دور جدید میں احیاے اسلام کی کوشش‘ یا زیادہ جامع الفاظ میں اسلامی زندگی کو عقیدہ و مسلک‘ اجتماعی رویہ‘ قانون ملکی اور دستور مملکت کی حیثیت سے بہ تمام و کمال برپا کرنے کی کوشش کے لیے سب سے بڑا مسئلہ تجدید ایمان کا مسئلہ ہے۔ آج پوری دنیا میں اللہ پر ایمان زائل یا ازحد ضعیف ہو چکا ہے‘ اور اس کی ہدایت کی طرف رجوع مفقود یا محض رسمی ہو کر رہ گیا ہے۔ دور جدید کا انسان رسمی طور پر خدا کا اقرار کرنے کے باوجود اپنا نظام زندگی خود وضع کرنے پر مصر ہے۔ اگرچہ ایسا کرنے کے نتائج اچھے نہیں رہے ہیں۔ انسانی ذہن کی نارسائی‘ کوتاہ بینی اور عدم استقرار نے جدید انسان کو اضطراب و حیرانی میں مبتلا کر رکھا ہے مگر ابھی وہ خدا کی طرف رجوع پر آمادہ نہیں۔
تحریک اسلامی کو‘ جو صرف مسلمانوں کی اصلاح کو مقصود نہیں بناتی ہے بلکہ تمام بندگانِ خدا کو خدا کی ہدایت کی طرف بلاتی ہے‘ ایک ایسی فکر سامنے لانا ہے‘ جو انسانیت کو دوبارہ خدا پر سچا ایمان عطا کرنے اور اس کی ہدایت کی طرف واپس لانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ دنیا میں گذشتہ دو سو سال سے جو تہذیب چھائی ہوئی ہے اس نے ایمان بالغیب کی جڑیں ہلا دی ہیں اور یقین کو صرف اسی علم تک محدود کر دیا ہے جو حواس کی مدد سے حاصل کیا جا سکے۔ اس تہذیب نے انسان کا منتہاے نظر دنیوی ترقی اور مادی اقتدار تک محدود کر دیا ہے۔ زندگی کے روحانی تقاضوں کو پس پشت ڈال دیا ہے‘ اور اخلاق کو ان مادی مقاصد کا تابع بنا دیا ہے۔ یہی مرض اس تضاد کی بھی توجیہ کرتا ہے کہ دنیا میں ایک ارب سے زیادہ مسلمان ہیں جن کی اکثریت ۵۰ سے زیادہ ملکوں میں رہتی ہے لیکن کسی جگہ بھی اسلامی نظام زندگی قائم نہیںہے۔ ان مسلمانوں میں ایمان کی کمزوری خدا کے وجود یا محمدصلی اللہ علیہ وسلمکی رسالت سے انکار کی صورت شاذو نادر ہی اختیار کرتی ہے مگر ان کی ۹۹ فی صد اکثریت انسانیت کے مذکورہ بالا مشترکہ مرض میں مبتلا ہونے کے سبب اس پختہ یقین‘ تعلق باللہ اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت و رہنمائی پر اس کامل اعتماد سے محروم ہے جو اللہ ہی کو زندگی کے تمام امور میں حکمراں بنانے کے لیے درکار ہے۔
مسلم دانش وروں کی فکری جہت : مسلمانوں کا جدید تعلیم یافتہ طبقہ پریس اور دوسرے ذرائع سے تہذیب حاضر کی مسلسل تربیت میں رہتا ہے اور معاشی اعتبار سے ان قدروں کا زیادہ واضح شعور رکھتا ہے جو تہذیب حاضر نے انسان کو دی ہیں۔ یہی طبقہ مسلمان قوموں میں سیاسی برتری کا مالک ہے۔ یہ آزاد مسلم ممالک میں حکومت کرتا اور نظام تعلیم‘ پریس‘ ریڈیو‘ ٹیلی ویژن اور سینما کے ذریعے عوام کی تربیت کرتا ہے‘ اور دوسرے ممالک میں مسلمان اقلیتوں کا سیاسی اور ثقافتی رہنما ہے۔ یہ طبقہ ایمان کے غیر معمولی ضعف کا شکار ہے۔ مسلمان دانش وروں میںایک معتدبہ تعداد خدا کے وجود‘ رسالتؐ اور آخرت پر یقین سے محروم یا کم از کم ایسے شک و ریب میں مبتلا ہے جو ان کے ایمان کو بے اثر بنا دینے کے لیے کافی ہے۔
مسلم دانش وروں کی ایک بڑی تعداد ان بنیادی امور پر ایمان رکھنے کے باوجود یہ سمجھتی ہے کہ اسلام کا دائرہ بھی دوسرے مذاہب کی طرح نجی زندگی میں بندہ و خدا کے تعلّق تک محدود ہے۔ ان کا خیال ہے کہ قرآن کی تعلیمات اور رسولؐ کی ہدایات‘ عبادات و اخلاق اور عام انسانی تعلّقات میں ہماری رہنمائی کر سکتی ہیں‘ مگر قرآن و سنت کے احکام و قوانین یعنی ’’شریعت‘‘ اپنے زمانے کے لیے تھی‘ ہمارے زمانے کے لیے نہیں۔ یہ لوگ عام دنیوی امور میں شریعت کی پابندی کے قائل نہیں۔ ان کے علاوہ ایک بڑی تعداد ان کی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ان امور میں ہم اسلامی تعلیمات کی روح کو سامنے رکھیں گے مگر سود کی حرمت‘ قانون وراثت اور فوجداری قوانین جیسے متعین احکام کی پابندی اس زمانہ میں ممکن نہیں۔ مؤخرالذکر دونوں طبقوں کے رجحانات متعین کرنے میں اگر ایک طرف مغرب کی دی ہوئی فکر اور اس کا نظام اقدار اثرانداز ہوا ہے‘ تو دوسری طرف یہ بات بھی فیصلہ کن رہی ہے کہ ان دانش وروں کو مذکورہ بالا متعین قوانین‘ اور ان جیسے دوسرے قوانین کو آج کی دنیا میں نافذ کرنا عملاً محال نظر آتا ہے۔ جدید زندگی کے احوال وظروف اور جدید انسان کے مزاج کو جیسا کچھ انھوں نے سمجھا ہے اس کی روشنی میں وہ یہ رائے رکھتے ہیں کہ سود کے بغیر معیشت نہیں چل سکتی‘ وراثت‘ گواہی‘ طلاق یا زندگی کے کسی مسئلے میں عورت کے ساتھ مرد سے مختلف سلوک نہیں کیا جا سکتا۔ حدود شرعیہ کا نفاذ دورِ جدید کے انسان کا مزاج نہیں قبول کر سکتا‘ ایک جدید مملکت میں قانون سازی اور انتظام ملکی میں غیرمسلموں کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جا سکتا‘ وغیرہ وغیرہ۔
جب تک مسلمان معاشروں میں قیادت و سربراہی کے مالک دانش وروں کی ایمانی اور فکری حالت یہ ہے‘ ظاہر ہے کہ ان کے اندر اسلامی انقلاب کی توقع نہیں کی جا سکتی‘ اگرچہ مسلمان عوام میں مذہب کا اثر زیادہ ہے۔ تعلیم کی کمی اور معلوم معاشی پست حالی کے سبب ابھی تہذیب جدید کی فکر اور نظام اقدار ان پر پوری طرح اثرانداز نہیں ہو سکا ہے۔ معاشی ترقی اور جدید تعلیم کے عام ہونے کے ساتھ مذہب کا اثر بھی گھٹتا جا رہا ہے۔ جو اثر ہے وہ زیادہ تر عبادات اور ثقافتی امور تک محدود ہے۔ البتہ زندگی کے مقاصد‘منظور نظر قدریں اور دنیوی زندگی میں خوب و ناخوب کے پیمانے وہی ہیں جو دانش وروں نے اختیار کر رکھے ہیں۔ اپنے لیڈروں کی مذہب سے دُوری پر افسوس کرنے کے باوجود دنیوی امور سے شریعت کی بے دخلی کے معاملے میں مسلمان عوام کی غالب اکثریت اپنے لیڈروں ہی کے پیچھے چل رہی ہے۔
علما و مشائخ کا عمومی رویہ: ہر مسلمان معاشرے میں ایک طبقہ علما و مشائخ کا بھی ہے جس سے مسلمان عوام خاصا تعلّق رکھتے ہیں۔ ان کے اندر شعائر اسلام کے احترام اور ثقافتی امور میں اسلامی آداب کی پابندی زیادہ تر انھی علما و مشائخ کی تعلیم و تربیت کا نتیجہ ہے۔ لیکن ان علما و مشائخ کو مسلمان عوام سیاسی اور عام دنیوی امور میں اپنا رہنما نہیں بناتے اور نہ خود علما ومشائخ میں اتنی خود اعتمادی اور اس بات کا حوصلہ ہے کہ وہ ان کی مکمل رہنمائی کریں۔ وہ جدید تہذیب اور مسلمان دانش وروں پر اس کے گہرے اثرات سے بالعموم ناواقف ہیں۔ اگر وہ مرض کی بعض علامتیں دیکھتے بھی ہیں تو اس کے اسباب تک پہنچنے سے قاصر رہتے ہیں۔ وہ تہذیب جدید اور اس کے تمدن کی مادی بلندی سے مرعوب ہیں اور اس کو جڑو بنیاد سے بدل کر اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد کا کوئی داعیہ اپنے اندر نہیں پاتے۔ مسلمان دانش وروں کی بے دینی پر بظاہر تنقید کرنے کے باوجود امور دنیا میں یہ انھی کی قیادت مان رہے ہیں اور وقت پڑنے پر مسلمان عوام کو انھی کی قیادت پر مجتمع کرنے اور ان کی تائید پر کمربستہ کرنے کی خدمت انجام دیتے رہتے ہیں۔
یہ منظر بڑا عبرت انگیزہے کہ جہاں بھی احیاے اسلام کی طاقت ور تحریکیں اٹھیں علما و مشائخ کے ایک طبقے نے ان کی زبردست مخالفت کی اور بڑی حد تک اپنا وزن اس لادینی قیادت کے حق میں استعمال کیا جو ان تحریکوں کو پامال کرنا چاہتی ہے۔ ہمارے نزدیک اس کا سبب صرف گروہی عصبیت اور عوام کی قیادت چھن جانے کا خوف نہیں‘ بلکہ اس مخالفت کی تہہ میں اسلام کے بارے میں ان علما و مشائخ کی فکر کی محدودیت اور احیاے اسلام کے حوصلے کا فقدان ہے۔ ان کا یہ تاریخی وجدان ہے کہ جو کام قرونِ اولیٰ کے بعد پھر ممکن نہ ہوسکا وہ آج کی دنیا میں یکسر ناممکن ہے‘ اور انھیں یہ اندیشہ ہے کہ مکمل اسلامی نظام کے قیام کی کوشش کہیں محدود دائرے میں بھی اسلام کے باقی نہ رہنے کا سبب نہ بن جائے!
