجوانوں میں سے۱۱ فی صد نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ملک میں ۱۱۱ سرکاری جامعات اور ۷۵ نجی جامعات ہیں۔ کل۱ء۵۷۶ ملین طلبہ سرکاری جامعات میں اور ۳۰۹ ملین طلبہ نجی جامعات میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اتنی کم تعداد میں اعلیٰ تعلیم پانے والوں میں ایک بڑی تعداد بوجوہ تعلیم نامکمل چھوڑنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔
۳- طریق تعلیم کا مسئلہ:۷۵سال سے اسکولوں، کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں جو طریق تعلیم رائج رہا ہے، اس میں لیکچرز،معلومات کا حفظ کروانا اور سالانہ امتحانات کے نظام میں، یادداشت کی جانچ کے علاوہ علمی تطبیق اور تجرباتی علمی تعلیم (Experimental Education) پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ طالب علم کتاب کے منتخب ابواب سے زیادہ نفس مضمون کے بارے میں کچھ نہیں جان پاتا۔ اساتذہ اپنے لکھے ہوئے نوٹس کی بنیاد پر طلبہ و طالبات کو جانچتے ہیں اور تنقیدی و تحقیقی ذہن کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی، طلبہ کو دورانِ درس سوالات اٹھانے کا رجحان نہیں ، زیادہ توجہ لیکچر سننے یا نقل کرکے دُہرانے پر مرکوز ہے ۔
۴- متعدد نظام ہائے تعلیم کا رواج: اس وقت ایک وقت میں کم از کم تین نظام تعلیم ملک میں رائج ہیں۔ ملک کے امیر طبقات کے لیے نجی سکول و کالج اور یونی ورسٹیاں ہیں ،جو مغربی ممالک سے درآمد کیا ہوا علمی ذخیرہ طلبہ و طالبات کو منتقل کر کے انھیں ذہنی اور عملی طور پر برطانوی یا امریکی روایات کا خوگر اور اپنی تعلیم کا بڑا حصہ ملک سے باہر جا کر مکمل کرنے کی دلی خواہش ان میں پیدا کرتے ہیں۔ چنانچہ ان اداروں کے فارغ طلبہ و طالبات، والدین کی مالی سرپرستی میں یورپ یا امریکا جانے کی تلاش میں رہتے ہیں اور اس طرح ملک ذہین افرادی قوت کے بیرونِ ملک منتقلی (Brain drain) کا شکار ہو رہا ہے ۔
۵- سرکاری تعلیمی نظام اور ادارے :سرکاری تعلیمی ادارے کم تر تعلیمی معیار اور سہولیات کی کمی کے سبب علمی تربیت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ الا ماشاءاللہ !اس لیے ان سے فارغ نوجوان عموماً روزگار کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں اور بے روزگاری کی وجہ سے ان بہت سی خرابیوں کا شکار ہو جاتے ہیں جو ملکی سلامتی کے لیے زہر کی حیثیت رکھتی ہیں۔ چنانچہ منشیات، غیراخلاقی اعمال ، محنت کی جگہ سفارش ، صلاحیت کی جگہ رسوخ ، ان کے آگے بڑھنے کا ذریعہ بنتا ہے، جو زندگی کے ہر شعبے میں بے ایمانی، بددیانتی ،بدمعاملگی اور بد اخلاقی کو فروغ دیتا ہے۔
۶- یونی ورسٹیاں اور علمی قیادت: یہ حقیقت بھی پریشان کن ہے کہ دوسو سے اوپر یونی ورسٹیوں میں جو تحقیقی مقالات تحریر کیے جاتے ہیں ، وہ اپنے معیار ، ملک وقوم کو درپیش عملی مسائل اور صنعتی دنیا کی تعمیر و ترقی کے امور سے مطابقت نہیں رکھتے ہیں ۔صرف معاشرتی علوم کو دیکھا جائے تو ملکی یونی ورسٹیوں میں فی یونی ورسٹی ۳ء۶ پروفیسر پائے جاتے ہیں ۔یہ تناسب بعض خطوں میں اور کم ہوجاتا ہے ، مثلاً گلگت ، بلتستان میں یہ شرح صرف ۵ء۱ فی صد ہے۔ یہی وہ معلّمین ہیں جو تحقیقی نگرانی اور خود تحقیق کے میدان میں کارنامے انجام دے سکتے تھے ۔ اس کے مقابلے میں امریکا اور یورپ کی یونی ورسٹیوں میں بعض مقامات پر ۵۴ء۱۵ فی صد پروفیسر ہر شعبہ میں پائے جاتے ہیں (مثلاً اسٹین فرڈ یا ہاورڈ یونی ورسٹی میں ۳۳ء۸۵ فی صد)۔ اس علمی کمی کی بنا پر پاکستان ۱۶۳؍ اقوام میں ۶۳ ویں نمبر پر پایا جاتا ہے ۔جہاں ۳۱ فی صد نوجوان مرد اور ۵۱ فی صد خواتین بے روز گاری کا شکار ہیں ۔نتیجتاً ملک سے باہر ملازمت تلاش کرنے کے رجحان میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے ۔ یہ ذہنی قحط ملک کی ترقی اور استحکام میں کمی کا ایک بڑا سبب ہے ۔
۷- دینی مدارس کا نظام : دینی مدارس میں عام طور پر مروجہ درس نظامی کے مضامین تعلیم کا محور ہیں، اور ہر مدرسہ کسی نہ کسی مسلک سے اپنی وابستگی کی بنا پر یہ بات واضح کر دیتا ہے کہ اس درس گاہ میں ایک مخصوص مسلک کے طلبہ کے لیے دروازے کھلے ہیں۔ان کی روایتی اسلامی علوم کی واقفیت لازما ًسرکاری جامعات کے طلبہ سے زیادہ بہتر ہوتی ہےلیکن یہ مدارس عصری مضامین اور عربی اور اردو کے علاوہ کسی زبان پر توجہ نہیں دیتے۔ گو بعض مدارس نے اپنے نصاب میں جدید مضامین شامل کیے ہیں ،لیکن یہ شمولیت ایک نئے مسئلہ کو وجود دیتی ہے۔ تمام عصری علوم کی بنیاد جس تصورِ علم پہ ہے وہ اسلام کے تصورِ علم کی ضد ہے۔ اس لیے طالب علم جدید علوم کی آگاہی کے باوجود سیکولر ذہن کے ساتھ تعلیم سے فارغ ہوتا ہے ۔طلبہ بعض روایتی دینی علوم کی واقفیت اور مغربی تصور علم کی روشنی میں کمپیوٹر یا انتظامی امور کے بارے میں ایسی معلومات بھی حاصل کرتے ہیں جو اسلامی تصور سے کوئی مطابقت نہیں رکھتیں۔یکساں نصابی تعلیم ہی اس کمزوری کا علاج ہے، جس میں اسلام کی جامع تعلیمات کی روشنی میں معاشرتی اور تطبیقی علوم کی تدوینِ جدید ہو اور اسلامی نظریۂ حیات کی روشنی میں طلبہ و طالبات کی جامع اخلاقی تربیت کے ساتھ تعمیرِ شخصیت کی جائے۔
۸- تعلیم کی سمت کا عدم تعین:۷۵سال میں ہم یہ طے نہیں کر سکے کہ ایک تعلیم یافتہ شخص سے ہم کیا چاہتے ہیں یعنی تعلیم کے نتائج (outcome or goals )کیا ہوں گے؟ ۷۰سال کے بعد ہم بہت دور کی کوڑی لے کر آئے کہ واشنگٹن قرارداد(accord) کی پیروی میں ’تعلیم کے تربیتی و پیداواری نتائج‘ (Outcome Based Education-OBE) کو رواج دیا جائے۔ واضح رہے کہ اسلامی تعلیمی روایت میں آج سے تقریبا ًہزار سال قبل ہی مقاصد کے زیر عنوان تعلیم، تجارت، معاشرت، قانون، ثقافت، گویا ہر انسانی سرگرمی کے لیے مقاصد کا تعین کیا گیا جو وقتی تعین نہیں تھا بلکہ یہ وہ آفاقی اصول ہیں جو آج بھی تمام علوم کے لیے ایک الہامی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ اسلامی تصور سے عدم آگاہی کی بنا پر آج بھی تعلیمی ماہرین OBE پر فخر کرتے ہیں،جب کہ OBE کے تحت جو مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں، وہ مستعار مقاصد ہیں یعنی سامراجی قوتوں کے عالمی مقاصد اور ان کی روشنی میں تقریباً ۱۵۰؍اہداف۔ مسلم اور غیرمسلم ممالک انھیں ’کتاب مقدس‘سمجھتے ہوئے اپنے نصابات میں شامل کرنے کو ترقی کی ضمانت سمجھتے ہیں جو ذہنی غلامی اور مغرب زدگی کی ایک واضح علامت ہے۔ انھی اہداف میں یہ ہدف بھی شامل ہے کہ ابتدائی تعلیم سے بچوں کو سمجھایا جائے کہ جس جنس کے ساتھ وہ پیدا ہوئے ہیں وہ قطعی یا حتمی نہیں ہے۔ زندگی کے کسی بھی مرحلے میں اگر وہ یہ محسوس کریں کہ ان کے جسم میں جو فرد یا روح مقید ہے وہ مرد نہیں بلکہ عورت ہے تو وہ اپنی آزادانہ جذباتی رائے سے اپنے آپ کو ایک نئےقالب میں ڈھال سکتے ہیں۔
مغرب سے آئے ہوئے تصورات ( Sustainable Development Goals ) پر عمل کرتے ہوئے جب بچوں کو یہ تصور سمجھایا جائے گا ،تو وہ زندگی کے لذت پر مبنی تصور کے غلام ہوں گے اور اس کش مکش کا شکار رہیں گے کہ پیدائش کے وقت جو ان کی جنس تھی، وہ بہتر ہے یا اپنی رائے میں وہ جس جنس کو اختیار کرنا چاہتے ہیں وہ بہتر ہے ؟اس اختلاف کے بعد کیا کوئی معاشرہ اپنا نظریاتی و ثقافتی تشخص برقرار رکھ سکتا ہے؟
اسلام تو الہامی ہدایت ہونے کی بنا پر اعلیٰ ترین ہدایت ہے۔ انسان کی اپنی عقل اس نامعقول، غیر منطقی اور غیر حقیقی تصور کو قبول نہیں کر سکتی، لیکن’جدید فکر‘ اور ’جدید تعلیم‘، ’روشن خیالی‘اس تصور پر اندھا ایمان رکھتی ہے اور اسے نظامِ تعلیم میں شامل کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔ اس کا فوری سدِباب ضروری ہے ۔
۹- غیر تربیت یافتہ اساتذہ:اساتذہ کی اکثریت تعلیمی اسناد کی بنیاد پرمنتخب کی جاتی ہے لیکن ہمارے اساتذہ کی اکثریت بنیادی تدریسی مہارتوں مثلاً تعلیمی حکمت عملی، جانچنے کے طریقوں،حتی ٰکہ سوالات بنانے کےطریقے، فلسفۂ تعلیم،تعلیمی نفسیات ودیگر لوازمات کی ابجد سے بھی واقف نہیں ہوتی اور وہ طلبہ و طالبات کو پڑھانا شروع کر دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسے اساتذہ کے طلبہ بھی اپنے اساتذہ ہی کا چربہ ہوں گے اور وہ کبھی علمی تحقیق اور قیادت کے قابل نہیں ہو پائیں گے۔
۱۰- امتحانات اور جانچنے کے معیارات:سالانہ امتحانات ہوں یا سمسٹر سسٹم، دونوں میں بہت کم ادارے ایسے ہیں جو روایتی یادداشت کے امتحانات کے علاوہ کچھ اور کرتے ہوں۔ نتیجتاً علمی تجسس، تنقیدی نظر اور ہمہ وقت حصول علم کی خواہش کی جگہ محدود معلومات رکھنے والے سندیافتہ نوجوان جامعات سے فارغ ہو رہے ہیں، جو معاشی، سائنسی، معاشرتی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔
۱۱-سہولیات کی کمی: بہت کم اسکول ، کالج اور جامعات ایسی ہیں جہاں تحقیق و تجربہ کے مواقع طلبہ کو فراہم کیے گئے ہوں۔نظری علم اور وہ بھی جزوی طور پر حصول کے بعد یہ زندگی کے میدان میں آتے ہیں تو اپنے شعبے میں بھی عملی کام کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔ نہ صرف سائنسی علوم بلکہ معاشرتی علوم کی بھی یہی شکل ہے۔ سہولیات اور عملی تجربے کے مواقع نہ ہونے کے سبب سند رکھنے کے باوجود یہ نوجوان بعض اوقات ایک اَن پڑھ مستری سے بھی کم صلاحیت رکھتے ہیں۔
۱۲-تعلیم کا تجارتی پہلو:نجی تعلیمی اداروں کی کثرت اور خود سرکاری اداروں میں قیادت اور راہ نمائی کے فقدان سے تعلیم ایک تجارت بن گئی ہے، جس کی ایک قیمت ہے اور اس قیمت کے بعد گاہک یہ سمجھتا ہے کہ اب تعلیمی سند اس کا حق ہے۔ یہ مسئلہ محض پاکستان کا نہیں ہے عالمی سطح پر تعلیمی ادارے اپنے وجود کے لیے معیاری تعلیم کی جگہ کم معیاری تعلیم کی طرف جا رہے ہیں۔یورپی اور امریکی جامعات بیرونی طلبہ پر اتنی توجہ نہیں دیتے جتنی مقامی طلبہ پر دیتے ہیں۔ گو ان جامعات کا معاشی وجود بیرونی طلبہ کا رہینِ منت ہے۔چونکہ ان طلبہ کو جلد واپس اپنے ملک جانا ہوتا ہے، اس لیے اگر یہ کم معیاری تعلیم بھی لے کر جائیں تو ان جامعات کا کوئی نقصان نہیں ہوتا بلکہ ان طلبہ کے ذریعے ان کی شہرت یہ ہوتی ہے کہ وہ بہت ’اچھی‘جامعات ہیں کہ وہاں زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی۔ تعلیم کو تجارتی ذہن سے نجات دلائے بغیر تعلیم کے مقاصد حاصل نہیں کیے جاسکتے۔
۱۳- مخلوط تعلیم کے نتائج:ملکی یونی ورسٹیوں کا ماحول تکلیف دہ ہے۔ خبریں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ غیر اخلاقی ماحول کا ایک بنیادی سبب مخلوط تعلیم ہے۔مغربی جامعات بھی اس کا شکار ہیں اور ملکی جامعات اب اس مقام تک پہنچ چکی ہیں کہ اگر فوری طور پر مخلوط تعلیم کی بجائے جداگانہ تعلیم کو فروغ نہیں دیا گیا تو یہ آگ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ گھر اور تعلیم گاہ دونوں جگہ طلبہ و طالبات کے اختلاط کے مواقع کو کم سے کم کیا جائے اور مسلسل تعلیمی اور تربیتی پروگراموں کے ذریعے ان میں حیا، شرم اور عزت کی اہمیت کو ذہن نشین کرانے کے ساتھ ایسا ماحول پیدا کیا جائے جس میں طلبہ و طالبات کے لیے تمام سہولیات (کیفے ٹیریا، کھیل کے میدان، تجربہ گاہیں ، لائبریریاں وغیرہ ) الگ الگ ہوں یعنی ان کے درمیان فاصلہ قائم ہو تاکہ برائی کے امکانات کم کیے جا سکیں۔
۱۴- جدید معلوماتی انقلاب:آئی ٹی اور پھر AIیعنی مصنوعی ذہانت کی تیزی کے ساتھ رواج پانے سے جو اخلاقی اور انسانی مسائل سامنے آ رہے ہیں، ملکی جامعات بظاہر ان سے کم آگاہ نظر آتی ہیں۔ یہ تیزی سے بدلتا ماحول چند برسوں میں تعلیم کے شعبے میں مکمل انقلاب برپا کر دے گا اور انسان کا تصورِ کائنات، تصورِ معاشرہ اور باہمی تعلقات اس سے متاثر ہوں گے ۔ اس چیلنج کو سمجھنے اور اس کا اسلامی حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
ان حالات میں بھی مایوسی کفر ہے۔ اس لیے ایک تابندہ سحر کی تلاش میں ہمیں بعض اہم اور بنیادی فیصلے کرنے ہوں گے:
۱- تعلیمی سمت کا تعین:سب سے پہلے تعلیمی پالیسیوں میں قائد اعظمؒ کے تین بنیادی اصولوں: ایمان ،اتحاد اورتنظیم کے پیش نظر بنیادی تبدیلیاں کرنی ہوں گی ۔ قائد کی نگاہ میں ایمان کا واضح مفہوم نظریۂ پاکستان کی روشنی میں نوجوان نسل کو جدید ترین علم کے ساتھ اپنی منزل اور مقصد حیات کا شعوردینا تھا، چنانچہ اسی مناسبت سے ورکشاپ، کھیل، ہم نصابی سرگرمیوں اور خود نصاب کے اندر ایسے موضوعات کا شامل کیا جانا لازمی ہےجو ان کو دین اور نظریۂ پاکستان سے روشناس کرانے کے ساتھ عملی زندگی میں راہ نمائی اور پاکستانیت کو رائج کرنے کی تربیت دے سکیں۔
نظریۂ پاکستان یا پاکستان آئیڈیالوجی کے بغیر ملکی ترقی ناممکن ہے۔ ۷۵سالہ تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ بے ایمانی، بددیانتی اور ملک سے بے وفائی ہمارا شعار بن چکا ہے ۔ قائد کے پہلے اصول یعنی ایمان کی بنیاد پر تعلیم کی تشکیل ِجدید کرنی ہوگی تاکہ ملک و قوم ترقی کرسکیں۔
۲-ملکی دستور اور انسانی حقوق سے آگاہی:تعلیم کا ایک بنیادی مقصد ایسے شہری تیار کرنا ہے جو اپنے دین اور ایمان کے ساتھ ملکی دستور کے وفادار اور اس کی عصمت کے امین ہوں۔ دستور وہ اہم وثیقہ ہے جو ملک اور قوم کی سمت کا تعین کرتا ہے اور ہر شہری کو یکسا ںحقوق کے ساتھ ملکی ترقی میں دستوری ذرائع سے کام کرنے کا پابند کرتا ہے۔
موجودہ صورت حال اس کے برعکس ہے۔ دستور کی خلاف ورزی نہ صرف پارلیمنٹ میں، عدلیہ میں ،انتظامیہ میں، تعلیم بلکہ سڑکوں پر ٹریفک قوانین کو دن رات توڑ کر کی جا رہی ہے۔ اس غیراخلاقی، غیر دستوری طرز عمل کو دستور کی روشنی میں تعلیمی اور ماحولی ذرائع سے تبدیل کرنا ہماری اہم ترجیح ہونا چاہیے۔ جو بدنظمی آج دیکھنے میں آتی ہے ،وہ اس سے پہلے کبھی نہیں تھی ۔تعلیم کے ذریعے پوری قوم کو صبر اور ایثار و قربانی کے ساتھ دستوری ذرائع پر عمل پیرا ہونے کی تربیت دیے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔
۳- سیاسی تربیت:تعلیم کا ایک مقصد نوجوانوں کو ملکی قیادت کے لیے تیار کرنا ہے، جو تعلیم گاہ میں انتظامی امور خود اپنے ہاتھوں سے سر انجام دیے بغیر نہیں آسکتی۔ دستور سے آگاہی اور اس کی حُرمت وعزت سے وابستہ تیسرا اہم کام نوجوان نسل کی سیاسی اور اخلاقی تربیت ہے۔ نوجوانوں کو سیاسی نظریات سے بالا تر ہو کر ملک ، قوم اور ملت کے اجتماعی مفاد کے لیے کام کرنے کی سوچ اور فکر سے آراستہ کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔نوجوانوں کو سیاسی مسائل کو اخلاقی ضابطہ میں اسلام کے اصولوں کی روشنی میں حل کرنے کا طریقہ سکھایا جائے ۔یہاں سیاسی تعلیم کا مقصد محض ہڑتال، دھرنا، جلوس نہ ہو بلکہ مکالمہ، مثبت فکر ،قائدانہ کردار، اصول پرستی ،حق اور عدل و انصاف کے لیے استقامت کے ساتھ کھڑا ہونا ہے تا کہ سیاسی جماعتوں کے سیاسی ونگ سیاسی جماعتوں کے محدود سیاسی فوائد اور مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ نہ بنیں۔ یہ نوجوانوں کی سیاسی تربیت کا صحیح ذریعہ نہیں ہیں۔ اس وقت چند جاگیردار خاندان اور مالی وسائل رکھنے والے سیاسی تاجر ۷۵ سال سے سیاست اور وسائل پر قابض ہیں۔اس کا حل نہ فوجی قبضہ ہے، نہ صحافت پر قدغن، بلکہ نوجوانوں کی صحیح تربیت ہے تاکہ وہ کل کے قائد بنیں اور قائد کے اصولوں: ایمان، اتحاد اور تنظیم کی بنیاد پر ملک و قوم کے مسائل کے حل کے لیے کھڑے ہوں۔
۴- نئی درسی کتب کی تیاری: اسلامی طرزِحیات اسی وقت رائج ہو سکتا ہے جب نظامِ تعلیم کی اصلاح ہوجائے۔ اس کے لیے محض دینیات نہیں بلکہ سماجی علوم کے ساتھ فزکس، کیمسٹری ،کمپیوٹر سائنس اورانفارمیشن ٹکنالوجی کو اسلامی اخلاقی بنیادوں پر استوار کیا جائے۔معاشرتی تبدیلی کے لیے ضروری ہے کہ ابتدائی تعلیم سے اعلیٰ تعلیم تک نئی درسی کتب تیار کی جائیں۔
یہ وہ بنیادی کام ہے جو نظریۂ پاکستان کے وفادار افراد ہی کر سکتے ہیں۔ ایسے ماہرین فن کو جمع کرنا جو طے شدہ وقت میں ہر نصابی مضمون پر جدید معلومات اور اسلامی اخلاقی اقدار کو یک جان کر کے نصابی کتب کی شکل میں پیش کریں، ایک بنیادی کام ہے۔ یہ مسلسل یکسوئی ،صبر و حکمت اور فنی قابلیت کے ساتھ کرنے کا کام ہے، جس کے لیے سب سے زیادہ ذمہ داری تحریک اسلامی کی ہے۔
۵- اساتذہ کی تربیت:اساتذہ کو جب تک جدید تحقیقی ذرائع اور مقامی مسائل سے متعلق تحقیق کی تربیت نہ دی جائے گی، ان کی تحقیق سے قوم کو کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا ۔ ہماری یونی ورسٹیوں، تحقیقی اداروں اور محققین کو اپنی تحقیق کے دائروں کو ملکی معیشت ، زراعت، صنعت، معاشرت، ثقافت، تجارت ، درآمد ات ، آئی ٹی ، ادویات سازی، غرض ہر شعبے کو تحقیق سے ہم آہنگ کرنا ہو گا ۔ یہ کلچر اس وقت ناپید ہے۔ہر جامعہ کو اپنے اساتذہ کو شعوری طور پر اس طرف متوجہ کرنا ہوگا تاکہ تحقیق کا رخ مقامی، اخلاقی ،معاشی، سیاسی، معاشرتی ،قانونی، ثقافتی، ابلاغ عامہ اور تعلیم کے مسائل کا حل ہو، محض نظری تحقیق نہ ہو۔
۶- جامعات کا تخصص:ہمیں یونی ورسٹیوں کو عمومی تعلیم کی جگہ خصوصی تعلیم کا مرکز بنانا ہوگا کہ وہ گہرائی میں جا کر عرق ریزی کے ساتھ وہ علم پڑھائیں جسے قرآن و سنت علم نافع قرار دیتا ہے۔ مسلمانوں کا دورِ عروج کلامی بحثوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ علم نافع کی بنیاد پر تھا۔ آج بھی ہمیں سپیشلائزیشن یعنی تخصص کی طرف جانا ہوگا، جس کا مقصد علوم وحی کی روشنی میں علم کے نئے اُفق تلاش کرنا اورانھیں زمینی مسائل کے حل کے لیے استعمال کرنا ہوگا۔ زراعت، آئی ٹی، ماحولیات، پانی کی منصوبہ بندی، شہری اور دیہی آبادیوں کو درپیش مسائل جیسے موضوعات پر یونی ورسٹیوں کو تحقیق کرکے قابل عمل اور قابل حل تجاویز پیش کرنی ہوں گی، تاکہ عوام الناس کو مشکلات سے نجات دلائی جا سکے اور ملک و قوم کو ترقی کی دوڑ میں عالمی سطح پر قابل عزت مقام دلایا جا سکے ۔
۷- خواتین کی اعلٰی تعلیم:خواتین کو ایسے ماحول میں اعلیٰ تعلیم دینا تعلیمی پالیسی کا فرض ہے جس میں وہ پردے کی اسلامی روایت کی پاسداری کرتے ہوئے محفوظ ،آزاد اور اپنا مثبت کردار ادا کرنے کے قابل ہوں۔ان کا تحفظ ایسی تعلیم گاہ میں ہی ہو سکتا ہے جہاں صرف خواتین ہوں۔ وہ اپنی جنس کی بچیوں کے ساتھ تعلیمی میدان میں مقابلہ کریں تاکہ انھیں ہراساں کرنے کا امکان نہ ہو اور مرد اساتذہ کے استحصال سے محفوظ ہوں۔ ان کے لیے علمی ، تحقیقی اور جسمانی نشو و نما کے لیے بہترین سہولیات کا فراہم کرنا ایک دینی ، ملی اور قومی فریضہ ہے۔
۸-جنسی تشخص:تعلیم کا ایک مقصد شخصیت کی متوازن اخلاقی تعمیر ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب قرآن و سنت اور انسانی عقل کے مطالبات کے پیش نظر تہذیبی تباہی کو روکنے کے لیے جامعات اپنا کردار ادا کریں۔ یونی ورسٹیوں کو عالمی دباؤ سے قطع نظر انسانی حقوق کی شیطانی تعبیر کو رد کرتے ہوئے انسانی فطرت اور اسلامی تصورِ انسان کی روشنی میں تعلیم دینی ہوگی تاکہ آیندہ نسل اس دجالی فتنہ سے بچ سکے ورنہ نہ صرف پاکستان بلکہ انسانیت کا مستقبل تباہی سے نہیں بچ سکتا۔
