پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد | اکتوبر ۲۰۲۳ | خصوصی مضمون/تعلیم
حال ہی میں پاکستان کی ایک معروف یونی ورسٹی میں منشیات کے حوالے سے جو معلومات ابلاغ عامہ میں آئی ہیں، انھوں نے ہر باشعور پاکستانی کے سر کو شرم و ندامت سے جھکا دیا ہے۔ ہماری تاریخی، اسلامی تہذیبی روایات میں ایک جامعہ (یونی ورسٹی) کو مسجد کے برابر تقدس کا درجہ حاصل رہا ہے۔ اسلامی روایات میں استاد ،جامعہ اور طالب علم یکساں احترام کا مقام رکھتے ہیں، پھر ایک مسلم معاشرے میں اس حد تک شرمناک اقدام کیسے ہوا ، نیز کسی ایسی صورت حال سے بچنے کی کیا تدبیر ہو سکتی ہے؟بدعنوانی اور بے راہ روی کی تحقیقات اور واقعہ میں ملوث افراد کو اگر قرارِواقعی سزا بھی دے دی جائے جب بھی مسئلہ اپنے انجام کو نہیں پہنچتا۔ یہ دیگ کے چاول کے چند دانوں کی طرح ہمیں یہ بتا رہا ہے کہ نظامِ تعلیم ، تصورِ تعلیم اور طریقِ تعلیم و تربیت شدید مسائل کا شکار ہے۔
اس سے قبل بھی جامعات اور مدارس میں ایسے واقعات کا تذکرہ اخبارات میں آتا رہا ہے جو چونکا دینے والے ہیں، مثلاً ملک کے دارالحکومت کی ایک معروف سرکاری یونی ورسٹی میں مسلمان طلبہ و طالبات نےہندو تہوار ہولی کا اہتمام کیا ۔اطلاعات کے مطابق غیر مسلم طلبہ و طالبات اس تقریب کے نہ محرک تھے اور نہ تائید کرنے والے، لیکن ان کے نام کو استعمال کرتے ہوئے اس ہندووانہ مذہبی اور ثقافتی تہوار کا اہتمام،ہندو طلبہ کی مخالفت کے باوجود، بعض مسلمان طلبہ نے کیا اور انتظامیہ نے مجبوری میں اسے گوارا کیا۔
اسلام غیر مسلموں کو مکمل مذہبی اور ثقافتی آزادی دیتا ہے اوروہ ایک اسلامی ریاست میں اپنے رسوم و رواج پر آزادانہ عمل کر سکتے ہیں ،جب تک اس کے نتیجے میں امن عامہ میں خلل کا خطرہ نہ ہو ۔اور یہ شرط بھی تمام شہریوں کے لیے ہے، صرف غیر مسلموں کے لیے نہیں۔ تفصیلات میں جائے بغیر اس حد تک بات واضح ہے کہ ہولی کی تقریب ان مسلمان طلبہ و طالبات نے منعقد کی، جو اپنے آپ کو لبرل اورسیکولر کہتے ہیں، اپنی لادینیت اور نسلی قوم پرستی میں انتہا پسندی کی حد تک پہنچے ہوئے ہیں۔ یہ واقعہ اس طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ لادینیت پر مبنی تعلیم ایسے انفرادیت اور شدت پسند نفوس پیدا کرتی ہے جو زندگی کا مقصد تفریح ،لذت اور مادیت کا حصول سمجھتے ہوں۔
اس نوعیت کے واقعات ہر محب وطن پاکستانی کے ذہن میں یہ سوال پیدا کرتے ہیں کہ کیا پاکستان کے قیام کا مقصد ایک غیر ذمہ دار، لذت پرست معاشرہ وجود میں لانا تھا ،یا بانیٔ پاکستان نے لاکھوں افراد کی جان و مال اور عزّت کی قربانی اس لیے قبول کی تھی کہ پاکستان میں ایک ایسا معاشرہ پروان چڑھے جو ایمان و اتحاد اور تنظیم کے اصولوں پر مبنی ہو،جس کی ترجیح اول اس خطے میں ایمان یعنی اسلام کے عادلانہ اور پُرامن اخلاقی اصولوں پر مبنی خاندان، معاشرے،تعلیم و تہذیب اور معیشت اور سیاست کا قیام تھا؟وہ مسلمانوں کو رنگ و نسل، زبان ، برادری اور صوبائیت سے نکال کر ایک ایسے اتحاد میں منسلک کرنا چاہتے تھے جس کی بنیاد نہ معاشی وسائل ہوں، نہ عصبیتیں بلکہ صرف اور صرف اسلامی اخوت اور مقصد ِحیات کا اتحاد ہو۔اور اہلِ پاکستان میں وہ تنظیم پیدا ہو، جس میں معاشرتی فرائض کی ادائیگی عوام اور خواص دونوں کی ذمہ داری ہو۔
یہ تاریخی حقیقت ہے کہ علامہ اقبال ؒاور قائد اعظم ؒنے پاکستان کے قیام سے قبل منتشر مسلمانوں کے گروہ کو ایک ملّت میں منظم کیا۔ اس ملت نے جغرافیائی ، نسلی قومیت کی بنیاد پر نہیں بلکہ صرف اور صرف اپنے ایمانی اور اسلامی تشخص کی بنیاد پر اپنے ایک قوم ہونے کے احساس کو تازہ کیا۔ پھر جان و مال کی قربانیاں دے کر اپنے قومی تحفظ و بقا کے لیے ایک جغرافیائی خطّے کو حاصل کیا۔ اس طرح پاکستانی ملت یا قوم پاکستان کے قیام سے پہلے اپنے ایک آزاد وجود کے ساتھ تاریخ کے نقشے پر اُبھری۔ یہ وہ واحد قوم ہے جس نے اپنے آپ کو نہ زمین سے، نہ نسل اور رنگ اور نہ زبان سے منسوب کیا بلکہ اپنے عقیدے ،ثقافت اور تاریخ کی بنیاد پر ایک خطۂ زمین کا مطالبہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کی قربانیوں کو قبول کرتے ہوئے پاکستانی ملت کو ایک ملک دیا جہاں وہ قرآن و سنت کی روشنی میں ایک مثالی معاشرہ ،معیشت، انتظامیہ اور ابلاغ عامہ کے ادارے قائم کر سکے۔عقل مطالبہ کرتی ہے کہ اس قوم اور ملک کا تعلیمی نظام بھی اسی تصورِ قومیت پر مبنی ہو۔
قیامِ پاکستان کے فوراً بعد جو پہلی قومی تعلیمی کانفرنس۲۷نومبر ۱۹۴۷ء میں منعقد ہوئی اس کے لیے قائد اعظم نے جو پیغام دیا وہ ملکی تعلیم کے خد و خال کی طرف اشارہ کرتا ہے:
