پاکستانی معاشرے کی ۷۶ سالہ تاریخ پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو حالیہ عشرہ بلکہ اس کے آخری پانچ سال معاشرتی ،معاشی اور سیاسی استحکام کی غیر معمولی خراب صورت حال کی نشان دہی کرتے ہیں۔ اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی رپورٹ مؤرخہ ۶ جون ۲۰۲۳ء کے مطابق اپریل ۲۰۲۲ء میں ملک پر مجموعی قرض کا حجم ۴۳ہزار ۷۰۵؍ ارب روپے تھا جو اپریل ۲۰۲۳ء میں بڑھ کر ۵۸ہزار۵سو ۹۹ ؍ ارب روپے ہوگیا، یعنی ۴۱ ؍ارب روپے یومیہ قرض لیا گیا۔ ملک پر واجب الادا بیرونی قرض ۷ہزار۲ سو۵۹؍ ارب روپے یعنی ۴۹ فی صد سے بڑھ کر ۲۲ ہزار۵۰؍ ارب روپے ہوگیا اور اسی طرح ایک سال کی مدت میں اندرونی قرض ۷ہزار ۶سو۳۵؍ ارب روپے یعنی ۳۴ فی صد سے بڑھ کر ۳۶ ہزار۵سو۴۹ ؍ارب روپے کی سطح پر پہنچ گیا۔
قرض لے کر اِترانے کے یہ سرکاری اعداد و شمار ہی معاشی زندگی کا گلا گھونٹنے کے لیے کافی ہیں۔ بے روزگاری، مہنگائی اورمعاشی عدم استحکام کی بناپر بیرونی سرمایہ کار پاکستان میں کسی کاروبار میں ہاتھ ڈالنے کا خطرہ مول لینے پر تیار نظر نہیں آتے۔ مقامی کاروباری برادری کی جانب حکومت کی عدم توجہی، کاروبار میں معاونت کی بجائے حیلوں بہانوں سے رشوت طلب کرنا اور غیر ضروری رکاوٹوں کی وجہ سے کاروبار کیسے کیا جاسکتا ہے؟ مزیدبرآں سستی بجلی ، پانی ، اور گیس کی عدم فراہمی اور کاروبار میں پیش آمدہ مختلف مسائل کے حل سے لاتعلقی ایک ایسی مجرمانہ روش ہے جس کے نتیجے میں مقامی کاروباری برادری اپنے پاؤں پر کبھی کھڑی نہیں ہو سکتی۔
ان معاشی مسائل کے ساتھ نصف عشرے کے دوران ملک پر اجارہ داری کا دعویٰ کرنے والی سیاسی پارٹیوں اور ان کےپشت پناہ اداروں نے معاشی مسئلے سے مجرمانہ لاپروائی برتی ہے اور ملکی مفاد سے عدم دلچسپی اور صرف اپنے ذاتی مفاد کے لیے ملک کو تباہی کے دہانے تک پہنچا دینے کا ثبوت فراہم کیا ہے ۔
ان حالات میں ملکِ عزیز میں معاشرتی خرابیوں اور عدم تحفظ کا جو منظر نامہ سامنے آرہا ہے، وہ ہرمحب وطن کے لیے شدید پریشانی کا باعث ہے۔ معاشی اور سیاسی عدم استحکام کے نتیجے میں شہروں اور دیہاتوں میں جان و مال کو جو خطرات لاحق ہیں، ان کا اندازہ ڈان ۴جنوری ۲۳ء کو شائع ہونے والے اعداد و شمار سے لگایا جا سکتا ہے۔ دارالحکومت میں ایک دن میں ۳۶ جرائم رپورٹ کیے گئے ۔ایک سال کے دوران صرف اسلام آباد میں۱۳ ہزار ۴۰۹ وارداتیں پولیس تھانوں میں درج ہوئی ہیں، جب کہ ملک میں (وارداتوں کی اطلاع کے باقاعدہ نظام کی عدم موجودگی کے باوجود) ۲۱۸۰ ڈکیتیوں، ۱۳۹۲جھپٹ کر چھیننے کے واقعات، ۷۱۹گاڑیوں کی چوری، ۲۰۹۵موٹر سائیکلوں کی چوری، ۹۵۴ قتل یا قتل عمد اور اغوا اور جنسی زیادتی کے واقعات جو پولیس کے علم میں لائے گئے ہیں۔خیبر پختون خوا میں ۲۰۲۳ء کے صرف پہلے دو ماہ میں ۷۴ قتل ، ۱۲۶ قتل عمد، ۷۴ڈکیتیوں، ۵۱چوری کے واقعات ، ۵۹ موٹر سائیکل کی چوری کے واقعات پیش آئے۔
سندھ میں جنوری ۲۰۲۳ء کی ایک اطلاع کے مطابق صرف چار ماہ میں ۵۲۹ خواتین اغوا کی گئیں۔۱۱۹ گھریلو دہشت گردی کے واقعات ، ۱۴۲ بچوں کے ساتھ زیادتی ، ۵۶ جنسی زیادتی کے واقعات اور ۳۷ واقعات عزت کے نام پر قتل کے پیش آئے۔
معاشی، اخلاقی اور سیاسی زبوں حالی کے ساتھ ساتھ خاندان کا نظام بھی انتشار کا شکار ہے۔ جولائی ۲۰۲۳ء کے ٹربیون کی اطلاع کے مطابق صرف پاکستان کے ایک بڑی آبادی والے شہر لاہور میں ۲۰۱۹ء سے تا حال طلاق کے مقدمات کی تعداد ۲۴ ہزار ایک سو ۵۷ ہے۔ ۹ہزار ۸ سو ۱۱ خلع کی درخواستیں جمع کرائی گئیں ۔ یہ معاملہ شہری زندگی کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ تحصیل کی سطح پر ۱۱ہزار ۸سو ۷۹طلاقیں دی گئیں، جن سے ۶۰ ہزار بچوں کا مستقبل شدید متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔
طلاق میں کثرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ۲۰۰۵ء سے ۲۰۰۸ء تک کی مدت میں کل ۷۵ ہزار طلاقیں واقع ہوئیں،جب کہ ۲۰۰۸ء سے ۲۰۱۱ء کے عرصہ میں ۲۴ہزار ایک سو ۳۹ طلاقیں دی گئیں ۔ ایسے میں ۲۰۱۲ءمیں خلع کے واقعات ۱۳ہزار ۲ سو ۹۹ تھے، جب کہ ۲۰۱۳ءمیں ۱۴ہزار ۲ سو ۴۳ اور ۲۰۱۴ء میں ۱۶ہزار ۹سو ۴۲، اور ۲۰۱۶ء میں یہ تعداد ۱۸ہزار ۹۱ تک پہنچ گئی۔ یاد رہے یہ وہ واقعات ہیں جو قانون کی نگاہ میں آگئے ۔پاکستان میں بے شمار مقامات پر ایسے واقعات کو کسی کے علم میں لانا سخت معیوب سمجھا جاتا ہے اور ان کی کوئی رپورٹ درج نہیں کرائی جاتی۔
ان خاندانی معاملات میں مرد کی طرف سے اکڑ، دھونس، چودھراہٹ اور خواتین کی طرف سے معاشی آزادی کے لیے ملازمت اختیار کرنے کے بعد اپنی خود مختاری تسلیم کرانے کی خواہش کے علاوہ دیگر بہت سے عوامل شامل ہیں، جو محض پاکستان تک محدود نہیں بلکہ عالمی سطح پر پائے جاتے ہیں ان میں ایک اہم محرک ابلاغِ عامہ بھی ہے۔
معاشرتی علوم کے ماہرین مغرب کے مقرر کیے ہوئے پیمانوں کی روشنی میں مشترکہ خاندانی نظام میں ساس کے کردار کو خرابی کی جڑ قرار دیتے ہیں، جب کہ پسند کی شادی اور نام نہاد محبت کی بنیاد پر نکاح بھی عام طور پر زیادہ پائدار ثابت نہیں ہوتے۔
ہمارے معاشرے میں شرم و حیا جیسی بنیادی اسلامی قدر کا علم و فہم اور عملی زندگی میں اس پر عمل پیرا ہونے کا رویہ بڑی تیزی سے کمزور ہو رہا ہے ۔ ہمارے تعلیمی اداروں ، سکول ، کالج ، یونی ورسٹی کی سطح پر شرم وحیا، کردار کی پاکیزگی ، عصمت و عفت کے بنیادی اسلامی تصورات کی تعلیم و تربیت کا کوئی نظام موجود نہیں ۔ اس کے برعکس تعلیمی اداروں میں منعقدہ مختلف مخلوط پروگرامات اور سر گرمیوں میں ناچ گانے ، موسیقی اور دیگر بے ہودہ انداز و اطوار اور چلن عام ہوتے چلے جارہے ہیں۔ دیگر سماجی رسومات مثلاً شادی بیاہ کے مواقع پر بھی فلموں ، ڈراموں میں دکھائے جانے والے نیم عریاں لباس کا شرفا گھرانوں تک کے مرد وخواتین میں بے دھڑک استعمال بھی فیشن بن گیا ہے ۔عمر کے مختلف حصوں میں شرم و حیا کے اسلامی تصورات سے عاری کارٹون کرداروں، فلموں ، ڈراموں کے زیر اثر نشو و نما پانے والی نئی نسل کے یہ بچے اور بچیاں جب اعلیٰ تعلیم کے لیے اداروں کے مخلوط ماحول میں پہنچتے ہیں تو ان کے گم کردہ راہ کا مکمل امکان اور سامان موجود ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں متعدد تعلیمی اداروں سے تواتر کے ساتھ ایسے واقعات منظر عام پر آرہے ہیں ، جن کو سن کر اور جان کر ہرذی شعور فرد کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔
ظاہر ہے جب تعلیمی اداروں اور والدین نے انھیں شرم وحیا ، پاکیزگی، سچائی ، امانت و دیانت، عزّت و آبرو، عصمت و عفت کے طرزِ عمل کی تعلیم و تربیت ہی نہیں دی، تو نئی نسل سے اعلیٰ اخلاقی رویے ، باحیا طرزِ عمل، ضبط نفس اور تقویٰ کی امید کیسے کی جا سکتی ہے؟ مغرب کے تعلیمی فلسفے، تصورات اور پیمانوں میں فرد کی اخلاقی تربیت ،تعمیر کردار و سیرت کے پہلو نہ ہونے کے برابر ہیں اور اخلاق و کردار کی اہمیت سے عاری یہی پیمانے ہمارے تجزیہ نگاروں کے دل و دماغ پر بھی سوار ہیں اور وہ معاشی مسائل کا حل یہی تجویز کرتے ہیں کہ جب تک خواتین معاشی میدان میں نہ اُتریں گی ترقی نہیں ہو سکتی۔
گذشتہ تین عشروں میں ابلاغ عامہ کو جس طرح بے لگام کیا گیا اور ہندستانی اور مغربی ثقافت، رسوم و رواج اور اقدار، ڈراما ، فلم کوسرکاری سرپرستی میں عریانی، فحاشی، نوجوان لڑکیوں کی مخلوط محفلیں اور ٹی وی کے ہر پروگرام میں ان کی مشروط شرکت، گویا جب تک ان کا کندھے سے کندھا نہ چھلے، ملک کی معاشی ترقی نہیں ہوسکتی ۔اس برائی اور معصیت کے فروغ نے گھریلو تنازعات میں شدت پیدا کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا اور ہر شعبۂ حیات میں منظم انداز میں مرد اور عورت کو ایک دوسرے کے مقابلے پر لا کھڑاکیا۔
بیرونی امداد پر چلنے والے اداروں نے پوری وفاداری کے ساتھ ’حقِ نمک‘ ادا کیا اور پاکستان میں’عورت مارچ‘کے نام پر اور جامعات میں نوجوانوں کو مخلوط محفلوں کا عادی بنا دیا گیا۔ حقوقِ نسواں کے نام پر خواتین میں شدت پسندی ، انانیت اور انفرادیت کو پروان چڑھا یا گیا ، جس کا نتیجہ اَنا کے ٹکراؤ اور اپنی مرضی پر اصرار کا جذبہ فروغ پایا ۔ جیساکہ پہلے ذکر کیا گیا کہ والدین کی لاپروائی نےاور اپنی اولاد کو محض تعلیم گاہ کے حوالے کر دینے اور خاص طور پر ایسے تعلیمی اداروں کے حوالے کرنے سےجو اباحیت اور لبرلزم کے لیے مشہور ہیں اور جہاں لباس، زبان ، لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان باہم آزادانہ دوستی اور دونوں جنسوں کے درمیان کوئی رکاوٹ اور فاصلہ نہیں رکھا جاتا۔ ایسے اداروں میں اپنی اولاد کو تعلیم کے لیے بھیج کر والدین نے درمیانی اور بالائی طبقات میں مغرب کی اباحیت پسندی کی ہمت افزائی کی ۔والدین اور تعلیمی اداروں کی جانب سے بچوں کی تربیت سے لاپروائی اور غفلت کے افسوس ناک طرزِ عمل کے گھناؤنے نتائج اغوا، قتل ، جنسی زیادتی اور مختلف قبیح جرائم ہرچھوٹے بڑے شہر، آبادی میں آئے روز سب کے سامنے آ رہے ہیں۔
اس پس منظر میں حال ہی میں ملک کی ایک معروف یونی ورسٹی میں جنسی استحصال کے جو مبینہ واقعات منظر عام پر آئے ہیں، وہ ہر باشعور پاکستانی کے لیے شرم و ندامت کے ساتھ اسے یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ کیا تعلیم کا مقصد گرے ہوئے اخلاق کی حامل نسل پیدا کرنا ہے، جو تعلیمی سند کے حصول کے لیے اپنی عزّت کی پروا بھی نہ کرے ! بلاشبہہ کسی بھی معاشرے میں معاشی استحصال اور سیاسی عدم استحکام معاشرے کے افراد کے اخلاق پر اثر انداز ہوتا ہے، لیکن اخلاقی زوال کا سبب محض معیشت اور سیاست کو قرار دینا غلط ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ معاشی استحصال کیوں رُونما ہوتا ہے؟ کیا اس کا سبب صرف معاشی مسائل ہوتے ہیں یا ان کا بڑا سبب معاش پیدا کرنے والے کا اخلاق ہے؟
پیشہ ورانہ اخلاقیات پر عمل نہ کیا جائے تو معاشی بدمعاملگی ، دھاندلی اور ذخیرہ اندوازی وجود میں آتے ہیں۔ دین اسلام بڑی وضاحت کے ساتھ خرابی کے راستوں اور کامیابی کی شاہراہ دونوں کے لیے عملی ہدایات دیتا ہے۔ ملاوٹ، مطلوبہ معیار کا خیال نہ رکھنا، اپنے کیے ہوئے وعدوں کو توڑنا، ہوس اور خود غرضی میں مبتلا رہنے کو کامیابی سمجھنا، معاشرتی ذمہ داری کا احساس تک نہ ہونا، کردار میں استقامت کا نہ پایا جانا، سچ اور عدل کی جگہ دھوکا، جھوٹ ،بے ایمانی، ملاوٹ کا کلچر پروان چڑھانا___ یہ ذاتی خرابیاں، رذائل اخلاق اورمنفی خصوصیات ہیں جو معاشی بگاڑ، استحصال اور کساد بازاری کی طرف لے جاتی ہیں۔ اگر انسان بدعہد، بد معاملہ ،بداخلاق، بدکردار، ناقابل اعتبار اور محض نفس اور ہوس کا بندہ ہو، تو کیا اس سے کسی مستحکم عادلانہ معاشی نظام کو قائم کرنے کی توقع کی جاسکتی ہے؟ اس سے تو چوری ، دھاندلی اور بے ایمانی ہی کو فروغ ملے گا۔
گذشتہ دنوں رانی پور (صوبہ سندھ) میں جنسی درندگی کے ہولناک واقعہ اور جڑانوالہ (صوبہ پنجاب) میں آتش زنی کا المیہ، ہمارے معاشرے کی بدنما تصویر پیش کرتا ہے، جسے درست کرنے کے لیے حکومت اور علما و اساتذہ اور میڈیا کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
گویا معاشی زوال ہو یا سیاسی عدم استحکام اصل اور بنیادی سبب وہ فرد ہے، جو اس نظام کو چلانے، فروغ دینے، اس کا دفاع کرنے میں اپنی صلاحیت ،ذہن ،علم و فکر اور جان کو کھپاتا ہے۔ ہمارے دین نے ہماری معیشت کو ایمان کا حصہ بنا کر ایک انقلابی راہ دکھائی، اور قرآن کریم میں جہاں بھی اہل ایمان کا ذکر کیا، وہاں یہ نہیں کہا کہ وہ علمِ کلام، فصاحت و بلاغت اور ادبیت میں اعلیٰ مقام رکھتے ہوں بلکہ یہ بات کہی کہ اہل ایمان دو باتوں کا اہتمام اور قیام کرتے ہیں، یعنی صلوٰۃ اور زکوٰۃ۔ زکوٰۃکو عبادت اور دین میں شامل کرنے کا مطلب یہ تھا کہ معیشت استحصال سے پاک ہو۔ کمائی کے ذرائع حلال ہوں ،ذخیرہ اندوزی اور دیگر حرام طریقوں سے اجتناب برتا جائے۔
سود کو حرام، ممنوع اور اللہ کے غضب کو جوش میں لانے والی برائی قرار دیا گیا ۔ قرض کو بغیر سود قرار دے کر تجارت اور زراعت اور صنعت کو اخلاق کے تابع کر کے دین و دنیا کی تفریق کے خاتمے کے ساتھ ایک ایسے معاشرے اور نظم مملکت کی بنیاد رکھی گئی ، جہاں عدل، حقوق کا تحفظ، مال کی حرمت، جان کی قدر، عصمت و عفت کا تحفظ، خاندان اور نسل کی حُرمت، غرض معاشرتی، معاشی اور سیاسی تینوں محاذوں پر اخلاق، سیرت و کردار کو خوفِ الٰہی، جواب دہی کا احساس، ربِّ کریم کے شاکر بندے کی حیثیت سے اس کی مخلوق کی خدمت کرنے کو ایمان کا جزو قرار دیا گیا ۔معاشرہ ہو یا معیشت یا نظم مملکت، استحکام، ترقی اور کامیابی کی علامت اور انحصار سڑکیں، پُل، فیکٹریاں اور ہاؤسنگ سوسائٹیاں نہیں صرف اور صرف مخلص، ایمان دار ، باصلاحیت ، محنت کش، صالح فرد ہوتے ہیں، جن کا کردار شفاف اور سیرت عیوب سے پاک ہو۔
اخلاص اور تقویٰ کا تعلق نماز اور ذکر الٰہی کے وسیع تر مفہوم سے ہے ،جس کو قرآن کریم نے یومِ جمعہ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے واضح کر دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا گیا: جب نمازِجمعہ کی اذان سنو تو تمام کاروبارِ معیشت و سیاست کو چھوڑ کر مسجد کی طرف اللہ کا ذکر کرنے کے لیے تیزی اختیار کرو اور جب نماز سے فارغ ہو جاؤ تو واپس آؤ اور کاروبارِ حیات کی طرف رجوع کرو، مگر اللہ کاذکر کثرت سے کرتے ہوئے (الجمعہ ۶۲:۹)۔ گویا مسجد کی طرح اپنے کاروباری ادارے میںبھی اللہ کے سامنے حاضری کے احساس کے ساتھ ناپ تو ل اور کیفیت و کمیت (quality) کے اعلیٰ معیار کو اختیار کیا جائے۔ اسی کا نام اللہ کا ذکر اور تقویٰ ہے ۔
تقویٰ کا ایک مظہر قیام ،رکوع ،سجود اور حق گوئی ہے، تو اس کا دوسرا مظہر کسی بھی کام کا انتہائی نقطۂ کمال کے ساتھ اللہ کی رضا کا طلب کرنا ہے ۔ایک سنار جب سونے کو آلودگی سے پاک کر کے کھٹالی میں پکا کر نکالتا ہے تو وہ اس کے اپنےاخلاص اور تقویٰ کا مظہر ہوتا ہے۔ معیشت اور معاشرت میں تقویٰ کا مطلب اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق خوش اخلاقی، صداقت، فیاضی ،عفو و درگزر، حلم و بُردباری، صبر و استقامت اور حکمت و دانش کے ساتھ والدین ہوں یا اولاد، بیوہ ہو یا یتیم بچّے یا اقربا یا احباب، ہر ایک کے ساتھ وہ طرزِ عمل اختیار کرنا ہے،جو قرآن و سنت میں تعلیم کیا گیا ہے۔ معاشی اور معاشرتی ترقی اس وقت ممکن ہے، جب دین ودنیا کی تفریق کی جگہ اسلام پوری زندگی پر حاوی ہو ۔معاشرتی اصلاح اور معاشی خود انحصاری کا حصول صرف اسی وقت ممکن ہے، جب کشکولِ گدائی کو توڑا جائے اور خاندان اور اسلامی اخلاقی معاشرتی نظام کو معاشرے میں نافذ کیا جائے۔ یہ کوئی پیچیدہ مسئلہ نہیں ہے، بہت آسان اور قابلِ عمل ہے۔
افراد سازی، تعمیر سیرت و شخصیت کے بغیر ناممکن ہے۔ ہمیں گھر ،تعلیم گاہ، مسجد، یونی ورسٹی، ابلاغ عامہ ، ہر محاذ پر قرآن و سنت کے عالم گیر اخلاقی اصولوں کی روشنی میں نئی نسل کی تربیت کرنی ہوگی۔ یہ کام نعر و ں ،مطالبوں کی سیاست اور دھرنوں سے نہیں بلکہ خاموشی سے نظر نہ آنے والی محنت و مشقت کے ساتھ افراد کی زندگیوں کو تبدیل کرنے سے ہوگا۔ یہ ایک صبر آزما اور طویل عمل ہے۔ جس طرح کھجور کا درخت آٹھ سے دس سال میں پھل دیتا ہے، اسی طرح تعمیر سیرت ۱۰ سے ۲۰سال تک مسلسل اخلاقی آبیاری کرنے کے بعد ہی ممکن ہو سکتی ہے۔
اس کام کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں تعریف و تحسین کی جگہ تنقید اور تضحیک مقدر ہوتی ہے۔ اللہ کے کسی بھی برگزیدہ نبی کی دعوتِ اصلاح و انقلاب کا استقبال نہیں کیا گیا، بلکہ مخالفت و مزاحمت، رکاوٹ اور اس استہزا کے ساتھ مخاطب کیا گیا کہ اللہ کو تمھارے علاوہ کوئی اور نہ ملا کہ وہ اپنا رسول بناتا؟
عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ حکومت ان سادہ لوح مولویوں کے بس کی بات نہیں۔ اس تاثر کو صرف وہ افراد دُور کر سکتے ہیں جو علمی اور پیشہ وارانہ معاملات میں مہارت رکھتے ہوں اور ان کے مخالف ان کی صلاحیت کے معترف ہونے پر مجبور ہوں۔
یہ صاحبِ حیثیت افراد کا دین نہیں تھا بلکہ اس میں جہاں حضرت عثمان ؓجیسے صاحبِ مال و ثروت تھے، وہیں حضرت ابوہریرہؓ اور حضرت بلال ؓجیسے مالی دولت سے محروم شمع رسالتؐ کے پروانے بھی تھے۔ لیکن امانت و تقویٰ میں دوسروں سےبرتر افراد تھے ۔معاشرے کے کم مال دار افراد انفاق فی سبیل اللہ ، ایثار و قربانی میں دوسروں سے کچھ آگے ہی تھے ۔ وہ جو کل تک غلام تھے، انھوں نے قیصر و کسریٰ کے تخت و تاج کو زمین بوس کر دیا ۔ صدقات اور زکوٰۃ کی تقسیم (آٹھ مدوں میں)کے ذریعے معاشی استحکام اسلام کا بنیادی ہدف تھا۔ فقر و فاقہ شرک کی طرف لے جاتا ہے، جب کہ انفاق و صدقات انسان کو متقی بناتے ہیں اور مال کی محبت سے پاک فرد اپنے رب کی محبت و اطاعت میں سکون حاصل کرتا ہے۔
علم کی تدوینِ جدید کی بنیاد حقیقی اور قطعی علمِ وحی پرہوگی ۔یہ تعمیر محض تجرباتی علم یا قیاسی، ظنی یا وجدانی اور روحانی تجرباتی احساس پر نہیں ہو سکتی۔ مروجہ علوم کی بنیاد تجرباتی تصورِ علم پر ہے، یعنی وہ علم جسے تجربہ گاہ میں جانچا جا سکتا ہے ۔وحی الٰہی کا منبع کسی کا ذاتی تجربہ نہیں بلکہ وہ ربّ العالمین ہے، جو ہر خیر اور شر کا علم بھی رکھتا ہے اور ہر خیر و شر پر قدرت بھی۔علم کی تدوینِ جدید وحی کی روشنی میں اس کے عالم گیر ہونے کے سبب واحد اعلیٰ ترین ذریعۂ علم ہے۔وحی کے علاوہ تمام علم محدود، وقتی اور داخلی ہے۔ وحی معروضی، عالم گیر اور تطبیقی علم کا واحد قطعی ذریعہ ہے۔ اس بنا پر تمام معاشرتی اور تجربی علوم کی اخلاقی اصولوں پر مبنی تدوینِ جدید اسی وقت پُرمعنی ہو سکتی ہے، جب اس کی بنیاد روشن ثبوتوں پر استوارہو۔
معاشرتی علوم اور تجرباتی علوم کی تشکیلِ جدید قرآن و سنت کے عالم گیر اصولوں کی بنیاد پر کرنی ہوگی اور یہ کام اُن پُرعزم معلمین و معلمات اور طلبہ و طالبات کو کرنا ہوگا جو شعور حیات رکھتے ہوں ،جو رضاکارانہ طور پر اللہ کے انصار بننے پر تیار ہوں۔ ایسے انصار ہی سے یہ وعدہ کیا گیا ہےکہ جب وہ اللہ کو اپنا رب مان کر اس کے راستے یعنی اس صراط مستقیم پر چلیں گے اور ان کے قدم جادۂ حق اور صراطِ مستقیم کی طرف اٹھیں گے، تو اگر وہ ۲۰ ہوں تو ۲۰۰ پر اور اگر سوہوں تو ہزار پر غالب آئیں گے۔ باطل کی چمک دمک ان کے عزم و ارادے کے سامنے تحلیل ہو جائے گی۔فرشتے ان کے ساتھ صف بہ صف شریک ہو کر ان کی استعانت اور مدد کریں گے۔
مستقبل انھی کا ہے جو تمام غلامیوں کو پامال کر کے صرف اللہ وحدہٗ لا شریک کی بندگی میں آجائیں، دین میں پورے کے پورے داخل ہوں، خلوص، قربانی ،عزمِ صمیم کی تصویر ہوں، تو مستقبل خود ان کی طرف پیش قدمی کرے گا اور وہ ایک تابناک صبح کے پیغامبر بن کر انسانیت کو عدل، حُریت، احترامِ انسانیت، پاک دامنی ، حیا اور معاشرتی عدل کی برکات سے بہرہ وَر کردینے والے خوش نصیب ہوں گے ۔یہ وہ کام ہے جو سب سے زیادہ ترجیح کا مستحق ہے اور جسے شعوری طور پر وہی لوگ کرسکتے ہیں، جو ذہنی ،جذباتی اور عملی طور پر اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کر چکے ہیں۔
جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دے چکو اور وہ اپنی عدّت پوری کر لیں، تو پھر اس میں مانع نہ ہو کہ وہ اپنے زیرِ تجویز شوہروں سے نکاح کر لیں، جب کہ وہ معروف طریقے سے باہم مناکحت پر راضی ہوں۔ تمھیں نصیحت کی جاتی ہے کہ ایسی حرکت ہرگز نہ کرنا، اگر تم اللہ اور روز آخر پر ایمان لانے والے ہو۔ تمھارے لیے شائستہ اور پاکیزہ طریقہ یہی ہے کہ اس سے باز رہو۔ اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے۔
جو باپ چاہتے ہوں کہ ان کی اولا د پوری مدتِ رضاعت تک دودھ پیے، تو مائیں اپنے بچوں کو کامل دو سال دودھ پلائیں۔ اِس صورت میں بچے کے باپ کو معروف طریقے سے انھیں کھانا کپڑا دینا ہوگا۔ مگر کسی پر اس کی وسعت سے بڑھ کر بار نہ ڈالنا چاہیے۔ نہ تو ماں کو اِس وجہ سے تکلیف میں ڈالا جائے کہ بچہ اس کا ہے، اور نہ باپ ہی کو اس وجہ سے تنگ کیا جائے کہ بچہ اس کا ہے___ دودھ پلانے والی کا یہ حق جیسا کہ بچے کے باپ پر ہے، ویسا ہی اس کے وارث پر بھی ہے___ لیکن اگر فریقین باہمی رضامندی اور مشورے سے دودھ چھڑانا چاہیں، تو ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔(البقرہ ۲:۲۳۲-۲۳۳)
یعنی دودھ پلانے کا معاملہ اس صورت میں طے ہونا ضروری ہے، جب ماں باپ میں علیحدگی ہو چکی ہو ۔اس کے لیے نان نفقہ بھی دینا ہوگا۔ باپ کا انتقال ہو جائے تو یہ حق اس کو ادا کرنا ہوگا جو باپ کی جگہ ولی ہو۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ علیحدگی اور شوہر کی وفات کی صورت میں بچہ ددھیال والے لے لیتے ہیں کہ ہمارا بچہ ہے ہم خود دیکھ لیں گے۔ عورت کی خواہش کے برعکس ایسا کرنا ممتا کےلیے تکلیف دہ ہوتا ہے ۔اس لیے ایسے افعال سے بھی بچنے کی ضرورت ہے۔
تم میں سے جو لوگ مر جائیں، اُن کے پیچھے اگر اُن کی بیویاں زندہ ہوں، تو وہ اپنے آپ کو چار مہینے، دس دن روکے رکھیں۔ پھر جب ان کی عدّت پوری ہو جائے، تو انھیں اختیار ہے، اپنی ذات کے معاملے میں معروف طریقے سے جو چاہیں، کریں۔ تم پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں۔ اللہ تم سب کے اعمال سے باخبر ہے۔(البقرہ ۲:۲۳۴)
’’یہ عدّ تِ وفا ت ان عورتوں کے لیے بھی ہے جن سے شوہروں کی خلوتِ صحیحہ نہ ہوئی ہو۔ البتہ حاملہ عورت اس سے مستثنیٰ ہے۔اس کی عدّتِ وفات وضع حمل تک ہے ،خواہ وضع حمل شوہر کی وفات کے بعد ہی ہو جائے یااس میں کئی مہینے صرف ہو ں۔ ' ’اپنے آپ کو روکے رکھیں‘ 'سے مراد صرف یہی نہیں ہے کہ وہ اس مدت میں نکاح نہ کریں ،بلکہ اس سے مراد اپنے آپ کو زینت سے بھی روکے رکھنا ہے۔چنانچہ احادیث میں واضح طور پر یہ احکام ملتے ہیں کہ زمانۂ عدّت میں عورت کو رنگین کپڑے اور زیور پہننے سے، مہندی اور سُرمہ اور خوشبو اور خضاب لگانے سے، اور بالوں کی آرائش سے پرہیز کرنا چاہیے۔ البتہ اس امر میں اختلاف ہے کہ وہ اس زمانے میں گھر سے نکل سکتی ہیں یا نہیں؟ائمہ اربعہ اس بات کے قائل ہیں کہ زمانۂ عدّت میں عورت کو اسی گھر میں رہنا چاہیے جہاں اس کے شوہر نے وفات پائی ہو (البتہ ضر ورت کے لیے) وہ باہر جا سکتی ہے مگر قیام اس کا اُسی گھر میں ہونا چاہیے۔ اس کے برعکس حضرت عائشہؓ اور تمام اہل الظاہر اس بات کے قائل ہیں کہ عورت اپنی عدّت جہاں چاہے گزار سکتی ہے اور اس زمانے میں سفر بھی کر سکتی ہے‘‘۔(تفہیم القرآن، اوّل، حاشیہ ۲۵۹)
’عدّت‘ کے احکام سے بے خبری بھی عام ہے اور کچھ خود ساختہ آزادی یا پابندیاںہیں جس پر عموماً معاشرے میں عمل ہوتا ہے ۔ایک رویہ یہ ہے کہ عورت کو سفید دوپٹہ اُ وڑھا دیا جائے، زیورات اتار دیئے جائیں ،قریب سے بھی آوازیں آتی ہیں 'ہائے بے چاری کیا کرے، کچھ نہیں ہوتا خوامخو ا ہ کی سختی نہ کریں ۔ملی جلی آوازوں میں، بیوہ بھی پریشان اور گومگو کی کیفیت میں چلی جاتی ہے کیونکہ خود علم نہیں ہوتا اور فوری طور پر علم حاصل کرنے کا موقع بھی نہیں ہوتا۔
