اکتوبر ۲۰۰۱

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| اکتوبر ۲۰۰۱ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

صبروتحمل کی حدود

سوال:  میں گذشتہ ڈیڑھ سال سے عجیب ذہنی کش مکش میں مبتلا ہوں۔ میری ذاتی‘ سماجی‘ ازدواجی زندگی بے رونق اور بے روح ہو گئی ہے۔ شادی کو ۱۵ سال ہو گئے ہیں۔ چار بچے ہیں جن کی تعلیم و تربیت بہتر انداز سے کرنے کی دونوں نے کوشش کی۔ شادی سے پہلے میری بیوی ایک مستحکم ادارے میں کام کرتی تھی۔ انھوں نے دوبارہ بیوی کو اِسی شہر میں منتقل ہونے پر ملازمت کی پیش کش کی جو اُس نے قبول کر لی اور میں نے بھی اس میں کوئی حرج نہ سمجھا۔

نئے حالات نے مجھے ذہنی عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اپنی اہلیہ کے اپنے ادارے کے ساتھی مردوں سے ہنسی مذاق‘ گپ شپ‘ورکنگ ڈے کے علاوہ بھی ملاقاتیں‘ گھومنا پھرنا‘ ہاتھ ملانا‘ کندھے سے کندھا ملا کر بیٹھ جانا‘ تحفے تحائف کا تبادلہ‘ اپنی حد تک ہر ممکن طریقے سے سمجھانے کی کوشش کی۔ جب بھی کوشش کرتا ہوں کہ وہ آیندہ کے لیے توبہ کر لے‘ ندامت و معذرت کا اظہار کر دے‘ اس بات کو خاطر میں نہیں لاتی۔ اب تک پیار سے‘ ناراضی سے‘ بزرگوں کے ذریعے سے بہت سمجھانے کی کوشش کی ہے مگر ہٹ دھرمی اور ضد میں کمی نہیں آتی۔ دوسری طرف گھر اور بچوں کے تمام فرائض بخوبی ادا کر رہی ہے اور اس کا یہی کہنا ہے کہ جب تمھاری اور بچوں کی ضروریات پوری کرتی ہوں تو تمھیں کیا تکلیف ہے؟

کیا آپ اندازہ کر سکتے ہیںکہ میں کس روحانی کرب سے گزر رہا ہوں؟ مجھے بتایئے کہ تقریباً دوسال اس اذیت میں گزارنے کے بعد کیا باقی ساری زندگی اسی کرب میں گزار دوں؟ طلاق دے دوں؟ پھر خیال آتا ہے کہ بچوں کا کیا ہوگا؟ شہر بدلوں تو مشکل سے کچھ کاروبار سیٹ کیا ہے‘ اُس کا کیا ہوگا؟ ملازمت تو پہلے ہی بیوی کے اصرار پہ چھوڑ چکا ہوں۔ نئی ملازمت آج کے دور میں کہاں سے ملے گی؟ دوسری شادی کے مسائل سے نبٹنا بھی ایک مسئلہ عظیم ہے۔ میں ان حالات میں کیا فیصلہ کروں؟

جواب:  آپ نے اپنی ازدواجی زندگی کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے وہ ہمارے معاشرے کے مستقبل کے لیے ایک خطرے کی گھنٹی کی حیثیت رکھتا ہے۔ کسی خاتون کا ضرورت کے پیش نظر ملازمت کرنا بجائے خود جائز ہے لیکن اس کا ایسے ماحول میں کام کرنا جس میں اس کے دین‘ اس کی ساکھ اور عزت اور خاندان کے سکون و راحت کو خطرہ ہو‘ کسی بھی شرعی دلیل کی بنا پر جائز نہیں ہو سکتا۔ اسلامی خاندان میں بیوی کی ذمہ داری محض بچوں کے کھانے‘ کپڑے اور شوہر کی بعض مادی ضروریات پورا کر دینے سے پوری نہیں ہو جاتی‘ وہ شوہر کے ساتھ مساوی طور پر خاندان کے سکون‘ یک جہتی اور اسلامی ماحول کے قیام کی ذمہ دار ہے۔ حدیث شریف میں جہاں شوہر کی مسئولیت کا ذکر ہے وہاں یہ بات دو ٹوک الفاظ میں بیان کر دی گئی ہے کہ بیوی اپنے شوہر کے گھر اور بچوں کے لیے جواب دہ ہے۔ یہ جواب دہی مجموعی اور کلی ہے‘ جزوی اور کھانے پینے تک محدود نہیں ہے۔