الغرض ہمیں آنے والی نسلوں کے کردار کی تعمیر کرنی چاہیے۔ جس میں وقار، راست بازی اور قوم کی بے لوث خدمت کا بے پناہ جذبہ اور احساسِ ذمہ داری پیدا کردیا جائے، اور اس بات کا بھی خیال رکھنا ہوگا کہ ان میں اقتصادی زندگی کے مختلف شعبوں میں کام کرنے کی اہلیت اور صلاحیت بدرجۂ اتم موجود ہو، اور اس طرح سے کام کریں جو پاکستان کے لیے نیک نامی کا باعث بنے۔(قائداعظم: تقاریر و بیانات، ج۴، ص۳۹۶)
قائد کی نگاہ میں تعلیم کا اصل مقصد تعمیرِ کردار تھا جس کے ذریعے وہ نسل وجود میں آئے جو اپنی عزّت، وقار، ایمانداری، بے لوثی اور احساس ذمہ داری کے ساتھ معاشی زندگی کی مختلف شاخوں میں مہارت رکھتی ہو تاکہ پاکستان کی بقا اور ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکے۔
۱۹۵۹ء میں قومی تعلیمی کمیشن نے ملک میں تعلیم کے حوالے سے جو تجاویز دیں، ان میں درجِ ذیل خاص طور پر توجہ کی مستحق ہیں:
۱- تعلیم بنیادی کردار ادا کرے ،ان مقاصد سے تحفظ اور بقا میں، جو پاکستان کی تخلیق کا سبب تھے۔ تعلیم ایسی متحدہ قوم کو وجود میں لائے جو اسلامی طریقۂ زندگی کے قیام اور تحفظ کی امین ہو۔
۲- تعلیم افراد میں اسلامی اقدار، حق و صداقت ،عدل، اشاعت خیر اور عالمی اخوت کی آبیاری کرے۔
۳- اسلام کی اخلاقی، روحانی اقدار، حق و صداقت ، عدل ،عزت نفس اورپاکستان کو تقویت دینے کے اصول ،نظام تعلیم کے رہنما اصول ہوں۔
۴- تعلیم قومی یک جہتی اور دینی اقدار کو افراد کے عمل و کردار میں جاگزیں کر دے اور فکری دیانت، کردار میں سچائی کے ساتھ معاشرتی عدل کے قیام اور معاشرے سے غربت اور کھنچاؤ کو دُور کرنے میں مددگار ہو۔
نہ صرف اس تعلیمی پالیسی میں بلکہ بعد میں آنے والی ۱۹۷۲ء کی تعلیمی پالیسی میں بھی مقصدِ تعلیم کو واضح الفاظ میں بیان کیا گیا۔ ۱۹۷۲ء کی پالیسی کے نمایاں خد و خال یہ تھے:
۱- اسلامی اقدار کا تحفظ اور قومی اتحاد اور ترقی کے لیے ان کی ترویج۔
۲- معاشرتی تبدیلی کے مؤثر عنصر کی حیثیت سے ترقی اور جمہوری معاشرے اور یکساں مواقع کے حصول میں امداد فراہم کرنا۔
۳- معاشی ضروریات کے پیش نظر نصابات پر نظر ثانی اور معیاری تعلیم کی فراہمی۔
۱۹۷۹ء کی قومی تعلیمی پالیسی میں تعلیم کے قومی اہداف اور مقاصد کی یوں وضاحت کی گئی:
۱- طلبہ اور پاکستانی باشندوں کے دل و دماغ میں اسلام اور پاکستان سے وفاداری کے جذبے کو مستحکم کرنا اور اس بنیاد پر ملک میں اتحاد و یک جہتی پیدا کرنے کے ساتھ معاشرتی عدل اور روحانی ترقی کے مواقع پیدا کرنا۔
۲- ہر طالب علم اور طالبہ کو یہ شعور دینا کہ وہ ملتِ پاکستان سے گہری وابستگی کے ساتھ مسلم امت کے ساتھ بھی مربوط ہے، اس لیے نہ صرف ملک بلکہ اسلامی دنیا کے لیے بھلائی اور ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا۔
۳- ایسی نئی نسل پیدا کرنا جو نظریۂ پاکستان سے آگاہ اور تحریک پاکستان کی نظریاتی بنیادوں، تاریخ اور ثقافت سے نہ صرف واقف ہو بلکہ اس پر فخر کے ساتھ پاکستان کے روشن مستقبل کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کر سکے اور پاکستان کو فلاحی اسلامی ریاست بنانے میں اپنا حصہ ادا کرے۔
۴- مذہبی اقلیتوں کو ان کی مذہبی اور ثقافتی ضروریات کے پیش نظر سہولت فراہم کرنا اور قومی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنےکے مواقع فراہم کرنا۔
۵- سائنسی تحقیقات اور ترقی میں قائدانہ کردار ادا کرنا۔
۱۹۹۲ءکی قومی تعلیمی پالیسی میں چار اہم پہلوؤں کو اُجاگر کیا گیا:
۱- موجودہ تعلیمی نظام کو جدید معلومات کی بنیاد پر اسلام کے اصولوں کی روشنی میں مرتب کرنا تاکہ ایک پُرامید مستقبل اور مسلم معاشرے کا حصول کیا جا سکے۔
۲- معاشرتی علوم کی اسلامی تدوینِ جدید کے ذریعے تنقیدی ذہن کے ساتھ اسلامی تصورِ کائنات، انسان اور معاشرے کی تعمیر۔
۳- مسلسل حصولِ علم کی تڑپ، پاکستان اور امت مسلمہ کی معاشی، سائنسی اور معاشرتی ترقی کے لیے علمی اور انسانی ذرائع کاحصول۔
۴- نظریۂ پاکستان کی عالمی سطح پر نمایندگی و اشاعت۔
یہی فکری تسلسل قومی تعلیمی پالیسی برائے ۱۹۹۸ء تا ۲۰۱۰ء میں اختیار کیا گیا اور تعلیم کے مقصد کو وضاحت سے بیان کیا گیا:
۱-قرآنی اصولوں اور اسلامی روایت کو نصاب تعلیم کا لازمی حصہ بناتے ہوئے تعلیم و تربیت کے ذریعے مستقبل کی پاکستانی نسل کو صحیح معنی میں باعمل مسلمان بنانا جو اعتماد،یقین ،حکمت، رواداری کے ساتھ اگلی صدی کے تقاضوں کو پورا کر سکے۔