قرآن و سنت نے مرد اور عورت کی فطری تقسیم اور ان کے فرائض و واجبات کو متعین کر دیا ہے۔ ایسے افراد جو جسمانی طور پر کسی نقص کے ساتھ پیدا ہوں، ان کے لیے بھی انسانی حقوق وہی ہیں جو دیگر انسانوں کے لیے ہیں۔ تاہم، ان کے بہانے صحیح سالم جسم ودماغ رکھنے والوں کو گمراہ کن نفسانی یا نفسیاتی خلجان میں مبتلا کر کے یہ دروازہ کھول دینا کہ ایک پیدائشی مرد اگر چاہتا ہو تو جنس تبدیل کر کے عورت بن جائے ،یا ایک مکمل عورت ذہنی انتشار کے باعث اپنے آپ کو مرد بنانے کے لیے جنس تبدیل کروائے ، اس نوع کے افعال اسلام کی تعلیمات کی واضح خلاف ورزی ہیں۔ اس لیے مغرب سے آئے ہوئے اس فتنے کو پوری قوت اورعلمی دلائل کے ساتھ رد کرنا جامعات کا فرض ہے۔
۹-شدت پسندی اور جاہلی رویوں کی اصلاح :یونی ورسٹیوں کو اپنی نصابی، ہم نصابی سرگرمیوں اور مسلسل مکالمے کے ذریعے طلبہ میں قانون شکنی ،شدت پسندی کے رجحانات کو روکنا ہوگا۔ کسی بھی تعلیمی ماحول میں شدت پسندی کا وجود پورے معاشرے کو زہر آلود کر دیتا ہے۔ سیاسی وابستگیوں سے بلند ہو کر طلبہ کی سیرت و کردار کی تعمیر قرآن و سنت کی روشنی میں کرنی ہوگی، تاکہ ان میں عدل، توازن، اعتدال، میانہ روی، حق گوئی، صبر و حکمت کا صحیح شعور اور عملی مظاہرہ کی صلاحیت پیدا ہو۔
۱۰-مذہبی عبادت گاہوں کا احترام: تعلیم کے بنیادی تقاضوں میں یہ بات شامل ہے کہ قرآن کریم کے دیے ہوئے اصول لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ اور لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ کی روشنی میں اقلیتوں کی عبادت گاہوں کا احترام پیدا کیا جائے اور جذباتی رد عمل کی جگہ دینی تعلیمات کے تحت مسائل کے حل کی تربیت دی جائے۔ اسلام سے زیادہ عدل اور احترام کسی اور نظام زندگی میں نہیں پایا جاتا لیکن اس پہلو کو تعلیمی اور تدریسی ذرائع سے ذہن نشین کرانے کی ضرورت ہے۔
۱۱- ہر سطح پر نظامِ تعلیم کی اصلاح: تحریک اسلامی کے بنیادی مقاصد و اہداف میں یہ بات شامل ہے کہ تطہیر افکار اور تعمیر سیرت کے ذریعے اسلامی عادلانہ معاشرے کا وجود عمل میں لایا جائے۔ یہ اس وقت ممکن ہے جب تحریک اسلامی تعلیم اور تعلیمی نظام کی تشکیلِ نو کے لیے مؤثر علمی اور عملی کردار ادا کرے اور ہر سطح پر نصابی کتب ،معاون کتب جو نصابی موضوعات پر آسان انداز میں قرآن و سنت کی بنیاد پر علوم کی تدوینِ جدید کرتی ہوں، تیار کرے اور فنی طور پر ان کا معیار اتنا بلند ہو کہ خودوہ اپنے طلب گار پیدا کریں اور جامعات اور کالجوں میں انھیں متعارف کرایا جائے۔
یہ درسی کتب نئی نسل میں قرآن و حدیث کی اخلاقی تعلیمات کا ذوق و شوق، نوجوانوں کی تعمیر سیرت اور پاکستان سے نظریاتی وابستگی پیدا کریں گی ،جو وقت کی اہم ضرورت ہے۔ نوجوان جس رفتار سے ملک چھوڑ کر باہر جا رہے ہیں، اس رجحان کو روکنے کی بھی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ انسانی سرمایہ جو ملک کی ترقی کے لیے ضروری ہے، ملک کے اندر رہے اور ایک خوش حال اسلامی، فلاحی معاشرہ وجود میں آ سکے۔
سیاست جو کچھ بھی ہو، فی زمانہ بدنام شعبۂ زندگی ہے۔ ایک نوجوان تعلیم سے فارغ ہوا تو اس سے کسی بزرگ نے پوچھا: ’تم اب کیا کروگے؟‘ باہمت نوجوان نے کہا: ’میں سیاست اختیار کروں گا‘۔ بزرگ نے کہا: ’بیٹا! یہ کوئی پیشہ ہے،یہ تو بدنامی کا گھر ہے۔ اس میں داخل ہوکر آدمی راست باز اور دیانت دار نہیں رہ سکتا‘۔
سیاست کے بارے میں یہ تاثر صرف مشرق ہی میں نہیں، خود مغرب میں بھی پایا جاتا ہے۔ برطانیہ کے ایک اخبار نے رائے عامہ کو جاننے کے لیے سروے کیا کہ ’لوگ سیاست کو کیا سمجھتے ہیں؟‘ تو اس اخبار کے نمایندے نے ایک خاتون سے پوچھا: ’محترمہ، آپ کے خیال میں سیاست میں حصہ لینا چاہیے یا نہیں؟ اس نے رُک رُک کر جواب دیا: ’حصہ لینا چاہیے ___ لیکن زیادہ نہیں کہ اس میں وقت ضائع ہوتا ہے، مگر حاصل کچھ نہیں ہوتا‘۔
جس طرح ہمارے ہاں سیاست کو جھوٹ، مکر اور فریب سے تعبیر کیا جاتا ہے، بالکل اسی طرح یورپ میں بھی اسے دھوکے بازی کے ہم معنی سمجھا جاتا ہے۔ برطانیہ کے ایک رکن پارلیمنٹ نے کہا: ’جو آدمی سیاست کو ترجیح دیتا ہے وہ سچا مسیحی ہونا تو کجا ایک مہذب شخص بھی نہیں رہ سکتا‘۔
سیاست کے بارے میں یہ عمومی تصور ہے کہ یہ حصولِ اقتدار کا ذریعہ ہے۔ صرف وہی لوگ سیاست میں حصہ لیتے ہیں، جواقتدار، جاہ اور شہرت کے طالب ہوں۔ اور سچی بات یہ ہے کہ عام مشاہدہ بھی یہی ہے، جس کے دل میں شہرت، نام وری اور حب ِجاہ چٹکیاں لیتی ہے، وہ سیاست اور اسٹیج کا راستہ اختیار کرلیتا ہے۔ اس سے آدمی کے احساسِ برتری کو تسکین ملتی ہے، اور یہ بھی صحیح ہے کہ سیاست میں آدمی راست بازی اور اصول کے راستے پر قائم نہیں رہ سکتا۔ اس سلسلے میں انتخابی وعدوں اور بعد کے طرزِعمل کا تقابل کیجیے۔ ان ارکان اسمبلی کو دیکھیے، جو پیچھے رہ جانے والی پارٹی سے نکل کر آگے نکل جانے والی پارٹی میں جاشامل ہوتے ہیں۔ جہاں اقتدار دیکھتے ہیں، وہیں برات لے کر پہنچ جاتے ہیں۔ وقتاً فوقتاً غیرجماعتی سیاست کے نفاذ نے تو ہمارے ہاں اور بھی غضب ڈھایا۔ جب جماعتیں نہ رہیں تو پیسہ اور برادری چلنے لگی، اور اب سیاست نے ایک اور رنگ دکھایا ہے کہ آدمی کے پاس پیسہ اور ایوانِ اقتدار سے کوئی تعلق ہو تو وہ قوم کا قائد بن سکتا ہے۔
صدرفیلڈ مارشل محمد ایوب خان صاحب نے ایک روز گورنر ہائوس لاہور میں مولانا مودودی کو ملاقات کی دعوت دی۔ کچھ دیر تبادلۂ خیالات کے بعد، مشفقانہ انداز میں ایوب خان صاحب نے فرمایا: ’مولانا، یہ سیاست تو بڑا گندا کام ہے، آپ جیسے بلند کردار اور پاکیزہ نفس لوگ اس میں کیوں پڑگئے ہیں؟ آپ اسے چھوڑ دیں اور ملک کے اندر بھی اور دُنیا کے دوسرے ممالک میں بھی اسلام کی تبلیغ فرمائیں اور خلقِ خدا کی اصلاح کریں۔ سیاست، سیاسی لوگوں کو کرنے دیں، کیونکہ اس دلدل میں جو بھی قدم رکھے گا کیچڑ سے لت پت ہوگا۔ آپ مذہب کا اور تبلیغ کا کام کریں تو ہماری حکومت آپ سے تعاون کرے گی‘۔
مولانا مودودی نے جنرل ایوب صاحب کو جواب میں فرمایا: ’جنرل صاحب، آپ ٹھیک ہی فرماتے ہیں کہ اس وقت سیاست کو غلط کار اور خوفِ خدا سے عاری لوگوں نے ایک گندا کھیل بنادیا ہے۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ حکومت کی خرابی تمام خرابیوں کی جڑ ہے، اور اسی خرابی نے ہماری زندگی کے ہر دوسرے شعبے کو فلتھ ڈپو (گندگی کا مرکز) بنادیا ہے۔ اس لیے جب تک سیاست کو گندگی سے پاک نہیں کیا جائے گا، زندگی کے کسی شعبے کو بھی درست اور صحت مند نہیں بنایا جاسکے گا۔ اجتماعی نظامِ زندگی سے اس گندگی کو دُور کرنے کی کوشش ہمارے نزدیک کوئی سیاسی کام نہیں بلکہ یہ سراسر ایک دینی فریضہ ہے‘۔
ایوب خان صاحب نے فرمایا: ’مولانا، پھر یہ کام کرتے ہوئے تو آپ اپنے کو غلاظت سے آلودہ ہونے سے نہیں بچاسکتے‘۔
مولانا مودودی نے جواب دیا: ’اس میں کیا شک ہے کہ جو شخص بھی غلاظت اور سیوریج صاف کرنے کا کام کرے گا، وہ چاہے کتنی ہی احتیاط برتے، کچھ نہ کچھ چھینٹے تو اس کے کپڑوں پر ضرور پڑیں گے۔ لیکن اگر اس خوف سے سیوریج صاف ہی نہ کیا جائے تو پھر لامحالہ سارے شہر کی صحت خطرے میں پڑ جاتی ہے‘ [میاں طفیل محمد، مشاہدات، ص ۳۲۲، ۳۲۳]۔ ذرا زچ ہوکر ایوب صاحب نے کہا:’آج تک یہ بات میری سمجھ میں نہیں آرہی، کہ سیاست کا اسلام سے کیا تعلق ہے؟‘مولانا نے برملا کہا: ’جنرل صاحب، یہ تو صرف آپ کی سمجھ میں نہیں آرہا، مگر دوسری طرف پوری قوم کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی کہ فوج کا سیاست سے کیا تعلق ہے؟‘___ اور اس کے بعد دونوں میں گفتگو ختم ہوگئی۔
تاریخ بتاتی ہے کہ ہرمصلح کو اسی نوع کے اعتراضات کی بوچھاڑ کا سامنا کرنا پڑا۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے قوم سے کہا:’جھوٹے خدائوں کو چھوڑ کر سچے خدا کی عبادت کریں اور اپنے مال سے اپنے معذور اور نادار بھائیوں کی مدد کریں‘ تو انھوں نے پلٹ کر کہا: ’کیا تیری نماز تجھے یہ سکھاتی ہے کہ تو ہمارے عقائد میں دخل دے اور ہم کو اپنے مال و دولت کے خرچ کے طریقے بتائے؟‘
حضر ت شعیب علیہ السلام نے جواب میں فرمایا: ’’میں تو تمھاری اصلاح کرنا چاہتا ہوں، جہاں تک بھی میرا بس چلے‘‘۔
اللہ کے نیک بندے سیاست میں اس مقصد کے لیے داخل ہوتے ہیں اور اسی مقصد کو لے کر جماعت اسلامی سیاست میں گئی۔ وہ اقتدار کے لیے نہیں بلکہ اصلاح کے لیے سیاست میں داخل ہوئی۔ بلاشبہہ اس میدان کو اہل ہوس نے بدنام کردیا ہے، لیکن مولانا رومؒ کے بقول:
کار پاکاں را قیاس ازخود مگیر
گرچہ باشد در نوشتن شیر شِیر
پاکیزہ لوگوں کو اپنے اُمورپر قیاس مت کرو۔ شیر اور شِیر لکھنے میں ایک ہیں، لیکن معنی میں ان کے درمیان زمین و آسمان کا فرق ہے۔ شیر پھاڑنے والا درندہ ہے، جب کہ شِیر (دودھ) حیات بخش غذا ہے۔
کسی دینی اور اصولی جماعت کا سیاست میں آنا اہل دنیا کے لیے ہمیشہ سے تعجب کا سبب رہا ہے۔ ایک انٹرویو نگار نے مولانا مودودی سے دریافت کیا: ’آپ نے سیاست کیوں اختیار کی؟‘ مولانا نے جواب میں فرمایا:
کیا سیاست بھی کوئی پیشہ ہے جسے اختیار کیا جائے؟___ دراصل سیاست کو لوگوں نے آج کل اُوپر چڑھنے کا زینہ اور شہرت کا ہتھکنڈا بنالیا ہے۔ میں نے سیاست اختیار نہیں کی۔ جو لوگ اپنا کوئی مقصد ِ زندگی رکھتے ہیں، وہ اجتماعی زندگی کے معاملات میں کچھ اختیار کرکے دل چسپی نہیں لیا کرتے بلکہ ان کے مقصد کا یہ تقاضا ہوتا ہے کہ وہ اس مسئلے میں دلچسپی لیں، جس کا اثر ان کے مقصد پر موافق یا مخالف پڑتا ہو___میں نے جب اسلام کو شعوری طور پر قبول کیا، تو اس طرح لامحالہ میری زندگی کا یہ مقصد بن گیا کہ میں اسلام کی نشاتِ ثانیہ کے لیے کوشش کروں اور پھر اس نشاتِ ثانیہ کے لیے جس جس پہلو میں بھی کام کرنے کی ضرورت پیش آتی گئی، اس کی طرف عین اپنے مقصد کے تقاضے سے توجہ کرتا چلا گیا۔ اس کے لیے یہ بھی ضرورت تھی کہ اسلام کو غالب کرنے کی راہ میں جوجو طاقتیں مزاحم ہیں، ان کی مزاحمت کو دُور کیا جائے۔یوں آپ سے آپ اجتماعی زندگی کے مختلف پہلوئوں کی طرف توجہ کرنی پڑی،بغیر اس کے کہ کسی روز بیٹھ کر یہ ارادہ کرتا کہ مجھے فلاں چیز اختیار کرنی چاہیے۔[انٹرویو نگار، علی سفیان آفاقی، ہفت روزہ اقدام، لاہور، اکتوبر ۱۹۵۳ء]
یہ ایک بامقصد شخص کے سیاست میں داخل ہونے کا فطری عمل ہے۔ مولانا مودودیؒ سیاست میں مقصد ِزندگی کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے داخل ہوئے۔ جہاں جہاں مقصد کو پیش قدمی کی ضرورت محسوس ہوئی وہاں قدم زن ہوتے گئے۔ انتخابات کا وقت آیا تو محسوس ہوا کہ جہاں دُنیادار نمایندے اپنا پروگرام قوم کے سامنے پیش کر رہے تھے، وہاں اگر دین کا پیغام بھی قوم تک پہنچا دیا جائے تو کیا یہ بہتر نہیں ہوگا؟ چنانچہ جماعت اسلامی انتخابی میدان میں بھی اُتر آئی۔ لیکن مولانا مودودیؒ کے نزدیک خود دین اور سیاست کا بھی تقاضا ہے کہ اس میں دخل دیا جائے۔ قرآن میں دین کو قائم کرنے کا حکم ہے اور اس حکم کی تعمیل نہیں ہوسکتی جب تک اقتدار دین کے تابع نہ ہو۔ اسی طرح حکومت زبردست اثرات کی حامل ہوتی ہے۔ یہ خراب ہوجائے تو معاشرے کو خرابی سے نہیں بچایا جاسکتا۔ اسی لیے مولانا نے فرمایا: ’حکومت کی خرابی خرابیوں کی جڑ ہے‘۔ پھر مولانا مودودیؒ نے ایک مرتبہ تقریر کرتے ہوئے فرمایا:
دین قائم نہیں ہوسکتا جب تک معاشرے کی اجتماعی قوت اصلاح پذیر نہ ہو۔ ناگزیر ہے کہ وہ طاقت صالح اور رُوبہ خیر ہو، جو ملک اور معاشرے کے تمام وسائل و ذرائع پر قبضہ و اقتدار رکھتی ہو۔ جب ہم یہ بات کہتے ہیں تو ہمیں سیاست کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ لیکن میں پوچھتا ہوں کہ اسلام کے مکمل ہونے کا اعلان مکہ میں ہوا تھا، یا مدینے میں؟ اللہ کا دین اس وقت تک قائم نہیں ہوا جب تک آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی حکومت قائم نہیں کرلی اور اقتدار کی طاقت کو اسلام کے لیے وقف نہیں کردیا۔ اسلامی نظام مکہ میں قائم نہیں ہوا تھا، مدینہ میں ہوا تھا۔
۱۹۷۰ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی شریک ہوئی تو اس پر ٹھیک اس اندازسے الزامات اور اتہامات کی بوچھاڑ کردی گئی، جس طرح دعوتِ حق سے اپنے اقتدار کو خطرے میں دیکھ کر ہر مقتدر طبقہ، داعی حق پر حملہ آور ہوتا ہے: ’یہ تو اقتدار حاصل کرنے کی چال ہے‘۔
مولانا مودودیؒ نے ان تمام الزامات کے جواب میں فرمایا: بلاشبہہ ہم اقتدار چاہتے ہیں، لیکن اپنے لیے نہیں اسلام کے لیے چاہتے ہیں۔ اور یہی چیز جماعت اسلامی کی سیاست کو دُنیادار سیاست دانوں اور سیاسی کارکنوں سے ممتاز اور ممیز کرتی ہے۔
جماعت اسلامی کسی ذاتی غرض کے لیے نہیں بلکہ خیرخواہی کے اصول و مقصد کے حصول کے لیے سیاست میں آئی۔ اس کی انتخابی مہم حقیقت میں ایک دعوتی مہم ہوتی ہے اور اس کو اس کی کبھی طلب نہیں ہوئی کہ وہ اصول توڑ کر یا دعوت سے دست بردار ہوکر کامیابی حاصل کرے۔ ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں، جب جماعت اسلامی کا اُمیدوار چند ووٹوں سے رہ گیا۔ وہ ووٹ خریدنے کے لیے تیار ہوتا تو بآسانی جیت سکتا تھا، مگر اس نے ناکامی کو ترجیح دی لیکن اصول شکنی نہیں کی۔ کیونکہ جماعت اسلامی کے نزدیک اصل کامیابی انتخابات میں کامیابی نہیں، بلکہ دعوت، اصول اور اخلاق پر استقامت میں ہے، یعنی آخرت کے ہرفائدے کو دُنیاوی فائدے کے مقابلے میں سچ جاننا اور ہرخوف اور لالچ کے مقابلے میں اپنے موقف سے سرموانحراف نہ کرنا ہی اس سیاست کا دائرئہ کار ہے۔
تاریخ اس بات پر بھی شاہد ہے کہ جن دُنیادار پارٹیوں نے کسی مقصد کے لیے سیاست کی، انھوں نے بھی اصولوں کے مقابلے میں اقتدار کو ٹھکرانے کی بڑی ولولہ انگیز مثالیں پیش کی ہیں۔
دُنیا نے سیاست کو ہمیشہ غیر اخلاقی اور غیراصولی کھیل سمجھا ہے۔ جماعت اسلامی نے پہلی مرتبہ عملاً دکھایا کہ سیاست میں اخلاق اور اصول کا دامن چھوڑے بغیر بھی حصہ لیاجاسکتا ہے اور ملک کو حقیقی ترقی اس وقت ملتی ہے، جب سیاست میں اخلاق اور اصول آتے ہیں۔
جماعت اسلامی کی سیاست میں دوسری بڑی خدمت یہ ہے کہ اس نے نہ بکنے والے اور نہ جھکنے والے امانت دار، وعدے اور عہد کے سچّے، اور اخلاق و اصول کے پابند سیاسی کارکن پیدا کیے۔ اپنی دعوت کا عملی نمونہ بن کر دکھانا، یہ جماعت اسلامی کا بنیادی اصول ہے۔ مولانا مودودیؒ فرماتے ہیں:
صرف اتنی بات کافی نہیں کہ ایک صحیح نظریہ موجود ہے بلکہ ایسے لوگ درکار ہیں جو اس نظریے پر سچا ایمان رکھتے ہوں۔ ایک صحیح نظریے کی پشت پر ایسے صادق الایمان لوگوں کی جماعت جب تک نہ ہو، محض نظریہ خواہ کتنا ہی بلندپایہ ہو، کتابوں کے صفحات سے منتقل ہوکر ٹھوس زمین میں کبھی جڑ نہیں پکڑ سکتا۔ زمین اتنی حقیقت پسند ہے کہ جب تک کسان اپنے صبر، اپنی محنت، اپنے بہتے ہوئے پسینے اور اپنی جفاکشی سے اس پر اپنا حق ثابت نہیں کردیتا، وہ لہلہاتی ہوئی کھیتی غلّہ اُگلنے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔
مولاناؒ اکثر فرمایا کرتے تھے:
ہمارے لیے خارج سے بڑھ کر باطن اہمیت رکھتا ہے… ہمیں ایک عوامی تحریک چلانے سے پہلے ایسے آدمی تیار کرنے کی فکر کرنی چاہیے، جو بہترین سیرت کے حامل ہوں، اور ایسی اعلیٰ درجے کی دماغی صلاحیتیں بھی رکھتے ہوں کہ تعمیر افکار کے ساتھ اجتماعی قیادت کے دوہرے فرائض بھی سنبھال سکیں۔ان کے قول و فعل میں تضاد نہ ہو، اور ان کے وعدوں اور دعوئوں میں مبالغہ آمیزی نہ ہو۔
جماعت اسلامی کو سیاست میں حصہ لیتے وقت ایک مدت ہوچکی ہے۔ اس کے بعض افراد بڑی بڑی ذمہ داریوں پر فائز ہوئے۔ ان کے بارے میں اور دسیوں شکایات ہوں گی لیکن کوئی ان پر امانت میں خیانت کا الزام عائد نہ کرسکا۔ جماعت اسلامی کے دس بیس نہیں سیکڑوں کارکن گرفتار ہوئے، لیکن ایک مثال نہیں دی جاسکتی کہ جماعت کے کسی ادنیٰ کارکن نے بھی معافی مانگی ہو۔
ہندستان میں دیکھتے ہیں کہ اندراگاندھی کی ایمرجنسی [۷۷-۱۹۷۵ء: ۲۱ ماہ] کے دوران اپوزیشن کی دیگر پارٹیوں کے ساتھ وہاں کی جماعت اسلامی بھی اس کی زد میں آگئی اور اس کے سیکڑوں کارکن گرفتار کر لیے گئے تب غیرمسلم انتظامیہ کو پہلی مرتبہ سچے مسلمانوں سے واسطہ پڑا۔ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ جہاں سیاسی کارکن جیل کے ضابطے توڑنے میں کوئی تامل نہیں کرتے، وہاں یہ لوگ ضابطہ توڑنے کا موقع پاکر بھی نہیں توڑتے۔ پولیس نے غلطی سے کسی اور کو پکڑ لیا تو اصل مطلوب اَزخود تھانے پہنچ گیا۔
دسمبر۱۹۷۱ء میں بالکل یہی منظر بنگلہ دیش بننے کے بعد مجیب الرحمان کی فسطائی حکمرانی سے لے کر ان کی بیٹی حسینہ واجد کے دورِ ستم تک میں ساری دُنیا نے دیکھا کہ جماعت اسلامی کے کارکن نہ پھانسیوں سے ڈرے، نہ قید، گولی اور کاروبار کی تباہی سے اُن کے قدم ڈگمگائے اور نہ کارِ سیاست میں ان کے دامن پر کوئی دھبہ لگا۔
دنیادار لوگ، سیاست میں سچائی اور اخلاق کا مذاق اُڑاتے ہیں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی، جب تک اس کی سیاست اور اجتماعی زندگی اصولوں کی پابند نہ ہو۔جماعت اسلامی جن اصولوں کے ساتھ سیاست میں داخل ہوئی، ان کی روشنی میں موجود منظرنامے پر ایک نگاہ ڈالیں تو دو سوال پیدا ہوتے ہیں:
[ترمیم و اضافہ: س م خ]
ٹونی بلیر انسٹی ٹیوٹ فار ر گلوبل چینج (ٹی بی انسٹی ٹیوٹ)کی رپورٹ کے چار بنیادی ابواب (۲ تا ۵) کا جائزہ پچھلی قسط میں لیا گیا ہے۔ اب ہم اس کے پہلے اورچھٹے ابوابlخصوصی خلاصہ اور lحاصلِ کلام پر گفتگو کریں گے۔ یہ دونوں ابواب مختلف ناموں سے ایک ہی نوع کے ہیں اور دونوں ابواب کم و بیش ایک ہی جیسے قائم کردہ مقدمات اور حاصل نتائج کی تکرار اور ایک جیسے لوازمے پر مشتمل ہیں۔
اس مضمون کے پہلے حصے میں ہم اسلام کی احیائی تحریکات کے سیاسی پہلو کے لیے استعمال ہونے والی اصطلاحات کے خلط مبحث پر گفتگو کریں گے۔اِس کے دوسرے حصے میں کچھ مفروضوں کا جائزہ لیا جائے گا، جن کی بنا پر زیرِ تبصرہ رپورٹ اپنے استدلال کی عمارت تعمیر کرتی ہے۔ تیسرے حصے میں مرکزی موضوع یعنی ’ماڈریٹ مسلم سیاست‘ کو زیر بحث لائیں گے کہ یہ کیا چیز ہے، جس کے مسلم معاشروں میں نفوذ کےلیے مغرب بے چین ہے؟چوتھے نمبر پر اسلام کی اُن چار بنیادی اصطلاحات کی وضاحت کی جائے گی، جن کے مفہوم و معانی کو بگاڑنے پر ہی اس رپورٹ کی مطلب براری منحصر ہے۔پانچویں حصے میں رپورٹ کے دعوے کےمطابق اِس تحقیق کے سب سےنمایاں کام یعنی گورسکی سے مستعارلیے فریم ورک کو دیکھیں گے۔
اللہ کا دین، اسلام اپنی بنیادی ساخت میں انتہائی ہمہ گیر ضابطۂ زندگی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام، نمرودسےاور موسیٰ علیہ السلام، فرعون سے ٹکراتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سردارانِ قریش کے ساتھ معرکہ برپا ہوتا ہے۔ سردارانِ مکہ کا سارا خوف اس بات میں مضمر تھا کہ اسلام اُن کے ہاتھ سے اُن کی سرداری ، اُن کی تہذیب، اُن کی معیشت اور اُن کی سیاست سمیت اُن کا پورا نظام لے کر ایک اللہ اور اُس کے نمایندے کے ہاتھ میں منتقل کرنا چاہتا ہے۔ مستشرقین کا یہ کہنا کہ مکہ میں اسلام محض ایک الہامی مذہب تھا اور مدینے پہنچ کر یہ سیاسی ہو گیا۔ ان کا یہ مفروضہ اپنی جڑ بنیاد میں بالکل بے بنیاد ہے۔ صحیح صورت یہ تھی کہ مکہ میں اسلام کی سیاست کمزوری اور ضعف کی حالت میں تھی، اِس لیے بہت واضح نہیں ہوئی۔ مدینے میں اسلام کے ہاتھ میں اقتدار تھا۔ اجتماعی زندگی کے نظامِ کار کو چلانے کے اصولوں کو اگر سیاست کہا جاتا ہے تو یہ سیاست دونوں جگہ بھرپور تھی، مگر اپنے وسائل و مسائل کے مطابق، کیفیت اور کمیت کے لحاظ سےمختلف !