اسلامی تحریکیں اور مسلم معاشرے: ایمانی حالت کے اس سرسری جائزے کی روشنی میں احیاے اسلام کی ان کوششوں پر نظر ڈالی جائے‘ جو بیسویں صدی سے دنیاے اسلام کے مختلف علاقوں میں کی جاتی رہی ہیں تو یہ معلوم ہوگا کہ بڑی حد تک اصل مرض کو پہچانا گیا ہے‘ اور اس کا علاج کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہاں ان کوششوں کا جائزہ لینا ممکن نہیں ہے۔ صرف اس حقیقت پر زور دینا چاہتے ہیں کہ ابھی یہ کوششیں ناتمام ہیں۔ اسلامی تحریکوں نے عام انسانوں کو مخاطب بنا کر انھیں کفر و شرک اور حیرانی و اضطراب سے ایمان کی طرف لانے کی کوشش بھی کم کی ہے۔ ان کی بیش تر توجہات مسلمان معاشروں پر مرکوز رہی ہیں۔ لیکن اب بھی مسلمان دانش وروں اور ان کے عوام کا حال وہ ہے جو اُوپر بیان کیا گیا ہے۔ ابھی دنیا میں کہیں بھی ان کوششوں کی ]بظاہر[کامیابی کے آثار نہیں نظر آتے‘ گو گذشتہ نصف صدی کی کوششوں کے نتیجے میں صورت حال بلاشبہ بہتر ہوئی ہے۔
آج مسلمان دانش وروں میں ایک معتدبہ عنصر موجود ہے جو پورے اسلام کو اختیار کرنے کا عزم رکھتا ہے‘ اور شریعت کو نہ صرف واجب العمل سمجھتا ہے بلکہ قابل عمل سمجھتا ہے‘ اور دَورِ جدید میں اسے نافذ کرنے کا عزم بھی رکھتا ہے۔ یہ عنصر متحرک اور فعال ہے اور متعدد مسلمان معاشروں میں اس نے عوام کے ایک بڑے طبقے کا اعتماد حاصل کر کے ان کی قیادت شک و ریب میں مبتلا یا کمزور ایمان رکھنے والے اور دین و دنیا کے درمیان تفریق کرنے والے دانش وروں سے بڑی حد تک چھین بھی لی ہے۔ لیکن ابھی عوام کی غالب اکثریت کی اس نئی اسلامی قیادت کے ساتھ وابستگی زیادہ تر جذباتی ہے جس کے سبب وہ غیر اسلامی قیادت کے تسلط کے خلاف کوئی عملی اقدام کرنے اور اس راہ میں قربانیاں دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ابھی نہ عوام کا نظام اقدار بدلا ہے‘ نہ اس بگڑے ہوئے ’’مذہبی مزاج‘‘ کی اصلاح ہوئی ہے جو اسلام کے نام پر لوگوں کو علما اور اسلامی قیادت کے پیچھے لاکھڑا کرتا ہے‘ مگر معاشی ترقی‘ سیاسی استحکام اور امور مملکت کے نظم و انصرام کے سلسلے میں فیصلہ کن طاقت کا حق دار سیکولر قیادت ہی کو سمجھتا ہے۔
اپنے دانش ور طبقے میں ایمان کی بحالی اور اپنے عوام کو پوری طرح ساتھ لینے کے لیے ابھی اسلامی تحریکوں کو بہت کچھ اور کرنا ہے۔ انھیں عوام میں اسلام کا علم پھیلانے‘ ان کی اصلاحی اور دینی اصلاح اور ایمانی تربیت کے لیے اپنے پروگراموں کو زیادہ جامع بنانا ہے‘ اور ان پر زیادہ مستعدی کے ساتھ عمل کرنا ہے۔ اصلاح صرف قول سے نہیں ہوا کرتی ہے‘ اس سے زیادہ اہمیت کردار کی ہے۔ تحریک اسلامی کے کارکنوں کو نہ صرف عبادات و اخلاق میں بلکہ معاملات دنیا بالخصوص معاشی وسائل اور سیاسی طاقت کے برتنے میں‘ نیز اپنی معاشرتی زندگی میں للہیت‘ ترجیح آخرت اور اخوت‘ مواساۃ و مرحمت‘ شورائیت اور مساوات کی اسلامی قدروں کے مطابق اعلیٰ اسلامی کردار کا نمونہ پیش کرنا ہے تاکہ مسلمان عوام ان قدروں کو جذب کر سکیں اور اسلامی نظام کے قیام کی راہ ہموار ہو سکے۔ انھیں اپنے عوام کے اندر وہ بنیادی انسانی صفات اُجاگر کرنی ہیں جن کے بغیر کوئی انسانی گروہ زوال سے عروج اور ضعف سے قوت کی طرف نہیں بڑھ سکتا۔ ہماری مراد محنت‘ نظم و ضبط‘ کسی اعلیٰ مقصد کے لیے ایثار و قربانی کے جذبے‘ اور اس مقصد کے لیے ذریعے کے طور پر علوم و فنون میں مہارت کے ذریعے تسخیر کائنات کے حوصلہ سے ہے۔ صرف وعظ و ارشاد کے ذریعے مسلمان عوام سے کاہلی اور جہالت‘ اختلاف اور فرقہ بندی‘ بخل اور کم ظرفی اور پست حوصلگی کی مہلک بیماریاں نہیں دُور کی جا سکتیں۔ ان کے علاج کے لیے وسیع پیمانے پر مسلسل منظم کوششیں درکار ہیں۔
مسلمان دانش وروں کی ایمانی حالت درست کرنے‘ ان کے نظام اقدار میں تبدیلی اور کتاب و سنت کے ساتھ ان کی وفاداری بحال کرنے میں مذکورہ بالا کوششوں کو بھی دخل ہوگا مگر ان کی نسبت سے تحریک اسلامی کو کچھ علمی اور فکری کام بھی کرنے ہیں۔ یہ علمی اور فکری کام عام انسانوں کو دعوت اسلامی کا مخاطب بنانے کے ضمن میں اہمیت کے حامل ہیں‘ اور اس تعلیمی اور تربیتی پروگرام کے لیے بھی اہم بنیادیں فراہم کرتے ہیں جس کا ذکر اُوپر عوام کی اصلاح کے ضمن میں کیا گیا ہے۔
