برطانیہ کے وقیع ماہنامے امپیکٹ انٹرنیشنل نے Technology of Deception کے عنوان سے ایک روسی صحافی ولادی میرکرائی لووسکی کی تحریر کا ترجمہ شائع کیا ہے جس میں اس نے بتایا ہے کہ چیچنیا پر روس کے دوسرے حملے کے لیے فضا سازگار بنانے کی خاطر روسی ذرائع ابلاغ نے جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے روسی عوام کی کس طرح برین واشنگ کی۔ روسی عوام جو پہلی جنگ (۱۹۹۳ء-۱۹۹۶ء) میں ناکامی اور صلح کے بعد اب نئی مہم جوئی کے لیے تیار نہ تھے‘ کس طرح آمادہ کیے گئے۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ دو ہفتوں میں ’’دہشت گردوں‘‘ کا قلع قمع کرنے کے جو دعوے تھے وہ سب خواب ہو گئے‘ چیچن مجاہدین نے حسب سابق‘ ہر طرح کے ناقابل بیان ظلم سہنے اور کوئی نسبت نہ ہونے کے باوجود انتہائی ظالم روسی افواج کے دانت کھٹے کردیے ہیں (صدآفرین!) اور اب روس کے صدر پوٹن مذاکرات کی بات کر رہے ہیں! موجودہ عالمی حالات کے پس منظر میں یہ مطالعہ چشم کشا ہے اور بتاتا ہے کہ ۲۰ ویں صدی کی ان عالمی طاقتوں کا سارا کاروبار جھوٹ اور دھوکے پر چلتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ موجودہ ڈراما ہماری آنکھوں کے سامنے کھیلا جارہا ہے‘ جب کہ سابقہ ہماری نگاہوں سے دُور تھا۔
اگست ۱۹۹۹ء میں چیچنیا کے علاقے سے داغستان پر حملہ کیا گیا (یعنی کروایا گیا)۔ مداخلت کا اس سے اچھا اور کیا جواز ہو سکتا تھا۔ اس کے بعد سے روسی میڈیا نے اپنے عوام کو جھوٹ کے انبار تلے دبا دیا۔ روسی جنرل میڈیا پر آکر ضمانتیں دینے لگے کہ ہم چیچن دہشت گردوں کا چند دن میں قلع قمع کر دیں گے۔ ہر خبرنامے میں بار بار دہرایا گیا کہ وفاقی افواج کا کوئی جانی نقصان نہیں ہو رہا ہے۔ روسی حکومت کو بڑی فکر تھی کہ اس کے عوام کو حقیقت حال معلوم نہ ہو۔ چیچن صدر ارسلان مسخادوف بتا رہے تھے کہ روس کی سیکرٹرٹ سروس کیا کر رہی ہے لیکن روسی حکومت نے اس کا اہتمام کیا تھا کہ ان کی کوئی بات روسی عوام تک نہ پہنچ سکے۔ چیچن ’’دہشت گردوں‘‘ کے حوالے سے جھوٹی خبروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ٹی وی اسکرین کو مخاطب کر کے چیخ کر کہنے کو دل چاہتا تھا: ’’عوام سے جھوٹ بولنا بند کرو!‘‘۔ عوام کے ذہنوں میں ایک دشمن --- چیچن دشمن --- کا نقش بٹھانے کا کام کیا جاتا رہا۔ ایک مبصر نے کہا: چیچنیا پر کارپٹ بم باری کی جائے۔ روسی عوام کو بتایا جاتا تھا کہ وہ اس وقت تک چین کی نیند نہیں سو سکتے جب تک کہ چیچن سانپ کو کچل نہ دیا جائے۔
کیا روسی عوام ۱۹۹۹ء میں کسی نئی چیچن جنگ کے لیے تیار ہو سکتے تھے اگر ہمارے شہروں میں دھماکوں کا سلسلہ شروع نہ ہو جاتا۔ ہرگز نہیں۔ اس کا کوئی امکان نہ تھا۔ انھیں جنگ کے لیے آمادہ کرنے کے لیے ضروری تھا کہ انھیں ہر لمحے اپنی جان کی طرف سے خوف زدہ ہونے کے لیے مجبور کر دیا جائے۔ انھیں ایک دھوکے باز‘ ظالم اور دکھائی نہ دینے والے ("shadows!") دشمن کے سامنے غیر محفوظ ہونے کا احساس دلایا جائے۔ ماسکو کے پشکن اسکوائر میں دھماکوں کے بعد‘ ملک بھر کی یہی فضا تھی۔ ملبے میں سیکڑوں افراد کے زندہ دفن ہو جانے کی خبروں کے ساتھ ہی حکومتی میڈیا سے پروپیگنڈے کا آغاز ہو گیا۔ زخمیوں کی چیخ و پکار اور دہشت گردوں سے شدید نفرت کے پس منظر میں دیکھیں‘ کس کی مقبولیت ایک دم آسمان پر پہنچ گئی جسے چیچنیا کے ساتھ دوسری جنگ کا رخ دے دیا گیا۔
