اکتوبر ۲۰۰۱

فہرست مضامین

مدیر کے نام

| اکتوبر ۲۰۰۱ | مدیر کے نام

Responsive image Responsive image

حافظ محمد ادریس ‘  لاہور

’’کامیاب شخصیت کے فکری عناصر‘‘ (ستمبر ۲۰۰۱ء) بہت مفید اور موثر تحریر ہے۔ مصنف نے اپنے مخصوص انداز میں قرآن و سنت‘ اسلامی علوم اور جدید تقاضوں کے خوب صورت امتزاج سے شخصیت کی تعمیر کے لیے مفید رہنمائی فراہم کی ہے۔ چند توجہ طلب پہلو یہ ہیں: وھب بن منبہ کو وہاب بن منبہ (ص ۲۶) لکھا گیا جو درست نہیں۔ کفران (ناشکری) (ص ۲۷) کی تعریف کے لیے استعمال کیے گئے الفاظ دراصل ’’ظلم‘‘ کی تعریف ہے‘ ناشکری کی نہیں۔ عزم کی وضاحت کے لیے بچھو کے ڈسنے اور پھر اس پر ترس کھانے والی مثال مناسب نہیں۔ موذی جانور کو ہلاک کرنا چاہیے۔ یہ مثال اس کی بھی نفی کرتی ہے۔

عمر خضر ‘  کراچی

’’مسلم ممالک ‘ جمہوری روایت اور اسلام‘‘ (ستمبر ۲۰۰۱ء) میں ڈاکٹرانیس احمد صاحب نے مغربی مصنفین کے اسلام اور جمہوریت سے متعلق بنیادی تضاد اور ذہنی تحفظات کا مدلل انداز میں بخوبی تجزیہ کیا ہے اور مسلم ممالک کا جمہوریت سے متعلق نقطۂ نظر بھی اختصار اور جامعیت سے پیش کیا ہے۔ جمہوری طرز پر کام کرنے والی اسلامی تحریکوں کا تذکرہ کرتے ہوئے پاکستان‘ سوڈان‘ ترکی اور اردن کے ساتھ بنگلہ دیش‘ ملایشیا اور مصر کا ذکر بھی کرنا چاہیے تھا۔

سلیم منصور خالد ‘  گوجرانوالہ

’’نائیجیریا: اسلامی قوانین کا نفاذ‘‘ (ستمبر ۲۰۰۱ء) میں دو سال سے جاری نفاذ کے تجربے کے بارے میں نہ معلومات ہیں نہ تجزیہ۔ تاریخی پس منظر تو پہلے بھی آ چکا ہے۔ ہم یہ جاننا چاہتے تھے کہ پیش رفت کیا ہے؟ اندرون ملک اور بیرون ملک ردعمل کیا ہے؟ مستقبل کے کیا امکانات ہیں؟ اس حوالے سے تشنگی ہی تشنگی حصے میں آئی ہے۔ایروبا کو پروبا اور ایبو کوکبو لکھا گیا۔ مسلمانوں کے اہم قبیلے فلانی کا تذکرہ ہی نہیں کیا گیا۔ مضمون میں پروف خوانی کی فاش غلطیاں بھی ہیں: ۴۰۰ صد (ص ۶۳) اور موقف کے بجائے موقوف (ص ۶۵)۔

خالد محمود  ‘ منچن آباد

خرم مراد کا مضمون: ’’خدمت خلق‘‘ (اگست‘ ستمبر ۲۰۰۱ء) اپنے موضوع پر منفرد تحریر ہے۔ اس نوعیت کا اس سے بہتر مضمون آج تک نہیں پڑھا۔ ان کی تحریروں میں روحانی کشش ہے‘ دل اثر بھی قبول کرتا ہے اور عمل کی طرف آمادہ بھی ہوتا ہے۔

منصور اختر غوری  ‘ لاہور

’’خدمت خلق‘‘ (اگست‘ ستمبر ۲۰۰۱ء) پڑھا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان بنیادوں پر اسلامی

تحریکوں کے کارکن اپنی ذات میں سراپا حسن خلق ہوں اور ہماری تحریکیں بھی معاشرے کی اصلاح کی بہتر حکمت عملی ترتیب دیں اور معاشرتی بنیادوں پر خدمت خلق کا بہترین نظام وضع کیاجائے۔ لوگوں کے عملی مسائل میں دل چسپی لی جائے‘ ناداروں کی امداد‘ مفلس بچیوں کی شادی کے لیے مالی اعانت‘ بے روزگاروں کو روزگار کی فراہمی کے لیے تعاون و مالی امداد بنیادی مسائل ہیں جنھیں ترجیح دینا چاہیے۔