خلافت راشدہؓ سے ملوکیت میں تبدیلی اور مسلمانوں کے قائدین کا رفتہ رفتہ اہلِ دین اور اہلِ سیاست کے دو گروہوں میں بٹ جانے کے نتیجے میں مسلمانوں کے ہاں معاملاتِ حکومت سے دُوری اور صاحبانِ اقتدار کی خلافِ اسلام حرکتوں پرگرفت نہ کرنےکا ایک ایسا طویل عرصہ گزرا، جس میں یہ محسوس ہونے لگا کہ اہلِ دین کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اسی دورِ انحطاط سے استدلال کرکے ٹی بی انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ نے اپنے آخری باب ’اسلام اور سیاست کے درمیان تاریخی حرکیات‘ کے اہم نکات میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ’’سوائے دورِ نبوتؐ اور خلافت راشدہؓ کے زمانے کے، اسلام اور سیاست کبھی باہم مدغم نہیں ہوئے، بلکہ اس پورے دور میں مسلمان حکومتیں محض اعترافی مسلم حکومتیں تھیں نہ کہ کامل اسلامی۔ رپورٹ کااصرار یہ ہے کہ ’’یہی اصل اسلامی سیاست کی تصویر ہے، رہا دورِ نبوتؐ تو اُس کو تو واپس نہیں لوٹایا جاسکتا!‘‘ (ص۶،۲۴) اس طرح یہ رپورٹ پیغام دے رہی ہے: ’’پس، اے اسلام کے علَم بردارمسلمانو ، اپنے 'ترکِ سیاست والے دور کی جانب لوٹ جاؤ اور زمین کی بادشاہی ہم نے چھین لی ہے ، سو ہمارے ہی پاس رہنے دو!‘‘
اللہ کے کلام، قرآن مجید کی تلاوت و تدبر کے تسلسل سے ہر دور میں امت میں کچھ نہ کچھ جرأت مندلوگ دین و سیاست کی تقسیم کے خلاف بولتے رہے، یہاں تک کہ مجدد الف ثانی، شاہ ولی اللہ محمد بن عبدالوہاب، علّامہ محمد اقبال، حسن البنا، سعیدنورسی، سیّد مودودی، سیّدقطب، مالک بن نبی اور علی شریعتی وغیرہ اور اِن کے ہزاروں، لاکھوں ساتھیوں نےبیسویں صدی کے وسط تک دین و سیاست کی دوئی کے تصور اور ترکِ سیاست کی جبری روِش سےمسلم امت کے اذہان کو صاف کر دیا۔
زمین کے مختلف خطوں میں مذکورہ شخصیات کی برپا کردہ اقامتِ دین کی تحریکات کو مستشرقین نے ’پولیٹیکل اسلام‘ یا ’سیاسی اسلام‘ کا نام دیا۔’اسلامیت‘ کی اصطلاح کو اکثر ’سیاسی اسلام‘ کے ساتھ بدل کر استعمال کیا جانے لگا۔ چونکہ بیسویں صدی پر لفظ ’ازم‘ (ism) چھایا ہوا تھا: کمیونزم، سوشلزم، لبرلزم، سیکولرزم وغیرہ، چنانچہ میدانِ سیاست میں اسلام کے غلبے کے لیے اُٹھنے والی آوازوں کو ’اسلام ازم‘ بھی کہا جانے لگا۔ کمیونزم کے ماننے والے کمیونسٹ بنے تو اسلام کا اقتدار چاہنے والے’اسلامسٹ‘ کہلائے ۔ یہ تمام اصطلاحات ماہرینِ سیاسیات و صحافت کی تھیں۔
یہاں پر قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ خود مسلمان اہلِ علم اور مفکرین و مفسرینِ قرآن و حدیث نے، جو میدانِ سیاست میں سرگرمِ عمل تھے، اِن اصطلاحات کو کہیں استعمال نہیں کیا۔ دو مختلف خطّوں میں مختلف زبانیں بولنے والے سیّد مودودی اور سیّد قطب میدانِ سیاست کے بھی رمزشناس تھے اور دونوں ہی عصرِ حاضر کے عظیم مفسر قرآن ہونے کے ساتھ ساتھ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سنت کے عین مطابق عملی سیاست میں بھرپور حصہ لینے والے تھے۔ اسی جرم میں دونوں کو سزائے موت سنائی گئی۔ اِن دونوں نے ان اصطلاحات کو نہ ایجاد کیا اور نہ استعمال کیا۔
اہلِ مغرب کی طرف سے ’پولیٹیکل اسلام‘ ایک انقلابی فکر کا نام قرار دیا گیا تھا۔لبرل اور سیکولر لوگ، مسلم دنیا میں ابھرتے ہوئے اسلام سے زیادہ پریشان ہوئے۔چنانچہ اسلام کے احیاء کی تحریکات کواپنے ہی کلمہ گو آمروں (ڈکٹیٹروں): کمال اتاترک، امان اللہ، رضا شاہ پہلوی، ایوب خان، جمال ناصر، حبیب بورقیبہ، حسن البکر،صدام حسین، حافظ الاسد، پرویز مشرف ، حسینہ واجد اور جنرل سیسی جیسے لبرل، سیکولر اور قوم پرست لوگوں سے مختلف مقامات پر سابقہ رہا ہے ۔
ٹی بی انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ، جب اوپر مذکورہ جابرحاکموں جیسے لوگوں کو مسلمانوں کے قابلِ تقلید اور نامور قائدین کی حیثیت سے پیش کرتی ہے، تو یہ رپورٹ کھلم کھلا روحِ اسلام کی رُسوائی کے سوا کچھ نہیں دکھائی دیتی۔اسی زمانے میں قوم پرستی کی تحریکات نے دنیا میں جڑ پکڑی۔ اِن تمام سیاسی و سماجی دھاروں نے اسلام کی احیائی تحریکات کو سخت مزاحمت سے دوچار کیا۔ یہاں تک کہ بیسویں صدی کا آخر آپہنچا۔ اس زمانے میں اِن تحریکات سے متاثر، مگر ان کے بڑے دھارے سے کٹے ہوئے کچھ گروہوں کے پُرتشدد رویوں نے بے جا طور پر اُلٹا انھی لاتعلق اور ناقد تحریکوں کو ’مسلم انتہا پسند/اسلام پسند‘ کے نام سے منسوب کردیا۔سامراجی اور غاصب قوتوں نے آزادی کی جنگوں میں مصروف افغانستان، فلسطین، کشمیر، چیچنیا،اراکان، بوسنیا اور مورو وغیرہ میں مصروفِ جدوجہد مسلم حُریت پسندوں کو ’دہشت گردی‘ سے جوڑ دیا۔ اس طرح یہ جائز حقِ خودارادیت و حقِ آزادی کے حصول میں مصروف عسکری تحریکات اُوپر بیان شدہ تمام مذموم اصطلاحات کے خلط مبحث کا شکار ہو گئیں۔
اس لیے لازم ہے کہ مسلم ماہرینِ دین و سیاست اور یونی ورسٹیوں میں اس فن کے پروفیسروں اور دیگر صاحبانِ علم خاص طور پر اس اتہامی، الزامی اور ابلاغی حملے کے توڑ کے لیے سرجوڑ کر بیٹھیں اور اصطلاحات کو معیاری طور پر متعین (standardise) کرکے دنیا کے سامنے رکھ دیں۔ جب تک یہ کام ہم خود نہیں کریں گے تو وہی کچھ ہوتا رہے گا، جس کا نوحہ اُوپر پڑھا گیا ہے۔
رپورٹ کا یہ کہنا کہ ’’اسلام کی سیاست میں عمل داری دنیا کے دیگر مذاہب سے کوئی منفرد یا غیر معمولی بات نہیں ہے‘‘(ص۵)۔
۱- یہ بات امرِواقعہ کے لحاظ سے ہرگز درست نہیں ہے۔ تمام مذاہب میں مذہب اور سیاست کی کامل علیحدگی کا ایک تصور ہے،جب کہ رپورٹ میں یہ تسلیم کیا گیا ہے: ’’مسلم دنیا میں سرے سےایسا کوئی تصور ہی نہیں ہے‘‘(ص۳۵)۔ مصنّفین کا یہ کہنا کہ ’’ماڈریٹ مسلم سیاست، پوری اسلامی تاریخ کا معمول رہی ہے‘‘(ص۳۶) زمینی حقائق کے برخلاف ہے۔ تاہم، اس دعوے کی تائید کے لیے رپورٹ کے آخر میں اسلام کی سیاسی تاریخ کا حلیہ 'سدھارنے کے لیے آٹھ صفحاتی ایک ضمیمہ شامل کیا گیا ہے(ص۳۹)، جس کے برسرِ غلط ہونےکو تسلیم کرنےکے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ خلافت کا ادارہ اس کم زور سی ’ماڈریٹ ڈوری‘ سے کم و بیش ایک ہزار تین سو برس تک کیسے لٹکا رہا؟
رپورٹ یہ بیان بھی پیش کرتی ہے کہ’’دیگر مذاہب کی مانندمسلمانوں کو چاہیے کہ سیاست کے دائرے میں (ماڈریٹ انداز سے) وہ اپنا قانونی حق استعمال کریں تاکہ اُن کی وہ موروثی اقدار جن کی گہری جڑیں تاریخ میں ثبت ہیں برقرار رہیں‘‘(ص۴)۔اس تضاد بیانی کو کیا نام دیا جائے کہ ہماری اقدار اور دین و شریعت پر تیشہ چلا کر اُن کی بنیادی اصطلاحات تک کے معانی و مفہوم بدلنے کی سعی فرمائی اور پھر ناصحانہ انداز سے ہم ہی کو تبدیل شدہ مورثی اقدار کو جاری کرنے کی نصیحت کی جارہی ہے!
اس رپورٹ کا بنیادی مقصد’ماڈریٹ مسلم سیاست‘ کو ایک تیسرے راستے پر چلانا ہے۔ جیسے یہ ہے کہ ’’ماڈریٹ طبقہ موجود تو ہےلیکن اسے مغرب کی عالمی طاقتوں کی جانب سے [سیاسی، اخلاقی،مالی]ہمت افزائی کے ذریعےمضبوط تر کرنے کی ضرورت ہے۔ ماڈریٹ مسلم سیاست درحقیقت ایک ایگزٹ ریمپ ہے۔ یہ راستہ، یہ ریمپ ہمارے ڈھب کے پسندید ہ و مطلوبہ مستقبل کے تکثیری(pluralist) اور تہذیبی (civilisational) اسلام کے لیے ایک مضبوط قوت ہوسکتا ہے اور اس میں دین کی احیائی تحریکوں کے زوال کے بعد اسلامی دنیا کے مستقبل کا پرچم بردار بننے کی صلاحیت ہے‘‘(ص۸، ۳۶)۔
یاد رہنا چاہیے کہ مسلمانوں میں ’ماڈریٹ طبقے‘ سے مراد ’لبرل سیکولر طبقہ‘ ہے، جو اسلام سے بے زار تو ہے مگر اپنی منافقت اور فطری بزدلی کے سبب اتنی جرأت نہیں رکھتا کہ اسلام سے لاتعلقی کا اعلان کرکے مرتد ہوجائے۔ یہ رپورٹ بیان کرتی ہے:’’ اُن کا مدعا اسلامی تحریکات (اسلامیت)کے خلاف مزاحمت جاری رکھتے ہوئے ماڈریٹ مسلم سیاست کی حقیقت اور جواز کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کرنا ہے‘‘۔
جس پر چاہتے ہیں رپورٹ کے مصنّفین ’انتہاپسندی‘ کا الزام تھوپ دیتے ہیں۔ ساری دنیا کی حکومتوں اور اُن کے پالیسی ساز اداروں اور افراد کو مسلمانوں کے قائم و مستحکم اداروں کے خلاف بھڑکاتے اور مسلمان علمی و فکری تنظیموں کے خلاف جنگ کی دھمکیاں دیتے ہیں اور پالیسی سازوں کو مسلمانوں سے اِس جنگ کو جیتنے کے لیے اُکساتے ہیں۔(ص ۷،۹،۳۶،۳۷)
رپورٹ یہ مقدمہ پیش کرتی ہے: ’’مذہب اور سیاست کے درمیان ایک صحت مند تعلق کی راہ ہموار کرنے اور(بشمول) قومی ریاستوں اور بین الاقوامی نظام (ورلڈ آرڈر) کی بقا کے لیے، ’جدید دنیا کے مذہبی جواز‘ (theological legitimacy of the modern world) اور اُس کی سالمیت کی لازمی ضمانت درکار ہے‘‘۔ سوال یہ ہے کہ ’جدید دنیا کے مذہبی جواز‘ کو کس نے مرتب کیا ہے؟ کس بین الاقوامی ادارے نے اس کو منظور کیا ہے اور کن ممالک نے دستخط کیے؟ مغرب کے ’بدمعاش‘ (Rogue) حاکم اپنے ذہن میں ’ جواز‘ کا ایک خاکہ تراش کر اُسے ساری دنیا پرمسلط کرنا چاہتے ہیں۔
رپورٹ صرف ان مباحث تک محدود نہیں رہتی بلکہ اپنے اس’ جواز‘ کو ’انسانیت‘ بلکہ درحقیقت اپنی حاکمیت کو دوام بخشنے کے لیے اسلام کی چار اداراتی اصطلاحات lامّت ،lخلافت، lشریعت اور lجہاد کا اپنی مرضی، اپنے خیالات و افکار کے مطابق، اصلی معانی کے برعکس نئے معانی دے کر اُن کا حلیہ بگاڑنے کے درپے ہے۔ یاد رہے، یہ محض چار اصطلاحات یا پالیسیاں نہیں ہیں، یہ اسلام کے مستحکم ادارے ہیں، جس طرح عدالتیں، مساجد اور نکاح معاشرے میں ایک اداراتی حیثیت رکھتے ہیں، اسی طرح یہ چاروں اصطلاحات اسلامی معاشرے میں اپنا ایک رول رکھتی ہیں۔
رپورٹ آج کی دنیا کے لیے اپنے خود ساختہ مذہبی جواز کی ضمانت مہیا کرنے کے لیے اسلام کے چار بنیادی ترین اداروں کو مسمار کرنا چاہتی اور یہ بیان کرتی ہے: ’’چار پالیسیاں ہیں، جو مذہب اور سیاست کے صحت مند امتزاج کو فروغ دے سکتی ہیں۔ذیل میں ان کا خلاصہ اسلام کے چار اہم پہلوؤں کے گرد کیا گیا ہے، جو اس وقت انتہا پسندوں اور اعتدال پسندوں کے درمیان ٹکرائو کا سبب ہیں‘‘(ص۸)۔ رپورٹ اس بیان کے بعد اِن چاروں اصطلاحات کی بے سروپا ، من پسند تعریفات پیش کرتی ہے، جنھیں ذیل میں اُن کی موشگافیوں پر تبصرےسے قبل ’نقلِ کفر،کفر نباشد‘ کے طور پر پیش کیاجارہا ہے:
۱- اُمّت (قوم):’’پالیسی سازوں کو چاہیے کہ وہ مسلم کمیونی ٹیز کو لازمی طور پرپھلنے پھولنے کی اجازت دیں۔ یہ اجازت مسلم انتہا پسندوں کی نفی کے ساتھ مشروط ہونی چاہیے، اُن کے نظریات مسلمانوں کو غیر مسلموں کے خلاف کھڑا کرتے ہیں۔ مسلمان ملکوں میں قومیت کے مضبوط احساس کی ضرورت ہے۔ اس لیے جدید قومی ریاستوں کو اپنی [قومی]اقدار پر زور دینا چاہیے اور احساس پیدا کرنا چاہیےکہ اس دنیا پر دوسرےبڑے مذاہب کا بشمول لا دینیت اور انسانیت پرستی کے فلسفوں کا بھی حق ہے‘‘ (ص۸، ۳۶)۔
رپورٹ، ڈیڑھ ہزار برس سے جاری عالمی امت کو ' مسلم کمیونٹیوں میں تبدیل کردینا چاہتی ہے۔ اس رپورٹ سے قطع نظرمغرب کے ماہرین سیاسیات اور مستشرقین کی ایک قابلِ ذکر تعداد ایسی ہے، جو اخوان المسلمون اور جماعت اسلامی کو بھی القاعدہ اور داعش کی فہرست میں شامل کر کے ’انتہا پسند‘ کہتے ہیں۔ ایسےہی ماہرین کو اس رپورٹ میں نقل کیا گیا ہے ۔ اس ذہنی پس منظر میں امت سے اخوان اور جماعت کو نکال دیجیے، سلفیوں، ایران کے آیات اللہ اور افغان طالبان کو بھی نکال دیجیے کہ رپورٹ میں ان سب سے نفرت کا اظہار ہوتا ہے، تو بتایا جائے کہ آپ کی تعریف کردہ امت میں باقی بچا کیا؟
۲- خلافت (گورننس):’’پالیسی سازوں کو واضح ہونا چاہیے کہ اسلام میں خلافت سے مراد گڈ گورننس ہے، جس میں قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عمل داری ،نرمی اور رحم دلی کا رنگ لیے ہوتی ہے۔ قرون وسطیٰ کی فرسودہ خلافت یا انتہا پسندوں کی اسلامی ریاستوں کے احیاء کو خلافت کہنے یا سمجھنے پر اصرارکی کوششوں کی غیر مفاہمانہ مزاحمت کی جانی چاہیے‘‘ (ص۹، ۳۷)۔
ٹی بی انسٹی ٹیوٹ نے یہ حق کس طرح حاصل کرلیا کہ اسلام کی بنیادی قرآنی اصطلاح کی وہ ایسی تعریف کرے، جو نہ نص سے ثابت ہے اور نہ تاریخی شہادت سے۔کس بنیاد پر کوئی ’تھنک ٹینک‘ دنیا بھر کے پالیسی سازوں سے یہ مطالبہ کر سکتا ہے کہ ’’خلافت کے احیا کی کوششوں کی غیر مفاہمانہ مزاحمت کی جانی چاہیے!‘‘ اگر قومیت اور جغرافیائی بنیادوں پر دنیا بھر میں ممالک بن سکتے ہیں اور پھر مجلس اقوام متحدہ بھی بن سکتی ہے تو آخر خلافت کےادارہ کے بننے پر کسی کے اعتراضات کی کیا منطق ہوسکتی ہے؟ اس سے انسانیت کو کس طرح کے نقصانات کا خطرہ ہے کہ جن سے مغرب کو ڈراؤنے خواب آتے ہیں؟ حالانکہ ’خلافت‘ کے تو ابھی آثار بھی نہیں ہیں۔یہ تو بالکل ایسا منظر ہے کہ جس طرح کوئی بدمست پہلوان، اپنی وحشت کے زور پر کسی شریف آدمی کو زمین پر گرا کر، اس کے سینے پر بیٹھ جائے ، مگر ساتھ ساتھ یہ ہاہاکار مچائے: ’’مجھے اِس خاکسار سے بچائو‘‘۔
۳- شریعت (قانون اور اخلاقیات):’’پالیسی سازوں پر واضح ہونا چاہیے کہ اسلام میں شریعت سے مراد اخلاقیات ہیں۔ قرون وسطیٰ والی شریعت کی تفصیلات کی جدید ترتیب لازمی ہے۔یہ کام صدیوں پرانی تہہ دار فقہ کو مسلم تشریحات کے اندرونی تنوع کو مدنظر رکھتے ہوئےکھولنے کے ذریعے ہوگا۔ قدیم شریعت/فقہ کو جس میں قرون وسطیٰ کے دور میں بھی درجنوں فقہی مکاتبِ شامل تھے، کسی ایک واحد فقہی مکتب ِ فکر سے لفظ بہ لفظ اور سطر بہ سطر بلا سوچے سمجھے اخذ و قبول اور رائج کرنے کی کوششوں کی ہر قیمت پر مزاحمت درکار ہے‘‘(ص۹، ۳۷)۔
پھر ٹونی بلیر انسٹی ٹیوٹ کہتا ہے:’’ یہ محض چند اخلاقی تعلیمات ہیں!‘‘ حقیقت یہ ہے کہ مسلم دُنیا کے ’ماڈریٹ‘ ،’لبرل‘ اور ’سیکولر‘ دانش وروں پر نفاذِشریعت ہی سب سے گراں ہے۔ شریعت کو محض اخلاقیات قرار دے کر سادہ مسلمانوں کے سامنے وہ انکار شریعت کے مجرم بھی نہیں بنتے اور پرانی، تہہ دار، قرونِ وسطیٰ کے قوانین کی پھبتیاں کس کر اُس سے نجات بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے معاشروں پر یہ کرم فرمائی کیوں؟
دراصل اس ’شریعت‘ کے ذریعے ہمارا نکاح کا ادارہ مستحکم ہے۔یہ لبرل مفکرین آزادی کےنام پر LGBTQ (یعنی ہمہ جہت جنسیت زدگی اور ہم جنسیت)کو فروغ و نشوونما دینا چاہتے ہیں، مگر شریعت ایسے نابکاروں کے لیے کوڑوں اور سزائے موت کا مطالبہ کرتی ہے۔ یہ سرمایہ داری (Capitalism) کے ذریعے امیر کو امیر تر اور غریب کو غریب تر اور عام انسانوں کے لیے مواقع کو محدود تر کر کے محض سرمائے کی پرورش چاہتے ہیں۔ شریعت ہر قسم کی اجارہ داری ،نامنصفانہ نظامِ اُجرت، نامنصفانہ تقسیم ِدولت، بے قید مارکیٹنگ اور بے قید زمین کی ملکیت پر پابندیاں لگا کر اور وراثت کے قوانین کا پابند بنا کر محدود گروہ میں دولت کے ارتکاز کو روکتی ہے۔ جدید تہذیب کا حاصل ہی کل انسانیت کو اور اقتدار کو صاحبانِ دولت کا غلام بناناہے۔یہ ’روشن خیال‘ ساری دنیا کے امن کو غارت کریں ، ہیرو شیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم برسائیں، ایران، عراق، ویت نام میں نیپام بم چلائیں، افغانستان پر ڈیزی کٹربم پھینکیں، لیبیا کو خون میں نہلا دیں،گوانتاناموبے میں شرفِ انسانیت کو روند ڈالیں، مگر ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں___ شریعت، جنگ اور امن کے قانون کو نافذ کرتی اور اہل مغرب کے وحشیانہ جنگی جنون و تباہی پر قدغن لگاتی ہے۔ سرمایہ داری اور تہذیب ِمغرب کے وکیل کس منہ سے ’واحد فقہی مکتب ِ فکر سے لفظ بہ لفظ اور سطر بہ سطر بلا سوچے سمجھے اخذ و قبول‘ رائج کرنے جیسے جملے چباکر اپنا نظام نافذ کر سکتے ہیں؟
مسلم ممالک کی حکومتوں کے لیے پوری رپورٹ میں سب سے قابلِ مثال نمونہ ’شہری مذہب‘ (Civil Religion) کو قرار دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے رپورٹ میں چار مرتبہ محمد علی جناح کی ۱۱⸜؍اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر کو جواز بناتے ہوئے انھیں ’سیکولرازم‘ کا ہیرو بنا کر پیش کیا گیا ہے (ص۲۰، ۲۳، ۲۷،۳۶)۔ حالانکہ اُس تقریر کے پانچ ماہ بعد جناح صاحب نے ۲۵⸜جنوری ۱۹۴۸ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا:
I cannot understand the logic of those who say that the Constitution of Pakistan will not be based on the Shariah.