غوروفکر کی جہتیں: یہ مقالہ مخصوص طور پر تحریک اسلامی کے ہمہ جہتی کام کے علمی اور فکری پہلو سے بحث کرتا ہے۔ اس کا مقصد ایسے موضوعات ومسائل کی نشان دہی ہے جن پر کیا جانے والا کام اتنا تشفی بخش نہیں کہ جدید ذہن کو پوری طرح مطمئن کر سکے‘ یا جن کے بارے میں معاصر اسلامی مفکرین کے درمیان پائے جانے والے اختلافات نے مزید بحث و تحقیق کو ناگزیر بنا دیا ہے‘ یا جن کی طرف گذشتہ کئی عشروں میں بہت کم توجہ کی جا سکی ہے۔
ہمارے نزدیک اس طرح کافکری کام‘ جس کے بعض گوشوں کی ذیل میں نشان دہی کی جا ئے گی‘ عصرحاضر میں اسلامی نظام کے قیام کی شرط لازم بن چکا ہے--- جو لوگ یہ سمجھتے ہوں کہ اسلامی مفکرین فکری کام کا حق ادا کر چکے ہیں اور مسلم دانش وروں کو اسلام کے پوری طرح اختیار کرنے سے روکنے والی چیز صرف ان کی دنیا پرستی ہے‘ یا مسلم عوام اسلامی تحریکوں کی قیادت اور ان کے پروگراموں سے پوری طرح مطمئن ہیں‘ صرف فوجی آمریتیں ان کے اجتماعی ارادے کے عملی اظہار میں مانع ہیں--- ان کے تجزیے کو ہم غیر تشفی بخش سمجھتے ہیں اور اس سے اختلاف رکھتے ہیں۔
ہم اس غلط فہمی کا شکار نہیں کہ جن فکری کاموں کی نشان دہی کی جا رہی ہے‘ وہ انجام پا جائیں تو دَورحاضر کا انسان اسلام کی طرف دوڑ پڑے گا‘ یا مسلمان دانش ور فوج در فوج تحریک اسلامی کی صفوں میں شامل ہونے لگیں گے‘ اور مسلمان عوام کی موجودہ دو رُخی اور ان کا تذبذب دُور ہو جائے گا۔ جیسا کہ ہم نے اُوپر اشارہ کیا‘مسئلے کے دوسرے پہلو بھی اہمیت رکھتے ہیں مگر ہم یہ رائے ضرور رکھتے ہیں کہ جب تک فکری کام آگے نہیں بڑھتا دوسرے کاموں کے باوجود اسلامی تحریکیں اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب نہیں ہوسکتیں۔
ہمارے نزدیک انسانی دنیا میں فیصلہ کن طاقت افکار و تصورات کی طاقت ہے اور جو چیز دَورحاضر میں اسلام کو اس کا اصل مقام دوبارہ دلوانے والی ہے وہ اسلامی افکار و تصورات کی صالحیت اور دوسرے تمام افکار و تصورات کے مقابلے میں اسلام کے نظریۂ حیات و کائنات کا زیادہ معقول و برتر ہونا ہے۔ شرط یہ ہے کہ باطل افکار و تصورات پر گہری تنقید کے ساتھ اسلامی افکار و تصورات کو ایسے استدلال کے ساتھ پیش کیا جائے جس کو عصرحاضر کا انسان سمجھ سکے۔ کسی صالح تر نظریے کو محض جبرو تشدد سے زیادہ عرصہ نہیں دبایا جا سکتا۔ آج بعض مسلم ممالک میں طاقت ور اسلامی تحریکوں کو جبر کی حکمرانی نے جس طرح دبا رکھا ہے‘ اس سے بہت سے ذہنوں میں یہ سوال اُبھر رہا ہے کہ ایسے حالات میں نظام کی تبدیلی کے لیے اشاعت افکار‘ تعمیر کردار اور اصلاح معاشرہ کے پروگرام کس طرح مقصد براری کر سکتے ہیں؟ طاقت کے جواب میں طاقت کی ضرورت ہے۔
اس طرح سوچنے والوں کو مذکورہ بالا تاریخی حقیقت پر غور کرکے یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ انھیں وقت کے چھائے ہوئے نظام کے مقابلے میں جس طرح کی طاقت کی ضرورت ہے وہ عوام و خواص کے ذہنوں میں صالح فکر کے رسوخ اور ان کے انفرادی اجتماعی کردار پر اس کے گہرے اثر کے نتیجے میں ہی حاصل ہوسکتی ہے۔ انسانی فطرت جبر کی حکمرانی سے نفرت کرتی ہے‘ مگر اس کی بے پناہ قوتوں کو جبر کے خلاف منظم کوشش پر آمادہ کرنے کے لیے صالح نظریہ اور اس پر گہرا یقین درکار ہوتا ہے۔ ساتھ ہی یہ حقیقت بھی سامنے رکھنی چاہیے کہ کسی ملک میں بھی اسلام کی راہ کا روڑا صرف اس ملک کا مغرب زدہ طبقہ یا اس کی حکمران قوتیں نہیں بلکہ پوری لادینی تہذیب‘ سرمایہ دارانہ مغرب‘ صلیبیت اور صیہونیت اپنے عالمی پریس‘ اپنے لٹریچر‘ اپنے سفارت خانوں اور برآمد کردہ ماہرین‘ اپنی فوجی اور اقتصادی امداد‘ غرض اپنے جملہ مادی اور ذہنی وسائل کے ساتھ اسلامی نظام کے احیا کی راہ روکنے پر تلے ہوئے ہیں۔
