اکتوبر ۲۰۰۱

فہرست مضامین

دَور فِتن میں راہ عمل

خرم مراد | اکتوبر ۲۰۰۱ | فہم قرآن

Responsive image Responsive image

سورہ کہف کا گہرا تعلق فتنہ دجال سے ہے۔ مستند احادیث سے ثابت ہے کہ جو شخص جمعہ کے روز  سورہ کہف پڑھے گا وہ دجال کے فتنے سے محفوظ رہے گا۔ بعض میں شروع کی ۱۰ آیات کی تلاوت اور بعض میں آخری ۱۰ آیات کی تلاوت کا ذکر ہے۔

دجال کے موضوع پر بہت سی مستند احادیث ہیں۔ ان احادیث سے جو باتیں نمایاں ہو کر سامنے آتی ہیں‘ ان میں تین باتیں اہم ہیں۔ پہلی یہ ہے کہ وہ کفر اور خدا سے انکار کا علانیہ علم بردار ہوگا‘ اُسی کی طرف دعوت دے گا ‘ اور خدائی کا دعویٰ بھی کرے گا۔ دوسری بات جو ان احادیث سے ثابت ہوتی ہے‘ وہ یہ ہے کہ اُس کو فطرت اور قدرت کی طاقتوں پربے پناہ قابو حاصل ہوگا۔ پہلی بات احادیث میں اس طرح بیان ہوئی ہے کہ اُس کی پیشانی پر ک‘ ف‘ ر  ’’کفر‘‘ صاف صاف لکھا ہوگا۔ دوسری بات احادیث میں مختلف انداز میں  اس طرح بیان ہوئی ہے کہ اُس کی آواز مشرق اور مغرب میں سنائی دے گی‘ وہ برسوں کی مسافت اور فاصلہ گھنٹوں اور منٹوں میں طے کرے گا‘ بارش بھی برسائے گا اور کھیتی بھی اُگائے گا‘ اور کھیتی اور زراعت کی مقدار بھی بے حد بڑھا دے گا۔ تیسری بات جو مختلف انداز میں بیان ہوئی ہے‘ وہ یہ ہے کہ اُس کا اثر بہت حیرت انگیز طور پر نفوذ کرے گا۔ اس کو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ آدمی صبح مومن ہوگا تو شام کو کافر ہو جائے گا۔ ساتھ ہی یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اُس وقت ایمان کی راہ پر چلنا بڑا دشوار اور کفر کی راہ پر چلنا بڑا آسان ہوگا۔ اس کے ساتھ ایک جنت ہوگی‘ جس نے اُس کا ساتھ دیا‘ اُس کی زندگی جنت کی زندگی ہو گی‘ اور جس نے اُس کا ساتھ نہ دیا‘ اُس کی زندگی جہنم کی زندگی ہو گی۔

یہ ان خصوصیات کا خلاصہ ہے۔ ان احادیث کو دیکھ کر ہمارے دور کے بعض لوگوں نے یہ کہا کہ دجال کسی شخص کا نام نہیں ہے بلکہ دراصل ایک پوری تہذیب کا نام ہے ‘ اور مغربی تہذیب اپنی خصوصیات کے لحاظ سے اُن خصوصیات کی حامل ہے جن کا ذکر ان احادیث میں کیا گیا ہے۔ میرے خیال میں یہ رائے کم فہمی پر مبنی ہے۔ احادیث میں اور صریح احادیث میں وضاحت سے ایک شخص کا ذکر موجود ہے اور اُسی کے ساتھ ان ساری چیزوں کو وابستہ کیا گیا ہے۔ انسان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ قرآن اور احادیث کو اس طرح معنی پہنائے کہ وہ اُس کی عقل اور علم کے اوپر پورے اتر آئیں‘ بجائے اس کے کہ وہ قرآن کو سمجھنے کے لیے اپنی عقل اور علم کو استعمال کرے۔ ہمارا ایمان اور یقین ہے کہ قرآن مجید ہر دور کے لیے ہے‘ اور نبیؐ نے جن الفاظ میں دجال کے فتنے سے آگاہ کیا‘ وہ بڑے سخت ہیں۔ آپؐ نے کہا : ہر نبیؐ نے اپنی اُمت کو ایک فتنے سے آگاہ کیا اور میں بھی کرتا ہوں۔ ایک دعا میں جو آپؐ اکثر مانگتے تھے: واعوذ بک من فتنۃ المسیح الدجال ‘کے الفاظ بھی شامل ہیں۔

اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے میں ان دونوں کے بین بین راہ نکالتا ہوں۔ وہ یہ کہ وہ احادیث جن کا تعلق سورہ کہف میں دجال کے فتنے سے قائم کیا گیا ہے ‘ وہ بھی اپنی جگہ صحیح اور برحق ہیں۔ یہ ہر زمانے کے لیے رہنما ہیں۔ صرف آج ہی کے لیے‘ یا جب سے قرآن نازل ہوا ہے‘ یا آج سے ۱۵ سو سال بعدکے لیے ہی نہیں ہیں‘ بلکہ جب تک انسانیت رہے گی قرآن کا یہ حصہ اُسی طریقے سے روشنی اور ہدایت کا سرچشمہ ہو گا جس طرح واقعی اُس زمانے میں ہوگا‘ جب کہ دجال کی شخصیت ظہور پذیر ہو جائے گی۔ اس لحاظ سے میں دو چیزوں میں فرق کرتا ہوں: ایک‘ دجال کی شخصیت ‘ اور دوسرا اُس کے فتنے کی خصوصیات۔ میرے خیال میں دجال کے فتنے کی خصوصیات ہر دور میں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہی ہیں‘ اور آج ہمارے دور میں بھی‘ اگر نظر ڈالیں‘ تو وہ موجود ہیں۔ آج بھی انسان خود اپنا خدا بنا ہوا ہے۔ اُس نے اس بات کا کھل کر برملا اعلان کیا ہے‘ کہ خدا کوانسان کے معاملات میں دخل دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ انسان کا اختیار‘ فطرت کی طاقتوں پر روز بروز بڑھتا چلا جا رہا ہے اور تیزی کے ساتھ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ اثرونفوذ کے جو ذرائع آج پیدا ہو گئے ہیں وہ فی الواقع انسان کے ذہن اور ایمان پر بڑی گہری اور حیرت انگیز طور پر جلدی تبدیلی لاتے ہیں‘ اور یہ کیفیت نظر آتی ہے کہ آدمی آج کچھ ہوتا ہے‘ اور کل کچھ ۔

اس لحاظ سے اگر ہم سورہ کہف کا مطالعہ کریں تو شروع سے لے کر آخر تک اس کی ہر آیت ہم کو اپنے دور میں ہدایت کا ایک خاص نور برساتی ہوئی نظر آئے گی۔ میں نے اس سورہ کے درمیان سے کچھ آیات منتخب کی ہیں‘ جن میں ایک جامع نسخہ پیش کیا گیا ہے۔ اگر اس کو آدمی پکڑ لے‘ تو وہ فتنے کی ان تمام خصوصیات سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکتا ہے‘ جن کا ذکر صحیح اور مستند احادیث میں کیا گیا ہے۔

وَاتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنْ کِتَابِ رَبِّکَ ط لاَمُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِہٖ ج وَلَنْ تَجِدَ مِنْ دُوْنِہٖ مُلْتَحَدًاo  وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہٗ وَلاَ تَعْدُ عَیْنٰکَ عَنْھُمْ ج تُرِیْدُ زِیْنَۃَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ج وَلاَ تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ھَوٰئہُ وَکَانَ اَمْرُہٗ فُرُطًا o وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّکُمْ قف فَمَنْ شَآئَ فَلْیُؤْمِنْ وَّمَنْ شَآئَ فَلْیَکْفُرْ لا (الکہف ۱۸:۲۷-۲۹)