اُن لوگوں کی منطق میری سمجھ سے بالاتر ہے، جو یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کا دستور شریعت کی اساس پر نہیں ہوگا۔
یہ تقریر آپ حکومتِ پاکستان کی ویب سائٹ پر دیکھ سکتے ہیں اور اس کے بعد کہاں گیا ’سول ریلیجن‘ والا جناح؟
۴- جہاد (جدوجہد):’’پالیسی سازوں پر یہ واضح ہونا چاہیے کہ دورِ حاضر کےمسلم اسکالر اس بات پر متفق ہیں کہ جدید دنیا میں جہاد برائیوں کے مقابلے میں نیکیوں کے لیے ذاتی اور اجتماعی جدوجہد کانام ہے۔ یہاں تک کہ جہاد (جسے جنگ /قتال کے معنوں میں لیا جاتا ہے) فوجی میدان میں بھی، ایک آخری راستہ ہے، جو صرف ریاستوں کی مسلح افواج کے ذریعے ہی جائز طریقے سےبرپا کیا جا سکتا ہے۔ جدید جہاد جنیوا کنونشنز اور جنگ سے متعلق دیگر بین الاقوامی معاہدوں کی پابندی کے ساتھ مشروط ہے‘‘۔(ص ۹، ۳۷)
بلاشبہہ اسلام بے گناہوں کا خون بہانے کی اجازت نہیں دیتا۔ لیکن جنھوں نے آپ کے وسائل غصب کیے ہوں، آپ کے اقتدارِ اعلیٰ کو ضبط کرکے اپنے پٹھو حکمران بٹھائے ہوں، اُن حکومتوں کے خلاف جدوجہد کے بغیر اسلامی حکومت کے قیام کا کیا انتظار کیا جاسکتا ہے؟پھر جنھوں نے سامراجیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپ کے وطن پر قبضہ جمایا، آپ کو دربدر کیا، قومی وسائل کو کوڑیوں کے مول آپ سے چھینا، ان برطانوی، فرانسیسی، ولندیزی، امریکی، روسی استعمارات سے آزادی حاصل کرنے کے لیے جنھوںنے جدوجہد کی ہے، انھیں کیسے دہشت گردی سے جوڑا جاسکتا ہے؟
پیشِ نظر رپورٹ نےمسلم ممالک میں مذہب اور سیاست کے درمیان رشتوں کی نوعیت کو تین بنیادی اور نو انفرادی گروپس میں تقسیم کیا ہے۔جس کی تفصیل دیکھنے کے لیے اور اس مضمون کی آیندہ سطور کو سمجھنے کے لیے ماہِ گذشتہ کے ترجمان القرآن (ص۴۲) میں دیے گئے جدول کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔
رپورٹ یہ درست کہتی ہے:’’بیسویں صدی کے کمیونزم، نازی ازم اور فاشزم کی مثالوں کی طرح عراق اور شام کی بعثی ریاستوں نے اپنے نظام کو برقرار رکھنے کے لیے بڑے پیمانے پر جبر اور خوف ناک تشدد کا استعمال کیا‘‘(ص۲۳)۔یہاں ہم دریافت کرتے ہیں کہ جب آپ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ یہ حکومتیں اسلامیان پر جبر کا نتیجہ تھیں، تو کیوں اپنے فریم ورک میں ان حکومتوں کو مسلمانوں کی حکومتوں اور اسلام اور سیاست کے ملاپ کے کسی بھی زمرے میں شامل کرتے ہیں؟
پروفیسر گورسکی کی یہ درجہ بندی غیر مسلم مغربی ممالک میں مذہب اور سیاست کے تعامل اور تجزیے کے لیے شاید سودمند ہو سکتی ہو، مگر ایشیائی اور افریقی مسلم ممالک کے لیے یہ بالکل بے کار مشق کے سوا کچھ وزن نہیں رکھتی ہے۔ گروپ ۱، ۳، ۵ اور۹ محض خیالی گروپ ہیں۔ اس وقت یہ ممالک نہ ہونے کے برابر اور در حقیقت کالعدم ہیں۔ حقیقی گروپس ۲،۴، ۶،۷ اور۸ ہیں۔ بنظرغائر دیکھیں تو اصل میں گروپس صرف تین ہی بنتے ہیں:lجو اپنی شناخت کھو چکے(لبرل سیکولر)،lجو اپنی شناخت کی تلاش میں ہیں (اسلامی سیاسی) اور lجنھوں نے شناخت پا لی (اسلامی)۔ آئندہ سطور میں مسلم ممالک کے اِن تینوں گروپس کا مغربی استعمار اور مسلم ممالک کے نقطۂ نظر سے جائزہ پیش ہے:
۱- جو اپنی شناخت کھو چکے (لبرل سیکولر ممالک):معدوم گروپس ۱،۳ اور ۵ کو بآسانی لبرل لادینی ریاستوں یعنی گروپ نمبر ۶ میں ضم کر کے ایک گروپ بنایا جا سکتا ہے، جس میں کلمہ گو مسلمانوں کے وہ تمام ممالک آجائیں گے، جہاں سیاست میں ہی نہیں زندگیوں میں بھی اسلام برائے نام رہ گیا ہے ۔ خود رپورٹ مصنّفین کے مطابق اِن ممالک میں سیاست اور مذہب کی ایسی کامل علیحدگی نوآبادیاتی سامراج نے مسلط کی ہے (ص۳۳، ۳۵)، جیسا آپ لبرل سیکولر آئین والے مغربی افریقہ کی سابق فرانسیسی کالونیوں اور وسطی ایشیا میں سابق کمیونسٹ روس (USSR) کی نوآزاد ریاستوں میں پاتے ہیں۔یہ ممالک بہ اعتبارِ حروفِ تہجی یوں ہیں: (۱)ازبکستان (۲)البانیہ (۳)آذربائیجان (۴)برکینا فاسو (۵)بوسنیا (۶)تاجکستان، (۷)ترکمانستان (۸)چاڈ، (۹)سیرالیون (۱۰)سینیگال (۱۱)قازقستان (۱۲)کرغستان (۱۳)کوسووو (۱۴)کوموروس (۱۵)گنی بسائو (۱۶)گنی، (۱۷)گیمبیا (۱۸)مالی (۱۹)نائیجر
مغربی پالیسی سازوں اور لبرل سیکولر گروپوں کے نزدیک اوّلین کام، جو اِن ممالک میں کرنے کا ہے، وہ یہ کہ بے لگام جنسی حقوق اور ویمن اِمپاورمنٹ کی مہمات چلانا ہوں گی۔ دینی شعائر پر حملوں کے جواب میں آواز اُٹھانے والوں کو ’ماضی پرست وحشی‘ قرار دینا ہوگا۔ آزادیِ اظہار کے نام پر گندگی پھیلانے اور تاریخ مسخ کرنے کو آرٹ کے درجے تک لے جانا ہوگا___ حیرت کا مقام ہے کہ اہلِ مغرب، اپنے حق میں گلوبل عالم گیریت چاہتے ہیں، مگر مسلمانوں کے لیے بطور اُمت سوچنے کو فساد قرار دیتے ہیں۔
مذکورہ لبرل و سیکولرگروپ کے ممالک میں احیائے دین کا عزم لے کر اُٹھنے والوں کا پہلا کام یہ ہے کہ ابلیس کے طریقِ واردات کو سمجھیں اور آخرت کی کامیابی کو اپنا کیریر سمجھ کر زندگی بسرکریں۔ دوسرا یہ کہ گروپ دوم کے ممالک (پاکستان، ترکیہ، مصر وغیرہ)میں احیا کا کام کرنے والوں کے علم و تجربے سے روابط کے ذریعے فائدہ اُٹھائیں۔ تیسرا کام یہ کہ اپنے معاشروں میں اپنی قوت و صلاحیت کا بیش تر حصہ حیا اور نکاح و خاندان کے ادارے کو مضبوط کرنے پر لگائیں۔ چوتھایہ کہ اپنے افراد کے درمیان قرآن کے فہم کو عام کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ شرک و بدعات اور رسومات کے بوجھ سے آزاد قرآن و سنت سے ثابت سادہ ترین حقیقی دینِ خالص کی پیروی کریں۔ ان کاموں میں بڑی مشکلات کے باوجود اب مصنوعی ذہانت اور کمیونی کیشن کی ٹکنالوجی نے چیزوں کو آسان کر دیا ہے۔ ہرمعاملے میں غیر ضروری رقابتیں اور مخالفتیں نہ مول لیں، اخلاقی، علمی و فکری اور مالی لحاظ سے معاشرے کا انتہائی مؤثرطبقہ بننے کی کوشش کریں۔
۲- جو اپنی شناخت کی تلاش میں ہیں( مسلم سیاست کےممالک): اسی طرح گروپ ۲، ۴ اور ۸ کے ممالک یک جا کیے جا سکتے ہیں، جہاں کے عوام اسلام کے ساتھ اپنی انفرادی اور اجتماعی ، فکری اورعملی زندگیوں میں ایک خصوصی تعلق رکھتے ہیں۔ اُن کی سیاست کا محور اسلام ہے۔ یہ خصوصی تعلق مقتدر طبقے کا چاہے ہو یا نہ ہو، مگر عوام کا ضرور تعلق ہے۔ یہ ممالک بہ اعتبارِ حروفِ تہجی یوں گنے جا سکتے ہیں: (۱)اردن (۲)اریٹیریا (۳)الجیریا (۴)انڈونیشیا، (۵)اومان (۶)بحرین (۷)برونائی (۸)بنگلہ دیش (۹)پاکستان (۱۰)ترکیہ (۱۱)تیونس (۱۲)جبوتی (۱۳)سعودی عربیہ (۱۴)سوڈان (۱۵)شام (۱۶) صومالیہ (۱۷)عراق (۱۸)قطر (۱۹)کویت (۲۰)لبنان (۲۱)لیبیا (۲۲)مالدیپ (۲۳)متحدہ عرب امارات (۲۴)مراکش (۲۵)مصر (۲۶)ملایشیا (۲۷)موریطانیہ، (۲۸)نائیجیریا، (۲۹)یمن
اِن ممالک میں اہلِ مغرب کے پالیسی سازوں کو سب سے پہلے تو ایک مضبوط شناخت درکار ہے، مثلاً اس میں lمشرقِ وسطیٰ کےممالک کا ایک گروپ وہ ہے ، جہاں انسانی آزادیوں کو مجروح کرنے والاخاندانی بادشاہتوں کاجبر ہے۔ باقی ممالک میں جبر کے تین درجے ہیں: lوہ ممالک، جہاں اقتدار پر قابض فوجی جرنیل مغربی طاقتوں کے گماشتے ہیں ۔lجہاں سازشوں اور چالاکیوں سے مخالف ِ اسلام طاقتوں کا ہم نوا ایک جابر طبقہ عوام کی خواہشات کے خلاف اقتدار پر قابض ہے مثلاً شام و عراق lآخری گروپ اُن ممالک کا ہے،جہاں کسی مناسب درجے میں جمہوریت پنپ رہی ہے جیسے ترکی، ملایشیا۔
اگر مغرب کو اِن ممالک کے عوام کے ردِ عمل سے بچنا ہے تو اپنے پروردہ مغربی تہذیب سے مرعوب مسلمانوں کی خدمات سے مراکزِ دانش میں استفادہ کے بجائے اپنی ہی نسل کے علما اور پروفیسروں کے ذریعےسنجیدگی کے ساتھ علمی اور منطقی انداز میں اِن ممالک کے امن پسند بوریہ نشین مسلم مفکرین اور غیر عسکری احیائی تحاریک کے دانش وروں سے براہِ راست مکالمہ کرنا ہوگا۔
اس گروپ کےممالک میں احیائےاسلام کےعَلم برداروں کوعسکری اورانتخابی مہمات کی گذشتہ نصف صدی میں مسلسل ناکامی سے، جو کچھ سبق ملا ہے، وہ اُسے کام میں لائیں۔ اِن ناکامیوں کا جوہری نکتہ یہ ہے کہ کلمہ گو انسانوں کی عظیم اکثریت اپنے قول و عمل میں تضاد کا شکار ہے ، اور احیائے اسلام کے لیے اُٹھنے والےشعوری مسلمان ایک اقلیت ہیں۔
۳- جنھوں نے شناخت پا لی (مسلم حکومتیں): اس گروپ میں ٹی بی انسٹی ٹیوٹ کا ساتواں(۷) گروپ (یعنی تیسرے گروپ کا تیسرا ،عددی شمار میں نواں ) آسکتا ہے، جہاں اسلام اور سیاست میں نہ صرف کوئی دوئی نہیں بلکہ اسلام کو ہر معاملے میں فوقیت حاصل ہے۔ ایسے صرف دوممالک ہیں اوّل: افغانستان، دوم: ایران۔ یہ دونوں اپنی مختلف فقہوں کی وجہ سے الگ ہیں، مخلصانہ کوششوں سے یہ قریب آ سکتے ہیں۔
مذہب اور سیاست کے ملاپ کے مختلف ماڈلز پر گفتگو کے بعد ٹی بی انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے مصنّفین کی نوکِ قلم پر وہ آخری اور بنیادی خواہش آجاتی ہے، جس کے لیے اس تحقیقی مطالعے کی زحمت کی گئی ہے ۔ہمیشہ کی طرح، بنیادی ’تشویش‘ حقیقی مسلم حکمرانی سے بچنا ہے۔اس ضمن میں ہمارا صرف اتنا کہنا ہے کہ، جو لوگ مسلم دنیا میں پرامن طریقوں سے بغیر کسی فساد فی الارض کے انبیا کے طریقوں سےزمین میں اصلاح و امن کے داعی ہیں، اُن کو وہ الزام نہ دیا جائے۔ اسلام اُن لوگوں کے خیالات کا نام نہیں، جو فساد و تشددکے علَم بردار ہیں ، اسلام کا مآخذ قرآن مجید ہے ، جس کو رپورٹ کے مصنّفین، اسلام کو سمجھنے کے لیے خاطر میں نہیں لائے۔
ٹی بی انسٹی ٹیوٹ کی اس رپورٹ میں اس تحقیقی کام کے، جو اغراض و مقاصد بیان کیے گئے تھے (ترجمان القرآن، ستمبر ، ص ۳۳ کا دوسرا پیراگراف) رپورٹ اُن کو حاصل کرنا تو دور کی بات ہے، اُن پروضاحت سے گفتگو کرنے میں ناکام رہی ہے۔اگر ہم یہ تسلیم کر لیں کہ یہ رپورٹ ’ماڈریٹ اسلامی سیاست‘ کی نمایندہ ہے تو یہ واضح رہنا چاہیے کہ ’شہری مذہب‘ کے ذریعے جتنے حقوق اور عزت و احترام اور روا داری کا مطالبہ وہ غیر مسلموں کے لیےایک مسلمانوں کی حکومت میں کرتے ہیں، ایک اسلامی حکومت، شریعت ِ اسلامی کے تحت اُس سے کہیں زیادہ اُنھیں عطا کرتی ہے:
یہ بات افسوس سے کہنی پڑ رہی ہے کہ رپورٹ بلا دلیل محض پروپیگنڈے کے علاوہ کچھ نہیں۔ محققین اپنے ڈائریکٹروں کی خواہشوں کو پورا کرنے کے لیےعلمی، تاریخی اور عملی سیاست کے زمینی حقائق پر پردہ ڈالتے نظر آتے ہیں۔ اسلام کو سمجھنے کے لیے قرآن مجید بنیادی ماخذ ہے، مگر اس حقیقت سے انسٹی ٹیوٹ کے ملازمین ناواقف رہے ہیں۔ احیائے اسلام کی تحریکات پر جو گفتگو کی گئی ہے، انھوں نے یہ فرض کر کے کی ہے کہ قرآن نازل ہی نہیں ہوا اور شاہ ولی اللہ، عبدالوہاب، ابوالاعلیٰ مودودی، سید قطب، محمد قطب، آیت اللہ خمینی، علّامہ محمد اقبال، علی شریعتی، راشدغنوشی، ڈاکٹر شبیر اختر، کلیم صدیقی،محمد اسد وغیرہ کی نسبت سے اسلام کی پیش کاری کی ضرورت ہی نہیں محسوس کی گئی۔ پوری رپورٹ میں سید قطب کا فقط ایک حوالہ دیا گیا ہے (ص۴۶۔ انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ فکری خلل، نقطۂ نظر کے انتشار اور مغربی فکری جارحیت کے ایجنڈے کے سوا کچھ نہیں ہے۔
غربت بڑھتی جا رہی ہے اور سیاسی فساد اسے مزید بگاڑ رہا ہے۔
پاکستان کے لوگ دل والے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ اگر میں آج بھوکا ہوں تو کھانا مجھے کہاں سے ملے گا؟ یہ افسانہ نہیں حقیقت ہے۔ جب میں بھوک کے ہاتھوں مجبور تھا تو ایک مسجد میں جا کر بیٹھ گیا۔ کسی نے میرے چہرے پر بھوک کو پڑھا تو مجھے کھانا کھلانے لے گئے۔ اللہ انھیں اجرعطا فرمائے ،اس دنیا میں بھی اور آخرت میں تو بے پناہ اجر ایسے انسانوں کے لیے ہےہی ۔
یہ ہمارے بچپن کے زمانے کی بات ہے کہ مغرب کی نماز کے بعد مسجد میں روزانہ دسترخوان بچھتا تھا۔ ہم کھانا لے کر جاتے تھے اور دوسرے بچے بھی لاتے تھے۔ غریب لوگ اور مسافر وہاں بیٹھ کر کھانا کھا لیتے تھے۔ اب ذرا دیکھیے، آج کتنی مسجدیں ہیں جہاں یہ انتظام موجود ہے؟
بظاہر ایسا دکھائی نہیں دے رہا کہ پاکستان آیندہ پانچ برسوں میں بھی گندم کی فراہمی میں خودکفیل ہو سکے گا۔ اس وقت ہم ۱۰ فی صد گندم درآمد کر رہے ہیں۔ یہ گندم زیادہ تر روس اور یوکرین سے آتی ہے۔ وہاں ۲۰۲۲ء سے جنگ شروع ہونے کے سبب گندم کی قیمت بے پناہ بڑھ گئی ہے، اور جتنی جنگ بڑھتی جائے گی اتنی ہی گندم کی پیداوار کم ہوگی۔ دنیا میں پھر مقابلہ سخت ہوگا کہ کون اس گندم کو حاصل کر سکے اور اگر خدا نخواستہ کوئی بڑا سیلاب آجائے یا پانی کی کمی ہو جائے تو گندم کی پیداوار اور بھی کم ہو سکتی ہے۔
اگرچہ پاکستانی اپنے آپ کو اپنی ہی نظر میں گرانے میں بہت مصروف نظر آتے ہیں، لیکن پاکستان آج بھی ہندوستان کے مقابلے میں خوراک کی کمی کے عالمی پیمانے کے مطابق نسبتاً بہتر درجے میں ہے۔ ’بھوک پیمانہ‘ ۱۲۱ ملکوں کو جانچتا ہے۔ آبادی کے اعتبار سے بڑا ملک ہندوستان اس ’بھوک پیمانہ‘ پر ۱۰۷ ویں درجے پر ہے، جب کہ پاکستان نسبتاً بہتر حالت میں ۹۹درجے پر ہے۔ یہ اعداد و شمارغلط نہیں ہیں۔ میں نے ہندوستان میں غربت اور بھوک کے مجسم آثار کو ہر جگہ اپنی نظروں کے سامنے پایا۔ لوگ سڑکوں پر بھوکے پڑے دکھائی دیتے ہیں۔ الحمدللہ، پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا، مگر یہ خوش ہونے کی بات نہیں ہے کیونکہ پاکستان میں بھی بھوک کے مارے بے پناہ لوگ ہیں۔
۲۰ فی صد سے زیادہ پاکستانی مناسب کھانا نہیں کھا پاتے۔ تقریباً ۴۵ فی صد پانچ سال سے چھوٹے بچوں کی نشوو نما ٹھٹھر چکی ہے۔ لہٰذا، بھوک کے مسائل پر اَزحد اور فوراً توجہ کی ضرورت ہے۔
الحمدللہ، شہروں میں سخی لوگ دسترخوان پہ دسترخوان بچھا رہے ہیں۔ ہمارے ایک دوست کے کارخانے میں کام صرف ۳۰ فی صد رہ گیا ہے، مگر وہ مزدوروں کو فارغ کرنے کے بجائے کارخانے ہی میں سبزیاں اُگا کر اور بکریاں پال کر ان کا خیال رکھ رہے ہیں۔ ایک دکان دار نے بتایا کہ جب کوئی آدھا کلو آٹا لینے کے لیے آئے تو سمجھ جاتے ہیں کہ ان کے پاس اس سے زیادہ لینے کے پیسے نہیں ہیں اور پھر وہ اپنی جانب سے انھیں زیادہ غلہ فراہم کر دیتے ہیں۔
الحمدللہ، پاکستان پر اللہ کا کرم ہے۔ یہ سخی لوگوں کا ملک ہے۔ لیکن اس انفرادی سخاوت کے ساتھ ساتھ ہمیں ایک ایسا نظام بنانا چاہیے کہ غریب کو کم از کم کھانے کی فکر نہ ہو۔ بنیادی طور پر تو یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کا نظام بنائے۔ بدقسمتی سے لوگوں کا اعتبار حکومت سے اُٹھ چکا ہے۔ وہ کچھ کرنا چاہے اور کچھ کر بھی دے، تو لوگ اس سے شاید فائدہ نہ اُٹھا سکیں۔ لہٰذا، یہ نظام اپنی مدد آپ کے تحت بنانا ہوگا۔ یہ کام ان اداروں کو کرنا چاہیے، جن اداروں کی ساکھ ہے اور جو لوگوں کی خدمت میں معروف ہیں۔ اُن میں: الخدمت فائونڈیشن، ایدھی فائونڈیشن، اخوت ٹرسٹ اور بہت سے شامل ہیں۔ ان کے علاوہ بھی اس طرح کے بہت سے ادارے انسانوں کی خدمت کے لیے مصروفِ عمل ہیں۔
قحط بہت عجیب اور بڑی ہولناک چیز ہے۔ بعض اوقات افریقہ کے بھوک اور افلاس سے دوچار قحط کے مارے لوگوں بالخصوص بچوں کی تصویریں دیکھ کر لگتا ہے کہ لوگ ہر طرف بھوک سے مررہے ہیں۔ لیکن قحط کا ایسا منظر کم دکھائی دیتا ہے مگر جب اس طرح کی تصویریں سامنے آنے لگیں، تو پھر مدد عام طور پر انسانوں کو بچا نہیں سکتی۔ اس لحاظ سے یہ بات لازم ہے کہ ایسے خدشات سامنے آتے ہی انتظامات کرنے چاہییں، تاکہ بھوک سے لوگ نہ مریں اور پاکستان میں یہ وقت اب آتا دکھائی دے رہا ہے، اللہ کرے ایسا نہ ہو!