زمانۂ عدّت میں خواہ تم اُن بیوہ عورتوں کے ساتھ منگنی کا ارادہ اشارے کنایے میں ظاہر کر دو، خواہ دل میں چھپائے رکھو، دونوں صورتوں میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اللہ جانتا ہے کہ اُن کا خیال تو تمھارے دل میں آئے گا ہی۔ مگر دیکھو! خفیہ عہد و پیمان نہ کرنا۔ اگر کوئی بات کرنی ہے، تو معرف طریقے سے کرو۔ (البقرہ ۲:۲۳۵)
’عدّت‘ کے احکام کا علم نہ ہونے کی بنا پر، یا کئی اور نام نہاد مجبوریوں کی آڑ میں کبھی علانیہ اور اکثر خفیہ رکھ کر نکاح کر لیا جاتا ہے،جو کہ اللہ کے بتائے ہوئے احکامات کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اور اگر معاشرے کے سرکردہ لوگ ،اسی طرح کریں تو وہ بھی عوام الناس کے لیے وجۂ جواز بن جاتی ہے۔
تم پر کچھ گناہ نہیں، اگر اپنی عورتوں کو طلاق دے دو قبل اس کے کہ ہاتھ لگانے کی نوبت آئے یا مہر مقرر ہو۔ اس صورت میں اُنھیں کچھ نہ کچھ دینا ضرور چاہیے۔ خوش حال آدمی اپنی مقدرت کے مطابق اور غریب اپنی مقدرت کے مطابق معروف طریقے سے دے۔ یہ حق ہے نیک آدمیوں پر۔ (البقرہ ۲:۲۳۶)
رشتہ جوڑ کر توڑ دینے سے عورت کی ساکھ کو نقصان تو پہنچتا ہے،اس لیے اللہ نے حسبِ استطاعت ازالے کا حکم دیا ہے۔
اور اگر تم نے ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی ہو، لیکن مہر مقرر کیا جا چکا ہو، تو اس صورت میں نصف مہر دینا ہوگا۔ یہ اور بات ہے کہ عورت نرمی برتے (اور مہر نہ لے) یا وہ مرد، جس کے اختیار میں عقدِ نکاح ہے، نرمی سے کام لے (اور پورا مہر دے دے)، اور تم (یعنی مرد) نرمی سے کام لو، تو یہ تقویٰ سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ آپس کے معاملات میں فیاضی کو نہ بھولو۔ تمھارے اعمال کو اللہ دیکھ رہا ہے۔(البقرہ ۲:۲۳۷)
یعنی نکاح ہوگیا ،رخصتی نہیں ہوئی اور مہر مقرر ہو چکا تھا تو اس صورت میں نصف مہر دینا ہوگا ۔اور اس میں شوہر اور بیوی دونوں کو فراخ دلی اور فیاضی برتنے کی تلقین کی گئی ہے، کہ انسانی معاشرے میں خوش گوار تعلقات کی اساس یہی ہے۔ اور یہی تقویٰ کا رویہ ہے۔
تم میں سے جو لوگوں وفات پائیں اور پیچھے بیویاں چھوڑ رہے ہوں، اُن کو چاہیے کہ اپنی بیویوں کے حق میں یہ وصیت کر جائیں کہ ایک سال تک ان کو نان و نفقہ دیا جائے اور وہ گھر سے نہ نکالی جائیں۔ پھر اگر وہ خود نکل جائیں، تو اپنی ذات کے معاملے میں معروف طریقے سے وہ جو کچھ بھی کریں، اس کی کوئی ذمہ داری تم پر نہیں ہے، اللہ سب پر غالب اقتدار رکھنے والا اور حکیم و دانا ہے۔(البقرہ ۲:۲۴۰)
یہ احکامِ وراثت سے پہلے کی آیت ہے۔ بیوہ کا ورثے میں حصہ مقرر ہو جانے کے بعد، اس وصیت کر نے کا حکم منسوخ ہو گیا ،تاہم پسندیدہ یہی ہے کہ بیوہ سسرال میں ہی رہے۔ البتہ اگر سسرال میں قدرے مشکل ہو یا میکے میں آسانی ہو یا کوئی مجبوری ہو تو وہ دوسری جگہ بھی قیام کر سکتی ہے۔
اِسی طرح جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو، انھیں بھی مناسب طور پر کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کیا جائے۔ یہ حق ہے متقی لوگوں پر۔ اِس طرح اللہ اپنے احکام تمھیں صاف صاف بتاتا ہے۔ اُمید ہے کہ تم سمجھ بوجھ کر کام کرو گے۔(البقرہ ۲:۲۴۱-۲۴۲)
طلاق سے گو کہ شوہر اور بیوی کے تعلقات ختم ہو رہے ہیں۔ اور طلاق کا عمل بالعموم آپس کے تعلقات کی خرابی کی وجہ سے پیش آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ یہاں ناراض ہونے، لڑنے یا تعلقات ختم کرتے ہوئے بھی حسن سلوک کا حکم دیتا ہے۔ تحا ئف دلوں کو نرم کرتے ہیں۔ رنج اور غصے کی کیفیت جو علیحدگی کے وقت طر فین پر طاری ہوتی ہے،کچھ دینے اور لینے سے بہتر ہوتی ہے۔
لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے۔ اُس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو، اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے۔(النساء ۴:۱)
آغاز اس سے کیا کہ ’تمھیں ایک ہی جان سے پیدا کیا‘۔خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا کے معنی ہیں اسی کی جنس سے۔ اگرچہ اس کے معنی لوگوں نے اور بھی لیے ہیں، لیکن جس کی بنیاد پر لیے ہیں وہ نہایت کمزور ہے۔ سورئہ نحل میں ہے: وَاللہُ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا (۱۶:۷۲) کہ اللہ نے تمھارے لیے تمھاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں۔ مراد یہ کہ نسلِ انسانی ایک ہی آدم کا گھرانا ہے۔ سب کو اللہ تعالیٰ نے ایک ہی آدم و حوا کی نسل سے پیدا کیا ہے، اور نسلِ آدم ہونے کے اعتبار سے سب برابر ہیں، پھر یہ کہ جس طرح آدمؑ تمام نسلِ انسانی کے باپ ہیں، اسی طرح حواؑ تمام نسلِ انسانی کی ماں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حواؑ کو آدم ؑ ہی کی جنس سے بنایا ہے، اس وجہ سے عورت کوئی ذلیل، حقیر،فروتر اور فطری گنہگار مخلوق نہیں ہے، بلکہ وہ بھی شرفِ انسانیت میں برابر کی شریک ہے۔(مولانا امین احسن اصلاحی،تدبرقرآن، ج۲، ص ۲۴۵-۲۴۷)
آغاز میں یہ بھی وضاحت کردی گئی ہے کہ جس خدا کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے حق مانگتے ہو، رشتہ وقرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو ۔بہت اہم نکتہ یہ بیان کیا کہ ’’یہ یقین کرلو ،اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے‘‘ ۔یہ آیت ،یعنی سورۂ نساء ،کی پہلی آیت خطبۂ نکاح میں پڑھی جاتی ہے ۔اس میں یہ باور کرایا گیا ہے کہ اللہ، اس جوڑے کے باہمی معاملات کی نگرانی کررہا ہے۔ نکاح دُنیاداری یا رسمِ دُنیا نہیں، کچھ تقریبات ،کپڑوں اور زیورات کی نمائش نہیں ۔یہ کڑی ذمہ داری اور باہمی تعلقات کی ابتدا وعہد ہے جو رب کی رضا کے حصول کے لیے، رب کے حکم پر عمل کرنا ہے۔ کتنی بدنصیبی ہوتی ہے ،جب یہ تعلق ،اللہ کی رضا کی بجائے ،ہمارے طرزِ عمل کی وجہ سے اللہ کی ناراضی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
یتیموں کے مال اُن کو واپس دو، اچھے مال کو برے مال سے نہ بدل لو، اور اُن کے مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر نہ کھا جاؤ، یہ بہت بڑا گناہ ہے۔(النساء ۴:۲)
یعنی جب تک وہ بچے ہیں، ان کے مال انھی کے مفاد پر خرچ کرو، اور جب بڑے ہوجائیں تو جو ان کا حق ہے وہ انھیں واپس کر دو۔
اور اگر تم یتیموں کے ساتھ بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو جو عورتیں تم کو پسند آئیں اُن میں سے دو دو، تین تین، چار چار سے نکاح کر لو۔ لیکن اگر تمھیں اندیشہ ہو کہ اُن کے ساتھ عدل نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کرو یا اُن عورتوں کو زوجیت میں لاؤ جو تمھارے قبضہ میں آئی ہیں، بے انصافی سے بچنے کے لیے یہ زیادہ قرینِ صواب ہے۔(النساء ۴:۳)
اس کے تین مفہوم مفسرین نے بیان کیے ہیں :
۱-حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ زمانۂ جاہلیت میں جو یتیم بچیاں لوگوں کی سرپرستی میں ہوتی تھیں، ان کے مال اور ان کے حُسن و جمال کی وجہ سے، یا اس خیال سے کہ ان کا کوئی سر دھرا تو ہے نہیں ،جس طرح ہم چاہیں گے دبا کر رکھیں گے ،وہ ان کے ساتھ خود نکاح کرلیتے تھے اور پھر ان پر ظلم کیا کرتے تھے۔ اس پر ارشاد ہوا کہ اگر تم کو اندیشہ ہو کہ یتیم لڑکیوں کے ساتھ انصاف نہ کر سکو گے تو دوسری عورتیں دنیا میں موجود ہیں،ان میں سے جو تمھیں پسند آئیں، ان کے ساتھ نکاح کر لو ۔اسی سورہ میں انیسویں رکوع کی پہلی آیت اس تفسیر کی تائید کرتی ہے۔
۲-ابن عباسؓ اور ان کے شاگرد عِکرمہ اس کی تفسیر یہ بیان کرتے ہیں کہ جاہلیت میں نکاح کی کوئی حدنہ تھی ۔ایک ایک شخص دس دس بیویاں کر لیتا تھا ۔اور جب اس کثرتِ ازدواج سے مصارف بڑھ جاتے تھے تو مجبور ہو کر اپنے یتیم بھتیجوں ،بھانجوں اور دوسرے بے بس عزیزوں کے حقوق پر دست درازی کرتا تھا ۔اس پر اللہ تعالیٰ نے نکاح کے لیے چار کی حد مقرر کر دی ہے اور فرمایا کہ ظلم اور بے انصافی سے بچنے کی صورت یہ ہے کہ ایک سے لے کر چار تک اتنی بیویاں کرو جن کے ساتھ تم عدل پر قائم رہ سکو۔
۳-سعید بن جُبیر اور قتادہ اور بعض دوسرے مفسرین کہتے ہیں ،کہ جہاں تک یتیموں کا معاملہ ہے اہلِ جاہلیت بھی ان کے ساتھ بے انصافی کرنے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے ۔ لیکن عورتوں کے معاملے میں اُن کے ذہن عدل و انصاف کے تصور سے خالی تھے ۔جتنی چاہتے تھے شادیاں کر لیتے تھے اور پھر اُن کے ساتھ ظلم و جور سے پیش آتے تھے۔ اس پر ارشاد ہوا کہ اگر تم یتیموں کے ساتھ بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو عورتوں کے ساتھ بھی بے انصافی کرنے سے ڈرو۔ اول تو چار سے زیادہ نکاح ہی نہ کرو، اور اس چار کی حد میں بھی بس اتنی بیویاں رکھو جن کے ساتھ انصاف کر سکو۔نیز اس کامفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اگر تم یتیموں کے ساتھ ویسے انصاف نہیں کر سکتے تو اُن عورتوں سے نکاح کر لو جن کے ساتھ یتیم بچے ہیں ۔(تفہیم القرآن، ج اوّل، حاشیہ۴)
یہ بات بھی قابل غور ہےکہ یہ آیت چار بیویوں کی اجازت دینے کے لیے نہیں بلکہ تعددِ اَزواج کی تعداد کو چار تک محدود کرنے کے لیے نازل ہوئی ۔فقہائے امت کا بھی اجماع ہے کہ اس آیت کے ذریعے تعددِاَزواج کی حد مقرر کر دی گئی ۔اور یہ حکم ایک ہی وقت میں چار سے زیادہ بیویاں رکھنے سے منع کرنے کے لیے ہے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ یہ آیت ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کو عدل کی شرط کے ساتھ مشروط کرتی ہے۔ جو شخص بیویاں ایک سے زیادہ رکھتا ہےمگر ان کے در میا ن عدل نہیں کرتا، وہ اللہ کے اس حکم سے کہ ’ایک سے زیادہ بیویاں کرلو‘ سے تو فائدہ اٹھاتا ہے مگر عدل نہ کر کے گویا اللہ کے ساتھ دغا بازی کرتا ہے ۔
اسلامی حکومت کی عدالتوں کو ایسی بیوی یا بیو یو ں کی داد رسی کرنی چاہیے ،جن کو شوہر سے انصاف نہ ملے۔ ایک سے زیادہ بیویوں سے نکاح کرنا بعض حالات میں ایک تمدنی اور اخلاقی ضرورت بن جاتی ہے۔ اگر اس کی اجازت نہ دی جائے ،تو جو لوگ ایک بیوی پر صبر نہیں کرسکتے، دوسری عورتوں کے ساتھ صنفی تعلقات قائم کرتے ہیں اور تمدنی و اخلاقی مسائل کی وجہ بنتے ہیں، جس کے نقصانات معاشرے کو اس سے کئی گنازیادہ بھگتنے پڑتے ہیں بہ نسبت اس کے کہ ایک شخص کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چار سے زیادہ بیویوں کی اجازت ملنا ایک استثنائی حکم ہے۔
اہل مغرب کی عیسائیت زدہ رائے کی بنا پر بعض احساسِ کمتری کا شکار قرآن کے اس حکم کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ اللہ نے بیویوں کی تعداد کو محدود کرنے کے لیے یہ ابتدائی حکم دیا تھا۔ گویا اصلاً ایک ہی بیوی ہونااسلام کا حکم ہے،یہ رائے غلط ہے۔(تفہیم القرآن، اوّل، حاشیہ۵)
آخر میں جو یہ فرمایا کہ ان عورتوں کو اپنی زوجیت میں لاؤ جو تمھارے قبضے میں ہیں ،تو اس سے مراد لونڈیاں ہیں۔ یہ وہ عورتیں ہیں ،جو جنگ میں گرفتار ہوکر آئیں اور حکومت ان کو علانیہ لوگوں میں تقسیم کرکے ان کی ملکیت بنا دے۔(ایضاً، حاشیہ نمبر۶)
ایک سے زیادہ نکاح کے بارے میں امت مسلمہ کے رویے مختلف ہیں۔ برصغیر پاک و ہند کی عورت دوسری بیوی یا سوکن کو بہت مشکل سے گوارا کرتی ہے،اور اس گھر کے سو مسائل شروع ہوجاتے ہیں، جو مرد سنبھال نہیں پاتا۔ بقیہ دنیا میں ملا جلا معاملہ ہے ۔ مرد دوسرے نکاح تو کرلیتے ہیں مگر عدل کامعاملہ عموماً نہیں کر پاتے۔ جس پر نہ وہ خود مطمئن ہوتے ہیں اور یہاں تک کہ دین کی سمجھ رکھنے والی بیویوں کو بھی مطمئن نہیں کر پاتے۔
اور عورتوں کے مہر خوش دلی کے ساتھ (فرض جانتے ہوئے) ادا کرو، البتہ اگر وہ خود اپنی خوشی سے مہر کا کوئی حصہ تمھیں معاف کر دیں تو اُسے تم مزے سے کھا سکتے ہو۔ (النساء ۴:۴)
بیویوں کے ’مہر‘ان کا حق ہے ۔اور اس ’مہر‘ کا ادا کیا جانا شوہر پر فرض ہے ۔نکاح کے موقع پر ہی مقررکردہ ’مہر‘ ادا کر دیا جانا اولیٰ ہےمگر ’معجل‘ اور’ غیرمعجل‘ کی رعایت بھی موجود ہے۔ بیوی شوہر کو حق مہر معاف بھی کر سکتی ہے ۔لیکن بعد ازاںاگر وہ پھر اس کا مطالبہ کرے تو شوہر کو یہ ادا کرنا ہوگا،اور عدالت عورت کو یہ دلوانے کی پابند ہوگی۔کیونکہ اس کا مطالبہ کرنا یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ اپنی خوشی سے مہر یا اس کا کوئی حصہ چھوڑنا نہیں چاہتی۔
’مہر‘ کے معاملے میں ہمارے معاشرے میں بہت سی بے ضابطگیاں پائی جاتی ہیں۔ حق مہر کی ادائیگی طلاق دینے کے وقت تک مؤخرر کھی جاتی ہے ۔بہت زیادہ حق مہر لکھوائے جاتے ہیں کہ مرد لڑکی کو طلاق نہ دے سکے ۔باہم فریقین کا نباہ بھی نہیں ہوتا ،مگر تفریق کبھی نہیں ہو سکتی، کہ لڑکا لکھا ہوا حق مہر ادا کرنے کے قابل نہیں ہوتا ۔
’حق مہر‘ کا ایک خود ساختہ تصور ’شرعی حق مہر‘ کا ہے جو کہ ۳۵ روپے ہے۔لوگ دین دار گھرانوں کو طعنہ دیتے ہیں کہ اب ان کی دین داری کہا ں ہےاور زیادہ مہر کیوں مقرر کر رہے ہیں؟ مہر بھی دین کا وہ حکم ہے جو دین دار حلقوں میں بھی کما حقہٗ متعارف نہیں۔ اس پر عمل ضروری ہے ،کہ اس کے بارے میں آگاہی بڑھائی جائے اور اس میں حیلے بہانے کرنے والوں کی کسی درجہ میں گرفت ہوسکے۔
مردوں کے لیے اُس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، اور عورتوں کے لیے بھی اُس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، خواہ تھوڑا ہو یا بہت، اور یہ حصہ (اللہ کی طرف سے) مقرر ہے۔(النساء ۴:۷)
اس آیت میں واضح طور پر پانچ قانونی حکم دیے گئے ہیں:ایک یہ کہ میراث صرف مردوں ہی کا حصہ نہیں ہے بلکہ عورتیں بھی اس کی حق دار ہیں ۔دوسرے یہ کہ میراث بہرحال تقسیم ہونی چاہیے خواہ وہ کتنی ہی کم ہو، حتیٰ کہ مرنے والے نے ایک گز کپڑا چھوڑا ہے اور دس وارث ہیں ،تو اسے بھی دس حصوں میں تقسیم ہونا چاہیے۔ یہ اور بات ہے کہ ایک وارث دوسرے وارثوں سے ان کا حصہ خرید لے۔تیسرے، اس آیت سے یہ بات بھی مترشح ہوتی ہے کہ وراثت کا قانون ہر قسم کے اموال و املاک پر جاری ہوگا، خواہ وہ منقولہ ہوں یا غیر منقولہ، زرعی ہوں یا صنعتی، یا کسی اور صنف مال میں شمار ہوتے ہوں۔چوتھے ،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ میراث کا حق اس وقت پیدا ہوتا ہے جب مورث کوئی مال چھوڑ مرا ہو ۔پانچویں، اس سے یہ قاعدہ بھی نکلتا ہے کہ قریب کے رشتےدار کی موجودگی میں بعید تر رشتےدار میراث نہ پائے گا۔ (تفہیم القرآن، سورۃ النساء حاشیہ ۱۲)
وراثت میں حصہ مردوں اور عورتوں کا ہے اور رشتے کے لحاظ سے ہے ۔مرد بیٹا ہے ،یا باپ ہے، عورت بیٹی ہے ،یا ماں ہے ۔عملاً معاشرے میں اِلا ماشاء اللہ وراثت کی تقسیم شریعت کے مطابق ہو،تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے ۔ جہاں تقسیم ہوتی ہے وہاں صرف نقد رقم تقسیم ہو جاتی ہے۔ وہ بھی ۲۰ لاکھ بہن کے حصے میں آتا ہےتو ۱۰ لاکھ دے کر فارغ ہو جائیں گے ۔گھر بالعموم مشترکہ ہوتے ہیں، وہ تقسیم ہو تو کاروبار خراب ہوتا ہے،لہٰذا بہن کے حصے میں کچھ نہیں آ تا ہے ۔
گھر تقسیم کیسے ہوں؟ بہنوں کو حصہ کیسے دیں ؟ دے دیں تو ماں اور بیٹے کہاں رہیں ؟ لہٰذا تقسیم نہیں ہوسکتا اور نہیں ہوتا ۔رہا دوسرا سامان و غیرہ، تو وہ سب حساب میں لایا ہی نہیں جاتا ،ماں بھی بہوؤں کی ہم نوا بن جاتی ہے ، بیٹیاں اپنی قسمت کاکھا رہی ہیں ،یہاں کی چیزیں یہاں ہی رہنے دو ،یا ان چیزوں کی تقسیم کا کیا ذکر ہے؟
ماں باپ اپنی زندگی میں جائیداد تقسیم کر کے بیٹے اور بیٹیوں کے نام برابر ہدیہ کر دیتے ہیں کہ ہد یے میں تو برابری ہونی چاہیے ۔بعد میں بچے لڑتے نہ رہیں، بیٹیوں کو شاید حصہ نہ دیں یا یہ بھی ہوتا ہے کہ ساری جائیداد اپنی زندگی میں ہی بیٹوں کے نام کر دیں تو بیٹیاں عدالت جاپہنچیں۔ نہ بہوؤں کو اپنے میکے سے حصہ ملتا ہے، نہ وہ نندوں کو حصہ دینے کے حق میں ہوتی ہیں۔ اگر کہیں بیٹیاں خاموش رہنے کی بجائے ،زبان کھول کر مانگ لیں تو ساری عمر ان کا میکے میں داخلہ بند اور باہم لین دین ، شادی،خوشی کے موقع پر مل بیٹھنا سب ختم ہو جاتا ہے و غیر ہ ۔
قرآن میں قانونِ وراثت بڑی تفصیل سے مذکور ہے ،اس کو جاننا اور اس پر عمل کرنا ،اس کا ابلاغ کرنا، بحیثیت مسلمان ہماری سب کی ذمہ داری ہے ۔جس کے بارے میں یقیناا للہ پوچھے گا۔
لوگوں کو اس بات کا خیال کر کے ڈرنا چاہیے کہ اگر وہ خود اپنے پیچھے بے بس اولاد چھوڑتے تو مرتے وقت انھیں اپنے بچوں کے حق میں کیسے کچھ اندیشے لاحق ہوتے۔ پس چاہیے کہ وہ خدا کا خوف کریں اور راستی کی بات کریں۔(النساء ۴:۹)
یہاں پھر اللہ تعالیٰ خاندانوں میں رہنے والے یتیموں کے حقوق کے بارے میں یاد دہانی اور تاکید کرتا ہے ۔یتیم کا والی وارث دنیا سے چلا جاتا ہے۔ اللہ خود اس کے مال کے حوالے سے تمام مسلمانوں کو مالِ یتیم کی حرمت کے لیے یاد دہانی کراتا ہے۔
تمھاری اولاد کے بارے میں اللہ تمھیں ہدایت کرتا ہے کہ: مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے، اگر (میت کی وارث) دو سے زائد لڑکیاں ہوں تو انھیں ترکے کا دو تہائی دیا جائے۔ اور اگر ایک ہی لڑکی وارث ہو تو آدھا ترکہ اس کا ہے۔ اگر میت صاحب ِاولاد ہو تو اس کے والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملنا چاہیے۔ اور اگر وہ صاحب ِاولاد نہ ہو اور والدین ہی اس کے وارث ہو ں تو ماں کو تیسرا حصہ دیا جائے۔ اور اگر میت کے بھائی بہن بھی ہوں تو ماں چھٹے حصہ کی حق دار ہوگی۔ (یہ سب حصے اُس وقت نکالے جائیں گے)، جب کہ وصیت جو میت نے کی ہو پوری کر دی جائے اور قرض جو اُس پر ہو ادا کردیا جائے۔ تم نہیں جانتے کہ تمھارے ماں باپ اور تمھاری اولاد میں سے کون بلحاظ نفع تم سے قریب تر ہے۔ یہ حصے اللہ نے مقرر کر دیے ہیں، اور اللہ یقیناً سب حقیقتوں سے واقف اور ساری مصلحتوں کا جاننے والا ہے۔(النساء ۴:۱۱)
’میراث‘ کے معاملے میں اصول یہ ہے کہ مرد کا حصہ عورت کے حصے سے دوگنا ہو تا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مرد پر ا للہ نے خا ند ا نی زندگی میں معاش کا بوجھ ڈالا ہے ،اور عورت پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے، بلکہ مرد عورت کے نان نفقے کا ذمہ دار ہے۔
اگر اولاد میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں ہو ں تو حصوں میں نسبت ۱:۲ / لڑکا :لڑکی ہو گی، لیکن اگر وارث صرف لڑکیاں ہوں تو ان کو کل ترکےکا ۳/۲ملے گا اور ۳/۱ باقی وارثوںمیں تقسیم ہوگا۔
اگر اولاد میں صرف ایک لڑکا ہو تو اس پر اجماع ہےکہ وہ کل جائیداد کا وارث ہوگا، جب کہ دوسرے وارث موجود نہ ہوں۔
والدین میں ہر ایک کا حصہ ۶/۱ ہے ،اگر میت صاحب اولاد ہو ۔اولاد نہ ہونے کی صورت میں والدین میں سے ہر ایک کو ۳/۱ حصہ ملے گا۔ آیت میں وصیت کا ذکر قرض سے پہلے کیا گیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ قرض کا ہونا ہر میت کے حق میں ضروری نہیں ہے اور وصیت کرنا اس کے لیے ضروری ہے ۔لیکن حکم کے اعتبار سے امت کا اجماع اس پر ہے کہ قرض پہلے ادا کیا جائے گا پھر وصیت یعنی ایک تہائی وراثت کے بارے میں میت نے جو کہا ہے وہ نکالا جائے گا۔ بعد ازاں وراثت وارثوں میں تقسیم ہو گی۔ یہ بھی یاد رہے کہ وصیت کل ورثے کا ۳/۱ حصہ ہوگا۔ اس میں کسی رشتے دار، یتیم پوتا پوتی ،دیگر ضرورت مند افراد یا اداروں کے حق میں وصیت کی جا سکتی ہے۔ وصیت اُس کے حق میں نہیں ہوگی جن کا حصہ اللہ تعالیٰ نے وراثت میں مقرر کر دیا ہے۔
قرض کی ادائیگی اور وصیت پر عمل ورثاکی ذمہ داری ہے۔ جس کو خوشی خوشی ناک منہ چڑھائے بغیر پورا کیا جانا چاہیے ۔اگر مرنے والے نے وصیت میں کچھ بے جاتصرف کیا ہے ،تو ورثا باہم مشورے و رضامندی سے کسی قاضی کے ذریعے ،یہ بے ضابطگی درست کروا سکتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے جو مبنی بر حکمت ہے ۔اس کو پوری طرح سے نافذ کرنا چاہیے ۔اور اس میں اپنی ناقص عقل سے اصلاحات تجویز کرنا ،یا ہیرا پھیری کے راستے تلاش نہیں کرنے چاہییں۔
یہ ایک ایسا سوال ہے، بدقسمتی سے جس پر پوری طرح غور نہیں کیا جاتا ہے۔ آج کی دُنیا ذہن کی دُنیا ہے۔ جتنی تعمیر و ترقی نظر آرہی ہے وہ انسانی ذہن ہی کی کامیابیوں کا ثمرہ ہے۔ خصوصاً سائنس اور ٹکنالوجی کی مدد سے جو بھی ایجادات و اختراعات کی گئی ہیں وہ ذہنی تفتیش و تحقیق کے حیران کن نتائج ہیں، جن سے آج کا انسان فائدے اُٹھا رہا ہے۔
انسانی ذہن سے گذشتہ دو تین صدیوں سے جو کام لیے گئے ہیں، انھوں نے ذہن کی گہری پوشیدہ صلاحیتوں کو زبردست طریقے سے چمکا دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان اپنے اُوپر ناز کرنے لگاہے اور اس حقیقت کو فراموش کردیا ہے کہ ذہن میں جو خیالات پیدا ہوتے ہیں وہ خداوند تعالیٰ ہی کے القا کیے ہوتے ہیں۔ اگر خالقِ کائنات سائنس دانوں اور انجینیروں کے ذہنوں میں نت نئے خیالات اور آئیڈیاز کا القا نہ کرتا، تو ان کے لیے ممکن ہی نہ تھا کہ وہ دُنیاکو اس تعمیروترقی سے ہمکنار کرپاتے جو ہمیں اپنے چاروں طرف دکھائی دیتی ہے اور جس نے فاصلوں کو سکیڑ کر دُنیا کو ایک شہر بناکے رکھ دیا ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ دنیا کو حیران کن تبدیلیوں سے دوچار کرنے والی انسانی عقل کیوں صرف ظاہری تبدیلیوں اور تغیرات تک ہی خود کو محدود رکھ سکی ہے، اور کیوں اب تک عالمی سطح پر ایسی کوئی تبدیلی نہیں لاسکی ہے، جو انسان کو قلبی اور ذہنی طور پر سکون و اطمینان اور امن و آشتی عطا کرتی ہو؟ اگر انسان ماضی بعید اور ماضی قریب میں پریشانی سے دوچار تھا، تو آج کا انسان بھی دُکھی اور پریشان حال ہے۔ ظاہری آسایشیں اور سہولتیں اس کے زخموں کا مرہم نہیں بن سکی ہیں۔ یہ پریشان حالی اور اس کے ساتھ مسلسل بڑھتی پریشان فکری بھی انسان کو اس درجے پر لے آئی ہے کہ مایوس ہوکر ہزارہا انسان خودکشی جیسا انتہائی اقدام اُٹھا چکے ہیں۔ نفسیاتی عوارض کا ہرگزرتے دن کے ساتھ بڑھتے جانا، اس میں آئے دن اضافہ ہوتے جانا انسانی ترقی کے منہ پر زناٹے دارطمانچہ ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان ایجادات و اختراعات کی دُنیا میں رہ کر بھی مطمئن نہیں ہے تو ایسی ایجادات و اختراعات کا کیا فائدہ؟___ جو لوگ خود کو ہلاک کرچکے، انھیں تو ایک لحاظ سے دُنیاوی مصائب سے نجات مل گئی، لیکن جو زندہ ہوکے بھی زندہ درگور ہیں آخر ان کے لیے راہ نجات کیا ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر غور تو کیا جاتا ہے لیکن اس کا کوئی کافی و شافی حل پیش نہیں کیا جاتا، جس سے انسانیت کو دُکھوں سے چھٹکارا مل سکے۔
اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اب تک انسان کے بارے میں جو تصورات قائم کیے گئے ہیں ان میں ایک بڑا سُقم اور ایک بڑی خرابی پائی جاتی ہے، اور وہ سقم اور خرابی یہ ہے کہ انسان کے وجود میں دل یا قلب کی جو اہمیت ہے، اسے نظرانداز کرکے انسان کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مغرب نے انسانی وجود میں ذہن ہی کو دریافت کیا ہے اور ذہن کی ماہیت پر غوروخوض کر کے اس کی طاقت و صلاحیت کو مرکزی اہمیت کا حامل سمجھا ہے، جب کہ حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ دل یا قلب ِانسانی ہی انسانی وجود میں مرکزی اہمیت رکھتا ہے، اور خود ذہن بھی قلب ہی کے زیراثر رہ کر اپنے وظائف انجام دیتا ہے۔ انسانی قلب یا دل ہی انسان کی خواہشوں اور تمنائوں کا گہوارہ ہے۔ ہرخواہش دل ہی میں پیدا ہوتی ہے اور ذہن اس خواہش کو پورا کرنے میں ایک وسیلے اور واسطے کا درجہ رکھتا ہے۔ خواہشیں، تمنائیں اور ضرورتیں گوناگوں اقسام کی، انفرادی بھی ہیں اور اجتماعی بھی۔ اہم بھی،کم اہم اور غیراہم بھی۔
جب دل میں کوئی خواہش اور کوئی ضرورت پیدا ہوتی ہے، تو یہ خواہش اور ضرورت احساس میں ڈھل جاتی ہے اور پھر یہ وجودی تقاضا بن کرذہن کو ترغیب دیتی ہے کہ وہ اسے پورا کرے۔ ذہن اپنی تدبیروں کو کام میں لاکر اس تقاضے کو عملی شکل دے دیتا ہے۔ یہی ترتیب ہے ان تمام ایجادات و اختراعات کی، جو انسان نے اب تک کی ہیں۔
لیکن یاد رہے کہ قلب یا دل محض تمنائوں،خواہشوں اور ضرورتوں کا مرکز نہیں ہے بلکہ وہ انسانی وجود کی تمام فیکلٹیوں، مراکز اور حصوں کو کنٹرول کرتا ہے۔ خارجی دُنیا کے تمام اثرات کو سب سے پہلے دل ہی قبول کرتا ہے، اور یہ دل ہی ہے جو ذہن کو ان اثرات کا تجزیہ کرنے، اور ان سے نتائج اخذ کرنے کی ذمہ داری سونپتا ہے۔ اس طرح سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ قلب یا دل ہی انسانی وجود پر حکمران ہے اور ذہن و ضمیر سمیت تمام فیکلٹیاں اور مراکز دل کے ماتحت کام کرتے ہیں۔ جب تک دل کی اس مرکزی اہمیت کو تسلیم نہیں کیا جائے گا اور دل کے تقاضوں کا سامان نہیں کیا جائے گا، انسان کو دُکھوں سے نجات نہیں مل سکے گی۔
دل سے مراد گوشت کا وہ لوتھڑا نہیں جو وجود کے اندر خون کو پمپ کرنے کا کام کرتا ہے، بلکہ دل ایک ایسی حقیقت ہے جس کا ملاء اعلیٰ سے رابطہ ہے۔ جب رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’تمھارے جسم میں گوشت کا لوتھڑا ہے جو تندرست ہو تو تمھارا سارا جسم تندرست رہتا ہے اور وہ بیمار ہو تو سارا جسم بیمار ہوجاتا ہے‘‘(بخاری، کتاب الایمان، حدیث:۵۲)، تو اس فرمان میں مراد محض گوشت کا لوتھڑا ہونا نہیں تھی۔ اگر مراد اسی لوتھڑے سے ہوتی تو جو شخص اپنی صحت کی احتیاط اور ذمہ داری سے نگہداشت کرے تو یہ لوتھڑا صحت مند ہی رہتا ہے۔
ظاہر ہے رسولِؐ خدا کی مراد اس دل سے تھی، جس میں ایک حدیث قدسی کے مطابق: ’’خدا کے مسکن بننے کی وسعت و گنجایش ہوتی ہے‘‘۔ فرمایا گیا کہ ’’زمین و آسمان میں اتنی وسعت و فراخی نہیں کہ خدااس میں سما سکے مگر قلب ِ انسانی‘‘۔ ہاں، قلبِ انسانی ہی میں یہ وسعت اور فراخی اسی لیے ہے کہ اس کا رابطہ ملاء اعلیٰ سے ہے۔ دل میں کینہ، کدورت، نفرت، بُغض، حسد، بدگمانی اور بدنیتی ہو، تو ایسا دل ناپاک اور غلیظ ہوجاتا ہے، اور ایسا انسان ننگِ انسانیت۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ دل کے مکان کو ہرقسم کی گندگی اور آلودگی سے پاک صاف رکھو تاکہ تمھارا سارا جسم بشمول ذہن پاکیزہ ہوسکے۔
انسانی وجود میں دل کے اس مقام کو جب تک پوری طرح سمجھا نہیں جائے گا اور اسے پاک صاف رکھنے کی کوشش نہیں کی جائے گی اور انسان کو اسی طرف متوجہ نہیں کیا جائے گا، اس وقت تک اس چیزکا امکان معدوم ہے کہ انسان کو دُکھوں سے نجات مل سکے گی!
مغرب کا مقتدر طبقہ مسلم ملکوں میں اپنے مقاصد کو پروان چڑھتا دیکھنا چاہتا ہے۔ اس غرض کے لیے مغرب اپنے پیمانوں کے مطابق باربار اپنے اس دعوے کو دُہراتا ہے کہ وہ ’مسلم دُنیا کو تاریکی اور قدامت پسندی سے نکال کر ’روشنی‘ کے ماحول میں لانا چاہتا ہے‘۔ ہمارے لیے بہ حیثیت مسلمان یہ دیکھنا لازم ہے کہ مغرب ہماری کیا شکل دیکھنا چاہتا ہے؟ اس وقت ٹونی بلیر انسٹی ٹیوٹ فار گلوبل چینج(ٹی بی انسٹی ٹیوٹ) کی جانب سے دنیا بھر کے مسلم ممالک کے لیے جون ۲۰۲۳ء میں جاری کی گئی ایک تحقیقی و تجزیاتی رپورٹ کا حاصلِ مطالعہ بعنوان:Reclaim Political Islam From the Islamists to Raise Moderate Muslim Voices (ماڈریٹ مسلمانوں کی حوصلہ افزائی کرکے انتہاپسند اسلام پسندوں سے سیاسی میدان واپس لیا جائے) پیش نظر ہے۔ مغربی دُنیا کے متعدد ’تھنک ٹینک‘ (مراکز ِ دانش) دُنیا بھر کے ممالک کے پالیسی ساز اور مقتدر لوگوں اور اداروں کی رہ نمائی کے لیے تحقیقی کام کے پردے میں ایسے چھپے ایجنڈے پیش کرتے ہیں۔ آئیے، خالص علمی اور منطقی نقطۂ نظر سے دیکھیں کہ اس زیربحث مطالعے کی نوعیت اور حقیقت کیا ہے؟
سب سے پہلے ہم رپورٹ کا ایک اجمالی خاکہ اور اُس کے ’پیش لفظ‘ سے ماخوذ اس تحقیقی کام کے مقاصد بیان کریں گے، تاکہ جائزہ لیا جا سکے کہ یہ رپورٹ اُن مقاصد کو کتنا پورا کرتی ہے؟ پھر رپورٹ کے تجزیے سے قبل اس دستاویز میں استعمال ہونے والی اصطلاحات کی وضاحت ہوگی، اور دوسرے ابواب کا جائزہ لیا جائے گا ۔ تحقیق کے نتائج (Conclusion) اور پہلے باب (Executive Summary) پر گفتگو آخر میں کریں گے۔
اس رپورٹ کے زیرنظر تجزیے کے مقاصد ہمارے پیش نظر یہ ہیں:
رپورٹ کے ’پیش لفظ‘ میں اس کے مقاصد بیان کیے گئے ہیں: lپہلا حصہ پوری رپورٹ کا ایک خلاصہ (Executive Summary)ہے۔ lدوسرے حصے میں مسلم سیاست کے معقول جواز کی حدود پر گفتگو کی گئی ہے۔lتیسرے حصے میں یہ بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ صرف اُن کا مذہب ہی سیاسی پہلو رکھتا ہے بلکہ کم و بیش تمام بڑے مذاہب میدانِ سیاست میں موجود ہیں۔ l چوتھے حصے میں مسلم دنیا کے اندر مذہب اور سیاست کے درمیان تعاملات (Interactions) کے ایک خاکے (frame)کے ذریعےجائزہ لیا گیا ہے۔ lپانچویں حصے میں مذکورہ خاکے کے ذریعے مسلم ممالک میں مختلف بدلتی حکومتوں کے دورِ اقتدار میں، اسلام اور سیاست کے تعلق کی بدلتی صورتوں کا بیان ہے۔lچھٹا حصہ پالیسی سازوں کو مسلم دنیا کی مطلوبہ تشکیل کے لیے حاصلِ تحقیق (Conclusion) پیش کرتا ہے۔l ساتواں حصہ ایک ضمیمہ ہے، جس میں تاریخی پس منظر کے ساتھ اسلامی سیاست کا ایک مختصرجائزہ خاص نقطۂ نظر سے پیش کیا گیاہے اور اسی پس منظر میں چند اہم سوالات اُٹھائے گئے ہیں۔
’ٹونی بلیرانسٹی ٹیوٹ رپورٹ‘ کا پیش لفظ تحقیقی مقاصد بیان کرتے ہوئے اُمید ظاہر کرتا ہے: lمسلم انتہا پسند، اسلام کا سیاست کے ساتھ جو تعلق بتاتے ہیں، اُس میں اور ’ماڈریٹ‘ تعلق میں پائے جانے والے فرق کا جائزہ لیا جائے lاسلام کے اصول حکمرانی اورقانون کی فرماں روائی کی جو درست تشریحات ہیں، وہ گہرائی میں جا کر سامنے لائی جائیں l’جہاد‘ کو فقط معاشرتی برائیوں کے خلاف ایک جدوجہد سمجھا اور سمجھایا جائے lشریعت اسلامی کے قدیم ضابطوں پر اصرار کے بجائے، شریعت کے فلسفے کو اہمیت دی جائے۔ lمسلم معاشروں میں وہ خواہ اکثریتی ہوں یا اقلیتی، دیگر مذاہب کے معاشرتی اور سیاسی عمدہ پہلوؤں کوبھی اہمیت دی جائے اوراُنھیں اختیار کیا جائے۔ lمعاشرے میں مذہب اور مذہبی لوگوں کی حکمرانی (Clerocracy) کی مزاحمت کی جائے۔
ٹی بی انسٹی ٹیوٹ رپورٹ کو اُس وقت تک نہیں سمجھا جا سکتا، جب تک کہ اِس میں استعمال کی گئی اصطلاحات سے شناسائی نہ ہو، جنھیں صحافتی حلقے اور علم سیاسیات کے ماہرین ملتے جلتے اور بعض اوقات مختلف معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔ ذیل میں ہم نے اِن کے وہی معانی و مفہوم بیان کرنے کی کوشش کی ہے، جن معانی میں اس رپورٹ کےمصنّفین نے اُنھیں جا بجا استعمال کیا ہے (جن تشریحات سے ہم اتفاق نہیں کر سکتے وہ بعد میں زیرِ گفتگو آئیں گی)۔ چند اصطلاحات کی متعین تعریف رپورٹ میں نظر نہیں آتی، جس کا مطلب یہ ہے کہ مصنّفین نے اُن کو اُنھی معنوں میں لیا ہوگا جس میں وہ معروف ہیں:
۱- Islamists (اسلام پسند، دین کے علَم بردار): مصنّفین کے خیال میں۱۹۷۰ء سے ’سیاسی اسلام‘ سے وابستہ افراد اور تنظیموں نے دنیا کو تشدد سے دوچار کر رکھا ہے۔ مختلف ناموں سے اِن گروہوں/ تحریکوں کو رپورٹ کے مصنّفین نے ’اسلامسٹس‘ (Islamists) کا نام دیا ہے جنھیں انتہا پسندی، بنیاد پرستی ، اسلام کے سیاسی اور انقلابی تصور سے جوڑا ہے۔
۲- Moderate Muslims (اعتدال پسند مسلمان): یہ مسلمان گھروں میں پیدا ہونے والے جدید ذہن کے مسلمان ہیں، جو انقلابی اسلام کو ناپسند کرتے ہیں۔ شریعت سے زیادہ مقاصد شریعت کو اہم سمجھ کر اُس کی نئی توجیہات کرتے ہیں۔ جہاد کو ہر گز کسی طور قتال فی سبیل اللہ کے معنوں میں نہیں لیتے بلکہ معاشرتی خرابیوں کے خلاف جدوجہد ہی کو جہاد جانتے ہیں ۔ اس لیے آزادخیال اور دہریت زدہ مسلمانوں(Liberal-secular Muslims) کا اسلام ہی معتدل اسلام ہے‘‘۔
۳- Mainstream Muslims (عامۃ الناس مسلم): یہ دنیا بھر کی مردم شماری کے رجسٹروں میں اپنا مذہب، اسلام درج کروانے والےلوگوں کے لیے استعمال ہونے والی اصطلاح ہے،جو اپنے مذہبِ اسلام کو محض چند عقائد ، عبادات اور رسومات کی حد تک جانتے ہیں۔ اِن کے نزدیک اسلام کا سیاست و حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
۴- Confessional Muslim States (نام نہاد مسلمان حکومتیں): وہ حکومتیں جو اپنا قومی مذہب اسلام بیان کرتی ہیں۔ عید، بقرعید پر چھٹیاں دیتی ہیں ، جمعہ ادا کرنے کے لیے دفاتر میں وقفہ کرتی ہیں، نکاح ، وراثت اور کفن دفن کے لیے شرعی قوانین کا پاس و لحاظ رکھتی ہیں، لیکن ملک میں باقی تمام قوانین کی تدوین کے لیے انسانی عقل ، اپنےتجربات اور زیادہ تر مغرب کی روایات ہی کو دیکھتی ہیں۔ رپورٹ میں مصر کی حکومت کو اس کی عمدہ مثال کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
۵- Islamic Religious Nationalism (مسلم مذہبی قومیت): مسلمان اکثریت والے ممالک میں وہ حکومتیں مراد ہیں، جہاں کاروبارِ حکومت میں سیاست اور مذہب کی کم و بیش برابر کی عمل داری ہے۔ کبھی سیاسی مصلحتیں مذہب کو نظرانداز کردیتی ہیں اور کبھی جوشِ مذہب سیاسی مصالح کو (بربنائےسیاسی مفادات ) خاطر میں نہیں لاتا ۔ رپورٹ نے ایسی مسلم قومیت کی حامل حکومتوں کی مثال کے لیے جمہوریہ ترکیہ اور پاکستان کا نام لیا ہے۔
۶- Islamism (اسلامیت): کمیونزم اور لبرل اِزم کے وزن پر ’اسلام اِزم‘ کی اصطلاح ایجاد کی گئی ہے۔ ہم نے اشتراکیت، جمہوریت یا لادینیت کے وزن پر اس کا ترجمہ ’اسلامیت‘ کیا ہے۔ رپورٹ مصنّفین کے خیال میں یہ اسلام کی سب سے خطرناک شکل ہے کیونکہ غلبۂ اسلا م کے لیے تشدد کی راہ پر گامزن مسلمان درحقیقت اسلام اِزم کے پیرو کار ہیں ۔ افغانستان میں طالبان کی اور ایران میں امام خمینی کی قائم کردہ حکومتیں اسلام اِزم پر عمل پیرا ہیں، جب کہ القاعدہ اور داعش ، اسلام اِزم کی نمایندہ تنظیمیں ہیں، وغیرہ۔
۷- Radical Republicanism (اندھی جمہوریت): کچھ مسلم مملکتوں میں اسلام اِزم کے بالکل برعکس اندھی جمہوریت متعارف ہوئی، جس کی کلاسیکل مثال ترکیہ میں مصطفےٰ کمال اور تیونس میں حبیب بورقیبہ نے قائم کی (حالانکہ وہ فوج اور عدلیہ کے ذریعےمسلم معاشرے پر بہیمانہ جبر و تشددکی بدنما مثالیں تھیں) ۔
۸- Political Islam (سیاسی اسلام): تمام ماہرین علوم سیاسیات کے نزدیک پولیٹیکل اسلام ، اسلام کی ہر وہ تشریح ہے، جو اُسے ایک مذہب کے مقابلے میں ایک دین(طریقِ زندگی) بیان کرتی ہے اور حکومت بنانے اور اُسے اسلامی اصولوں کے مطابق چلانے کا مطالبہ کرتی ہے۔ پولیٹیکل اسلام سے منسوب ان کےنزدیک محمد بن عبدالوہاب، سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، سیّدقطب اور ڈاکٹرعلی شریعتی نے دورِ حاضر میں سیاسی اسلام کی تعبیرات مہیا کیں ۔ مستشرقین، شاہ ولی اللہ دہلوی کو اس تشریح کا امام قرار دیتے ہیں۔
۹- Civil Religion (مہذب مذہب): ایسی مملکت جہاں کامل جمہوریت ہو اور جہاں مذہبی اور لامذہبی افراد کے درمیان اورذاتی سطح پر بھی اور بود و باش کی سطح پر بھی، ایک متوازن رشتہ ہو۔ رپورٹ کے مطابق امریکی صدر بارک اوباما کے دورِ صدارت میں ریاست ہائے متحدہ امریکا اس کی بہترین مثال تھا یا محمد علی جناح کی قیادت میں پاکستان [چہ خوب!]۔(ص ۲۰، ۲۳، ۲۹، ۳۶)
۱۰- Ummah (امت ِمحمدیہ): اللہ کو یکتا و یگانہ اِلٰہ،محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو آخری پیغمبر اور قرآن مجید کو اللہ کی نازل کردہ کتاب ماننے والےاور مکہ مکرمہ میں واقع مسجد حرام (کعبے) کی جانب اپنی نمازوں میں رخ کرنے والے اہلِ قبلہ ایک قوم ہیں، خواہ وہ کسی انسانی نسل سے ہوں، کسی علاقے سے تعلق رکھتے ہوں اور کوئی بھی زبان بولتے اور مسلمانوں کے کسی بھی فقہی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہوں اور چاہے فکروعمل کے لحاظ سے کتنے غیرمعیاری ہی کیوں نہ ہوں۔ یہ سب ایک عالمی مسلمان قوم ’اُمت‘ کہلاتے ہیں(رپورٹ میں امت کو کہیں متعین [define] نہیں کیا گیا ہے، لیکن یہ اصطلاح پانچ مقامات پر استعمال کی گئی ہے)۔
۱۱- Khilafa/ Caliphate ( خلافہ یا خلافت):حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اُن کی جگہ پوری امت کی سربراہی کا نظام ’خلافت‘ کہلاتا ہے۔مسلمان ماہرین قانون و شریعہ اس بنیاد پر کہ امت ساری دنیا پر پھیلی ہوئی ہے، پوری امت کے لیے ایک سربراہ /خلیفہ کے ہونے کو آئیڈیل صورت مانتے ہیں، جس کے نامزد نمایندے مختلف علاقوں/مملکتوں میں اُس کے گورنروں کی حیثیت سے حکمرانی کریں، خصوصاً اُن علاقوں میں جہاں غالب اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ ٹی بی رپورٹ کے مصنّفین ایک ایسی مرکزی سربراہی /خلافت کے سخت مخالف ہیں اور تجویز کرتے ہیں کہ ایسی 'خلافت کے احیاء کے خیال، تجویز اور تدبیر کی سختی سے مزاحمت کی جائے۔ رپورٹ مصنّفین کے نزدیک جدید دور میں قائم علاقائی مملکتوں میں اچھے طریق حکومت (Governance) کا نام ہی خلافت ہے، جہاں مختلف علاقوں میں وہاں کے عوام جمہوری طریقے سے حکمران خود منتخب کریں، نہ کہ مذہبی حضرات کی حکومت (Clerocracy) کا فرسودہ خیال سوچا جائے۔ یہ جملہ دیکھیے:
Attempts to insist on khilafa as a resurrection of medieval and obsolete caliphates or Islamist states must be uncompro -misingly resisted. (p 9)
۱۲- Sharia (شریعت): رپورٹ کے مصنّفین کے نزدیک شریعت قوانین اور اخلاقی ضابطوں کا نام ہے، جن کی دورِ جدید میں مقاصد شریعہ کو پیش نظر رکھ کر تدوینِ نو کی ضرورت ہے۔ مصنّفین نے یہ خیال پُر زور انداز میں پیش کیا ہے کہ قرونِ وسطیٰ میں فقہا نے جو کچھ کام کیا، وہ اب دقیانوسی ہے، جس کی تدوینِ نو ضروری ہے۔ مسلمانوں کا قدیم مرتبۂ شریعت پر اصرار ایک غیردانش مندانہ مطالبہ ہے، جس کا مقابلہ کیا جانا چاہیے۔ رپورٹ کا یہ جملہ ملاحظہ فرمایئے:
Policymakers must be clear that the Sharia in Islam refers to ethics.Medieval details of sharia must be modernised by drawing upon centuries of sophisticated jurisprudence and the intrinsic diversity of Muslim interpretations that have included dozens of schools of law.Attempts to insist on a single fundamentalist, literalist, mindless interpretation of Sharia must be resisted at all costs. (p 37)
۱۳- Jihad ( جہاد): رپورٹ کے مطابق ’جہاد‘ اُس جدوجہد کا نام ہے، جو کوئی اپنے نفس یا معاشرے کو برائیوں سے روکنے کے لیے کرتا ہے۔ کسی مسلم قومی حکومت کی مسلح افواج کو جنگی اقدام (قتال) کا حکم یا اجازت انتہائی ناگزیر حالات میں اپنے دفاع ہی کے لیے ممکن ہے، وہ بھی جنیوا کنونشن اور دیگر بین الاقوامی معاہدوں کی عائد کردہ حدود میں رہتے ہوئے (ص ۹)۔
۱۴- Clerocracy ( ملّائیت): شفاف عام انتخابات کے بغیر غیر جمہوری طریقوں خصوصا ً طاقت کے استعمال سے کسی مذہبی گروہ کا اللہ کے نمایندے بن کر اقتدار سنبھالتے ہوئے اپنی فقہ جسے وہ الہامی قوانین سمجھیں،نافذ کرنا ملّائیت اور قابلِ نفرت فعل ہے۔ (ایران اور افغانستان کو اس زمرے میں شمار کیا جاتا ہے)۔
رپورٹ کا دوسرا باب: مسلم سیاست کے لیے کتنا جواز ہے؟ (What Is the Legitimate Space for Muslim Politics??)پر مشتمل ہے۔
مصنّفین نے اس باب میں دو اصطلاحات Islamism اور Political Islam کی متعدد تشریحات پیش کی ہیں اور اِن اصطلاحات کی تشریحات سے خلط مبحث پیدا کیا ہے، اور اِن اصطلاحات سے انتہا پسند/ اسلامسٹس کی اجارہ داری پر پریشانی کا اظہار کیا ہے (ص ۱۲،۱۳)۔ رپورٹ مصنّفین کا موقف یہ ہے کہ انتہا پسند اسلامسٹوں نے ، اسلام کے سیاسی نظام کی وکالت سنبھال لی ہے اور وہ پولیٹیکل اسلام یا مسلم سیاست کے علَم بردار یا اجارہ دار بن کر سامنے آ گئے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پوری مسلم دنیا میں ماڈریٹ[ مناسب اور عمدہ] اسلام علمِ سیاست اور میدانِ سیاست میں جگہ پائے۔
اپنی بات کی وضاحت کے لیے وہ متعدد اسکالرز کے حوالے پیش کرتے ہیں، جن سے یہ اصطلاحات مزید اُلجھائو کا شکار ہو جاتی ہیں۔ اس لیے بھی کہ جتنے ماخذات سے انھوں نے رہنمائی حاصل کی ہے وہ سبھی غیر مسلم اسکالرز کے ہیں، جنھوں نے مسلم سیاست کو اندر سے نہیں بلکہ باہر ہی سے دیکھا ہے ۔ مغربی اسکالر کا المیہ یہ ہے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے کسی منفرد موضوع یا معاملے کو توحید، آخرت، رسالت ِ محمدیؐ اور قرآن مجید کی اتھارٹی کے فریم ورک میں رکھے بغیر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی تمام معاملات میں تعلیمات اور مسلمانوں کا روّیہ اُن کے ایمانیات کےفریم ورک سے عبارت ہوتا ہے۔ مغربی اسکالر جب اس پہلو کو نظرانداز کرکے کسی معاملے میں، مسلم معاشروں میں حرکیات کا مطالعہ کرتے ہیں تو خود اپنی تشریحات اور اختراعی اصطلاحات سے عاجز آ جاتے ہیں اور اِن کی باتیں مضحکہ خیز بن جاتی ہیں۔ مثلاً پیشِ نظر رپورٹ دیکھیے:
To say that we are dealing with an instance of political Islam would be to suggest that there are times when Islam is not political (that it -is sometimes "just" religious). (p 13)
یعنی یہ کہنا کہ ہم سیاسی اسلام کی مثال سے نمٹ رہے ہیں، یہ تجویز کرنا ہو گا کہ بعض اوقات اسلام سیاسی نہیں ہوتا ہے (یعنی بعض اوقات یہ ’صرف‘ مذہبی ہوتا ہے) ۔
اس پیچیدہ صورتِ حال سے نکلنے کا ٹی بی انسٹی ٹیوٹ نے یہ راستہ نکالا ہے کہ مسلم ریاستوں میں مسلم سیاست کے مظاہرکو فلپ گورسکی کے پیش کردہ مذہب اور سیاست کےمختلف تعاملات کو ایک فریم میں نصب کیا جائے۔رپورٹ مصنّفین نے گورسکی کے جس فریم ورک کو استعمال کر کے مسلم سیاست کی وضاحت کی ہے، اُس کا تجزیہ آگے کریں گے۔
رپورٹ کا تیسرا باب: [اسلام اور سیاست کے درمیان حرکیات] کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے، غیر مسلم ممالک میں بھی مذہب اور سیاست مل کر متحرک ہیں (Not a Unique Case Religion-Politics Dynamic in Non-Muslim Countries)۔ اس عنوان کے تحت رپورٹ مصنّفین یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اسلام اور سیاست کا تعلق کوئی انوکھی بات نہیں بلکہ تمام مذاہب کا سیاست سے ایک تعلق ہے ۔اس باب کا عنوان بظاہر اس رپورٹ کے عنوان سے متعلق نہیں ہے ، لیکن مصنّفین نے اس عنوان پر اپنی گفتگو کو ہوشیاری سے پیش کر کے کچھ ایسے نادرنتائج اخذ کیے ہیں، جن پر گفتگو کی جانی چاہیے۔ یہاں ہم اسلام کے علاوہ دنیا کے چار بڑے مذاہب اور اُن کے سیاست سے تعلق کا خلاصہ رپورٹ کے مطابق پیش کرتے ہیں:
اس طرح رپورٹ مصنّفین اِن چار مذاہب کے سیاست سے تعلق کو بیان کرنے کے بعد سوال اُٹھاتے ہیں کہ ویٹی کن، سعودی عرب، بھارت، اسرائیل اور ایران کے مذہبی مراکز کو اپنے ماننے والوں پر اپنے اثرو رسوخ کو کس طرح استعمال کرنا چاہیے؟ تفرقہ انگیزی ، تنگ نظری کے لیے یا انسانوں کے درمیان اتحاد اور عالم گیریت کے لیے؟(ص۱۸)۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اِن مراکز کو اپنے ماننے والوں کو نیکی اور دوسروں کے ساتھ ضرور امن و سلامتی کے ساتھ رہنے کی ہدایت کرنی چاہیے۔
اسی طرح مصنّفین اس امرِ واقعہ کی طرف توجہ مبذول کراتے ہیں: ’’سعودی عرب، وہابیت اور اسلامیت کی تنگ تشریح سے ہٹ کر اب اسلام کی ایک جامع اور عالم گیر تشریح کی طرف منتقل ہورہا ہے‘‘(ص۱۸، ۴۱)۔ہم سعودی عرب میں پروان چڑھنے والی اس تبدیلی پر رپورٹ مصنّفین سے اتفاق نہیں کرتے۔در حقیقت سعودی عرب ’وہابیت سے اسلام کی عالم گیر تشریح کی جانب‘ نہیں بلکہ مغرب کی حیا باختہ تہذیب پر فریفتہ عناصر کی خوشنودی کی خاطر، اسلامی تمدن سے مغربی تمدن کی جانب لڑھک رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں یہاں حج و عمرہ کے لیے مغربی تہذیب سے اجنبیت محسوس نہیں کریں گے۔ یوں تہذیب ِمغرب کے مزید فروغ میں مرکزِ اسلام بھی ممد و معاون ہو رہا ہے۔
مصنّفین اس باب کے اختتام پر دو اور معاملات چھیڑتے ہیں: پہلے مسئلے کو رپورٹ یوں بیان کرتی ہے کہ قرآن حکیم سے استدلال کرتے ہوئے جب کوئی یہ کہتا ہے کہ اللہ کا واقعی منشاء یہ ہے، تو یہ فیصلہ کیسے ہو کہ اللہ کا واقعی منشاء وہی ہے جو بیان کیا جا رہا ہے؟ خوارج کی شورشوں کے دور سے لے کر آج تک،پُرتشدد انتہا پسندوں کی طرف سےیہی ایک بات کہی جاتی ہے، کہ ’’فیصلہ صرف اللہ کامانا جائے گا‘‘۔ القاعدہ، داعش، طالبان اور ایران کے مذہبی رہنما سب نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ صرف قرآن کے فہم کی بنیاد پر اللہ کے حکم کو جانتے ہیں (ص۱۸،۱۹)۔ رپورٹ نے اس طرح بظاہر ایک ’معصوم‘ سا سوال اُٹھایا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ الہامی کتابیں صرف تلاوت و قرأت کے لیے ہیں۔ ان سے اللہ کی مرضی و منشا معلوم کرنا بندوں کا کام نہیں یا اُن کے بس کی بات نہیں! پھر رپورٹ اس سے دوسرا مطلب یہ بہم پہنچاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ، نعوذُ باللہ اس بات پر قادر ہی نہیں تھا کہ اپنی کتابیں اپنے بندوں کے لیے قابلِ فہم زبان میں نازل کر سکتا، اور صرف شرپسند ہی اُن کتابوں سے استفادہ کرکے زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، نعوذباللہ۔ ٹی بی انسٹی ٹیوٹ رپورٹ کے مصنّفین کیا یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں اس رپورٹ کے معانی، مفاہیم اور اس کے ذریعے پالیسی میکرز کو منتقل کیا جانے والا پیغام کوئی انسان یا پالیسی میکر سمجھ ہی نہیں سکتا سوائے خودمصنّفین کے!