اور تلاوت کرو اس چیز کی جو وحی کی گئی ہے تمھاری طرف تمھارے ربّ کی طرف سے۔ اس اللہ کے کلمات کو بدلنے والی کوئی چیز نہیں ہے اور تم ہرگز کوئی پناہ گاہ نہ پائو گے اس کے علاوہ ۔اور اپنے دل کو ان لوگوں کی معیت پر مطمئن کرو جو اپنے ربّ کی رضا کے طلب گار بن کر صبح و شام اسے پکارتے ہیں‘ اور ان سے ہرگز نگاہ نہ پھیرو۔ کیا تم دنیا کی زینت کو پسند کرتے ہو؟ کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو‘ جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور جس نے اپنی خواہش نفس کی پیروی اختیار کر لی ہے اور جس کا طریق کار افراط و تفریط پر مبنی ہے۔ صاف کہہ دو کہ یہ حق ہے تمھارے ربّ کی طرف سے‘ اب جس کا جی چاہے مان لے اور جس کا جی چاہے انکار کر دے۔

اس سارے حصے کا خلاصہ اگر میں بیان کرنا چاہوں تو وہ ہے قرآن ‘ اخوت اور دعوت۔

اس حصے کے اندر یہ تین اصول بیان ہوئے ہیں جس نے ان تینوں کو مضبوطی کے ساتھ تھام لیا‘ یعنی اللہ کی کتاب‘ مومن بندوں کے ساتھ اخوت کا تعلق‘ اور حق کی دعوت کا کام--- یہ دراصل وہ نسخہ ہے جو آدمی کو ہر دور میں اُن فتنوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے جو دجال کی طرح اُس کے ایمان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔

آیئے ہم ان میں سے ہر ایک کو الگ الگ دیکھیں کہ قرآن ان کے بارے کیا کہہ رہا ہے‘ اور ان میں سے ہر ایک کی ہمارے لیے کیا اہمیت ہو سکتی ہے‘ اور کس طرح ہم ان کو مضبوطی کے ساتھ تھام کر اپنی تربیت اور شخصیت کی تعمیر کر سکتے ہیں۔

۱- قرآن سے تعلق

پہلا اصول قرآن سے صحیح تعلق ہے۔ فرمایا:

اور تلاوت کرو اس چیز کی جو وحی کی گئی ہے تمھاری طرف تمھارے ربّ کی طرف سے۔ (۱۸:۲۷)

یعنی تلاوت کرو‘ اُس چیز کی‘ جس کی وحی تمھاری طرف کی گئی ہے‘ کہ جو اس کتاب میں موجود ہے‘ جو تمھارے ربّ کی طرف سے آئی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے مراد قرآن ہے جو اس وقت ہمارے ہاتھوں میں ہے‘جو ہمارے گھروں کے اندر بھی موجود ہے‘ اور جس کے بارے میں ہمارا ایمان ہے کہ اللہ کی طرف سے نازل ہوا ہے۔

تلاوت کے معنی صرف پڑھنے کے نہیں ہیں‘ اس کے لیے عربی میں ‘ قرأت کا لفظ آیا ہے۔ تلاوت کا لفظ اپنے اندر جامعیت رکھتا ہے۔ عربی زبان میں دراصل یہ لفظ ایک چیز کے پیچھے دوسری چیز کے چلنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ چونکہ قرأت میں الفاظ ایک کے بعد دوسرا آتا ہے‘ اس لیے تلاوت کا لفظ پڑھنے کے معنوں میں بھی استعمال ہونے لگا۔ لیکن قرآن مجید میں مختلف جگہ پر تلاوت کا لفظ جس انداز میں آیا ہے‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زبان سے پڑھنا‘ اِس کو سمجھنا‘ اس کو اپنے اندر جذب کرنا‘ اس کی اشاعت کرنا‘اس کے اوپر عمل کرنا‘ یہ سارے مفہوم اس کے اندر شامل ہیں۔ گویا ہماری شخصیت‘ ہمارے ذہن ‘ ہمارے قلب‘ ہماری روح اور ہمارے عمل کا ایک مضبوط رشتہ اور تعلق‘ اس کتاب کے ساتھ ہونا چاہیے جو اللہ کی طرف سے وحی کی گئی ہے۔ یہ سب سے پہلی چیز ہے۔ اس لیے کہ تاریکی کتنی ہی گہری کیوں نہ ہو‘ روشنی کا یہ سرچشمہ ہمیشہ موجود رہے گا‘اور اسی طرح رہے گا جیسا کہ آج سے ۱۴ سو سال پہلے تھا۔

اس کتاب کے ساتھ دل و دماغ اور ذہن کا رشتہ مضبوط باندھے بغیر ہم میں سے کوئی اس کا خواب نہیں دیکھ سکتا‘ نہ دیکھنا چاہیے کہ وہ اپنی تربیت کر سکتا ہے‘ اپنے آپ کو بہتر بنا سکتا ہے‘ یا دعوت دین کا کام کر سکتا ہے۔ کوئی کام نہیں ہو سکتا‘ جب تک اللہ کی کتاب کے ساتھ تعلق مضبوط نہ ہو۔ یہ وہ کتاب ہے جس نے اپنے سامعین کو بدلا‘ اُن کے دل و دماغ کو بدلا ‘ اُن کی زندگی کو بدلا‘ اُن کے مقاصد اور عزائم کو بدلا‘ زندگی کا دھارا پلٹ دیا اور بالآخر اُن کو دنیا میں قائد اور امام بنا دیا۔ اس کتاب نے ان کا ایمان مضبوط کیا‘ اور اسے اُن کے دل کے اندر اُتارا‘ اور اُن کے باہمی رشتوں کو مضبوط کیا۔ ان کے اندر اطاعت اور وفاداری کی صفات پیدا کیں اور اُن کو ایک مضبوط گروہ بنا کر کھڑا کر دیا۔ آج بھی اگر کوئی یہ کام کر سکتا ہے تو صرف یہی کتاب ہے۔ باہر کی دنیا خواہ کتنا ہی ہم کو گھیرے میں لیے ہوئے ہو‘ اگر اس کتاب کے ساتھ ہمارا اپنا تلاوت کا تعلق مضبوط ہو‘ تو کوئی وجہ نہیں کہ تاریکی روشنی میں بدل نہ سکے۔

قرآن مجید کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ ایسی کتاب ہے جس میں کوئی ردّ و بدل نہیں کر سکتا۔ اس میں آگے اور پیچھے سے کوئی باطل داخل نہیں ہو سکتا۔ دجال تو جب آئے گا‘ سو آئے گا لیکن دجال کے پیروکار اپنی طرف سے کتنی بھی کوشش کریں کہ ایمان کے قلعے کے اندر رخنہ پیدا کر دیں‘ اگر اس کتاب کے ذریعے حصار قائم کیا گیا ہو‘ تو اس میں رخنے کی کوئی گنجایش نہیں ہوتی۔ اسی لیے فرمایا گیا ہے:

وَاِنَّہٗ لَکِتٰبٌ عَزِیْزٌ o لاَّ یَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْ م بَیْنِ یَدَیْہِ وَلاَ مِنْ خَلْفِہٖ ط تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ o  (حم السجدہ ۴۱: ۴۱-۴۲) حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک زبردست کتاب ہے‘ باطل نہ سامنے سے اس پر آسکتا ہے نہ پیچھے سے ‘ یہ ایک حکیم و حمید کی نازل کردہ چیز ہے۔

یہ کتاب سارے خزانوں سے بہتر خزانہ ہے۔دنیا کے اندر آدمی جو کچھ بھی سوچے کہ میں یہ جمع کروں گااور وہ حاصل کروں گا اور جتنے بھی اس کے عزائم ہوں اور جتنی بھی چیزوں کے ساتھ وہ قیمت کو اور قدر کو وابستہ کرتا ہو کہ یہ میرے لیے قیمتی ہے‘ اُن سب سے بہتر اگر کوئی چیز ہے تو اللہ کی کتاب ہے۔  ھُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ o (یونس ۱۰:۵۸) ’’یہ ان سب چیزوں سے بہتر ہے جنھیں لوگ سمیٹ رہے ہیں‘‘۔ یہ ان  سارے امراض کا علاج ہے جو آدمی کے دل کے اندر پائے جاتے ہیں۔ یہ شفا ہے‘ نسخۂ شفا ہے‘ اور اُن ساری بیماریوں کا علاج جو ہمارے دل کے اندرہیں۔  وَشِفَآ ئٌ لِّمَا  فِی الصُّدُوْرِ لا (یونس ۱۰:۵۷) ’’یہ  وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفا ہے‘‘۔اسی کے اندر وہ نوراور روشنی ہے جو آدمی کے دل کے اندر اور اُس کے باہر کی زندگی‘ دونوں کو منور کرتی ہے۔

اس کتاب کی بہت سی خصوصیات ‘ خود اس کتاب کے اندر بیان ہوئی ہیں۔البتہ یہ بات بالکل واضح طور پر بیان ہوئی ہے کہ جب تک آدمی اپنے آپ کو اِس کے سپرد نہ کرے‘ اس کے اُوپر ایمان نہ لائے‘ اپنے آپ کو اس کے آگے نہ ڈال دے‘ اور اس کے ساتھ اپنا مضبوط تعلق قائم نہ کرے‘ اُس وقت تک یہ کتاب اس کو نفع نہیں پہنچا سکتی۔

قرآن نے اپنے اُن پہلے قارئین کی کیفیات بھی بیان کی ہیں جنھوں نے خود قرآن مجید کو نبی کریمؐ سے سنا‘ اس کو جذب کیا‘ اس پر عمل کیا ‘اور اس کے تابع ہو گئے۔ وہ کیفیات ظاہر کرتی ہیں کہ ان کی شخصیت کا کتنا گہرا تعلق قرآن کے ساتھ تھا۔ اس کا نعرہ صرف زبان پر نہیں تھا بلکہ اس کی جگہ دل کے اندر تھی‘ اور کیفیت یہ تھی کہ جب قرآن کی آیات پڑھی جاتی تھیںتو اُن کو اپنا ایمان بڑھتا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ ان کا دل پگھل جاتا تھا‘ آنکھوںسے آنسو بہنے لگتے تھے‘ کھال نرم پڑ جاتی تھی اور رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے۔

یہ قرآن کا خود اپنا بیان ہے‘ کسی باہر کے مورخ کی بیان کی ہوئی کہانیاں نہیں ہیں۔ قرآن نے خود بتایا ہے کہ اس کو پڑھنے اور سننے والوں پر کیا کیفیات مرتب ہوتی تھیں۔ یہ ساری کیفیات لفظ تلاوت کے اندر شامل ہیں‘ اگر اس کا مطالعہ اُسی طرح کیا جائے‘ جس طرح کرنا چاہیے!

اس اللہ کے کلمات کو بدلنے والی کوئی چیز نہیں ہے اور تم ہرگز کوئی پناہ گاہ نہ پائو گے اس کے علاوہ۔ (۱۸:۲۷)

جب ہر طرف سے باطل کی یورش ہو‘ باطل فتنے ‘ باطل فلسفے‘ باطل نظریات اور باطل خیالات آدمی پر ہجوم کیے ہوئے ہوں‘ اور مختلف ذرائع سے آدمی کے اندر گھسنے کی کوشش کر رہے ہوں‘ ایسے میں ایک ہی آغوش پناہ ہے اور وہ ہے قرآن! جس طرح بچہ ماں کی گود میں جاکر سر ڈال دیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اب وہ ہر خطرے سے محفوظ ہے ‘اسی طرح اگر آدمی اپنی شخصیت ‘ اپنے دل ‘ اور اپنی روح کوقرآن کی آغوش میں لا کر ڈال دے تو پھر وہ ان سب دشمنوں سے محفوظ ہو جاتا ہے جو چاروں طرف سے اُس کے ایمان اور دل پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔

یہاں ایک اور بات خاص طور پر کہی گئی ہے:  لاَمُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِہٖ ‘ ’’اس اللہ کے کلمات کو بدلنے والی کوئی چیز نہیں ہے‘‘۔ اس کی اہمیت ہر زمانے میں قرآن کے پڑھنے والوں نے محسوس کی ہوگی۔ چونکہ آج ہم بیسویں صدی میں اس قرآن کو پڑھ رہے ہیں‘ اس لیے جب ہم اپنی عقل اور علم کے مطابق اس پر غورکرتے ہیں تو ہمیں اس کے اندر بڑا حیرت انگیز نقشہ نظر آتا ہے۔ یہ مطالعہ ہم ایک ایسی دنیا میں کر رہے ہیں جس میں کسی چیز کو قرار نہیں ہے‘ نہ آدمی کے خیالات کو قرار ہے‘ نہ اُس کے نظریات اور فلسفوں کو‘ نہ طریقۂ علاج کو جو وہ اپنے امراض کے لیے ڈھونڈتا پھرتا ہے‘ یہاں تک کہ اس کے کپڑوں کے فیشن تک کو قرار نہیں ہے جو صبح و شام بدلتے رہتے ہیں۔ گویا مسلسل ایک تبدیلی کا عمل ہے جو جاری ہے۔ مغربی مفکرین بار بار اس کا اقرار کرتے ہیںکہ گذشتہ ۵۰ سال میں جتنی سرعت سے یہ حیرت انگیز تبدیلیاں انسان کے خیالات اور نظریات میں آئی ہیں‘ اس کی کوئی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ حد یہ کہ سائنس کے وہ نظریات اور حقائق جن کو صدیوں انسان سچ جان کر ان پر یقین رکھتا رہا ‘ اور جن پر وہ اپنا دین و ایمان بھی قربان کرتا رہا‘ وہ خود اپنی جگہ بدل گئے اور برابر بدلتے چلے جا رہے ہیں۔ آج جس کی نظر دنیا کے فلسفوں‘ نظریات‘ سائنس اور آج کی پوری سوسائٹی پر ہے‘و ہ جانتا ہے کہ آج کی صدی کا ایک ہی امتیازی نشان ہے‘ اور وہ ہے اس کی رفتارِ تبدیلی جو مسلسل پیش آ رہی ہے۔ اسی لیے انسان کو قرار نہیں ہے۔ وہ آج اور کل کسی چیز پر جم کر نہیں بیٹھ سکتا۔ کسی پر اپنا لنگر نہیں ڈال سکتا۔