۱۹۷۲ء کی نئی تعلیمی پالیسی ہو یا ۱۹۷۹ء کی قومی تعلیمی پالیسی یا ۱۹۹۲ء کی قومی تعلیمی پالیسی اور۱۹۹۸ء-۲۰۱۰ء کی تعلیمی پالیسی ، ان تمام سرکاری دستاویزات میں مختلف الخیال سیاسی حکومتوں اور قیادتوں کے با وجود جو عناصر مشترک نظر آتے ہیں ، ان میں واضح الفاظ میں نظریۂ پاکستان، اسلامی، علمی اور ثقافتی میراث کے ساتھ اسلامی شخصیت و کردار کی تعمیر کو ترجیحات میں شامل کیا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ ایک واضح قومی اجتماعی پالیسی کے باوجود اسے تعلیمی اداروں میں نافذ نہیں کیا گیا۔ ان تمام قومی تعلیمی پالیسیوں کا جائزہ لے کر دیکھا جائے تو علمی، تحقیقی اور ثقافت کے فروغ کے ساتھ ہر پالیسی کا لازمی جزو کے طور پر تین امور مشترک نظر آتے ہیں:
ان تین تصورات کے ساتھ یہ بات بھی پالیسی کا لازمی حصہ رہی کہ قومی زبان کو ذریعۂ تعلیم بنایا جائے تاکہ تمام صوبوں میں تعلیم پانے والے طلبہ و طالبات کاروبار اور ملازمتوں میں یکساں طور پر مقابلہ کرنے کے قابل بن سکیں۔
اس مختصر سے جائزے میں یہ بات کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں بیرونی امداد پر چلنے والے جن اداروں کے افراد نے حکومتی مشیر کی حیثیت سے تعلیم کو نظریۂ پاکستان سے کاٹنے اور ہر مضمون کے نصاب سے اخلاقی اور تربیتی پہلو کو خارج کرنے کا جو مشورہ دیا ،وہ قومی تعلیمی پالیسی کے متفقہ اصولوں کی ضد تھا، پھر مخصوص حکومتی اور بیورو کریسی کے حلقوں کی حوصلہ افزائی سے نصابات سے قرآنی اور اخلاقی تعلیمات کے اسباق کو مکمل طور پر نکال دیا گیا۔یہ اقدام نہ صرف تعلیمی پالیسی بلکہ دستور ِاسلامی جمہوریہ پاکستان کی کھلی خلاف ورزی تھا ، جسے قانونی طور پر بھی چیلنج کیا جا نا چاہیے تھا ۔بعد میں آنے والی تعلیمی پالیسیوں میں یکساں نصاب ِتعلیم کا تصور، ملکی وحدت اور ملکی یک جہتی کے لیے بڑا بنیادی اور مفید اقدام تھا، لیکن سیاسی رسّہ کشی اور تعصبات نے اس پر عمل درآمد نہیں ہونے دیا۔
تعلیمی پالیسی کی روشنی میں دیکھا جائے تو مروجہ نظام تعلیم اور پالیسی کے متفقہ اصولوں میں واضح خلیج نظر آتی ہے۔ گویا یہ تعلیمی پالیساں دستاویز سے زیادہ حیثیت نہیں اختیار کر سکیں اور ان کے ایک بڑے اور اہم حصے پر کسی بھی دور میں عمل نہیں ہوا۔مزید یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ تعلیم اور نظریۂ پاکستان اور اسلامی ثقافت ،اخلاقیات اور قرآن و سنت کی تعلیم پاکستان کی سیاسی تاریخ کے کسی مخصوص دور کی پیداوار نہیں ہے بلکہ قائد اعظمؒ کے تصور اور بعد میں تعلیمی ماہرین پر مبنی ہرسیاسی دور میں کمیشن نے جو پالیسی تجویز کی نظریۂ پاکستان اور اسلامی نظریۂ حیات کوبطور نصابات کی بنیاد کے ہر پالیسی کا لازمی جزو برقرار رکھا گیا۔یہ الگ بات ہے کہ جیسا عرض کیا گیا کہ پالیسی کی روح اور الفاظ دونوں پر کسی بھی دور میں بشمول فوجی اور غیر فوجی ادوار کے عمل نہیں کیا گیا۔ہماری نگاہ میں آج جو تعلیمی اور اخلاقی زوال پایا جاتا ہے اس کا ایک بنیادی سبب ملک کی متفقہ تعلیمی پالیسیوں کو دیدہ دلیری کے ساتھ نظر انداز کرنا ہے۔
اس بنیادی نقص کی وضاحت کے بعد یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ مروجہ نظام تعلیم میں نمایاں خرابیاں اور مسائل کیا ہیں؟
۱- مروجہ نظام کی فرسودگی: پالیسی کے برخلاف حکومتی تعلیمی اداروں اور نجی اداروں میں رائج نصابات کو دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں کیا گیا۔اور صدیوں پرانی برطانوی سامراجی تعلیمی روایت میں مصنوعی رد و بدل پر انحصار کر لیا گیا، نیز تیزی سے بدلتے تعلیمی تصورات سے کوئی استفادہ بھی نہیں کیا گیا ،حتیٰ کہ جو نصابی کتب قیام پاکستان کے وقت استعمال میں تھیں انھیں بھی تبدیل نہیں کیا گیا، اور بعد کے ایڈیشن معمولی ردو بدل کے ساتھ زیر استعمال ہیں۔
۲-غیر ترجیحی رویہ:یہ ایک المیہ ہے کہ جس دین نے ہر صاحب ِایمان پر حصولِ علم کو فریضہ قرار دیا ہو، جیسےنماز اور روزہ فرض ہے، اس دین کا دعویٰ کرنے والے معاشرے میں ابتدائی اور ثانوی تعلیم مسلسل عدم توجہی کا شکار ہو رہی ہے۔ اگر کسی شعبے کو اعلیٰ ٰترین سرمایہ کاری کا مستحق کہا جاسکتا ہے تو وہ صرف تعلیم کا شعبہ ہے کہ اس میں جو رقم بھی لگائی جائے گی، وہ قومی ترقی اور تعمیر کے لیے مضبوط بنیاد فراہم کرے گی، لیکن حقائق جو تصویر پیش کرتے ہیں، اس میں تعلیم قومی ترجیح میں بہت نیچے نظر آتی ہے۔ ۲۲-۲۰۲۱ء میں ہم نے جی ڈی پی کا ۱ء۷۷ فی صد مرکزی اور صوبائی دونوں سطح پر صرف کیا، جب کہ اسے کم سے کم ۴ فی صد ہونا چاہیے تھا ۔