دوسرا مسئلہ اس باب کے ایک اجمالی تاثر کا ہے، اور وہ یہ کہ’’ اسلام اگر سیاست سے کوئی تعلق رکھتا ہے تو کیا ہوا، سارے ہی مذاہب سیاست سے تعلق رکھتے ہیں!‘‘ سوال یہ ہے کہ مصنّفین کو اتنی جانی پہچانی حقیقت کو سمجھانے کے لیے ایک باب کی کیا ضرورت تھی؟ بات دراصل یہ ہے کہ بادشاہتوں، موقع پرستوں ، ظالم و جابر سپہ سالاروں اور پھر آخر میں سیکولرازم نے آ کر مذہب کو سیاست و حکومت کے دائرے سے نکال کر اُسے صرف چند رسومات کا ایک ادارہ بنا دیا ہے۔موجودہ مابعد سیکولرزم دور میں مذہب کی حیثیت کو اپنے مفادات کے حصول کے لیے تسلیم کرنے کی باتیں ہورہی ہیں۔
مذہب کے معاشرے میں موجود اثر و رسوخ سے فائدہ اُٹھانے کے لیے سیکولر حضرات نہ چاہتے ہوئے بھی اُسے نظام سیاست میں ایک معمولی قابلِ برداشت حد تک اداراتی حیثیت دینےکے لیے تیار ہو گئے ہیں۔ اس معمولی حیثیت کی بنیاد پر اسلام سے یہ پوچھا جائے کہ ’سیاست سے تعلق کے معاملے میں اُس کی کیا انفرادیت ہے ؟‘ یہ طرزِ فکر اپنی جگہ بڑی زیادتی اور جہالت پر مبنی ہے۔ اس لیے کہ اسلام ایک کامل دین اور ایک اکائی ہے۔ یہ جتنا عام معنوں میں مذہبی ہے،اُتنا ہی زندگی کے ہر دائرےکو سمیٹتا ہوا سیاسی و عسکری اور معاشی و معاشرتی اور قانونی و بین الاقوامی بھی ہے ۔ اُس کا عیسائیت اور یہودیت کی مانند سیاست میں دخل چند اسکولوں کے لیے فنڈنگ ، چند عبادت گاہوں کی سرپرستی ، علما کے لیے چند مناصب اور کچھ ایّام کی تقدیس پر چھٹی اور کام بند رکھنے کا نام نہیں ہے، اور نہ اس کی سیاست کا محور بھارت اور میانمار کی مانند دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کی نسل کشی ہے یا اُن کو دوسرے درجے کا شہری بنا کر رکھنا ہے۔ جہاں تک چند گروہوں کی دہشت گردی کا تعلق ہے، اُس کو اگر اسلام کی سیاست کہا جائے تو یہ معلومات اور فہم کی غلطی ہے۔
یہ رپورٹ مسلمانوں کو بتانا چاہتی ہے کہ سیاسی اسلام بذات خود کوئی مسئلہ نہیں ہے، جس طرح پوپ کی سیاسی عیسائیت، صیہونیت کی سیاسی یہودیت اور ہندستان کا سیاسی ہندو ازم اپنے آپ میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ مذہب کی سیاست کرنے کا ہے (ص۱۹)۔ یہ کیسا تلخ مذاق ہے کہ صیہونیت اور ہندو ازم کے نام پر اسرائیل اور بھارت میں سیاست کرنے نے مسلمانوں پر جو ظلم کے پہاڑ توڑے ہیں وہ سوائے اس رپورٹ کے مصنّفین کے، کس صاحب ِ عقل و دانش پر آشکار نہیں ہیں؟
موجودہ مابعد سیکولر دور میں مذہب عوامی حلقوں میں واپس لَوٹ رہا ہے، جس میں بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ وہ عقلی بنیادوں پر شہریوں کو اپنی روزمرہ کی سیاست میں مذہب کے نظامِ اقدار سے متاثر ہونے کی اجازت دیتا ہے(ص۱۹)۔ مگر اس کے مقابلے میں اسلام صرف متاثر ہونے کی نہیں بلکہ اہلِ ایمان سے کاملاً ایمان و اسلام میں داخل ہو جانے کا طالب ہے۔ معاملے کی یہی وہ نزاکت ہے جو رپورٹ کے مصنّفین کی نظروں سے اوجھل ہے۔
رپورٹ کا چوتھا باب مسلم ممالک میں مذہب اور سیاست کے درمیان رشتوں کی نوعیت (Dynamics Between Religion and Politics in the Muslim World) پر مبنی ہے۔
اس رپورٹ کا مرکزی نکتہ ییل یونی ورسٹی (Yale University) میں سماجیات کے پروفیسر فلپ گورسکی (Philip Gorski) کے ایک تجزیاتی فریم (دیکھیے پچھلا صفحہ)کا موجودہ دور کی مسلم حکومتوں پر اطلاق ہے۔ ’گورسکی فریم ورک‘ جسے اُس نے مذہب اور سیاست کے باہمی تعاملات کے مختلف اُونچے نیچے درجوں کا مطالعہ کرنے کے لیے تجویز کیا تھا، اُسے رپورٹ کے مصنّفوں نے مسلم ممالک کی مثالوں سے رنگ بھر کے پیش کیا ہے۔ ہم نے ٹی بی انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ میں دیے گئے فارم کو اردو میں منتقل کرتے ہوئے کہیں اصطلاحات کا محض ترجمہ کیا ہے اور کہیں زیادہ برمحل نام دیے ہیں جو یہاں دیئے گئے جدول میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
اس فریم ورک میں مذہب اور سیاست کے تعامل کے نو(۹)گروپس تجویز کیے گئے ہیں: بنیادی گروپس تین ہیں، جو عمودی کالموں میں پیش کیے گئے ہیں:
ٹی بی انسٹی ٹیوٹ رپورٹ کے مصنّفین کی نظروں میں پاکستان، جناح صاحب کے زیرِسایہ ۱۹۴۷ء میں مہذب اسلامی حکومت (civil religious،گورسکی فریم میں پانچویں نمبر پر) تھا۔ پھر ۱۹۵۶ء میں اعترافی اسلامی بن گیا اور ۲۰۲۱ء میں عمران خان کے دورِحکومت میں مذہبی قومی حکومت بنا اور وزارتِ عظمیٰ کی تبدیلی کے ساتھ دوبارہ خالی خولی اعترافی رہ گیا، کیا اچھوتی بات ہے واہ! بالکل اُسی طرح جیسے مصر کے صدر محمدمرسی کی مذہبی قومی مملکت، جنرل سیسی کے آتے ہی اعترافی بن گئی! مصنّفین کی اچھوتی دیانت، جناح صاحب کی پاکستان میں سول حکومت صرف اور صرف اُن کی ایک تقریرتک محدود ہے۔یہ تقریرریکارڈ پر موجود اُن درجنوں تقاریر کو کالعدم نہیں کر سکتی، جو اُنھوں نے تحریک ِپاکستان کے مقاصد بیان کرنے کے لیےغیر منقسم انڈیا میں کی تھیں، جو مذہبی قومی حکومت بنانے کے خواب دکھاتی تھیں۔
پاکستان ۱۹۵۶ء کے اسلامی دستور کے ذریعے اعترافی یا واضح الفاظ میں محض نام کی (دوسرے نمبر پر)، اسلامی مملکت نہیں بنا بلکہ ایک مذہبی قومی حکومت(چوتھے نمبر پر) بناتھا۔ ٹی بی رپورٹ کے مصنّفین کو چاہیے کہ دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مقدمے ’قراردادِ مقاصد‘ (Objectives Resolution)کا مطالعہ کر کے بتائیں کہ گورسکی فریم میں پاکستان کی کیا جگہ بنتی ہے؟ پاکستان پر ایک کے بعد ایک ایسا طبقہ مسلط رہا، جو کسی نہ کسی طورقرآن، اسلام، مساواتِ محمدی اور ریاست مدینہ کا نام لیتا رہا ، مگر محض باتوں اور نعروں کی حد تک، اس نے اسلام کو کہیں پنپنے نہیں دیا!
پانچویں باب میں جہاں تیونس ، مصر اورمشرقِ وسطیٰ کی تیل کی دولت سے مالا مال مسلم سلطنتوں کے اس فریم میں درجات کی تبدیلیوں کو بیان کیا گیا ہے، وہ بھی اسی نوع کےفریبِ نظر اور اسی نوعیت کی پریشان فکری کے سوا کچھ نہیں۔
یہاں تک رپورٹ کے اُس بنیادی حصے اور نکات کا مختصر جائزہ پیش کیا گیا ہے، جن کی بنیاد پر پہلا باب خصوصی خلاصہ (Executive Summary) ہے اور چھٹے باب میں نتائجِ تحقیق (Conclusion) پیش کیے گئے ہیں۔ اگلے حصے میں ان شاء اللہ ان دونوں ابواب کا تنقیدی تجزیہ کیا جائے گا۔(جاری)
تحریک اسلامی کو ایک جنین کی طرح ذہن کی گہرائیوں سے اُبھرنے اور تناور درخت بننے تک کئی مرحلوں سے گزرنا پڑا۔پہلا مرحلہ وہ تھا جب وہ ایک مبہم سا احساس تھی، اور ایک واضح شکل اختیار کرنے کے لیے مضطرب تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہندستان میں ہندو سیاسی طور پر منظم ہوچکے تھے، ان کی تنظیم بھی وجود میں آچکی تھی اور وہ اپنی قیادت پر بھی متفق ہوچکے تھے۔ اس کے مقابلے میں مسلمان ایک بے سری فوج ہوکر رہ گئے تھے۔ ان کی نہ تو کوئی فعال تنظیم تھی، اور نہ اپنی قیادت پر متفق الرائے تھے۔ تلاشِ منزل میں وہ کبھی انڈین نیشنل کانگریس کے قافلے میں جاشامل ہوتے، تو کبھی مایوس ہوکر پلٹ آتے۔ دوسری جانب ہندو یکسوئی کے ساتھ اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھے۔ لیکن مسلمانوں میں کبھی ہجرت کی تحریک اُٹھی، اور کبھی خلافت کی۔ پھر ان تحریکوں سے ان کو جس طرح صدمے پہنچے اس سے ان کا سفر اور بھی کٹھن ہوگیا۔ وہ ایک طرف آزادیٔ وطن کے لیے کوشاں تھے، تو دوسری طرف ان کو اپنے دین کی مدافعت میں معاندانہ یلغاروں کا مقابلہ بھی کرنا پڑتا تھا۔ مسلمانوں کا یہی تذبذب دیکھ کر ہندوئوں کے رہنما مسٹر گاندھی نے ان سے کہا تھا: ’’تم ہمارے ساتھ چلتے ہو، ٹھیک ہے، نہیں چلتے تو ہمارا قافلہ تمھارے انتظار میں رُکے گا نہیں‘‘۔
یہ حالات تھے، جن میں مولانا مودودیؒ نے دین کے دفاع میں الجہاد فی الاسلام لکھنے کے لیے قلم اُٹھایا۔اس معرکہ آرا تصنیف کی تسوید کے دوران میں مولانا پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ مسلما ن دُنیا کی عام قوموں کی طرح محض ایک قوم نہیں ہیں، جس کو صرف سیاسی آزادی درکار ہو، بلکہ وہ ایک ایسی قوم ہے جس کا ایک مقصد اور ایک مشن ہے اور وہ اس کو بروئے کار لانے کے لیے اُٹھائی گئی ہے۔ مقصد ِ دین کا یہ پہلا احساس تھا جس سے گزر کر تحریک اسلامی اپنے واضح اور روشن نصب العین کی جانب رواں ہوئی۔
پہلا مرحلہ اس صدی کے تیسرے عشرے میں ۱۹۲۴ء سے ۱۹۲۹ء پر محیط ہے۔ دوسرا مرحلہ چوتھے عشرے کے آغاز سے شروع ہوتا ہے۔ اسی زمانے میں کانگریس کی طرف سے مسلمانوں کو متحدہ قومیت کی جانب کھینچنے کے لیے رابطۂ مسلم عوام مہم چلائی گئی تھی۔ اگرچہ مسلمانوں کا عمومی ذہن اس مسئلے کے سلسلے میں صاف نہیں تھا کیونکہ متحدہ قومیت کی دعوت کا پرچم بہت سے اہل دین بھی اُٹھائے ہوئے تھے، تاہم مسلمان اس سے کھنچتے تھے۔ مسلمانوں کی اس نیم دلی نے مولانا مودودی پر دوسری حقیقت یہ منکشف کی کہ مسلمان چونکہ ایک الگ مقصد ِ زندگی رکھتے ہیں، اس لیے وہ کسی دوسری تہذیب اور قومیت میں جذب نہیں ہوسکتے۔ دوسری قوموں کی بنیاد اگر زبان، تہذیب، رنگ اور نسل ہے، تو مسلمانوں کی قومیت کی اساس مذہب ہے۔ مولانا مودودیؒ نے اس حقیقت کو وضاحت کے ساتھ مسئلہ قومیت اور اپنی ایک دوسری کتاب مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش میں بیان فرمایا۔
اسی اثنا میں حالات نے مسلمانوں کو بھی منظم ہونے کی طرف متوجہ کیا اور ان کے اندر اپنی جداگانہ قومیت کا احساس نمو پانے لگا۔
تحریک اسلامی کا تیسرا مرحلہ اسی زمانے میں آیا، یعنی ۱۹۴۰ء سے اگست ۱۹۴۱ء تاسیس جماعت تک۔ اس دوران کُل ہند مسلم لیگ کی طرف سے قرارداد لاہور پیش ہوتی ہے، جس میں مسلمان اکثریتی علاقوں کے لیے الگ نظام بنانے کا مطالبہ تھا۔ اس قرارداد کے بعد تحریک ِ پاکستان بڑی تیزی سے مسلمانانِ ہند میں مقبول ہوگئی۔ لیکن تھوڑی ہی مدت میں نمایاں ہوگیا کہ یہ تحریک خالص قوم پرستانہ رنگ میں ڈھلتی جارہی ہے۔ مولاناؒ کو خدشہ ہوا کہ قوم پرستی کے جذبات کہیں قوم کو دینی مقاصد سے اجنبی نہ بنادیں۔ چنانچہ انھوں نے یہ عظیم کارنامہ انجام دیا کہ قومی ریاست اور اسلامی ریاست کا فرق واضح فرمایا۔
مولاناؒ نے بتایا کہ مسلمانوں کی کسی قومی مملکت کے وجود پذیر ہونے کا یہ لازمی مطلب نہیں کہ اسلامی ریاست بھی قائم ہوگئی ۔ اسلامی ریاست اور قومی ریاست کے مقصد اور طریق کار میں جوہری فرق ہے۔ مولاناؒ نے یہ وضاحت ایک تقریر میں فرمائی جو بعد میں اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے؟ کے عنوان سے شائع ہوئی۔ یہ حقیقت ہے کہ مولاناؒ کی یہ تقریر عصرحاضر کے اسلامی لٹریچر میں ایک انقلابی موڑ کی حیثیت رکھتی ہے۔ مولاناؒ نے جب قوم کو یہ بتانا چاہا کہ قرآن کی رُو سے مسلمانوں کا مقصود قومی نہیں اصولی اسلامی ریاست ہے، تو تحریک ِ اسلامی تیسرے مرحلے میں داخل ہوگئی۔
اس کے بعد چوتھا مرحلہ آتا ہے جو اگست ۱۹۴۱ء یعنی تاسیسِ جماعت سے قیامِ پاکستان تک چلتا ہے۔ اس مرحلے میں مولانا کی تمام تر توجہ دو اُمور پر مرکوز رہی:
دین کی حقیقت کے سلسلے میں مولانا نے بتایا کہ دین کسی مجموعۂ عبادت کا نام نہیں ہے بلکہ ایک نظامِ حیات ہے جس کا منطقی تقاضا ہے کہ مسلمان کی زندگی انفرادی طور پر ہی نہیں اجتماعی طور پر بھی غیرمسلموں یا اسلام کی راہ پر نہ چلنے والوں سے مختلف ہو۔ مولاناؒ کا سب سے بڑا کارنامہ اسلام کی بحیثیت نظامِ زندگی وضاحت ہے۔ آپ نے بتایا کہ اسلام کسی زبانی اقرار یا زندگی میں جزوی تبدیلی کا نام نہیں بلکہ ایک ہمہ گیر انقلاب ہے جو زندگی کو اپنے حسب ِ منشا نئی بنیادوں پر اُٹھاتا ہے۔
اسلام کی اپنی تہذیب اور اپنی ثقافت ہے جو جاہلی (غیراسلامی) تہذیب و ثقافت سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔ اسلامی زندگی میں مصالحت اور دورنگی نہیں ہوتی یکسوئی ہوتی ہے اور مسلمان، مسلمان کہلانے کا مستحق نہیں جب تک اس کی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں کی منہ بولتی تصویر نہ ہو۔
مولاناؒ نے یہ بھی واضح فرمایا کہ اسلام اور مسلمان ہم معنی نہیں۔ اسلام وہ نہیں جو مسلمان کرتے ہیں۔ اسلام اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی کی غیرمشروط اطاعت کا نام ہے۔ اس میں ذاتی ذوق نہیں چلتا، مکمل سرافگندگی ہوتی ہے۔
مولاناؒ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے اسلام کی تشریح اس اسلوب سے کی جس کو جدید ذہن سمجھ سکتاہے۔ انھوں نے بتایا کہ اسلام ایک انقلابی تحریک کا نام ہے جو انسانی زندگی کو نئی قدریں عطا کرتی ہے اور اسلام کا فریضہ صرف تبلیغ سے ادا نہیں ہوتا۔ اس کے لیے ہمہ گیر جدوجہد کی ضرورت ہے۔ مولاناؒ کے اسی اسلوبِ بیان کا نتیجہ ہے کہ مغربی تعلیم یافتہ ذہن سے اسلام کے بارے میں بہت سے غلط تصورات صاف اور غلط فہمیاں دُور ہوگئیں۔
مولاناؒ نے جہاں دعوتِ دین کی وضاحت میں انقلاب بپا کیا، وہاں اسلامی و غیراسلامی تحریک کا فرق بھی نمایاں کیا۔ انھوں نے بتایا کہ عام سیاسی تحریکیں مسائل پر چلتی ہیں، جب کہ اقامت دین کی تحریک کی بنیاد، کردار ہوتا ہے۔
تنظیم کے سلسلے میں مولانا کا ایک یادگار کارنامہ اسلامی جماعتی زندگی کی عملی تعبیر ہے۔ جماعتی زندگی سمع و اطاعت، مشورے اور محاسبے سے چلتی ہے۔ اس میں اختلاف ہوتا ہے لیکن حدود کے اندر۔پھر مقصد ِ جماعت کو کارکنان میں زندہ و تازہ رکھنے کے لیے ہفتہ وار اجتماعات کا جو نظام قائم کیا وہ عدیم النظیر اور اثرات کے اعتبار سے حیرت انگیز ہے۔ ہفتہ وار اجتماعات کی بدولت نصب العین جماعت ایک زندہ حقیقت اور قوتِ نافذہ بن گیا۔انھی کی سبب سے جماعت اسلامی ایک منظم پارٹی بنی، جس کا اس کے بڑے سے بڑا دشمن بھی اعتراف پر مجبور ہے۔
تنظیم جماعت کے ساتھ ساتھ تربیت ِ کارکنان پر بھی خصوصی توجہ دی گئی۔ مولاناؒ کے نزدیک کوئی جماعت حالات کا اس وقت تک مقابلہ نہیں کرسکتی جب تک اس کے ارکان پختہ ایمان اور پختہ سیرت کے مالک نہ ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت کے کسی ادنیٰ سے ادنیٰ کارکن نے بھی آج تک معافی مانگ کر رہائی حاصل کی اور نہ بکا، نہ جھکا۔
تربیت کے سلسلے میں مولانا ہمیشہ دو صفات پر زور دیتے تھے: صبراور حکمت۔اور سچّی بات ہے کہ طویل اجتماعی تنظیمی تجربے نے بتایا ہے کہ ایک تنظیم میں یہی دوصفات، اصل زادِ راہ ہیں۔
اس کے بعد ۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند کا مرحلہ آگیا۔ جماعت اسلامی بھی ہندستان کی دو بڑی جماعتوں کانگریس اور مسلم لیگ کی مانند دو حصوں میں بٹ گئی۔ اپنے اپنے ملک کے مخصوص احوال و ظروف کی وجہ سے پاکستان اور ہندستان کی جماعتوں کی راہیں الگ ہوگئیں اور انھیں الگ الگ اندازِ کار اپنانے پڑے۔ ہندستان میں مسلمانوں کو اکثریتی فرقے کے آئین کے تحت زندگی گزارنا تھی، جب کہ پاکستان میں اُنھیں دستورِ مملکت خود بنانا تھا۔
بنابریں پاکستان میں جماعت اسلامی کو اپنی جدوجہد کا آغاز دستوری مہم سے کرنا پڑا۔ جماعت اسلامی نے مطالبہ کیا کہ پاکستان کے دستور کی بنیاد کتاب اللہ اور سنت ِ رسولؐ اللہ پر رکھی جائے۔ جماعت اسلامی کے اس مطالبے کو حیرت انگیز پذیرائی حاصل ہوئی۔ پوری قوم نے اس مطالبے کو اپنا مطالبہ بنالیا۔ اسی کے نتیجے میں ’قرارداد مقاصد‘ منظور ہوئی جو دُنیا کی دستوری تاریخ میں ایک انقلابی موڑ ثابت ہوئی۔
جماعت اسلامی ہند نے جن حالات میں اپنے کام کا آغاز کیا وہ انتہائی حوصلہ شکن اور نامساعد تھے۔ مسلمانوں پر مایوسی کی سی کیفیت طاری تھی۔ جماعت اسلامی ہند کی سب سے بڑی ملّی خدمت یہ ہے کہ اس نے ہندستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کو حوصلہ بخشا۔ پھر جماعت اسلامی ہند نے دو بنیادوں پر اپنے کام کا آغاز کیا:
۱- مسلمانوں میں عزم و حوصلہ پیدا کرنا اور غیرمسلموں کے سامنے اپنی عملی زندگی سے اسلام کی سچی تصویر پیش کرنا۔
۲- غیرمسلموں کو اسلام کے صحیح تعارف سے روشناس کرانا۔
ہندستان کے مسلمانوں کو اکثریتی تہذیب سے بچانے کے لیے جماعت اسلامی نے اسلامی تعلیم گاہوں کا جو جال بچھایا ہے، وہ ناقابلِ فراموش کارنامہ ہے۔ اس سے بھارت کے مسلمانوں کی آیندہ نسلیں نہ صرف غیرمسلم اثرات سے محفوظ ہوگئیں بلکہ مسلمانوں کی زبان بھی اکثریتی زبان کی دست برد سے بچ گئی۔
تقسیم ہند جس زمانے میں ہوئی ہے وہ عالمی تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز تھا۔ جنگ ِ عظیم دوم نے پرانے سماجی اور سیاسی نظام کو منہدم کردیا تھا اور دُنیا بھر میں ایک نئے آفاقی نظام کی طلب پیدا ہوگئی تھی۔ ٹھیک اس زمانے میں تحریک اسلامی کے لٹریچر کے مختلف زبانوں میں تراجم ہوکر پھیلنے لگے۔ اس سے عالمی تحریک ِ اسلامی کا ہیولا بتدریج اُبھرنے لگا۔ تحریکِ اسلامی کو اس وسعت سے مختلف مسائل اور چیلنجوں کا سامنا بھی ہوا۔ کہیں دبی ہوئی مسلمان اقلیتیں تھیں جن کے لیے اصل مسئلہ اپنے ثقافتی تشخص کی بحالی تھا، کہیں خودمختار مسلمان اکثریتیں تھیں جو اپنے داخلی، خارجی، اور آئینی مسائل میں اُلجھی ہوئی تھیں۔ اگر اسلام تمام مسائل کا حل ہے تو پھر تحریک اسلامی کے لیے یہ چیلنج تھا کہ وہ بتاتی کہ عصرحاضر کے پیچیدہ سیاسی، اقتصادی اور سماجی مسائل کے اسلامی حل کیا ہیں؟ الحمدللہ کہ تحریک اسلامی نے اس چیلنج کو قبول کیا اور ہرشعبۂ زندگی کے مسائل کے لیے کتاب و سنت سے رہنما اصول پیش کر دیئے، حتیٰ کہ تحریک اسلامی کی مساعی سے اسلامی ریاست کا ایک ماڈل دستور بھی تیار ہوگیا جو صرف مسلم ریاستوں ہی کے لیے نہیں غیرمسلم دُنیا کے لیے بھی روشنی کا مینار ہے۔
پاکستان کے اندر جماعت اسلامی کو کن مراحل سے گزرنا پڑا، وہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔ تحریکیں کتابی راستوں سے نہیں اَن دیکھی راہوں سے بڑھتی ہیں۔ اصل ضرورت اپنے بنیادی اصولوں کی سختی سے پابندی ہوتی ہے۔الحمدللہ کہ جماعت اسلامی نے اپنے بنیادی اصولوں پر کبھی مصالحت گوارا نہ کی۔
پاکستان میں جماعت اسلامی کے لیے پہلا بنیادی مسئلہ پاکستان کے آئینی قبلے کی راستی تھا۔ اس کے بعد دوسرا مسئلہ دین دار قیادت کی فراہمی تھی، یعنی پاکستان میں ایسی قیادت برسرِاقتدار آئے جو دین کا صحیح فہم بھی رکھتی ہو اور اس کے نفاذ میں بھی مخلص ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی نے ہرانتخابی عمل میں شرکت کا فیصلہ کیا۔
سیاسی تجربے میں جماعت اسلامی کو اُن ملتی جلتی حقیقتوں کا سامنا کرنا پڑا، جو اسلام کو اس کے مدنی دور میں پیش آئی تھیں۔ جاہلی تعصبات، منافقت، خدا واسطے کا بیر، وسائل کی کمی، اندرونی جماعتی کمزوریاں اور بیرونی مزاحمتیں۔ لیکن اپنے تجربے کی بنا پر یہ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اللہ پر صدقِ دل سے بھروسا کیا جائے تو راہ خود بخود صاف ہوتی چلی جاتی ہے۔
تمام مخالفتوں اور مزاحمتوں کے باوجود جماعت اسلامی نے پاکستان کی تاریخ کا رُخ موڑ دیا۔ جماعت اسلامی کی کامیابی کو اسمبلی کی نشستوں سے نہیں ناپنا چاہیے۔ اس کی سیاسی کامرانیوں سے جانچنا چاہیے۔ جماعت اسلامی کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ اس نے اسلام کو پاکستان کا قومی نصب العین بنادیا:
۱- یہ جماعت اسلامی کی مطالبہ اسلامی دستور مہم تھی جس کے نتیجے میں تاریخ ساز قرارداد مقاصد منظورہوئی۔ اس سے مستقلاً طے پاگیا کہ پاکستان کی منزل اسلامی نظام ہے۔
۲- اسلامی نظام اب جماعت اسلامی ہی کا نہیں غیردینی سیاسی پارٹیوں کا بھی نعرہ بن گیا ہے۔ کسی اُمیدوار کی انتخابی مہم اس کے بغیر چل نہیں سکتی، جب تک وہ اسلامی نظام کے قیام کا وعدہ نہ کرے۔ اسلامی نظام کو قومی نصب العین بنادینا کوئی چھوٹا کارنامہ نہیں ہے۔
