عبداللہ یوسف علی‘ برعظیم کے ان قابل قدر افراد میں سے تھے جنھوں نے اسلام کا پیغام پھیلانے کے لیے ٹھوس بنیادوں پر کام کیا۔ ان کے کارنامۂ حیات سے آگاہی کے لیے یہ ایک قیمتی کتاب ہے جس میں فاضل محقق نے‘ عبداللہ یوسف علی کے لیے ہمدردانہ جذبات رکھنے کے باوجود‘ حقائق سے چشم پوشی یا بے جا تاویل و اِستدلال سے کام نہیں لیا۔
عبداللہ یوسف علی ۴ اپریل ۱۸۷۲ء کو سورت‘ (گجرات) کے داؤدی بوہرہ خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد‘ برطانوی پولیس کے سابق افسر تھے۔ عبداللہ یوسف علی نے انجمن اسلام‘ بمبئی کے اسکول کے بعد عیسائی مشنری ادارے ولسنز اسکول میں تعلیم پائی۔ پھر بمبئی یونی ورسٹی سے امتیازی پوزیشن کے ساتھ گریجوایشن کی‘ اور سینٹ جانز کالج ‘ کیمبرج کے لیے وظیفہ پایا۔ ۱۸۹۴ء میں انھوں نے انڈین سول سروس کا امتحان پاس کیا۔برطانوی سرکار کی یہ ملازمت ان کے علمی ذوق کی آبیاری میں رکاوٹ نہ بنی۔ انھوں نے تعلیم‘ تاریخ‘ ثقافت اور علوم دینیہ پر لکھنے کے لیے قلم اٹھایا اور بڑی کامیابی سے اپنے دائرئہ تحریر میں وسعت پیدا کی۔ اسی دوران برطانوی حکومت کے سفیر براے ثقافتی امور کی حیثیت سے ترکی اور عرب دُنیا کا دورہ کیا۔
عبداللہ یوسف علی کی شخصیت پہلودار اور عجیب و غریب تھی--- ایک طرف وہ تاجِ برطانیہ کے نہایت وفادار تھے اور دوسری طرف انھی کے اقتدار میں مسلمانوں کی بھلائی اور فلاح کا خواب دیکھنے والوں میں سے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ: ’’ترقی پسند اسلام‘ برطانوی استعمار کے قدم بہ قدم چل کر راستہ پا سکتا ہے ‘‘(ص ۸۳)۔ انھوں نے۱۹۲۴ء میں ڈاکٹر سیف الدین کچلو (پنجاب) کی ’جمعیت تنظیم‘ سے وابستگی اختیار کی‘ جو تشددپسند ہندو تحریک سنگھٹن کی جارحانہ سرگرمیوں کا توڑ کرنے کے لیے وجود میں آئی تھی (ص ۷۷)۔ ایک مرحلے پر ریاست حیدرآباد‘ دکن میں وزارت کا قلم دان سنبھالا‘ پھر اچانک اسے بھی چھوڑ کر چل دیے۔ کتاب کے پانچویں باب ’’جنیوا سے لاہور تک‘‘ (ص ۸۹-۱۱۸) میں بڑی تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ عبداللہ یوسف علی کن عزائم کے ساتھ اسلامیہ کالج لاہور سے وابستہ ہوئے اور کن حالات اور ارباب کالج کے متضاد رویوں کے باعث لاہور سے واپس گئے۔
کتاب کے ۱۰ ابواب‘ عبداللہ یوسف علی کے مزاج‘ رجحان طبع‘ افکار‘ مہم جویانہ ذوق اور علمی پیش رفت کی رنگا رنگ تصویریں پیش کرتے ہیں۔ فاضل ممدوح کا زندہ رہنے والا کارنامہ‘ قرآن عظیم کی انگریزی تفسیر و ترجمہ ہے۔ مصنف کے خیال میں وہ اس بات پر پختہ یقین رکھتے تھے کہ سائنسی تحقیق و تفتیش‘ اپنی سچائی تک پہنچنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے‘ تاہم اس باب میں ان کا رویہ سرسید جیسے مجرد عقل پرست (crude rationalist)فرد جیسا نہیں تھا(ص ۱۷۹-۱۸۰)۔