ان حالات میں یہ فرمایا گیا کہ یہ وہ کتاب ہے‘ جس کو بدلنے والی کوئی قوت اور طاقت نہیں ہے۔ زمانے کے اثر سے یا کسی تحقیق اور انکشاف سے اس کے اندر کوئی تبدیلی واقع نہیں ہو سکتی۔ اس لیے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے‘ اُس کی طرف سے آیا ہے‘ اُس نے اس کو وحی کیا ہے اور اُسی کی کتاب ہے۔ اُس نے انسانی مسائل کا وہ فطری اور پایدار حل پیش کیا ہے جس پر زمانے کی گردش اثرانداز ہو کر کسی تغیر و تبدیل کا باعث نہیں بن سکتی۔ فی الحقیقت یہی وہ کتاب ہے اگر آج آدمی اس چٹان پر اپنا لنگر ڈال دے تو اس کی کشتی ہر بھنور اور ہر طوفان سے محفوظ رہ سکتی ہے۔

قرآن میں بیان کیا گیا ہے کہ فتنے کے زمانے میں آدمی کو مضبوطی کے ساتھ قرآن کا دامن تھامنا چاہیے‘ قرآن کی تلاوت کرنا چاہیے‘ اور قرآن کو اُس طرح پڑھنا چاہیے جس طرح پڑھنے کا حق ہے۔ اس لیے کہ یہی وہ کتاب ہے جو زمانے کے سارے تغیرات کے باوجود‘ ثبات اور استقلال کا نمونہ ہے اور جس کی آغوش میں پناہ اور سکون مل سکتا ہے۔ صرف یہی کتاب ہے جو سارے فتنوں اور مصائب سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔

یہ وہ قیمتی ہدایات ہیں جن کو ہمیں پلّے باندھ کر اپنی زندگی میں سے کچھ وقت لازماً اس کتاب سے وابستہ رکھنا چاہیے۔ اس کو دل و دماغ کے اندر اتارنا چاہیے اور اسی کو اپنا رہنما اور جاے پناہ بنانا چاہیے۔

۲- اہل اللّٰہ کی صحبت

فتنوں سے بچنے کے لیے دوسرا اصول اخوت ہے۔ اس اصول میں دو باتیں ہیں۔ ایک یہ کہ کیسے لوگوں سے تعلق رکھا جائے ‘ اور دوسرا یہ کہ کن سے تعلق نہ رکھا جائے اور لاتعلقی برتی جائے۔ سب سے پہلے اہل اللہ کی صحبت اور ان سے تعلق کے لیے ہدایت دی گئی ہے۔ فرمایا:

باندھ لو اپنے آپ کو ان کے ساتھ جو پکارتے ہیں اپنے ربّ کو صبح اور شام‘ اور جو طالب ہیں اس کے چہرے کے۔ (۱۸:۲۸)

یہاں صبر کا لفظ استعمال ہوا ہے اور صبر کے معنی عربی زبان میں بنیادی طور پر باندھنے اور تھامنے کے ہیں۔ یہاں یہ لفظ خاص معنوں میں استعمال ہوا ہے جس کا بعد میں تذکرہ آئے گا۔ فی الحال میں یہاں  واصبر کے لیے تعلق کا لفظ استعمال کر رہا ہوں کہ اپنا تعلق تلاش کر کے‘ ڈھونڈ کے‘ ان لوگوں کے ساتھ قائم کرو جو اپنے ربّ کو صبح و شام پکارتے ہیں۔ ربّ کے ساتھ تعلق کے لیے قرآن نے دو لفظ استعمال کیے ہیں‘ ایک لفظ عبادت اور بندگی کا ہے:  یعبدون‘ دوسرا لفظ پکارنے اور بلانے کا ہے: یدعون۔ اکثر جگہ ان الفاظ کو ایک دوسرے کی جگہ بدل کر بھی استعمال کیا گیا ہے۔ گویا عبادت اور دعا ایک دوسرے کے ہم معنی ہیں اور ان کے درمیان ایک گہرا تعلق ہے۔

عبادت تو یہ ہے کہ آدمی اپنی پوری شخصیت کے ساتھ‘ شیفتگی اور والہانہ پن کے ساتھ‘ اُس شخصیت کی پرستش کرے جس کو اپنا ربّ مانتا ہے۔ ایسا ممکن ہے کہ آدمی عبادت کے اندر مصروف ہو‘ اور اُس کے باوجود اس کا اپنے ربّ کے ساتھ دعا کا تعلق قائم نہ ہو۔ بہت سارے لوگ آپ کو کہتے نظر آئیں گے کہ ہم اللہ کی محبت میں اتنے فنا ہیں کہ ہم کو اس سے کسی چیزکے مانگنے کی ضرورت نہیں ہے‘ نہ ہم کو دوزخ کی ضرورت ہے نہ جنت کی۔ دراصل وہ دعا کی اہمیت کو نہیں سمجھ پاتے۔ درحقیقت عبادت اور دعا کا بڑا گہرا تعلق ہے۔ حدیث میں ہے کہ دعا عبادت کا مغز ہے‘ یہ فی الواقع اللہ کو پکارنا ہے۔ دعا کے لفظ کے اندرکیاایسی بات یا تعبیر مضمر ہے جس کی وجہ سے قرآن نے اس کو عبادت کا مغز قرار دیا ‘ یہ پہلو غور طلب ہے۔ قرآن و حدیث میں عبادت کے ساتھ ساتھ استعانت کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے۔ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ o (الفاتحہ ۱:۴) ’’ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں‘‘۔ لہٰذا عبادت کے تقاضوں میں سے ایک اہم تقاضا  یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ استعانت کا‘ مدد مانگنے کا‘ پکارنے کا تعلق قائم ہو۔

اس دور میں‘ جب کہ انسان اپنی سرکشی‘ خودسری اور قوت کے باعث اپنی طاقت‘ سائنس اور ٹکنالوجی پر نازاں ہے‘ ایسے میں ہدایت دی جا رہی ہے کہ اُن لوگوں کو تلاش کر کے‘ اُن کے ساتھ رشتہ قائم کر کے ایک سوسائٹی بنائو جو اپنے ربّ کو پکارتے اور اس کی طرف بلاتے ہیں۔

اگر آپ غور کریں تو بلانے اور پکارنے میں کئی چیزیں پوشیدہ ہیں۔

پہلی چیز یہ ہے کہ آدمی اُسی کو پکارتا اور بلاتا ہے جس کے بارے میں اسے یہ یقین ہو کہ اُس کے پاس وہ قوت اور طاقت ہے کہ میری مدد کر سکتا ہے۔ گویا جب تک اللہ کی قوت اور علم کا یقین نہ ہو‘ اُس وقت تک اللہ تعالیٰ کے ساتھ دعا کا تعلق قائم نہیں ہو سکتا۔

دوسری چیز یہ کہ وہ سنتا بھی ہے اور جواب بھی دیتا ہے‘ یعنی یہ تعلق کسی ایسی ہستی کے ساتھ نہیں ہے جو بہت اوپر آسمانوں پر بیٹھی ہوئی ہے جس کے آگے آدمی محض سجدہ ریز ہو جائے اور اس کی اطاعت کر لے۔ درحقیقت آدمی اسی کو پکارتا اور بلاتا ہے جس کے بارے میں اس کو قوی یقین اور احساس ہوتا ہے کہ وہ ہستی اُس کی پکار سن رہی ہے۔ جیسا کہ اس نے وعدہ کیا ہے: وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ ط (البقرہ ۲:۱۸۶) ’’اور اے نبیؐ، میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں تو انھیں بتا دو کہ میں ان سے قریب ہی ہوں‘‘۔  ادْعُوْنِیْ ٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ط (المومن ۴۰:۶۰) ’’مجھے پکارو‘ میں تمھاری دعائیں قبول کروں گا‘‘۔ گویا دعا کے اندر یہ عقیدہ اور یقین شامل ہے کہ وہ ذات رحمت کے ساتھ متوجہ ہوتی ہے‘ سنتی ہے اور دعا قبول کرتی ہے۔