۳- یہ ہر دور میں جماعت اسلامی کا دبائو تھا جس نے دساتیر میں اسلامی دفعات کو قائم رکھا۔ ۱۹۷۱ء کے بعد ایسا وقت بھی آیا جب پاکستان کی قومی اسمبلی میں اشتراکی سیکولر نصب العین رکھنے والوں کی غالب اکثریت تھی۔ ان کی جانب سے پوری کوشش کی گئی کہ پاکستان کے دستور کو سیکولر رنگ دے دیا جاتا۔ لیکن الحمدللہ کہ یہ اسمبلی کے اندر جماعت اسلامی کے مٹھی بھر نمایندوں اور باہر سے اس کا تنظیمی دبائو تھا، جس نے ان کو مجبور کیا کہ وہ اسلامی دفعات کو من و عن قائم رکھیں اور وعدہ کریں کہ دس سال کے اندر پاکستان کے تمام قوانین کتاب و سنت کے مطابق بنادیئے جائیں گے۔
۴- پاکستان میں متعدد مرتبہ ایسے آمرانہ نظام آئے کہ عامۃ المسلمین کے بنیادی حقوق معطل کردیئے گئے۔ یہ جماعت اسلامی کی مسلسل جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ عوام کے حقوق بحال ہوئے۔ ملک و قوم کی فلاح کا جب بھی معاملہ آیا جماعت اسلامی یا تو تن تنہا اُٹھ کھڑی ہوئی یا تعاون علی البر پر دوسروں سے اتحاد کیا۔ ایوب خان کے غیرجمہوری فسطائی نظام کے خلاف جب تحریک بپا ہوئی تو اس کے سالارِ قافلہ جماعت اسلامی کے بانی ہی تھے اور بلامبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ مولانا مرحوم کی تقریریں تھیں جنھوں نے قوم کا شعور بیدار اور ظالمانہ نظام کی بندشیں ڈھیلی کیں۔
فکری لحاظ سے تحریک اسلامی نے حجت تمام کردی ہے۔ اگلا مرحلہ نفاذ کا ہے۔ جس طرح فکری مرحلہ طے ہوا ہے ان شاء اللہ عملی نفاذ کا مرحلہ بھی طے ہوجائے گا۔ پاکستان میں ایسے حالات پیدا ہوچکے ہیں کہ اسلامی نظام اب سامنے کی بات دکھائی دیتا ہے۔
تذکیر کے طور پر یہاں صرف ایک چیز کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے، اور وہ یہ کہ اسلامی تحریک کی تمام تر بنیاد اسلامی سیرت و کردار ہیں، وہ نہ ہوں تو منزل پاکر بھی ہم نامراد رہیں گے۔ اس لیے تحریک اسلامی سے متعلق کارکنوں کو اس حقیقت سے کبھی غافل نہیں رہنا چاہیے کہ دعوتِ دین کے فروغ کا تمام تر دارومدار ان کی اپنی سیرت اور کردار پر ہے۔ ان میں دین کی جھلک نہ ہوئی تو الفاظ کے دریا بہا دینے سے بھی تنکا بھر اسلامی انقلاب نہ آئے گا۔
اسلامی خطوط پر علمی، تحقیقی اور تصنیفی سرگرمیوں کو منظم کرنے کے لیے مولانا ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی فکر اورجماعت اسلامی سے وابستہ ثانوی درس گاہ، رام پور کے چندحوصلہ مند، غیور اور ممتاز طلبہ نے مولانا صدرالدین اصلاحی [ ۱۹۱۷ء - ۱۳؍ نومبر ۱۹۹۸ء] کی نگرانی اور قیادت میں۱۹۵۲ء میں ’اسلامک ریسرچ سرکل‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا، جس کا اپنا ایک باضابطہ دستور تھا۔محض ۲۱ برس کے نجات اللہ صدیقی ا ن طلبہ کے قائد اور سرکل کے اسسٹنٹ ڈائرکٹر تھے، جب کہ مولانا صدر الدین اصلاحی کو سرکل کاڈائریکٹربنایا گیا تھا ۔
عصرحاضر کے چیلنج پر اسلامی نقطۂ نظر سے غور و فکر ، سائنٹی فک اسلوب میں مدلل علمی بحث اور کمیونزم کی تحریک سے مرعوب ومتاثر اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمان نسل تک اسلامی احکامات اور درست مطالعات کی ترسیل کے لیے انگریزی زبان میں ایک میگزین کی سخت ضرورت تھی۔’اسلامک ریسرچ سرکل‘ کی جانب سے پہلے تو ۱۹۵۳ء میں ایک انگریزی بلیٹن جاری کیا گیا،جو ایک سال کے بعد ۱۹۵۴ء میں ۳۲صفحات پر مشتمل انگریزی میگزین ’ Islamic Thought‘ میں بدل گیا۔بلاشبہہ انگریزی زبان میںتحریک اسلامی اور اسلامی فکر کی نمایندگی کرنے والاعلی گڑھ کا یہ اوّلین علمی اور تحقیقی رسالہ ہے۔۱
۱۹۶۸ء میں اسلامک تھاٹ کی مشاورتی کونسل درج ذیل افراد پر مشتمل تھی: ۱-محمدعبدالحق انصاری (ریڈر شعبۂ فلسفہ ،شانتی نکیتن یونی ورسٹی ، کلکتہ)،۲- فضل الرحمٰن فریدی (سکریٹری اسلامک ریسرچ سرکل، علی گڑھ)، ۳- ممتاز علی خاںشروانی(لیکچرر شعبۂ فارسی،علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی )،۴-عرفان احمد خاں ( لیکچرر شعبۂ فلسفہ،اے ایم یو)، ۵- محمد نجات اللہ صدیقی (لیکچرر شعبۂ معاشیات، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی)، ۶- چیف ایڈیٹر اسلامک تھاٹ۔ ۲
[ترجمہ] رسالہ اسلامک تھاٹ عصر حاضر کے ا ن بیدار مغز نوجوانوں کے افکار کی نمایندگی کرتا ہے جو اسلامی نظریات کی درست اور ہمہ گیر بنیادوں پر تشکیل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک ایسا فورم ہے، جہاں نظریات کو پیش کیا جاتا ہے۔ایک سمینار ہے جہاں مسائل زیر بحث آتے ہیں ۔ایک ایسی درس گا ہ ہے، جہاں غور وخوض اور مباحثہ ہوتا ہے۔
اسلامک تھاٹ نہ تو اپنی علمی برتری کا کوئی دعویٰ کرتاہے اور نہ وہ اسلام کی کوئی مخصوص تشریح کرنا چاہتا ہے۔ یہ رسالہ توبس ان تمام حضرات کا تعاو ن حاصل کرنا چاہتا ہے، جو لوگ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ جدید دنیا کے پیچیدہ مسائل کو صرف ایک متوازن اور ہم آہنگ نقطۂ نظر کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے ۔ ایسا نقطۂ نظر جو زندگی کو بحیثیت مجموعی دیکھے اور اپنی اسکیم میں ہر شے کو اس کا فطری اور جائزمقام دے۔ وہ مادی فائدوں کے لیے اخلاقیات کو نہ توقربان کرے‘ اور نہ سیاسی اغراض کے لیے قدروں کو نظر انداز کردے ۔ جسے اسلام کے سماجی نظام پر پختہ یقین ہو اور جو اِن خطوط پر اخلاص کے ساتھ جدو جہد کی اہمیت کو سمجھتا ہو ۔
دنیا ایک بحرانی دور سے گزر رہی ہے ۔ اس وقت نہ صرف یہ کہ ہماری بصیرت کا امتحان ہے بلکہ ہمارے عقیدہ کا بھی امتحان ہے ۔ ہمیں مواقع کو تلاش کرنا ہے اور چیلنج کو قبول کرنا ہے ۔ ہم ایک نئے نظام کے علَم بردار ہیں۔دنیا کو ہم سے امیدیں ہیں۔ہم اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں ۔ مستقبل ہماری اس جدو جہد پر منحصر ہے جو ہم دنیا کے ضمیر کو بیدار کرنے کے لیے آج کریں گے ۔ ہم تن من دھن سے اس مقصد کے حصول کے لیے سرگرم عمل ہوجائیں، جو ہمیں بے حد عزیز ہے اور اُمید کی شمع کو از سر نو روشن کریں ‘‘۔۳
اسلامک تھاٹمیں شائع ہونے والے بیش تر مضامین اور مقالات کا تعلق معاشیات، سیاسیات، سماجیات، نفسیات، اسلامیات، فلسفہ اور سائنس سے ہے۔ مگر ان کے علاوہ تاریخ ، عقائد، نظریات، مذاہب ،ادب اور کلچر سے متعلق مضامین بھی موجود ہیں ۔معاشیات سے متعلق مقالات کی کثرت کا سبب واضح ہے کہ اس کے مدیران میں سے دو افراد کا تعلق اسی شعبے سے تھا۔ جدید ذہن کے شبہات کا ازالہ کرنے اور ان کی گتھیوں کو حل کرنے والے مندرجہ بالا عنوانات پر خالص اسلامی نقطۂ نظر کے ترجمان مختلف النوع مضامین پر نقد و تبصرہ کے لیے Critics Gallery ، قارئین کے خطوط کے لیےReaders Forum اورکتابوں کے جائزے اور تعارف کے لیے Book Review کے مستقل کالم شائع ہوتے ۔ ر یڈرز فورم کے کالم میں الاخوان المسلمون کے رہ نما اورممتاز اسلامی دانشور ڈاکٹرسعید رمضان (مقیم جنیوا، سوئٹزرلینڈ)کا ایک یہ خط شائع ہوا:
اسلامک تھاٹکو شوق سے پڑھتا ہوں اور آ پ کی اس بہترین کوشش کوپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتاہوں۔ میں آج کل جنیوا میں ایک اسلامی مرکز کے قیام کی کوششوں میں مصروف ہوں۔ یہ منصوبہ دراصل مغرب میں مقیم دسیوں ہزار مسلمان طلبہ اور شہریوں کی بنیادی ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے بنایا گیا ہے ۔ یہ لوگ نہ صرف یہ کہ یہاں پر اسلام کے نمایندے ہیں بلکہ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ اپنے ملکوں میں مختلف قسم کی ڈگریاں اور سند لے کرواپس جاتے ہیں،مگر بالعموم ان کے اندر اپنی تہذیب اور ثقافت کے تئیںاعتماد اور یقین کی کیفیت نہیں ہوتی ہے ، یعنی وہ نہ تو مکمل طور پرمشرقی ہوتے ہیں اور نہ مغربی ۔ ایسا اس وقت ہو تا ہے جب احساس کمتری اور شکوک و شبہات کا مرض ان کے اندر پروان چڑھتا ہے اوررفتہ رفتہ شعور کی گہرائیوں میں داخل ہو جاتا ہے۔ چنانچہ مختلف سطحوں پر ایسے افراد کی مدد کے لیے کوئی منصوبہ لازمی تھا ۔ دوسری طرف اس مرکز کا یہ بھی مشن ہے کہ انفرادی اور سماجی روابط کے ذریعے مادہ پرستی کے خلاف اہل ایمان کے درمیان باہم تعاون کے دینی اصول و ضوابط کی تصدیق کی جائے۔یہ بہترین موقع ہے کہ اسلام کے متعلق غلط فہمیوں کو دور کیا جائے ۔ مرکز کی تعمیر و تشکیل کا کام جاری ہے ، میں ان شاء اللہ اس کے ترقیاتی مراحل سے آپ کو باخبر کرتا رہوں گا۔۴
علمی دنیا کی متعدد ممتاز شخصیات کے علاوہ ثانوی درس گاہ، رام پور کے ایک طالب علم اکرام احمد خاں کا بھی ایک خط ’ریڈرز فورم‘ کے کالم میں جولائی -اگست ۱۹۵۷ء کے شمارے میں موجود ہے۔
بلاشبہہ علی گڑھ کے علاوہ دیگر مقامات کے انگریزی داں طبقے میں فکر اسلامی کے تعارف اور جدید مسائل میں اسلامی نظریات کی وضاحت کے ضمن میں اسلامک تھاٹ نے اہم کردار ادا کیا ہے،مگر حیرت انگیز طور پر بالعموم اس کا تذکرہ بہت کم ہوتا ہے ۔فکر اسلامی کے ارتقا میںاس انگریزی رسالے کی خدمات اور کردار پر کوئی تحقیقی کام اب تک نظر نہیں آیا۔۵ اپنے تاریخی وادبی ورثے کے تحفظ کے تئیں لاپر وائی اور غفلت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ انگریزی زبان کے اس تاریخی میگزین کی مکمل فائلیں میری معلومات میںکہیں محفوظ اور دستیاب نہیں، البتہ نامکمل ریکارڈ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے شعبۂ اسلامک اسٹڈیز کی لائبریری میں موجود ہے۔
انگریزی مجلہ اسلامک تھاٹ کیونکہ’ اسلامک ریسرچ سرکل‘ کا ترجمان تھا ، اس لیے فطری طور پر سرکل کی تاریخ کے ضمن میں اس کی اہمیت بہت بنیادی ہے۔ جماعت اسلامی ہند کے ایک بڑے فکری قائد مولانا صدر الدین اصلاحیؒ کی نگرانی میں قائم’ اسلامک ریسرچ سرکل ‘سے وابستہ بیش تر طلبہ ثانوی درس گاہ اسلامی، رام پور سے فارغ التحصیل اس نسل سے تعلق رکھتے تھے، جس کی فکری ، علمی، ادبی اور تحریکی اٹھان کا مطالعہ یقینی طور پر بر صغیر میںفکر اسلامی کے ارتقاء اور اسلامی تحریک کی تاریخ میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے اہم موضوع ہے ۔
سرکل کے دستور کے مطابق : ’’ قرآن اور سنت کی روشنی میں تحقیق اس تنظیم کا بنیادی مقصد ہے تاکہ زندگی کے مختلف شعبوں اورمیدانوں میں اسلامی نقطۂ نظر کو جدید ذہن کے لیے قابل فہم بنایا جا سکے‘‘۔
مجلہ اسلامک تھاٹ میں شائع متعدد رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ۱۹۶۷ء میں مسلم پرسنل لا پر علی گڑھ میں ایک کامیاب سمپوزیم کے انعقاد کے بعد ۱۴- ۱۵؍ستمبر ۱۹۶۸ء کو ’اسلامک ریسرچ سرکل ‘کی جانب سے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی طلبہ یونین کے’ رام پور حامد ہال‘ میں مسلم پرسنل لا پر ایک سیمی نار منعقد ہوا، جس میں ملک کے معروف اہل علم حضرات کے علاوہ سرکل کے ڈائرکٹر مولانا صدر الدین اصلاحی، ماہ نامہ زندگی ،رام پورکے مدیر مولانا عروج احمد قادری اور مولانا سیّدحامد علی صاحب( صدر، ادارہ شہادت حق ،دہلی)نے بھی مقالات پیش کیے تھے۔ سیمی نار کے دیگر معزز شرکاء میں مفتی عتیق الرحمٰن عثمانی (صدر، ندوۃ المصنّفین، دہلی )، مولانا منت اللہ رحمانی (امیرشریعت، بہار)، مولانا سعید احمد اکبر آبادی (پروفیسر شعبۂ دینیات ،اے ایم یو)،مولانا سید علی نقی (سابق ڈین، فیکلٹی آف دینیات، اے ایم یو)، مولانا محمد اسحاق سندیلوی ( شیخ الحدیث، ندوۃ العلماء، لکھنؤ)، پروفیسر حفیظ الرحمٰن ( سابق ڈین فیکلٹی قانون،اے ایم یو)جسٹس سید عزیز الشافی ( جج ، دہلی)، مسٹر طاہر محمود(قانون دان، دہلی)،مصطفےٰ علی خاں ( استاذ شعبۂ قانون، اے ایم یو)، انوار علی خاں سوز (استاذ شعبۂ انگریزی، جامعہ ملیہ اسلامیہ ، دہلی )،مسٹرمحمد غوث( شعبۂ قانون ، اے ایم یو)، مسٹر نور الدین احمد (بیرسٹر، دہلی )،پروفیسر مقبول احمد ( ڈائرکٹر سینٹر آف ویسٹ ایشین اسٹڈیز)، مسٹررحمٰن علی خاں (ریڈر شعبۂ قانون، اے ایم یو)،ڈاکٹر محمد معین فاروقی (ریڈر شعبۂ حیوانیات، اے ایم یو)، سیدمحمود حسین ( ایڈوکیٹ ،دہلی)،مسٹر شمس الحق علوی (لیکچرر شعبۂ سول انجینئرنگ، اے ایم یو)، شیخ منا علی ( اسکالر ،جامعہ الازہر ، قاہرہ )، مسٹر احمد سورتی (ریڈر، جنرل ایجوکیشن سینٹر، اے ایم یو)،مسٹر سید ناصر علی (ریڈر شعبۂ سیاسیات، اے ایم یو)،مولانا محمد تقی امینی ( لیکچرر شعبۂ دینیات و ناظم دینیات، اے ایم یو)، محمد فضل الرحمٰن گنوری( شعبۂ دینیات ، اے ایم یو)،وغیرہ قابلِ ذکر شخصیات ہیں۔۶
مولاناصدر الدین اصلاحی کے مقالے کا انگریزی تر جمہ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے جولائی ۱۹۶۹ء کے شمارے میںReal Nature of Muslim Personal Lawکے عنوا ن سے شائع کیا۔ مدیر زندگی مولانا عروج قادری کے مقالے کا ترجمہ ڈاکٹر ممتاز علی خاں شروانی(استاذ شعبۂ فارسی) نے کیا، جو اپریل ۱۹۷۰ء کی اشاعت میں Polygamyعنوان سے شائع ہوا ، جب کہ مولانا سید حامد علی کے مقالے کا ترجمہ اقبال احمد انصاری نے کیا جو Changes in Muslim Personal Law کے عنوان سے (اکتوبر ۱۹۷۰ء) شائع ہوا ہے۔
اس سیمی نار کی آرگنائزنگ کمیٹی میں کنوینر ڈاکٹر ممتاز علی خاں کے علاوہ شعبۂ دینیات کے استاذ مولوی فضل الرحمٰن گنوری [۱۹۳۰- ۲۶؍ جون ۲۰۱۳ء ] ، فضل الرحمٰن فریدی ، عرفان احمد خاں، اقبال احمد انصاری ، ڈاکٹر احسان اللہ خان، ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی اور احمد سورتی شامل تھے۔۷
اس تاریخی سیمی نار میں پیش کے گئے مقالات کا مذکورہ مجموعہ ایک بیش قیمت تاریخی دستاویز اور مسلم پرسنل لا کے موضوع پر مسلمانان ہند کی جانب سے پہلی باقاعدہ علمی پیش کش ہے ۔
ریسرچ سرکل کی ایڈوائزری کونسل کی ایک میٹنگ ۲۳؍ اپریل ۱۹۶۱ء کو علی گڑھ میں منعقد ہوئی، جس میںسید زین العابدین، فضل الرحمٰن فریدی ، محمد عبد الحق کے علاوہ قاضی اشفاق احمد خصوصی مدعو کے طور پر شریک تھے ۔ اس نشست میں اس بات کی سفارش کی گئی تھی کہ سرکل کا ایک یونٹ دہلی میں بھی قائم کیا جائے۔ اپریل ۱۹۶۰ء تا مارچ ۱۹۶۱ء تک کی سالانہ رپورٹ کے مطابق سرکل کے ایسوسی ایٹ ممبران کی تعداد ۲۰ تھی ۔ ۱۳ نومبر ۱۹۶۰ء کو ریسرچ سرکل کی جنرل باڈی کی ایک میٹنگ دہلی میں منعقد ہوئی جس میں ۱۴ ممبران نے شرکت کی تھی ۔
اکتوبر ۱۹۶۰ء میں مولاناصدرا لدین اصلاحی نے علی گڑھ میں ’اسلامک ریسرچ سرکل‘ کے مرکزی دفتر میں وابستگان کو خطاب کیا تھا،جس کا انگریزی ترجمہ An Address to Researchers کے عنوان سے اسلامک تھاٹ ( اکتوبر تا دسمبر ۱۹۶۰ء) کے ایڈیٹوریل کے کالم میں موجود ہے۔ جامعہ ملّیہ اسلامیہ، دہلی کے شعبہ انگریزی میںلیکچرر انوار علی خاں سوز نے سرکل کی ایک میٹنگ میں The Meaning and Process of Islamic State کے موضوع پر ایک مقالہ پیش کیا تھا، جو اکتوبر ۱۹۷۱ء کے شمارے میں شائع ہوا ۔
۱۹۵۹ء میں اسلامک ریسرچ سرکل کی ضروریات اور جدید تقاضوں (Growing Needs) کے تناظر میں اس کانیا دستور (Constitution)مرتب کرنے کی غرض سے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس کے کنوینر فضل الرحمٰن فریدی نے اپریل ۱۹۵۹ء میں دستور کا مسودہ پیش کیا، جسے وابستگان کے مطالعے اور غور و خوض کے بعد ۱۱؍دسمبر ۱۹۵۹ء کو علی گڑھ میں منعقد ہونے والی میٹنگ میں منظور کرلیا گیا ۔ گیارہ صفحات پر مشتمل’ اسلامک ریسرچ سرکل‘ کانیا دستورمجلہ اسلامک تھاٹ کے اکتوبر - دسمبر ۱۹۵۹ء کے شمارے میں شائع ہوا ہے ۔
اسلامک تھاٹکے دستیاب شماروں پر نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مجلہ کے مضمون نگاروں میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے معززاساتذہ میں ڈاکٹر معین فاروقی ( شعبۂ حیوانیات)، فضل الرحمٰن گنوری ( شعبۂ دینیات )، ڈاکٹر احسان اللہ خاں(شعبۂ طبقات الارض )،اقبال احمد انصاری (شعبۂ انگریزی)،ڈاکٹر فضل الرحمٰن ندوی ( شعبۂ اسلامک اسٹڈیز)،احمد سورتی( شعبۂ کیمیا)،معزز علی بیگ ( شعبۂ نفسیات)،عرفان احمد خان ( شعبۂ دینیات )، سیدزین العابدین ( شعبۂ انگریزی )، ڈاکٹر ممتاز علی خاں شروانی( شعبۂ فارسی )،پروفیسر محمد عمر الدین ( شعبۂ فلسفہ)، محمد یٰسین (شعبہ انگریزی)، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ( ڈائرکٹر اقبال اکیڈمی، کراچی)، ڈاکٹر محمد عبد اللہ العربی (کاؤنسلر اسلامک کانگریس، قاہرہ)، ڈاکٹر یونس کہر الدین ( انڈونیشیا)، عبدالمجید قریشی علیگ( صدر لیبر ویلفیئر کمیٹی پاکستان)، مسز نیّر منصور( لیکچرر فلسفہ و منطق، ایڈن گرلز کالج، ڈھاکہ)، سید علی اشرف ( صدر شعبۂ انگریزی، کراچی یونی ورسٹی )،ڈاکٹر میر ولی الدین (پروفیسر فلسفہ عثمانیہ یونی ورسٹی، حیدرآباد)، ڈاکٹر محمود حسین (پروفیسر شعبۂ تاریخ، کراچی یونی ورسٹی )، ڈاکٹر سعید رمضان ( جنیوا)، داؤد قاضی (جوہانسبرگ)، اے آر ایم زروق ( کولمبو، سیلون)،پروفیسر عبد الحمید صدیقی (شعبۂ معاشیات، اسلامیہ کالج، لاہور)، ایم فرحت اللہ (جامعہ رورل انسٹی ٹیوٹ، دہلی)،پروفیسر عبد المغنی ( شعبۂ انگریزی، پٹنہ)، ڈاکٹر عبد الحق انصاری (ریڈر اسلامیات ، وشو بھارتی شانتی نکیتن)، انوار علی خاں سوز (جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی)، پروفیسر ہارون خاں شروانی( ممبر آف لیجس لیٹو کونسل) کے نام اہمیت کے حامل ہیں۔
مولانا عبد الماجد دریابادی نے اگست ۱۹۵۵ء میں نجات اللہ صدیقی کے نام اپنے خط میں لکھا :’’ دو پرچے اسلامک تھاٹ کے موصول ہوئے ، دل بڑا خوش ہوا ۔ جزاک اللہ خیر۔ آں عزیز مع اپنے رفیقوں کے یہ بڑی خدمت کررہے ہیں ۔ اصل ضرورت تو انگریزی ہی میں ان مضامین یعنی فکر اسلامی و دینی کی اشاعت کی ہے، اردو میں تو خیر کچھ نہ کچھ کام ہو ہی رہا ہے ۔ صدق میں ذکر خیر ضرور آئے گا ۔ خدا معلوم توسیع و اشاعت کا کیا انتظام ہوا ہے ۔ بڑی خرابی یہی ہے کہ ہم لوگوں کی تحریریں اس کی آدھی بھی نہیں اشاعت پذیر ہوپاتیں جتنی الحاد پسندوں کی پھیل جاتی ہیں‘‘۔۸
سابق صدر جمہوریہ ہند، ڈاکٹر ذاکر حسین [۸فروری۱۸۹۷ء-۳مئی ۱۹۶۹ء]بھی اسلامک تھاٹ کا مطالعہ پابندی سے کرتے تھے ۔۱۰؍اکتوبر ۱۹۵۶ء کو اپنے خط میں کہتے ہیں:
محبی نجات صاحب ! السلام علیکم
نوازش نامہ ملا ، یاد فرمائی کا شکریہ۔ اسلامک تھاٹ کا ستمبر والا شمارہ بھی ملا ۔ آپ کا مضمون پڑھا ، مجھے بے حد پسند آیا ۔ ضرور اس کام کو جاری رکھیے۔ مجھے نہیں معلوم کہ دہلی میں اس کام کے لیے علی گڑھ سے زیادہ کتابیں مل سکتی ہیں یا نہیں ؟ رہا میں ، سو میں رہ نمائی کیا کروں گا ۔ خود راہ سے بے خبر ہوں اور اس کی تلاش میں اتنی محنت بھی نہیں کررہا ہوں جتنی آپ کررہے ہیں ۔۹
فروری ۱۹۵۷ ء کو لکھے اپنے دوسرے خط میں رقم طراز ہیں :
عنایت نامہ ملا ، یاد دہانی کا شکریہ ۔ اسلامک تھاٹ کا نیا شمارہ ابھی نہیں ملا ہے ۔ شاید آج کل میں پہنچ جائے، اسے شوق سے پڑھتا ہوں ۔ ضرور پڑھوں گا ،مگر مشورہ کیا دوں گا؟ گم کردہ راہ رہبری کیا کرے ۔ ان شاء اللہ ۲۴ [فروری ۱۹۵۷ء ]کو علی گڑھ آؤں گا ۔ اگر ملاقات ہو سکے تو بہت اچھا ہو ۔
اور اپنے ۱۴؍اپریل ۱۹۶۴ء کے خط میں ذاکر حسین صاحب لکھتے ہیں:
آپ کا محبت نامہ ملا۔ نادم ہوں کہ رسید بھی بروقت نہ بھیج سکا۔ معاف فرمائیں۔ آپ کا مقالہ فکرونظر مَیں نے پڑھا تھا۔ ان شاء اللہ ۲۶ کو علی گڑھ آئوں گا۔ آپ اگر مل لیں تو خوشی ہو[گی]۔۱۰
مجلہ اسلامک تھاٹ کا شوق و رغبت کے ساتھ مطالعہ کرنے اور ا س میں مضامین لکھنے والوں میں علی گڑھ میں شعبۂ انگریزی کے پروفیسر انسانی حقوق اور اقلیتی حقوق پر متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ڈاکٹر اقبال احمد انصاری کا نام اہمیت کا حامل ہے ۔جنوری ۱۹۷۱ء میں کارڈف (برطانیہ) سے نجات اللہ صدیقی کے نام اپنے ایک خط میں انھوں نے مجلہ کا تذکرہ کیا ہے۔ ۱۱
پاکستان کے ممتاز صحافی امیر حمزہ شامی نے فروری ۱۹۶۰ء میں نجات اللہ صدیقی کو لکھے خط میں اسلامک تھاٹ [جولائی- اکتوبر ۱۹۵۸ء] میںشائع Study of Commercial Interest in Islam کے عنوان سے فضل الرحمٰن فریدی کے مضمون پرتبصرے میں پسندیدگی کا اظہار کیا ۔۱۲