اس جنگ کا فائدہ کسے ہوا؟ چیچنیا کو اس سے کیا ملا ؟ کیا جنگ ان کی ضرورت تھی؟ انھیں جنگ سے کچھ حاصل نہ ہو سکتا تھا۔ یہ اصل قابل غور نکتہ ہے۔ لیکن کہا گیا کہ وہ دھماکوں کے ذریعے پوٹن کے بیانات کا بدلہ اتار رہے ہیں! اگر انھیں بدلہ اتارنا ہی تھا تو ان کے ہدف اس سے مختلف ہوتے۔ نہیں‘ اس بات پر کوئی بھی یقین نہیں کرے گا۔
اس سے پہلے کہ تحقیقات کا آغاز ہوتا‘ حکومت اور خود ولادی میرپوٹن نے اعلان کر دیا کہ ان جرائم کا سرا چیچنیا میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔ انسانوں کے ایک پورے گروہ کی بے گناہی کو نظرانداز کر دیا گیا۔ حکومتی میڈیا کو ‘ چیچن ’’انگلیوں کے نشانات‘‘ ملنے لگے۔ ویسے ہی بم‘ ویسے ہی ٹائمر‘ ماسکو میں مختلف عمارات میں خفیہ پولیس کو ملنے لگے۔ پھر پولیس نے ایک گروپ کو اسی طرح کے بارود اور ٹائمر کے ساتھ گرفتار کیا۔ ایک دم خبریں شائع ہو گئیں لیکن گرفتار شدگان ایف ایس بی (سابقہ کے جی بی) کے اہلکار نکلے۔ ان کے ڈائرکٹر نے بیان دیا کہ یہ صرف ایک مشق تھی‘ عوام کو چوکس رکھنے کے لیے!
سیاست دان ‘جنرل ‘ مبصر سب مسلسل دہراتے رہتے ہیں کہ فضائی حملے صرف متعین جنگی اہداف پر کیے جارہے ہیں (precision attacks)۔ لیکن عملاً شہری آبادیوں پر کھلے عام بم باری کی گئی۔ ارسلان مسخادوف نے پوپ پال کے نام اپیل ( اکتوبر ۱۹۹۹ء) میں بتایا کہ صرف ایک ماہ میں ۳ ہزار ۶ سو شہری ہلاک کیے گئے ہیں۔ لیکن روسی میڈیا اپنے عوام کو اپنی فضائیہ کے یہ کارنامے نہیں بتاتا کہ کس طرح پرامن دیہاتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ۲۰۰۰ء کے آغاز میں vacuum بم استعمال کیے گئے جنھوں نے زندگی کے سب آثار مٹا دیے‘ اور نہ یہ بتاتے ہیں کہ فضائیہ نے اعصابی گیس والے بم استعمال کیے۔
یہ چند مثالیں ہیں کہ کس طرح روسی عوام کو ان کا میڈیا دھوکا دے رہا ہے۔ میڈیا کے ذریعے دھوکا دہی کا فن سب ظالموں نے سیکھ لیا ہے۔ یہ مظلوم بن کر آتے ہیں اور ظلم کی نئی تاریخ رقم کر دیتے ہیں۔
ضیاء الدین اصلاحی
مسلمانوں کی سماجی‘ معاشی اور تعلیمی پس ماندگی کا چرچا ہندستان کے تمام فرقے اور سیاسی جماعتیں کر رہی ہیں۔ بی جے پی کو پہلے کانگریس اور دوسری سیاسی جماعتوں سے گلہ تھا کہ وہ مسلمانوں کی ناز برداری کرتی ہیں‘ لیکن اب وہ بھی اس کو تسلیم کر رہی ہے اور بظاہر اس کے ازالے کے لیے فکرمند بھی دکھائی دیتی ہے۔ مرکزی وزیرتعلیم ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی عربی مدارس میں جدت کاری لانے کا اعلان کر چکے ہیں اور اترپردیش کے وزیراعلیٰ راج ناتھ سنگھ مدرسہ پنچایت کر کے داد و دہش کا اعلان کر رہے ہیں۔ کانگریس سیکولر پارٹی سہی‘ مگر اس پر عرصے سے فرقہ پرست اور متعصب لیڈر حاوی ہو گئے ہیں جو نیشنلزم اور سیکولرازم کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں کی نسل کشی‘ ذہنی ارتداد اور انھیں پس ماندہ طبقے میں تبدیل کرنے کا بندوبست کر رہے ہیں۔ دوسری سیکولر جماعتوں کو بھی مسلمانوں کے طاقت ور ہونے اور اُبھرنے سے دل چسپی نہیں ہے۔ ان کی خواہش یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہ مجبور‘ بے بس اور کمزور رہ کر ان کے محتاج اور دست نگر بنے رہیں۔ رہی بی جے پی‘تو مسلمانوں کے بارے میں اس کا رویہ کس کو معلوم نہیں۔ مسنداقتدار پر فائز ہونے کے بعد اس کی اصول پسندی‘ ایمان داری‘ بے خوف و خطر سماج اور صاف ستھری حکومت دینے کی حقیقت بھی عیاں ہو گئی ہے۔
آزادی کے بعد سے اب تک بے شمار فرقہ وارانہ فسادات ہوئے جن میں مسلمانوں کو تباہ برباد کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی۔ خود امن و امان کے محافظوں نے فرقہ پرستوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کو ظلم و تشدد اور لوٹ کھسوٹ کا نشانہ بنایا مگر مسلمانوں کی پس ماندگی پر جن لوگوں کو اتنا قلق ہے‘ انھوں نے کبھی جارحیت پر آمادہ لوگوں کے ہاتھ نہیں پکڑے‘ صوبائی اور مرکزی حکومتوں نے مجرموں کو سزا نہیں دی بلکہ اُلٹے مظلوموں ہی کو جھوٹے مقدمات میں پھنسا کر معاشی حیثیت سے انھیں مفلوج کرنے کا سامان کیا۔ یہ بھی غور طلب ہے کہ منظم اور منصوبہ بند فسادات انھی جگہوں پر زیادہ ہوئے جہاں مسلمان قابل لحاظ تعداد میں اور کسی قدر خوش حال تھے۔ کیا اس کا مقصد ان کی تجارت و معیشت اور صنعت و حرفت کو برباد کر کے پس ماندہ اور مفلوک الحال بنانے کے علاوہ کچھ اور ہو سکتا ہے۔ کان پور کے فساد میں شرپسند عناصر‘ پولیس اور پی اے سی نے مسلمانوں کو تہ تیغ کرنے‘ ان کے گھروں اور دکانوں کو لوٹنے اور جلانے اور ذرائع معاش کو مسدود کرنے کا جو ’’کارنامہ‘‘ انجام دیا ہے وہ سب کے سامنے ہے لیکن مدارس پر انعام و بخشش فرمانے والے وزیر اعلیٰ اس کے بھی روادار نہیں ہوئے کہ فساد کی غیر جانب دارانہ تحقیقات کرائیں۔ سرکاری ملازمتوں اور قومی و سیاسی زندگی کے مختلف شعبوں سے مسلمانوں کو بے دخل کر دینے کا مقصد بھی انھیں پسپا اور بدحال بنانا ہے۔ یہ پالیسی جس طرح کانگریسی حکومتوں اور لیڈروں کی رہی‘ اس سے کہیں بڑھ کر موجودہ حکومت کی ہے۔
مسلمانوں کی تعلیمی پس ماندگی ان کی معاشی بدحالی سے وابستہ ہے۔ آزاد ہندستان میں خصوصاً ابتدائی تعلیم کا جو نظام و نصاب وضع کیا گیا اس پر ایک خاص مذہب اور مخصوص قوم کے کلچر کی گہری چھاپ ڈالی گئی ہے۔ اس رنگ کو بی جے پی حکومت نے اور چوکھا کر دیا۔ وہ تعلیم کو بھگوا رنگ میں رنگ کر مسلمانوں کو ان کے ایمان و عقیدے اور توحید و آخرت کے تصور سے بے گانہ ان کی تہذیب و روایات اور مادری زبان کو ختم کردینا چاہتی ہے۔ اترپردیش کی ابتدائی تعلیم کے وزیر نے جولائی سے ریاست کے تمام کانونیٹ اور پبلک اسکولوں میں پرائمری سطح پر ہندی کو لازمی اور اسے اترپردیش کی مادری زبان قرار دے کر اردو کو سراسر نظرانداز کر دیا ہے۔ اس طرح جو حالات پیدا کر دیے گئے ہیں ان میں اور اس نصاب تعلیم کی موجودگی میں مسلمان نہ صرف اپنی تہذیب اور مادری زبان سے ہاتھ دھو بیٹھیںگے بلکہ اپنے عقیدہ و مذہب سے بھی منحرف ہو جائیں گے۔ ظاہر ہے جن مسلمانوں میں دینی شعور ہے وہ اَن پڑھ رہنا گوارا کر سکتے ہیں مگر دیومالائی تصورات کے حامل نصاب تعلیم کے چکر میں پڑ کر اپنے دین و ایمان کو غارت کرنا پسند نہیں کریں گے۔