سرکاری ذرائع کے مطابق خواندگی کا تناسب ملک گیر بنیاد پر۶۲ء۳ فی صد ہے، جب کہ عملاً خواندگی اس سے بہت کم ہے۔ تعلیم کی عالمی درجہ بندی میں دنیا کے معاشی فورم کی۱۸-۲۰۱۷ء کی رپورٹ پاکستان کو ۱۳۷؍ اقوام کی فہرست میں ۱۲۹ویں نمبر پر دکھاتی ہے۔ تعلیم اور صحت میں پاکستان، بھارت، چین، بنگلہ دیش ، سری لنکا اور ملائشیا سے بہت پیچھے ہے۔ ملک کے۳۰لاکھ ۵ہزار ۷ سو ۶۳ تعلیمی اداروں میں ۱۲۵ ملین کی آبادی میں سے صرف ۵۱ کروڑ۱۸ لاکھ ۶۵ ہزار ۶سو ۹ طلبہ کو تعلیم فراہم کرنے کی گنجایش ہے۔ سرکاری تعلیم گاہیں ۲۸ء۴۹ ملین طلبہ کو تعلیم فراہم کر رہی ہیں، جب کہ ۷۰ء۲۲ملین بچے تعلیم کی سہولت سے محروم ہیں اور صرف کل نوجوانوں میں سے۱۱ فی صد نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ملک میں ۱۱۱ سرکاری جامعات اور ۷۵ نجی جامعات ہیں۔ کل۱ء۵۷۶ ملین طلبہ سرکاری جامعات میں اور ۳۰۹ ملین طلبہ نجی جامعات میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اتنی کم تعداد میں اعلیٰ تعلیم پانے والوں میں ایک بڑی تعداد بوجوہ تعلیم نامکمل چھوڑنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔
۳- طریق تعلیم کا مسئلہ:۷۵سال سے اسکولوں، کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں جو طریق تعلیم رائج رہا ہے، اس میں لیکچرز،معلومات کا حفظ کروانا اور سالانہ امتحانات کے نظام میں، یادداشت کی جانچ کے علاوہ علمی تطبیق اور تجرباتی علمی تعلیم (Experimental Education) پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ طالب علم کتاب کے منتخب ابواب سے زیادہ نفس مضمون کے بارے میں کچھ نہیں جان پاتا۔ اساتذہ اپنے لکھے ہوئے نوٹس کی بنیاد پر طلبہ و طالبات کو جانچتے ہیں اور تنقیدی و تحقیقی ذہن کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی، طلبہ کو دورانِ درس سوالات اٹھانے کا رجحان نہیں ، زیادہ توجہ لیکچر سننے یا نقل کرکے دُہرانے پر مرکوز ہے ۔
۴- متعدد نظام ہائے تعلیم کا رواج: اس وقت ایک وقت میں کم از کم تین نظام تعلیم ملک میں رائج ہیں۔ ملک کے امیر طبقات کے لیے نجی سکول و کالج اور یونی ورسٹیاں ہیں ،جو مغربی ممالک سے درآمد کیا ہوا علمی ذخیرہ طلبہ و طالبات کو منتقل کر کے انھیں ذہنی اور عملی طور پر برطانوی یا امریکی روایات کا خوگر اور اپنی تعلیم کا بڑا حصہ ملک سے باہر جا کر مکمل کرنے کی دلی خواہش ان میں پیدا کرتے ہیں۔ چنانچہ ان اداروں کے فارغ طلبہ و طالبات، والدین کی مالی سرپرستی میں یورپ یا امریکا جانے کی تلاش میں رہتے ہیں اور اس طرح ملک ذہین افرادی قوت کے بیرونِ ملک منتقلی (Brain drain) کا شکار ہو رہا ہے ۔
۵- سرکاری تعلیمی نظام اور ادارے :سرکاری تعلیمی ادارے کم تر تعلیمی معیار اور سہولیات کی کمی کے سبب علمی تربیت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ الا ماشاءاللہ !اس لیے ان سے فارغ نوجوان عموماً روزگار کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں اور بے روزگاری کی وجہ سے ان بہت سی خرابیوں کا شکار ہو جاتے ہیں جو ملکی سلامتی کے لیے زہر کی حیثیت رکھتی ہیں۔ چنانچہ منشیات، غیراخلاقی اعمال ، محنت کی جگہ سفارش ، صلاحیت کی جگہ رسوخ ، ان کے آگے بڑھنے کا ذریعہ بنتا ہے، جو زندگی کے ہر شعبے میں بے ایمانی، بددیانتی ،بدمعاملگی اور بد اخلاقی کو فروغ دیتا ہے۔
۶- یونی ورسٹیاں اور علمی قیادت: یہ حقیقت بھی پریشان کن ہے کہ دوسو سے اوپر یونی ورسٹیوں میں جو تحقیقی مقالات تحریر کیے جاتے ہیں ، وہ اپنے معیار ، ملک وقوم کو درپیش عملی مسائل اور صنعتی دنیا کی تعمیر و ترقی کے امور سے مطابقت نہیں رکھتے ہیں ۔صرف معاشرتی علوم کو دیکھا جائے تو ملکی یونی ورسٹیوں میں فی یونی ورسٹی ۳ء۶ پروفیسر پائے جاتے ہیں ۔یہ تناسب بعض خطوں میں اور کم ہوجاتا ہے ، مثلاً گلگت ، بلتستان میں یہ شرح صرف ۵ء۱ فی صد ہے۔ یہی وہ معلّمین ہیں جو تحقیقی نگرانی اور خود تحقیق کے میدان میں کارنامے انجام دے سکتے تھے ۔ اس کے مقابلے میں امریکا اور یورپ کی یونی ورسٹیوں میں بعض مقامات پر ۵۴ء۱۵ فی صد پروفیسر ہر شعبہ میں پائے جاتے ہیں (مثلاً اسٹین فرڈ یا ہاورڈ یونی ورسٹی میں ۳۳ء۸۵ فی صد)۔ اس علمی کمی کی بنا پر پاکستان ۱۶۳؍ اقوام میں ۶۳ ویں نمبر پر پایا جاتا ہے ۔جہاں ۳۱ فی صد نوجوان مرد اور ۵۱ فی صد خواتین بے روز گاری کا شکار ہیں ۔نتیجتاً ملک سے باہر ملازمت تلاش کرنے کے رجحان میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے ۔ یہ ذہنی قحط ملک کی ترقی اور استحکام میں کمی کا ایک بڑا سبب ہے ۔
