۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء امریکہ کی تاریخ میں ایک سیاہ‘ المناک اور ناقابل فراموش دن کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ جس طرح ۷۲ برس پہلے‘ ۱۹۲۹ء میں امریکہ کی حصص مارکیٹ کے بتاشے کی طرح بیٹھ جانے (The Great Crash) سے اور پھر ۶۰ برس پہلے ۱۹۴۱ء میں پرل ہاربر پر اچانک جاپانی حملے سے جس میں تقریباً ڈھائی ہزار امریکی ہلاک ہوئے تھے‘ امریکہ کی معیشت‘ سیاست اور عالمی رول کی قلب ماہیت ہوئی‘ بالکل اسی طرح ۱۱ ستمبرکے اس سانحے نے امریکہ ہی نہیں پوری مغربی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ سرد جنگ کے بعد امریکہ اور سرمایہ داری کی عالمی اور بزعم خود ’’ابدی‘‘ بالادستی کا ڈھول پیٹا جا رہا تھا اور تاریخ تک کے اختتام (the end of history)کی نوید سنائی جا رہی تھی‘ وہ سارا قصہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے دونوں میناروں کے انہدام کے ساتھ ہی زمین بوس ہو گیا ہے اور خطرہ ہے کہ صدربش نے جسے اکیسویں صدی کی پہلی جنگ کہا ہے وہ ایک نئی گرم اور سرد جنگ کا آغاز نہ بن جائے اور اس سے بھی بڑھ کر خطرہ ہے کہ وہ مغربی دنیا اور عالم اسلام کے درمیان نئی صلیبی جنگ کی ابتدا نہ ثابت ہو۔
۱۱۰ منزلہ یہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر جو ۲۳ سال پہلے ایک ارب ڈالر کی لاگت سے ۱۶ ایکڑ اراضی پر تعمیر ہوا تھا‘ جس نے نیویارک کو اس کا نیا تشخص دیا تھا ‘جس میں آج ۵۰ ہزار لوگ کام کرتے تھے اور جس کا سالانہ کرایہ اب تین ارب ڈالر سے متجاوز تھا‘ وہ اس صدی کے لیے امریکہ کی معاشی اور مالیاتی قوت کا نشان اور عالمی سرمایہ داری کی شان و شوکت کی علامت ہی نہیں اس کا مالیاتی دارالحکومت بن گیا تھا۔ اسی طرح واشنگٹن میں وزارت دفاع (Pentagon) ایک قلعہ بند شہر کا منظر پیش کرتی تھی‘ اس میں ۲۴ ہزار افراد کام کرتے تھے اور یہ امریکہ کی عالمی عسکری قوت کا مظہر تھی--- یہ دونوں عمارتیں ایک گھنٹے کے دورانیے میں تین ہائی جیک شدہ امریکی ہوائی جہازوں کی زد میں آکر تہ و بالا ہو گئیں۔ ان دو عمارتوں کی تباہی اور ہزاروں افراد کی ہلاکت ہی کچھ کم سانحہ نہ تھے کہ اس کی زد آج کی واحد سوپر پاور ‘ جو صرف اپنے دفاع پر پوری دنیا کے مجموعی دفاعی اخراجات کا ۳۶ فی صد خرچ کر رہی تھی‘ کے وقار اور ساکھ پر کچھ اس انداز میں پڑی کہ اس کے ناقابل تسخیر (invincible)ہونے کا طلسم پادر ہوا ہو گیا۔ کچھ وقت کے لیے امریکہ کا پورا نظام دفاع و حکمرانی ’’ٹک ٹک دیدم‘ دم نہ کشیدم‘‘ کی تصویر بن گیا اور ۲۴ گھنٹے تک تو یہ عالمی قوت جو اب شیر کی طرح دھاڑ رہی ہے عملاً کسی سربراہ مملکت کے بغیر تھی ۔صدر‘ نائب صدر اور کانگریس کا اسپیکر سب کبھی ہوا کے دوش پر دنیا کے خطرات سے تحفظ کے متلاشی تھے ‘کبھی زیرزمین پناہ گاہوں میں عافیت کے طالب تھے۔اس کی نظیر اس صدی کی تاریخ میں نہیں۔ اس حادثے کے بعد امریکہ کی قیادت جن کیفیات سے گزری اور اس کے چہروں اور اعلانات پر جو رنگ دیکھا جا سکتا ہے اسے حیرت و صدمہ (shock)‘ استخفاف (humiliation)‘ غم و غصہ (anger) طیش و غضب ناکی(wrath and fury) اور پھر انتقام (retaliation and revenge) اور جنون کی کیفیات و واردات کی شکل میں بیان کیا جا سکتا ہے۔
ان سطور کے ضبط تحریر میں لاتے وقت اس حادثہ فاجعہ کو ۱۱ دن گزر چکے ہیں مگر امریکہ بلکہ پوری مغربی دنیا پر ایک ہیجانی کیفیت طاری ہے‘ غیر یقینی کے سایے منڈلا رہے ہیں اور اس جذباتی فضا میں ’’کچھ کرگزرنے‘‘ کے آثار خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں۔ بندر کی بلا طویلے کے سر کے مصداق عرب اور اسلامی دنیا کو ہدف بنایا جا رہا ہے‘ اسامہ بن لادن پر سارا نزلہ گر رہا ہے اور افغانستان پر فوج کشی کی تیاریاں ہیں۔ ہاتھی مچھر پر حملہ آور ہوا چاہتا ہے اور سارا ملبہ فردواحد پر گرا کر اپنی ناکامیوں اور نفرت اور بے اعتمادی کے اصل اسباب و محرکات سے توجہ ہٹانے کی ناروا کوشش کی جا رہی ہے۔
یہ بڑی تشویش ناک صورت حال ہے کہ ٹھنڈے دل ودماغ سے حق و انصاف کے اصولوں کی روشنی میں حالات کا جائزہ اور تجزیہ نہ ہونے کے برابر ہے (چند کمزور آوازوں کے سوا) ۔ جن کے ہاتھوں میں قوت ہے اور جن پر عالمی قیادت کا بار ہے وہ ایک زخمی درندے کی طرح جس پر بھی شبہ ہو‘ اسے نیست و نابود کرنے کے عزائم کا اظہار کر رہے ہیں اور اس کے لیے پرتولے بیٹھے ہیں۔ صدر بش کہتے ہیں کہ یہ دہشت گردی نہیں اعلانِ جنگ ہے لیکن یہ نہیں بتا سکتے کہ اس جنگ میں فریق ثانی کون ہے‘ مقابلہ کس ریاست یا قوت سے ہے اور یہ جنگ کس سرزمین پر ہو رہی ہے۔ پرل ہاربر کے موقع پر حملہ آور بھی معلوم تھا اور اس کا ٹھکانہ بھی۔ آج نہ یہ ثابت ہے کہ کس نے اس دہشت گردی کا ارتکاب کیا ہے اور نہ یہ پتا ہے کہ خودکش حملے میں جاں بحق ہونے والوں کی پشت پر دراصل کون ہے اور وہ کہاں ہے؟ بات کو مزید اشتعال انگیزبنانے کے لیے اسے خود نفس تہذیب کے خلاف جنگ (war on civilization)کا نام دیا جا رہا ہے اور اس طرح دنیا کو دو حصوں میں بانٹنے کی مذموم کوشش ہو رہی ہے۔ گویا مغربی دنیا مہذب دنیا ہے اور باقی سب وحشت کے دور میں زندگی گزار رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ صرف دہشت گردوں ہی کا قلع قمع نہ کیا جائے گا بلکہ ان ریاستوں کو بھی نابود کر دیا جائے گا جہاں ان کو پناہ حاصل ہے]اور یہ بھول گئے ہیں کہ آج تک خود امریکہ میں آئی آر اے (IRA)کے دہشت گردوں کو پناہ حاصل تھی اور کیوبا سے لے کر لاطینی امریکہ کے دسیوں ممالک اور عراق‘ لیبیا اور ایران وغیرہ میں دہشت گردی کرنے والے کتنے ہی مسلح گروہوں کے لیے امریکہ نہ صرف مامن تھا بلکہ سی آئی اے اور مخصوص لابیاں کھلے بندوں ان کی تربیت اور ان کو مسلح کرنے کا انتظام کرتی رہی ہیں[۔ نائب صدر ڈک چینی اور سیکرٹری دفاع نے تو دو اور دو چار کی طرح کہہ دیا ہے کہ ہمارا ہدف ان ریاستوں ہی کو نیست و نابود کر دینا ہے جو دہشت گردی کو فروغ دیتی ہیں۔ دانش ور‘ اہل قلم اور میڈیا پر تبصرہ کرنے والوں کی ایک فوج ہے جو انتقام اور ریاستی تشدد کی تبلیغ کر رہی ہے۔ سابق سیکرٹری آف اسٹیٹ لارنس ایگل برگر فرماتے ہیں:
اس طرح کے لوگوں سے نبٹنے کی ابتدا کرنے کا یہ بھی ایک طریقہ ہے: آپ کو ان میں سے کچھ کو ہلاک کر دینا ہوگا خواہ وہ اس معاملے میں فوری طور پر براہ راست متعلق نہ ہوں۔
امریکی خارجہ پالیسی کے گرو اور ویت نام ‘ کمبوڈیا‘ چلی اور نہ معلوم کتنے ممالک میں لاکھوں انسانوں کی نسل کشی (genocide)کے ذمہ دار ہنری کسنجر کا ارشاد ہے کہ گو یہ پتا نہیں کہ اس اقدام کے پیچھے فی الحقیقت بن لادن کا ہاتھ تھا یا نہیں مگر فوری تادیبی اقدام ضروری ہے اور وہ بھی ناکافی ہے۔ اصل ہدف اس پورے نظام (network)اور ان ممالک کے خلاف کارروائی ہے جہاں اس نظام کے کچھ بھی کل پرزے پائے جاتے ہیں:
لیکن حکومت کو ایک منظم ردّعمل کی ذمہ داری لینا چاہیے۔ امید کرنا چاہیے کہ یہ اسی طرح اختتام کو پہنچے جس طرح پرل ہاربر کا حملہ اختتام کو پہنچا تھا‘ یعنی اس نظام کی تباہی جو اس کا ذمہ دار ہے (واشنگٹن پوسٹ‘ ۱۲ ستمبر ۲۰۰۱ء)
موصوف نے یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ اگر دوسرے ممالک اس میں امریکہ کا ساتھ نہ دیں تو امریکہ کو یہ اقدام تن تنہا ہی کر ڈالنا چاہیے اور کسی اتفاق راے (consensus)کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ یہ تو بڑے دانش ور اور ذمہ دار حضرات کا اندازبیان ہے۔ عمومی سطح پر جو انداز اختیار کیا جا رہا ہے اس کا اندازہ صرف ان تین مثالوں سے کیا جا سکتا ہے۔
واشنگٹن پوسٹ میں رچ لوری ر قم طراز ہیں:
اگر ہم دمشق یا تہران یا جو کچھ بھی ہو‘ اس کا ایک حصہ ملیامیٹ کر دیں تو یہ بھی حل کا ایک جزو ہے۔ (۱۳ ستمبر ۲۰۰۱ء)
نیویارک پوسٹ میں اسٹیوڈیلوری لکھتے ہیں:
۲۱ ویں صدی کے اس پرل ہاربر کا جواب اتنا ہی سادہ ہونا چاہیے جتنا کہ تیز: بلاتاخیر حرامیوں کو قتل کر دو۔ آنکھوں کے درمیان گولی مار دو‘ ان کو ریزہ ریزہ کر دو‘ ضرورت پڑے تو زہر دے دو۔ اور وہ شہر اور ملک جو ان کیڑے مکوڑوں کی سرپرستی کرتے ہیں ان پر بم باری کر دو۔ (۱۲ ستمبر ۲۰۰۱ء)