عبدالربی بخمل‘ شارجہ

’’۱۴-اگست یوم تجدید عہد‘‘ کے عنوان سے آپ کا نہایت ہی معلوماتی اور پراثر مضمون (اگست ۲۰۰۱ء) پڑھا۔ قائداعظمؒ کی بعض تقاریر کے اقتباسات دیکھ کر بڑا تعجب ہوا‘ کیونکہ قائد کی زندگی کا یہ اسلامی رخ تو بہت کم کسی اخبار‘ رسالے یا کتاب میں پڑھنے کو ملتا ہے بلکہ اکثر لوگوں نے اُن کو کسی اور طرح سے مشہور کر دیا ہے۔ انھیں مغربی لبرلزم کے علم بردار کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے۔ آپ کے مضمون سے پاکستان بننے کا تاریخی پس منظر اور تحریک پاکستان میں بعض مقتدر مذہبی شخصیات کا کردار اچھی طرح واضح ہو گیا ہے۔

لحاظ علی‘چارسدہ

سید راشد بخاری کا مضمون ’’جدید انسان کا روحانی اور جذباتی اضطراب‘‘ (اگست ۲۰۰۱ء) عمدہ تحریر تھی‘ تاہم مغربی مفکرین کا ذکر کرتے ہوئے صاحب مضمون نے صرف سگمنڈ فرائیڈ کا تذکرہ کیا ہے۔ انیسویں صدی میں زیادہ تر لوگ روسو کے زیراثر رہے جس نے مذہب سے بیزاری کے اسباب پیدا کیے اور رہی سہی کسرچارلس ڈارون کے نظریے نے پوری کر دی۔ ابھی تک ہمارے ملک کے پڑھے لکھے لوگوں کا ایک مخصوص طبقہ ان مفکرین کے نظریات سے متاثر ہے اور ان کو فخر سے پیش کرتا ہے۔ مذکورہ مضمون میں ان مفکرین کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ اسی طرح مشرقی اکابر میں سے صرف ڈاکٹر محمد اجمل کا ذکر کیا گیا ہے۔ اگر دیگر مفکرین سے بھی استفادہ کیا جاتا تو مذکورہ مضمون میں مزید نکھار پیدا ہوتا۔

انشاء محمد  ‘کوہاٹ

میں عرصہ ۳۵ سال سے دبئی میں رہایش پذیر ہوں۔ پچھلے سال بچوں کو پاکستان منتقل کیا۔ میری بچی نے پی اے ایف اسکول کوہاٹ میں نویں کلاس میں داخلہ لیا تو اس کو لڑکوں کے ساتھ کلاس میں بٹھایا گیا۔ میں نے پرنسپل کے ساتھ بات کی کہ میری بچی کو لڑکیوں کی علیحدہ کلاس میں منتقل کر دیں‘ جب کہ لڑکیوں کی کلاس موجود ہے مگر انھوں نے انکار کر دیا۔ میں نے بیس کمانڈر سے ملنے کی کوشش کی مگر مسئلہ حل نہ ہوا۔ مجبوراً مجھے بچی کو اسکول سے اٹھانا پڑا۔

حکومت وقت بیرون ملک پاکستانیوں کو بہت سی مراعات دینے کے اعلان کرتی ہے مگر یہاں یہ حال ہے کہ ایک بچی کا سال ضائع ہو گیا مگر پرنسپل کی ضد ہے کہ جوان لڑکی کو جوان لڑکوں کے ساتھ بٹھائو جو کہ سراسر غیر اسلامی ہے اور غیر اخلاقی بھی۔ میں اپنی بچی کا ایک سال تو ضائع کر سکتا ہوں مگر اس کو غیر شرعی تعلیم نہیں دے سکتا۔ میں یہ بات حکام بالا کے علم میں لانا چاہتا ہوں۔ کیا اس طرح بیرون ملک پاکستانیوں کی ہمدردیاں حاصل کی جا سکتی ہیں؟ ان کے دل میں اس ملک کے لیے کیا قدر ہوگی جس میں ایک بچی اپنی مرضی سے جائز شرعی ماحول میں تعلیم بھی حاصل نہیں کر سکتی؟