پروفیسر فتح محمد ملک کے کالموں کا پہلا مجموعہ‘ کشمیر کی کہانی :عالمی ضمیر سے چند سوالات کے نام سے حال ہی میں شائع ہوا ہے۔ کتاب دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے’’کشمیر تیمور نہیں‘‘ اور ’’مشرقی تیمور کشمیر نہیں‘‘۔ ۳۸ شذرات کا یہ مرقع بہ ظاہر کشمیر میں جدوجہد آزادی اور حق خود ارادیت کے مسلمہ اصول کے بارے میں مغربی اقوام اور خصوصیت سے امریکہ کی دوغلی پالیسی کے مختلف پہلوئوں پر کلام کرتاہے لیکن فی الحقیقت یہ دورحاضر میں اسلامی احیا کی جدوجہد‘ تحریک پاکستان کی روح اور اہداف‘ اسلام مخالف قوتوں کے اصل عزائم اور ریشہ دوانیوں اور سب سے بڑھ کر خود ملّت اسلامیہ پاکستان کے مختلف کرداروں کے رول کا‘ ایک سچے مسلمان اور ایک پکے پاکستانی کی نگاہ سے بے لاگ اور بصیرت افروز محاکمہ ہے۔ ان میں حقائق کا صحیح ادراک‘ واقعات کا نظرافروز تجزیہ‘ عالمی سازشوں کی حقیقت پسندانہ عکاسی‘ پاکستانی قیادت اور ہر سطح کے نام نہاد ترقی پسندوں کے کارناموں کا محاسبہ ہے جو بڑے جچے تلے‘معقول اور معتدل انداز میں دردمندی‘ اصلاح اور اُمت کو بیدار کرنے کے جذبے کے ساتھ کیا گیا ہے۔ بحیثیت مجموعی یہ مشکل کام اس خلوص اور دیانت سے انجام دیا گیا ہے کہ دل گواہی دیتا ہے کہ تبصرہ نگار سخن فہم ہے‘ غالب کا طرف دار نہیں!
جہاد کشمیر کے اسلامی تشخص اور ۱۹۳۱ء کی تحریک کشمیر سے لے کر آج کی جدوجہد تک کے نظریاتی نقوش کتاب کے ہر صفحے پر نمایاں ہیں۔ ان مختصر تحریروں کے آئینے میں اس تاریخی اور نظریاتی کش مکش کی صحیح تصویر دیکھی جا سکتی ہے جسے سمجھے بغیر نہ تو تحریک پاکستان کو سمجھا جا سکتا ہے نہ جہاد حریت کشمیر کو‘ اور نہ پاک بھارت کش مکش کے اصل اسباب کو‘اور نہ امریکہ بھارت دوستی کے حقیقی محرکات کو۔ یہ مسلمانان پاکستان کے لیے ایک دعوت فکر وعمل ہے کہ وہ اس خواب سے بیدار ہوں جس میں مغرب کے جادوگروں اور لادینیت اور ترقی پسندی کے متوالوں نے خواب آور گولیاں کھلا کر ان کو بستر نشین کر دیا ہے۔ جہاد کی پکار اور اقبال کے بیداری کے پیغام کا اعادہ بڑے دل نشین انداز میں کیا گیا ہے اور آج کے تناظر میں اس طرح کیا گیا ہے کہ ماضی کی یہ قم باذن اللّٰہ کی پکار آج کے پاکستانی کے لیے اٹھ کھڑے ہونے کا پیغام بن گئی ہے۔ یہ کتاب محض نوحہ غم نہیں‘ جہاد کی پکار ہے جو علمی متانت اور ادبی حسن کے ساتھ دی گئی ہے۔ یہ کتاب ایک پیغام ہے جو گذشتہ تین سال کے اہم واقعات کے پس منظر میں تحلیل و تجزیے کے ساتھ اہل وطن کو دعوت دیتی ہے کہ اپنے ملک‘ اس کے اسلامی تشخص اور مجاہدین کشمیر کی سرفروشانہ جدوجہد کو اس کی کامیابی تک پہنچانے کے لیے سرگرم عمل ہو جائیں‘ امریکہ کے اصل عزائم اور کھیل کو سمجھیں۔ خود پاکستان میں امریکہ کے آلہ کار جو کردار ادا کر رہے ہیں ‘ اسے ناکام بنانے اور اپنی اصل منزل کی طرف بڑھنے کی فکر کریں۔ اس میں ایوب خان اور محمد شعیب سے لے کر بے نظیر اور نواز شریف تک سب کی اصل تصویر دیکھی جا سکتی ہے۔ تاشقند سے شملہ‘ شملہ سے لاہور‘ لاہور سے کارگل اور کارگل سے واشنگٹن پسپائی اور غداری کے سارے منظر آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں۔ افغانستان میں کیا ہو رہا ہے‘ انڈونیشیا کو کیسے پارہ پارہ کیا جا رہا ہے‘ چین کے بارے میں کیا عزائم ہیں‘ امریکہ اور بھارت گٹھ جوڑ کی حقیقی شکل و صورت کیا ہے--- ہلکے پھلکے انداز میںلیکن صداقت اور حقیقت پسندی کے ساتھ پورانقشہ جنگ سامنے آجاتا ہے۔ کل ’’پان اسلامزم‘‘ کا ہّوا کھڑا کیا تھا آج اسلامی بنیاد پرستی اور تشدد کا راگ الاپا جا رہا ہے۔ مقصد ایک ہی ہے : مسلمان کے دل سے ’’روح محمدؐ ‘‘ کو نکالنا اور امریکہ اور مغرب کی ذہنی‘ تہذیبی‘ معاشی اور سیاسی غلامی میں جکڑ دینا--- خواہ اس کی شکل کیسی ہی ریشمی اور پرکار ہو!