نیویارک ڈیلی نیوز میں ایک محترمہ این کملٹر تو یہاں تک فرما رہی ہیں :
یہ اس کا وقت نہیں ہے کہ اس خاص دہشت گردی کے حملے میں براہ راست ملوث افراد کا ٹھیک ٹھیک احتیاط سے پتا چلایا جائے۔ ہمیں ان کے ممالک پر حملہ کر دینا چاہیے۔ ان کے لیڈروں کو قتل کر دینا چاہیے۔ ہم ہٹلر اور اس کے اعلیٰ افسروں کا پتا چلانے اور سزا دینے کے بارے میں رسمی ضوابط کے پابند نہیں تھے۔ ہم نے جرمن شہروں پر کارپٹ بم باری کی۔ ہم نے شہریوں کو ہلاک کیا۔ وہ جنگ تھی اور یہ بھی جنگ ہے۔ (۱۲ ستمبر ۲۰۰۱ء)
یہ وہ فضا ہے جو بنائی جا رہی ہے اور مسلمان اور عرب اس کا ہدف ہیں۔ صدر بش نے صلیبی جنگ کا لفظ استعمال کر کے جلتی پر تیل ڈالنے کی خدمت انجام دی ہے۔ اسلام کو ایک دہشت پسند مذہب اور مسلمانوں کو دہشت پسند گروہ کی حیثیت سے پیش کیا جا رہا ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ ان ۱۱ دنوں میں امریکہ اور برطانیہ میں سیکڑوں واقعات رونما ہوئے ہیں‘ جن میں مساجد‘ مدارس‘ مسلمان مراکز‘ گھرانے‘ حتیٰ کہ راہ چلتی باپردہ خواتین نشانہ بنی ہیں۔ صرف امریکہ میں ۳۰۰ انتقامی کارروائیاں ہو چکی ہیں اوریہ سلسلہ جاری ہے۔ ستم ظریفی ہے کہ مسلمان تو مسلمان بیچارے سکھ بھی محض اپنی وضع قطع کے باعث مارے جا رہے ہیں--- کیا یہی وہ تہذیب اور اعلیٰ نظام زندگی ہے جس کے دہشت گردی سے معرض خطر میں ہونے کا واویلا ہے!
امریکہ اور اہل مغرب کا رویہ خواہ کیسا بھی ہو اور اپنے جذبات کے اظہار کے لیے وہ کوئی بھی زبان استعمال کریں‘ بحیثیت مسلمان اور اُمت مسلمہ ہمارا رویہ حق‘ انصاف اور اعتدال پر مبنی ہونا چاہیے اور اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے بجائے ہمیںدلیل کی زبان اور حق پرستی کا مسلک اختیار کرنا چاہیے اس لیے کہ قرآن کا ہمارے لیے یہی حکم ہے کہ جب بھی انسانوں کے درمیان کلام کریں انصاف کے مطابق کریں:
وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ ط(النساء ۴:۵۸) اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰامِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِ ز وَلاَ یَجْرِ مَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلاَّ تَعْدِلُوْا ط اِعْدِلُوْا قف ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی ز (المائدہ ۵:۸) اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو ‘ یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔
انسانی جان کا تحفظ اور احترام اسلام کی بنیادی تعلیم ہے اور اس میں مسلمان اور غیر مسلم‘ مرد اور عورت‘ دوست اور دشمن میں کوئی تمیز نہیں۔ سب کی جان برابر ہے اور بلاحق کسی کی بھی جان لینا اللہ اور اس کے رسولؐ کے حکم کے خلاف بغاوت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: لَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ اٰدَمْ‘ ہم نے تمام بنی آدم کو محترم و مکرم بنایا ہے‘ محض مسلمانوں یا اہل کتاب کو نہیں۔ اسی طرح:
وَلاَ تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلاَّ بِالْحِقِّ ط (بنی اسرائیل ۱۷:۳۳) قتل نفس کا ارتکاب نہ کرو جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ۔
مَنْ قَتَلَ نَفْسًا م بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاط وَمَنْ اَحْیَاھَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا ط (المائدہ ۵:۳۲) جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔
جس دین کی یہ تعلیم ہو‘ وہ بے گناہ انسانوں کی دہشت گردی کے ذریعے مظلومیت کی موت کو کیسے گوارا کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور یورپ کے مسلمانوں ہی نے نہیں پوری دنیا کے مسلمانوں‘ ان کی دینی تحریکوں اور تمام ہی مسلمان حکومتوں نے ۱۱ ستمبر کی دہشت گردی اور اس کے نتیجے میں ہزاروں انسانوں کی موت پر خون کے آنسو بہائے ہیں۔ اس غم کو اپنے دل کی گہرائیوں میں محسوس کیا ہے اور اس کی برملا مذمت کی ہے اور اصل مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ہماری نگاہ میں یہ محض امریکہ کا نقصان نہیں پوری انسانیت کا نقصان ہے اور یہ غم تنہا کسی ایک قوم کے لوگوں کا غم نہیں پوری انسانی برادری کا غم ہے۔ اس نقصان اور اس غم کو ہمارے لیے جس چیز نے اور بھی اپنائیت کا روپ دے دیا ہے وہ یہ حقیقت ہے کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں ہلاک ہونے والے ۵ ہزار سے زیادہ افراد میں‘جن کا تعلق ۶۳ ملکوں سے ہے اور جن میں سب مذاہب کے ماننے والے شامل ہیں‘ ایک ہزار سے زائد مسلمان تھے یعنی ہر پانچ میں ایک مسلمان تھا۔
دنیا کی اسلامی تحریکوں کے سو سے زیادہ قائدین اور عالم اسلام کے چوٹی کے علما اور مفکرین نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں ۱۲ ستمبر ہی کو اس قتل ناحق کی مذمت کی اور پھر ۱۸ ستمبر کو ایک اور بیان کے ذریعے اسلام اور اُمت مسلمہ کے موقف کو دو ٹوک انداز میں بیان کیا۔ انھوں نے جہاں قتل ناحق کی مذمت کی وہیں انتقام اور جوابی قتل ناحق کے خلاف بھی متنبہ کیا اور کمال حکمت اور پوری جراتٔ سے عدل و انصاف اور قانون کی حکمرانی کی بات کی۔ یہ بیان پوری اُمت کے جذبات کا ترجمان ہے:
ہم نیویارک اور واشنگٹن میں بزدلانہ دہشت گرد حملوں کی پرزور مذمت کر چکے ہیں جن کا نشانہ بننے والے تمام ممالک سے اور دنیا کے بڑے مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں۔
اسلام انسانی جان کے تقدس کا علم بردار ہے۔قرآن کے مطابق ایک بے گناہ کو ہلاک کرنا ساری انسانیت کے خلاف جرم ہے۔ ساری دنیا کے مسلمان اس جارحیت کے جانی نقصان پر غم زدہ ہیں کہ یہ امریکہ اور پوری دنیا کا مشترکہ نقصان ہے۔
ہم یہ اعلان بھی کرتے ہیں کہ دنیا کے تمام حصوں میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والے ایسی ہی ہمدردی اور تشویش کے مستحق ہیں۔ جو لوگ انسانوں کی مساوات کے علم بردار ہیں انھیں دنیا کے سب حصوں میں دہشت گردی کی مذمت کرنا چاہیے اور اس کے خلاف لڑنا چاہیے۔
ہم اس اصول کے حامی اور علم بردار ہیں کہ انسانوں کے خلاف دہشت گردی کے جو بھی ذمہ دار ہیں--- افراد‘ گروپ یا حکومت‘ ان کو کٹہرے میں لانا چاہیے اور کسی ہمدردی یا امتیاز کے بغیر اس کی سزا دینا چاہیے۔ لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر مشتبہ افراد کو کسی غیر جانب دار عدالتی طریقے سے ان کا جرم ثابت کیے بغیر‘ یک طرفہ طور پر سزا دینے کی کوشش بھی دہشت گردی ہی قرار پائے گی جس کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور نہ ہی گوارا کیا جا سکتا ہے۔
عدل وا نصاف اور فطری اور بین الاقوامی قانون کے اصولوں کا یہ کم سے کم تقاضا ہے کہ جرم کا غیر جانب دار واضح ثبوت ہو۔ اس لیے ہم دنیا کی تمام حکومتوں سے‘ خصوصاً امریکہ کی حکومت سے‘ اپیل کرتے ہیں کہ وہ صرف شبہے کی بنیاد پر طاقت کا یک طرفہ من مانا استعمال نہ کریں‘ اور مدعی‘ وکیل‘ جج اور جلاد سب کچھ خود ہی بننے کی کوشش نہ کریں۔ ہم‘ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور تمام عرب‘ مسلمان اور یورپی ممالک کے لیڈروں سے پرزور اپیل کرتے ہیں کہ وہ دنیا کو بے جا خوں ریزی اور تشدد میں اضافے سے بچائیں جس سے اقوام عالم اور ریاستوں میں مزید جھگڑے اور تنازعات پیدا ہوں گے۔ دہشت گردی کا مقابلہ صرف ایسے ہی ذرائع سے کیا جاسکتا ہے جو منصفانہ اور عادلانہ ہوں‘ اور دنیا میں امن و سکون کا باعث بننے والے ہوں۔ ہمیں ایسے اقدامات میں فریق یا خاموش تماشائی نہیں بننا چاہیے جن سے انتقام‘ رعونت اور بین الاقوامی دیوالیہ پن کی بو آتی ہو۔ آیئے سب لوگ انصاف کے لیے کھڑے ہو جائیں اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے اس کے کارپردازوں کو قانون کے مطابق سزا دینے کے لیے اجتماعی کوشش کریں‘ اور دنیا میں دہشت گردی کی جڑمیں پائی جانے والی ناانصافیوں ‘ استحصالوں اور بالادستی کی پالیسیوں کو ختم کرنے کے لیے کوشش کریں!