اس تفسیر میں قرآنی متن کی تشریح کے لیے کئی مقامات پر تاویل و اِستدلال کا جو انداز اختیار کیا گیا ہے‘ وہ مسلمہ اسلامی تعلیمات اور فکر سے ٹکراتا ہے (مثال کے طور پر: فرشتے‘ جنت‘ جِنّ‘ ڈارون کے نظریۂ ارتقا کی تائید وغیرہ) ۔عبداللہ یوسف علی کا اصل علمی ورثہ یہی تفسیر ہے‘ مگر زیرنظر کتاب میں اس پر سیرحاصل بحث نہیں کی گئی۔ اس وجہ سے ایک گونہ تشنگی محسوس ہوتی ہے۔ ضمیمہ نمبر ۱ میں مصنف نے نشان دہی کی ہے کہ اس انگریزی تفسیر کے کس کس ایڈیشن میں اصلاحات کی گئی ہیں۔ اب صورت یہ ہے کہ یوسف علی کا جو ترجمہ و تفسیر مارکیٹ میں موجود ہے‘ وہ مصنف کی رحلت کے بعد سے اب تک مختلف اصحاب کی اصلاح و تصحیح‘ کانٹ چھانٹ اور ترمیم و اضافہ شدہ شکل ہے۔ مگر افسوس اور تعجب یہ ہے کہ ترمیم و اضافہ کرنے والے افراد کے ناموں کو واضح نہیں کیا گیا۔ اس صورت واقعہ پر معروف اسلامی اسکالر ڈاکٹر محمد حمیداللہ کا یہ اعتراض بڑا وزنی ہے کہ: ’’مصنف کی مرضی کے بغیر اس کے متن میں ترمیم و تغیر کا یہ عمل ایک خطرناک رجحان کو پروان چڑھائے گا۔ اس کے بجائے ہونا یہ چاہیے کہ مصنف کے متن کو جوں کا توں رہنے دیا جائے اور اتفاق و اختلاف کو فٹ نوٹ کے ذریعے واضح کیا جائے‘‘ (ص ۲۲۷)۔ بہرحال ۱۹۳۴ء کے بعد سے اصلاحات اور ترامیم کے مسلسل عمل سے گزرنے والی یہ انگریزی تفسیر مقبولیت میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ انگریزی زبان و ادب پر عبداللہ یوسف علی کی گرفت اور اسلوب بیان کی نیرنگی نے اسے کلاسیک کا درجہ دے دیا ہے۔
اس معروف اسکالر کی عائلی زندگی تلخیوں سے عبارت تھی۔ چنانچہ لمبے عرصے تک تنہائی کا دکھ اٹھانے کے بعدوہ نہایت بے بسی و بے کسی اور کس مپرسی کے عالم میں‘ سینٹ اسٹیفن ہسپتال (برطانیہ) میں ۸۱ برس کی عمر میں ۱۰ دسمبر ۱۹۵۳ء کو انتقال کر گئے۔ ایم اے شریف کا پیرایۂ بیان بہت دل چسپ ہے اور انھوں نے اس تذکرے کو مصدقہ معلومات کے موتیوں سے سجایا ہے۔ اس کتاب کی اشاعت پر ادارہ تحقیقات اسلامی کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری اور ان کے رفقا مبارک باد کے مستحق ہیں۔ ایسی کتابوں کی اشاعت سے اسلامی علوم کے ورثے تک رسائی کی راہیںکشادہ ہوں گی ۔ (سلیم منصور خالد)
ہمارے ملک میں تعلیم کو آزادی کے بعدصحیح رخ نہیں دیا گیا۔ نظریہ حیات کے حوالے سے واضح تصورات رکھنے کے باوجود ہم نے زمانے کی ہواکے ساتھ چلنا گوارا کیا ۔ تعلیم میں حقیقی پیش رفت کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہ کی گئی۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج ہم اس دائرے میں بے منزل و بے مقصد کاررواں کی طرح ترقی کے ایک جھوٹے تصور کی خاطر ادھر ادھر ٹکریں مار رہے ہیں۔ پروفیسر عمر قادری نے اس کتاب میں ۱۰ عنوانات کے تحت‘ تعلیمی صورت حال کے پس منظر میں‘ اصلاح کے لیے صحیح خطوط اجاگر کیے ہیں۔ ذریعہ تعلیم اور یکساں نظام تعلیم کے ابواب میں انھوں نے اہم بنیادی امور کی نشان دہی کی ہے۔ اس وقت‘ جب کہ ایک منظم کوشش معاشرے کو خصوصاً تعلیم کو سیکولرائز کرنے کی ‘ کی جا رہی ہے‘ ان باتوں کی اہمیت دوچند ہے‘ لیکن ان کا لکھنا اور شائع کرنا کافی نہیں‘ انھیں پھیلانااور پہنچانا بھی ضروری ہے۔ (مسلم سجاد)