بھوک کے مارے اور افلاس زدہ لوگوں کی بستیاں اکثر دُور ہوتی ہیں، نظروں سےدُور۔ مال روڈ کہیں ہوتا ہے اور جھگیاں کسی اورجگہ۔ اس طرح بیش تر خوش حال لوگوں کی نظروں کے سامنے اکثر بھوک نہیں آپاتی۔ جب ۱۹۴۳ء اور ۴۴ء میں بنگال کا ہولناک قحط پڑا، تو قدرت اللہ شہابؒ شہاب نامہ میں لکھتے ہیں:
[جب] میں کلکتہ پہنچ کر اُترا تو چاروں طرف بنگال کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ بڑی کشادہ سڑکیں، دودھئی قمقموں کی روشنی میں نہائی ہوئی تھیں۔ بازاروں میں دکانیں آراستہ و پیراستہ چمک دمک رہی تھیں۔ خوش پوش بنگالی کاروں، ٹیکسیوں، بسوں، ٹراموں، رکشائوں میں اور پیدل ہنسی خوشی اِدھر اُدھر آجارہے تھے… ان سب کی نگاہوں سے اللہ کی وہ بے شمار مخلوق بالکل اوجھل تھی، جو ان کے آگے پیچھے، دائیں بائیں سڑکوںپر، فٹ پاتھوں پر، گلیوں کوچوں میں، میدانوں میں بھوکے پیاسے کیڑے مکوڑوں کی طرح سسک سسک کر رینگ رہی تھی۔ زندگی کے دو مختلف دھارے ایک دوسرے سے بالکل الگ تھلگ اس طرح رواں دواں تھے، جیسے متوازی خطوط، جو آپس میں کبھی نہیں ملتے۔(ص۱۵۷-۱۵۸)
یاد رہے اس قحط میں ۳۰ لاکھ سے زیادہ لوگ بھوک کے سبب موت کے منہ میں چلے گئے تھے اور پھر یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ ایسا نہیں کہ بنگال میں غلّہ موجود نہیں تھا۔ غلّہ موجود تھا مگر لوگوں میں اسے خریدنے کی طاقت نہیں تھی، وہ مالی اعتبار سے بے وسائل تھے۔
آج بھی روزانہ سات ہزار ہندوستانی بھوک کے ہاتھوں مرجاتے ہیں، مگر ’جی ۲۰ ‘والوں کو ان کی کوئی خبر بھی نہیں ہوگی۔اجلاس کے انعقاد کی چمک دمک برقرار رکھنے کے لیے ۲۰ بستیوں کو تو صفحۂ ہستی سے مٹادیا گیا اور جہاں مٹا نہ سکے، وہاں دیواریں کھڑی کردی گئیں کہ کسی کو ہندوستان کی غربت کا پتہ نہ چلے۔ اللہ نہ کرے کہ پاکستان میں ایسی صورتِ حال پیدا ہو۔
ہمارے ہاں داتا دربار جیسا لنگر تو ہر جگہ موجود نہیں ہوتا، مگر مسجد تو ہرجگہ موجود ہے۔ غریب ترین بستی میں بھی مسجد ہوتی ہے۔ شاید مدرسہ بھی ہو یا کوئی اسکول بھی چل رہا ہو اور چھوٹا سا کوئی کلینک بھی کھلا ہو۔ کتنا ہی اچھا ہو اگر ہرمسجد کے ساتھ، ہر مدرسے کے ساتھ، ہر اسکول یا ہر دواخانے کے ساتھ، ایک چھوٹا سا کمرہ ہو یا جھگی ہی کیوں نہ ہو کہ جہاں جن کو میسر ہے،جنھیں اللہ نے دیا ہے وہ لے آئیں، اور جنھیں کھانے کی ضرورت ہو وہ وہاں آ کر لے سکیں ۔ یوں ہر مسجد اور مدرسے میں اور ہراسکول میں ایک چھوٹا سا لنگر بن جائے گا۔
کوئی بڑا ادارہ ایک ایسا گودام قائم کر سکتا ہے کہ جہاں لوگ اپنا غلہ، اپنی کاشت کی چیزیں اور خوردنی تیل وغیرہ جمع کرا سکیں۔ پورے شہر میں یہ معروف ہو کہ یہاں آپ خورو نوش کی اشیا جمع کرا سکتے ہیں۔ پھر مسجدیں، اسکول اور مستحق مدرسے وہاں سے وہ چیزیں لے کر جائیں تاکہ مستحق لوگ اپنے ہی محلے میں اس چیز کو حاصل کر سکیں۔
اس تجویز کو سادہ سمجھ کر نظرانداز نہ کریں کہ ’’یہ تو کوئی خاص بات نہ ہوئی‘‘۔ اس پہلو سے ضرور سوچیے ،ممکن ہے آپ کے ذہن میں کوئی اور اچھی عملی تجویز آجائے، لیکن یہ مسجدیں، مدرسے، کلینک ہر جگہ موجود ہیں۔ کسی حد تک وہ غریبوں کی خدمت کر ہی رہے ہیں۔ اگر ایک چھوٹا سا نظام اس کے ساتھ ایسا بھی بنا دیا جائے تو خدمت کا ایک اور نیا راستہ کھل سکتا ہے۔
جو ملک دنیا کی سب سے بڑی ایمبولنس سروس بنا سکتا ہے، جو ملک امریکا اور پوری دنیا کی مخالفت کے باوجود جوہری بم بنا سکتا ہے، وہ غریبوں کے کھانے کا بھی ایسا نظام بنا سکتا ہے کہ غریب کو نہ مانگنا پڑے، نہ دھکے کھانے پڑیں لیکن اس کا پیٹ بھرتا رہے۔
الخدمت فائونڈیشن نے آگے بڑھ کر سیلاب زدگان کی جو خدمت کی تو امریکی مسلمانوں نے انھیں ۳؍ارب سے زیادہ کا چندہ دیا۔ اگر الخدمت یا کوئی اور پاکستانی ادارہ غریبوں کو کھانا کھلانے کا کوئی نظام بنا دے تو یقین ہے کہ پاکستانی، پاکستان ہی میں اور دنیا بھر سے اس کام میں پورا پورا تعاون کریں گے۔
اس سے بڑھ کر اللہ کریم کو خوش کرنے کا شاید ہی کوئی اور ذریعہ ہو، جس نے فرمایا ہے کہ ’’ایک انسان کو بچانا ایسے ہے جیسے ساری انسانیت کو بچانا‘‘۔ ہر فرد کی جان قیمتی ہے اور اس کو بچانا بے پناہ اہم ذمہ داری ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سورۃ الماعون میں ارشاد فرمایا ہے:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ تم نے دیکھا اس شخص کو جو آخرت کی جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے؟ وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے، اور مسکین کا کھانا دینے پر نہیں اُکساتا۔ پھر تباہی ہے اُن نماز پڑھنے والوں کے لیے، جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں، جو ریاکاری کرتے ہیں، اور معمولی ضرورت کی چیزیں (لوگوں کو) دینے سے گریز کرتے ہیں (۱۰۷:۱-۵)
اس سورہ میں اللہ پاک نے حقوق العباد کا تذکرہ عبادت سے پہلے کیا ہے۔اللہ تعالیٰ کی عبادت اور بندگی میں صرف اللہ کے سامنے سر جھکانا شامل نہیں ہے، بلکہ اللہ کی مخلوق کی خدمت بھی اللہ کی عبادت میں شامل ہے۔
۲۵ لاکھ پاکستانی روز کی کمائی پر اس طرح انحصار کرتے ہیں کہ جو کمایا اسی دن کھایا اور اگلے دن کے لیے ان کے پاس کچھ نہ رہا۔ اس بات کا شدید خدشہ ہے کہ معاشی حالات مزید بگڑتے جائیں گے، غربت میں اضافہ ہوتا جائے گا اور قوت خرید کم ہوتی جائے گی۔ جو انسان ہماری نظر کے سامنے نہ ہو، وہ شاید بھوکا ہی اس دنیا سے گزر جائے، لہٰذا ہم سب کو اس جانب بھرپور اور فوراً پوری توجہ دینی چاہیے کہ کھانے کا نظام ایسا بنے کہ اللہ ہم سے خوش ہو اور اس کے بدلے میں ہماری دنیا کو بہتر بنائے، ہمارے رزق میں اضافہ فرمائے، ہمیں شکر کی توفیق دے اور ایسی جنت میں داخل کرے، جہاں ہم جو مانگیں گے، وہ پائیں گے!
’جی۲۰سربراہی اجلاس‘ جو۹-۱۰ ستمبر ۲۰۲۳ء کو نئی دہلی میں ’’ایک زمین، ایک خاندان، ایک مستقبل‘‘ کے خوش نما نعرے کے تحت منعقد ہوا۔ دنیا کی بڑی معیشتوں کے رہنمائوں نے دیگر مسائل کے علاوہ 'بین الاقوامی امن کی حفاظت، اور 'پائیدار ترقی اور نمو، پر تبادلۂ خیال کیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بین الاقوامی امن، ترقی اور نمو اور مسئلہ کشمیر کے حل کے درمیان بھی کوئی تعلق ہے؟
یاد رہے اس گروپ کے چند ارکان ممالک پہلے ہی مختلف اوقات میں اس موضوع پر واضح موقف اختیار کرچکے ہیں:
ہم نے یہاں یاددہانی کے لیے یہ موقف پیش کیے ہیں، تاکہ جی ۲۰ ممالک کی قیادت اس حقیقت کو سمجھ سکے کہ کشمیر میں امن کے لیے ابھی موقع موجود ہے۔ ہندستان، کشمیر میں استصواب رائے کے انعقاد کا وعدہ پورا کرکے دنیا پر ثابت کرسکتا ہے کہ وہ واقعی ایک جمہوری ملک کہلانے کا حق دار ہے، نہ کہ مسلسل جارح اور عسکری جابر جیساکہ وہ بن گیا ہے۔ پی چدمبرم، جو کہ ہندستان کے تجربہ کار سفارت کار ہیں، انھوں نے ۳۱ جولائی ۲۰۱۶ء کو کہا تھا:’’اگر ہندستان چاہتا ہے کہ جموں و کشمیر کے لوگ ہندستان سے پیار کریں، تو اس کا واحد راستہ استصواب رائے عامہ ہے‘‘۔
دُنیا کے امن اور انصاف پسند چاہتے ہیں کہ جی۲۰ ممالک اس بات کو سمجھیں کہ تجارت اور تجارتی معاہدے اپنی جگہ اہم ہیں، لیکن یہ تجارت اعلیٰ اخلاقی اور عالمی اصولوں کی قیمت پر نہیں، جن کا عالمی طاقتوں نے ہمیشہ دعویٰ کیا ہے۔ اخلاقی اقدار اور انسانی حقوق ہی مہذب کہلانے کی روح ہیں۔ کشمیر میں جمہوریت اور انسانی حقوق سے انکار، خاص طور پر حقِ خود ارادیت سے محرومی نے جوہری ہتھیاروں اور میزائل کے بڑے پیمانے پر پھیلاؤ کو جنم دیا ہے۔ کشمیر ۷۶ برس سے زیادہ عرصے سے پاک بھارت تعلقات میں رستا ہوا زخم ہے۔ اسی لیے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے چاردیگر بین الاقوامی این جی اوز کے ساتھ مل کر ۲۴؍اگست ۲۰۲۳ء کو جی ۲۰ ممالک کو خط لکھا تھا کہ وہ بھارت کو کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو ختم کرنے اور جیلوں میں بند انسانی حقوق کے محافظوں اور سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے پر مجبور کریں۔ ہندستانی وزیر اعظم مودی کو یہ سمجھنا چاہیے کہ پیسے کے زور پر جموں و کشمیر کے مسائل کو حل نہیں کیا جاسکتا۔ اس سے جبر، سڑکوں پر تشدد، عصمت دری، قتل اور گمشدگیوں کے مسلسل صدمے کے مستقل اور غیر مستحکم ماحول کو دُور نہیں کیا جاسکتا، جو کشمیر میں ہندستان کی تاریخ کی پہچان چلا آرہا ہے۔
محض نعروں، دعوئوں، اقتصادی پیکج اور جی ۲۰ ٹورازم ڈپلومیسی سے مسئلہ کشمیر کبھی حل نہیں ہوگا۔ کشمیر ایک بین الاقوامی اور انسانی مسئلہ ہے، جس کا سیاسی حل ضروری ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے درج ذیل فوری اقدامات ضروری ہیں: lکشمیر میں بھارتی مسلح افواج کے وحشیانہ تشدد کو جلداز جلد ختم کرنے کے لیے بین الاقوامی برادری کی مداخلت l جنگ بندی لائن کے دونوں طرف ریاست جموں و کشمیر کو غیرفوجی علاقہ قرار دیا جائے lمحمد یاسین ملک، شبیر احمد شاہ، مسرت عالم ، آسیہ اندرابی ، خرم پرویز اور دیگرتمام سیاسی قیدیوں کی رہائیl ہندستان، پاکستان اور جموں و کشمیر کے لوگوں کی قیادت سمیت تمام متعلقہ فریقوں کے درمیان سیاسی مذاکرات کا آغاز ہو، تاکہ جمہوری اور پُرامن حل کے لیے فضا ہموار کی جاسکے۔
یاد رہے، ۱۹۳۸ء میں، برطانوی وزیر اعظم، نیویل چیمبرلین نے چیکوسلواکیہ کے لیے نازی خطرے کا مذاق اُڑایا تھا: ’’یہ ایک دُور دراز ملک کے بارے تنازع ہے‘‘، مگر اس کی غیرذمہ دارانہ غفلت نے دوسری جنگ عظیم کو جنم دیا۔ جی ۲۰ کو اس سے سبق سیکھنا چاہیے اور اسی طرح کی تباہی سے بچنے کے لیے کشمیر کو نظر انداز کرنا بند کرنا چاہیے۔
اس دن قاہرہ کے علاقے رابعہ العدویہ چوک،قاہرہ میں ٹوٹنے والی قیامت کے بہت سے ثبوت موجود ہیں۔ عینی شاہدین، تصاویر، ویڈیوز، یہاں تک کہ ایک مکمل دستاویزی فلم بھی (Memories of a Massacre،ایک قتل عام کی یادیں)، جو اگست۲۰۲۳ء میں جاری کی گئی ہے۔ ان تمام شواہد کے باوجود وہاں موجود متاثرین کا کہنا ہے کہ ایک عشرہ قبل ہونے والے اس قتل عام میں ملوث کسی بھی ایک کردار کو آج تک قرار واقعی سزا نہیں ملی۔
۱۴ ؍اگست ۲۰۱۳ء کو رابعہ العدویہ چوک میں تقریباً ۸۵ ہزار افراد،اپنے وطن عزیز میں فوجی مداخلت سے پیدا شدہ صورتِ حال کے خلاف احتجاج کر رہے تھے، کہ مصری مسلح افواج نے جنرل سیسی کی قیادت میں انھیں گھیرے میں لے لیا۔ وہ مظاہرین یہاں اس لیے جمع ہوئے تھے کہ گذشتہ مہینے جولائی (۲۰۱۳ء) میں مصری فوج نے منتخب صدر محمد مرسی کا تختہ اُلٹ کر حکومت پر قبضہ کر لیا تھا۔ محمد مرسی اخوان المسلمون میں بھی ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ اس کارروائی کے بعد ان کے حامی مصر کے مختلف علاقوں میں جمع ہورہے تھے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق مصری مسلح افواج نے مظاہرین کو منتشر ہونے کا حکم دیتے ہی ان پر گولیاں برسانا شروع کر دیں۔ مختلف اندازوں کے مطابق اس دن ۶۰۰ سے ۱۰۰۰ کے درمیان پُرامن اور نہتے شہریوں کو بلا اشتعال موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
مصری فوجی حکومت، انسانی حقوق کے اداروں کی مذکورہ بالا رپورٹوں کو[کمال ڈھٹائی سے] ’جانب دارانہ‘ قرار دیتی ہے۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان رپورٹوں کی تردید کے لیے جنرل سیسی کی حکومت نے کسی درجے میں غیر جانب دارانہ تحقیقات کی ضرورت محسوس کی ہے اور نہ اس ضمن میں کسی سوال کا جواب دیا ہے۔ تاہم، عالمی دبائو بڑھنے پر مصری حکومت نے اس قتل عام کے متعلق اندرونی طور پر تحقیقات کا اعلان کیا تھا، اور ۲۰۱۳ء کے اواخر میں حقائق کی نشاندہی کے لیے ایک کمیشن تشکیل دیا تھا،جب کہ ایک دوسری تفتیش انسانی حقوق کی مصری کونسل کے تحت کی گئی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ دونوں تحقیقات، صدرمرسی کی جبری برطرفی کے خلاف مظاہرین ہی کو قصوروار قرار دیتی ہیں، کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ ’’اکثر یت مسلح ہتھیاروں سے لیس تھی‘‘۔ دوسری طرف عینی شاہدین اس دعویٰ کو باطل قرار دیتے ہیں۔ بہرحال دونوں تحقیقاتی رپورٹیں اس بات پر متفق ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے طاقت کا بلاجواز اور بے حساب استعمال کیا، لیکن قصورواروں کے لیے کوئی سزا تجویز نہیں کرتیں۔
۲۰۱۸ء میں اسی فوجی نظام کے تابع مصری حکومت نے ایک قانون کے ذریعے اعلیٰ فوجی افسروں کو عدالتی استثنا فراہم کر دیا تھا۔اس قانون کی رُو سے ’’۲۰۱۳ء میں آئین کی معطلی سے لے کر پارلیمنٹ کے اگلے اجلاس تک فوجی افسران کے تمام اعمال عدالتی مواخذے سے مستثنیٰ ہیں‘‘۔ اس کے بعد ۲۰۲۱ء میں مصری فوجی حکومت نے اپنی ’دستوری سپریم کورٹ‘ سے متعلق قوانین میں بھی تبدیلیاں کی ہیں۔
ان ترامیم کی رُو سے یہ قرار دیا گیا ہے کہ اگر مستقبل میں کوئی بھی بین الاقوامی عدالت یا ادارہ مصری سرکار کو انسانیت کے خلاف جرائم کا مرتکب اور سزا کا حق دار قرار دیتا ہے تو اس معاملے کو بھی کارروائی کے لیے مصری سپریم کورٹ کے پاس ہی بھیجا جائے گا، اور یہی مصری سپریم کورٹ حتمی فیصلہ کرے گی کہ بیرونی اداروں کا فیصلہ درست اور قابل عمل ہے یا نہیں۔ انسانی حقوق کی وکیل مے السادانے کہتی ہیں: ’’یہ ترامیم ایک واضح پیغام ہے۔ اپنے شہریوں کو بتایا جا رہا ہے کہ انسانیت کے مجرم اپنی کارروائیاں اسی طرح قانونی استثنیٰ کے ساتھ جاری رکھیں گے، جب کہ بین الاقوامی برادری کو کھلا پیغام دیا جارہا ہے کہ مصر بین الاقوامی نظام کے تابع نہیں ہے‘‘۔
۲۰۱۴ء میں مصری وکلا اور صدر محمد مرسی کی حریت و انصاف پارٹی نے بین الاقوامی فوجداری عدالت سے مطالبہ کیا تھا کہ رابعہ میں ہونے والے قتل عام اور انسانیت کے خلاف جرائم کی تحقیقات کی جائیں۔ لیکن اس عدالت نے ان کی درخواست کو اس اعتراض کے ساتھ رد کر دیا تھا کہ’’ درخواست گزار مصری حکومت کے نمایندہ نہیں ہیں‘‘۔
۲۰۱۵ء میں حریت و انصاف پارٹی کے وکلا نے برطانوی پولیس سے درخواست کی تھی کہ جنرل محمود حجازی کو گرفتار کر لیا جائے جو ان دنوں ہتھیاروں کی ایک نمائش میں شرکت کے لیے برطانیہ آ رہے تھے کہ ان پر تشدد اور رابعہ آپریشن میں براہ راست ملوث ہونے کا الزام ہے۔ تاہم، پولیس نے اس بنیاد پر یہ درخواست رد کر دی تھی کہ ’’جنرل حجازی کو سفارتی استثنیٰ حاصل ہے‘‘۔
روپرٹ سکل بیک لندن میں ’مداوا‘ (Redress) کے نام سےقائم ایک ادارے کے سربراہ ہیں، جو تشدد کا شکار ہونے والے افراد کو قانونی مدد فراہم کرتا ہے۔ ان کے مطابق: ’’مصریوں کے پاس واحد راستہ یہی ہے کہ اقوام متحدہ کی مختلف کمیٹیوں کے ذریعے تحقیقات کی درخواست دیں یا قضائے عالمی (Universal Jurisdiction) کے تحت عالمی اداروں سے کارروائی کا مطالبہ کریں‘‘۔
lکیا قضائے عالمی کا اصول معاون ہوسکتا ہـے ؟ :سکل بیک کا کہنا ہے: ’’اس معاملے کو حقیقت پسندی کی نظر سے دیکھا جائے تو قضائے عالمی کا اصول بھی اس قدر معاون نظر نہیں آتا کیونکہ مصر کی جانب سے اپنے اعلیٰ حکام کو ملک بدر کرنے یا کسی اور ملک کے حوالے کیے جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ یہاں تک کہ جرمنی میںبھی ، جہاں اس قانون کا استعمال سب سے زیادہ کیاجاتا ہے، یہ مقدمہ چلنا مشکل ہے۔ ‘‘
برلن میں قائم ’یورپی ادارہ برائے انسانی و دستوری حقوق‘ کے ڈائریکٹر،اینڈریاس شلر کا کہنا ہے:’’سب سے پہلے تو آپ کو قانون میں مقررہ تعریف کے مطابق یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ واقعی انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیاگیا ہے؟‘‘ حال ہی میں شام کے جنگی مجرموں کے خلاف جرمنی میں جو مقدمے چلائے گئے ہیں، ان کا بنیادی محرک یہی تنظیم تھی۔ ان کا کہنا ہے: ’’عدالت یا ادارے کی جانب سے اس واقعے کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دینے کے لیے بہت محنت درکار ہے‘‘۔
اس قانون کے تحت شامی مجرمان کے خلاف مقدمہ کی کئی وجوہ تھیں۔مثلاً گواہان، شواہد اور مجرمان کی جرمنی میں موجودگی اور جرمنی کا سیاسی عزم۔ اینڈریاس کا کہنا ہے: ’’یہ معاملہ شام کی صورتِ حال سے مختلف ہے۔ شامی حکومت کے ساتھ جرمنی کے سفارتی تعلقات نہیں تھے،جب کہ مصری حکومت کو بین الاقوامی طور پر اچھی خاصی حمایت حاصل ہے۔ مزیدبرآں مصری حکومت نے بین الاقوامی فوجداری عدالت اور اقوام متحدہ کے متعلقہ چارٹر پر بھی دستخظ نہیں کیے ہیں۔ چنانچہ کوئی بھی ملک ان کی شنوائی کے لیے تیار نہیں ہے۔