یہ ہے اُمت مسلمہ کا اصولی اور حقیقی موقف ۔ تمام مسلمان حکومتوں اور تنظیموں کا فرض ہے کہ اس نازک لمحے میں حکمت‘ دیانت اور جرأت کے ساتھ اپنے اس موقف پر ڈٹ جائیں ‘ محض قوت‘ دھونس اور جبر کے آگے ہتھیار نہ ڈالیں ‘اور نہ پروپیگنڈے کی یورش سے مغلوب ہوں اور نہ کسی ایسے جوابی ردّعمل کی راہ اختیار کریں جو حق وصواب سے دُور ہو۔
امریکی نظام کی شرم ناک ناکامی
جو سوال اس وقت سب سے اہم ہے وہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ کیسے ہوا اور اس کے اصل ذمہ دار کون ہیں؟ بات محض شبہہ اور انتقام کی نہیں‘ بے لاگ جستجو‘ تحقیق و تفتیش‘ نقد و احتساب اور حقیقت کی کھوج کی ہے۔ بدقسمتی سے اس سے توجہ ہٹائی جا رہی ہے اور سارے معاملات ایک ہیجانی انداز میں نمٹانے کی خطرناک غلطی کی جا رہی ہے۔ تعجب ہے کہ کوئی نہیں جو ہمت اور جرأت سے کہے کہ بادشاہ کو پہلے اپنے جسم پر نگاہ ڈالنی چاہیے کہ کہیں وہ لباس سے عاری تو نہیں؟
یہ ابھی تحقیق طلب ہے کہ اس جرم کا ارتکاب کرنے والے کون تھے اور ان کے اصل مقاصد اور ان کے پشتی بان کون تھے۔ مگر پہلا سوال تو یہ ہے کہ امریکہ کے اپنے نظام حکومت اور خصوصیت سے اس کے قومی سلامتی ‘ جاسوسی اور پولیس کے نظاموں کی ناکامی اور اس ناکامی کے ذمہ داروں کے احتساب سے کلی اغماض کیوں برتا جا رہاہے؟ ایک ریل کا بھی حادثہ ہوتا ہے تو فوری اسباب کی تحقیق و تفتیش سے پہلے ادارے کے ذمہ داروں کا محاسبہ ہوتا ہے اور ان کو جواب دہی کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا ہے۔ امریکہ کا جاسوسی کا نظام دنیا کا عظیم ترین اور مہنگا ترین نظام ہے۔ صرف سی آئی اے کا سالانہ بجٹ ۳۰ ارب ڈالر ہے اور دنیا میں اس کے ایک لاکھ ہمہ وقتی کارکن ہیں۔ ایف بی آئی داخلی سلامتی کی ذمہ دار ہے ‘ اس کا سالانہ بجٹ ۳ ارب ڈالر ہے۔ اس کے امریکہ میں ۵۵ مراکز اور ۲۷ ہزار ۸ سو کارکن ہیں۔ اس کے نظام کار میں کل بجٹ کا پانچواں حصہ صرف معلومات جمع کرنے کے لیے مختص ہے اور یہ نگرانی (surveillance)کی جدید ترین ٹکنالوجی استعمال کر رہے ہیں۔ ایک اور ادارہ National Reconnaissance Office ہے جو جاسوسی سیارچوں (Spy Satellites) کی مدد سے زندگی کے ہر پہلو کی ہمہ وقتی نگرانی کرتا ہے اور اس کا سالانہ بجٹ ۲.۶ ارب ڈالر ہے۔ ایک اور ادارہ National Security Authority ہے جس میں ۲۱ ہزار افراد کام کرتے ہیں اور اس میں معلومات جمع کرنے کا دنیا کا اعلیٰ ترین انتظام ہے اور اس کے کارکن دنیا کی ہر اہم زبان کے ماہر ہیں۔ ان کے علاوہ نو مزید خفیہ معلومات حاصل کرنے والی ایجنسیاں ہیں جو فوج‘ وزارت خزانہ‘ وزارت مواصلات اوروزارت بجلی و پانی کے تحت کام کرتی ہیں اور ان میں سے ہر ایک کا بجٹ ایک ارب ڈالر سالانہ ہے۔ ان سب کے علاوہ ایک National Imagery and Mapping Agency ہے جس کا بجٹ ۲.۱ ارب ڈالر سالانہ ہے اور اس کا کام صرف یہ ہے کہ امریکہ کی زمین پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس کے نقشے محفوظ کرے۔ اس طرح صرف انٹیلی جنس اور نگرانی کے ادارے سالانہ ۵۰ ارب ڈالر کے بجٹ سے قومی سلامتی اور حفاظت کے ذمہ دار ہیں۔ ان کے علاوہ معلومات حاصل کرنے کی Non-Intelligence Agencies کا سالانہ بجٹ ۲۷ ارب ڈالر ہے۔ گویا صرف جاسوسی اور دوسری معلومات کے حصول کے لیے امریکہ سالانہ ۷۷ ارب ڈالر خرچ کر رہا ہے (ہفت روزہ گارجین ‘ ۲۰ تا ۲۶ ستمبر ‘ ص ۵)۔
اس کے باوجود اس پورے نظام کو ایک ایسے مربوط اور مختلف جہتی منصوبے کی کوئی سن گن تک نہیں لگی جس میں بقول امریکہ ۱۹ خودکش ہائی جیکر شامل تھے جنھوں نے دو مختلف ہوائی اڈوں سے کارروائی کا آغاز کیا‘ جس میں ان کے علاوہ کم از کم ۳۰ مزید افراد کے شامل ہونے کا اندازہ ہے‘ جو کئی مہینے سے اس اقدام کی منصوبہ بندی کر رہے تھے‘ بڑے شہروں میں رہ رہے تھے‘ کینیڈا اور جرمنی کے سفر کر رہے تھے‘ کلبوں میں شراب نوشی اور رقص و سرود کی محفلوں میں شریک تھے‘ جم خانوں میں تن سازی کر رہے تھے اور ہوائی پرواز کے اداروں کے باقاعدہ ممبر کی حیثیت سے ہوا پیمائی کی مشقیں کر رہے تھے۔ اگر اتنی خطیر رقم خرچ کر کے اور اتنے جدید اور ترقی یافتہ نظام کی موجودگی میں امریکہ کی قیادت کو ایسی سازشوں اور خوف ناک منصوبوں کی ہوا بھی نہیں لگتی تو پھر اس نظام کا احتساب نہ کرنا کس طرح قابل فہم ہو سکتا ہے۔ نہ سی آئی اے کے سربراہ نے استعفا دیا ہے‘ نہ ایف بی آئی کے سربراہ کو معطل کیا گیا ہے‘ نہ اٹارنی جنرل جو اس پورے نظام کا سربراہ ہے اس پر کوئی آنچ آئی ہے‘ بلکہ اٹارنی جنرل صاحب پوری دیدہ دلیری سے فرما رہے ہیں کہ اب سوال انصاف کا نہیں‘ جوابی کارروائی کا ہے! اصل ناکامی امریکہ کے اپنے نظام کی ہے--- محض اسامہ بن لادن اور افغانستان پر ملبہ گرانے سے امریکہ کے اپنے نظام کی ناکامی پر پردہ نہیں ڈالا جا سکتا۔
یہ ناکامی اور بھی شرم ناک ہو جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ دہشت گردی کے امکانات اور خطرات کے بارے میں بحث و گفتگو کا سلسلہ برابر جاری تھا۔ فروری ۱۹۹۳ء میں اسی ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں بم کا دھماکا ہو چکا تھا جس میں چھے افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اپریل ۱۹۹۵ء میں اوکلاہاما کا واقعہ ہوا تھا جو ایک امریکی دہشت گرد ٹموتھی لیکون کا کارنامہ تھا اور جس میں ۱۶۸ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ابھی دو ماہ پہلے لیکون کو رحم کی ملکی اور عالمی اپیلوں کے علی الرغم پھانسی دی گئی تھی اور اس گروہ کی طرف سے انتقامی کارروائی کا خطرہ موجود تھا۔ اگست ۱۹۹۸ء میں کینیا اور تنزانیہ میں امریکی سفارت خانوں میں ہونے والی دہشت گردی میں ۲۲۴ افراد ہلاک ہوئے تھے اور اس کا مقدمہ چل رہا تھا۔ اکتوبر ۲۰۰۰ء میں امریکی بحری جہازUSS Cole کا واقعہ ہواجس میں ۱۷ افراد ہلاک ہوئے تھے اور اس کا مقدمہ بھی زیرسماعت تھا۔ اسی سال مارچ میں سینیٹ کے انٹیلی جنس کمیشن نے متوقع دہشت گردی سے متنبہ کیا تھا اور یہ رپورٹ حال ہی میں شائع ہو چکی تھی۔ ابھی تین ہفتے پہلے سی آئی اے نے ان دو افراد کے بارے میں تصویر شائع کر کے متوجہ کیا تھا جن کے بارے میں شبہ ہے کہ وہ ۱۱ ستمبر کی ہائی جیکنگ میں شریک تھے۔۷ستمبر کو ایک اور وارننگ موصول ہوئی تھی--- ان سب کی موجودگی میں تمام خفیہ اور برسرزمین ایجنسیوں کی ناکامی اصل لمحہ فکریہ ہے--- لیکن اس کا کوئی ذکر نہ امریکی صدر کے بیانات میں ہے اور نہ میڈیا کی لفظی جنگ میں۔