ماہ نامہ برہان ،دہلی نے جنوری ۱۹۶۲ ء میں ادارہ علوم اسلامیہ، علی گڑھ کے استاذ مولوی فضل الرحمٰن ( ایم اے ، ایل ایل بی، علیگ) کا ایک قسط وار مقالہ بعنوان ’ کمرشیل انٹرسٹ کی فقہی حیثیت کا تنقیدی جائزہ ‘شائع کیا، جس میں اسلامک تھاٹ میں شائع فضل الرحمٰن فریدی کے مندرجہ بالا مضمون کا حوالہ دیا گیا تھا ۔
جامعہ عثمانیہ، حیدرآباد میں شعبۂ تاریخ کے سابق پروفیسر ابو نصر محمد خالد (م: ۱۹۸۵ء) اور مفسر قرآن مولانا امین احسن اصلاحی [۱۹۰۴ء- ۱۵؍ دسمبر ۱۹۹۷ء]بھی اسلامک تھاٹ کا مطالعہ کرتے تھے ۔مارچ ۱۹۶۲ء میں نجات اللہ صدیقی کے نام اپنے خط میں مولانا اصلاحی نے لکھا تھا :
آپ کی اس تجویز سے اتفاق ہے کہ آپ لوگوں کے کام کی اہمیت اور نوعیت پر [ماہ نامہ] میثاق کے آیندہ شمارہ میں ایک نوٹ لکھ دوں ، سو اِن شاء اللہ بشرطِ زندگی یہ کام آیندہ پرچہ میں ضرور کروں گا۔۱۳
اسٹیٹ بنک آف پاکستان میں اسلامی بنک کاری کے شعبہ کے سابق ڈائرکٹر اور ماہر معاشیات سیّد حسن الزماں اختر نے کراچی سے لکھا :
ہم یہاں اسلامک تھاٹ کی خریداری کے لیے ایک عرصہ سے لکھ رہے ہیں لیکن اب تک کسی خط اور یاد دہانی کا جواب نہیں ملا ۔ہم چاہتے تھے کہ اس کی پوری سابق فائل حاصل کی جائے۔۱۴
ماہ نامہ ترجمان القرآن لاہور کے مدیر عبد الحمید صدیقی [م:۱۸؍اپریل ۱۹۷۸ء] اگست ۱۹۵۵ء میں گوجرانوالہ ،پاکستان سے لکھتے ہیں :
آپ مجھے تھاٹ کا پرچہ باقاعدہ بھیجتے ہیں، مگر آپ شاید سن کر حیران ہوں گے کہ مجھے صرف جنوری ، فروری ۱۹۵۵ء کا پرچہ ملا ہے ، اور اس کے بعد کوئی نہیں ملا ۔ معلوم نہیں باقی پرچہ کہاں ضائع ہو جاتا ہے؟اپریل اور مئی کا پرچہ میں نے مرکز سے لے کر صرف دیکھا تھا۔ کاش، آپ کے پرچے مجھے باقاعدگی سے پہنچتے ۔۱۵
ادب اوراسلامی تحقیقات میں خصوصی دلچسپی رکھنے والے پاکستانی دانش ور محمد اقبال، ملتان سے لکھتے ہیں :
اسلامک تھاٹ پر تفصیلی تبصرہ ،بھیا ابھی مجھے کچھ پڑھ لینے اور سمجھنے دیجیے۔ عرصے کی بادیہ پیمائی حیرانی و سرگردانی کے بعد کچھ پڑھنے لکھنے کی طرف مائل ہوا ہوں۔ ویسے صرف دو تین شماروں سے اندازہ لگانا بہت مشکل ہے، اس لیے کہ یہ وقتی قسم کا کوئی میگزین تو ہے نہیں، اس کے تمام شماروں میں مقصدی و تحریری ربط کے ساتھ سیٹنگ اور میکانکی ضبط بھی محسوس ہوتا ہے۔ تمام شماروں کو پڑھنے کے بعدتبصرہ اور خیالات کا اظہار ضرور کروں گا( ان شاء اللہ )۔۱۶
محمد اقبال ،ملتان اپنے دوسرے خط میں رقم طراز ہیں:
اسلامک تھاٹ کو Reprintکرانے کی تجویز بھی رکھی ہے۔ آپ کا مضمون ’اسلامی نظریۂ ملکیت‘ جو تھاٹ میں دوسرے انداز سے شائع ہورہا ہے اس پر ملتان میں ایک صاحب ِذوق مختار مسعود وہاں کے ڈپٹی کمشنر ہیں اور علی گڑھ سے معاشیات کے ایم اے نے کچھ [اچھا] تاثر دیا ہے۔۱۷
اپریل۱۹۶۲ء کودمشق سے لکھتے ہیں :
ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامک ریسرچ کے موضوع پر اسلامک تھاٹ میں جو اچھے اداریے اور مقالات شائع ہوئے ہیں، انھیں عربی میں ترجمہ کیا جائے۔ خصوصاً صدرالدین صاحب کا اداریہ ’مشن آف دی ملت‘ وغیرہ ۔نیز اسلامی علمی کام کا مکمل تعارف، اسلامک ریسرچ سرکل کا تفصیلی تعارف ،عربی میں ان سب کی شدید ضرورت ہے۔۱۸
مئی ۱۹۶۲ء میں دمشق سے اپنے خط میں لکھا :
صدرالدین صاحب کا مقالہ عربی میں ضرور آنا چاہیے۔ اور ’اسلامک ریسرچ سرکل‘ کا مکمل تعارف نیز اسلامک تھاٹکے ریسرچ نمبر کا تعارف بھی۔ میں یہاں ان شاء اللہ اس فکری خلا کو پاٹ کر کچھ تعمیر کرنے کا احساس رکھتا ہوں۔ اسلامک تھاٹ کے پرچے خاصی تعداد میں بھجوائیے،بہت اشد ضرورت ہے۔ ۱۹
جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی کے پروفیسراور جموں و کشمیر یونی ورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر مشیر الحق ندوی(م: ۱۰؍ اپریل ۱۹۹۰ء )نے اپریل ۱۹۷۱ء میں لکھا تھا :
اسلامک تھاٹ میں مسلم پرسنل لا پر جو مضمون ادارہ شہادت حق کے ناظم مولانا حامد علی صاحب کا ہے، اُس میں وہ صرف اسی حد تک پہنچے ہیں کہ علما اور مسلم ماہرین قانون کی ایک کمیٹی بنانی چاہیے جو ان معاملات کو طے کرے، لیکن اسی کے ساتھ ساتھ انھوں نے ایک ایسی شرط بھی لگا دی ہے کہ پوری تجویز اپنی معنویت کھو دیتی ہے۔۲۰
پروفیسر مشیر الحق دوسرے خط میں لکھتے ہیں :
میرے نزدیک مولانا حامد علی کے مذکورہ بالابیان اور مولانا صدرالدین اصلاحی کے بیان (اسلامک تھاٹ،جولائی۱۹۶۹ء ص ۱۰-۱۱) میں مطابقت نہیں ہے۔۲۱
۱۹۵۰ء میںپاکستان میںخواتین کے لیے قائم حلقہ بزم تعمیر ادبِ اسلامی کی روح رواں اور خواتین کے علمی ، ادبی ، اور اصلاحی رسالہ ماہ نامہ عفت نیز نومبر ۱۹۵۷ء میں جاری ہونے والے ماہ نامہ بتول، لاہورکی مدیرہ حمیدہ بیگم صاحبہ نے فروری ۱۹۵۵ء میں نجات اللہ صدیقی کو لکھا :
اسلامک تھاٹ مجھ تک پہنچا تو ہے، لیکن مطالعہ کا وقت نہیں ملا۔ ان شاء اللہ اس کو دیکھ کر کچھ لکھ سکوں گی۔ ۲۲
قاہرہ یونی ورسٹی میں اسلامک اسٹڈیز کالج کے ڈین ڈاکٹر محمد عبد اللہ العربی کے اسلامک تھاٹ میں متعدد مضامین شائع ہوئے ۔ جنوری ۱۹۷۰ء میں انگریزی میںتحریراپنے خط میں وہ مجلہ ااسلامک تھاٹ پابندی سے بھیجنے کی درخواست کرتے ہوئے کہتے ہیں : ’’ اگر ممکن ہو تو گذشتہ تین سالوں کے شمارے ضرور بھیج دیں ‘‘۔ ۲۳
سوشل بنک ڈھاکہ کے مینیجنگ ڈائرکٹر اور کتابIslamic Economics: Theory and Practice کے مصنف مسٹر ایم اے منّان، ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کے نام ۲۲ جون ۱۹۷۰ء کو تحریر کرتے ہیں : سہ ماہی جرنل اسلامک تھاٹ میں آپ کا مضمون ’غیر سودی بنک کاری کا ماڈل ‘ پڑھ کر بہت خوشی ہوئی‘‘ ۔ ۲۴
علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے سابق وائس چانسلر مسٹر بدر الدین طیب جی بھی اسلامک تھاٹ کے قاری تھے ۔ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی سے ان کی مراسلت دیکھی جاسکتی ہے۔ ۲۵
پروفیسر خورشید احمد کے متعدد خطوط میں اسلامک تھاٹ کا تذکرہ ملتا ہے۔ ۱۷؍دسمبر ۱۹۵۸ء کو نجات اللہ صدیقی کے نام خط میں لکھتے ہیں :
[پروفیسر کینٹ ول] اسمتھ کی کتاب ابھی ختم نہیں کی ہے ،کافی پڑھ لی ہے ۔اس پر مستقل تبصرہ لکھنے کا ارادہ ہے۔ خود اسمتھ کا اصرار ہے کہ میں اس پر تبصرہ لکھوں۔کتاب خود اس نے بھیجی ہے، اس لیے اخلاقی ذمہ داری بھی ہوگئی ہے۔اگر ممکن ہوا تو تبصرہ کی ایک کاپی آپ کو اسلامک تھاٹ کے لیے بھی بھیج دوں گا۔ ۲۶
۱۹؍ دسمبر ۱۹۶۰ء کو اپنے خط میں تحریر کرتے ہیں :
اسلامک تھاٹ مجھے نہیں مل رہا ہے ۔ آپ گھر کے پتہ پر جاری کرا دیجیے۔ اس شمارہ سے پہلا شمارہ بھجوا دیجیے ، وہ میرے پاس نہیں ہے ۔ اب توقع ہے کہ اس کے لیے جلد کچھ نہ کچھ بھیجوں گا ۔ گو اس سلسلے میں وعدہ خلافیاں اتنی ہوئی ہیں کہ نیا وعدہ کرتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے ۔ ۲۷
پروفیسر خورشید احمد۲۷؍ اپریل ۱۹۶۸ء کو لکھتے ہیں:
جو معاونت آپ سے فوراً چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اسلامک تھاٹ کا ایک فائل ہمارے لیے کسی نہ کسی طرح فراہم کردیجئے تاکہ اس میں شائع شدہ مفید چیزوں کو ہم از سر نو مرتب کرکے لا سکیں ۔ ۲۸
مدیران گرامی کا تعارف : ابتدائی پانچ برسوں میںیہ رسالہ ’دو ماہی‘ رہا،مگر ۱۹۵۹ء میں یہ سہ ماہی ہو گیا تھا ۔ ۱۹۵۴ء سے ۱۹۵۹ء تک نجات اللہ صدیقی اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں شعبۂ انگریزی کے استاذ سید زین العابد ین [وفات ۱۹۹۳ء] اس کے ایڈیٹر رہے ۔ ۱۹۶۰ء سے ۱۹۶۸ء تک چیف ایڈیٹر سید زین العابدین اور ایڈیٹر کے طور پر عرفان احمد خان اورفضل الرحمٰن فریدی کا نام درج ہے ۔ اس وقت تک پبلی کیشن آفس رابعہ منزل ، بدر باغ ،علی گڑھ میں تھا ،مگر جب ۱۹۶۹ء میں ڈاکٹر فضل الرحمٰن فریدی کو اسلامک تھاٹ کا چیف ایڈیٹر اور عرفان احمد خان کو ایڈیٹر مقرر کیا گیا تو پبلی کیشن آفس اسلامک لائبریری ، شمشاد مارکٹ ، علی گڑھ کو بنادیا گیا ۔ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی اکتوبر ۱۹۷۱ء کے آخری شمارے تک اسلامک تھاٹکے پرنٹر پبلشر رہے۔ جنوری - فروری ۱۹۵۵ء میں مدیر اعلیٰ نجات اللہ صدیقی کے اداریے سے معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۵۳ء میں ۵ شمارے، جب کہ ۱۹۵۴ء میں صرف تین شمارے منظر عام پر آسکے تھے ۔
ماہ نامہ ’برہان‘ دہلی میں سعید احمد اکبرآبادی کا تبصرہ :’’ ہمارے ملک میں بھی نوجوانوں اور خاص کر انگریزی تعلیم یافتہ مسلمانوں پر اِس جماعت [جماعت اسلامی] کا بڑا اثر ہے ۔ ان لوگوں کے انگریزی اور اردو کے اخبارات و رسائل ہیں ۔ لٹریچر کی اشاعت ہورہی ہے ۔ ہفتہ وار یا ماہانہ ان کے جلسے ہوتے ہیں اور اس میں ارکان و ہمدردان جماعت بڑی دلچسپی اور ذوق و شوق سے شریک ہوتے ہیں ۔ مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ میں ابھی دوسال پہلے تک اس جماعت کے ارکان بڑی اقلیت میں تھے اور اپنی اسلامی وضع قطع اور مسجد میں نماز با جماعت کی پابندی کی وجہ سے سب سے ممتاز اور الگ تھے ۔ لیکن ابھی پچھلے دنوں یونی ورسٹی کے طلبہ کی یونین کے جو انتخابات ہوئے ہیں، ان میں یونین کے صدر اور سکریٹری کے لیے ان امیدواروں کا انتخاب ہوا، جو اسلامی جماعت کے ارکان ہیں ۔ ۲۹ ان لوگوں کا ایک دو ماہی انگریزی رسالہ بھی ہے، جو اسلامک تھاٹکے نام سے نکلتا ہے اور جس کی اشاعت روز بروز بڑھ رہی ہے اور ہندو پاک کے علاوہ مشرق وسطیٰ تک اس کے خریدار موجود ہیں‘‘۔ ۳۰
برہان، دہلی کی مئی ۱۹۶۰ء کی اشاعت میں سہ ماہی اسلامک تھاٹ کا تعارف شائع ہوا ہے :’’ اسلامک ریسرچ سرکل کا یہ ترجمان آٹھ سال سے اسلامی علمی کام کی دعوت دینے کا کام انجام دے رہا ہے ۔ اسلام کے مختلف پہلوؤں پر تحقیقی مقالات اور مسائل حاضرہ پر اسلامی نقطۂ نظر سے مذاکرات سامنے لانے کے علاوہ اس نے مختلف علوم جدیدہ میں اسلامی علمی تحقیق کی راہیںنکالی ہیں ۔ معاشیات ‘ سیاسیات ، فلسفۂ اخلاقیات وغیرہ میں اسلامی تحقیق کے لیے خطوط تجویز کیے ہیں۔ اس شمارے میں :ملت اسلامیہ کا مشن (مولانا صدرا لدین اصلاحی )، مسکویہ کا نظریۂ اجتماع و ریاست (محمد عبد الحق ایم اے ،علیگ)،اسلامی نظام معیشت میں اُجرتیں (عبد المجید قریشی، صدر لیبر ویلفیئر کمیٹی، پاکستان)، اسلام میں زمین کی ملکیت (مولانا شاہ محمد رشاد ، افغانستان ) شاملِ اشاعت ہیں۔
’صدق جدید‘ میں مولانا عبد الماجد دریا بادی کا تبصرہ:’’ یہ دو ماہی رسالہ انگریزی خوانوں خصوصاً کالج اور یونی ورسٹی کے طلبہ میں دینی شعور اور اسلامی ذوق پیدا کرنے کی غرض سے اسلامک ریسرچ سرکل ، رام پور نے نکالا ہے جوجماعت اسلامی کا ایک ادارہ ہے ۔ اِس کے تین نمبر اِس وقت تک موصول ہوئے ہیں اور تینوں میں اسلامیات سے متعلق علمی ، تاریخی، معاشیاتی پہلوؤں سے اچھے اچھے مضمون ہیں ۔ جماعت اسلامی ہند جو چندمفید دینی خدمات انجام دے رہی ہے ‘ اُن میں اِس رسالے کا اجراء ایک مفید اضافہ ہے۔ انگریزی خوانوں کا ہر طبقہ اس سے استفادہ کر سکتا ہے ‘‘۔ ۳۱
ماہ نامہ’ ترجمان القرآن ‘لاہور میں نعیم صدیقی کا تبصرہ:’’ہندستان میں اسلامی فکر و تحریک کے احیاء کے لیے مسلمانوں میں جو رجحانات برسرِ عمل ہیں ان کا ایک اظہار ’اسلامک ریسرچ سرکل‘کے ادارے کی صورت میں ہو رہا ہے ۔ یہ ادارہ چند ذہین نوجوانوں کی سرگرمیوں پر مشتمل ہے ۔ یہ نوجوان اسلامی فکر و نظر کے ساتھ علوم جدیدہ کا ناقدانہ مطالعہ کر رہے ہیں اور فلسفۂ مدنیات ، سیاسیات ، معاشیات ومالیات اور اخلاقیات وغیرہ کے میدانوں میں حکمت اسلامی کو امتیازی اہمیت کے ساتھ پیش کررہے ہیں ۔ ان کے مطالعہ و تفکر کی ترجمانی کا ذریعہ پیش نظر انگریزی جریدہ ہے۔ پہلے یہ جریدہ سائیکلو اسٹائل ہو کر نکلتا تھا ، اب مطبوعہ صورت میں آنے لگاہے۔ اس کے نئے دور کے جو شمارے ہم نے دیکھے ہیں وہ بڑے حوصلہ افزا ہیں ۔ ہندستان کے حالات میں ایسا قابل قدر کام کرنے والے نوجوان اس بات کے مستحق ہیں کہ اسلامی ذہن کے ساتھ علمی دلچسپیاں رکھنے والے حضرات ان کی ہمتیں بڑھائیں ۔ پاکستانی کالجوں کے نوجوانوں کو بھی اس قسم کے کاموں سے سبق لینا چاہیے کہ کرکٹ اور سنیما کے شغف سے اوپر بھی کرنے کے کوئی کام ہیں ‘‘۔ ۳۲
ترجمان القرآن ( مارچ ۱۹۶۰ء) میں پروفیسر عبدالحمید صدیقی نے اسلامک تھاٹ کا تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے :’’ اسلامک ریسرچ سرکل کا یہ ترجمان سات سال سے اسلامی علمی کام کی دعوت دے رہا ہے ۔اس نے اسلام کے مختلف پہلوؤں پر تحقیقی مقالات اور مسائل حاضرہ پر اسلامی نقطۂ نظر سے مذاکرات پیش کیے ہیں ۔ مختلف علوم جدیدہ میں اسلامی تحقیق کے لیے راہیں نکالی ہیں ۔معاشیات ، سیاسیات ، فلسفہ ، اخلاقیات وغیرہ میں اسلامی تحقیق کے لیے موضوعات تجویز کیے ہیں اور فنون لطیفہ جیسے موضوعات پر غور و فکر کا آغاز کرایا ہے ۔ اس میں لکھنے والے ہندو پاکستان کے وہ اسلامی محققین ہیں جو دور جدید میں اسلامی زندگی کی تفصیلات مرتب کرنے اور مسائل حاضرہ کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں حل کرنے کو اپنا کام سمجھتے ہیں ۔ ‘‘
آج اس بات کی اشد ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ اسلامک تھاٹ کے پرانے شماروں کو جمع کرکے از سر نو اُن کی اشاعت کا بندو بست ہو اور ان کی پی ڈی ایف فائل تیار کرکے انٹر نیٹ کے ذریعے اس سے استفادہ کو آسان بنایا جائے ۔
۱- انگریزی مجلہ اسلامک تھاٹ سے قبل بیسویں صدی کے چوتھے عشرے میں ’انجمن خدام الدین‘ کے زیراہتمام خواجہ عبد الوحید [مشفق خواجہ صاحب کے والد گرامی]کی ادارت میں لاہور سے ۱۵روزہ انگریزی رسالہ Islam شائع ہوتاتھا ۔ مولانا احمد علی کی صدارت میں’ انجمن خدام الدین ‘نے شبلی نعمانی کی سیرت النبی ؐ کے مقدمہ کا انگریزی ترجمہ ’اسلام ‘ میں قسط وار شائع کیا تھا ۔ مدیر خواجہ عبدالوحید نے سید سلیمان ندوی کو خط لکھ کر سیرت النبیؐ کے انگریزی ترجمہ کی اجازت طلب کی تو سید صاحب نے ۲۲جولائی ۱۹۳۷ء کو اپنے جوابی مراسلے میںلکھا : ’اسلام‘مفید ثابت ہورہا ہے‘‘۔( بحوالہ چراغ راہ ،کراچی،مارچ ۱۹۶۰ء)
۱۹۴۸ء میںمظہر الدین صدیقی کی ادارت میں لاہور سے انگریزی ماہ نامہ Islamic Literature کی اشاعت عمل میں آئی تھی ۔ مئی ؍جون ۱۹۵۶ء میں مذکورہ رسالے کا خصوصی شمارہ منظر عام پر آیا تو مولانا دریابادی نے اخبار صدق میں اس پرتبصرہ کرتے ہوئے لکھا : ’’ انگریزی کا یہ ماہ نامہ سات آٹھ سال سے مسلم تہذیب و تمدن اور اسلامی علوم و فنون کی خدمت کررہا ہے ۔ اور اب اسے ایک صاحب ِقلم ایڈیٹر بھی حاصل ہوگئے ہیں ۔ یہ خصوصی نمبر تمدن اسلامی اور تمدن فرنگی پر ہے ۔ پرچہ انٹرنیشنل قسم کا ہے اور مضمون نگاروں میں پاکستان سے باہر کے لوگ بھی شامل ہیں ۔ بعضوںنے اچھی خاصی محنت سے لکھا ہے اور اسلامی تمدن کے خدو خال روشن کرکے دکھائے ہیں ۔ بہ حیثیت مجموعی رنگ تجدد کاغالب ہے ۔ بہ حیثیت مجموعی رسالہ بہت غنیمت ہے‘‘۔(ہفت روزہ صدق جدید ، لکھنؤ ، ۳۱؍ اگست ۱۹۵۶ء)۔ مذکورہ انگریزی رسالہ پر ماہ نامہ ترجمان القرآن ،لاہور (اکتوبر ۱۹۵۶ء) نے تبصرے میں پسندیدگی کا اظہار کیا۔
جماعت اسلامی پاکستان نے ابھی انگریزی میں کوئی پرچہ جاری نہیں کیا تھا، لیکن ۱۹۵۲ء میں اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کا پندرہ روزہ انگریزی ترجمان 'Students Voice' خورشید احمدصاحب کی ادارت میںکراچی سے جاری ہواتھا، جو ۱۹۵۸ء میں بندہوگیا۔۱۹۵۶ء میںخورشید احمداور ظفر اسحاق انصاری کی ایڈیٹر شپ میں آرام باغ روڈ، کراچی ، پاکستان سے بارہ صفحات پر مشتمل ایک ہفت روزہ انگریزی اخبار New Era جاری کیا گیا تھا، جس کا تذکرہ صدق جدید، لکھنؤ میں ۲۴ فروری ۱۹۵۶ ء کی اشاعت میں موجود ہے۔ ماہ نامہ ترجمان القرآن ،لاہور (مارچ ۱۹۵۶ء) میں اس پر مؤثر تبصرہ شائع ہوا۔
۲- دو ماہی اسلامک تھاٹ ،جنوری - فروری۱۹۵۵ء، رابعہ منزل ،بدر باغ ، علی گڑھ
۳- قاہرہ یونی ورسٹی سے قانون میں گریجویٹ اورکولون یونی ورسٹی، جرمنی سے قانون میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے والے ڈاکٹرسعید رمضان [ ۱۲؍ اپریل ۱۹۲۶ء - ۴؍ اگست ۱۹۹۵ء ] ’الاخوا ن المسلمون‘ کے بانی مرشد امام حسن البناء شہید [۱۹۰۶ء- ۱۹۴۹ء] کے داماداور اخوان کے ترجمان مجلہ المسلمون کے مصر میںمدیر تھے ۔جب وہاں حکومت نے دار و گیر کا سلسلہ شروع کیا تو متعدد افراد کے ساتھ یہ رسالہ بھی دمشق ہجرت کرگیا اور وہاں سے ڈاکٹر مصطفےٰ سباعی اور سعید رمضان کی مشترکہ ادارت میں جاری ہوا۔ وہ مؤتمر عالم اسلامی قدس کے سکریٹری اور ادارہ تحقیقات اسلامی، جنیوا کے ڈائرکٹر تھے۔ مکہ مکرمہ میں’رابطہ عالم اسلامی‘ کے قیام میں بنیادی کردار ادا کرنے والے اس صحافی، مجاہد، خطیب اور دانشور نے عربی اور انگریزی زبانوں میں متعدد وقیع کتابیں بھی تصنیف کی ہیں۔ عالم عرب سے باہریورپ میںاسلامی افکارو نظریات کی ترویج و اشاعت میں ان کی خدمات پر تحقیق ہونی چاہیے۔ اُن کی معروف تصانیف:
lIslamic Law; its Scope and Equity lIslam and Nationalism lThree Major Problems Confronting the World of Islam lIslam Doctrine and Way of Life
lWhat We Stand For ?lWhat is an Islamic State? ?
۴- سہ ماہی اسلامک تھاٹ ، علی گڑھ ،جولائی - ستمبر ۱۹۶۰ء
۵- صرف اسلامک تھاٹ نہیں، بلکہ Student's Voice، New Era، Voice of Islam ، Young Pakistan، The Criterion، Universal Message وغیرہ کا بھی تعارف و جائزہ نہیں ملتا۔ (س م خ )
۶- فضل الرحمٰن فریدی اور محمد نجات اللہ صدیقی کے مرتبہ: Papers and Proceedings of Seminar ناشر:اسلامک ریسرچ سرکل، علی گڑھ ، ۱۹۷۳ء ، صفحات:۱۹۹
۷- حوالۂ بالا،ص ۱۹۰
۸- نجات اللہ صدیقی، اسلام ، معاشیات اور ادب خطوط کے آئینے میں، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ ، اگست ۲۰۰۰ء، ص ۲۵۷۔
۹- حوالۂ بالا، ص ۱۵۴ ۱۰-حوالۂ بالا، ص ۱۵۵ ۱۱- حوالۂ بالا، ص ۱۰۴
۱۲- حوالۂ بالا،ص ۱۰۶ ۱۳-حوالۂ بالا، ص ۱۰۸ ۱۴-حوالۂ بالا، ص ۱۷۹
۱۵-حوالۂ بالا، ص ۲۴۳ ۱۶-حوالۂ بالا، ص ۲۹۴ ۱۷-حوالۂ بالا، ص ۲۹۶- ۲۹۷
۱۸-حوالۂ بالا، ص ۲۹۸ ۱۹-حوالۂ بالا، ص۳۰۱ ۲۰-حوالۂ بالا، ص ۳۵۰
۲۱-حوالۂ بالا، ص ۳۵۲ ۲۲-حوالۂ بالا، ص۱۴۲
۲۳- ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی، Dialogue in Islamic Economics، اسلامک فائونڈیشن، لسٹر، ص۱۷۸
۲۴- حوالۂ بالا، ص۱۴۸ ۲۵-حوالۂ بالا، ص ۷۰
۲۶- نجات اللہ صدیقی، اسلام ، معاشیات اور ادب خطوط کے آئینے میں،علی گڑھ، اگست ۲۰۰۰ء، ص۱۴۴
۲۷- حوالۂ بالا، ص ۱۵۰ ۲۸- حوالۂ بالا، ص ۱۵۳
۲۹- اس زمانے میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی طلبہ یونین کا انتخاب آئیڈیالوجی کے ساتھ اُمید وار کے افکار و خیالات اور فن خطا بت میں امتیاز کی بنیاد پر ہوتا تھا۔جماعت اسلامی کی زیر نگرانی کام کرنے والی طلبہ تنظیم ’اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن علی گڑھ‘ کے رکن طالب علم سید ضیاء الحسن ہاشمی (حیدر آباد) ۱۹۵۶ء میں اسٹوڈنٹس یونین کے صدرمنتخب ہوئے اور اسی تنظیم سے وابستہ صغیر احمد بیدار (بھوپال) [۳؍ مارچ ۱۹۳۶ء- ۲۰ ؍ اپریل ۲۰۱۸ء ] ۱۹۵۸ء میں یونین کے سکریٹری منتخب ہوئے تھے ۔
۳۰- ماہ نامہ برہان ، دہلی ،جلد ۳۸، شمارہ ۵، مئی ۱۹۵۷ء
۳۱- ہفت روزہ صدق جدید ، لکھنؤ ،۲۷ ؍ اپریل ۱۹۵۶ء ۳۲- ماہ نامہ ترجمان القرآن ، اپریل ۱۹۵۵ء
بنگلہ دیش کے ممتاز عالم دین، کرشماتی شخصیت، شان دار خطیب، بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے نائب امیر، سابق ممبر بنگلہ دیش پارلیمنٹ اور مفسرقرآن علّامہ دلاور حسین سعیدی ۱۴؍اگست ۲۰۲۳ء کو جیل کی کال کوٹھڑی سے، دل کے دورے کے بعد تشویشناک حالت میں ہسپتال منتقل ہونے کے چند گھنٹوں بعد انتقال کرگئے، انا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون!