نواز شریف اور بے نظیر نے جس طرح امریکہ کے آگے گھٹنے ٹیکے‘ بھارت سے معاملہ کرنے کی کوشش کی‘ کشمیر کے جہاد سے بے وفائی کی‘ ان کا بے لاگ احتساب‘ اور جہاد کشمیر کی تائید و معاونت اور طالبان سے آزمایش کی اس گھڑی میں یگانگت و ہم آہنگی کا اظہار جس سلیقے سے کیا گیا ہے وہ ملک صاحب کی سیاسی بصیرت اور قوت ایمانی کا مظہر ہے۔ بے نظیر کی امریکہ نوازی اور ذوالفقار علی بھٹو کی امریکہ بے زاری کا جس طرح موازنہ کیا ہے وہ چشم کشا اور خود پیپلز پارٹی اور لبرل عناصر کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ ملک صاحب کا بھٹو کے لیے نرم گوشہ کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں جس کا اظہار بار بار اس کتاب میں بھی ہوتا ہے۔ میری رائے میں یہ ہر صاحب الرائے شخص کا حق ہے لیکن اس کے ساتھ جس دیانت اور ملی غیرت سے انھوں نے بے نظیر اور ترقی پسندوں کے پورے ہی طبقہ زہاد پر گرفت کی ہے وہ ان کے اخلاص‘ غیر جانب داری اور اصابت رائے کا ثبوت ہے۔
ملک صاحب لکھتے ہیں:
یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہمارے دانش ور‘ ہماری افسر شاہی اور ہمارے سیاست دانوں میں ایسے عناصر کی کمی نہیں جو امریکی خوشنودی اور بھارت دوستی کی خاطر اپنا نظریاتی وجود مٹا دینے کو ترقی پسندی‘ روشن خیالی‘ اور امن دوستی کی علامت سمجھتے ہیں۔ میں ایسے عناصر کو یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کا جغرافیائی وجود پاکستان کے نظریاتی وجود سے برآمد ہوا تھا اور اگر آج ہم اپنے نظریاتی وجود کو بھارت سے دوستی کی بھیک وصول کرنے اور امریکہ سے روشن خیالی کی سند پانے کی خاطر مٹا دیں گے تو پھر کل ہمارا جغرافیائی وجود بھی قائم نہیں رہ سکے گا۔ (ص ۴۲)
کشمیر کی تحریک آزادی کے نظریاتی تشخص کے خلاف بھارت اور امریکہ کا رویہ تو جارحانہ ہے ہی‘ بے نظیر اور نواز شریف جیسے لوگ بھی معذرت خواہانہ رویہ اختیار کر کے مغرب سے اپنی روشن خیالی کا سرٹیفیکیٹ لینا چاہتے ہیں ۔لیکن ملک صاحب صاف لکھتے ہیں:
اس طرزفکر کی بنیادی خامی یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کی غالب اکثریت کے علاقوں میں عوام اپنے دینی عقائد پر قائم رہتے ہوئے اپنی کلچرل روایات کے مطابق زندہ رہنے کا عوامی‘ جمہوری‘ انسانی حق مانگتے ہیں تو اس میں خرابی کی کیا بات ہے؟ (ص ۹۶)
پھر مغرب اور اس کے مسلمان حواریوں کے بارے میں لکھتے ہیں:
مغربی ذرائع ابلاغ پوری دنیا میں ایک موثر کردار کے حامل ہیں۔ خود مسلمان ملکوں کے اہل علم و دانش ان ذرائع سے پھیلائے جانے والے طرزفکر و احساس کو اپنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ چنانچہ پاکستانی دانش ور بھی ان ہی مغربی مفروضوں کی جگالی کرتے پائے جاتے ہیں۔ وہ ترقی پسند اور سابق انقلابی دانش ور بھی جو لاطینی امریکہ کے گوریلا مجاہدچی گویرا کے مقلد ہونے پر نازاں رہتے ہیں‘ کشمیر میں مسلمانوں کی گوریلا جنگ کو ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کی گالی دیتے ہیں۔ اپنے اس رویے کو روشن خیالی کا ثبوت بنا کر پیش کرتے پھرتے ہیں۔ یہ کتنا بڑا ستم ہے کہ خود مسلمان دانش ور اپنی اسلامی شناخت پر معذرت خواہ ہیں۔ (ص ۹۷)