اپنی بندگی اور اپنے فقر‘اپنی فقیری اور اپنی بے کسی و بے بسی کا احساس بھی اس کا ایک پہلو ہے۔ یہ بھی بلانے اور پکارنے کے اندر شامل ہے۔یہ سب چیزیں مل کر‘ احتیاج اور فقر اور بے بسی اور بندگی کا تعلق اُس ہستی کے ساتھ قائم کرتی ہیں جو قادر بھی ہے اور علیم بھی‘ رحیم بھی ہے اور سمیع و بصیر بھی۔ یہ بندے اور رب کے درمیان دعا کا جو تعلق ہے اس کے ایک خاص پہلو کو بڑی وضاحت کے ساتھ نمایاں کرتا ہے۔ پھر فرمایا:

جو اپنے رب کو صبح و شام پکارتے ہیں۔ (۱۸: ۲۸)

صبح و شام کے دو معنی ہیں۔ ایک تو وہ جو واقعی صبح اور شام ہوتی ہے۔ اگر ان معنوں میں ہم اس کو لیں گے تو اس کے معنی نماز کے ہو جائیں گے۔ اس لیے کہ نماز ہی وہ چیز ہے جس کے اندر آدمی صبح و شام وقت مقررہ پر اللہ کو پکارتا ہے۔ اس کے ایک دوسرے معنی بھی ہیں۔ جس طرح ہم محاورے میں استعمال کرتے ہیں‘ کہ وہ رات دن یہ کام کرتا ہے‘ یا صبح سے لے کر شام تک اِسی کے اندر مصروف رہتا ہے‘ یعنی اس میں ہمیشگی‘ دوام اور ہمیشہ ڈرنے کے معنی بھی شامل ہیں۔ گویا اُن لوگوں کو تلاش کرو جو ایک طرف تو ہر کام میں اللہ کو یاد کرتے ہیں‘ اور پھر جو کام اللہ نے خود عائد کر دیے ہیں‘ یعنی نماز پنجگانہ کے وقت صبح اور شام اللہ کو یاد کرتے اور پکارتے ہیں۔ نیز ان لوگوں کو بھی تلاش کیا جائے جن کا اپنے رب کے ساتھ تعلق اس طرح قائم ہوتا ہے کہ ہر لمحے اُن کو اس کی قدرت کا احساس‘ اور اُس کی نسبت اپنی فقیری اور محتاجی کا احساس رہتا ہے۔

جو طالب ہیں اس کے چہرے کے۔ (۱۸:۲۸)

یہاں پکارنے کا مقصد اور جو اصل مطلوب ہے اس کی نشان دہی کی گئی ہے۔ ویسے تو ہر چیز اللہ سے ہی سے مانگنا چاہیے اور مانگنے کا حکم ہے۔ یہاں تک کہ ایک حدیث میں یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ جوتے کا تسمہ بھی اگر چاہیے تو اللہ سے ہی مانگو۔ درحقیقت سب سے بڑی اور اہم چیز اُس کی نگاہِ توجہ اور اُسی کی رحمت ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس کی طرف یہاں اشارہ کیا گیا ہے۔ نگاہ اور چہرہ‘ دراصل یہ الفاظ خوشنودی ‘ رحمت اور توجہ کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ توجہ کا لفظ وجہ سے نکلا ہے‘ جس کے معنی ہیں چہرہ۔ گویا اللہ کے چہرے کی تلاش کے یہ معنی ہوئے کہ اس کی نگاہ رحمت‘ رضا اور خوشنودی مطلوب و مقصود ہو اور مسلسل اسی چیز پر نگاہ جمی رہے‘ اور پھر اللہ کی توجہ بھی شامل حال ہو۔

دراصل یہ ان کی خواہش ہوتی ہے ‘ لیکن یہاں پر لفظ یریدون استعمال ہوا ہے۔ یریدون کے معنی ارادہ کرنے کے ہیں۔ ارادے کا لفظ خواہش کے لفظ سے کچھ آگے کا ہے۔ چاہنا الگ چیز ہے‘ تلاش الگ‘ اور ارادہ الگ۔ ارادے کے معنی کے اندر عزم اور فیصلہ بھی شامل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سلسلۂ تصوف میںصوفیا اس شخص کے لیے جو اُن کے ساتھ چلنے یا اُن کی راہ پر چلنے کا ارادہ کرتا ہے‘ مرید کا لفظ استعمال کرتے ہیں‘ جو ارادے سے نکلا ہے ‘یعنی اُس نے اس بات کا فیصلہ کر لیا کہ وہ اِس راستے پر چلے گا۔ گویا ان کی زندگی کا مقصود اور اُن کی توجہات کا مرکز یہ ہے کہ وہ اپنے رب کو تلاش کریں‘ اُس کی رضا تلاش کریں‘ اُس کو اپنی طرف متوجہ کریں اور صبح و شام ہر وقت اس کو یاد رکھیں۔ اُس کے ساتھ اپنی نسبت قائم کریں‘ جو اُن کا رب‘ مالک اور پرورش کرنے والا ہے۔

صبر کا مفہوم : قرآن نے ان آیات میں تعلق کے لیے جو لفظ استعمال کیاہے‘ وہ صبر ہے۔ یہ بڑا عجیب لفظ ہے ‘ اور بڑے عجیب سیاق و سباق کے اندر آیا ہے۔ عربی زبان میں ربط کا لفظ بھی مستعمل ہے‘ اور محبت کے لیے بھی استعمال ہو سکتا ہے کہ محبت کرو‘ لیکن یہاں صبر کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ میرے خیال میں اس کے اندر بھی ایک خاص معانی پنہاں ہیں‘ اور وہ یہ ہیں کہ دراصل تعلق تو ہے ہی یہ کہ ایک انسان دوسرے انسان کا ہاتھ تھامے اور اپنے رب کی رضا کی تلاش کی راہ پر چلے۔ لیکن اس تعلق کے لیے عزم و استقلال کی ضرورت ہے۔ یہ ایسا تعلق ہے کہ جس کے نتیجے میں ایک فرد بہت سارے صدمات اور خطرات سے دوچار ہوتا ہے۔ اگر آدمی اس بات کے لیے تیار نہ ہو کہ صبر بھی کرے گا تو محبت اور اخوت کا تعلق قائم نہیں رہ سکتا۔ دو انسان جب مل کر ساتھ چلیں گے تو ایسی باتوں کا پیش آنا جو ناگوار خاطر ہوں لازمی ہے۔ اس لیے حدیث نبویؐ میں اس آدمی کی تعریف کی گئی ہے کہ جو لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہتا ہے‘ اور اگر اس میں اُس کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اس پر صبر کرتا ہے۔ میری رائے میں قرآن نے یہاں پر صبر کا لفظ اس تعلق‘ اس تعلق کی مضبوطی اور استحکام اور اس راہ میں جو ناگوار چیزیں پیش آنے والی ہیں‘ اُن کے مقابلے میں صبر کے ساتھ قائم رہنا‘ ان سب معنوں میں استعمال کیا ہے۔