جناب دلاور حسین سعیدی کی عمر ۸۴برس تھی۔ وہ ۲فروری ۱۹۴۰ء کو ضلع فیروز پور کے گائوں سید کھلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد گرامی یوسف سعیدی ممتاز عالم دین تھے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم والد ماجد سے حاصل کی۔سرسینا عالیہ مدرسہ سے عالم اور ۱۹۶۲ء میں کھلنا کے عالیہ مدرسہ سے کامل کی سند لی۔ وہ قرآن، حدیث، فقہ، فلسفہ، معاشیات، خارجہ تعلقات، نفسیات اور ادبیات کا گہرا مطالعہ رکھتے تھے۔ اسی طرح بنگلہ کے علاوہ اُردو، عربی، فارسی اور انگریزی میں مطالعہ کی قابلیت رکھتے تھے۔ بنگالی، اُردو اور عربی میں بڑی روانی سے خطاب فرماتے تھے۔ آپ سولہ بلندپایہ کتب کے مصنف تھے۔ دلاور سعیدی بنگلہ دیش بننے کے گیارہ برس بعد ۱۹۸۲ء میں جماعت اسلامی کے رکن بنے، ۱۹۸۹ء میں جماعت کی مجلس شوریٰ کے رکن منتخب ہوئے اور تھوڑے عرصے بعد بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے نائب امیر مقرر ہوئے۔ وہ اس ذمہ داری پر آخری لمحے تک فائز رہے۔ ضلع فیروزپور، حلقہ نمبر ایک سے ۱۹۹۶ء اور پھر ۲۰۰۱ء میں بھاری اکثریت کے ساتھ ممبر پارلیمنٹ منتخب ہوئے۔یاد رہے کہ اس حلقے میں ہندو آبادی بنگلہ دیش کے کسی بھی حلقے سے زیادہ ہے۔
۱۹۶۷ء سے انھوں نے اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لیے وقف کردیا، اور آخری قید سے پہلے بنگلہ دیش کے علاوہ دنیا کے تقریباً ۵۰ممالک میں درس و تعلیم کے لیے سفر پر گئے۔ درس قرآن میں وہ قرآنی آیات کی تفسیر اس انداز سے کرتے کہ سامعین کو یوں لگتا جیسے ہرآیت، ایک ایک فرد کو پکار رہی ہے، جھنجھوڑ رہی ہے اور دین کے لیے کام پر اُبھار رہی ہے۔ اسی لیےبچّے، جوان، بزرگ، خواتین و حضرات لاکھوں کی تعداد میں ان کے دروس میں شرکت کرتے۔ انھیں جلسے کے انعقاد کے لیے کسی اشتہار یا اعلان کی ضرورت نہیں ہوتی تھی، بلکہ فیصلہ ہوتے ہی سینہ بہ سینہ یہ خبر پورے علاقے میں خوشبو کی طرح پھیل جاتی۔ انھوں نے جماعت اسلامی کو بنگلہ دیش کی عوامی جماعت بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔وہ علّامہ اقبال کے کلام کے حافظ تھے اور مولانا مودودی سے محبت رکھتے تھے۔
علّامہ دلاور حسین سعیدی کو بھارت کی پشت پناہی میں قائم عوامی لیگی حسینہ واجد حکومت نے جعلی، من گھڑت اور افسانوی الزامات کے تحت ۲۹جون ۲۰۱۰ء کو گرفتار کیا اور جیل میں لے جاتے ہوئے کہا: ’’جماعت کو چھوڑنے کا اعلان کردو تو مقدمہ واپس لے لیں گے‘‘۔ مگر انھوں نے اس پست درجے کی سودے بازی کا حصہ بننے سے انکار کردیا۔ عوامی لیگی حکومت کے قائم کردہ نام نہاد ’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل‘ کے جج فضل کبیر نے اپنے دوساتھیوں کے ہمراہ سعیدی صاحب کے گواہوں کو سنے بغیر یک طرفہ طور پر ۲۸فروری ۲۰۱۳ء کو سوا بارہ بجے انھیں سزائے موت سنائی۔ اس اعلان پر سرکاری وکیل نے کہا: ’’سعیدی کے لیے موت کی سزا کا حکم نامہ سن کر بہت خوشی ہوئی ہے‘‘۔ اگلے ہی لمحے ڈھاکا میں کمیونسٹوں کے اخبار ڈیلی اسٹار کے انٹرنیٹ ایڈیشن نے سرخی جمائی: Sayeedy to be hanged، اور انڈین ٹیلی ویژن NDTV نے بار بار یہ خبر نشر کی: Senior Jamaat Leader Sayeedy gets Death Sentence.
نام نہاد جج نے جب سزائے موت کا فیصلہ سنایا، تب سعیدی صاحب نے جو ہاتھ میں قرآن تھامے ہوئے تھے، کٹہرے سے ٹریبونل کے جج کو مخاطب کرکے مضبوط لہجے میں کہا: ’’میں نے ان میں سے کوئی جرم نہیں کیا اور آپ نے یہ فیصلہ اپنے دل اور دماغ کی گہرائی اور انصاف کی زبان سے نہیں سنایا۔ میں اپنا معاملہ اللہ کی عدالت پہ چھوڑتا ہوں‘‘ اور کسی قسم کی گھبراہٹ کے بجائے باوقار انداز سے چلتے ہوئے قیدیوں کی ویگن میں قدم رکھا۔ سعیدی صاحب کے وکیل بیرسٹر عبدالرزاق نے صحافیوں سے کہا: ’’علّامہ سعیدی، عدل و انصاف کے قلم سے نہیں بلکہ بے انصافی، جھوٹ اور سفاکی کے خنجر سے، ایک گھنائونے سیاسی انتقام کا نشانہ بنائے گئے ہیں‘‘۔ سعودی اخبار نے لکھا: ’’سعیدی کی پھانسی کے فیصلے نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ ٹریبونل ایک کینگرو کورٹ ہے‘‘(سعودی گزٹ، ۷مارچ ۲۰۱۳ء)۔ ایک سال قبل ’امریکن سوسائٹی آف انٹرنیشنل لا‘ ۲۱جون ۲۰۱۱ء کی رپورٹ نے اس ٹریبونل کی قانونی حیثیت کو مضحکہ خیز قرار دے کر مسترد کردیا تھا۔اس فیصلے کی خبر سنتے ہی پورے بنگلہ دیش میں احتجاجی ہنگامےپھوٹ پڑے، جس میں ۱۵۰ سے زیادہ مظاہرین پولیس فائرنگ سے شہید ہوگئے۔ وکلا نے سپریم کورٹ میں اپیل کی، جس نے ۱۷ستمبر ۲۰۱۴ء کو سزائے موت کو تادمِ مرگ جیل میں قید کی صورت تبدیل کر دیا۔
جناب سعیدی کے مقدمے کا ایک شرمناک پہلو یہ ہے کہ ضلع فیروزپور میں ۱۹۷۱ء میں ایک ہندو کے قتل کا الزام بھی ان پر لگایا گیا۔ لیکن اس مقتول کے بھائی سکرنجن بالی نے سرکاری گواہ بن کر، سعیدی صاحب کے خلاف گواہی دینے کے بجائے، تمام زور زبردستی کے باوجود اُن کے حق میں گواہی دینے کا فیصلہ کیا اور کہا: ’’علّامہ سعیدی ہمارے محسن ہیں اور ہمیں ان سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ اُن پر میرے بھائی کے قتل کا الزام جھوٹا ہے، پچھلے چالیس برسوں میں ہم نے سعیدی صاحب پر یہ الزام لگانے کا کبھی سوچا تک نہیں‘‘۔ یہ گواہی دینے کے لیے سکرنجن ۵نومبر۲۰۱۲ء کو خصوصی ٹریبونل پہنچ گیا، جہاں گیٹ ہی سے نامعلوم افراد نے اسے اغوا کرلیا۔ اخبار New Age نے پانچ ماہ بعد اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا: ’’پولیس کی برانچ (Deductive Branch) نے سکرنجن کو اغوا کرلیا، اور پھر چھ ہفتے کی غیرقانونی حراست کے بعد دسمبر ۲۰۱۲ء میں اسے انڈین بارڈر سیکورٹی فورس (BSF) کے سپرد کردیا، جس نے ڈم ڈم جیل، کلکتہ میں اسے قید کردیا۔ مارچ ۲۰۱۳ء سے کسی طرح اس کے خاندان کو اس بات کا علم ہوا تو وہ انڈیا پہنچے، جنھیں ۸جون ۲۰۱۳ء کو سکرنجن بالی نے بتایا: ’’مجھے بنگلہ دیش کی نقاب پوش خفیہ پولیس نے اغوا کرکے ایک سیل میں پہنچایا اور کہا: ’’تم سعیدی کے حق میں کیوں گواہی دیتے ہو؟ اس نے تو پھانسی کی سزا پانی ہی ہے، مگر اس طرح تم بھی قتل کر دیئے جائو گے‘‘۔ بالی نے بتایا: ’’مجھے بنگلہ دیشی خفیہ پولیس اہل کاروں نے کہا: ’’تمھیں سعیدی کے بڑے بیٹے ’بلبل سعیدی نے ورغلایا ہے‘‘، حالانکہ وہ بےچارا مئی ۲۰۱۲ء ہی میں پولیس کے دعوے کے مطابق ہارٹ اٹیک سے فوت ہوگیا۔ اگرچہ مجھے ہارٹ اٹیک والے پولیس کے اس دعوے پر بھی شک ہے۔ میں نے کہا: ’’مجھے کسی نے نہیں ورغلایا، میں ایک بے گناہ فرد کے خلاف جھوٹی گواہی دینے کو جرم سمجھتے ہوئے ایسا کرنے سے انکار کر رہا ہوں‘‘۔
اس شرمناک مثال پر برطانیہ کے معتبر رسالے The Economist نے اپنی رپورٹ میں لکھا: ’’اسرائیل کی خفیہ پولیس نے ۱۹۶۱ء میں ارجنٹائن سے جرمن ایل ایچ مین کو اغوا کرکے اسرائیل پہنچایا، ۲۰ سال پرانے ہولوکاسٹ جنگی جرائم کا ذمہ دار قرار دے کر مقدمہ چلایا۔ بالکل اسی طرح بنگلہ دیش میں ’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل‘ میں چالیس سال پرانے الزامات کے تحت وہ مقدمے چلائے جارہے ہیں، جو نہ کبھی درج ہوئے اور نہ کبھی اُن کا نشانہ بننے والوں کے خلاف آواز اُٹھائی گئی اور ا ب اچانک انھیں پکڑ کر مقدمے چلانے کا ڈراما کھیلا جارہا ہے‘‘۔ (۲۳مارچ ۲۰۱۳ء)
علامہ دلاور حسین سعیدی کی جانب سے قرآنی تعلیم کا پروگرام سالہا سال سے پورے بنگلہ دیش کے ہرضلعی صدرمقام میں پھیلا ہوا تھا۔ اس پھیلائو کی نسبت سے چند مثالیں ملاحظہ کیجیے: lراج شاہی کے گورنمنٹ مدرسہ گرائونڈ میں مسلسل ۳۵برس تک، ہرسال ۳ دن درس دیتے۔ lکھلنا کے سرکٹ ہائوس میدان میں ۳۸برس تک، ہرسال ۳ روز درسِ قرآن دیتے۔ lبوگرہ شہر کے مرکزی میدان میں ۲۵برس تک ۳ روز تک درسِ قرآن دیتے۔ lچٹاگانگ پریڈ گرائونڈمیں ۲۹سال تک ۵ دن باقاعدہ قرآن کا پیغام ہرخاص و عام تک پہنچاتے اور شرکا کی تعداد بلامبالغہ ۶،۷ لاکھ سے زیادہ سامعین پر مشتمل ہوتی۔ lسلہٹ، گورنمنٹ عالیہ مدرسہ گرائونڈ میں مسلسل ۳۳ برس تک ۳روز محفل قرآن کے پروگرام کرتے۔ lڈھاکہ پلٹن میدان اور کملاپور ریلوے میدان میں ۳۴برس تک ہرسال تین، تین روز درس قرآن پروگرام کرتے رہے، جن میں لاکھوں سامعین شرکت کرتے___ ہرجگہ خواتین کی شرکت کے لیے الگ سے انتظامات کیے جاتے جنھیں وہاں کے اہل خیر مل کر یقینی بناتے۔
ڈاکٹر محمد نورالامین (لندن) نے اپنی یادداشت میں لکھا: ’یہ ۱۹۷۹ء کی بات ہے کہ میں نواکھالی ڈسٹرکٹ اسکول گرائونڈ میں سنجیدگی یا اخلاص کے ساتھ نہیں بلکہ مذاق اور شغل کے جذبے کے تحت سعیدی صاحب کے درس میں شریک ہوا۔ وہاں چند منٹوں کا خطاب سننے،اور ہرجملے میں براہِ راست قرآن کریم کا مخاطب ہونے پر یہ سوچتا رہ گیا کہ مجھ سے قرآن مخاطب ہے یا یہ فاضل مقرر مجھے پکار رہے ہیں۔ میرا یہ ارادہ کہ چند منٹ تماشا دیکھ کر واپس چلا آئوں گا، ریت کی دیوار ثابت ہوا، اور مَیں وہیں دیر تک کھڑا خطاب سنتا رہا۔ علّامہ سعیدی کا اندازِ گفتگو، طرزِ استدلال، سنجیدگی، علمی گہرائی اور وسعت، دردمندی، اخلاص اور دل کی دُنیا کو جھنجھوڑتی باوقار آواز___ بتانہیں سکتا کہ ایک خطاب میں کتنے رنگ میرے دل و دماغ کی دُنیا کو ایک نئے پہلو سے متعارف کرانے کا ذریعہ بن گئے۔مولانا سعیدی نے ہماری روز مرہ کی زندگی کے بڑے بڑے مسائل کو اُٹھایا، قرآن و سنت کی روشنی میں ان کا فی زمانہ حل بتایا اور سامعین کو کام کا عملی منصوبہ تھمایا۔ان کی گفتگو میرے لیے اتنی دل پذیر اور روح پرور بن گئی کہ وہیں شامیانے کے نیچے بیٹھ گیا اور اختتام تک خطاب سنتا رہا۔ تب میرے لیے اس میں حیرت کا یہ زاویہ بھی تھا کہ قرآن، عربی، یادداشت اور موزوں الفاظ کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ وہ جدید سائنسی علوم کے سماجی پہلوئوں پر کامل گرفت کے ساتھ کلام کرنے کی صلاحیت سے سرفراز تھے‘‘۔
بنگلہ دیش میں کس قسم کی سفاک، فاشسٹ اور بھارت کی آلۂ کار پارٹی، عوامی لیگ گذشتہ پندرہ برسوں سے حکومت کر رہی ہے؟ اس کا اندازہ محض چند مثالوں سے لگایا جاسکتا ہے۔ یہ چند خبریں عوامی لیگ کے اُس مزاج کا اچھا تعارف کرا دیتی ہیں، جس مزاج کے ساتھ اُس نے ۱۹۶۹ء سے مشرقی پاکستان پر قبضہ جمایا، ۱۹۷۰ء میں تمام مدِمقابل متحدہ پاکستان کی حامی پارٹیوں کو تشدد کرکے میدان سے باہر نکال دیا، اور ۱۰دسمبر ۱۹۷۰ء کو پولنگ اسٹیشنوں پر قبضہ کرکے من مانا، سوفی صد نتیجہ حاصل کر لیا، جسے عقل کے اندھے دانش ور ’’شفاف ترین الیکشن اور بنگلہ دیش کے حق میں ریفرنڈم‘‘ قرار دیتے ہیں۔ جس مزاج کے ساتھ ۷۰سال پہلے عوامی لیگ کو بنایا، اُٹھایا اور غالب کرایا گیا تھا۔ اُس کی جانب سے آج بھی وہی فاسد خون بنگلہ دیش کی نئی نسل میں منتقل کیا جا رہا ہے:
علّامہ سعیدی کی زندگی ایک دینی اور قومی ہیرو کی سی زندگی کا عنوان ہے۔ جس میں عقیدت بھی ہے اور عظمت بھی۔ سچائی پر جم کرکھڑے ہونے کا پیغام بھی ہے اور حق کے لیے جان دینے کے اسوئہ حسینیؓ سے وابستگی کا روشن نقش بھی۔ انھوں نے دین سے محبت، قرآنی تعلیم و تدریس کے شوق اور سیاست میں خدمت کی شاہراہ پر چلتے ہوئے، خوشی خوشی اپنی قتل گاہ تک کا سفر طے کیا۔ علّامہ دلاور حسین سعیدی نے نہ صرف بنگلہ دیش بلکہ برصغیر جنوبی ایشیا کے تمام ممالک میں اسلامی تاریخ کے دبستانوں پر اَن مٹ اثرات چھوڑے ہیں، جن سے آیندہ نسلیں سبق اور عزم کی سوغات پاتی رہیں گی، گفتگو کرتی رہیں گی۔
سوائی مادھوپور، راجستھان ،انڈیا سے بلندپایہ شاعر جناب سرفراز بزمی نے اس موقعے پر کہا:
سفید ریش، جبینوں پہ ضوفگن سجدے
فرشتے دار پہ آتے ہیں مسکراتے ہوئے
رہ وفا کے شہیدو، سلام ہو تم پر
تمھی تو غیرتِ اُمت کی آن بان ہوئے
جھکے نہ نخوتِ شاہی کے آستانے پر
بلا سے راہِ وفا میں لہولہان ہوئے
پاکستان جب معرض وجود میں آیا تو سیّد علی شاہ گیلانی [۲۹ستمبر ۱۹۲۹ء- یکم ستمبر۲۰۲۱ء] کی عمر اٹھارہ سال کے قریب تھی۔ وہ اورینٹل کالج، لاہور میں زیر تعلیم تھے اور پاکستان کی آزادی کا سورج اُن کی آنکھوں کے سامنے طلوع ہوا ۔ پھر وہ ریاست جموں وکشمیر کی آزادی کا خواب لے کر واپس سوپور آئے اور تمام عمر اس خواب کی تعبیر کے لیے جد وجہد کرتے رہے۔
سیّد علی شاہ گیلانی پر کئی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں، لیکن آج مجھے اُن کے بارے میں صرف اپنے ذاتی مشاہدات اور احساسات لکھنے ہیں___گیلانی صاحب کے ساتھ میری پہلی ملاقات جولائی ۲۰۰۱ء میں ہوئی۔یہ اُس زمانے کی بات ہے جب پاکستان کے فوجی صدر جنرل پرویز مشرف [م:۵فروری ۲۰۲۳ء]، بھارت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی [م: ۱۶؍اگست ۲۰۱۸ء]کے ساتھ مذاکرات کے لیے دہلی پہنچے ہوئے تھے۔ میں روزنامہ اوصاف اسلام آباد کا ایڈیٹر تھا اور پاک بھارت مذاکرات کے اس تاریخی عمل پر روزانہ دہلی سے کالم لکھ کر بھیجتا تھا۔
ہم موریہ شیرٹن ہوٹل میں ٹھیرے ہوئے تھے۔ایک دن میں نے شکیل ترابی صاحب کے ذریعے دہلی میں حریت کانفرنس کے دفتر فون کیا او رسید علی شاہ گیلانی صاحب سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ غلام محمد بٹ صاحب کے ذریعے وقت طے ہوا اور ہم دونوں حُریت کانفرنس کے دفتر پہنچ گئے۔یہ ایک چھوٹا سا دفتر تھا۔ہم گیلانی صاحب سے علیحدہ ملنا چاہتے تھے۔ ہمارے لیے ایک علیحدہ کمرے میں ملاقات کا بندوبست ہوگیا، لیکن اسی دوران وہاں پروفیسر عبدالغنی بٹ صاحب بھی آگئے اور پھر مولوی عباس انصاری صاحب [م: ۲۵؍اکتوبر ۲۰۲۲ء]بھی آگئے۔انصاری صاحب کچھ دیر بعد چلے گئے، لیکن پروفیسر عبدالغنی صاحب موجود رہے۔جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ ان مذاکرات کی مخالفت کررہی تھی اور سید علی شاہ گیلانی بھی اس طریقِ کار پر خوش نہ تھے۔ تاہم، پروفیسر عبدالغنی بٹ صاحب مذاکرات کی حمایت کررہے تھے۔
ہم درحقیقت علی گیلانی صاحب سے اُن کے تحفظات جاننے آئے تھے۔گیلانی صاحب کی پاکستان سے محبت اور وفاداری غیر مشروط تھی، لیکن وہ جنرل پرویزمشرف کو سب پاکستانیوںکا ترجمان نہیں سمجھتے تھے۔انھوں نے ہمیں بتایا کہ ’’بھارتی حکومت نے حریت کانفرنس کے ساتھ مذاکرات کی بہت کوشش کی، لیکن ہم نے مذاکرات سے یہ کہہ کر انکار کیا کہ مسئلہ کشمیر میں پاکستان ایک فریق ہے۔ ہم پاکستان کے بغیر مذاکرات نہیں کریںگے‘‘۔گیلانی صاحب نے بڑے دُکھی لہجے میں کہا کہ ’’ہم سے مایوس ہوکر بھارتی سرکار نے پاکستان کے حکمرانوں سے رابطہ کیا اور پاکستان نے ہمیں مذاکرات میں شامل کیے بغیر مذاکرات پر آمادگی ظاہر کردی‘‘۔
گیلانی صاحب نے جے کے ایل ایف کی طرح کھل کر مذاکرات کی مخالفت نہیں کی، لیکن وہ مجھے بار بار یہ کہتے رہے کہ ’’جنرل پرویزمشرف پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ مسئلہ کشمیر کی نزاکتوں کو نہیں سمجھتے‘‘۔اُنھیں یہ شکوہ بھی تھا:’’۲۰۰۰ء میں جنرل مشرف نے مجاہدین کی قیادت کو اعتماد میں لیے بغیر سیز فائر کرانے کی کوشش کی اور اب حُریت کانفرنس کو شامل کیے بغیر بھارت سے مذاکرات کیے جارہے ہیں، جس سے حُریت کانفرنس کے تقسیم ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے‘‘۔ اس طویل ملاقات کی تفصیل میں جانے کا وقت نہیں،لیکن اس ملاقات میں گیلانی صاحب کے اخلاص اور جموں و کشمیر کی آزادی کے ساتھ اُن کی کمٹ منٹ کو دیکھ کر میں بہت متاثر ہوا۔
سیّد علی شاہ گیلانی کے ساتھ دوسری ملاقات دہلی میں پاکستان کے ہائی کمشنراشرف جہانگیر قاضی صاحب کی رہائش گاہ پر ہوئی، جہاں پاکستان سے جانے والے صحافیوں کے اعزاز میں عشائیہ تھا۔ یہاں دہلی کی جامع مسجد کے امام سیّد عبداللہ بخاری [۱۹۲۲ء-۲۰۰۹ء]نے میرے سامنے گیلانی صاحب کے بارے میں کچھ سخت باتیں کیں اور کہا کہ ’’گیلانی صاحب آزادی کی بات نہیں کرتے بلکہ جہاد کی بات کرتے ہیں،جس سے بھارتی مسلمانوں کے لیے مشکلات پیدا ہوتی ہیں‘‘۔
گیلانی صاحب قریب ہی کھڑے تھے۔میںنے اُنھیں متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’ذرا سنیے، یہ بخاری صاحب کیا کہہ رہے ہیں ؟ گیلانی صاحب نے امام عبداللہ بخاری سے کہا:’’اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں جموں وکشمیر ایک متنازعہ خطہ ہے اور ایک متنازعہ خطے میں آزادی کی بات کرنا کوئی جرم نہیں‘‘۔ اس پر عبداللہ بخاری صاحب نے غصے میں کہا:’’کشمیر بھارت کا حصہ ہے، آپ پاکستان چلے جائیں‘‘۔ یہ سُن کر ’حریت کانفرنس‘ میں جموں و کشمیر پیپلزلیگ کے سربراہ شیخ عبدالعزیز [م:۱۱؍اگست ۲۰۰۸ء]کو تائو آگیا ،انھوں نے کہ ’’ہم کشمیر کو آزاد ضرور کرائیں گے اور پھر تمھیں ویزا لے کر کشمیر آنا پڑے گا‘‘۔ یہ سُن کر بخاری صاحب وہاں سے کھسک گئے۔ گیلانی صاحب مجھے ایک کونے میںلے گئے اور کہا:’’پاکستان کو اقوام متحدہ کی قراردادوں سے نہیں ہٹنا چاہیے، چناب فارمولے یا کسی اور فارمولے پر بات نہیںکرنی چاہیے‘‘۔
’مشرف واجپائی مذاکرات‘ کا کوئی نتیجہ نہ نکلا اورہم پاکستان واپس آگئے۔ لیکن اس کے بعد بھی محترم سیّد علی گیلانی صاحب سے فون پر رابطہ رہتا تھا۔ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ ء کو نیو یارک اور واشنگٹن میں حملوں کے بعد مشرف نے افغان پالیسی تبدیل کی تو گیلانی صاحب کا خیال تھا کہ ’’اس پالیسی کا پاکستان کو نقصان ہوگا‘‘۔مشرف نے گیلانی صاحب کو پیغام بھیجا کہ ’’پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کریں‘‘۔ایک دن گیلانی صاحب نے فون پر بڑے دُکھی لہجے میں کہا: ’’میںتو اپنے آپ کو پاکستانی سمجھتا ہوں، لیکن مشرف صاحب فرماتے ہیں کہ پاکستان کا آپ سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔
مشرف کی طرف سے بلوچستان میں فوجی طاقت کے استعمال سے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی پوزیشن کمزور ہوگئی تھی۔ گیلانی صاحب، بلوچ بھائیوں کے ساتھ مذاکرات کے حامی تھے۔ وہ جو بھی کہتے اور کرتے تھے اُس میں پاکستان کے مفاد کو مقدم رکھتے تھے اور پاکستان کے طاقت ور حکمرانوں کی ناراضی کو بالکل خاطر میںنہیںلاتے تھے۔ اُن کی اسی حق گوئی کے باعث حریت کانفرنس میں گروپ بندی کرادی گئی۔
وہ ایک طرف بھارتی حکمرانوں کے عتاب کا نشانہ تھے تو دوسری طرف جنرل مشرف کی حکومت اُن سے ناراض تھی، لیکن اُنھوں نے مشرف کی ناراضی کو پاکستان سے اپنی محبت پر اثرانداز نہیںہونے دیا۔ کچھ عرصے کے بعد اُنھوںنے میر واعظ عمر فاروق اور یاسین ملک کے ساتھ مل کر کشمیری قیادت کو متحد کردیا۔ اس اتحاد سے گھبراکر بھارتی حکومت نے اُن سمیت کئی کشمیری رہنمائوں کو پھر نظر بند کردیا۔گیلانی صاحب کی قید وبند ۱۹۶۲ ء میں شروع ہوئی اور ۲۰۲۱ء میں اُن کی وفات کے بعد اُن کے جسد خاکی کو بھی اطمینان سے دفنانے نہ دیا گیا۔
فروری ۲۰۲۱ء میں پاکستان اور بھارت نے کنٹرول لائن پہ کمانڈروں کی سطح پر سیز فائر کا اعلان کیا، تو گیلانی صاحب نے پاکستان میں عمران خان کی حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے ایک بیان جاری کیا اور کہا کہ ’’جس معاہدے سے قبل کشمیری قیادت کو نہ پوچھا جائے وہ دیر پا ثابت نہیں ہوگا۔ انڈیا کے حکمرانوں کی طرف سے یہ قدم محض اپنے اُوپر دبائو کم کرنے کے لیے ایک ہتھکنڈے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔اس لیے پاکستان کو ایسے نمایشی اقدامات میں پھنسنے سے اجتناب کرنا چاہیے، اور عالمی سطح پر کشمیریوں کے تسلیم شدہ حق خود ارادیت کے لیے ہی ثابت قدمی کا ثبوت دینا چاہیے‘‘___گیلانی صاحب دنیا سے چلے گئے اور وہ مقتدر حضرات جنھوں نے بھارت کے ساتھ سیزفائر کیا تھا، آج پاکستان کے خلاف بھارت کی سازشوں پر چیخ پکار کررہے ہیں اورگیلانی صاحب ایک دفعہ پھر سچے ثابت ہوگئے۔
علی گیلانی صاحب کی محبت پاکستان اور پاکستان کے لوگوں سے تھی۔وہ پاکستان کے حکمرانوں سے ڈکٹیشن نہیںلیتے تھے کہ ڈکٹیشن لینے والے حریت پسند نہیں ہوتے بلکہ غلامی پسند ہوتے ہیں۔ کشمیریوں پر آج ایک مشکل وقت ہے۔یہ مشکل وقت ان شاء اللہ ایک دن ختم ہوجائے گااور مؤرخ لکھے گا کہ ایک مرد قلندر سید علی شاہ گیلانی ؒ تھا، جو آخری وقت تک دشمن کی سازشوں کا مقابلہ کرتا رہا۔
گیلانی ؒصاحب کو زیادہ تکلیف اپنے دشمنوں کی سازشوں سے نہیں تھی بلکہ زیادہ تکلیف اپنوں کی سازشوں سے تھی۔ اُنھوں نے پاکستان کی محبت اور تحریک آزادی کے مفاد میں اس موضوع پر اپنی زبان نہیں کھولی، لیکن تاریخ خاموش نہیںرہے گی۔
میںبڑی عاجزی سے اُن سب افراد سے گزارش کرتا ہوں، جنھوں نے آخری دنوں میں گیلانی صاحب کو دُکھ پہنچائے، کہ وہ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لیں اور ممکن ہوتو اپنی غلطیوں کا کھل کر اعتراف کرلیں۔آج نہیں تو کل، سیّدعلی گیلانی صاحب کو دُکھ دینے والے بے نقاب ہوجائیں گے۔گیلانی صاحب کو تاریخ سرخرو کرے گی اور اُنھیں دُکھ دینے والوں کے پاس ندامت کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔(خصوسی تحریر کشمیر الیوم ،اکتوبر ۲۰۲۱ء)
یہ ایک چشم کشا مضمون ہے۔ چین کی سفارت کاری سے سعودی عرب اور ایران میں بحالی تعلقات کی جو خوش آیند کیفیت پیدا ہوئی ہے، امریکا اور اسرائیل اسے بے اثر بناکر شرق اوسط میں بے اطمینانی کا ایک نیا کھیل کھیلنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک بڑا خطرناک کھیل ہے، جس کا مسلم دُنیا کی حکومتی، ریاستی، صحافتی اور دانش ور قوتوں کو بروقت نوٹس لینا چاہیے۔ امریکی سفارتی جارحیت کا راستہ روک کر، چین کی پہل قدمی سے شرق اوسط جس سمت بڑھ سکتا ہے، اس کی تائید کے لیے ہمہ پہلو کوششیں کرنی چاہئیں۔ پاکستانی وزارتِ خارجہ کو اس پر ضروری مشاورت اور اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔ تحریک اسلامی پر لازم ہے ان موضوعات پر عوامی دبائو کو مؤثر بنائے۔(مدیر)