۷- دینی مدارس کا نظام : دینی مدارس میں عام طور پر مروجہ درس نظامی کے مضامین تعلیم کا محور ہیں، اور ہر مدرسہ کسی نہ کسی مسلک سے اپنی وابستگی کی بنا پر یہ بات واضح کر دیتا ہے کہ اس درس گاہ میں ایک مخصوص مسلک کے طلبہ کے لیے دروازے کھلے ہیں۔ان کی روایتی اسلامی علوم کی واقفیت لازما ًسرکاری جامعات کے طلبہ سے زیادہ بہتر ہوتی ہےلیکن یہ مدارس عصری مضامین اور عربی اور اردو کے علاوہ کسی زبان پر توجہ نہیں دیتے۔ گو بعض مدارس نے اپنے نصاب میں جدید مضامین شامل کیے ہیں ،لیکن یہ شمولیت ایک نئے مسئلہ کو وجود دیتی ہے۔ تمام عصری علوم کی بنیاد جس تصورِ علم پہ ہے وہ اسلام کے تصورِ علم کی ضد ہے۔ اس لیے طالب علم جدید علوم کی آگاہی کے باوجود سیکولر ذہن کے ساتھ تعلیم سے فارغ ہوتا ہے ۔طلبہ بعض روایتی دینی علوم کی واقفیت اور مغربی تصور علم کی روشنی میں کمپیوٹر یا انتظامی امور کے بارے میں ایسی معلومات بھی حاصل کرتے ہیں جو اسلامی تصور سے کوئی مطابقت نہیں رکھتیں۔یکساں نصابی تعلیم ہی اس کمزوری کا علاج ہے، جس میں اسلام کی جامع تعلیمات کی روشنی میں معاشرتی اور تطبیقی علوم کی تدوینِ جدید ہو اور اسلامی نظریۂ حیات کی روشنی میں طلبہ و طالبات کی جامع اخلاقی تربیت کے ساتھ تعمیرِ شخصیت کی جائے۔
۸- تعلیم کی سمت کا عدم تعین:۷۵سال میں ہم یہ طے نہیں کر سکے کہ ایک تعلیم یافتہ شخص سے ہم کیا چاہتے ہیں یعنی تعلیم کے نتائج (outcome or goals )کیا ہوں گے؟ ۷۰سال کے بعد ہم بہت دور کی کوڑی لے کر آئے کہ واشنگٹن قرارداد(accord) کی پیروی میں ’تعلیم کے تربیتی و پیداواری نتائج‘ (Outcome Based Education-OBE) کو رواج دیا جائے۔ واضح رہے کہ اسلامی تعلیمی روایت میں آج سے تقریبا ًہزار سال قبل ہی مقاصد کے زیر عنوان تعلیم، تجارت، معاشرت، قانون، ثقافت، گویا ہر انسانی سرگرمی کے لیے مقاصد کا تعین کیا گیا جو وقتی تعین نہیں تھا بلکہ یہ وہ آفاقی اصول ہیں جو آج بھی تمام علوم کے لیے ایک الہامی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ اسلامی تصور سے عدم آگاہی کی بنا پر آج بھی تعلیمی ماہرین OBE پر فخر کرتے ہیں،جب کہ OBE کے تحت جو مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں، وہ مستعار مقاصد ہیں یعنی سامراجی قوتوں کے عالمی مقاصد اور ان کی روشنی میں تقریباً ۱۵۰؍اہداف۔ مسلم اور غیرمسلم ممالک انھیں ’کتاب مقدس‘سمجھتے ہوئے اپنے نصابات میں شامل کرنے کو ترقی کی ضمانت سمجھتے ہیں جو ذہنی غلامی اور مغرب زدگی کی ایک واضح علامت ہے۔ انھی اہداف میں یہ ہدف بھی شامل ہے کہ ابتدائی تعلیم سے بچوں کو سمجھایا جائے کہ جس جنس کے ساتھ وہ پیدا ہوئے ہیں وہ قطعی یا حتمی نہیں ہے۔ زندگی کے کسی بھی مرحلے میں اگر وہ یہ محسوس کریں کہ ان کے جسم میں جو فرد یا روح مقید ہے وہ مرد نہیں بلکہ عورت ہے تو وہ اپنی آزادانہ جذباتی رائے سے اپنے آپ کو ایک نئےقالب میں ڈھال سکتے ہیں۔
مغرب سے آئے ہوئے تصورات ( Sustainable Development Goals ) پر عمل کرتے ہوئے جب بچوں کو یہ تصور سمجھایا جائے گا ،تو وہ زندگی کے لذت پر مبنی تصور کے غلام ہوں گے اور اس کش مکش کا شکار رہیں گے کہ پیدائش کے وقت جو ان کی جنس تھی، وہ بہتر ہے یا اپنی رائے میں وہ جس جنس کو اختیار کرنا چاہتے ہیں وہ بہتر ہے ؟اس اختلاف کے بعد کیا کوئی معاشرہ اپنا نظریاتی و ثقافتی تشخص برقرار رکھ سکتا ہے؟
اسلام تو الہامی ہدایت ہونے کی بنا پر اعلیٰ ترین ہدایت ہے۔ انسان کی اپنی عقل اس نامعقول، غیر منطقی اور غیر حقیقی تصور کو قبول نہیں کر سکتی، لیکن’جدید فکر‘ اور ’جدید تعلیم‘، ’روشن خیالی‘اس تصور پر اندھا ایمان رکھتی ہے اور اسے نظامِ تعلیم میں شامل کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔ اس کا فوری سدِباب ضروری ہے ۔
۹- غیر تربیت یافتہ اساتذہ:اساتذہ کی اکثریت تعلیمی اسناد کی بنیاد پرمنتخب کی جاتی ہے لیکن ہمارے اساتذہ کی اکثریت بنیادی تدریسی مہارتوں مثلاً تعلیمی حکمت عملی، جانچنے کے طریقوں،حتی ٰکہ سوالات بنانے کےطریقے، فلسفۂ تعلیم،تعلیمی نفسیات ودیگر لوازمات کی ابجد سے بھی واقف نہیں ہوتی اور وہ طلبہ و طالبات کو پڑھانا شروع کر دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسے اساتذہ کے طلبہ بھی اپنے اساتذہ ہی کا چربہ ہوں گے اور وہ کبھی علمی تحقیق اور قیادت کے قابل نہیں ہو پائیں گے۔