ایک طرف تو یہ فرمایا گیا کہ اپنا تعلق اخلاص کے ساتھ ایسے لوگوں کے ساتھ باندھو۔ یہ بات اس لیے ضروری ہے کہ آدمی اکیلا اس کا تصور نہیں کر سکتا کہ وہ فتنوں کے طوفان کے اندر راہ حق پر کھڑا رہ سکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کو دوسرے انسانوں کی مدد اور حمایت حاصل ہو۔ یہ انسان کی فطرت کا خاصہ ہے کہ جب ایک سے ایک مل کر دو انسان ہو جاتے ہیں‘ تو مخالف قوتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اور اپنے کام کی ترقی اور نشوونما کے لیے بھی‘ اُن میں سے ہر ایک کی قوت کے اندر بے پناہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ اِسی کو بعض لوگوں نے یہاں تک کہا کہ انسان اجتماعی حیوان ہے‘وہ اکیلا زندگی بسر نہیں کر سکتا۔ لیکن یہ تو الگ الگ فلسفے ہیں‘ ہمیں ان میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے اور ہمارا تجربہ بھی ہے‘ اور اس پر فطرت بھی گواہ ہے کہ جب بھی انسان مل کر ایک راستے پر چلتے ہیں یا منزل کی طرف پیش قدمی کرتے ہیں اور تعلق کو باندھتے ہیں‘ تو وہ مثبت طور پر بھی اور منفی طور پر بھی اپنے ارتقا‘ تربیت اور تزکیہ کے لیے بھی اور ان فتنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی‘ لازماً اُن کی قوت کے اندر بے پناہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ لیکن اس کے بعد فرمایا گیا ہے:

اور ان سے ہرگز نگاہ نہ پھیرو۔(۱۸: ۲۸)

یعنی تمھاری آنکھیں اُن سے الگ ہٹ کر اِدھر اُدھر نہ دوڑیں۔ دراصل جب آدمی فتنے کے ماحول کے اندر گھرا ہوا ہو‘ جہاں راہ حق پر چلنے والے اور حق کے راہی بہت تھوڑے ہوں‘ وہاں ہر وہ آدمی بڑا قیمتی ہے جو ہاتھ میں ہاتھ دے کراس راہ پر آگے بڑھے‘ جو اپنے رب کی رضا تلاش کر رہا ہو‘ جو اس کو صبح و شام تلاش کرتا ہو۔ اس کی قدروقیمت کا احساس اتنا ہونا چاہیے کہ آدمی کی نگاہ نہ پھسلے‘ نہ بہکے‘ نہ اٹکے‘ بلکہ انھی افراد کے اندر رہے‘ خواہ ان کا حلیہ اور لباس کیسا ہی ہو‘ اُن کی معاشرت کیسی ہو‘ اور دنیاوی مرتبہ کیسا ہی کیوں نہ ہو۔ اس کی نگاہیں ان پر جم جائیں کہ یہ میرے بھائی ہیں۔ یہ میرے رفیق‘ دوست اور ساتھی ہیں۔ یہ میرے مددگار ہیں‘ اور مجھے اپنے آپ کو انھی کے ساتھ باندھ کر رکھنا ہے۔ اکیلا آدمی تربیت ‘ دعوت حق اور جہاد کے معرکے کو اس کے بغیر سر نہیں کر سکتا۔

نگاہ اپنے ساتھیوں سے کیوں ہٹتی ہے‘ اور کیوں آدمی اِدھر اُدھردوستیاں اور رشتے تلاش کرتا پھرتا ہے؟ اس کو بھی اس آیت کے اندر واضح اور صاف طور پر بیان کر دیا گیا ہے:

کیا تم دنیا کی زینت کو پسند کرتے ہو؟ (۱۸:۲۸)

یہ حقیقت ہے کہ دنیا کی زینت اور دنیا کی رونق کی تلاش میں ہی انسان کے تعلقات متاثر ہوتے ہیں۔ اگر آپ اس کو آج کی زبان میں ادا کرنا چاہیں‘ تو یوں کہہ سکتے ہیں کہ معیارِ زندگی کو اونچے سے اونچا کرنے کی دھن سوار ہونا۔ جب کوئی شخص دنیا طلبی کے پیچھے پڑتا ہے‘ اور دنیا طلبی کے اندر صرف مال و دولت ہی شامل نہیں ہے بلکہ عزت اور جاہ‘ مقام اور تعریف جس کو سوشیالوجی کی زبان میں اسٹیٹس کہا جا سکتا ہے--- یہ ساری چیزیں اس کے اندر شامل ہیں‘ تو اپنے ساتھ چلنے والے ساتھی کی وقعت نگاہوں میں کم ہو جاتی ہے۔ وہ اُن کو نظرانداز کرنا شروع کر دیتا ہے۔ نگاہیں اُن سے ہٹ کر کہیں اور پھیلنا شروع ہو جاتی ہیں۔

ہر آدمی کی فطرت ہے کہ وہ پیروی اور اتباع کے لیے نمونے اور ماڈل تلاش کرتا ہے۔ اگر آپ اپنے بچپن کی زندگی سے لے کر اب تک غور کریں‘ اور اپنی نفسیات اور احساسات کا کبھی جائزہ لیں تو آپ دیکھیں گے کہ جو افراد آپ کے سامنے مختلف انداز میں چلتے پھرتے آئے‘ کوئی آپ کو پسند آیا اور کوئی ناپسند‘ اور جو پسند آیا‘ آپ کے دل میں ہمیشہ یہ خواہش پیدا ہوئی کہ بڑا ہو کر اُسی طرح کا ہو جائوں۔ بڑا ہو کر بھی آدمی کے دل میں خواہش ہوتی ہے کہ کسی کے پاس اگر رولس رائس دکھائی دی تو دل چاہا کہ میرے پاس بھی ہوتی‘کوئی بڑا اچھا سوٹ پہن کر آیا‘ بڑی اچھی بات کرتا ہے‘ دل چاہا کہ ہم بھی ایسے ہوں۔ کوئی نظر آیا اور احساس ہوا کہ ہم ایسے نہ ہوں۔ اس طرح مختلف ماڈل اخذ کر کے آدمی اپنے ذہن میں جمع کرتا رہتا ہے۔ بعض ماڈل اپیل کرتے ہیں وہ اُن کے پیچھے چلتا ہے‘ اور بعض کو وہ ردّ کرتا ہے کہ میں ان کے پیچھے نہ جائوں۔ قرآن نے بھی یہاں ہدایت دی کہ تمھاری نگاہ دنیا کی زینت ہی میں اٹک کر نہ رہ جائے۔ جن کی زندگیاں‘ معیار زندگی بلند کرنے کے محور پر گھوم رہی ہوں‘ ان کو اپنا ماڈل نہ بنائو اور اُن کے پیچھے اپنے ان ساتھیوں کو نہ چھوڑو کہ جو خستہ حال ہوں‘ مالی طور پر ‘ معاشی طور پر‘  بول چال میں‘ مختلف چیزوں میں‘ اسٹیٹس میں کم ہوں بلکہ اپنے آپ کو ان کے ساتھ جما کر رکھو۔ تمھاری اپنی تربیت‘ دعوت‘ جہاد‘ دنیا میں غلبے کی ساری راہیں‘  سب اُسی جماعت کی قوت میں پوشیدہ ہیں جو جماعت اس طرح آپس میں جڑ کر ایک دوسرے کے ساتھ وجود میں آتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے یہاں تین چیزوں کا ذکر کیا ہے جو اس ماڈل کی خصوصیات کو نمایاں کرتی ہیں جو دنیا کو مطلوب بنا کر اس کے پیچھے دوڑنے والوں کا ہوتا ہے۔ آج بھی اگر آپ دیکھیں گے تو دنیا کا فتنہ موجود ہے‘ اور ہمیشہ ہی رہا ہوگا۔ قرآن نے بھی شروع ہی سے اس کا ذکر کیا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ آج کے ساتھ مخصوص ہے۔ چونکہ میری نگاہ میں آج کی دنیا ہے‘ اس لیے میں اس کو اِس زمانے میں پاتا ہوں کہ انسان کی ساری بھاگ دوڑ کا محور صرف دنیا ہو کر رہ گئی ہے۔ خاص طور پر مغربی تہذیب میں اس کو بڑی بری طرح انسان کے ذہن میں بٹھایا گیا ہے کہ افراد کے لیے ‘قوموں کے لیے‘ اگر دنیا میں کوئی منزل ہے تو وہ مادی ترقی اور معیار زندگی ہے۔ وہ جی این پی کے اندر بڑھنا ہے‘ فیکٹریوں اور کارخانوں کا قائم کرنا ہے‘و ہ انسان کے لیے زندگی کے بہتر سے بہتر معیارات ہیں۔ مکان بہتر ہو‘ کار اور لباس بہتر ہو‘ --- یہ وہ چیزیں ہیں جن پر انسان کی ترقی اور ارتقا کا پورا نمونہ قائم ہوتا ہے۔ ہم میں سے کوئی اپنے آپ کو کتنا ہی بچائے‘ یہ خیالات مختلف انداز اور پیرائے میں ہمارے اندر بھی گھستے ہیں۔ اگر ہم چاہیں تو اپنے چاروں طرف دیکھ سکتے ہیں۔ اس کا حل یہی ہے کہ آدمی اس جماعت سے جڑا رہے جو بہتر نمونے کے حامل افراد اور ہر کام میں اللہ کو یاد رکھنے والی‘ اس کا ذکر کرنے والی‘ اور اُس کی رضا و خوشنودی پر نگاہ جمائے رکھنے والی ہو۔ یہ سب باتیں بھی صبر کے جامع مفہوم میں شامل ہیں۔