سارا زور ایک فرد اسامہ بن لادن پر ہے ‘ جو ۱۰ سال سے جلاوطنی اور خانہ بدوشی کی زندگی گزار رہا ہے اورجس کے پاس نہ ٹیلی فون ہے اور نہ باہر کی دنیا سے رابطے کا کوئی اور ذریعہ ہے۔ وہ ایک ایسے ملک میں ہے جس پر برسوں سے شدید ترین نگرانی ہو رہی ہے‘ جس کے پاس نہ جدید ٹکنالوجی ہے اور نہ سفارتی یا ابلاغی سہولتیں‘ جس کے پاس کوئی عالمی میڈیا تو کیا انگریزی میں دنیا تک اپنی بات پہنچانے کی سہولت تک میسر نہیں‘ جس کے خلاف برسوں سے پابندیاں لگی ہوئی ہیں‘ مواصلات کا نظام غیر موثر ہے اورجس کے بنک بیرونی دنیا سے کوئی مالی معاملہ نہیں کر سکتے۔ پھر بھی یہی یقین دلایا جا رہا ہے کہ وہ افغانستان کے ایک غار سے یہ سب تماشے کر رہا ہے۔ اسامہ کی دولت کا بھی بڑا شور ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جن ۳۰ کروڑ ڈالر کا ذکر کیا جاتا ہے (اگر درست بھی ہو تو خود امریکہ کے صرف جاسوسی کے ۷۷ ارب ڈالر اور دفاعی بجٹ کے ۳۵۰ ارب ڈالر کے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتے ہیں) ان کی بھی حقیقت یہ ہے کہ ۱۲ سال پہلے اسامہ بن لادن کو اپنے والد کی میراث میں ۳۰۰ نہیں‘ ۸ کروڑ ڈالر ملے تھے۔ ان میں سے جو کچھ اس کے پاس تھے اسے ۱۹۹۶ء میں سعودی شہریت ختم ہونے پر ساری دنیا میں منجمد کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے وہ نہ کوئی سرمایہ کاری کر سکتا ہے ‘ نہ کسی بنک میں حساب رکھ سکتا ہے اور نہ کسی کاروبار میں عملاً شرکت ممکن ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر چند کروڑ ڈالر اس کے پاس تھے بھی‘ تو ان سے کیا کچھ اور کب تک کیا جا سکتا ہے۔ اکانومسٹ نے اپنے ادارتی مضامین میں اعتراف کیا ہے کہ بن لادن کی دولت کی بات میں بڑا مبالغہ ہے (۲۲ستمبر ‘ ص ۱۷)۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ بن لادن اور اس کے رفقا سخت مالی مشکلات میں مبتلا ہیں:
مشرقی افریقہ کے بم بازوں کے مقدمے میں ایک حالیہ گواہی سے بہرحال ایک شبہہ پیدا ہوتا ہے۔ بن لادن کے سابق رفقا نے بتایا ہے کہ وہ سرمائے کی کمی کا شکار ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ اس کے آدمی پریشانی کا شکار ہیں اور ان کے درمیان مسلسل جھگڑے ہوتے رہتے ہیں۔ اس کے ایک سابق اکائونٹنٹ کو‘ جو امریکہ کا سب سے بڑا گواہ ہے‘ جب قرض دینے سے انکار کیا گیا تو وہ القاعدہ سے باہر آگیا۔ (اکانومسٹ‘ ۱۵ ستمبر ۲۰۰۱ء‘ ص ۱۹)
اگرمالی وسائل کے بارے میں حقائق یہ ہیں تو پھر اسامہ کے خلاف ساری مہم سخن سازی نہیں تو اور کیا ہے۔ خود امریکی عدالت میں سفارت خانوں پر حملے کا جو مقدمہ چل رہا ہے اس میں اسامہ کے خلاف کوئی بات ثابت نہیں ہو سکی۔ اکانومسٹ اپنے اس مضمون میں اعتراف کرتا ہے کہ:
بہرحال سرکاری وکیل یہ ثابت نہیں کر سکے کہ مسٹر بن لادن نے حملوں کا حکم دیا۔
اگر اسامہ بن لادن اور افغانستان کے لیے اس نوعیت کی منظم‘ ہمہ جہتی اور اعلیٰ منصوبہ بندی والی کارروائی ممکن نہیں اور نہ ہی اس کی توقع کسی اور عرب تنظیم سے کی جا سکتی ہے (اور بن لادن کے سوا کسی دوسرے گروہ کی طرف امریکی اور مغربی میڈیا اور حکومتیں کوئی اشارہ تک نہیں دے رہی ہیں) تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس ہولناک کارروائی کا مرتکب کون ہو سکتاہے۔ ہم صرف تاریخی شواہد اور حالیہ قرائن کی بنیاد پرچند مفروضوں کی طرف متوجہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔
پہلا امکان یہ ہے کہ یہ کارروائی کسی منظم امریکی گروہ کی طرف سے ہوئی جو معاشرہ کا باغی اور نظام حکمرانی سے برگشتہ ہو۔ حالیہ تاریخ میں ایسی بہت سی مثالیں سامنے آئی ہیں جو ان خدشات کو تقویت پہنچاتی ہیں۔ ملک میں جرائم کی توکبھی کمی نہیں تھی لیکن پچھلے دنوں اسکول کے بچوں کو منظم انداز میں ہلاک کرنے کے کئی واقعات رونما ہوئے جن میں کیلی فورنیا میں ایک ہی ہلّے میں اسکول کے ۱۲ طلبا کی ہلاکت کی یادیں تازہ ہیں۔ ٹموتھی میکوی نے اوکلاھاما میں ۲۶۸ افراد کو ہلاک کیا اور اس سے زیادہ کو ہلاک کرنے کی خواہش کا عدالت میں اظہار کیا۔ یہ واقعہ ٹموتھی کو پھانسی دینے کے دو ماہ کے اندر واقع ہوا ہے اور یہ دہشت گردی بھی ٹموتھی کے گروہ کا کارنامہ ہو سکتا ہے۔ ایک اور امریکی دہشت پرست گروہ صدر بش کی ریاست ٹکساس کا Jaco نامی منظم گروہ ہے جس نے ایک پورے قصبے کو آگ لگا کر تباہ کیا۔ڈیوڈ کوریش اور اس کے پیروکار بھی ایک باغی گروہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کی طرف سے تخریب کاری کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔
سوچنے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس سوال پر غور کیا جائے کہ اس کارروائی کا فائدہ کس کو ہو سکتا ہے۔ خود امریکہ میں ایسے عناصر ہیں جو ریاست کے اداروں پر اپنی گرفت مضبوط کرنا چاہتے ہیں اور جو آزادی اظہار وعمل پر مختلف قسم کی پابندیوں کے خواہاں ہیں۔ وہ ایسی فضا پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ جمہوری آزادیوں کو لگام دی جا سکے اور ان غالب اور مفاد پرست طبقات کی گرفت ملک پر مضبوط ہو سکے۔ وہ ادارے بھی ہیں جو مزید سرکاری وسائل کے طلب گار ہیں جن میں سیکورٹی ایجنسیاں بھی ہیں۔ ملک کی عسکری صنعتی لابی کا بھی ایک کردار ہو سکتا ہے۔
اس خدشے کو ان معلومات سے تقویت مل رہی ہے جو اب حادثے سے قبل اسٹاک ایکسچینج کی غیرمعمولی سرگرمی کے بارے میں چونکا دینے والے اعداد و شمار سے حاصل ہو رہی ہیں۔ لندن کے روزنامہ انڈی پنڈنٹ کا تجارتی نمایندہ راوی ہے کہ۶ ستمبر کو (واضح رہے کہ ۸ اور ۹ ستمبر کو ہفتہ اور اتوار کی چھٹی تھی) امریکہ کی ان دونوں ہوائی کمپنیوںکے حصص کی فروخت میں غیر معمولی سرگرمی نظر آئی جن کے جہاز اس حادثے میں استعمال ہوئے ہیں اور جن کے حصص کی قیمت حادثے کے بعد ایک دم گر گئی ہے۔ اس وقت تو اسے نظرانداز کردیا گیا مگر اب یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہوا؟ ایک دن میں یونائٹیڈ ایرلائن کے دوہزار معاہدے ہوئے جو اس کے قبل کے یومیہ کاروبار کے اوسط سے ۲۸۵ گنا زیادہ تھا۔ اس دن ایک حصہ کی قیمت ۳۰ ڈالر تھی جو حادثے کے بعد گر کر ۱۸ڈالر رہ گئی۔ امریکن ایئرلائن کے حصص کی فروخت حادثے سے قبل دو تین دن میں اوسط سے ۶۰گنا زیادہ تھی۔ اسی طرح ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں کام کرنے والی دو اہم بین الاقوامی مالیاتی کمپنیوں یعنی Morgan Stanley اور Marsh and McLennan کے حصص ان دنوں اوسط کے مقابلے میں ۲۵گنا اور ۱۰۰ گنا زیادہ فروخت ہوئے۔ سرمایہ کاری کے رجحانات کا ایک ماہر جون ناجارین (Jon Nagarian) ان غیر معمولی سودوں پر اپنے استعجاب کا اظہار یوں کرتا ہے:
جب ہم اتنے غیر معمولی سودے دیکھتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے۔ (انڈی پنڈنٹ‘ ۲۰ ستمبر ۲۰۰۱ء)
صاف معلوم ہوتا ہے کہ کچھ عناصرکو علم تھا کہ کچھ ہونے والا ہے اور انھوں نے اس سے کروڑوں ڈالر کمائے۔
لیکن اس ہولناک واقعے سے سب سے زیادہ فائدہ اسرائیل کو ہوا جس نے اسے فلسطینیوں کو امریکہ کے غم و غصے کا نشانہ بنانے‘ اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے اور نام نہاد امن کے عمل کو سبوتاژ کرنے کے لیے استعمال کیا۔ حادثے کے آدھے گھنٹے کے اندر ہنری کسنجر نے اسامہ بن لادن کا نام لیا اور پورے نیٹ ورک کو ختم کرنے کی بات کی۔ اسرائیل کے وزیراعظم شیرون نے حادثے کے فوراً بعد کہا کہ ’’عرفات ہمارا بھی لادن ہے‘‘ اور عرفات سے اپنی طے شدہ ملاقات منسوخ کر دی۔ انڈی پنڈنٹ کا نمایندہ یروشلم سے لکھتا ہے:
اسرائیل‘ امریکہ کے اس المیے کو فلسطینیوں سے اپنے تنازعے میں سیاسی فائدے حاصل کرنے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ شیرون اور ان کے ساتھی عرفات کا اسامہ بن لادن سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ امریکی حملوں نے فلسطینیوں کو تنہا کر دیا ہے اور مغرب میں ان کے لیے جو بچی کھچی ہمدردی تھی‘ اسے بہا لے گئے ہیں۔ (۱۶ ستمبر‘ ۲۰۰۱ء)
یہ بھی ایک عجوبہ ہے کہ انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون نے ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں جن ۴۶ ممالک کے لوگوں کی ہلاکت کی خبر دی ہے ان میں اسرائیل کا کوئی ایک بھی شہری شامل نہیں ہے۔ نیویارک میں بہت زیادہ یہودیوں کی رہایش ہے اور ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں ۴ ہزار سے زیادہ یہودی کام کرتے تھے مگر مرنے والوں کے بارے میں جو معلومات اب تک شائع ہوئی ہیں ان میں یہودیوں کا کوئی ذکر نہیں۔ ایک اطلاع ۵ ‘۶ اسرائیلیوں کی گرفتاری اور تفتیش کی شائع ہوئی تھی مگر اسے فوراً دبا دیا گیا۔ کینیڈا سے Stern Intel کی خبر ہے کہ امریکہ کے فوجی جاسوسی ذرائع کے مطابق اس میں اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کا ہاتھ ہے۔ ایران کے رہبر خامنائی نے اپنے تعزیتی بیان میں کہا ہے کہ:
اس کا ثبوت موجود ہے کہ امریکہ کے بڑے شہروں میں حالیہ حملوں میں صیہونی ملوث تھے (تہران ٹائمز‘ ۱۹ ستمبر ۲۰۰۱ء)
اگر اسرائیل اور صیہونی تحریک کی تاریخ پر نگاہ ڈالی جائے تو موساد کے کردارکے خدشے کو تقویت ملتی ہے۔دوسری عالمی جنگ کے دوران صیہونی دہشت گردوں نے خود یہودی تارکان وطن سے بھرے ہوئے ایک جہاز کو اس لیے ڈبو دیا تھا کہ برطانوی حکومت نے ان غیر قانونی یہودیوں کو فلسطین میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی تھی ۔ اس طرح انھوں نے عالمی رائے عامہ کو متاثر کرنے کے لیے خونی ڈراما رچایا۔ بیت المقدس میں پرنس ایڈورڈ ہوٹل کی تباہی بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ ۱۹۶۷ء کی جنگ سے قبل خود امریکہ کی نیوی کے ایک جہاز USS Liberty کو اسرائیل نے میزائل مار کر ڈبو دیا تھا اس لیے کہ اس نے اسرائیل کے مصر پر اچانک حملے کی تیاریوں کو مانٹیر کر لیا تھا۔ اس پس منظر میں اور ان سیاسی فوائد کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے جو اسرائیل حاصل کر رہا ہے اور عربوں کو پوری مغربی دنیا میں نفرت اور انتقام کا نشانہ بنوا رہا ہے یہ شبہ کافی تقویت حاصل کرلیتا ہے کہ اس حادثے کے پیچھے اسرائیل کی خفیہ ایجنسی کا ہاتھ ہے جو اس نوعیت کے آپریشن کی صلاحیت اور مہارت رکھتی ہے۔ ایسا ہی ڈراما روس میں شیشان کے خلاف حالیہ کارروائی سے پہلے ماسکو اور ولگاڈونسک میں (۱۳ ستمبر ۱۹۹۹ء) میں دو آٹھ منزلہ عمارتوں میں بم کے دھماکوں کی شکل میں کیا گیا تھا جن میں ۳۰۰ افراد کی ہلاکت واقع ہوئی اور جسے بنیاد بنا کر شیشان پر نئی فوج کشی ہوئی تھی۔
انڈی پنڈنٹ کا مضمون نگار پیٹرک کوک برن نیویارک اور واشنگٹن کی حالیہ دہشت گردی کے پس منظر میں ماسکو سے اس واقعے کے بارے میں وہاں کی رائے عامہ کے حالیہ احساس کو یوں بیان کرتا ہے:
۱۰ میں سے صرف ایک کو یقین تھا کہ یہ چیچن کا کام ہے۔ صرف آغاز میں ہمارا یہ خیال رہا کہ یہ چیچن نے کیا ہے۔ اب ہم سمجھتے ہیں کہ کریملن کے لوگوں نے اقتدار میں رہنے کے لیے یہ کیا۔
یہ ہیں میکاولی سیاست کے طریق واردات۔ نیویارک اور واشنگٹن میں جو کچھ ہوا اس راز کا پردہ بھی ایک دن ضرور کھلے گا لیکن آثار تو اب بھی نظر آ رہے ہیں کہ ’’کوئی معشوق ہے اس پردہ زنگاری میں!‘‘
جن افراد پر ہوائی جہازوں کو اغوا کرنے کا الزام ہے ان کے بارے میں جو متضاد باتیں سامنے آ رہی ہیں وہ سارے معاملے کو مخدوش بنا دیتی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ القاعدہ کے مجاہد تھے اور ساتھ ہی ان کی شراب نوشی‘ رقص و سرود اور گرل فرینڈز کے ساتھ رنگ رلیوں کی داستانیں بیان کی جاتی ہیں--- ایک طرف جہاد اور حوروں کی باتیں ہیں اور دوسری طرف یہ طرز زندگی‘ ان میں کیا مطابقت ہے؟ صاف ظاہر ہے کہ اس سخن سازی کے ذمہ داروں کو اسلامی آداب جہاد اور شہادت کی الف بے سے بھی واقفیت نہیں۔ جن ۱۹ افراد کے نام آئے ہیں ان میں کم از کم ایک عیسائی ہے‘ کیا عیسائی بھی جہاد اور شہادت کا طلب گار تھا۔ ان میں سے کم از کم پانچ افراد کے بارے میں تو یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ وہ زندہ ہیں‘ سعودی عرب اور مراکش میں موجود ہیں اور ان کا کوئی تعلق ہوائی جہازوں کے اغوا سے نہیں۔ بلکہ ان میں سے تین نے تو کہا ہے کہ وہ امریکہ کے ابلاغ عامہ کے اداروںکے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ کریں گے۔ صاف ظاہر ہے کہ جو نام دیے جا رہے ہیں وہ جھوٹے ہیں اور اصل مجرموں کا کسی کو پتا نہیں۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اوکلاہاما کے حادثے کے موقع پر بھی عربوں کومتہم کیا گیا تھا اور ان کے خلاف ملک گیر مہم شروع ہو گئی تھی۔ وہ تو اتفاقاً ٹموتھی میکوی گرفت میں آگیا اور معلوم ہوا کہ یہ سب کچھ ایک امریکی دہشت گرد کا کیا دھرا تھا۔ مقدمے کے دوران یہ حقائق بھی سامنے آئے کہ اس کے گروہ میں ۵۰۰ تک افراد ہو سکتے ہیں لیکن گروہ اتنا منظم ہے کہ ٹموتھی کے ساتھ جو دو افراد گرفتار ہوئے تھے ان پر بھی ٹموتھی نے کوئی حرف نہ آنے دیا اور تمام قرائن (circumstantial evidence)کے باوجود ان کو بری کر دیا گیا۔ عدالت کے سامنے ٹموتھی کے بیانات بڑے اہم ہیں۔ اس نے اس دہشت گردی کا نہ صرف اعتراف کیا بلکہ اسے حق بجانب قرار دیا اور صاف الفاظ میں کہا کہ میں امریکہ کو متنبہ کرنا چاہتا تھا اور زیادہ سے زیادہ افراد کو ہلاک کرنا میرا مقصد تھا۔ اس نے آخری وقت تک معافی نہیں مانگی بلکہ اپنی موت کے وقت جو نظم پڑھی اس میں اپنے کارنامے پر فخر کا اظہار کیا گیا ہے۔ ٹموتھی تنہا نہیں‘ اس کے اپنے گروہ میں سیکڑوں افراد ہیں اور اس جیسے دسیوں دہشت پرست گروپ امریکہ میں سرگرم عمل ہیں۔
۱۱ ستمبر کی تباہی جس منظم انداز میں‘ جس اعلیٰ صلاحیت کے ساتھ‘ اور جتنے باہمی ارتباط (coordination) کے ساتھ کی گئی وہ کسی بیرونی گروہ کا کام ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ تو اسی وقت ممکن ہے کہ جب اس میں امریکہ کے بہت ہی تربیت یافتہ‘ باصلاحیت‘ well-connected اور پورے نظام کے راز آشنا شریک ہوں۔ انھوں نے عربوں کے ناموں کو ڈھال کے طور پر استعمال کیا ہے اور حکومت اور میڈیا‘ اسامہ اور افغانستان کو قربانی کے بکرے کے طور پر استعمال کر کے اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے اور اصل مجرموں تک رسائی سے آنکھیں بند کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔یہ ایک مجرمانہ فعل اور عالم اسلام کے خلاف کھلی جارحیت کے مترادف ہے۔
ایک اصولی مسئلہ یہ ہے کہ کسی بھی ملزم پر جرم ثابت ہونے سے پہلے محض شبہہ کی بنیاد پر کوئی کارروائی صریح ظلم اور فتنہ و فساد کی جڑ ہے۔ آج امریکہ طاقت کے نشے میں مست ہو کر محض شبہہ کی بنیاد پر افراد ہی نہیں اقوام اور ملک کو تباہ کرنے‘ انھیں پتھر کے دور کی طرف لوٹانے‘ اور نیست و نابود کرنے کی بات کر رہا ہے اور قانون کی حکمرانی ‘ عالمی انصاف اور ہوش و خرد کی بات کرنے والوں کو سّب و شتم کا نشانہ بنا رہا ہے۔ یہ فطرت کے خلاف اور انسانیت کے لیے قطعاً ناقابل قبول ہے ؎
وہی قاتل‘ وہی شاہد‘ وہی منصف ٹھہرا
اقربا میرے کریں خون کا دعویٰ کس پر
امریکہ اور مغربی ممالک کی قیادت کو اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ جسے وہ دہشت گردی کہہ رہے ہیں اور اس کا قلع قمع کرنے کے لیے اکیسویں صدی کی سب سے لمبی اور ہمہ گیر جنگ کے لیے لنگرلنگوٹ کس رہے ہیں اس کی حقیقت کیا ہے اور اس نوعیت کے مسائل و معاملات سے کس طرح نمٹا جا سکتا ہے۔
دہشت گردی کا جو پہلو ناقابل دفاع اور لائق مذمت و مزاحمت ہے وہ سیاسی اور مبنی برحق مقاصد کے حصول کے لیے ایسے طریقے اور راستے اختیار کرنا ہے جس کے نتیجے میں معصوم انسانوں کی جانیں ضائع ہوں۔ یہ ناقابل معافی جرم ہے اور اس سے لوگوں کو باز رکھنا انسانیت کی خدمت اور خود ان نادان انسانوں سے خیرخواہی ہے جو جان بوجھ کر یا محض حالات کی رَو میں ایسے جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ لیکن جو بات قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ اگر معاملات کی اصلاح کے جائز اور معقول راستے بند کر دیے جائیں گے ‘ اگر محض قوت اور ہٹ دھرمی‘ مفاد پرستی ‘ تعصب ‘ غرور ‘ مادی اور عسکری برتری اور علاقائی یا عالمی بالادستی کے مذموم مقاصد کے لیے دوسرے انسانوں کو ان کے حق سے محروم رکھا جائے گا اور اصلاح احوال کے امکانات کو معدوم کر دیا جائے گا تو اس کا فطری ردعمل رونما ہوتا ہے اور وہ صحیح کے ساتھ غلط راستے بھی اختیار کر لیتا ہے۔ اس لیے تاریخ کا سبق یہ ہے کہ ظلم اور ناانصافی کی موجودگی میں اور ان کی سرپرستی کے ساتھ اور ان اسباب سے صرف نظر کر کے جو افراد‘ گروہوں اور اقوام کو تشدد پر مبنی جدوجہد کی راہ پر ڈالتے ہیں‘ اس سے حالات کی اصلاح ممکن نہیں۔ امریکہ اور عالمی سرمایہ داری کے خلاف جو نفرت اور بے زاری ہے وہ عالمی حقائق ہیں اور محض عسکری اقدامات سے دہشت گردی کا خاتمہ ناممکن ہے۔ برطانوی ممبر پارلیمنٹ جارج گیلرے نے پارلیمنٹ میں اپنے خطاب میں صحیح کہا ہے کہ اگر آپ ایک بن لادن کو ماردیں گے تو ایک ہزار بن لادن پیدا ہو جائیں گے۔
اصل مسئلہ ان اسباب کی کھوج اور ان کی اصلاح ہے جن کے نتیجے میں دنیا کے بیشتر علاقوں میں بشمول امریکہ اور یورپ بغاوت اور بے چینی کی لہریں اٹھ رہی ہیں اور مظلوم انسان اپنی جان پر کھیل جانے کے لیے مجبور ہو رہے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ بموں‘ میزائلوں اور انسانی بستیوں پر آگ برسانے سے نہیں لڑی جا سکتی۔ یہ جنگ تو اسی نوعیت کی جنگ ہے جو غربت‘ افلاس‘ بیماری اور جہالت جیسے فتنوں کے خلاف لڑی جاتی ہے۔ یہ غصہ اور طاقت سے نہیں‘ حکمت اور تدبیر سے لڑی جا سکتی ہے۔ انسانی مسائل کی گرہ کشائی کا راستہ ترک کر کے محض عسکری قوت سے جب بھی انسانوں کو دبانے کی کوشش ہوئی ہے وہ ناکام رہی ہے۔ تشدد کو بڑھانے اور ظلم میں اضافہ کرنے کا اس سے زیادہ موثر کوئی اور طریقہ نہیں کہ انتقام کی آگ میں جل کر عوامی تحریکوں کو قوت سے کچلنے کی کوشش کی جائے۔
عالمی استعمار نے ۲۰۰ سال یہ جنگ لڑی اور بالآخر آزادی کی تحریکات سے معاملہ کرنا پڑا اور کل کے دہشت گرد آج کے سیاسی قائد اور حکمران بن گئے۔ امریکہ اس کا تجربہ ویت نام‘ چلی اور کمبوڈیا میں کر چکا ہے۔ روس نے افغانستان میں یہی کھیل کھیلا اور پھر بھی سبق نہ سیکھا اور آج شیشان میں پھر اسی حماقت اور ظلم کا ارتکاب کر رہا ہے۔ برطانیہ نے ساری دنیا میں شکست کھانے کے بعد بالآخر شمالی آئرلینڈ میں ۲۰ سال کی عسکری جنگ کے بعد اسی شین فین سے معاملات طے کیے جس کا نام لینا اور جس کی قیادت کی آواز اور تصویر بھی ریڈیو اور ٹی وی پر ممنوع تھی۔ اسرائیل فلسطین میں یہی کھیل کھیل رہا ہے اور بھارت جموں و کشمیر اور ۱۶دوسرے علاقوں میں سیاسی مسائل کے عسکری حل کی ناکام کوشش میں گرفتار ہے۔ مسئلے کے حل کا کوئی راستہ اس کے سوا نہیں کہ ٹھنڈے دل سے امن و آشتی کو تہ و بالا کرنے والے عناصر اور اسباب پر غور ہو اور دہشت گردی کی طرف لے جانے والے عوامل سے نجات پائی جائے۔