۱۰- امتحانات اور جانچنے کے معیارات:سالانہ امتحانات ہوں یا سمسٹر سسٹم، دونوں میں بہت کم ادارے ایسے ہیں جو روایتی یادداشت کے امتحانات کے علاوہ کچھ اور کرتے ہوں۔ نتیجتاً علمی تجسس، تنقیدی نظر اور ہمہ وقت حصول علم کی خواہش کی جگہ محدود معلومات رکھنے والے سندیافتہ نوجوان جامعات سے فارغ ہو رہے ہیں، جو معاشی، سائنسی، معاشرتی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔
۱۱-سہولیات کی کمی: بہت کم اسکول ، کالج اور جامعات ایسی ہیں جہاں تحقیق و تجربہ کے مواقع طلبہ کو فراہم کیے گئے ہوں۔نظری علم اور وہ بھی جزوی طور پر حصول کے بعد یہ زندگی کے میدان میں آتے ہیں تو اپنے شعبے میں بھی عملی کام کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔ نہ صرف سائنسی علوم بلکہ معاشرتی علوم کی بھی یہی شکل ہے۔ سہولیات اور عملی تجربے کے مواقع نہ ہونے کے سبب سند رکھنے کے باوجود یہ نوجوان بعض اوقات ایک اَن پڑھ مستری سے بھی کم صلاحیت رکھتے ہیں۔
۱۲-تعلیم کا تجارتی پہلو:نجی تعلیمی اداروں کی کثرت اور خود سرکاری اداروں میں قیادت اور راہ نمائی کے فقدان سے تعلیم ایک تجارت بن گئی ہے، جس کی ایک قیمت ہے اور اس قیمت کے بعد گاہک یہ سمجھتا ہے کہ اب تعلیمی سند اس کا حق ہے۔ یہ مسئلہ محض پاکستان کا نہیں ہے عالمی سطح پر تعلیمی ادارے اپنے وجود کے لیے معیاری تعلیم کی جگہ کم معیاری تعلیم کی طرف جا رہے ہیں۔یورپی اور امریکی جامعات بیرونی طلبہ پر اتنی توجہ نہیں دیتے جتنی مقامی طلبہ پر دیتے ہیں۔ گو ان جامعات کا معاشی وجود بیرونی طلبہ کا رہینِ منت ہے۔چونکہ ان طلبہ کو جلد واپس اپنے ملک جانا ہوتا ہے، اس لیے اگر یہ کم معیاری تعلیم بھی لے کر جائیں تو ان جامعات کا کوئی نقصان نہیں ہوتا بلکہ ان طلبہ کے ذریعے ان کی شہرت یہ ہوتی ہے کہ وہ بہت ’اچھی‘جامعات ہیں کہ وہاں زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی۔ تعلیم کو تجارتی ذہن سے نجات دلائے بغیر تعلیم کے مقاصد حاصل نہیں کیے جاسکتے۔
۱۳- مخلوط تعلیم کے نتائج:ملکی یونی ورسٹیوں کا ماحول تکلیف دہ ہے۔ خبریں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ غیر اخلاقی ماحول کا ایک بنیادی سبب مخلوط تعلیم ہے۔مغربی جامعات بھی اس کا شکار ہیں اور ملکی جامعات اب اس مقام تک پہنچ چکی ہیں کہ اگر فوری طور پر مخلوط تعلیم کی بجائے جداگانہ تعلیم کو فروغ نہیں دیا گیا تو یہ آگ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ گھر اور تعلیم گاہ دونوں جگہ طلبہ و طالبات کے اختلاط کے مواقع کو کم سے کم کیا جائے اور مسلسل تعلیمی اور تربیتی پروگراموں کے ذریعے ان میں حیا، شرم اور عزت کی اہمیت کو ذہن نشین کرانے کے ساتھ ایسا ماحول پیدا کیا جائے جس میں طلبہ و طالبات کے لیے تمام سہولیات (کیفے ٹیریا، کھیل کے میدان، تجربہ گاہیں ، لائبریریاں وغیرہ ) الگ الگ ہوں یعنی ان کے درمیان فاصلہ قائم ہو تاکہ برائی کے امکانات کم کیے جا سکیں۔
۱۴- جدید معلوماتی انقلاب:آئی ٹی اور پھر AIیعنی مصنوعی ذہانت کی تیزی کے ساتھ رواج پانے سے جو اخلاقی اور انسانی مسائل سامنے آ رہے ہیں، ملکی جامعات بظاہر ان سے کم آگاہ نظر آتی ہیں۔ یہ تیزی سے بدلتا ماحول چند برسوں میں تعلیم کے شعبے میں مکمل انقلاب برپا کر دے گا اور انسان کا تصورِ کائنات، تصورِ معاشرہ اور باہمی تعلقات اس سے متاثر ہوں گے ۔ اس چیلنج کو سمجھنے اور اس کا اسلامی حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
ان حالات میں بھی مایوسی کفر ہے۔ اس لیے ایک تابندہ سحر کی تلاش میں ہمیں بعض اہم اور بنیادی فیصلے کرنے ہوں گے:
۱- تعلیمی سمت کا تعین:سب سے پہلے تعلیمی پالیسیوں میں قائد اعظمؒ کے تین بنیادی اصولوں: ایمان ،اتحاد اورتنظیم کے پیش نظر بنیادی تبدیلیاں کرنی ہوں گی ۔ قائد کی نگاہ میں ایمان کا واضح مفہوم نظریۂ پاکستان کی روشنی میں نوجوان نسل کو جدید ترین علم کے ساتھ اپنی منزل اور مقصد حیات کا شعوردینا تھا، چنانچہ اسی مناسبت سے ورکشاپ، کھیل، ہم نصابی سرگرمیوں اور خود نصاب کے اندر ایسے موضوعات کا شامل کیا جانا لازمی ہےجو ان کو دین اور نظریۂ پاکستان سے روشناس کرانے کے ساتھ عملی زندگی میں راہ نمائی اور پاکستانیت کو رائج کرنے کی تربیت دے سکیں۔
نظریۂ پاکستان یا پاکستان آئیڈیالوجی کے بغیر ملکی ترقی ناممکن ہے۔ ۷۵سالہ تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ بے ایمانی، بددیانتی اور ملک سے بے وفائی ہمارا شعار بن چکا ہے ۔ قائد کے پہلے اصول یعنی ایمان کی بنیاد پر تعلیم کی تشکیل ِجدید کرنی ہوگی تاکہ ملک و قوم ترقی کرسکیں۔