اسی طرح مغرب کے رویے کے بارے میں اپنے استعجاب کا اظہار یوں کرتے ہیں:
حیرت تو یورپ کے اور امریکہ کے ارباب فکر و دانش پر اور ارباب بست و کشاد پر ہے جو اس وقت تک مسلمانوں کو انسانی حقوق دینے پر آمادہ نہیں ہوتے جب تک مسلمان اپنی اسلامی شناخت سے دست بردار ہونے پر تیار نہ ہوں۔ کشمیری مسلمان اپنی اسلامی شناخت روز بروز نمایاں سے نمایاں تر کرتے چلے آرہے ہیں‘ اس لیے دنیاے مغرب ان پر ظلم کے پہاڑ توڑنے والی فاشسٹ قوت کی عملی دست گیری اور نظریاتی حمایت سے حقوق انسانی کی پامالی میں مصروف ہے۔ (ص ۹۷)
یہ تو امریکہ اور یورپ کا تاریخی کردار ہے‘اس لیے ہمیں اگر حیرت ہے تو ملک صاحب کی اس حیرت پر ہے!
بھارت کی ثقافتی یلغار پر بھی ملک صاحب نے بھرپور گرفت کی ہے۔ بسنت کے موقع پر بھارتی وفد کی سربراہ وکرم ساہنی کے اس ارشادکا کہ:’’ پاکستان اور بھارت کا کلچر اور مٹی ایک ہے‘‘ ملک صاحب نے بہ ایں الفاظ تعاقب کیا ہے:
تحریک پاکستان کے دوران بھی متحدہ ہندستانی قومیت کے علم برداروں نے برعظیم کے مخلوط کلچر کی آواز بہت زور شور کے ساتھ اٹھائی تھی اور ’’ایک کلچر ایک ملک‘‘ کی سیاست چمکائی تھی مگر اس زمانے میں اقبال کی فکر ہماری رہنما تھی‘ اور ہم مخلوط ہندستانی کلچر کے بجائے جداگانہ مسلمان کلچر کے علم بردار بن کر ایک جداگانہ مسلمان مملکت کے قیام کی جدوجہد میں مصروف تھے۔ چنانچہ ’’ایک کلچر ایک مٹی‘‘ کی سی باتیں ہمیں ایک سامراجی جال معلوم دیتی تھیں۔ نتیجہ یہ کہ ہم اس جال سے بچ کر چلے اور قیام پاکستان کی منزل تک پہنچنے میں کامران ہوئے۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ آزادی کے ۵۰سال بعد نئے شکاری وہی پرانے جال لے کر ہمارے حکمران طبقے کی میزبانی کے لطف اٹھا رہے ہیں اور حکمران طبقہ پلٹ کر یہ نہیں کہتا کہ دوستی اپنی جگہ مگر کلچر جداگانہ مسلمانی شناخت رکھتا ہے۔ کیونکہ یہ منفرد مسلمان کلچر اسلام کے تصور کائنات سے پھوٹا ہے۔ ہمارا یہ جداگانہ کلچر اکھنڈ بھارت میں خطرات کی زد میں آنے والا تھا‘ اس لیے اس کی بقا اورتحفظ و ترقی کی خاطر ہم نے عوامی جمہوری جدوجہد سے اپنی جداگانہ مملکت پاکستان حاصل کی۔ (ص ۱۵)
ملک صاحب نے صحیح انتباہ کیا ہے کہ:
ہمارے ارباب اختیار کو یہ حقیقت کبھی فراموش نہ کرنی چاہیے کہ ہندو ذہن کے مطابق تاریخ کی سب سے بڑی غلطی پاکستان کا قیام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی وزیراعظم پر دبائو ڈالا جا رہا ہے کہ بس کے بجائے ٹینک پر بیٹھ کر پاکستان جائیں۔ اس ضمن میں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ ہندو انتہا پسندوں کے نزدیک برعظیم میں مسلمانوں کا وجود بھی ایک تاریخی غلطی ہے۔ چنانچہ یہ ایجنڈا پاکستان کی تباہی پر ہی بس نہیں کرے گا بلکہ میری‘ آپ کی اور ہم سب کی فنا پر تمام ہوگا۔ اس لیے ابھی وقت ہے کہ ہم بھارت سے کہیں کہ بس بھئی بس! (ص ۱۶)