احیاے اسلام کے لیے جہاد کا میدان کوئی ایک ملک نہیں‘ پوری دنیا ہے۔ آج تحریک اسلامی جس مرحلے میں ہے اس میں یہ لڑائی محض مادی قوت کے ذریعے نہیں جیتی جا سکتی ہے۔ ہماری اصل قوت ہمارا صالح نظریۂ حیات ہے‘ جس کی صحیح اور موثر ترجمانی اورعصرحاضر کے ذہن و مزاج کو پوری طرح سمجھ کر کی جانے والی تفہیم --- ایسی ترجمانی اور تفہیم جس کے پیچھے داعی گروہ کے اعلیٰ اسلامی کردار کی سند موجود ہو--- جغرافیائی‘ قومی اور نسلی حدود سے بے نیاز ہو کر انسانوں کے دل و دماغ بدل سکتی ہے۔ یہی کام ہماری اپنی صفوں کو درست کرنے اور مخالف قوتوں کا شیرازہ منتشر کر کے انسانوں کو ان کی قیادت سے اپنی قیادت کی طرف لانے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ہمیں اپنی توجہات اسی پر مرکوز کر دینی چاہییں۔
۱- شان الوہیت: فکری کاموں میں سرفہرست اللہ تعالیٰ کے وجود‘ اس کی صفات‘ اور شان الوہیت کی تفہیم کا مسئلہ ہے۔ اس مسئلے پر اب تک ایسا لٹریچر نہیں پیش کیا جا سکا ہے جس میں دَورحاضر کے منکرین خدا‘ متشککین (skeptics) اور لاادریین (agnostics)کے خیالات کو پوری طرح سامنے رکھا گیا ہو۔ غالباً اس کی ایک وجہ ہے کہ ہمارے مفکرین مغرب کے انسان کو اپنا مخاطب بنانے کا حوصلہ نہیں رکھتے تھے‘ اور انھوں نے اپنے عوام کے ایمان باللہ کو ایک مسلّم حقیقت اور اپنے دانش وروں کے شک و ریب کو محض مغرب سے مرعوبیت کا نتیجہ سمجھا۔ افسوس کہ ہمارا مرض زیادہ گہرا ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ عصرحاضر کے ائمۂ فکر کے اعتراضات و شبہات کا جائزہ لیتے ہوئے اس موضوع پر کام کیا جائے۔ اس کام میں ایسے مسائل سے بھی تعرض ناگزیر ہوگا جن کا تعلق خدا کے وجود سے نہیں بلکہ اس کی صفات اور ان صفات کے درمیان ہم آہنگی سے ہے۔ مثلاً برٹرنڈرسل اور ٹائن بی جیسے چوٹی کے لاادریین کائنات میں شر(evil) کے وجودکے پیش نظر خداکی صفت رحمت و قدرت کو تسلیم کرنے‘ اور پھر اس بنا پر خود خدا کا وجود تسلیم کرنے کو دشوار پاتے ہیں۔ معاصر اسلامی لٹریچر اس مخصوص مسئلے سے بہت سرسری گزر گیا ہے۔
صفات خداوندی کی قرآن کی روشنی میں تفہیم کی اہمیت ایک مثال سے سمجھی جا سکتی ہے۔ خدا علیم و خیبر ہے اور وہی غیب کا علم رکھتا ہے مگر علم کے باب میں دَورحاضر کا انسان کسی حد کا قائل نہیں اور وہ اس علم و خبر کا بھی مدعی ہے جو ضابطہء حیات وضع کرنے کے لیے درکار ہے۔ اس انانیت میں اعتدال پیدا کرنا شان الوہیت اور مقام عبودیت کے صحیح فہم اور متعلقہ صفات خداوندی کے قرآنی تصور پر اطمینان حاصل کیے بغیر ممکن نہیں۔
اسی طرح شان الوہیت کی ایسی تفہیم درکار ہے جو انسانوں میں عموماً اور مسلمان دانش وروں اور ان کے عوام میں خصوصاً اللہ کی حاکمیت کا تصور بھی اسی طرح راسخ کر دے‘ جس طرح اس کے مسجود و معبود ہونے کا تصور راسخ ہے۔ اسلامی تصورتوحید کی وضاحت میں وحدت الوجودجیسے تصورات کا نوٹس لینا بھی ضروری ہے تاکہ یہ صاف اور سلجھا ہوا حرکی (dynamic)تصور فلسفیانہ الجھائوں سے پاک رہ کر انسانی زندگی پراپنے گہرے اثرات مرتب کر سکے۔ انسان کی روحانی اور نفسیاتی‘ علمی اور فکری‘ اخلاقی اور عملی‘ نیز سیاسی‘ معاشی اور سماجی زندگی کے لیے عقیدہ توحید کے تقاضوں کی وضاحت ہر دور میں ازسرنو ضروری ہوتی ہے۔ دَورحاضر کے احوال و ظروف‘ اس کی ذہنی فضا اور مزاجی کیفیت کی مناسبت سے ایسی وضاحت درکار ہے‘ جو مادی تہذیب کے اثرات سے زندگی کے تمام پہلوئوں کو پاک کر کے انھیں اسلامی اقدار کے مطابق ڈھال سکے۔ عملی زندگی میں توحید کے تقاضوں کی تووضاحت کی گئی ہے‘ مگرعلم و فکر‘ آرٹ اور ادب‘ فنون لطیفہ اور جمالیات کی نسبت سے کم سوچا گیا ہے۔