۲-ملکی دستور اور انسانی حقوق سے آگاہی:تعلیم کا ایک بنیادی مقصد ایسے شہری تیار کرنا ہے جو اپنے دین اور ایمان کے ساتھ ملکی دستور کے وفادار اور اس کی عصمت کے امین ہوں۔ دستور وہ اہم وثیقہ ہے جو ملک اور قوم کی سمت کا تعین کرتا ہے اور ہر شہری کو یکسا ںحقوق کے ساتھ ملکی ترقی میں دستوری ذرائع سے کام کرنے کا پابند کرتا ہے۔
موجودہ صورت حال اس کے برعکس ہے۔ دستور کی خلاف ورزی نہ صرف پارلیمنٹ میں، عدلیہ میں ،انتظامیہ میں، تعلیم بلکہ سڑکوں پر ٹریفک قوانین کو دن رات توڑ کر کی جا رہی ہے۔ اس غیراخلاقی، غیر دستوری طرز عمل کو دستور کی روشنی میں تعلیمی اور ماحولی ذرائع سے تبدیل کرنا ہماری اہم ترجیح ہونا چاہیے۔ جو بدنظمی آج دیکھنے میں آتی ہے ،وہ اس سے پہلے کبھی نہیں تھی ۔تعلیم کے ذریعے پوری قوم کو صبر اور ایثار و قربانی کے ساتھ دستوری ذرائع پر عمل پیرا ہونے کی تربیت دیے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔
۳- سیاسی تربیت:تعلیم کا ایک مقصد نوجوانوں کو ملکی قیادت کے لیے تیار کرنا ہے، جو تعلیم گاہ میں انتظامی امور خود اپنے ہاتھوں سے سر انجام دیے بغیر نہیں آسکتی۔ دستور سے آگاہی اور اس کی حُرمت وعزت سے وابستہ تیسرا اہم کام نوجوان نسل کی سیاسی اور اخلاقی تربیت ہے۔ نوجوانوں کو سیاسی نظریات سے بالا تر ہو کر ملک ، قوم اور ملت کے اجتماعی مفاد کے لیے کام کرنے کی سوچ اور فکر سے آراستہ کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔نوجوانوں کو سیاسی مسائل کو اخلاقی ضابطہ میں اسلام کے اصولوں کی روشنی میں حل کرنے کا طریقہ سکھایا جائے ۔یہاں سیاسی تعلیم کا مقصد محض ہڑتال، دھرنا، جلوس نہ ہو بلکہ مکالمہ، مثبت فکر ،قائدانہ کردار، اصول پرستی ،حق اور عدل و انصاف کے لیے استقامت کے ساتھ کھڑا ہونا ہے تا کہ سیاسی جماعتوں کے سیاسی ونگ سیاسی جماعتوں کے محدود سیاسی فوائد اور مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ نہ بنیں۔ یہ نوجوانوں کی سیاسی تربیت کا صحیح ذریعہ نہیں ہیں۔ اس وقت چند جاگیردار خاندان اور مالی وسائل رکھنے والے سیاسی تاجر ۷۵ سال سے سیاست اور وسائل پر قابض ہیں۔اس کا حل نہ فوجی قبضہ ہے، نہ صحافت پر قدغن، بلکہ نوجوانوں کی صحیح تربیت ہے تاکہ وہ کل کے قائد بنیں اور قائد کے اصولوں: ایمان، اتحاد اور تنظیم کی بنیاد پر ملک و قوم کے مسائل کے حل کے لیے کھڑے ہوں۔
۴- نئی درسی کتب کی تیاری: اسلامی طرزِحیات اسی وقت رائج ہو سکتا ہے جب نظامِ تعلیم کی اصلاح ہوجائے۔ اس کے لیے محض دینیات نہیں بلکہ سماجی علوم کے ساتھ فزکس، کیمسٹری ،کمپیوٹر سائنس اورانفارمیشن ٹکنالوجی کو اسلامی اخلاقی بنیادوں پر استوار کیا جائے۔معاشرتی تبدیلی کے لیے ضروری ہے کہ ابتدائی تعلیم سے اعلیٰ تعلیم تک نئی درسی کتب تیار کی جائیں۔
یہ وہ بنیادی کام ہے جو نظریۂ پاکستان کے وفادار افراد ہی کر سکتے ہیں۔ ایسے ماہرین فن کو جمع کرنا جو طے شدہ وقت میں ہر نصابی مضمون پر جدید معلومات اور اسلامی اخلاقی اقدار کو یک جان کر کے نصابی کتب کی شکل میں پیش کریں، ایک بنیادی کام ہے۔ یہ مسلسل یکسوئی ،صبر و حکمت اور فنی قابلیت کے ساتھ کرنے کا کام ہے، جس کے لیے سب سے زیادہ ذمہ داری تحریک اسلامی کی ہے۔
۵- اساتذہ کی تربیت:اساتذہ کو جب تک جدید تحقیقی ذرائع اور مقامی مسائل سے متعلق تحقیق کی تربیت نہ دی جائے گی، ان کی تحقیق سے قوم کو کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا ۔ ہماری یونی ورسٹیوں، تحقیقی اداروں اور محققین کو اپنی تحقیق کے دائروں کو ملکی معیشت ، زراعت، صنعت، معاشرت، ثقافت، تجارت ، درآمد ات ، آئی ٹی ، ادویات سازی، غرض ہر شعبے کو تحقیق سے ہم آہنگ کرنا ہو گا ۔ یہ کلچر اس وقت ناپید ہے۔ہر جامعہ کو اپنے اساتذہ کو شعوری طور پر اس طرف متوجہ کرنا ہوگا تاکہ تحقیق کا رخ مقامی، اخلاقی ،معاشی، سیاسی، معاشرتی ،قانونی، ثقافتی، ابلاغ عامہ اور تعلیم کے مسائل کا حل ہو، محض نظری تحقیق نہ ہو۔
۶- جامعات کا تخصص:ہمیں یونی ورسٹیوں کو عمومی تعلیم کی جگہ خصوصی تعلیم کا مرکز بنانا ہوگا کہ وہ گہرائی میں جا کر عرق ریزی کے ساتھ وہ علم پڑھائیں جسے قرآن و سنت علم نافع قرار دیتا ہے۔ مسلمانوں کا دورِ عروج کلامی بحثوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ علم نافع کی بنیاد پر تھا۔ آج بھی ہمیں سپیشلائزیشن یعنی تخصص کی طرف جانا ہوگا، جس کا مقصد علوم وحی کی روشنی میں علم کے نئے اُفق تلاش کرنا اورانھیں زمینی مسائل کے حل کے لیے استعمال کرنا ہوگا۔ زراعت، آئی ٹی، ماحولیات، پانی کی منصوبہ بندی، شہری اور دیہی آبادیوں کو درپیش مسائل جیسے موضوعات پر یونی ورسٹیوں کو تحقیق کرکے قابل عمل اور قابل حل تجاویز پیش کرنی ہوں گی، تاکہ عوام الناس کو مشکلات سے نجات دلائی جا سکے اور ملک و قوم کو ترقی کی دوڑ میں عالمی سطح پر قابل عزت مقام دلایا جا سکے ۔