دوسری بات جو اہمیت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی خاندان میں رشتۂ نکاح کے بعد جو اجتماعیت پیدا ہوتی ہے اس میں نہ تو شوہر کے وہ ’’ذاتی‘‘ حقوق باقی رہتے ہیں جو ایک غیر شادی شدہ مرد کے تصور کیے جاتے ہیں‘ اور نہ بیوی محض ایک ’’فرد‘‘ رہتی ہے۔ عقد نکاح دونوں کو ایک رشتۂ حقوق و فرائض میں جوڑ دیتا ہے اور اب وہ ایک خاندان بن جاتے ہیں جس کی دو اکائیاں تو ہیں لیکن ان کے الگ الگ وجود اجتماعیت میں تحلیل ہو جاتے ہیں‘ اور وہ جسم اور لباس کی طرح ایک دوسرے سے وابستہ ہو جاتے ہیں۔

جسم سے لباس کو الگ کر دیں تو وہ محض عریانیت بن جاتا ہے‘ اور لباس کو جسم سے جدا کر دیا جائے تو چند گز کپڑے کا ٹکڑا۔ گویا خاندان خود اپنی شخصیت رکھتا ہے جس میں شوہر اور بیوی دونوں کی شمولیت ہی سے یہ مشترکہ شخصیت بنتی ہے۔ اس کے برعکس مغربی لادینی تہذیب میں سالہا سال رشتہ ازدواج میں منسلک رہنے کے باوجود انفرادیت کے خدا کی پرستش کے نتیجے میں بیوی اور شوہر اپنے اپنے مشاغل‘ ترجیحات و تعلقات رکھنے کو اپنا ’’ذاتی‘‘ حق سمجھتے ہیں ‘ اور ایسا نہ ہو تو اسے ذاتی زندگی میں مداخلت قرار دیتے ہیں۔ اسلام کا تصور خاندان اس کو ردّ کرتا ہے ‘ اور ’’اسرہ‘‘ یا خاندان کی شخصیت‘ مفاد اور واجبات کو فرد کی ذات پر ترجیح دیتا ہے۔

اگر ایک شخص اپنی اولاد کو نیکی کا حکم نہیں دیتا‘ یا ایک بیوی شوہر کو معروف کی پیروی پر متوجہ نہیں کرتی تو دونوں احتساب کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ دین اسلام اپنی تعریف خود صاحب قرآن کے مبارک الفاظ میں یوں کرتا ہے کہ وہ نصیحت و خیرخواہی کا نام ہے (الدین نصیحۃ)۔ وہ یہ کیسے برداشت کر سکتا ہے کہ ایک بیٹا یا بیٹی‘ ماں یا باپ سے یہ کہے کہ اگر میں نے نماز نہیں پڑھی تو یہ میرا ذاتی معاملہ ہے‘ یا اگر وہ کسی دوست کے ساتھ وقت گزاری (dating)کرے تو یہ اس کا ذاتی معاملہ ہے۔ دین تو نام ہی اُس خلوص کے تعلق کا ہے جس میں شوہر‘ بیوی اور بچے ایک دوسرے کو نصیحت کریں اور خاندان میں صرف اللہ اور رسولؐ کے احکام کو چلنے دیں۔ غیر اسلامی رسوم و رواج اور طریقوں کو خصوصاً غیر محرموں کے ساتھ بے تکلفی اختیار کرنے کو ترک کرانا ‘پورے خاندان پر فرض ہے۔

جہاں تک آپ کے آخری تین سوالوں کا تعلق ہے ‘ طلاق شریعت میں جائز کاموں میں سخت ناپسندیدہ فعل ہے جو اللہ تعالیٰ کو غضب ناک کرتا ہے۔ سکونت تبدیل کرنا‘ یا حکمت و محبت سے اہلیہ کو سمجھانا آپ کا فریضہ ہے اور محبت کا تقاضا ہے۔ جس طرح آپ اپنی اہلیہ سے اس دنیا میں محبت کرتے ہیں وہ بھی لازمًا یہ چاہیں گی کہ نہ صرف یہاں بلکہ اخروی زندگی میں بھی وہ آپ کے ساتھ رہیں۔ اگر ان کا طریقہ اسلام کی تعلیمات کے منافی ہو اور اسلام کی واضح تعلیمات کے باوجود وہ غیر محرموں کے ساتھ ہنسی مذاق اور دیگر سوشل تقریبات میں مصروف رہنا چاہتی ہیں تو یہ فعل اسلامی اخلاق اور اسلامی خاندانی نظام دونوں کے منافی ہے اور اخروی زندگی میں سخت احتساب کا باعث ہے۔ یہ احتساب شوہر اور بیوی دونوں کا ہے۔ شوہر کا بیوی کو اسلام کی خلاف ورزی پر متوجہ نہ کرنا اس کی گرفت کا باعث ہے‘ اور بیوی کا شوہر کے متوجہ کرنے کے باوجود اسلامی تعلیمات کو نظرانداز کرنا یکساں احتساب کا باعث ہے۔