خدا سے غافل لوگوں سے قطع تعلق: اخوت کے اصول کے تحت دوسری ہدایت یہ دی گئی ہے کہ کن لوگوں سے قطع تعلق کیا جائے۔ کس قسم کے لوگ ہیں کہ جن کا کہنا نہ مانو‘ جن کے پیچھے نہ چلو‘ جن کے ساتھ تعلق قائم نہ کرو‘ جن کو رشک بھری نگاہوں سے نہ دیکھو کہ ہم ان جیسے ہو جائیں۔ ایسے لوگوں کی اللہ نے تین صفات بیان کی ہیں۔ فرمایا:

کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو‘ جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے‘ اور جس نے اپنی خواہش نفس کی پیروی اختیار کر لی ہے‘ اور جس کا طریق کار افراط و تفریط پر مبنی ہے۔(۱۸:۲۸)

ایک طرف کہا :واصبر‘ اپنے آپ کو ایسے لوگوں کے ساتھ باندھو‘ اس کے بعد کہا گیا:  ولاتطع‘ اور اُن کی اطاعت نہ کرو۔ یہاں اطاعت نہ کرنے سے صرف یہی مراد نہیں کہ کوئی ہم سے کہے کہ یہ کرو اور ہم نہ کریں‘ بلکہ اس سے یہ مراد ہے کہ اُن کے پیچھے نہ دوڑو‘ اُن کے پیچھے نہ چلو‘ اُن کے انداز کو اختیار نہ کرو‘ انھی کو یہ نہ سمجھو کہ بس ہم کو ایسا ہی کرنا چاہیے۔ یہ سب چیزیں اطاعت کے اندر شامل ہیں۔

یہاں تین خصوصیات بیان ہوئی ہیںکہ جو لوگ دنیا کو اپنا مقصود بنا لیں‘ اُن کے اندر یہ پیدا ہوتی ہیں۔ افراد کی زندگی‘ قوموں کی زندگی اور اجتماعی فلسفوں کا جائزہ لیں تو یہ تین باتیں ان سب کے اوپر پوری طرح چسپاں ہوں گی۔

پہلی یہ کہ اُس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا‘ اور وہ اپنی خواہشات نفس کو پورا کرنے میں اور ان کی تکمیل کے پیچھے پڑ گیا۔ ایسے فرد کا ہر کام حد اعتدال سے گزر جائے گا۔

قرآن دل کا لفظ صرف گوشت کے لوتھڑے کے معنوں میں جو جسم کے اندر خون پمپ کرتا ہے استعمال نہیں کرتا بلکہ اُس دل کے مفہوم میں استعمال کرتا ہے جو انسان کی شخصیت کا مرکز ہے‘ جہاں اُس کے ارادے‘ اُس کی خواہشات‘ تمنائیں‘ آرزوئیں اور عزائم پرورش پاتے ہیں‘ یا وہ محرکات پائے جاتے ہیں جن کے تحت وہ عمل کرتا اورزندگی بسر کرتا ہے۔ جو قلب خدا کی یاد سے غافل ہوتا ہے‘ اُس میں کہیں خدا کے وجود کی گنجایش نہیں ہوتی۔ ہو سکتا ہے کہ آدمی پانچ وقت مسجد میں چلا جائے‘ چرچ چلا جائے‘ سیناگاگ چلا جائے‘ تحریر میں‘ تقریر میں‘ خدا کا نام لے لے لیکن وہ چیز کہ جو شخصیت کا مرکز ہے جہاں سے ساری امنگیں جنم لیتی ہیں‘ تمام عزائم و ارادے جڑ پکڑتے ہیں‘ وہ قلب اللہ کی یاد سے خالی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عن ذکرنا فرما کر نسبت اپنی طرف کی ہے‘ یعنی اللہ سے ان کا دل غافل ہو جاتا ہے۔ یہ نتیجہ اور انجام ہے دنیا کے پیچھے پڑنے کا!

اس لیے پہلی ہدایت یہ دی کہ دیکھو ایسے لوگوں کے پیچھے کبھی نہ جانا‘ جن کے بارے میں تم کو یہ محسوس ہو کہ ان کی شخصیت ‘ ان کے قلب ‘ ان کے دل و دماغ اور روح میں کہیں اللہ کی یاد نہیں ہے۔ جو یہ نہیں سوچتے کہ اللہ کی رضا کیا ہے‘ اللہ کی مرضی اور خوشنودی یا اس کی پسند و ناپسند کیا ہے۔ وہ ساری زندگی کی منصوبہ بندی اُس سے بے نیاز ہو کر کرتے ہیں۔ صبح سے شام تک خدا سے بے نیاز ہو کر منصوبے بناتے ہیں‘ خواہ گھر کے اندر ہوں یا باہر‘ یا کہیں بھی۔ ان کا چلنا پھرنا‘ خریدنا‘ بیچنا‘ ہر چیز اس بات سے خالی ہوتی ہے کہ اس کے اندر اللہ کی مرضی کیا ہے‘ اُس کی رضا کس چیز میں ہے اوراُس کی پسند و ناپسند کیا ہے۔

یہ اللہ سے انکار کی طرف اشارہ نہیں ہے۔ یہ بات خاص طور پر قابل غور ہے کہ اللہ کا انکار تو بالکل دوسری اور بڑی دور کی اور بہت بڑی چیز ہے۔ اللہ کا انکار بہت تھوڑے لوگ کرتے ہیں۔ پہلے بھی یہی رہا ہے اور اب بھی یہی حال ہے۔ البتہ یہ سوچ ضرور پائی جاتی ہے کہ خدا کی ضرورت نہیںہے۔ خدا بے مصرف ہے۔ اس کا زندگی کے اندر کوئی مقام نہیں ہے۔ دنیا کا پیدا کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ خدا کے لیے دل میں‘ روح میں ‘ عقل میں‘ فلسفے میں‘ نظام میں کوئی جگہ نہیں ہے (نعوذ باللہ)۔ یہ ہے نتیجہ اس بات کا کہ دل اللہ کی یاد سے غافل ہو!