سکل بیک کا کہنا ہے: ’’انسانی حقوق کے لیے کام کرتے ہوئے یہ مشکل اکثر پیش آتی ہے کہ کچھ مغربی ممالک سیاسی مصلحتوں کے باعث دیگر ممالک میں انسانی حقوق کے مسائل کو لے کر واضح مؤقف اختیار نہیں کرتے ‘‘۔
’ہیومن رائٹس واچ‘ سے تعلق رکھنے والے سینئر محقق امر مگدی بھی اسی موقف کے طرف دار ہیں: ’’خطے کی سیاسی صورتِ حال کے باعث مصر میں ہونے والی انسانی حقوق کی یہ خلاف ورزیاں نظر انداز ہوئی ہیں۔ اس زمانے میں یمن، لیبیا، شام سمیت سارا خطہ انھی مسائل سے دوچار تھا۔ مصری حکومت نے بین الاقوامی برادری کے مفادات کا بڑی مہارت سے فائدہ اٹھایا ہے۔ موجودہ حکومت نقل مکانی، دفاع اور معاش جیسے معاملات میں مغربی ممالک کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے اور بدلے میں یہ ممالک جمہوریت اور انسانی حقوق کے معاملے میں مصری حکومت کے جرائم کو نظرانداز کر دیتے ہیں‘‘۔
تاہم، پچھلے ایک عشرے میں صورتِ حال کافی تبدیل ہو چکی ہے۔ جنرل عبدالفتح السیسی کی حکومت اپنے آمرانہ طرز عمل اور انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزیوں کے باعث تنقید کی زد میں رہتی ہے۔ سکل بیک کا کہنا ہے: ’’یہ ایک اچھا نکتہ ہے۔ یہ ساری کاروائی واقعے کے فوراً بعد کی گئی تھی۔ جب معاملہ گرم ہو تو لوگ ردعمل میں محتاط رہتے ہیں۔ ایسے واقعات میں عموماً شواہد اکٹھے کرنے کے لیے طویل عرصہ درکار ہوتا ہے۔ اس ضمن میں طویل عرصے سے جاری روانڈا، کمبوڈیا، سابقہ یوگوسلاویہ اور جنگ عظیم دوم کے مقدموں کی مثال بھی موجود ہے، اور ایک عام قتل کے مقدمے کو بھی کسی نتیجے تک پہنچنے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔ اس لیے ان مقدمات میں بھی وقت صرف ہوسکتا ہے۔ تاہم، ہمارے پاس اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہے‘‘۔(انگریزی سے ترجمہ:اطہر رسول حیدر)
۱۶؍اگست۲۰۲۳ء کو جڑانوالہ کی مسیحی بستی میں آتش زنی کا المناک سانحہ رُونما ہوا۔ اُس افسوس ناک واقعے کی ہم نے اور پوری قوم نے شدید مذمت کی ہے۔ اس پس منظر میں ’وفاقی وزارتِ مذہبی امور وبین المذاہب ہم آہنگی‘ نے اسلام آباد میں کانفرنس منعقد کی۔اس میں پاکستان کے مسیحی اور دیگر مذاہب کے مذہبی رہنما شریک ہوئے ۔ انھوں نے اپنا اپنا موقف پیش کیا اور اپنی مظلومیت کے حوالے دیے۔ مجھے سب سے آخر میں خطاب کا موقع دیا گیا تومیں نے درج ذیل حقائق پیش کیے۔ چونکہ وقت کی قلّت تھی، اس لیے یہاں تشنۂ بحث ضروری نکات کو ضبط ِ تحریر میں لاکر پیش کیا جارہا ہے:
۱- بدقسمتی سے ہم پاکستانی بحیثیتِ قوم ’خود ملامتی‘کے عادی بن چکے ہیں۔ ہمارے ذرائع ابلاغ اور تجزیہ کاروں کا یہ مزاج ہے کہ کسی جگہ سے ناخوش گوار واقعے کی خبر آتے ہی، بلاتحقیق، وہ آنکھیں بندکرکے اہلِ پاکستان کو کوسنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔جس طرح: ’’پچیس کروڑ پاکستانیوں میں کوئی ایک بھی خوبی نہیں ہے کہ اُسے عالمی سطح پر اُجاگر کیا جائے‘‘۔
۲- تزویراتی مورچہ بند این جی اوز کی طرف سے یہ الزام لگایا جاتا ہے :’’پاکستان میں اقلیتیں محفوظ نہیں ہیں، اقلیتوں کو حقوق حاصل نہیں ہیں، وغیرہ‘‘۔ اس کھیل کو دیکھ کر ہم تجویز کرتے ہیں: پاکستان کے آئین وقانون سے ’اقلّیت‘کا لفظ ہی نکال دیا جائے۔ اقلّیت کا لفظ بولتے ہی ذہن میں ’غیرمسلم ‘کا تصور آتا ہے۔ پاکستان میں ہر پابندِ آئین وقانون غیر مسلم شہری کو، خواہ وہ نسلی اعتبار سے مقیم چلا آرہا ہے یا اُس نے بعد میں پاکستانی قومیت اختیار کی ہے،اسے وہی حقوق حاصل ہیں، جو مسلمانوں کوحاصل ہیں۔ دستورِ اسلامی جمہوریہ پاکستان سب غیر مسلموں کو جان، مال، عزّت وآبرو اور اپنی عبادت گاہوں میں اپنے مذہب کے مطابق عبادت کی اجازت دیتا ہے۔ اس اعتبار سے ہم سب پاکستانی ہیں:مسلم پاکستانی اورغیر مسلم پاکستانی۔اپنے آپ کو پاکستانی کہلانے سے اپنائیت کا احساس پیدا ہوتا ہے،جب کہ اقلّیت کے لفظ سے محرومیت کا تاثّر پیدا ہوتا ہے۔ ہماری تجویز ہے:’’Minority Commissionکا نام بدل کر ’’Commission for Protection the Rights of Non-Muslims‘‘رکھ دیا جائے۔
۳- مسلمان یورپ،امریکا ،کینیڈا ،نیوزی لینڈ ، آسٹریلیا میں عددی اعتبار سے ’اقلّیت‘ میں ہیں، لیکن وہاں ’اقلّیت‘ کی اصطلاح استعمال نہیں کی جاتی۔ جو وہاں کی قومیت کو اختیار کرتا ہے ،وہ اپنے آپ کو امریکن ،کینیڈین، آسٹریلین ، یورپین اوربرٹش کہلاتا ہے،زیادہ سے زیادہ وہ ’مسلم امریکن‘ کہلاتے ہیں۔ بدقسمتی سے مسلمانوں اور مسلمانوں کی عبادت گاہوں پر حملے امریکا، کینیڈا، یورپ، برطانیہ اور نیوزی لینڈ میں بھی ہوتے رہے ہیں،لیکن وہاں کے میڈیا پر ہم نے کبھی نہیں سنا: ’’اَقلیتوں پر حملہ ہوگیا ہے‘‘ یا ہمارے ہاں کے ’مہذب‘ نظریہ سازوں نے کبھی نہیں کہا: ’’اُن ممالک میں اقلیتیں محفوظ نہیں ہیں‘‘۔اس کے بجائے محض بدامنی، فسادیا دہشت گردی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے : پاکستان میں ایسا کیوں نہیں ہوتا؟یہاں توفوراً اقلیتوں کی محرومی کا رونا روتے ہوئے ایک ہنگامہ برپا کردیا جاتا ہے۔ دہشت گردی ایک مجرمانہ ذہنیت کا تسلسل ہے،جس کا مذہب سے نہیں کسی فرد یا طبقے سے تعلق ہوتاہے۔اس پس منظر میں کیا پاکستان میں مسلمانوں کی مساجد ، مزارات ،تعلیمی اداروں، درس گاہوں ،عام مقامات اورعوامی اجتماعات پر خودکش حملے نہیں ہوئے؟کیا اُس وقت بھی یہ کہاجاتا ہے: ’’پاکستان میں مسلمان یا اکثریت محفوظ نہیں ہے‘‘۔ آبادی کے تناسب سے بھی مسلمانوں کا نقصان غیر مسلموں سے کم نہیں ہے۔ ہمارے ہاں تو مسیحیوں کے کلیسائوں ، ہندوئوں کے مندروں ، سکھوں کے گردواروں اور پارسیوں کے آتش کدوں پر بھی پولیس کے محافظ متعین کیے جاتے ہیں، جب کہ مغربی ممالک میں مسلمانوں کی مساجد پر حملوں کے باوجود اس طرح کا حفاظتی بندوبست نہیں ہوتا، لیکن کہایہی جاتا ہے:’’پاکستان میں اقلیتیں محفوظ نہیں ہیں‘‘۔
۴- امریکا ،کینیڈا ،آسٹریلیا ، نیوزی لینڈ ،یورپ ، برطانیہ ،بھارت، الغرض تمام جمہوری ممالک کی پارلیمنٹ ،کانگریس اورقانون ساز اداروں میں مسلمانوں کے لیے ایک بھی نشست محفوظ نہیں ہے۔ جس نے ان اداروں میں آنا ہو، اُسے عام انتخاب میں کامیابی حاصل کر کے آنا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں غیر مسلموں کو عام انتخابات میں مسلمانوں کے برابر ووٹ دینے کا حق ہے ،لیکن اس کے ساتھ اُن کے لیے محفوظ نشستیں بھی ہمارے قانون ساز اداروں میں رکھی گئی ہیں، اور اس کے باوجود کہاجاتا ہے:’’پاکستان میں اقلیتوں کو حقوق حاصل نہیں ہیں‘‘۔
۵- سول اور دفاعی اداروں کی سرکاری ملازمتوں کے لیے مقابلے کے امتحان میں مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلم بھی برابر حصہ لے سکتے ہیں۔علاوہ ازیں اُن کے لیے سرکاری ملازمتوں میں پانچ فی صد کوٹہ بھی مختص ہے۔ لیکن ان ممالک میں،جو خود کو حقوقِ انسانیت کاچیمپین سمجھتے ہیں، ان کے ہاں مسلمانوں کے لیے ملازمتوں کاکوئی کوٹہ مختص نہیں ہے، اس کے باوجود کہاجاتا ہے: ’’پاکستان میں اقلیتوں کو حقوق حاصل نہیں ہیں‘‘۔
۶- کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی غیر مسلم لڑکی کسی مسلمان لڑکے سے شادی کے لیے اسلام قبول کرلیتی ہے۔ اس طرح کے واقعات مغربی ممالک میں بھی ہوتے رہتے ہیں،مگر وہاں کی حکومتوں کو اِس پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ لیکن پاکستان میں کسی تحقیق وتفتیش کے بغیر الزام لگادیا جاتا ہے کہ ’’غیرمسلموں کواسلام قبول کرنے اور تبدیلیِ مذہب پر مجبور کیا جا رہاہے، ایسا کرنا آئین ، قانون کی رُو سے جائز نہیں ہے‘‘۔ ہم نے بار بار یہ کہا ہے: ’’اگر اس حوالے سے کوئی جبرثابت کردے تو ہم ہر سطح اور ہرادارے میں آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے، کیونکہ اسلام میں جبراً تبدیلیِ مذہب کا کوئی تصور نہیں ہے، قرآنِ کریم میں اس کی ممانعت ہے‘‘۔ ایک مسیحی مذہبی رہنما نے کہا: ’’تیرہ سال کی لڑکی کو توشعور ہی نہیں ہوتا‘‘، ہم نے کہا: ’’اگرچہ پاکستان کے قانون کے مطابق کوئی بھی بالغہ عورت اپنی آزادانہ مرضی سے نکاح کرسکتی ہے ، اور والدین کی مرضی سے کرے تو یہ اس کے لیے سعادت ہے اور سب جانتے ہیں: عورت کی بلوغت کا معیار کیا ہے۔ پاکستان کے قانون میں شادی کے لیے پہلے سولہ سال عمر مقرر کی گئی تھی، جسے بڑھا کر اب اٹھارہ سال کردیا گیا ہے۔ دوسری طرف اگر واشنگٹن میں وائٹ ہائوس یا لندن میں ۱۰ ڈائوننگ اسٹریٹ کے سامنے کوئی دس سال کا سفید فام لڑکا یا لڑکی کلمۂ طیبہ پڑھ کر عَلانیہ اسلام قبول کرلے، تو امریکا کا قانون اُسے کچھ نہیں کہتا، لیکن ایسی پابندیوں کا مطالبہ صرف پاکستان میں کیا جانا فہم سے بالاتر ہے۔
۷- کچھ عرصہ قبل صوبۂ سندھ میں دو لڑکیوں نے اسلام قبول کرکے دو مسلمان لڑکوں سے شادی کی، مگر اس پر کسی تحقیق کے بغیر پورے میڈیا پر واویلا مچادیا گیا:’’لڑکیوں کو اِغوا کر کے جبراً مسلمان بنایا گیا ہے‘‘۔ چنانچہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے انھیں اپنی عدالت میں بلایا اور دو ہفتے کے لیے اپنے ہندو والدین کے ساتھ بھیج دیا۔ دو ہفتے کے بعد اُن لڑکیوں نے عدالت میں آکربیان دیا: ’’ہم نے کسی زور، زبردستی یا جبر کے بغیر بخوشی اسلام قبول کیا ہے ، اپنی مرضی سے شادی کی ہے اور اپنے شوہروں کے ساتھ جانا چاہتی ہیں‘‘۔ چنانچہ عدالت نے انھیں اُن کے شوہروں کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی۔این جی اوزکی بیگمات ایسے جوڑوں کو اپنی تشہیر کے لیے استعمال کرنے کے انتظار میں رہتی ہیں۔
۸- صوبۂ سندھ میں ’تبدیلیِ مذہب ‘کے قانون میں قرار دیا گیا ہے:’’اٹھارہ سال کی عمر پوری ہونے سے پہلے اسلام قبول کرنے کی اجازت نہیں ہے۔اگر کوئی لڑکی اسلام قبول کرنا چاہے تو اُسے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے سامنے پیش کیا جائے گا ، وہ اُس کے لیے مذاہب کے تقابلی مطالعے کا انتظام کرے گااور جب اُس کی عمر اٹھارہ سال ہوجائے، اور اگر وہ اسلام قبول کرناچاہے توجج اُسے قبولِ اسلام کی اجازت دے گا‘‘۔ کیا ہمارے ہاں منتخب اداروں کے تمام اراکین نے مذاہب کا تقابلی مطالعہ کررکھا ہے کہ ایک نوجوان کے قبولِ اسلام کے لیے اتنی کڑی شرط عائد کی جائے؟
۹-جڑانوالہ سانحے کے بعداظہارِ یک جہتی کے لیے وزیر اعظم ،وزیر اعلیٰ ،چیف جسٹس ، اعلیٰ سرکاری اور عسکری حکام ،بہت سے مسلمان مذہبی رہنما چل کر پہنچے یا بلندآہنگ بیانات دیئے۔ تین دن میں ہر متاثرہ مکان کے لیے بیس بیس لاکھ کے چیک بھی تقسیم کردیے گئے، کیا کسی بڑے سانحے کے بعداتنی عُجلت مسلمانوں کے لیے بھی دکھائی گئی ہے؟ اس سے چند دن پہلے باجوڑ میں جلسۂ عام کے دوران خود کش دھماکا ہوا ،سو کے قریب افراد جاں بحق ہوئےوہاں تو کوئی بھی نہیں گیا۔
۱۰-عام طور پر ایسے مواقع پر کسی تحقیق کے بغیر الزام لگادیا جاتا ہے۔جڑانوالہ سانحے پر بھی ایسا ہی ہوا۔ بعض یوٹیوبر نے تو حد کردی ،حالانکہ پولس کے اعلیٰ افسران نے خود کہا:’’ٹی ایل پی کے ذمہ داران نے امن قائم کرنے میں ہمارے ساتھ تعاون کیا‘‘۔ پھر پولیس رپورٹ کے مطابق: جڑانوالہ کا واقعہ سراسر ذاتی سطح پر مسیحی گھرانوں کا جھگڑا تھا، جسے مذہبی رنگ دے کر دُنیابھر میں پاکستان کی بدنامی کا سامان کیا گیا۔ کیا کسی نے اس گھنائونے جرم کے ذمہ داران کے خلاف بھی آواز اُٹھائی ہے؟ اسی طرح سیالکوٹ میں ہوا تھا۔ جب تحقیق کے بغیر ایسا الزام کسی مسلم مذہبی گروہ یا حکومتی اداروں پر لگادیا جاتا ہے، ایسا طرزِعمل مجرموں کو قانون کی گرفت سے نکلنے کا آسان راستہ فراہم کرتا ہے۔ خدارا تحقیق کے بغیر ایسا نہ کریں۔قرآنِ کریم میں ہے: ’’مؤمنو، اگر تمھارے پاس فاسق کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلیا کرو، ایسا نہ ہو کہ تم بے علمی کے سبب کسی قوم کوتکلیف پہنچائو، پھر تمھیں اپنے کیے پرشرمسارہونا پڑے، (الحجرات۴۹:۶)‘‘۔
۱۱- ایسے روح فرسا سانحات کی مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ اُن کی وجوہ کا تعیّن کرکے اصل اور حقیقی مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہنچانا چاہیے، ورنہ کسی کے نہ چاہتے ہوئے بھی ردِّعمل نہیں روکا جاسکے گا۔اب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سانحۂ جڑانوالہ کے بعد کئی روز تک سرگودھا کی مسجد کے سامنے روزانہ کی بنیاد پر قرآن کے اوراق زمین پر ڈالے جاتے رہے،مگر بڑی مشکل سے علما اورانتظامیہ نے اس حددرجہ اشتعال انگیز صورتِ حال پر قابو پایا۔
۱۲- لبرل نظریات کا علَم بردار ہونے کے باوجود صدر جنرل پرویز مشرف کو کہنا پڑا: ’’غیرمسلموں نے مغربی ممالک کے ویزے حاصل کرنے کے لیے توہینِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ذریعہ بنالیا ہے‘‘، جب کہ پاکستان ’بدنام‘ ہے اور اہلِ مغرب ’نیک نام ‘ہیں، کیونکہ انھوں نے اپنے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے بڑی تعداد میں این جی اوز بناکر ان کو وسائل سے مالا مال کردیا ہے۔
۱۳-ہمارے ہاں تضادات کا عالَم یہ ہے :’’قراردادِ مقاصد کو دستور کا نافذ العمل حصہ بنائے جانے کے بعد آئینی اعتبار سے لازم ہے کہ قرآن وسنّت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا‘‘، لیکن عملی صورتِ حال یہ ہے :قومی اسمبلی میں دس غیر مسلم اراکین ہیں اور اُن کا ووٹ دینے کا حق مسلم اراکین کے برابر ہے ۔پس اگر کسی قانون کے قرآن وسنّت کے مطابق نہ ہونے کے بارے میں قومی اسمبلی میں ووٹنگ ہورہی ہو اورایک طرف ۱۷۰ مسلم ارکان ہوں اور دوسری طرف ۱۶۲مسلم ارکان کے ساتھ دس غیر مسلم اراکین کے ووٹ شامل ہوجائیں، تو ۱۷۰مسلم اراکین کی اکثریت بے اثر ہوجائے گی اور دس غیر مسلم اراکین کے ووٹ فیصلہ کُن حیثیت اختیار کرجائیں گے اور قرآن وسنّت کے خلاف قانون بن جائے گا۔ پس فیصلہ کیجیے: ’’مظلوم اکثریت ہے یا اقلّیت؟‘‘۔
وقت ایک قیمتی اور محدود وسیلہ ہے، جس کی اسلام میں بہت اہمیت ہے۔ دین وقت کو دانش مندی کے ساتھ استعمال اور اس کا مؤثر طریقے سے انتظام کرنے کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔ مسلمان ایمان رکھتے ہیں کہ وقت اللہ کی طرف سے ایک تحفہ ہے، اور اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا ان کی ذمہ داری ہے۔اسے لغو اور فضول معاملات میں استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ اسلام زندگی کے تمام پہلوؤں میں پیداواریت،حُسنِ کارکردگی، توازن اور ذہن سازی کی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے وقت کے صحیح استعمال کے بارے میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔
اس کے علاوہ موجودہ دور میں مسلمانوں کی نقل مکانی مغربی ممالک کی طرف زیادہ ہوگئی ہے، ایسی صورت حال میں دعوت اور تبلیغ سے وابستہ افراد کے لیے ان ممالک میں دعوتی کام کے حوالے سے چند تجاویز پیش کی جارہی ہیں۔
اپنی تمام دعوتی کوششوں میں، یاد رکھیں کہ اللہ ہی آخری رہنما ہے، اور کامیابی اخلاص، صبر اور اس پر بھروسا کرنے میں پوشیدہ ہے۔ اس کی حکمت پر بھروسا رکھیں اور ہمدردی، علم اور عاجزی کے ساتھ اسلام کے پیغام کو پھیلانے کی کوشش کرتے رہیں۔مسلسل خود کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ دوسروں کی انفرادیت اور خودمختاری کا احترام کرنا، مہربانی، ہمدردی، اور دوسروں کے ساتھ جڑنے کی حقیقی خواہش کے ساتھ بات چیت کرنا ضروری ہے۔ اسلام کے اصولوں کو مجسم کر کے، مؤثر مواصلاتی تکنیکوں کو استعمال کر کے، اور مختلف رسائی کے طریقوں میں شامل ہو کر، آپ مثبت اثر ڈال سکتے ہیں اور اسلام کے پیغام کو پھیلانے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔
اسلام مسلمانوں کو وقت کا خیال رکھنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اس کی محدود نوعیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس جواب دہی کا سامنا کرنا پڑے گا کہ وہ اسے کیسے استعمال کرتے ہیں؟ اسلام کی تعلیمات کو اپنانے اور وقت کے انتظام کے مؤثر طریقوں کو نافذ کرنے سے، افراد اپنی ذمہ داریوں، ذاتی ترقی اور اللہ سے عقیدت کے درمیان ایک ہم آہنگ توازن قائم کر سکتے ہیں۔ یاد رکھیں، وقت ایک تحفہ ہے، اور اسے دانش مندی سے سنبھالنا، اسلام کی خدائی رہنمائی کے لیے شکرگزاری اور اطاعت کی عکاسی کرتا ہے۔ اللہ ہمیں اپنے وقت کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے اور بامقصد زندگی گزارنے کی حکمت اور نظم و ضبط عطا فرمائے، آمین!