ہاں‘ اگر تمام محبت‘ حکمت‘ نصیحت اور اصلاح کی کوششوں کے باوجود‘ ترک مکانی اور شہر چھوڑنے کے باوجود بھی کوئی اصلاح نہیں ہوتی تو آخری شکل میں طلاق پر غور کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس آخری فیصلے میں آپ کو اپنی اہلیہ اور بچوں کو بھی شامل کرنا چاہیے۔ سنجیدگی اور ٹھنڈے دل سے باہمی سوچ کے بعدکوئی فیصلہ کرنا چاہیے تاکہ آپ کے بچے بھی اس معاملے کی نوعیت سے پوری طرح آگاہ ہوں اور فیصلے میں برابر شریک ہوں‘ اور آپ کی اہلیہ کو بھی یہ احساس ہو کہ ان کی نام نہاد ’’انفرادیت‘‘ نہ صرف اسلامی تصور خاندان بلکہ خود ان کے ذاتی مفاد کے بھی منافی ہے اور قرآن و سنت کی واضح خلاف ورزی ہے۔

اللہ تعالیٰ آپ کے خاندان کے اتحاد کو باقی رکھے اور بغیر اس آخری حل کے آپ دونوں باہمی اعتماد کو بحال کر کے اسلامی اصولوں پر مبنی خاندان بن سکیں۔ (ڈاکٹر انیس احمد)

چند متفرق معاشرتی مسائل

س :  میں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کے رسائل و مسائل کے چار حصوں کو پڑھ چکی ہوں۔آپ سے چند سوالات ہیں:

۱-  ایک لڑکی ہوتے ہوئے مجھے اسلام کے نقطۂ نظر سے کیا کرنا چاہیے؟ میری چھوٹی بہن اسلامی جمعیت طالبات سے تعلق رکھتی ہے ‘ جب کہ میرے ذاتی خیال میں کسی جماعت میں شمولیت کے بغیر بھی اسلام کے راستے پر چلا جا سکتا ہے۔ کیا ہر لڑکی کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی نہ کسی جماعت میں ضرور شامل ہو‘ یا پھر وہ ذاتی یا انفرادی سطح پر خود کو اسلام کے سانچے میں ڈھال لے۔ ایک لڑکی کے لیے تبلیغی کاموں کے لیے کیا ہدایات ہیں؟ کیا عورت کو اجازت ہے کہ وہ گھر والوں کی مرضی کے بغیر تبلیغ کے لیے گھر سے باہر نکلے؟ کیا جس طرح قرآن پاک کی رُو سے مرد پر دین کی اشاعت کی ذمہ داریاں ہیں اسی طرح ہم پر بھی ذمہ داریاں ہیں؟ اگر ہیں تو ان کی حدود کیا ہیں؟

۲- پرائیویٹ اسکول کے اندر ہم جو فیس وصول کرتے ہیں کیا وہ جائز ہے؟

۳- بچپن ہی سے میری منگنی میرے ماموں زاد بھائی سے طے کردی گئی تھی۔ پھر کچھ ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ وہ رشتہ میرے گھروالوں کی طرف سے توڑ دیا گیا لیکن اب پھر کچھ ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ دوبارہ اس رشتے کو بحال کر دیا گیا ہے۔ جس کزن سے میری نسبت طے ہے وہ اس وقت جنوبی افریقہ میں ہے۔میں کسی اور شخص کو بھی پسند نہیں کرتی۔ میری امی کی شدید خواہش تھی کہ یہ رشتہ قائم رہے۔میں نے حامی بھر لی ہے لیکن ایک مسئلہ یہ ہے کہ میرے ماموں نے ملازمت کے دوران رشوت کے ذریعے بہت سی دولت اکٹھی کر لی ہے۔ آج بھی ان کا روپیہ بنک میں جمع ہے جس سے سود لے کر وہ گھر چلاتے ہیں۔ ان حالات میں اگر میری شادی وہاں ہو جاتی ہے تو لامحالہ مجھے بھی وہی پیسے استعمال کرنا پڑیں گے۔ کیا وہ رقم میرے لیے حلال ہو جائے گی؟