تمام تہذیبی مظاہر کی آبیاری بالآخر کسی ایک سرچشمہ سے ہوتی ہے جو ان کا مزاج متعین کرتا ہے۔ اسلامی تہذیب کا سرچشمہ تصور توحید ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ کائنات کے مشاہدے و مطالعے میں‘ قوانین فطرت کے اکتشاف اور ان کی تشریح میں یا نفس انسانی‘ سماج اور اجتماعی زندگی کے مختلف پہلوئوں کے تجزیہ و تحلیل میں اس سرچشمہ سے بے نیازی برت کر اسلامی تہذیب کی تشکیل جدید کی امید کی جا سکے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ وہ دائرے ہیں جو علما دین کی دسترس سے باہر رہے ہیں اور ان کے ماہرین نے شعوری یا لاشعوری طور پر ان دائروں میں خدا کے ساتھ وہی سلوک روا رکھا ہے جو مغربی تہذیب نے اختیار کیا ہے۔ اس موقف پر نظرثانی کی اور ان دائروں میں توحیدی بصیرت کے ساتھ نئے کام کی ضرورت ہے تاکہ ایک طرف تو یہ واضح ہو سکے کہ کائنات کی سب سے بڑی حقیقت یعنی خدا کے بغیر حقائق کا صحیح فہم اور ان کی تعبیر و توجیہ دشوار ہے‘ دوسری طرف یہ ثابت ہو جائے کہ اس حقیقت کی رہنمائی میں مختلف حقائق کے درمیان ربط قائم کرنا اور ان سے متوازن اور ہم آہنگ استفادہ کرنا ممکن ہے۔
۲- منصب رسالت : الوہیت کے بعد وحی و رسالت کی اہمیت ہے۔ مستشرقین نے وحی کے اسلامی تصور کو مجروح کرنے اور رسالت کے حدود (scope)کو محدود کرنے کی کوشش کی ہے‘ جس کا بعض مسلمان دانش وروں نے خاصا اثر لیا ہے۔
وحی و رسالت کے باب میں ہندو ذہن اور عیسائی ذہن اسلامی ذہن سے یکسرمختلف تصور رکھتا ہے۔ ان مخصوص اجنبی تصورات کا نوٹس لینا بھی ضروری ہے۔ وحی و رسالت کے قرآنی تصور کی وضاحت میں عقل انسانی‘ سائنس اور تاریخ کی رہنمائی کی رسائی کو بھی زیربحث لانا ہوگا۔ نیز فی الجملہ غیب اور ایمان بالغیب کے موضوع پر سیرحاصل بحث کرنی ہوگی جیسا کہ اُوپر اشارہ کیا جا چکا ہے۔ عصرحاضر کا انسان‘ غیب سے کتراتا ہے اور کسی ایسے علم کو جاننے سے پہلو بچاتا ہے جسے عقل و تجربہ کی سند نہ حاصل ہو۔ بیسویں صدی کے متعدد سائنس دانوں اور ماہرین نفسیات نے اس سطحیت اور کوتاہ نظری کے خلاف احتجاج کیا ہے‘ اور معلوم کے بالمقابل مجہول کی وسعتوں پر زور دیا ہے‘ مگر مزاج عصر نے اس کا اثر کم قبول کیا ہے۔ ان کی تحریروں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مسئلے کی مکمل تنقیح ضروری ہے۔
وحی اور رسالت کی ماہیت اور ان کی وسعتوں پر روشنی ڈالتے ہوئے اس ذہن کو بھی سامنے رکھنا ہوگا جو دین وشریعت کے درمیان تفریق کرتا ہے اور سیاست و معیشت‘ خاندانی زندگی اور جرم و سزا جیسے سیکولر امور میں قانون سازی کے لیے انسانی عقل و تجربہ کو کافی سمجھتا ہے۔ کیا انسان کی نفسیاتی‘ سماجی اور معاشی و سیاسی زندگی کے جملہ امور و متعلقات دائرہ غیب سے باہر اور انسانی علم کی مکمل رسائی میں ہیں؟ اس سوال کا واضح جواب قرآن کی روشنی میں تلاش کرنا ہوگا۔ احکام شریعت کی دائمی حیثیت کی وضاحت اوروکالت کے ضمن میں زمان و مکان کی نسبت سے بعثت محمدیؐ کی حیثیت کا جائزہ لینا ہوگا۔ اس سلسلے میں ختم نبوت کی بھی مزید تفہیم درکار ہے۔ کیوں کہ بعض ذہنوں کے لیے یہ بات ناقابل فہم ہے کہ جب عقل و حواس کی نارسائی انسان کی مستقل کمزوری ہے جس کی تلافی کے لیے وحی الٰہی کی رہنمائی درکار ہے تو تاریخ انسانی کے کسی مرحلہ پر اس رہنمائی کا سلسلہ کیوں ختم کر دیا گیا؟ اس سوال اور مذکورہ بالا دوسرے مسائل کا تعلق بالآخر فلسفہ‘ تاریخ‘ مزاج شریعت اور تجدید و اجتہاد کے تاریخی کردار سے جڑ جاتا ہے۔
۳- قرآن اور سائنس : مقام وحی و رسالت کے ضمن میں مذہب اور سائنس‘ یا زیادہ صحیح الفاظ میں قرآن اور سائنس کے موضوع پر بھی نئے کام کی ضرورت ہے۔ اس موضوع پر اردو اور عربی میں جو لٹریچر موجود ہے اس پر زیادہ تر انیسویں صدی کی سائنس کی فکر کی چھاپ پڑی ہے اور وہ الا ماشاء اللہ افراط و تفریط کا شکار ہے۔