یہ ایک طرح سے ۵۰ سال کے پاکستانی ادب کا جائزہ ہے جسے مختلف اصناف ادب (غزل‘ نظم‘ نعت‘ ناول‘ افسانہ‘ سفرنامہ‘ خود نوشت ‘ انشائیہ‘ خاکہ نگاری‘ ڈراما‘ طنز و مزاح‘ اسلامی ادب‘ اقبال شناسی‘ مزاحمتی ادب‘ تنقید‘ تحقیق) کے تحت مرتب کیا گیا ہے۔ آخری حصے میں پنجابی ‘ سرائیکی‘ سندھی‘ پشتو ‘ بلوچی اوربراہوی ادبوں کا ذکر ہے۔ ۵۰ سالہ ادبی تاریخ کا اس طرح سے جائزہ لینا کہ تجزیہ و تبصرہ بھی ہو اور جائزہ و تنقید بھی اور مختلف رویوں اور رجحانات کی نشان دہی بھی کی جائے‘ آسان کام نہیں ہے۔ اس کے باوجود غفور شاہ قاسم نے‘ جو ایک نوجوان تحقیق کار اور نقاد ہیں‘ اپنے مطالعے میں وسعت اور جائزوں میں مہارت کا ثبوت دیا ہے۔ یہ درست ہے کہ ۵۰ سالوں کے اصناف وار جائزے کے لیے خاص وقت اور محنت کے ساتھ گہری تحقیق کی ضرورت ہے۔
یوں تو ہر صنفِ ادب الگ الگ مفصل تحقیقی کتاب کا تقاضا کرتی ہے لیکن مصنف کے لیے اس کا موقع تھا اور نہ وقت۔ چنانچہ انھوں نے اخذ و استفادے سے بھی کام لیا اور اسے اپنے مطالعے اور محنت سے آمیز کر کے یہ جائزہ پیش کر دیا۔ خوب تر کی گنجایش ہمیشہ باقی رہتی ہے‘ مثلاً: مزاحمتی ادب کے ذیل میں کشمیر اور افغانستان پر اعجاز فاروقی کے افسانوں یا فلسطین اور یروشلم پر نعیم صدیقی کی منظومات وغیرہ کا ذکر نہیں آسکا۔ تاہم ‘ جائزے میں اسلامی ادب کے تحت ایسی مفید معلومات آگئی ہیں جو عام ادبی تاریخوں میں نہیں ملتیں۔
اردو ادب و تحقیق کی دُنیا میں غفور شاہ قاسم کی اس کاوش کا خیرمقدم کیا جائے گا۔ (ر-ہ)
انفرمیشن ٹکنالوجی نے عام آدمی کے لیے معلومات کا حصول اتنا آسان بنا دیا ہے کہ چند برس پہلے اس کاتصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا اور چند برس بعد کیا صورت ہوگی؟ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ انفرمیشن ٹکنالوجی کے ایک امریکی ماہر اور استاد کے بقول عین ممکن ہے کہ مستقبل میں آج کی کتابیں‘ اخبارات‘ ریڈیو اور ٹی وی وغیرہ عجائب گھر کی زینت بن چکے ہوں اور ان پر ’’زمانہ قدیم کے ذرائع معلومات‘‘ کا لیبل لگا ہوا ہو۔
انفرمیشن ٹکنالوجی کے برپا کردہ اس انقلاب میں انٹرنیٹ کا کردار سب سے اہم اور دُور رس ہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعے آدمی گھر بیٹھے ہر قسم کی معلومات تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ لیکن اپنی مرضی اور پسند کی مخصوص معلومات حاصل کرنا بالعموم ایک طویل اور صبرآزما کام ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ ’’ورلڈ وائڈ ویب‘‘ پر اس قدر کثیر سائٹس موجود ہیں کہ ان کا شمار کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔ایسے میں اگر انٹرنیٹ چالو کرنے سے پہلے آدمی کسی ایسی کتاب سے مدد لے لے جس میں مختلف موضوعات پر معلومات مہیا کرنے والی ویب سائٹس کی گروہ بندی کر دی گئی ہو‘ تو اس کا بہت سا وقت بچ سکتا ہے۔ زیرنظر انٹرنیٹ ڈائرکٹری کے مرتبین نے انٹرنیٹ کے صارفین کی اسی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کتاب مرتب کی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انھوں نے اس مقصد کے لیے اَن تھک محنت کی ہے جس کی بدولت یہ کتاب قارئین کے ایک وسیع حلقے کے لیے مفید اور کارآمد بن گئی ہے۔
اس کتاب میں مجموعی طور پر ۵۵ عنوانات کے تحت ایک ہزار سے زائد ویب سائٹس کی گروہ بندی کی گئی ہے۔ اہم موضوعات میں تعلیم‘ اسلام‘ ماحولیات‘ بنکنگ اور بزنس‘ پاکستان‘ افواج پاکستان‘ پاکستانی سپورٹس‘ رشتے‘ روزگار‘ سیاسیات‘ سائنس اور خلابازی‘ کھیل‘ سیروسیاحت‘ موسمیات اور گھرداری شامل ہیں۔ اہم ویب سائٹس کے بارے میں مختصر یاتفصیلی تعارف دے کر کتاب کی افادیت میں مزید اضافہ کر دیا گیا ہے۔ اسلام کے موضوع پر عالمی اسلامی تحریکوں‘ خصوصاً جماعت اسلامی‘ حماس اور جموں کشمیر لبریشن فرنٹ وغیرہ کے علاوہ اسلامی معلومات فراہم کرنے والی کئی ویب سائٹس کے بارے میں تفصیل سے بتایا گیا ہے۔ کتاب کے آخر میں انٹرنیٹ سے متعلق اصطلاحات کی ایک فرہنگ (glossary)دی گئی ہے جو ایک عمدہ اضافہ ہے‘ تاہم بعض ویب سائٹس کے پتوں (addresses)میں کچھ گڑبڑ معلوم ہوتی ہے‘ جس کی وجہ غالباً پروف ریڈنگ کا نقص ہے۔ چونکہ کمپیوٹر میں ’ایک شوشے کا فرق‘ بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اس لیے جس ویب سائٹ کے ایڈریس میں معمولی سا بھی تغیر ہو‘ اسے تلاش کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ پروف خوانی اور ایڈیٹنگ کی غلطیاں بقیہ متن میں بھی نظر آتی ہیں‘ اگرچہ بہت زیادہ نہیں۔
کتاب کا لَے آئوٹ خوب صورت ہے اور عمدہ سفید کاغذ کے ساتھ قیمت بھی مناسب ہے۔ ہمیں امید ہے کہ اس کتاب کے آیندہ ایڈیشن میں غلطیوں کی تعداد کو کم سے کم کیا جائے گا اور آئی ٹی کے میدان میں ہونے والی ہمہ وقت تبدیلیوں کے مطابق اصلاحات اور اضافے شامل کیے جائیں گے۔ (فیضان اللّٰہ خاں)
٭ کب رات بسر ہوگی؟ پروفیسر شیخ محمد اقبال۔ ناشر: آل پاکستان تھنکرز فورم‘ ۱۳۱- رحمت پارک‘ کالج روڈ‘ سرگودھا۔ صفحات: ۱۳۴۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔ ]استاد‘ شاعر اور نقاد اور نابینائوں کی انجمن کے صدر شیخ محمد اقبال کے فکر انگیز اور مثبت انداز فکر کے ترجمان مضامین کا مجموعہ۔ دراصل ماہنامہ سفید چھڑی کے اداریے: زندگی کے تضادات‘ توہمات اور غیرصحت مند تصورات و رجحانات پر تنقید بلکہ اُن کے خلاف ’’قلمی جہاد‘‘۔ بقول مصنف: ’’ہمیں قسمت اور تقدیر کی شکایت کرنے کے بجائے ان زمینی خدائوں کے خلاف صف آرا ہونا چاہیے ]اور[یہ ممکن ہی نہیں کہ برائی کی قوتیں ہمیشہ کے لیے اپنی عمل داری برقرار رکھ سکیں۔ بشرطیکہ درست سوچ رکھنے والے سپرانداز نہ ہوں‘‘۔[