مغرب میں بھی جن کی نگاہ زندگی کے حقائق اور تاریخ کے پیغام پر ہے وہ یہی بات کہہ رہے ہیں۔ روزنامہ انڈی پنڈنٹ کا مشہور سیاسی تبصرہ نگار روبرٹ فسک (Robert Fisk)حالیہ سانحے پر مشرق وسطیٰ کے المیے کے تناظر میں جن خیالات کا اظہار کرتا ہے وہ امریکی قیادت ہی نہیں‘ دنیا کے سب حکمرانوں کے لیے بڑا چشم کشا ہے:
اب بات یہاں تک آگئی ہے۔ مشرق وسطیٰ کی مکمل جدید تاریخ‘ سلطنت عثمانیہ کا زوال‘ اعلان بالفور‘ لارنس آف عریبیہ کی کذب بیانیاں‘ عرب بغاوت‘ ریاست اسرائیل کا قیام‘ عربوں اور اسرائیل کے درمیان چار جنگیں اور عربوں کی سرزمین پر اسرائیل کے وحشیانہ قبضے کے ۳۴ سال… سب کچھ چند گھنٹوں میں مٹ گیا جب پسے ہوئے اور ذلیل کیے گئے لوگوں کی نمایندگی کا دعویٰ کرنے والوں نے ایسی مرعوب کن بے رحمی اور چالاکی سے پلٹ کر حملہ کیا جو وہی لوگ کرتے ہیں جو یقینی تباہی سے دوچار ہوں۔ کیا یہ مناسب اور اخلاقی رویہ ہوگاکہ اس کے بارے میں اس قدر جلدی لکھ دیا جائے جب کہ کوئی ثبوت نہیں‘ گواہی میں معمولی سی بات موجود نہیں‘ اور بربریت کا آخری واقعہ جو اوکلاہاما میں ہوا تھا وہ اپنے ہی گھر کے پروردہ امریکیوں کا کیا دھرا تھا؟ میرا خدشہ ہے کہ ایسا (اب بھی) ہے۔ امریکہ حالت جنگ میں ہے اور اگر میں فاش غلطی نہیں کر رہا تو مشرق وسطیٰ میں کئی ہزار لوگ مزید مارے جائیں گے اور شاید امریکہ میں بھی۔ ہم میں سے کچھ لوگ ’’آنے والی تباہ کاری‘‘ سے خبردار کرتے رہے لیکن ہم نے اس ڈرائونے خواب کا سوچا بھی نہ تھا۔
مگر یہ جمہوریت اور دہشت گردی کی جنگ نہیں ہے جس کا یقین آیندہ گھنٹوں اور دنوں میں دنیا کو دلایاجائے گا۔ یہ ان امریکی میزائلوں کے بارے میں بھی ہے‘ جو فلسطینیوں کے گھروں پر گرتے ہیں۔ ان واقعات کے بارے میں بھی ہے جب امریکی ہیلی کاپٹروں نے ۱۹۹۶ء میں لبنانی ایمبولینس پر میزائلوں سے حملہ کیا تھا اور اس کے چند دن بعد ’قانا‘ نامی گائوں میں امریکہ نے گولے داغے تھے‘ امریکہ کے اتحادی‘ اسرائیل کی پروردہ لبنانی ملیشیا نے مہاجر بستیوں میں قتل و غارت‘ لوٹ مار اور عصمت دری کا بازار گرم کیا تھا۔ نہیں‘ کوئی شبہ نہیں کہ امریکہ میں جو کچھ ہوا ہے وہ ناقابل بیان شر ہے۔ ۲۰ ہزار یا ۳۵ ہزار معصوم لوگوں کی ہلاکت کے سانحے پر فلسطینیوں کا جشن منانا صرف اُن کی مایوسی کا مظہر نہیں ہے بلکہ سیاسی عدم بلوغ کا بھی ہے اس لیے کہ وہ اپنے دشمن اسرائیل پر اسی قسم کے الزامات عائد کرتے رہتے ہیں یعنی غیرمتناسب کارروائی۔
مگر ہمیں متنبہ کر دیا گیا تھا: زوردار تقریروں کے کئی سال‘ امریکہ کے قلب پر حملے کرنے کے عہد‘ ’’امریکی سانپ‘‘ کا سر کچلنے کے اعلان۔ ہم انھیں خالی خولی دھمکیاں سمجھتے رہے۔ قدامت پسند‘ غیر ترقی یافتہ‘ غیر جمہوری اور بدعنوان حکمرانوں کے گروہ اور چھوٹی سی اشتعال انگیز تنظیمیں اسی طرح کے بے بنیاد دعوے کس طرح پورے کر سکتے ہیں! اب ہم جان چکے ہیں۔ گذشتہ روز کی تباہی و بربادی کے چند گھنٹوں کے بعد‘ میں امریکہ اور اُس کے اتحادیوں پر ہونے والے اُن بڑے اور غیرمعمولی حملوں کا سوچنے لگا‘ جو گذشتہ روز کے واقعے کے بعد بہت ہی ہیچ اور معمولی محسوس ہونے لگے ہیں۔ ۲۳ اکتوبر ۱۹۸۳ء کو خودکش بم بازوں نے ۲۴۱ امریکی ملازمین اور ۱۰۰ فرانسیسی چھاتہ برداروں کو ہلاک کر دیا تھا‘ اُس وقت تک ایسے حملوں کی کوئی نظیر موجود نہ تھی۔ بحریہ پر حملے اور فرانسیسیوں کی تباہی کے درمیان سات سیکنڈ کا وقفہ ہوا تھا۔ اس کے بعد سعودی عرب میں قائم امریکی اڈوں پر حملے ہوئے تھے اور پچھلے برس عدن میں امریکی بحری جہاز کو ڈبونے کی کوشش تقریباً کامیاب ہو گئی تھی۔ ہم مشرق وسطیٰ کے نئے ہتھیار: مایوس لیکن جان پر کھیل جانے والے خودکش بم باز کو پہچاننے میں بالکل ناکام رہے جس کی برابری امریکی یا دوسرے یورپی نہیں کرسکتے۔ عرب کہیں گے کہ امریکہ کی ساری طاقت‘ دولت اور گھمنڈ بھی آج تک کی دنیا کی سب سے بڑی طاقت کا اس تباہی سے دفاع نہ کر سکے۔
اب لازمی اور فطری طور پر‘ بالکل غیر اخلاقی طرز اختیار کرتے ہوئے گذشتہ ایام کی تاریخی غلطیوں‘ ناانصافیوں اور خون ریزیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جائے گی جو کل کے اس المیے کی پشت پر ہیں۔ ہمیں بتایا جائے گا کہ یہ بے مغز (mindless) ’’دہشت گردی‘‘ ہے۔ ’’بے مغز‘‘ قرار دینا بہت ضروری ہے۔ اگر ہم اس حقیقت کو سمجھنے کے قابل نہیں ہیں کہ تین عظیم مذاہب کی سرزمین میں امریکہ سے کس قدر نفرت کی جاتی ہے تو بے مغز کہنا ضروری ہے۔ ایک عرب سے معلوم کریں کہ وہ ۲۰‘ ۳۰ ہزار معصوم افراد کی موت کو کس نگاہ سے دیکھتا ہے۔ وہ عرب مرد یا عورت‘ مہذب اور باشعور شہریوں کی طرح اسے ایک ناقابل برداشت جرم قرار دے گا لیکن وہ یہ ضرور جاننا چاہیں گے کہ آخر ہم نے یہ الفاظ اُس وقت کیوں استعمال نہیں کیے جب پابندیوں کے باعث عراق میں ۵ لاکھ بچے ہلاک ہو گئے۔ جب لبنان میں‘ ۱۹۸۲ء میں اسرائیل نے ۱۷ ہزار ۵ سو شہری حملہ کر کے ہلاک کر دیے۔ ہم نے مشرق وسطیٰ میں ایک قوم کو یہ حق کیوں دیا کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کو نظرانداز کر دے اور اُن تمام ممالک پر پابندیاں عائد کر دیں جنھوں نے انھیں نظرانداز کیا۔ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ گذشتہ ستمبر میں مشرق وسطیٰ میں جو شعلے بھڑک اُٹھے اُس کی کیا وجوہات تھیں۔ عرب علاقوں پر اسرائیل کا تسلط ‘ فلسطینیوں کی علاقہ بدری‘ اسرائیل کے ٹارچر‘ ریاست کے کرائے گئے قتل‘ ان سب معاملات کو چھپانا چاہیے کہ کوئی واقعہ بھی گذشتہ دن کی اجتماعی تباہ کاری کے لیے وجہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اسرائیل پر کوئی الزام عائد نہیں کیا جا سکتا--- ہم یقین کر سکتے ہیں کہ صدام حسین جیسے احمق آمر اس کا دعویٰ کریں گے لیکن تاریخ کے برے اثرات اور اس میں ہمارا کردار‘ کٹہرے میں خودکش بم بازوں کے شانہ بشانہ کھڑا کیا جائے۔ ہمارے اپنے وعدوں سے انحراف‘ یہاں تک کہ سلطنت عثمانیہ کی تباہی‘ اس المیے پر منتج ہوئی۔ اسرائیل کے جنگی اخراجات اتنے طویل عرصے سے امریکہ کی جانب سے ادا ہو رہے ہیں کہ وہ اسے مفت ہی سمجھتا ہے۔آیندہ یہ سلسلہ نہیں چلے گا۔ یہ اقدام غیر معمولی حوصلہ مندی اور دانش کا مظہر ہوگا اگر امریکہ ایک لمحے کے لیے ٹھہر کر دنیا میں اپنے کردار پر‘ عربوں کی تکالیف پر امریکی حکومت کی بے حسی‘ اور اپنے موجودہ صدر کی بے عملی پر غور کرے۔