آئینی طور پر ہندستان کے ہر فرقہ و مذہب کو اپنے مدارس اور اسکول قائم کرنے کا حق ہے لیکن اولاً تو مسلمانوں کے لیے اپنی معاشی پس ماندگی کی بنا پر یہ آسان نہیں۔ ثانیاً تعصب اور تنگ نظری کی وجہ سے سرکاری یا برادرانِ وطن کے قائم کردہ اداروں میں ان کے داخلے کے دروازے تقریباً بند ہیں جس کی بنا پر ان کی خواندگی کی شرح کم تر ہوتی جا رہی ہے‘ تاہم کم مایگی اور بے بضاعتی کے باوجود ان کی توجہ گائوں گائوں میں مکاتب اور نئے اعلیٰ تعلیم کے ادارے قائم کرنے کی جانب بڑھ رہی ہے تاکہ وہ دینی تعلیم سے بہرہ ور ہوں۔ جدید اور عصری تعلیم کے اسکول اور کالج قائم کرنے سے بھی وہ غافل نہیں ہیں۔ ان کے جو اسکول‘ کالج اور دو ایک یونی ورسٹیاں پہلے سے قائم ہیں‘ ان میں بھی وہ اپنے بچوں کو اس لیے تعلیم دلا رہے ہیں کہ ان کا دین اور ان کا عقیدہ سلامت رہے اور ان کی تہذیب اور مادری زبان ان کے ہاتھ سے جانے نہ پائے۔
ایک طرف حکومت کو بظاہر مسلمانوں کی تعلیمی پس ماندگی کا غم ہے۔ دوسری طرف وہ ان کے مکاتب و مدارس کو پریشان کرنے اور ان کے قائم کردہ اسکولوں‘ کالجوں اور یونی ورسٹی کا اقلیتی کردار ختم کرنے کے درپے ہے۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیںگزرا کہ مرکزی وزیر داخلہ اور اترپردیش کے کئی وزرا مدارس کو آئی ایس آئی کا اڈا قرار دے چکے ہیں جس کے بعد ان پر شب خون مارنے اور ان کے ذمہ داروں اور وابستگان کو گرفتار کرنے‘ اذیت دینے اور فرضی مقدمات میں پھنسانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ حال میں وزارتی گروپ کی رپورٹ میں بھی مدارس کو ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ بتایا گیا ہے‘ حالانکہ انھی خطرناک مدارس کو مرکزی وزیرتعلیم نے ماڈرن بنانے اور ان میں عصری تعلیم اورکمپیوٹر کے لیے سہولتیں فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا اور وزیراعلیٰ ان کو مراعات دے رہے ہیں‘ اور دیسی زبان اردو کو اترپردیش سے جلاوطن کر کے بدیسی زبانوں عربی و فارسی کی تعلیم کے فروغ کے لیے حکومت کا خزانہ کھول رہے ہیں۔ پس ماندہ ذاتوں کو ضرور ریزرویشن دینا چاہیے۔ ہم اس کے مخالف نہیں ہیں مگر اقلیتی اداروں کو اس سے مستثنیٰ رکھنا ضروری ہے تاکہ ان کے جائز اور دستوری حقوق اور اقلیتی کردار کا تحفظ ہو سکے جو ایک جمہوری اور سیکولر حکومت کی ذمہ داری بھی ہے۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ان کی پس ماندگی دُور کرنے کے لیے قومی اور سرکاری درس گاہوں اور سول سروسز میں انھیں بھی ریزرویشن دیا جائے‘ نہ یہ کہ ان کو ان کے اپنے اداروں میں بھی دوسرے لوگوں کے لیے گنجایش نکالنے کے لیے مجبور کیا جائے۔ اگر اس کی زد علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی پر پڑی جو ہندستانی مسلمانوں کی واحد عصری درس گاہ اور ملک کے سیکولرازم کا نشان ہے‘ تو ملک کے سیکولرازم کا رہا سہا بھرم بھی جاتا رہے گا اور مسلمانوں کی تعلیمی پس ماندگی پر تشویش و اضطراب ظاہر کرنے والوں کی اصل حقیقت بھی واضح ہو جائے گی۔ (بہ شکریہ ماہنامہ معارف‘ اعظم گڑھ‘ جولائی ۲۰۰۱ء)