جدید سرمایہ دارانہ اقتصادیات کا علم تین بنیادی مفروضوں پر قائم ہے:
قلت کا اظہار بازار میں اشیا کی قیمتوں کی شکل میں ہوتا ہے۔قیمتوں کو دیکھ کر کارخانہ دار ، زمین دار، دست کار یا بیوپاری یہ طےکرتے ہیں کہ کس چیز میں منافع زیادہ ہے اور کس میں کم؟ کون سی چیز کم یا زیادہ پیدا کرنی چاہیے؟ سرمایہ دارانہ اقتصادی اصول کے مطابق اشیا کی پیداوار اور تقسیم کا نظام قیمتوں کو مدنظر رکھ کر افراد کی اکثریت کی ضرورتیں اس طرح سے پوری کرتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کی خواہشات کی تسکین فراہم ہو،اور کسی اخلاقی نظریے کی بنیاد پر اس میں رَدو بدل کیا جائے تو وہ اجتماعی خوش حالی کے بجائے بدحالی کی طرف لے جائے گا۔ کیونکہ اس میں ایک فرد یا ادارے کی منفعت میںاضافہ کرنے کے لیے دوسرے کا نقصان کیا جائے گا، اور حق دار سے اُس کا حق چھین کر نا حق دار کو دے دیا جائے گا۔ اس لیے سرمایہ دارانہ فکر کے مطابق بازار، منڈی یا مارکیٹ کو اقتصادی منصوبہ بندی پر ترجیح دی گئی۔ بازار کو انسانی حاجات کی تسکین کا نہایت معقول اورموزوں نظام قرار دیا گیا اور منصوبہ بندی کو اسے مسخ کرنے کا ذریعہ سمجھا گیا۔
سوال یہ ہے کہ بازار کو انسانی ضروریات کی تسکین کا نہایت معقول اور واحد ذریعہ سمجھا جائے یا نہیں؟ بازار کی موزونیت اورحقانیت ثابت کرنے کے لیے بورژوا نظریہ سازی اور تحقیق کا تمام کام ہوا ہے اور اعداد و شمار اکٹھے کیے گئے ہیں۔ نزول اسلام کےوقت بازار اور تجارت کے ذریعے انسانی ضروریات کی تسکین کے نظام پر کوئی بنیادی اعتراض نہیں اُٹھایا گیا۔ لیکن اس حقیقت کوتسلیم کیا گیا تھا کہ بازار میں ہونے والے اقتصادی فیصلے بعض صورتوں میں نا قابلِ قبول نتائج پیدا کرتے ہیں۔ بازار کی ناکامی کی ان شکلوں کو بازار کے قانون سے استثنا کی صورت قرار دیا جا سکتا ہے۔ استثنا کی ان صورتوں کو سامنے رکھتے ہوئے ایک مخلوط یاتکثیر ی نظام کی فکری بنیادیں فراہم کی گئیں۔ قحط، سود، اور غُلامی ، بازار میں قیمتوں کے منصفانہ یا معقول طریقے سے تعین استثنا کی شکلیں تھیں۔
ان تینوں صورتوں سے نبٹنے کے لیے تین مختلف اصول تجویز کیے گئے۔ قحط میں بیت المال سے امداد، اورفی سبیل اللہ انفرادی امدا د کا نظام تجویز کیا گیا۔یہ بیت المال اور مواخات کی شکل میں بازار کے متوازی تسکینِ ضرورت کے نظام کی شکل تھی اور ایک تکثیری/مخلوط اقتصادی نظام کی بنیاد۔ قدرتی وجوہ سے پیدا ہونے والی قلت کے بازار کی معقولیت پر مبنی قلت کے دائرہ کار سے استثنا کی کئی شکلوں کا ذکر قرآن، حدیث اور اسلامی تاریخ میں ملتا ہے۔سود کی صورت میں بازار کے طے کردہ اصول کو رَد کر دیا گیا، اور مالی وسائل پر سُود کی شکل میں منفعت حاصل کرنے کی نفی کر دی گئی۔ غلامی، جس میں انسانوںکو اشیا کی طرح دوسرے انسانوں کی ملکیت کو تسلیم کیا گیا، انسانوں کی بازار میں خرید و فروخت رائج ہوئی ، اُسے نہ صرف نا پسند کیاگیا، اسے مٹانے کے لیے متفرق اقدامات بھی کیے گئے، البتہ حالاتِ زمانہ کی مناسبت سے منسوخ نہیں کیا گیا۔ غلاموں اور کنیزوں کو آزاد کرنے کو کارِ ثواب قرار دیا گیا، اور اُس کے نتیجے میں بتدریج غلامی ختم ہو گئی۔ جسے چند صدی پہلے ’انسان کی آزادی‘ پر مبنی سرمایہ داری نظام نے زور شور سے بحال کیا اور ترویج دی۔
مسلم روایت میں بازار میں قائم ہونے والی قیمتوں کی معقولیت سے استثنا کو قبول کرنا اور متبادل اقتصادی منطق کو اختیار کرنے کی اجازت دینا سرمایہ دارانہ وحدانی سوچ کے مقابلے میں ایک تکثیری، متوازن، اور مبنی بر حقیقت سوچ ہے۔ اس کے فکری اور عملی مضمرات پر آگے گفتگو ہوگی۔ انیسویں صدی میں سرمایہ دارانہ فکر کے خاتمے کے لیے اُبھرنے والی مارکسی سوچ کی بنیاد بھی بازار میں قیمتوں کے معقول تعین کے ایک بنیادی استثنا کی طرف توجہ دلانے اور اس ظالمانہ استثنا کو ختم کرنے کی جدوجہد تھی۔یہ استثنا کارل مارکس کے مطابق بازار میں اُجرتوں کے تعین کی شکل میں تھا۔ اور بازار میں متعین ہونے والی اُجرت مزدور کی طرف سےپیداوار میں کیے گئے قدر کے اضافے سے ہمیشہ کم متعین ہوتی تھی ۔فکری طور پر اس منطق اور استثنا سے نبٹنے کے لیے مسلم روایت میں متبادل اور متوازی نظام قائم کرنے کی منطق میں کوئی تضاد نہیں تھا۔ بازار پر مبنی تقسیمِ دولت کی معقولیت سے ایک اوراستثنا اجتماعی اشیاکی تخلیق اور تقسیم کے نظام کا ہے۔
انفرادی اشیا وہ ہیں، جن سے افراد براہ راست اپنی انفرادی ضروریات کی تسکین کرتے ہیں، جیسے خوراک، لباس ، رہایش وغیرہ۔ لیکن اجتماعی اشیا وہ ہیں جن کا افراد کو براہِ راست فائدہ تو پہنچتا ہے لیکن معاشرے کو اُس کا اجتماعی فائدہ بھی پہنچتا ہے۔ معاشرے کی ترقی اور صحت کا انحصار بہت حد تک ان اجتماعی اشیا کی پیداوار پر ہے، جیسے تعلیم، تحقیق،صحت ، سڑکیں، جنگلات اور قدرتی وسائل کا تحفظ، موسمیاتی تبدیلی کا تدارک۔ یہ اجتماعی اشیا سماجی ضروریات کو کما حقہٗ پورا کرنے کے لیے بازاری نظام خود بخودپیدا نہیں کرتا۔ اس کام میں ریاستی منصوبہ بندی اور عملی اقدام نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جس سے نا پسندیدگی ظاہر کرنےکے لیے بورژوا نظریہ دان ’سوشلزم‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ یہاں یہ ذکر کرنا دلچسپی کا باعث ہوگا کہ بیسویں صدی کے آخری عشروںمیں سوویت یونین کے بعد سب سے بڑی منصوبہ بندی پر قائم معیشت امریکی محکمۂ دفاع تھا۔ امریکی کاروباری کارپوریشنوںکو سرکاری وسائل سے تحقیق کرنے کے لیے جتنے خطیر وسائل ملتے تھے، اور اُنھیں دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے جس طرح دل کھول کر سرکاری خزانہ خالی کیا گیا، اُسے سامنے رکھتے ہوئے امریکی دانشور گور وڈال نے کہا تھا کہ ’’امریکی نظام، سرمایہ داروںکے لیے سوشلزم اور غریبوں کے لیے سرمایہ داری کا نظام ہے‘‘۔
اب آئیے بازار کے دائرہ کار سے باہر متوازی اقتصادی صورتوں کو قائم کرنے کے بارے میں اسلام، سرمایہ داری اور اشتراکی خصوصیات کی تفصیل کو جانچنے کی طرف۔ اسلام نے قحط، سود اور غلامی کو بازار کے نظام سے استثنا کے طور پر تسلیم کیا تھا۔ مارکس نےکہا تھا کہ بازار میں اُجرتوں کا جو تعین ہوتا ہے، اُسے بھی بازار میں معقول طریقے سے طے کر دہ نظام سے استثنا حاصل ہے۔ کیوںکہ مزدور کو ملنے والی اُجرت قدر میں ہونے والے اُس اضافے سے کم ہے، جو اُس کی محنت کے نتیجے میں پیداوار میں برپا ہوتا ہے۔ اگرمزدور کی اُجرت اور پیداوار کی قدر میں اُس کی طرف سے کیا جانے والا اضافہ برابر ہوں تو مُنافع حاصل ہی نہیں ہو گا۔مزدور منڈی میں سودے بازی کے ذریعے سے منصفانہ اُجرت اس لیے حاصل نہیں کر سکتے کیونکہ پیداوار کے ذرائع سرمایہ دار کی ملکیت ہیں، جس کی حیثیت اجارہ دار کی سی ہے، یوں سرمایہ دار اور مزدوروں میں مقابلے کی تلخ فضا موجود ہے۔ اس لیے اُجرت کے لیے سودا بازی کرنے والے دو فریقوں میں ایک مستقل بگاڑ کی بنیاد موجود ہے۔ یہ بازار کی معیشت کی ناکامی ہے۔ اس کا حل کارل مارکس نے ذرائع پیداوار کی اجتماعی ملکیت قائم کرنے کی شکل میں تجویز کیا تھا۔
اب مسلم روایت، سرمایہ دارانہ روایت اور مارکسی روایت میں بازار کے نظام کے مسخ ہونے کی صورت یا اُس کی معقولیت کے دائرۂ کار سے استثنا کی صورت کے بارے موجودہ زمانے میں جو حل تجویز کیے گئے ہیں، اُن کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اسی تجزیے سے مسلم اقتصادی فکر کے خدوخال واضح ہوں گے۔یہاں پر یہ بتانا ضروری ہے کہ وسائل کی قلت، نفسیاتی رویے (سرمایہ دارانہ نظریہ معقولیت) ، قدرتی اور سماجی حالات، یا انفرادی قوت مسابقت میں کمی، یعنی کسی بھی وجہ سے پیدا ہو سکتی ہے۔ بورژوا فکر نے قلت کی ان شکلوں میںتاریخی اور معاشرتی پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے فرق کرنے اور متنوع اور تکثیری حل کو مرکزی موضوع بنانے سے گُریز کیا ہے۔بازار میں بگاڑ کی بعض شکلوں کو تسلیم تو کیا ہے، لیکن تجزیاتی طور پر ہمیشہ ایک خیالی مکمل مسابقت والے بازار کو سامنے رکھ کرمسائل کے حل پیش کیے۔ اسلام اور مارکسیت نے بازار کے بگاڑ یا ناموزونیت کی شکلوں کو تسلیم کیا ہے اور اُس کے غیرسرمایہ دارانہ حل تجویز کیے ہیں اور اُن کی معقولیت پر اصرار کیا ہے۔
قرآن میں قدرتی قلت کا حل حضرت یوسف علیہ السلام نے عزیزِ مصر کو بتایا تھا۔ اس تجویز میں قحط کی قلت سے نمٹنے کے لیے بازار کی طےکردہ تقسیم کے بجائے حکومت کی منصوبہ بندی کو لوگوں کی ضرورت کے مطابق اناج تقسیم کرنے کا ذریعہ بنایا گیا۔ اسی سے بہت حد تک ملتے جلتے اصول کی بنیاد پر بیسویں صدی کے دوران سوشلسٹ معیشتوں کی بنیاد رکھی گئی تھی تھی۔ قحط سے پیدا ہونے والی قلت کا دوسرا حل ریاستِ مدینہ کے زمانے میں حضرت عثمان غنیؓ نے پیش کیا تھا، اور بازار سے کم قیمت پر یا بلا قیمت اناج ضرورت مندوں میں تقسیم کیا تھا۔ حالانکہ یہ حل بازار کے اصول پر قائم نہیں تھا، اور نہ منصوبہ بندی کے اصول پر کارفرما تھا، بلکہ خوفِ خدا،عفو اور مواخات کی فکر پر قائم تھا۔قحط سےنبٹنے کے ان دو متبادل طریقوں سے مسلم فکر میں ایک تکثیری اقتصادی راستے کا تصور ملتا ہے۔ معمول کے حالات میں انفرادی سطح پر قلت کے جواب میں قناعت ، شُکر اور فقر کی روایت مسلم تاریخ میں لگاتار دکھائی دیتی ہے۔
اس طرح سے قلت ایک تاریخی اور معاشرتی پس منظر میں با معنی طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ تجزیاتی طریقہ مارکسی طریقے کےقریب تر ہے۔ لیکن اسلام کا حل رضاکارانہ اور اجتماعی دونوں طریقوں سے بھائی چارے کاہے۔ رضاکارانہ بھائی چارے کی مثال مواخات مدینہ کی صورت میں انسانیت کے سامنے تھی،اور اجتماعی ، ریاستی قوت کی بنیاد پر بھائی چارے کی مثال، بیت المال کا نظام تھا۔ گویا اسلامی ریاست میں مخلوط معیشت کا نظام سرمایہ دار اور سوشلسٹ ریاستوں میں اس تصور کی قبولیت حاصل کرنے سے پہلے موجود تھا۔ بورژوا اور سوشلسٹ فکر دونوں میں صرف بازار یا صرف منصوبہ بندی پر مبنی وحدانی معیشت کا تصور طویل عرصے تک قائم رہا۔ ان دونوں نظاموں کے اندرونی بحرانوں کی شدت کے نتیجے میں عالمی سرمایہ داری نظام نے ۱۹۲۹ء میں اور سوشلسٹ کیمپ نے ۱۹۹۲ء میں مخلوط معیشت کو فکری، اقتصادی اور سیاسی حقیقت کے طور پر تسلیم کرکے ایک مختلف سفر کا آغاز کیا۔
لیکن مسلم فکر، مخلوط معیشت کے تصور پر سرمایہ دارانہ اور سوشلسٹ فکر سے مختلف راہ اختیار کرکے پہنچی۔ یہاں پر یہ غورکرنا ضروری ہے کہ عصرحاضر میں مسلم فکر میں اقتصادی مسئلے کو کس طرح دیکھا گیا؟ مسلم فکر میں قلیل وسائل سے کثیر منفعت حاصل کرنااقتصادی سرگرمی کا نقطۂ آغاز نہیں ہے۔ روزی کمانا اور خرچ کرنا دونوں اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ اسلام کے معاشی و سماجی نظامِ فکروعمل میں ضرورتوں کومحدود کرنا اور ضرورت سے زیادہ مستحقین پر خرچ کرنا ایک بڑا بنیادی اور رہنما اصُول ہے۔ کمانا اور خرچ کرنا دونوں اقتصادی کے علاوہ دینی اور مذہبی سرگرمیاں ہیں۔ خوش حالی کے لیے تگ و دو کرنا اور اس میں دوسروں کو شریک کرنا فرد، برادری اور ریاست تینوں کی ذمہ داری ہے۔
اس اصول کے پیش نظر میرے خیال کے مطابق اسلامی اقتصادی فکر کا نقطۂ آغاز تزکیہ بنتا ہے۔ زکوٰۃ، صدقات، خیرات،مواخات سب تزکیہ کی شکلیں ہیں۔ اس لیے اقتصادی مسئلہ نفس کی لالچ اور خود غرضی کی آلائشیں دُور کرنا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی محدود فکری بنیاد کے تنقیدی جائزے میں میری معلومات کی حد تک کسی جدید اسلامی اقتصادی مفکر نے یہ سوال نہیں اُٹھایاکہ ’’وسائل کی قلت کے حوالے سے اقتصادی معاملات کے حل کی تشخیص میں کوئی نقص یا قباحت ہے یا نہیں؟‘‘
مارکسی فکر میں بھی بازار کے معقول اور منصفانہ نظام سے استثنا کی دو شکلوں پر بنیادی اعتراض کیا گیا ہے: ایک یہ کہ بازارکا نظام ایک تاریخی نظام ہے اور تاریخی اورسماجی سیاق و سباق سے الگ کر کے اسے دیکھا نہیں جا سکتا۔ دوسرے، دو جرمن مارکسی ماہرین نے قدرتی اور سماجی قلت میں فرق کا یہ نکتہ بیان کیا تھا کہ مارکیٹ میں موجود قلت قدرتی نہیں ہے بلکہ سراسر ملکیت کی نامنصفانہ اور جبری سماجی تقسیم کا نتیجہ ہے۔ اس لیے قلت کا بازار میں حاصل ہونے والا حل ایک قدرتی ، منصفانہ ، اور معقول حل نہیں ہے‘‘۔یہ سرمایہ داری نظام کی پیدا کی ہوئی قلت کو دوبارہ پیدا کرتا ہے۔ جدید اسلامی ماہرین کا اس چیلنج کا باریک بینی سے جواب سامنے آنا باقی ہے۔
سرمایہ داری نظام نے بازار کے راستے دولت کی تقسیم کا جو نظام قائم کیا، اُس میں مزدوروں کا حصہ اتنا کم تھا کہ وہ بازار میں اپنی محنت، لگن اور دانش سے پیدا کی ہوئی اشیا خود نہیں خرید سکتے تھے۔ اس کے نتیجے میں ۱۹۲۹ءمیں پوری سرمایہ دار دُنیا میں ’کساد بازاری‘ (Recession) کا ایسا شدیدبحران آیا کہ اقتصادی نظام ٹھپ ہو کر رہ گیا۔ اس سے مارکس کی یہ پیشین گوئی تو صحیح ثابت ہوگئی کہ پیداواری تعلقات پیداواری قوتوں کی راہ میں رُکاوٹ بن گئے اور سرمایہ داری نظام کا پہیہ جام ہو گیا۔ لیکن یہ تجزیہ صحیح ثابت نہیں ہوا کہ سرمایہ داری نظام میں اصلاح کے ذریعے ترقی کی گنجایش ممکن نہیں ہے۔ بورژوا نظریہ ساز جان مینارڈ کینز نے اس موقعے پر معیشت میں ریاستی مداخلت کے ذریعے نئے روزگار اور نئے منصوبوں کی وکالت کی، تاکہ اشیا طلب کرنے کے لیے مزدورطبقے کے پاس قوت خریدآئے اور فیکٹریوں کا پہیہ چلنا شروع ہو۔
ترقی کے سوال پر کارل مارکس کی سوچ سرمایہ دارانہ سوچ سے مختلف نہیں تھی اور اُس کے پیروکاروں کے نزدیک ذرائع پیداوارکی ترقی ہی قلت کا اجتماعی اور تاریخی حل تھی اور مادی دولت کی کثرت ہی ترقی کو ناپنے کا پیمانہ تھا۔ اس میں مزدوروں کا جائزمعاشی حصہ مانگنے کے راستے میں رُکاوٹ پیداواری تعلقات کا نظام تھا۔ اُنھیں بدلنے کے لیے ذرائع پیداوار پر مزدور طبقے کا قبضہ ضروری تھا۔اس لیے تبدیلی پُر تشدد کارروائی اور مزدور طبقے کی پارٹی کی قیادت کے بغیر مُمکن نہیں ہے۔ یہ نظریہ جتنا سادہ اورقابل فہم نظر آتا ہے، اس کی عملی شکل اُتنی ہی پیچیدہ تھی اور ہے۔ اس نظریہ سازی پر کوئی حتمی رائے قائم نہیں ہوئی۔ روس ، چین اور دیگر ممالک میں ذرائع پیداوار کی ملکیت نے مزدوروں کی اقتصادی خوش حالی کی جو کوششیں کیں، وہ بازار کی معیشت کے لیے گنجایش پیدا کرنے اور آخرکار مخلوط معیشت قائم کیے بغیر کامیاب نہیں ہو سکیں۔ اس میں بورژوا تحقیق نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ مزدورطبقے کا حق لینے کے لیے سکینڈے نیویا کے ملکوں کے تجربے اور تھامس پکٹی کی تحقیق نے یہ امکان ظاہر کیا ہے کہ ٹیکس کے نظام میں عوامی فلاح کو سامنے رکھتے ہوئے ترقی پسند انہ ٹیکس پر مبنی نظام، ریاستی ملکیت پر مبنی نظام سے بدرجہا بہتر اور موزوںہے ۔
سرمایہ داری نظام کی فکر اور ہیئت کی بنیادوں کے متبادل تصور کی بنیادیں اُٹھائے بغیر سود کے خاتمے اور زکوٰۃ کی ادائیگی کےاجزا کو سرمایہ داری نظام کے ساتھ ٹانک دینے سے اسلامی معیشت کا نظام قائم نہیں ہو سکتا۔ سود کی ممانعت سرمائے کی ایک خاص شکل پر معاوضہ لینے کی ممانعت ہے۔ قرآن میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام۔
یہاں اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ سود کیا ہے؟ کیا روپے پر روپیہ کمانا سود ہے؟ ایک مقررہ شرح پر قرض پر معاوضہ مانگناسُود ہے یا ایک خاص حد سے زیادہ شرح پر قرض کا معاوضہ مانگنا سُود ہے ؟ یا کاروبار میں شراکت کے بغیر ، اور نفع اور نقصان دونوں میں شراکت کے بغیر مالی سرمائے پر صرف پہلے سے طے شدہ شرح پرمنافعے کا تقاضا کرنا سُود ہے؟ اس آخری نوعیت کی کمائی کو اگر سُود تصور کیا جائے تو پھر اقتصادی سرگرمی کی دستاویز بندی (documentation) کرنا اس کا لازمی جُزو بنتی ہے۔پاکستان میں اقتصادیات کی دستاویز بندی کی بعض مذہبی طبقوں کی طرف سے ہمیشہ مخالفت کی گئی ہے۔ وہ بنکوں میں رقم جمع نہ کرانے کی ایک بڑی بنیاد بتاتے ہیں کہ بنک سُود کا کاروبار کرتے ہیں۔
بعض حلقے آمدنی چھپانے اور ٹیکس نہ دینے کا یہ جواز بناتے ہیں کہ ’’زکوٰۃ دینا تو ہم پر فرض ہے لیکن ٹیکس نہ دینا اور ٹیکس کو چھپانا کوئی ناجائز کام نہیں ہے‘‘۔ یہاں پر یہ بات بھی سمجھنا ضروری ہے کہ زکوٰۃ نابرابری کے توڑ کا ایک طریقہ ہے، لیکن زکوٰۃ، ریاستی ٹیکس کا بدل نہیں ہے کیونکہ زکوٰۃ سب کے لیے نہیں بلکہ صرف مستحقین اور متعین مدات کے لیےہے اور ٹیکس مجموعی ریاستی اُمور کی ادائیگی کے لیے ہے۔ مگر بازار میں بگاڑ یا بازار کے نظام کی محدود دائرۂ کار میں افادیت، قدرتی طورپر مفت حاصل ہونے والی اشیا پر غاصبانہ قبضہ کر کے اُنھیں انفرادی ملکیت کی اشیا میں تبدیل کرنے کی صورتوں، اور اجتماعی اشیا کی پیداوار کرنے کی ضرورت کو توجہ کا موضوع بنایا جائے، تو مخلوط اقتصادی نظام کا فکری جواز پیدا ہوتا ہے۔ جدید فلاحی ریاست اس مخلوط معیشت کی ایک عُمدہ مثال ہے۔ اس وقت مسئلہ مخلوط معیشت کی موزونیت کو نہ ماننے کا نہیں بلکہ اُن پالیسیوں کا ہے جن کےذریعے معیشت کو چلایا جائے ۔ اس حوالے سے عالمی اور قومی دونوں سطحوں پر اسلحے کی پیداوار اور دفاعی اخراجات، قانونی اورغیر قانونی طریقے سے ٹیکس چوری اور چوری کی ہوئی رقم کی خفیہ ٹھکانوں میں ترسیل، اقتصادی نا برابری، اور انسانیت کش موسمیاتی تبدیلی بنیادی اہمیت کے حامل موضوعات ہیں۔ایک فلاحی ریاست کا قیام، اس کے لیے بجٹ کے اہداف اور منصوبہ بندی کا مربوط نظام بنیادی لوازمات ہیں۔
پاکستان میں ایک فلاحی ریاست کا قیام اور اقتصادی نظام کی کایا پلٹ کسی ایک سیاسی جماعت یا دھڑے کے بس میں نہیں ہے، بالکل اس طرح جیسے کہ دستور بنانا بھی کسی ایک سیاسی پارٹی کی رائے پر منحصر نہیں ہے۔ یہ کام قومی مشاورت، گہری تحقیق اور کُل جماعتی سوچ، اتفاق اور ہم آہنگی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اس پر مزید مباحثے اور مکالمے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس بنیادی اور ضروری کام کے لیے فکری اور سیاسی قیادت کہاں ہے کہ جس کی پشت پر قوم کا ایک قابلِ لحاظ حصہ کھڑا ہو اور جس کے پاس دیانت، علم اور شعور کی دولت بھی موجود ہے؟
سوال: دین اسلام اور مسلم معاشرے میں اقامت دین کی کیا اہمیت ہے؟