۷- خواتین کی اعلٰی تعلیم:خواتین کو ایسے ماحول میں اعلیٰ تعلیم دینا تعلیمی پالیسی کا فرض ہے جس میں وہ پردے کی اسلامی روایت کی پاسداری کرتے ہوئے محفوظ ،آزاد اور اپنا مثبت کردار ادا کرنے کے قابل ہوں۔ان کا تحفظ ایسی تعلیم گاہ میں ہی ہو سکتا ہے جہاں صرف خواتین ہوں۔ وہ اپنی جنس کی بچیوں کے ساتھ تعلیمی میدان میں مقابلہ کریں تاکہ انھیں ہراساں کرنے کا امکان نہ ہو اور مرد اساتذہ کے استحصال سے محفوظ ہوں۔ ان کے لیے علمی ، تحقیقی اور جسمانی نشو و نما کے لیے بہترین سہولیات کا فراہم کرنا ایک دینی ، ملی اور قومی فریضہ ہے۔
۸-جنسی تشخص:تعلیم کا ایک مقصد شخصیت کی متوازن اخلاقی تعمیر ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب قرآن و سنت اور انسانی عقل کے مطالبات کے پیش نظر تہذیبی تباہی کو روکنے کے لیے جامعات اپنا کردار ادا کریں۔ یونی ورسٹیوں کو عالمی دباؤ سے قطع نظر انسانی حقوق کی شیطانی تعبیر کو رد کرتے ہوئے انسانی فطرت اور اسلامی تصورِ انسان کی روشنی میں تعلیم دینی ہوگی تاکہ آیندہ نسل اس دجالی فتنہ سے بچ سکے ورنہ نہ صرف پاکستان بلکہ انسانیت کا مستقبل تباہی سے نہیں بچ سکتا۔
قرآن و سنت نے مرد اور عورت کی فطری تقسیم اور ان کے فرائض و واجبات کو متعین کر دیا ہے۔ ایسے افراد جو جسمانی طور پر کسی نقص کے ساتھ پیدا ہوں، ان کے لیے بھی انسانی حقوق وہی ہیں جو دیگر انسانوں کے لیے ہیں۔ تاہم، ان کے بہانے صحیح سالم جسم ودماغ رکھنے والوں کو گمراہ کن نفسانی یا نفسیاتی خلجان میں مبتلا کر کے یہ دروازہ کھول دینا کہ ایک پیدائشی مرد اگر چاہتا ہو تو جنس تبدیل کر کے عورت بن جائے ،یا ایک مکمل عورت ذہنی انتشار کے باعث اپنے آپ کو مرد بنانے کے لیے جنس تبدیل کروائے ، اس نوع کے افعال اسلام کی تعلیمات کی واضح خلاف ورزی ہیں۔ اس لیے مغرب سے آئے ہوئے اس فتنے کو پوری قوت اورعلمی دلائل کے ساتھ رد کرنا جامعات کا فرض ہے۔
۹-شدت پسندی اور جاہلی رویوں کی اصلاح :یونی ورسٹیوں کو اپنی نصابی، ہم نصابی سرگرمیوں اور مسلسل مکالمے کے ذریعے طلبہ میں قانون شکنی ،شدت پسندی کے رجحانات کو روکنا ہوگا۔ کسی بھی تعلیمی ماحول میں شدت پسندی کا وجود پورے معاشرے کو زہر آلود کر دیتا ہے۔ سیاسی وابستگیوں سے بلند ہو کر طلبہ کی سیرت و کردار کی تعمیر قرآن و سنت کی روشنی میں کرنی ہوگی، تاکہ ان میں عدل، توازن، اعتدال، میانہ روی، حق گوئی، صبر و حکمت کا صحیح شعور اور عملی مظاہرہ کی صلاحیت پیدا ہو۔
۱۰-مذہبی عبادت گاہوں کا احترام: تعلیم کے بنیادی تقاضوں میں یہ بات شامل ہے کہ قرآن کریم کے دیے ہوئے اصول لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ اور لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ کی روشنی میں اقلیتوں کی عبادت گاہوں کا احترام پیدا کیا جائے اور جذباتی رد عمل کی جگہ دینی تعلیمات کے تحت مسائل کے حل کی تربیت دی جائے۔ اسلام سے زیادہ عدل اور احترام کسی اور نظام زندگی میں نہیں پایا جاتا لیکن اس پہلو کو تعلیمی اور تدریسی ذرائع سے ذہن نشین کرانے کی ضرورت ہے۔
۱۱- ہر سطح پر نظامِ تعلیم کی اصلاح: تحریک اسلامی کے بنیادی مقاصد و اہداف میں یہ بات شامل ہے کہ تطہیر افکار اور تعمیر سیرت کے ذریعے اسلامی عادلانہ معاشرے کا وجود عمل میں لایا جائے۔ یہ اس وقت ممکن ہے جب تحریک اسلامی تعلیم اور تعلیمی نظام کی تشکیلِ نو کے لیے مؤثر علمی اور عملی کردار ادا کرے اور ہر سطح پر نصابی کتب ،معاون کتب جو نصابی موضوعات پر آسان انداز میں قرآن و سنت کی بنیاد پر علوم کی تدوینِ جدید کرتی ہوں، تیار کرے اور فنی طور پر ان کا معیار اتنا بلند ہو کہ خودوہ اپنے طلب گار پیدا کریں اور جامعات اور کالجوں میں انھیں متعارف کرایا جائے۔
یہ درسی کتب نئی نسل میں قرآن و حدیث کی اخلاقی تعلیمات کا ذوق و شوق، نوجوانوں کی تعمیر سیرت اور پاکستان سے نظریاتی وابستگی پیدا کریں گی ،جو وقت کی اہم ضرورت ہے۔ نوجوان جس رفتار سے ملک چھوڑ کر باہر جا رہے ہیں، اس رجحان کو روکنے کی بھی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ انسانی سرمایہ جو ملک کی ترقی کے لیے ضروری ہے، ملک کے اندر رہے اور ایک خوش حال اسلامی، فلاحی معاشرہ وجود میں آ سکے۔