یادِ خدا سے غافل دل کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اُس کی ساری زندگی کی بھاگ دوڑ اُن چیزوں کے حصول میں صرف ہوتی ہے‘ جن کا تقاضا اُس کا دل اور نفس کرتا ہے۔ اس کے علاوہ زندگی میں کوئی اور اعلیٰ مقاصد اور اعلیٰ نصب العین ایسے لوگوں کے پیش نظر یا دل چسپی کا باعث نہیں ہوتا۔ یہ وہ دوسرا ماڈل اور نمونہ ہے جس سے آدمی کو بچنا چاہیے۔

تیسری بات یہ ہے کہ اگر کسی کی ساری بھاگ دوڑ‘ صبح و شام صرف اسی چیز کے پیچھے ہو کہ اپنی خواہشات کیسے پوری کرے‘ تو اس کا مطلب ہے کہ وہ غلط راہ پر جا رہا ہے۔ وہ اعتدال کی حد سے نکل جاتا ہے۔ اس کی دوستی ہو یا دشمنی‘ پسند ہو یا ناپسند‘ ہر چیز اعتدال سے باہر ہوتی ہے۔ جس چیز کو بھی اختیار کیا اُس میں اعتدال سے گزر گئے۔ اجتماعی زندگی میں انسان کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی ایک حل نکالا‘ تو حد سے بڑھ گئے‘ یا کوئی دوسرا حل نکالا تو اس میں حد سے بڑھ گئے۔ اس رویے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان خودسر اور منہ زور ہو جاتا ہے اور اپنے آپ کو خدا سے بے نیاز سمجھنے لگتا ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آدمی نے اللہ کی کتاب سے تعلق توڑ لیا ہے اور اللہ کے سامنے اپنی محتاجی اور فقیری کے احساس سے بے نیاز ہو گیا ہے۔ اس نے دنیا کی زندگی کو ہی اپنا معیار بنا لیا ہے اور اُس کے پیچھے دوڑ پڑا۔

یہ تین ایسی صفات ہیں جن کے بارے میں کہا گیا کہ دیکھو جس شخص کے اندر ‘ یا جن اشخاص کے اندر‘ یا جس معاشرے یا تہذیب کے اندر یہ موجود ہوں‘ اُس کو اپنا ماڈل‘ اپنا مطاع‘ اپنا پیشوا‘ اپنا امام یا لیڈر نہ بنائو۔ اُن کے پیچھے نہ جائو بلکہ اپنا تعلق ان لوگوں یا اُس معاشرے کے ساتھ قائم کرو‘ جس کی صبح و شام کی یاد کا محور اللہ اور اُس کی رضا اور خوشنودی کی تلاش ہو۔

۳- دعوت الی اللّٰہ

انسان کو درپیش بہت سے فتنے جو اندر اور باہر سے‘ اس کے ایمان اور اس کے عمل کو غارت اور برباد کرنے کے لیے اس کے پیچھے پڑے رہتے ہیں‘ ان سے بچنے کے لیے اس قرآنی نسخے میں تیسرا اصول یہ بیان کیا گیا ہے کہ حق کی طرف دعوت دی جائے اور دعوت الی اللہ کا فریضہ انجام دیا جائے۔ فرمایا:

صاف کہہ دو کہ یہ حق ہے تمھارے رب کی طرف سے‘ اب جس کا جی چاہے مان لے اور جس کا جی چاہے انکار کر دے (۱۸: ۲۹)

یعنی حق تو وہی ہو سکتا ہے جو رب نے دیا ہے۔ اس میں کسی شک و شبے کی گنجایش نہیں۔ اس پر ہدایت یہ دی جا رہی ہے کہ اس حق کو پیش کرو اور لوگوں سے کہہ دو کہ حق کو تسلیم کریں۔ پھر اس بات کی پروا مت کرو کہ کون مانتا ہے اور کون نہیں مانتا۔ یہ کام تو کرنا ہی ہے‘ خواہ لوگ اس کو مانیں یا نہ مانیں۔ ماننا نہ ماننا‘ ہر آدمی کا اپنا کام ہے۔ اس لیے کہ اللہ نے ہر ایک کو اختیار دیا ہے‘ آزادی دی ہے کہ وہ جو چاہے کرے۔ دنیا میں یہی انسان کا امتحان ہے۔ چنانچہ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اس بات کی پروا کیے بغیر کہ لوگ مانتے ہیں یا نہیں مانتے‘ اپنا کام کرتے چلے جائیے۔ لوگوں کا قبول یا ردّ کرنا‘ ان کی اپنی کامیابی یا ناکامی ہے۔ آپ اس کے مکلف نہیں ہیں۔ اس طرح سے مایوسی کا دروازہ بھی بند ہو جاتا ہے اور اللہ کی راہ میں جدوجہد کرنے اور اس کی رضا کے حصول کے لیے ایک نیا ولولہ اور جذبہ ملتا ہے جواطمینان اور سکینت کا باعث ہوتا ہے۔

قرآن مجید کی یہ آیات ہمارے لیے بہت قیمتی سبق رکھتی ہیں۔ آج مغربی تہذیب کی یلغار بھی ہے اور ہر طرف دنیا کی پرستش بھی۔ گھروں میں ٹی وی چلتا ہے‘ کیبل اور ڈش انٹینا لگے ہوتے ہیں‘ گھر بھی محفوظ نہیں اور گھروں میں ایمان بھی محفوظ نہیں۔ ان حالات میں وہ کون سا طریقہ ہے جس سے ایمان محفوظ ہو سکتا ہے؟ وہ کون سا طریقہ ہے جس سے ہم اللہ کے راستے پر قائم رہ سکتے ہیں اور چل سکتے ہیں؟ ان آیات میں اسی مسئلے کا حل پیش کیا گیا ہے۔ اگر آپ یہ تین باتیں یاد رکھیں: اللہ کی کتاب کی تلاوت‘ اچھے لوگوں کی صحبت ‘اور اللہ نے جو پیغام دیا ہے اسے دوسروں تک پہنچانا‘ تو ایمان بچایا جا سکتا ہے۔

اس نسخہء شفا کے یہ تین اجزا ایسے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ دنیا میں‘ فتنے کے زمانے میں‘ دنیا پرستی کے زمانے میں‘ ہمیں ایمان کے راستے پر قائم رکھ سکتا ہے‘ اگر ہم اس پر چلنا چاہیں۔

اگر آدمی شروع سے آخر تک پوری سورہ کہف پڑھے‘ اصحاب کہف کے واقعے سے لے کر حضرت موسٰی ؑ اور ذوالقرنین کے واقعے تک‘ ہر ایک میں وہ اشارے موجود ہیں جن کو اگر آدمی پڑھ کر‘ ان پر عمل پیرا ہو جائے تو آج کے دور کے بہت سارے فتنوں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔

میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ ہمیں ان آیات کو سمجھنے کی اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین! (کیسٹ سے تدوین: امجد عباسی)