اس کی ایک مثال حیاتیاتی ارتقا (evolution)کا مسئلہ ہے۔ سائنس کا طالب علم اسے حقیقت مانتا ہے مگر قرآن کا مفسّر یا تو قرآن کی طرف اس کی قطعی تردید منسوب کرتا ہے یا آیات قرآنی سے حیاتیاتی ارتقا کا اثبات کرتا ہے۔ جیسا کہ ہم بتا چکے ہیںمطالعہ فطرت میں وحی الٰہی سے بے نیازی برتنے یا قرآن اور سائنس کو دو بالکل علیحدہ خانوں میں رکھنے کا رویہ صحیح نہیں ہو سکتا۔مگر یہ بھی ممکن نہیں کہ ایک دائمی کتاب ہدایت سے تمام سائنٹفک حقائق اخذ کیے جا سکیں یا اس کے بیانات کی تفسیر میں بدلتے رہنے والے نظریات کو فیصلہ کن اہمیت دی جائے۔ مسئلے کے ان نازک پہلوئوں کی پوری رعایت ملحوظ رکھتے ہوئے مسئلہ ارتقا اور اس جیسے دوسرے مسائل کی نسبت سے قرآن کے موقف و منہاج کی ازسرنو وضاحت ضروری ہے۔ عصرحاضر کے لیے اس کام کی ضرورت بہت زیادہ ہے کیوں کہ بعض اوقات ایمان باللہ کے باوجود کسی ایک مسئلے میں شک و ریب یا یہ گمان کہ معلوم و مشہود حقیقت وحی و رسالت کے بیان سے ٹکراتی ہے‘ پوری زندگی کو ایمان کے دُور رس اثرات سے محروم کر دیتا ہے اور انسانی ذہن کو مجبور کرتا ہے کہ وہ مذہب کے سلسلے میں ایک غیر عقلی تقلیدی موقف اختیار کرے جس کا لازمی نتیجہ عام انسانی زندگی سے مذہب کی بے دخلی ہے۔
۴- سنت: منصب رسالت کی تفہیم کے لیے دوسرا اہم کام سنت کی تنقیح کا ہے۔سنت اسلامی قانون کا مآخذ اور قرآن کے پہلوبہ پہلو اسلامی تعلیمات کا منبع ہے۔ کسی زیرغورمسئلے میں سنت کی رہنمائی معلوم کرنے کے لیے ہمیں اب جو ذریعہ میسّر ہے وہ احادیث کا ذخیرہ ہے‘ جو صدیوں کی چھان بین اور بحث و تحقیق کے نتائج کے ساتھ ہم تک منتقل ہوا ہے۔ اصولی طور پر اس ذخیرہ سے استفادے میں ماضی کی بحث و تحقیق کو حرف آخرسمجھنے کے بجائے مزید تحقیق و تدبیر کی ضرورت ہمیشہ باقی رہے گی۔ یہ بات روایت و درایت یا تاریخی تحقیق اور قرآن کریم کی رہنمائی میں عقلی جانچ پرکھ دونوں کے بارے میں صحیح ہے۔چند مجموعوں میں درج ہر روایت کو لفظاً و معناً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنے اور مستشرقین کی اتباع میں احادیث کے پورے ذخیرہ کی صحت کو مشکوک سمجھنے کے دو انتہا پسندانہ رویوں کے درمیان یہی وہ مسلک اعتدال ہے جو تحریک اسلامی کے رہنمائوں نے اختیار کیا ہے۔ اصل مسئلہ زیرغور مسائل میں اس موقف کو عملاً برت کر دکھانے اور انتہا پسندانہ موقفوں پر علمی تنقید کا ہے۔ یہ کام بھی ازحد تشنہ ہے۔
روایت و درایت کے اعتبار سے احادیث کی ازسرنو تحقیق اور جدید مسائل کی نسبت سے سنت کی تنقیح کی سب سے زیادہ اہمیت ان دستوری‘ سیاسی‘ معاشی اور سماجی مسائل میں ہے‘ جن میں دَور جدید میں اسلامی موقف کی ازسرنو تعیین اس لیے ضروری ہو گئی ہے کہ متعلقہ احوال و ظروف یکسر بدل گئے ہیں۔ اس دائرہ میں متعدد مسائل کے ضمن میں یہ سوال بہت اہم ہو گیا ہے‘ کہ سنت ان مقاصد و مصالح کے اعتبار سے اور ان کے حصول کے لیے مزاج شریعت سے مناسبت رکھنے والے طریقے اختیار کرنے کا نام ہے‘ جن کااعتبار نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے کی دستوری سیاسی‘ معاشی اور سماجی زندگی کی تطہیر و تنظیم میں کیا تھا‘ یا خود ان متعین قواعد و ضوابط کا نام ہے جو آپؐ نے وضع کیے تھے۔
۵- اسلامی تاریخ: دَور جدید میں احیاے اسلام کی جدوجہد کے سیاق میں تاریخ اسلام کا ازسرِنو مطالعہ اور کتاب و سنت کے دیے ہوئے اسلامی معیاروں پر اس تاریخ کے مختلف اَدوار کی قدروقیمت کا تعیّن (evaluation) نیز ان مختلف انقلابات اور تبدیلیوں کی تعبیر و توجیہ جن سے یہ تاریخ گزری ہے‘ بہت اہم کام ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ اس تاریخ کے بعض اہم اَدوار کا مطالعہ خاصا اختلافی رہا ہے۔ اس کی ایک مثال حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کا دورِ حکومت ہے‘ جس پر گذشتہ چند برسوں میں خاصی بحث رہی ہے۔ اس کام کی ایک اہمیت یہ بھی ہے کہ جدید سیاسی‘ معاشی اور معاشرتی مسائل پر بحث و مذاکرے کے دوران وسیع پیمانے پر تاریخی نظائر پیش کیے جاتے ہیں مگر کسی مستند evaluationکا فقدان اس طرح کے نظائر کا وزن مشکوک بنا دیتا ہے۔
۶- فقہ: معاصر اسلامی مفکرین کے درمیان دورِ جدید کی اسلامی قانون سازی میں حجت ہونے یا رہنما بنانے کے لحاظ سے اس فقہی ذخیرے کے مقام کے بارے میں مختلف رائیں پائی جاتی ہیں‘ جو شروع کی چند صدیوں میں مرتب ہوا تھا۔