بے شک امریکہ یہ چاہتا ہے کہ وہ ’’عالمی دہشت گردی‘‘ کے خلاف جوابی کارروائی کرے‘ اُنھیں کون الزام دے سکتا ہے؟ ’’دہشت گردی‘‘ کے اشتعال انگیز اور کبھی کبھار نسل پرستی والے لفظ کے استعمال پر کون ہے جو امریکہ پر انگلی اٹھا سکتا ہے۔ لوگ مل جائیں گے جو ہر اُس تجویز کو فوراً ردّ کر دیں گے جس میں عالم گیر پیمانے پر ہونے والی اس دہشت گردی کے عمل کی حقیقی تاریخی وجوہات تلاش کرنے پر زور دیا گیا ہو۔ لیکن اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو ہم ایسے زبردست بحران کا شکار ہو جائیں گے جو ہم نے ہٹلر کی موت اور جاپان کی شکست کے بعد نہیں دیکھا ہے۔ کوریا اور ویت نام کی اہمیت تو اب مقابلتاً کچھ بھی نہیں رہی ہے۔
آٹھ سال قبل‘ میں نے ٹیلی وژن پر ایک سلسلہ وار پروگرام کیا تھا اور یہ وضاحت کرنے کی کوشش کی تھی کہ مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد مغرب سے نفرت کیوں کرتی ہے۔ گذشتہ رات‘ مجھے وہ مسلمان یاد آئے جن کے حالات ریکارڈ کیے گئے تھے۔ جن کے گھر امریکہ کے بنائے ہوئے بموں اور ہتھیاروں سے تباہ ہو گئے تھے‘ وہ کہہ رہے تھے کہ خدا کے سوا کوئی ہماری مدد کو نہ آئے گا۔ مذہب‘ ٹکنالوجی کے مدمقابل ہے۔ خودکش بم باز‘ جوہری طاقت سے نبرد آزما ہے۔
واشنگٹن پوسٹ میں ایک امریکی پروفیسر رابرٹ جی کیویان (Robert G. Kavian) نے بھی بڑے واشگاف انداز میں خود احتسابی کی دعوت دی ہے۔ یہ تبصرہ جسے ہفت روزہ گارجین (۲۰-۲۶ستمبر ۲۰۰۱ء ‘ ص ۳۰)نے اپنی تازہ ترین اشاعت میں شائع کیا ہے ‘ سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے:
ہمارے سیاسی رہنمائوں میں سے کسی نے بھی ان اہم سوالات سے بحث نہیں کی ہے جو ہماری نئی حیثیت سے اٹھے ہیں۔ ملک اپنی خوش حالی میں مگن اور مطمئن ہے۔ باہر کی دنیا سے یا کہیں اور سے ناخوش گوار خبروں کو ہم نظرانداز کرتے رہے۔ مگر ہماری طاقت کی حد اور حیثیت کیا ہے؟ اس کا ادراک ہمیں گذشتہ ہفتے ہوا‘ اگرچہ خاصی تکلیف اٹھا کر--- ہم دنیا کی رہنما عالمی طاقت ہیں لیکن ہم بہت کم دنیا کی رہنمائی کرتے ہیں۔ جب ہم کرتے ہیں تو یہ عسکری صورت حال میں ہوتا ہے‘ جیسے خلیج کی جنگ یا کوسووا۔ حالیہ تاریخ میں کون سا سنگین مسئلہ ہے جو امریکہ کی پہل کاری کی وجہ سے حل ہوا ہو۔ دنیا کے مفلس ترین لوگوں کی مدد کے لیے ہم دوسرے صنعتی ملکوں کے مقابلے میں فی کس بہت کم دیتے ہیں۔ بہت سے ایسے مسائل پر جس پر دوسرے سمجھتے ہیں کہ اجتماعی اقدام ضروری ہے‘ ہم الگ کھڑے ہوتے ہیں‘ مثلاً بارودی سرنگوں پر پابندی اور جوہری تجربات کی آزمایش سے لے کر ماحول میں گرین ہائوس گیسوں کے اخراج تک۔
--- بڑی طاقتوں کو جس معاشرتی ماحول میں وہ کام کرتی ہیں اس کی بھی فکر کرنا چاہیے۔ ایک دشمن معاشرتی ماحول ایک باوسائل دشمن کی طرح کسی بڑی طاقت کے نیچے سے موثرانداز سے زمین سرکا سکتا ہے۔ امریکیوں کونوٹس لینا چاہیے کہ ان کے لیے ماحول بگڑ رہا ہے۔ مثال کے طور پر ہمیں احساس ہے کہ غربت سے پیدا ہونے والی بیماریاں جو تقریباً ختم ہو گئی تھیں‘ مثلاً تپ دق خود ہمارے اپنے ملک میں انتقامی انداز میں پھر حملہ آور ہو رہی ہیں۔ ایڈز کی وبا بھی ایک مصیبت کی علامت ہے۔ ہم اس سے بھی واقف ہیں کہ دنیا کے محروم لوگ مال دار ممالک میں دولت کمانے کے لیے غیر قانونی داخلے کے لیے کیا کچھ خطرات مول لیتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ منشیات کی تجارت کو روکنے کے لیے ہم نے جو بھی رکاوٹیں عائد کیں‘ انھیں عبور کر لیا گیا۔
نئے عالمی نظام کا ایک پہلو فاصلے کا ختم ہونا ہے۔ اب زمین پر کوئی بھی جگہ دُور نہیں رہ گئی ہے۔ عالمی گائوں میں غریب جانتے ہیں کہ وہ کتنے غریب ہیں‘ اور امیر کتنے بہتر حال میں ہیں۔ وسائل رکھنے والے غریب اپنی حیثیت کو خاموشی سے قبول نہیں کرتے ہیں بلکہ اسے تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان میں سے لاکھوں ان مقاصد کے حصول کے لیے امریکہ میں گھس آئے ہیں‘ جیسا کہ گذشتہ ہفتے کے حملہ آور۔ یقینا یہ ایک مختلف زمرے سے تعلق رکھتے ہیں: ایسے مظلوم جو اپنے پر ظلم کو ہضم کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ ( ہفت روزہ گارجین‘ ۲۰-۲۶ ستمبر ۲۰۰۱ء)
یہ دو طویل اقتباس خود مغربی دنیا کے سوچنے سمجھنے والے عناصر کی فکرکی عکاسی کرتے ہیں۔
امریکی اور یورپی قیادت جب تک مندرجہ ذیل حقائق کو تسلیم نہیں کرتی‘ فساد اور تباہی سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں۔
(الف) دہشت گردی صرف ایک علامت اور مظہر ہے‘ جب تک اس کے اسباب تک رسائی نہ حاصل کی جائے اور ان عوامل کا سدباب نہ کیا جائے جو اس کی طرف لے جانے والے ہیں‘ حالات درست نہیں ہو سکتے۔
(ب) دہشت گردی محض ایک جگہ اور ایک واقعے سے عبارت نہیں۔ ظلم جہاں بھی ہو‘ انسانیت کے لیے ایک خطرہ ہے۔ محض نیویارک اور واشنگٹن ہی میں مظلوموں کا خون نہیں بہا‘ یہ خون ساری دنیا میں بہہ رہا ہے‘ اور اس باب میں انسانوں کے درمیان تمیز و تفریق (discrimination) خود دہشت گردی کے فروغ کا ایک سبب ہے۔
(ج) دہشت گردی اپنی ہر شکل میں قابل مذمت ہے۔ خواہ اس کے مرتکب افراد ہوں‘ یا گروہ یا حکومتیں۔
(د) بڑی طاقتوں اور حکمرانوں کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہے۔ وہ دہشت گردی کا شکار نہیں‘ اس کے اصل مرتکب ہیں۔جب تک وہ اپنا رویہ اور پالیسی تبدیل نہیں کرتے حالات کی اصلاح ممکن نہیں۔
(ھ) تشدد کا جواب تشدد نہیں اور نہ دلیل کی جگہ لفاظی (rhetoric) لے سکتی ہے۔ اصلاح کا راستہ مشکل بھی ہے اور جاں گسل بھی۔ مگر اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔
(و) حالات کی اصلاح کے لیے سب کو تیار ہونا چاہیے‘ وہ بھی جو اصحاب اقتدار ہیں اور قوت و سطوت کے مالک ہیں اور وہ بھی جو مظلوم ‘ مجبور اور محکوم ہیں مگر اپنے حق کے حاصل کرنے کے لیے سینہ سپر ہیں۔ لیکن اصلاح کا دارومدار حکمران عناصر اور بڑی طاقتوں پر زیادہ ہے۔ ان کو سمجھنا چاہیے کہ:
جن کے رتبے ہیں سوا ان کو سوامشکل ہے