۴- آج سے پہلے ہر شادی اور اسکول‘ کالج کے فنکشن میں‘ میں نے بہت سی تصاویر بنوائی ہوئی ہیں۔ تب بھی میں یہ بات جانتی تھی کہ اسلام میں تصویر بنوانا حرام ہے۔ لیکن میری ذہنی سوچ یہ تھی کہ ہم کون سی عبادت یا پوجا کے لیے تصاویر بنوا رہے ہیں۔ یہ تو صرف یادگار لمحے ہوتے ہیں جنھیں ہم محفوظ کرتے ہیں۔ میں آیندہ کے لیے تو اس چیز سے تائب ہوچکی ہوں۔ لیکن اس سے پہلے کی جو تصاویر میرے پاس ہیں کیا انھیں میں اپنے پاس رکھ سکتی ہوں یا ان کو تلف کر دینا چاہیے؟

۵- آپ نے ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرمایا تھا کہ منہ اور ہاتھ کے سوا اپنی زینت کی جگہوں کو ظاہر نہ کیا جائے۔ اس حد تک تو میں پردہ کرتی ہوں لیکن نقاب نہیں لیتی یا چہرے کا پردہ نہیں کرتی۔ اس سلسلے میں میری رہنمائی تفصیل سے فرمائیں۔

ج:  یہ جان کر خوشی ہوئی کہ آپ نے محترم مولانا مودودیؒ کے رسائل و مسائلکی چاروں جلدیں مطالعہ کر لی ہیں۔ ہمارے دینی ادب میں رسائل و مسائل نے ایک نئے اسلوب کی بنیاد ڈالی اور اس کے ذریعے محض فقہی طور پر حلال و حرام کا حکم لگانے کے بجائے ایک مسئلے کا پس منظر‘ اور قرآن و سنت کی روشنی میں اس کے مضمرات تک پہنچنے کا عملی مظاہرہ کیا گیا۔ آپ کے سوالات متنوع ہیں‘ اختصار کے ساتھ اسی ترتیب سے جواب تحریر کیے جا رہے ہیں:

۱-  ایک لڑکی ہوتے ہوئے اسلام کے نقطۂ نظر سے آپ کو ہر وہ کام کرنا چاہیے جس کا حکم  قرآن و سنت دیتے ہیں‘ یعنی حصول علم ‘ تطبیق علم ‘ نشروابلاغ علم اور اس سب کے نتیجے میں خود اپنی زندگی میں وہ تبدیلی لانا جو اسلام کا مطلوب ہے۔ آپ ایم اے اور بی ایڈ کے بعد بھی مزید اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہیں تو کر سکتی ہیں۔ اسلام نے اس سے کبھی منع نہیں کیا ہے۔ اسلام کا جو علم آپ نے حاصل کیا ہے اس امانت کو دوسروں تک پہنچانا ہر مسلمان لڑکی پر ویسے ہی فرض ہے جیسے ہر مسلمان لڑکے پر۔ اس لیے اگر آپ کی چھوٹی بہن نے طالبات کی کسی اچھی تنظیم میںجو اسلامی نظام کے قیام کی داعی ہے شمولیت اختیار کر لی ہے تو آپ کو بھی اپنے آپ کو کسی ایسی جماعت سے وابستہ کرنا چاہیے جو قرآن و سنت کی روشنی میں دعوت و اصلاح کا کام کر رہی ہو۔ حضور نبی کریمؐ نے اس شخص کی موت کو جاہلیت کی موت قرار دیا ہے جو جماعت کو چھوڑ کر محض ایک فرد بن جائے ۔اس لیے آپ جس کسی جماعت کے طریق کار‘ اخلاص ‘ اور دین کے تصور سے مطمئن ہوں اسے اختیار کرلیں اور اس کے ساتھ توسیع دعوت میں شریک ہوں۔ ایک مسلمان لڑکی اپنے گھر‘ اپنے سسرال اور رشتے داروں غرض جن جن سے اس کا رابطہ ہو‘ سب کو دعوتی نقطۂ نظر سے اسلامی تعلیمات سے متعارف کراسکتی ہے۔ ہاں‘ اگر ماں باپ آپ کے کسی دعوتی اور تربیتی اجتماع میں شرکت کرنے پر معترض ہوں تو آپ انھیں سمجھائیں اور ممکن ہو تو اپنی والدہ صاحبہ کو کسی ایسے اجتماع میں لے جا کر شرکت کرائیں تاکہ وہ مطمئن ہو جائیں کہ جو کام آپ کرنا چاہتی ہیں‘ درست ہے۔ اگر گھریلو ذمہ داریاں اتنی زیادہ ہوں کہ چند لمحات کا وقت بھی نہ دیتی ہوں تو اس مجبوری کی بنا پر تو ممکن ہے کہ ایک خاتون کا احتساب نہ ہو ‘ ورنہ وقت‘ دولت‘ صحت‘ علم اور صلاحیت ہونے کے باوجود اگر انھیں اللہ کی راہ میں استعمال نہ کیا جائے تو پھر احتساب سے بچنا بہت مشکل ہے۔