اصولی طور پر اللہ نے ہمیں صرف کتاب و سنت کی پابندی کا مکلف بنایا ہے۔ جدید اسلامی قانون سازی میں ہمیں ماضی کے فقہی ذخیرہ سے پورا استفادہ کرنا چاہیے۔ لیکن یہ مخصوص زمان ومکان میں انسانی ذہن کی پیداوار ہے‘ جس کی پابندی کی نہ کوئی شرعی اور عقلی دلیل ہے‘ نہ یہ پابندی عملاً مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ مگر علما کا ایک بڑا طبقہ یہ رجحان رکھتا ہے کہ نئی قانون سازی میں کوئی ایسی راہ نہیں اختیار کی جانی چاہیے‘ جو فقہ کے معروف اسکولوں میں سے کسی اسکول نے نہ اختیار کی ہو۔ تحریک اسلامی کے رہنما عام طور پر صحیح اصولی موقف کے حامل ہیں۔ مگر جب کسی عملی مسئلے پر بحث چھڑ جاتی ہے تو ان کے طرزِفکر پر علما کے غالب رجحان کا گہرا اثر بآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔ اس رجحان کے ردّعمل میں احوال و ظروف اور مزاج عصر کی بیش از بیش رعایت رکھنے والے دانش وروں میں شبہ پیدا ہوتا ہے کہ علما کتاب و سنت کے ساتھ سلف صالح کے اجتہادات کو بھی شریعت کا درجہ دینا چاہتے ہیں۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ یہ دونوں طبقے ایک دوسرے کو اپنا موقف سمجھانے کی کوشش کریں اور باہمی تبادلۂ خیال اور بحث و تمحیص کے بعد کسی اعتدال پر مجتمع ہوں۔ بدقسمتی سے ان دونوں طبقوں کے درمیان خوش مزاجی اور انکسار طبع کے ساتھ تبادلہ آرا کا رواج نہیں پڑ سکا اور جو بحثیں ہوتی ہیں ان کامواد اور لہجہ کسی صحت مند نتیجے تک پہنچانے کے لیے سازگار نہیں ہوتا۔
ہمارے ماضی کے ورثے میں مرتب شدہ فقہ کے ساتھ دینی فکر کے دوسرے اہم اجزا بالخصوص تشریح عقائد‘ علم الکلام اور صوفیانہ لٹریچر اور تصوف کی روایات کی بڑی اہمیت ہے۔ مسلمان معاشرہ آج جیسا ہے اس کی تشکیل میں اس لٹریچر نے‘ ان علما و مشائخ کے توسط سے جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے‘ فیصلہ کن حصہ لیا ہے۔ ہمارے نزدیک دینی فکر کے ان دوسرے عناصر کے سلسلے میں تحریک اسلامی کے رہنمائوں کا موقف زیادہ واضح اور صاف رہاہے‘ یعنی انھوں نے اسے بحیثیت مجموعی‘ مخصوص احوال و ظروف اور زمان و مکان کے مخصوص تقاضوں کے تحت قرآن و سنت کے انسانی فہم کا اظہار سمجھا ہے۔ نہ صرف یہ کہ وہ اسے دورِ جدید کے انسان کے لیے حجت نہیں قرار دیتے‘ بلکہ اکثروبیشتر اسے غیر موزوں اور جدید اسلامی ذہن و مزاج کی تشکیل کے لیے مضر سمجھتے ہوئے تمام متعلقہ مسائل پر کتاب و سنت کی روشنی میں‘ آج کے احوال و ظروف اور موجودہ زمان ومکان کے تقاضوں کے پیش نظر ازسرِنو فکر کی دعوت دیتے ہیں۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عام علما اور مشائخ نے ان کے اس موقف کو قبول نہیں کیا ہے‘ اور آج بھی مسلمان عوام کے دینی افکاراور ان کے مجموعی مزاج کی تشکیل انھی غیر موزوں اثرات کے تحت ہوتی ہے۔ یہ چیز ایک طرف تو عوام کی مطلوبہ اصلاح میں زبردست رکاوٹ بنتی ہے اور دوسری طرف پورے مسلم معاشرے میں اس حرکی اقدامی کیفیت کے پیدا ہونے میں مانع ہے جو دورِ جدید میں اسلام کی نشات ثانیہ کے لیے ضروری ہے۔ اس صورت حال کا تقاضا واضح ہے: علما و مشائخ کے غلط موقف پر تنقید‘ نئی دینی فکر کی جامع ترتیب‘ اور مسلمان عوام کی نئی فکری تربیت جو انھیں قدیم کلام اور تصوف کے غیر اسلامی اثرات سے پاک کر کے مطلوبہ مثبت مزاج عطا کر سکے۔ اس تقاضے کی تکمیل اہم اسباب کی بنا پر ابھی نہیں ہوسکی ہے۔
ہر ملک میں اسلامی تحریکوں کو سیکولر دانش وروں کے مقابلے میں اور مسلمان عوام میں نفوذ کے لیے علما و مشائخ کی اہمیت محسوس کر کے ان پر تنقید کا لہجہ نرم کرنا پڑتا ہے اور بعض اوقات سیکولرقیادتوں سے سیاسی کش مکش میں عوامی تائید کی ضرورت نے ان کو اس فکری اصلاح کو نظرانداز یا کم از کم ملتوی کرنے پر مجبور کیا ہے۔ وقتی طور پر یہ طریقہ اختیار کرنا کتنا ہی ناگزیر کیوں نہ نظر آتا ہو ہمارے نزدیک اس اہم کام کے بغیر خود اس مقصد کا حصول دشوار ہے جس کی خاطر اس کام کو پس پشت ڈالا گیا ہے۔ (جاری)