نواز شریف کے دور میں ’’جنگ سلسلہ اخبارات‘‘ کے توسط سے سرکاری پلان اور اخراجات پر منعقد ہونے والی کانفرنس پر‘جو ’’انڈوامریکن لابی‘‘ کا کارنامہ تھی‘ تبصرہ کرتے ہوئے ملک صاحب نے پورے پاک بھارت اور کشمیری تناظرکو جس طرح بیان کیا ہے وہ ایک سچے پاکستانی اور مسلمان کے دل کی آواز ہے:
بھارتی سیاست دانوں اور صحافیوں نے پاکستان کی سرزمین پر پاکستان کی نظریاتی بنیادوں پر اوچھے وار کیے۔ پاکستان کے حکمران مسکراتے رہے۔ اس تجربے سے ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے موجدوں اور سرمایہ داروں نے سوچا کہ اب اعلان لاہور کی گھڑی آپہنچی۔ چنانچہ اعلان لاہور داغ دیا گیا کہ بھائی ڈرو نہیں ہم پہلے انسان ہیں اور بعد میں مسلمان۔ وہ جو اوّل مسلمان ہیں اور آخر مسلمان--- ظاہر بھی مسلمان ہیں اور باطن بھی مسلمان۔انھوں نے اعلان لاہور پر وہ کہرام مچایا کہ ہمیشہ یاد رہے گا۔ واجپائی کو لاہور کی سڑکوں پر قدم دھرنے کی اجازت نہ دینے والوں میں سے جو لوگ جیلوں میں ڈالے گئے وہ ابھی جیلوں سے رہا بھی نہ ہوئے تھے کہ ان کے جنون پسند ساتھیوں نے کارگل کی چوٹیوں سے بانگ انا الحق بلند کر دی۔ (ص ۴۴)
جہادی تنظیموں کے خلاف امریکی اور بھارتی یلغار کا پردہ ملک صاحب نے بار بار چاک کیا ہے اور اقبال کے پیغام جہاد میں آزادی‘ ایمان اور عزت کی تلاش کی یاد دہانی کرائی ہے۔ نیز مولانا ابوالکلام آزاد کا ایک طویل اقتباس بھی دیا ہے جس کا ماحصل یہ ہے کہ:
یہی وہ اسلام ہے جس کو قرآن جہاد فی سبیل اللہ سے تعبیر کرتا ہے اور کبھی اسلام کی جگہ جہاد اور جہاد کی جگہ اسلام‘ کبھی مسلم کی جگہ مجاہد اور کبھی مجاہد کی جگہ مسلم بولتا ہے… میں جہاد کو صرف ایک رکن اسلامی‘ ایک فرض دینی‘ ایک حکم شرعی بتلاتا ہوں حالانکہ میں تو صاف صاف کہتا ہوں کہ اسلام کی حقیقت ہی جہاد ہے‘ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ اسلام سے اگر جہاد کو الگ کر لیا جائے تو وہ ایک ایسا لفظ ہوگا جس میں معنی نہ ہوں ‘ ایک اسم ہوگا‘ جس کا مسمّٰی نہ ہو۔
کشمیر کی کہانی میں بلاشبہ عالمی ضمیر کے لیے بہت سے چبھتے ہوئے سوال ہیں لیکن خود مسلمانوں کے ارباب بست و کشاد اور لبرلزم اور ترقی پسندی کے دعوے دار دانش وروں‘ صحافیوں اور سیاست دانوں کے لیے ان سے بھی زیادہ تیکھے سوال ہیں۔ کاش کہ وہ ان کا جواب اس ضمیر میں تلاش کرنے کی کوشش کریں جسے افیون پر افیون دے کر مردہ کیا جا رہا ہے۔ ملک صاحب کی اس کتاب کی آخری سطریں ایک انتباہ بھی ہیں اور امید کی ایک کرن بھی۔