۲- اسکول کی فیس کا تعلق تعلیم کے لیے وسائل کی فراہمی سے ہے۔ اگر فیس نہیں لی جائے تو اسکول کی انتظامیہ‘ معلمین اور معلمات کی تنخواہیں‘ کلاس روم میں طلبہ و طالبات کی ضرورت کی اشیا کی فراہمی کا ذریعہ کیا ہوگا؟ ہاں‘ فیس میں توازن اور مستحق طلبہ و طالبات کے لیے وظیفے کا ہونا ضروری ہے۔ یہ شکل نہ ہو کہ اسکول محض معاشی مفاد کے حصول کا ذریعہ بن جائے۔

۳- اپنے ماموں زاد بھائی سے آپ کے رشتے کے حوالے سے اگر آپ کی اپنی کوئی ذاتی پسند نہیں ہے‘ جیسا کہ خط سے ظاہر ہے‘ تو والدہ کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے ایسا کرنا مناسب ہے۔ آپ اپنے ماموں کے ماضی کے لیے جواب دہ نہیں ہیں۔ آپ کے ہونے والے شوہر اگر جائز اور حلال طریقے سے روزی حاصل کر رہے ہیں تو آپ کو مطمئن رہنا چاہیے۔

۴- اگر بعض تصاویر آپ نے محض دستاویز یا یادداشت کے طور پر رکھی ہوئی ہیں اور ان کے ساتھ کسی احترام اور عقیدت کا تعلق نہیں ہے جس کی بنا پر تصویر سے منع کیا گیا ہے‘ تو اس میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ ہاں‘ ان کی نمایش نہیں ہونی چاہیے۔ اگر وہ کسی البم میں لگی ہیں اور نگاہوں کے سامنے نہیں ہیں تو اس سے عبادت میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا۔ اگر وہ غیر ضروری ہوں تو تلف کر دیں۔

۵- بلاشبہ چہرے پر نقاب کا استعمال افضل ہے لیکن اگر کسی بنا پر یہ ممکن نہ ہو تو چہرے اور ہاتھ کو چھوڑ کر بقیہ تمام جسم کو مکمل طور پر چھپانا فرض ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو اسلامی احکام کی خلاف ورزی ہوگی۔  (ا - ا)

’’کچھ صلۂ رحمی کے بارے میں‘‘ --- ایک وضاحت

س :  ’’کچھ صلۂ رحمی کے بارے میں‘‘ (ستمبر ۲۰۰۱ء) میں صاف دکھائی دیتا ہے کہ زبردستی کی طلاق کے مفروضے پر کہانی مرتب کر کے جواب دیا گیا ہے‘ جب کہ طلاق مرضی سے دی گئی۔ اب دوبارہ ساتھ رہنا تو زنا کی تعریف میں آتا ہے۔ آپ صلح اور صلۂ رحمی کی بات کر رہے ہیں!

ج :  فقہی معاملات میں نصوص و اصول کی روشنی میں ایک سے زائد آرا کا امکان ہمیشہ رہتا ہے۔ البتہ جواب دینے والے کو کوشش کرنی چاہیے کہ خلوص نیت کے ساتھ ایک معاملے کے مختلف پہلوئوں پر غور اور تحقیق کرنے کے بعد اپنی رائے کا اظہار کرے۔ ہماری کوشش یہی ہوتی ہے۔ جو رائے دی گئی‘ اس میں کوئی ’’کہانی‘‘ مرتب کرنے کی کوشش نہیں کی گئی‘ گو آپ کو اپنی رائے رکھنے کا پورا حق ہے۔ (ا - ا)