جواب: قرآن و سنت کے دلائل سے لوگ یہ بات ماننے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ اللہ کی کتاب اس لیے آئی ہے کہ اس پر عمل کیا جائے، اس کو قائم کیا جائے اور اس کے سارے احکام نافذ ہونے چاہییں۔ لیکن اگر آپ صرف عبادات پر رُک گئے اور پھر پوری زندگی کے لیے شریعت کے باقی جو احکام ہیں وہ کس طرح قائم ہوں گے؟
اس فریضۂ اقامتِ دین سے جان چھڑانے کے لیے ہمارے بہت سے دین دار مسلمانوں نے پانچ فلسفے گھڑ رکھے ہیں، جن کا مولانا صدرالدین اصلاحی صاحب نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے:
مولانا صدرالدین اصلاحی نے اس صورتِ حال کا یہ جواب دیا ہے اور یہ عقل کی بات ہے کہ مَا لَا یَتِمُّ الْوَاجِبُ اِلَّا بِہٖ فَھُوَ وَاجِبٌ ، جب کوئی ضروری حکم کسی دوسری چیز کے بغیر پورا نہیں ہوسکتا، تو پھر اس دوسری چیز کو حاصل کرنا بھی لازم ہوجاتا ہے، جیسے پانی کے بغیر وضو نہیں ہوسکتا اور نماز نہیں ہوسکتی۔ اس لیے پانی کی تلاش لازم ہوجاتی ہے۔ ایک شخص کہتا ہے کہ پانی نہیں ہے، لہٰذا نماز سے جان چھوٹ گئی، تو ایسا نہیں ہے۔ جو چیز دین میں فرض ہے، اس کی ادائیگی کا اہتمام ضروری ہے۔ پھر عقل یہ بھی کہتی ہے کہ اس پر عمل اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب یہ انتظام ہو۔ اس سے یہ پتا چلا کہ اسلامی حکومت قائم کرنا مسلمانوں کے لیے سب سے پہلا فرض ہے۔ اسلامی حکومت ہوگی تو مسلمان ان تمام فرائض پر عمل کریں گے۔ جتنے بھی احکام ہیں یہ سب مسلمانوں پر فرض ہیں، صرف حکمران ہی اس کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ لیکن اس کا طریقہ یہی ہے کہ حکومت ان پر عمل درآمد کرے۔ اگر سب مسلمان اپنے اپنے طورپر اس پر عمل شروع کردیں تو اس سے انارکی پھیل جائے گی۔اس لیے ان احکام پر عمل کرنے کے لیے خلیفہ یا اسلامی حکومت قائم کرنا فرض ہوگا۔ اس کے بغیر ان احکام پر عمل نہیں ہوسکتا اور قرآن معطل ہوکر رہ جائے گا۔
اس پس منظر میں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ حکومت کے بغیر چارہ نہیں جیساکہ حضرت علیؓ ابن ابی طالب فرماتے ہیں: امام تو ہوگا چاہے وہ بد ہو یا فاجر۔ دُنیا جب سے چلی ہے اس میں حکمران ہونا ہی ہے۔ اس کے بغیر کوئی معاشرہ نہیں۔ نیک ہو یا بد، کوئی نہ کوئی تو حکومت کرے گا۔ نیک ہوگا تو اس کے زیرسایہ لوگ امن سے رہیں گے، سُکھ کا سانس لیں گے، راستے پُرامن ہوں گے اور عزّتیں محفوظ ہوں گی۔ اگر حکمران بد ہوگا تو لوگ بُرا انجام دیکھیں گے۔
یاد رہے، حکومت کا دائرۂ اثر صرف دفتروں تک محدود نہیں رہتا۔ اس کے پاس نشرواشاعت اور تعلیم و تربیت کے قانون، معیشت، عدل اور امن وامان قائم کرنے کے لیے ایسے ذرائع ہوتے ہیں کہ ان کے ذریعے آہستہ آہستہ عبادات کا دائرہ بھی تنگ ہوجاتا ہے۔ مولانا مودودیؒ نے لکھا ہے کہ انگریزوں یا کافروں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ مسلمانوں کی بچیاں ڈانس کریں، سروں سے کپڑا اُتار دیں یا بے نماز ہوجائیں۔ لیکن باطل حکومت آنکھیں بند کرکے نہیں بیٹھی رہتی بلکہ اپنے مطلب کے آدمی تیار کرتی ہے اور ان کے ذریعے اپنے احکامات نافذ کرتی ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ نتیجہ یہ ہے کہ تھوڑی ہی صدیاں گزرنے کے بعد ہم نے دیکھا ہے کہ جن گھروں میں دادیاں تہجد پڑھ رہی ہیں، وہاں صبح پوتیاں ڈانس کر رہی ہیں۔ باطل حکومت کا بُرا اثر اپنے آپ آجاتا ہے اور اگر نیک حکومت ہو تو وہ بھی اپنے اثرات مرتب کرتی ہے۔
تاریخ میں اس کی بڑی عمدہ مثال بیان ہوئی ہے۔ جب ولید بن عبدالملک خلیفہ ہوا، تو ہرجگہ عمارتوں کی باتیں ہوتی تھیں۔ لوگ جہاں بیٹھتے تھے ان ہی باتوں کا تذکرہ کرتے تھے۔ اس لیے کہ وہ قلعے بنواتا تھا، عمارتیں بنواتا تھا اور مسجدیں تعمیر کرواتا تھا۔ ہرجگہ حکمرانوں کے مزاج کے مطابق عوام کا مزاج ہوتا ہے۔ جب سلیمان بن عبدالملک حکمران بنا تو وہ چونکہ عاشق مزاج تھا، لہٰذا ہرجگہ حُسن و عشق کی باتیں ہوتی تھیں ۔اور پھر جب انھی میں عمر بن عبدالعزیز برسرِ اقتدار آئے تو ان کے دوسالہ دورِحکمرانی میں ہرجگہ قَالَ اللہُ وَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ کی صدائیں بلند ہونے لگیں اوراللہ اور اُس کے رسولؐ کی باتیں ہونے لگیں۔ گویا حکمران کسی جزیرے میں الگ سے بیٹھا حکومت نہیں کررہا ہوتا۔ وہ پورے ملک پر اثراندازہوتا ہے۔
مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلے میں بڑی پیاری مثال دے کر واضح کیا ہے کہ حکمران ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا ہوتا ہے۔ اس کے ہاتھ میں گاڑی کوچلانا ہوتا ہے۔ وہ جدھر گاڑی کو لے جانا چاہے گا ادھر لوگوں کو جانا پڑے گا۔ بے شک وہ روئیں، دُعائیں کریں، اس سے کچھ فرق نہیں پڑے گا۔ وہ گاڑی کو گنگا کو لے جارہا ہے تو وہ مکہ نہیں پہنچے گی۔اگر مکہ جانا ہے تو اُس آدمی کو اسٹیرنگ پر بٹھائو جو گاڑی کو مکہ کی طرف لے جانے کا ارادہ رکھتا ہو۔ اس لیے اگر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کو چھیڑے بغیر ہی دین پر عمل ہوجائے گا تو ایسا ممکن نہیں ہے۔ آہستہ آہستہ نمازیں بھی چھوٹ جائیں گی۔ اب دیکھیے جمعہ کی چھٹی ختم ہوجانے کی وجہ سے لوگ خطبہ نہیں سن سکتے اور بمشکل جمعہ پڑھ پاتے ہیں۔ غیرمسلم ملکوں میں لوگ کہتے ہیں کہ کمپنیاں ہمیں نماز پڑھنے کے لیے چھٹی نہیں دیتی ہیں۔ اس لیے ظالم حکومت کو برداشت کرنا آہستہ آہستہ سارے دین کو ختم کردینے کے مترادف ہے۔
کنزالعمال میں علامہ علاء الدین علی متقی بن حسام الدین نے ایک بہت پیاری روایت درج کی ہے، جو اس مسئلے کو حل کرتی ہے۔ اگر دین بچانا ہے اور چاہتے ہو کہ کلمہ رہ جائے تو اس پر عمل کرنا ہوگا:الْاِسْلَامُ وَالسُّلْطَانُ اَخَوَانِ تَوْأَمَانِ لَا یَصْلُحُ وَاحِدٌ مِّنْھُمَا اِلَّا بِصَاحِبِہٖ ، فَالْاِسْلَامُ أُسٌّ وَالسُّلْطَانُ حَارِثٌ وَمَا لَا أُسَّ لَہٗ یُھْدَمُ وَمَا لَا حَارِثَ لَہٗ ضَائِعٌ (کنزالاعمال، حدیث:۱۴۶۱۳)،اسلام اور حکومت جڑواں بھائی ہیں۔ ان میں سے کوئی صحیح کام نہیں کرسکے گا جب تک کہ اس کا دوسرا ساتھی ٹھیک نہیں ہوگا۔ اسلام کو ایسے سمجھو جیسے بنیاد ہے۔ جس عمارت کی بنیاد نہیں ہوتی وہ گرجاتی ہے۔ اگر عمارت ہے تو سلطان اس کا چوکیدار ہے۔ جس عمارت کا کوئی محافظ نہیں ہوتا وہ برباد ہوجاتی ہے ۔ اس لیے خلیفہ حکومت کو چلاتا ہے اور اسلام اس کو صحیح راستے پر رکھتا ہے۔ تب بات ٹھیک ہوتی ہے۔
جب سے اُمت کے اہلِ حل و عقد اور دینی رہنمائی پر فائز حضرات کی بڑی تعداد نے مداہنت کا رویہ اختیار کیا ہے اور یہ موڑ مڑا ہے کہ ’’حکومت کا رشتہ کیوں قرآن سے جڑے؟‘‘، تو اُس نے یہ فضا پیدا کی ہے۔ نتیجہ یہ کہ حکمران نمازیں بھی پڑھتے رہے، حج بھی کرواتے رہے لیکن حکومت کے معاملے میں حکمرانوں نے قرآن سے تعلق توڑ لیا کہ جہاں ہماری مرضی ہوگی ہم اس کا اہتمام کریں گے، اورجہاں ہماری مرضی نہیں ہوگی ہم اس پر عمل نہیں کریں گے، تو اس سے ساراکام خراب ہوگیا۔ اب کہاجاتا ہے کہ دین کیسے نافذ ہو؟ اصل مسئلہ یہی ہے کہ جو دین کو نافذ کرنے والے تھے اورجن کے ذمّے تھا کہ پوری اُمت کو راہِ راست پر چلائیں، وہی بگڑ گئے تو دین کیسے نافذ ہو؟(مولانا محمداسحاق مدنیؒ)
سوال : بعض مولوی حضرات تسخیرِ ماہتاب یعنی چاند کی تسخیر کی مہم کو اللہ تعالیٰ کے نظام میں مداخلت قرار دیتے ہیں، اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب : جو لوگ تسخیر ماہتاب کا دعویٰ کرتے ہیں، وہ بالکل ایک غلط بات کہتے ہیں۔ آخر ڈھائی گھنٹے تک چاند پر ٹھیرنے سے چاندکی تسخیر کیسے ہوگئی؟ انسان کروڑہا برس سے زمین پر رہ رہا ہے، لیکن ابھی تک وہ اسے تو تسخیر نہیں کرسکا۔ جب زمین ذرا سا ہلتی ہے تو اسے خدا یاد آجاتا ہے۔ قرآن میں سخرلکم کے جو الفاظ آئے ہیں، ان کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کی یہ چیزیں تمھارے لیے نافع بنادی گئی ہیں۔ مثلاً زمین کو انسان کے لیے مسخر کردیا گیا ہے، ان معنوں میں کہ وہ انسان کے لیے نافع ہے۔ سورج کو مسخر کردیا گیا ہے، اس معنی میں کہ وہ انسان کے فائدے کے لیے ایک ضابطے کے تحت کام کر رہا ہے۔ بالکل اسی طرح دوسرے مظاہرِ کائنات کو تسخیر کرنے کا مفہوم بھی یہی ہے۔
رہی یہ بات کہ ’’بعض مولوی حضرات خلائی مہم کو خدائی نظام میں مداخلت قرار دیتے ہیں‘‘ تو وہ بھی بے سوچے سمجھے بات کرتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان شب و روز اس نظام میں مداخلت کر رہا ہے۔ یعنی جب وہ زمین پر ہل چلاتا ہے اور بیج بوتا ہے تو اس نظام میں ’مداخلت‘ ہی تو کرتا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تو زمین کو سپاٹ بنایا ہے۔ اس لیے قوانین فطرت کے مطابق اس دنیا میں تلاش و جستجو کے لیے قدم اُٹھانا، اللہ تعالیٰ کے نظام میں مداخلت کی تعریف میں نہیں آتا۔(سیّدابوالاعلٰی مودودیؒ)
سوال : کہتے ہیں، فتح مکہ کے موقعے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت علیؓ نے عرض کیا: ’’آپ میرے کندھوں پر سوار ہوں‘‘۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’تم نبوت کا بوجھ نہ اُٹھا سکو گے‘‘۔ اس واقعہ کی کیا حقیقت ہے؟
جواب : یہ ایک بالکل مہمل اور من گھڑت بات ہے۔ نبوت کوئی غلّے کا تھیلا نہیں ہے کہ اسے کوئی کمزور آدمی اُٹھا نہ سکے۔ یہ واقعہ سب لوگ جانتے ہیں کہ ہجرت کی رات ، جب حضرت ابوبکرؓ غارِ ثور کے قریب پہنچے، تو انھوں نے آں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے کندھوں پر اُٹھا لیا تھا، تاکہ آپؐ کے نقوشِ پا کا سراغ نہ رہے۔ اسی طرح رسولؐ اللہ گھوڑوں کی سواری کرتے تھے اور اُونٹوں پر سوار ہوتے تھے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ نبوت کا بوجھ اُٹھا سکتے تھے تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیوں نہ اُٹھالیتے؟ دراصل لوگوں نے بے معنی روایتیں گھڑ رکھی ہیں۔ امرِواقعہ یہ ہے کہ نبوت کا بوجھ کوئی مادی چیز نہیں ہے، یہ تو فرائضِ نبوت کا بارگراں ہے، جسے حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہی اُٹھا سکتے تھے ، اور کسی دوسرے کے بس کی بات نہ تھی۔(ایضاً)
سوال : حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص امام سے پہلے سجدے سے سر اُٹھاتا ہے ، وہ کیا اس بات سے نہیں ڈرتا کہ قیامت کے روز اس کا سر گدھے کا ہوجائے؟___ ایک واعظ صاحب نے اس حدیث کے تعلق سے یہ واقعہ بیان کیا کہ’’ایک محدث نے اس حدیث کی تضحیک کی تھی تو اس کا سر گدھے کا بن گیا تھا ، اور پھر وہ سر کو چادر سے ڈھانپ کر حدیث کا درس دیا کرتا تھا۔ اس واقعے کی کیا حقیقت ہے؟
جواب : یہ کوئی امرِواقعہ نہیں ہے بلکہ اصل میں یہ ایک واعظانہ ہتھکنڈا ہے۔ واعظ لوگ مسئلے سمجھانے کے لیے من گھڑت قصّے بیان کرلیا کرتے ہیں، اور اپنے اس عمل کو ترغیب و ترہیب کے لیے جائزسمجھتے ہیں۔ چنانچہ واعظ صاحب نے اس حدیث کا مسئلہ سمجھانے کے لیے ایک واقعہ گھڑ کر بیان کردیا۔ حالانکہ خود حدیث کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص امام سے پہلے سجدے سے سراُٹھائے گا تو اِسی دُنیا میں اس کا سر گدھے کا بن جائے گا، بلکہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ ’یہ رویّہ سخت احمقانہ ہے‘۔ مقتدی کو امام پر سبقت نہیں کرنی چاہیے۔ مگر واعظوں نے قصّہ گھڑلیا کہ ایک محدث کا سر گدھے کا بن گیا۔(ایضاً)
سوال : کیا ’صدقہ‘ اور ’خیرات‘ میں کوئی فرق ہے، یا یہ ایک ہی خرچ کے دو نام ہیں؟
جواب : یہ ایک ہی خرچ کے دو نام ہیں۔ کہیں اسے ’خیر‘ کہا گیا ہے، کہیں ’نفقہ‘ اور کہیں ’صدقہ‘۔ صدقے میں اصل چیز صدق و اخلاص ہے۔ ہر وہ خرچ ’صدقہ‘ ہے، جو سچے دل سے، اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے کیا جائے، اور اس میں کسی دوسرے جذبے کی آمیزش نہ ہو۔(ایضاً)
ظفراقبال خان متعدد علمی اور سنجیدہ کتب کے مصنف ہیں۔ بڑے شہروں سے دُور انھوں نے علم و تحقیق کا چراغ روشن کر رکھا ہے۔ یورپی ممالک میں برطانیہ اور دیگر ممالک میں خاص طور پر پاکستان، برطانوی استعمار کی کاشتہ جعلی قادیانی ’نبوت‘ کا نشانہ ہیں۔ اس موضوع پر علمی اعتبار سے گذشتہ ایک سوسال سے زیادہ عرصے سے مسلسل لکھا جارہا ہے۔ ختم نبوت کا مسئلہ اپنی نزاکت اور دین میں اہمیت کے حوالے سے مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔ پھر منکرین ختم نبوت بھی پلٹ پلٹ کر مغالطہ انگیزی کے نت نئے دام پھینکتے ہوئے نسلِ نو میں فکرو تشکیک کے کانٹے بکھیر رہے ہیں، تو اس مناسبت سے بھی یہ موضوع مسلسل غوروفکر اور درس و ابلاغ کا تقاضا کرتا ہے۔
مصنف نے زیرنظر کتاب میں معاصر تفسیری لٹریچر سے موضوعِ زیربحث پر قیمتی مباحث کو یکجا کردیا ہے۔ تاہم، اس قابلِ قدر مجموعے کے آغاز میں تھوک کے حساب سے تقریظوں اور پھر اختتام پر، غیرمتعلق تحسینی تبصروں کی بھرمار شامل کرنا مناسب نہیں۔(ادارہ)
مؤلفہ کہتی ہیں کہ دُنیاوی تعلیم کے ساتھ طلبہ کا تعلق صرف اسلامیات تک ہے۔ انھوںنے اپنے اسکول میں پانچویں کلاس سے تدریسِ قرآن کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ وہ بتاتی ہیں کہ سورۃ البقرہ پڑھا کر کچھ سوالات پوچھے گئے تو ذہین طلبہ نے کچھ نہ کچھ جوابات لکھ دیئے مگر باقی طلبہ جوابات نہیں دے سکے۔ چنانچہ مؤلفہ نے تمام سورتوں کے چھوٹے چھوٹے سوالات بنا دیئے اور ان کے جوابات قرآن کی روشنی میں لکھ دیئے۔
یہ کتاب قرآنِ حکیم کے ضروری احکام و ہدایات سے روشناس کروانے کی کامیاب کوشش ہے۔ طباعت مناسب ہے مگر قیمت قدرے زیادہ ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
مصنف، اسٹیٹ بنک آف پاکستان میں اعلیٰ عہدے پر تحقیق و تجزیہ کی ذمہ داری سے وابستہ رہے۔ اس مناسبت سے انھوں نے ملک کی معاشی، سماجی اور سیاسی صورتِ حال کو بڑی توجہ سے دیکھا اور پرکھا۔ اس سے پہلے مدینہ اکنامکس: انسانیت کا پہلا معاشی نظام لکھ کر ایک اہم علمی خدمت انجام دے چکے ہیں۔
زیرنظر کتاب ۲۴؍ابواب پر مشتمل ہے، جن میں انسانیت، اجتماعیت اور زندگی کے مختلف پہلوئوں کو زیربحث لاتے ہوئے، خرابیوں کے اسباب پر بحث کی گئی ہے اور اسلامی فکر کی روشنی میں مختلف حل پیش کیے گئے ہیں۔ اگر موضوعات کو دیکھیں تو کائنات، زمین، مذہب، سائنس، فلسفہ، اسلامی تہذیب پر کلام کیا گیا ہے۔ پھر قرآن، سیرتِ طیّبہؐ اور اسلامی معاشی ماڈل کو موضوع بنایا گیا ہے۔ کتاب کے مباحث کا داخلی ربط، قاری کو راست فکری عطا کرتا ہے۔ (ادارہ)
کئی برس پہلے ادارہ فروغِ قومی زبان، اسلام آباد نے ایک منصوبہ بنایا تھا کہ پاکستان کے اساتذہ (جو حقیقی معنوں میں اچھا استاد ہونے کی خوبیاں اپنے اندر رکھتے ہوں، اُن) پر مضامین لکھوائے جائیںاور انھیں کتابی شکل میں شائع کیا جائے۔ اسی سلسلے کی یہ دوسری جلد ہے، جسے ڈاکٹرانجم حمید نے مرتب کیا ہے۔
سرورق کا ضمنی عنوان ہے: ’’پاکستان کے مثالی اساتذہ‘‘۔ یہ مثالی اساتذہ فی الواقع اس قابل تھے کہ ان پر کچھ لکھا جائے اور ان کے تعارف و توصیف اور ان کے اوصاف بیان کیے جائیں، تاکہ ان کی زندگیاں، آیندہ نسلوں کو مشعلِ راہ نظر آئیں۔ ان میں ڈاکٹر افتخاراحمد صدیقی جیسے بے مثال محقق ہیں،میجر آفتاب حسن جیسے اُردو زبان کے فروغ کے لیے سب کچھ لٹانے والے، ڈاکٹرمحمد ایوب صابر جیسے علامہ اقبال کی شخصیت اور فکرپر اُڑائی گئی گرد صاف کرنے والے، پروفیسر صابر کلوروی جیسے اپنے پورے جسم و جان سے اپنے تلامذہ کی تربیت اور ان کی مدد کرنے والے، صوفی ضیاء الحق جیسے فاضل اجّل اور بے ریا معلّم، پروفیسر مرزا محمد منور جیسے اقبال شناس، ڈاکٹر مظہرمحمود شیرانی جیسے محقق شامل ہیں۔پاکستان کے طول و عرض میں سیکڑوں ایسے اساتذہ مل جائیں گے، جنھیں اس طرح متعارف کرانا ضروری ہے۔ ہماری تجویز ہے کہ مقتدرہ اس طرز پر جلد سوم بھی تیار کرائے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
یہ کتاب بنیادی طور پر بچوں کی تربیت کے لیے مرتب کی گئی ہے، جس میں والدین اور اساتذہ کو رہنمائی دی گئی ہے کہ وہ اپنے زیر تربیت بچوں کے ذہنوں میں بنیادی اسلامی اصول راسخ کریں۔ان میں صفائی، نماز، سچائی، حیا، خوش اخلاقی،سادگی، عاجزی، والدین کی خدمت، خدمت ِ خلق، صبر، تلاوت اور میانہ روی کی صورت میں بارہ اُمور کو نمایاں کیا گیا ہے۔
مذکورہ عنوانوں کے لیے قرآن، حدیث، سیرتؐ، بزرگوں کے اقوال اور واقعات سے مدد لے کر سبق راسخ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ تربیت ِ اولاد کے لیے یہ ایک مفید مجموعہ ہے۔(ادارہ)
یہ ماہ نامہ ایک مدت سے دینی اور طبّی موضوعات پر قیمتی تحریریں پیش کر رہا ہے۔ پیش نظر شمارہ ایک فیض رساں حکیم ، قادرالکلام شاعر اور شفیق دوست، جناب حکیم ارشد خاں فارانی (م:۱۳مئی ۲۰۲۳ء)کے تذکرے پر مشتمل ہے۔ احباب نے ان کی شخصی خوبیوں اور خدمات کا دل کھول کر ذکر کیا ہے۔اللہ کریم انھیں جوارِ رحمت میں جگہ دے ، آمین۔ (ادارہ)
ہر عبادت کا ایک ’ظاہر‘ ہوتا ہے اور ایک ’باطن‘۔
ظاہر سے مراد وہ عملی شکل ہے، جو کسی عبادت کو ادا کرنے کے لیے مقرر کی گئی ہے، اور باطن سے مراد وہ معنی ہیں، جو اس عملی شکل میں مضمر ہوتے ہیں اور جن کے اظہار کی خاطر عمل کی وہ خاص شکل مقرر کی جاتی ہے۔
مثال کے طور پر نماز کا ظاہر یہ ہے کہ آدمی قبلہ رُخ کھڑا ہو، رکوع کرے، سجدہ کرے، بیٹھے اور اِن ظاہری افعال سے نماز کی جو شکل قائم کی جاتی ہے، اُس سے مقصود دراصل اس معنی کا اظہار ہے کہ بندہ اپنے ربّ کے حضور بندگی کا اعتراف کرنے کے لیے حاضر ہوا ہے، اس کے مقابلے میں اپنی انانیت سے دست بردار ہورہا ہے، اس کی بڑائی اور اپنی عاجزی تسلیم کر رہا ہے، اور اس کے آگے اپنے وہ معروضات پیش کر رہا ہے، جو اس کی زبان سے ادا ہورہے ہیں۔
اب دیکھیے جو شخص نماز کی ظاہری شکل کو ٹھیک ٹھیک احکام و ہدایات کے مطابق قائم کردے، وہ بلاشبہہ ادائے نماز کی قانونی شرائط پوری کردیتا ہے۔ اس کے متعلق آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس نے نماز نہیں پڑھی، یا اس کے ذمے فرض باقی رہ گیا۔ لیکن آپ غور کریں گے تو خود محسوس کریں گے کہ نماز کا پورا پورا فائدہ وہی شخص اُٹھا سکتا ہے، جو نماز کے اعمال میں سے ہرعمل کرتے وقت اُس کی روح کو بھی نگاہ میں رکھے، اور نماز کے اذکار میں سے ہر ذکر کو زبان سے ادا کرتے ہوئے اس کے معنی کی طرف بھی متوجہ رہے۔(’خطباتِ حرم‘، سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۶۱، عدد۱، اکتوبر۱۹۶۳ء، ص ۳۴)