افغانستان میں طالبان حکومت کو ختم کرنے اور کشمیر میں جہادی تحریکوں کو ناکام بنانے کی خاطر ابلیس کے سیاسی فرزندوں کی سیاسی دست گیری کرنے والے اہل سیاست و دانش کی حکمت اور حکمت عملی کو اقبال کی نظم ]اشارہ ہے ’’روح محمدؐ ‘‘ اور ملا کو کوہ و دمن سے نکالنے والی نظم[ کی روشنی میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔
ساتھ ساتھ اس حقیقت کو پیش نظر رکھنا بھی لازم ہے کہ بقول اقبال:
بھروسا کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر
کہ دنیا میں فقط مردان حُر کی آنکھ ہے بینا
کشمیر کی کہانی حسن طباعت کے اعتبار سے بھی ایک کامیاب پیش کش ہے۔ زبان و بیان کی نزاکتیں میرا میدان نہیں لیکن monsterکا ترجمہ ’’جن‘‘ (ص ۶۳) کچھ کھٹکا۔ عفریت‘ بھوت یا دیو شاید بہتر رہتا۔ انگریزی الفاظ کے اسپیلنگ اور ترتیب مسئلہ بنی رہتی ہیں‘ یہاں بھی صحت کے غیر معمولی اہتمام کے باوجود غلطیاں موجود ہیں (مثلاً صفحہ ۹۱ پر proxy)۔
محترمہ بے نظیر صاحبہ نے جس طرح امریکہ کی آواز میں آواز ملائی ہے اور جس طرح وہ بھارت نوازی میں نواز شریف سے بھی بڑھ کر پیش پیش ہیں‘ اس پر ملک صاحب نے بجاطور پر بھرپور گرفت کی ہے اور بے نظیر اور ذوالفقار بھٹو کے بیانات کو جس طرح آمنے سامنے کھڑا کر دیا ہے‘ وہ خاصے کی چیز ہے۔ باپ بیٹی اور پی پی پی کے دو سربراہوں کے متضاد موقف ایک طرح سے پاکستانی سیاست پر جان دار تبصرے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ البتہ امریکہ‘ بھارت اور جمہوریت کے بارے میں ذوالفقار بھٹو کے تضادات کی کوئی جھلک نہیں آسکی‘ بلکہ بین السطور بھٹو صاحب کے سلسلے میں ایک خفی رومانیت کا شبہ ہوتا ہے۔ بھٹو صاحب کی چین پالیسی‘ خارجہ امور پر گہری نظر اور معیشت میں بنیادی صنعتوں کو اہمیت دینے کا میں بھی قائل ہوں لیکن امریکہ اور بھارت کے بارے میں جو قلابازیاں اوروں نے کھائی ہیں بھٹو صاحب کا دامن بھی اس سے پاک نہیں۔ تاشقند کے راز فاش کرنے کے سلسلے میں تو ملک صاحب کی توقعات بھی نامراد ہی رہیں۔
مصنف نے جہاں بجاطور پر سیاسی قائدین پر گرفت کی ہے کہ وہ امریکہ سے اپنے جواز کی سند لانے کے لیے لین ڈوری لگاتے رہے ہیں‘ وہاں اس قافلہ عاشقاں میں قاضی حسین احمد کا ذکر مبنی برانصاف نہیں۔ جس نے بھی لاہور اور اسلام آباد اور واشنگٹن اور نیویارک میں قاضی صاحب کے بیانات کا کسی تعصب کے بغیر مطالعہ کیا ہے وہ گواہی دے گا کہ ہر جگہ انھوں نے امریکہ اور اس کی قیادت کی آنکھوں سے آنکھیں ملا کر بات کی ہے‘ انھوں نے ہمیشہ پاکستان ‘فلسطین اور عالم اسلام کے بارے میں امریکہ کے رویے پر بھرپور گرفت کی ہے۔ باعزت تعاون کی راہیں تو ضرور کھلی رکھی ہیں لیکن اپنے رویّے میں مداہنت یا التفات طلبی کا کوئی شائبہ بھی نہیں آنے دیا ؎
پروازہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
شاہیں کا جہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور
] کشمیر کی کہانی: عالمی ضمیر سے چند سوالات‘ از پروفیسر فتح محمد ملک۔ دوست پبلی کیشنز‘ اسلام آباد۔ صفحات: ۱۶۴‘ قیمت: ۱۲۰ روپے۔[