آزاد اہل فکر میں یہ عام بیماری ہے کہ وہ اپنے رجحانات کو فطری حقائق کا پابند بنانے کے بجائے فطری حقائق کو اپنے رجحانات کا پابند بنانے کی کوشش کرتے ہیں‘ اور اس بنا پر جن پرانی خرابیوں کی اصلاح کرنے کے لیے اٹھتے ہیں اُن سے بدتر خرابیاں خود پیدا کر دیتے ہیں۔ اخلاقیات اور اجتماعیات میں ان لوگوں کی کوئی تحریرافسوس ہے کہ اِس عدم توازن سے خالی نہیں ہوتی۔ ]جان اسٹوارٹ [مل کی اس کتاب ] On Liberty : محکومیت نسواں [ کو پڑھتے وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کا لکھنے والا نہ تو ایک سائنٹسٹ ہے جس نے اپنی رائے کو ثابت شدہ سائنٹفک حقائق کے تابع رکھا ہو‘ اور نہ ایک حکیم ہے جس نے انسانی تمدن کے بنیادی مسائل پر بے لاگ اور حقیقت پسندانہ طریقہ سے غوروخوض کر کے ایک رائے قائم کی ہو۔ بخلاف اس کے وہ ہم کو صاف طورپر ایک وکیل نظر آتا ہے جو اپنے مقدمہ ]جملہ حیثیتوں سے مرد اور عورت کو برابر کر دیا جائے[کو ثابت کرنے کے لیے ہر قسم کی کھینچ تان کر رہا ہے‘ نہ مغالطہ دینے سے چوکتا ہے‘ نہ واقعات کو توڑ مروڑ کر اپنے منشاکے مطابق ڈھالنے سے باز رہتا ہے‘ اور نہ اپنے مخالف دلائل کو جج کے سامنے ہلکا بنا کر پیش کرنے میں دریغ کرتا ہے۔ اسی قسم کے خام کار مفکرین کی رہنمائی کا نتیجہ ہے کہ اٹھارھویں اور انیسویں صدی کے یورپ کی تمدنی خرابیوں کی اصلاح جن نئے طریقوں سے کی گئی وہ بیسویں صدی میں پہلے سے بدتر خرابیاں پیدا کرنے کے موجب ہوئے۔ اب یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ان لوگوں کے سقیم افکار ہماری پبلک کے سامنے بلاکسی تنقید کے پیش کیے جا رہے ہیں‘ حالانکہ ان افکار کے عملی نتائج بھی دیکھے جا چکے ہیں‘ اور ان نتائج کے خلاف خود یورپ ہی میں احتجاجی آوازیں بھی بلند ہونی شروع ہو گئی ہیں۔ (جان اسٹوارٹ مل کی کتاب: ’’محکومیت نسواں‘‘ ترجمہ: معین الدین خان پر تبصرہ‘ ابوالاعلیٰ مودودیؒ، ماہنامہ ترجمان القرآن‘ جلد ۱۹‘ عدد ۱‘۲‘۳‘ رجب‘ شعبان‘ رمضان ۱۳۶۰ھ‘ ستمبر‘اکتوبر‘ نومبر ۱۹۴۱ء‘ ص ۱۹۹-۲۰۰)