جہاں ایک طرف ایران اور سعودی عرب کے درمیان تاریخی معاہدہ امریکا کی بائیڈن حکومت کے لیے زبردست دھچکا ثابت ہوا ہے، وہیں اس میں موجودہ امریکی حکومت کے لیے کئی مشکلات بھی پوشیدہ ہیں۔ ایران و سعودی عرب کی صلح نے مشرق وسطیٰ میں امریکا کے کئی علاقائی اہداف خطرے میں ڈال دیئے ہیں۔ مثلاً طویل عرصے سے ایران کو تنہا کرنے اور سعودی عرب واسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات قائم کرنے کی امریکی امیدوں پر پانی پھر چکا ہے۔ اس معاہدے پر ثالثی کا کردار ادا کر کے چین نے مشرق وسطیٰ میں ایک اہم طاقت کے طور پر اپنی حیثیت مستحکم کر لی ہے۔ اب اس معاہدے نے مقامی ریاستوں کے تعلقات کو یکسر تبدیل کر کے خطے کی سفارتی ہیئت پر اثر ڈالنا شروع کیا ہے، تو امریکا کے لیے اپنی بے چینی چھپانا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔
بائیڈن حکومت اب خطے میں چینی اثر کو کم اور اپنی ساکھ کو بحال کرنے کی کوششیں کر رہی ہے۔ صدر بائیڈن نے تصدیق کی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے لیے سعودی عرب کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔ ۲۸ جولائی کو اپنی اگلی انتخابی مہم کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کی غرض سے منعقدہ ایک دعوت سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا: ’’صلح کا امکان موجود ہے‘‘، البتہ انھوں نے اس سے زیادہ معلومات فراہم کرنے سے گریز کیا۔ تاہم، اس بارے میں ایک دن قبل نیویارک ٹائمز میں شائع شدہ ایک مضمون میں تھامس فرائیڈمین نے کچھ معلومات فراہم کی ہیں، جنھوں نے گذشتہ ہفتے بائیڈن کا انٹرویو کیا تھا۔ ان کا کہنا ہے: ’’بائیڈن حکومت شرق اوسط میں ایک ’بڑی سودے بازی‘ پر کام کر رہی ہے۔ اس معاہدے کے تحت سعودیہ کے تعلقات اسرائیل سے قائم کروائے جائیں گے اور بدلے میں دونوں ممالک کو امریکا سے ایک دفاعی معاہدہ حاصل ہو گا۔ سعودیہ، مغربی کنارے کے فلسطینیوں کے لیے ایک بڑے امدادی پیکج کا اعلان کرے گا اور چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو محدود کر لے گا۔ جس کے بدلے میں اسرائیل مغربی کنارے پر قبضے کا منصوبہ ترک کر دے گا، وہاں آبادکاری کا عمل روک کر مسئلے کے دوریاستی حل پر راضی ہوجائے گا۔ اس کے ردعمل میں فلسطینی انتظامیہ ’سعودی-اسرائیل معاہدے‘ کی توثیق کرے گی‘‘۔
حال ہی میں ایک اعلیٰ سطحی امریکی وفد نے ولی عہدمحمد بن سلمان سے ملاقات میں ظاہر کیا ہے کہ امریکی خطے میں ایسے معاہدے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ وایٹ ہائوس کے نمایندے نے یہ کہا کہ ۲۷ جولائی کو سعودی رہنماؤں کی امریکا کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان اور نمایندہ برائے مشرق وسطیٰ بریٹ مکگرک کے ساتھ ملاقات میں اسرائیل کے ساتھ صلح پر بات چیت ہوئی ہے۔ تاہم، دونوں طرف سے جاری ہونے والے سرکاری بیانات میں اس کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔
اگرچہ ابھی کوئی ٹھوس پیش قدمی تو نہیں ہوئی ہے، لیکن مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی صدر کے پیش نظر معاہدے پر کئی قسم کے سوالات پیدا ہوئے ہیں۔ وایٹ ہائوس کی جانب سے اس قسم کے معاہدوں کے لیے اب کوششیں کیوں کی جا رہی ہیں؟ اس کے مقاصد کیا ہیں؟ ان کوششوں کی کامیابی کے امکانات کس قدر ہیں؟ اگر اس قسم کا معاہدہ ہو بھی جاتا ہے، تو کیااس پر عمل ہوپائے گا؟
ہم پہلے موقع محل کی بات کرتے ہیں۔ واشنگٹن بہت عرصے سے سعودی عرب اور اسرائیل تعلقات کی استواری کے لیے کوشش کر رہا ہے۔ ۲۰۲۰ء میں ’ابراہیمی معاہدوں‘ کے تحت کئی عرب ریاستوں کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات استوار ہونے کے بعد ان کوششوں میں بھی تیزی آ چکی ہے۔ خبروں کے مطابق سعودیہ کی جانب سے بدلے میں کئی اہم مطالبات کیےگئے ہیں، مثلاً امریکا کے ساتھ ایک دفاعی معاہدہ، ایک غیر عسکری نیوکلیئر معاہدہ، میزائیل ڈیفنس سسٹم اور دیگر جدید آلات، اور فلسطینیوں کے لیے اسرائیل سے کئی قسم کی رعایتیں۔ حالیہ ایران سعودی صلح نے یقیناً سعودیہ کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کو متاثر کیا ہے، مگر دوسری جانب اس سودے بازی میں سعودی عرب کی پوزیشن مزید بہتر بھی ہو گئی ہے۔ لیکن اس معاہدے کے بعد امریکی کوششوں میں بھی تیزی آ گئی ہے اور اب امریکا خطے میں اپنا کھویا ہوا اثر و رسوخ بحال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
اس سال کے اختتام تک امریکی صدارتی انتخابی سرگرمیاں شروع ہو جائیں گی۔ اس صورت میں امریکی توجہ اندرونی سیاست کی جانب مرکوز ہو جائے گی۔ صدر بائیڈن نے اس معاملے کا ذکر بھی انتخابات سے متعلق ایک تقریب میں کیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہ اس کے ذریعے اپنی اندرونی سیاست میں بھی کچھ فوائد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ معاہدہ اس لیے بھی اہم ہوگا کہ آیندہ انتخابات میں صدر بائیڈن کے پاس اپنی خارجہ پالیسی کے حق میںاس معاہدے کے علاوہ دکھانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ ان انتخابات میں صدر بائیڈن کو اپنی فتح کے امکانات بہتر کرنے کے لیے ہر قسم کی مدد درکار ہے۔ لیکن اسی تناظر میں دیکھا جائے تو ان کی یہ کوششیں ذرا تاخیر کا شکار دکھائی دیتی ہیں، کیونکہ اس قسم کے پیچیدہ اور پہلو دار معاہدے کے لیے طویل مذاکرات درکار ہوں گے۔ مزید برآں اگر کوئی معاہدہ ہو بھی جائے، تو بائیڈن کی صدارت خطرے سے دوچار ہے۔
اس معاہدے سے حاصل ہونے والے اہداف بڑے واضح ہیں: خطے میں امریکی بالادستی کی بحالی، چین کی سفارتی و معاشی کامیابیوں کا تدارک، امریکی و اسرائیلی مفادات کے حق میں علاقائی سیاست کی تنظیم نو۔ اس سب کے ساتھ اگر مغربی کنارے کے فلسطینیوں کو کچھ چھوٹ مل جائے تو اس میں بھی امریکی فائدہ ہے۔ اس سے عرب اور دیگر مسلم ریاستوں میں واشنگٹن کے لیے مثبت جذبات پیدا ہوں گے، چاہے حتمی اور نقد فائدہ اسرائیل کو ہی پہنچے!
ایسی سفارتی کامیابی کے امکانات کم ہیں کیونکہ چار فریقین (امریکا، اسرائیل، سعودی عرب اور فلسطین) کے درمیان مذاکرات کی راہ میں کئی مشکلات حائل ہیں۔ حال ہی میں امریکا نے مشرق وسطیٰ میں اپنی عسکری موجودگی بڑھانے کا اعلان کیا ہے، جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ واشنگٹن یہاں اپنا رسوخ بڑھانے میں سنجیدہ ہے۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب فریقین امریکا اور معاہدے میں مذکور شرائط اور رعایتوں پر عمل درآمد کروانے کی اس کی صلاحیت پر اعتبار کرسکتے ہیں؟ یہ سوال جواب طلب ہے اور یہ دیکھتے ہوئےکہ امریکا میں صدارتی انتخابات کی آمد آمد ہے، جواب کاملنا مزید مشکل ہو جاتا ہے۔ قیاس ہے کہ کوئی بھی حتمی معاہدہ کرنے سے قبل سعودی و اسرائیلی حکومتیں، امریکی انتخابات کے نتائج کا انتظار کریں گی۔ گذشتہ برسوں میں دونوں ریاستوں کے بائیڈن حکومت کے ساتھ تعلقات تناؤ کا شکار رہے ہیں۔
بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین امریکی انتظامیہ کے اس مجوزہ معاہدے کو ایک ’ناقابل عمل‘ منصوبہ اور دورازکار سمجھتے ہیں،جب کہ فرائیڈمین نے اسے ایک دور کی کوڑی قرار دیا ہے۔ ان مذاکرات کو وسعت دینے کے لیے سعودیوں، اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کو بنیادی قسم کے سمجھوتے کرنے ہوں گے۔ کیا امریکا اب بھی ان ریاستوں پر اس قدر رسوخ رکھتا ہے کہ انھیں سمجھوتوں پر مجبور کر سکے؟ اس سوال کا جواب واضح نہیں ہے۔ اسرائیل میں قومی سلامتی کے مشیر کا کہنا ہے کہ اس قسم کے معاہدے کے لیے ابھی طویل سفر طے کرنا ہو گا، جب کہ انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے حکومتی وزرا نے فلسطینیوں کو کسی قسم کی رعایت دینے کی مخالفت کی ہے۔ اس سب کے علاوہ ایک مسئلہ امریکی کانگریس کی منظوری کا ہے جہاں ری پبلکن اراکین سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدے کے لیے آسانی سے راضی نہیں ہوں گے، جب کہ ڈیموکریٹ اراکین کو کسی ایسے حل کے لیے مطمئن کرنا مشکل ہو گا جو دو ریاستی فارمولے سے متصادم ہو یا فلسطینیوں کے حقوق کو پامال کرتا ہو۔
ان تمام مشکلات کو دیکھتے ہوئے اس قسم کے معاہدے کے لیے امکانات کافی کم ہیں۔ تاہم، آخر کار سفارت کاری بھی سیاست کی طرح ناممکن کو ممکن کر دکھانے کا نام ہے!
(بشکریہ روزنامہ ڈان، ترجمہ:اطہر رسول حیدر)
وزیر اعظم نریندر مودی حکومت نے ۵؍اگست ۲۰۱۹ء میں جموں و کشمیر کی آئینی خود مختاری ختم اور ریاست کو تحلیل کرکے مرکز کے زیر انتظام دو علاقے بنانے کا جو قدم اُٹھایا تھا،اس کے خلاف دائر کی گئی درخواستوں پر فی الوقت بھارتی سپریم کورٹ روزانہ سماعت کر رہی ہے۔ پیر اور جمعہ چھوڑ کر ہفتے کے بقیہ تین دنوں میں سپریم کورٹ کا پانچ رکنی آئینی بینچ صرف اسی مقدمے کی سماعت کر رہا ہے۔ ۲؍اگست ۲۰۲۳ء کو جب سماعت شروع ہوئی، تو چیف جسٹس ، جسٹس دھنن جے یشونت چندرا چوڑ نے اعلان کیا کہ ’’اس ایشو پر کُل ۶۰گھنٹے کی سماعت ہوگی‘‘۔ اس لیے اگست کے آخر تک سماعت مکمل ہونے کا امکان ہے۔
اس مقدمے کا فیصلہ جو بھی ہو ، مگر وکیلوں کے دلائل، ججوں کے سوالات اور کورٹ میں جمع کرایا گیا تحریری مواد ، کشمیر کے موضوع سے دلچسپی رکھنے والوں کے علاوہ قانون و سیاست کے کسی بھی طالب علم کے لیے ایک بڑ ا خزانہ ہے۔ عدالت میں۱۳ہزار ۵ سو ۱۵ صفحات پر مشتمل دستاویزات کے علاوہ ۲۸جلدوں پر مشتمل ۱۶ ہزار ایک سو۱۱ صفحات پر مشتمل کیس فائلز دائر کی گئی ہیں۔ کئی شہرۂ آفاق کتابیں Oxford Constitutional Theory, The Federal Contract اور The Transfer of Power by V P Menonکی جلدیں بھی کورٹ کے سپرد کردی گئی ہیں اور وکلا دلائل کے دوران ان کے نظائر اور شواہد پیش کر رہے ہیں۔ لیکن جس کتاب کے حوالوں کو سب سے زیادہ عدالت اور وکلا نے سوالات یا دلائل کے دوران استعمال کیا ہے وہ شہرۂ آفاق مصنف اے جی نورانی کی مدلل کتاب: Article 370: Constitutional History of Jammu and Kashmir ہے۔ بطور ایک ریسرچر کے اس کتاب میں تحقیقی معاونت سے منسلک ہونے کا مجھے اعزاز حاصل ہے۔
معروف وکیل کپل سبل نے ۲؍اگست کو بحث کا آغاز کرتے ہوئے ججوں کو یاد دلایا: ’’ یہ ایک تاریخی لمحہ ہے۔ تاہم، اس کیس کی سماعت کا آغاز کرنے میں عدالت کو پانچ سال لگے۔ یہ اس لیے بھی تاریخی ہے کہ پچھلے پانچ برسوں کے دوران میں، جموں و کشمیر میںکوئی نمایندہ حکومت نہیں ہے‘‘۔ اس کے بعد کپل سبل نے ترتیب زمانی کے ساتھ تاریخوں کی ایک فہرست پڑھی، جس میں ان عوامل کی نشاندہی کی گئی کہ جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ کیوں دیا گیا تھا؟ انھوں نے کہا: ’’کشمیر کے لیے ایک علیحدہ ستور ساز اسمبلی تشکیل دی گئی تھی۔ پارلیمنٹ خود کو دستور سا ز اسمبلی میں تبدیل نہیں کرسکتی۔ جب ایک بار آئین منظور ہو جاتا ہے، تو ہر ادارہ اس پر عمل کرنے کا پابند ہوتا ہے۔
۱۸۴۶ء کے ’معاہدۂ امرتسر‘ سے لے کر ۱۹۴۷ء کی ’دستاویزالحاق‘ کی شقوں کو بنیاد بنا کر کپل سبل نے تقریباً ڈھائی دن تک بحث کی۔ انھوں نے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا وہ خط بھی پڑھا، جس میں انھوں نے الحاق کے سوال کو عوامی رائے کے ذریعے طے کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ان دستاویزات کے مطابق، بھارت کی دیگر ریاستوں کے لیے وفاق کے پاس جو اختیارات ہیں، ان کے برعکس ،بقیہ اختیارات جموں و کشمیر ریاست کے پاس ہی ہیں۔ انھوں نے مزید کہا:میرا نکتہ یہ ہے کہ، حکومت ہند اور ریاست کے درمیان ایک مفاہمت تھی کہ ان کی ایک آئین ساز اسمبلی ہوگی جو مستقبل کے لائحہ عمل کا تعین کرے گی‘‘۔
کپل سبل نے کہا: اس لیے آرٹیکل ۳۷۰ ایک عارضی انتظام تھا، کیونکہ یہ جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کو طے کرنا تھا کہ وہ اس کو مستقل بنیادوں پر رکھنا چاہتی ہے یا منسوخ کرنا چاہتی ہے؟ اس دوران چیف جسٹس نے بار بار پوچھا کہ ’’آئین ساز اسمبلی تو سات سال کی مدت ختم کرنے کے بعد اس دفعہ پر کوئی فیصلہ کرنے سے قبل ہی تحلیل ہوگئی ، تو ا ب اس دفعہ کی ترمیم وغیرہ کے لیے کیا طریقۂ کار ہے؟‘‘ سبل نے استدلال پیش کیا کہ ’’چونکہ جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کا وجود ختم ہو گیا ہے، اس لیے آرٹیکل ۳۷۰ کو منسوخ نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا، آرٹیکل ۳۷۰ کی شق (۳) ناقابل اطلاق ہو جاتی ہے‘‘۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ’’ اگر سبل کی طرف سے پیش کردہ استدلال کو مدنظر رکھا جائے تو آرٹیکل ۳۷۰، جو کہ ایک 'عبوری پروویژن ہے، مستقل پوزیشن کا کردار ادا کرتا ہے کیونکہ اب کوئی آئین ساز اسمبلی موجود نہیں ہے‘‘۔ جسٹس کانت نے یہ بھی استفسار کیا کہ آرٹیکل ۳۷۰ کو کیسے عارضی سمجھا جا سکتا ہے جب یہ دلیل دی جاتی ہے کہ اس دفعہ کو کبھی منسوخ نہیں کیا جا سکتا؟‘‘ جسٹس کھنہ کے مطابق: ’’جس مسئلے پر توجہ دینا باقی ہے وہ یہ ہے کہ کیا آرٹیکل ۳۷۰ کی عارضی نوعیت، جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کی موروثی عارضی نوعیت سے ہم آہنگ ہے؟یعنی، ایک بار جب جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کا وجود ختم ہو گیا، کیا آرٹیکل ۳۷۰ کی شق (۳)، جو آرٹیکل ۳۷۰ کو منسوخ کرنے کی اجازت دیتی ہے، ناقابل عمل بن جاتی ہے؟‘‘
بحث کے دوسرے د ن کپل سبل نے عدالت کو بتایا:’’ آرٹیکل ۳۷۰(۱) کی شق (b )(i) بھارتی پارلیمنٹ کے وفاق کے تحت جموں و کشمیر کے لیے قانون بنانے کے اختیارات کو محدود کرتی ہے اور بھارتی آئین کے ساتویں شیڈول کی کنکرنٹ لسٹوں میں الحاق کی دستاویز میں مذکور مضامین کے سلسلے میں جموں و کشمیر حکومت کی ’مشاورت‘ کا لفظ درج ہے۔ دوسری طرف، آرٹیکل ۳۷۰(۱) کی شق (b) (ii)، پارلیمنٹ کو یونین کے تحت جموں و کشمیر کے لیے قانون بنانے کے اختیار میں توسیع کرتی ہے اور آئین کے ساتویں شیڈول کی کنکرنٹ لسٹیں معاملات کا احترام کرتی ہیں۔
اس سماعت کے آغاز میں، چیف جسٹس نے آرٹیکل ۳۷۰ پر چند مشاہدات پیش کیے: آرٹیکل ۳۷۰(۱) کی شق (b) پارلیمنٹ کو ریاست جموں و کشمیر کے لیے قانون بنانے کا اختیار نہیں دیتی۔ یعنی قانون بنانے کااختیار آرٹیکل ۳۷۰(۱)کے علاوہ کہیں اور ہے۔اس بحث میں حصہ لیتے ہوئے جسٹس کول نے کہا کہ آرٹیکل ۳۷۰(۱) کی شق (b) ایک محدود شق ہے۔ مزید یہ کہ آرٹیکل ۳۷۰(1) کی شق (b) (i) کے تحت جموں و کشمیر کے لیے قانون بنانے کی بھارتی پارلیمنٹ کی طاقت دو چیزوں پر محدود ہے۔سب سے پہلے، پارلیمنٹ کا دائرہ جموں و کشمیر پر لاگو قوانین بنانے کا اختیار صرف 'یونین اور کنکرنٹ لسٹ کے معاملات تک محدود ہے۔دوسرا، حکومت جموں و کشمیرکے ساتھ مشاورت یونین اور کنکرنٹ لسٹوں میں ایک شرط ہے جو دستاویز الحاق کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔ یعنی جموں و کشمیر سے متعلق کسی بھی معاملے میں ریاستی حکومت کی آمادگی اور رائے کی ضرورت ہے۔
دوسرا، یہاں تک کہ اگر صدر کوئی استثنیٰ اور ترمیم نہیں کر رہے ہیں، لیکن ہندستانی آئین کی کچھ شقوں کو جموں و کشمیر پر لاگو کیا جا رہا ہے، تب بھی جموں و کشمیر حکومت کی مشاورت یا 'اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ جسٹس کول نے یہ مسئلہ بھی اٹھایا کہ اگر دفعہ ۳۷۰ کا کوئی مستقل کردار نہیں ہے، تو پھر اس کو کس طریقے سے ختم کیا جا سکتا ہے اور کیا جو طریقۂ کار اپنایا گیا، وہ درست تھا؟‘‘
سبل کی دلیل تھی کہ آرٹیکل ۳۷۰ مختلف مراحل سے گزرا ہے۔ اس کا آغاز ایک عبوری انتظام کے طور پر ہوا، جس میں جموں و کشمیر میں ایک دستور ساز اسمبلی تشکیل کرنے کی سہولت فراہم کی گئی تھی۔ جب ایک بار جموں و کشمیر کی دستور ساز اسمبلی نے جموں و کشمیر کا ایک آئین بنا کر اپنا مقصد پورا کر لیا، جس میں ہندستانی آئین کے آرٹیکل ۳۷۰ کی توثیق کرنے والی مخصوص اور واضح دفعات موجود تھیں ، اس کے تحلیل ہونے کے بعد آرٹیکل ۳۷۰'منجمدہو گیا۔اس طرح اس دفعہ کے مستقل کردار کو قبول کیا گیا۔ اس کے بعد، سبل نے عرض کیا کہ جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کےپاس ہندستانی آئین کے آرٹیکل ۳۷۰ کی شق (۳) کے تحت جموں و کشمیر کو دیے گئے اختیارات کو منسوخ کرنے کا اختیار نہیں ہے، کیونکہ اس طرح کے اختیارات کو منسوخ کرنے کا اختیار صرف آئین ساز اسمبلی کو دیا گیا تھا۔
جب جسٹس کول نے پوچھا کہ کیا ہندستانی پارلیمنٹ کے پاس ایسا کرنے کا اختیار ہے، تو سبل نے جواب دیا کہ یہ طے شدہ قانون ہے کہ قانون ساز ادارہ کسی ایسے اختیارپر مداخلت نہیں کرسکتا، جو پہلے اس کے پاس نہیں تھا، جیسا کہ سپریم کورٹ نے ایس آر بومائی بمقابلہ میں مشاہدہ کیا تھا۔اب سوال یہ تھا کہ کیا پارلیمنٹ آئین ساز اسمبلی کا کردار ادا کرسکتی ہے؟ اس پر چیف جسٹس نے خود ہی کہا کہ جب پارلیمنٹ آئین میں ترمیم کرتی ہے، تب بھی وہ آئین ساز اسمبلی کے اختیارات کا استعمال نہیں کر رہی ہوتی، بلکہ ایک جزوی طاقت کا استعمال کرتی ہے۔ جسٹس چندر چوڑ نے استدلال دیاکہ پارلیمنٹ اور آئین ساز اسمبلی دوالگ الگ ادارے ہیں اور پارلیمنٹ کے لیے خود کو آئین ساز اسمبلی میں تبدیل کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
سماعت کے تیسرے دن سبل نے عدالت کو بتایا: جموں و کشمیر کے گورنر ، جو خود ہی وفاق کا نمایندہ ہے کے ذریعے خصوصی حیثیت کو چھین لیا گیا اور بتایا گیا کہ ریاست کے ساتھ مشاورت کی گئی ہے۔ جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعظم شیخ عبداللہ کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے، سبل نے نشاندہی کی کہ اگرچہ آرٹیکل ۳۷۰ کو ایک عارضی شق قرار دیا جاتا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دفعہ ۳۷۰ کو 'یک طرفہ طور پر منسوخ، ترمیم یا تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ ۱۱؍ اگست ۱۹۵۲ء کی تقریر میں شیخ عبداللہ نے کہا تھا کہ آرٹیکل ۳۷۰ کی عارضی نوعیت جموں و کشمیر اور یونین آف انڈیا کے درمیان آئینی تعلقات کو حتمی شکل دینے کے پہلو میں ہے، جس کا اختیار خاص طور پر جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کے پاس ہے۔ ہندستان کے آئین نے یونین کے اختیارات کے دائرہ کار اور دائرہ اختیار کو الحاق کی شرائط کے ذریعے محدود کر دیا ہے ۔شیخ عبداللہ نے کہا کہ آرٹیکل ۳۷۰ ہندستان کے ساتھ ہمارے تعلقات کی بنیاد ہے۔ اس میں چھیڑ چھاڑ ، ہماری ریاست کی ہندستان کے ساتھ وابستگی پر اثر انداز ہو سکتی ہے اور اس کے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ یہ بھی شیخ عبداللہ نے کہا کہ یہ دو حکومتوں کے درمیان معاہدے کی طرح ہے۔
سبل نے دلیل دی کہ دونوں خودمختارریاستوں یا مملکتوں کے ذریعے طے شدہ اور دستخط شدہ معاہدے کی ایک توقیر ہوتی ہے اور اس کو ختم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو جو کچھ ہوا، وہ ایک صدارتی حکم کے تحت کیا گیا۔ اس صدارتی آرڈرکے جاری ہونے سے پہلے راجیہ سبھا میں ایک قرارداد پیش کی گئی تھی، جس کے ذریعے جموں و کشمیر کی تنظیم نو کرکے اس کو دولخت کردیا گیا، جب کہ ضابطے میںیہ طے ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کے نام یا حدود کو تبدیل کرنے والا کوئی بل ریاستی مقننہ کی رضامندی کے بغیر پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ گورنر ایک 'مکمل اتھارٹی نہیں ہے بلکہ ایک آئینی مندوب ہے۔سبل نے سوال کیا: اگر صدر مرکزی کابینہ کی مدد اور مشورے کے بغیر پارلیمنٹ کو تحلیل نہیں کر سکتے تو گورنر اس اختیار کا استعمال کیسے کر سکتا ہے؟سبل نے اپنی گذارشات کو یہ کہتے ہوئے ختم کیا:جموں و کشمیر کے لوگوں کی آواز کہاں ہے؟ کہاں ہے نمایندہ جمہوریت کی آواز؟ پانچ سال گزر چکے ہیں ۔ انھوں نے دوبارہ کہا کہ عدالت اس وقت تاریخ کے ایک کٹہرے میں ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ عدالت خاموش نہیں رہے گی بلکہ عدل و انصاف کی گواہی دے گی۔
سبل کی تقریباً تین دن تک محیط اس بحث کے بعد سینیر وکیل گوپال سبرامنیم نے دلائل کا آغاز کیا۔ انھوں نے اس سے بحث شروع کی کہ بھارتی آئین کی طرح ، جموں و کشمیر کا بھی اپنا آئین ہے ، جو ۱۹۵۷ءمیں آئین ساز اسمبلی نے تشکیل دیا۔ انھوں نے کہا کہ دفعہ ۳۷۰کے ذریعے دونوں آئین ایک دوسرے سے مطابقت پیدا کرتے ہیں۔ سبرامنیم نے دوسرا نکتہ یہ پیش کیا کہ موجودہ کیس میں، عدالت کا تعلق صرف ایک نہیں بلکہ دو آئین ساز اسمبلیوں کے مینڈیٹ سے ہے، یعنی ہندستان کی دستور ساز اسمبلی اور جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی۔سبرامنیم نے آئین سے متعلق ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کی تعارفی تقریر کا حوالہ دیا، جس میں کہا گیا ہے کہ ہندستانی آئین کا وفاقی ڈھانچا ریاست میں لوگوں کو خصوصی حقوق اور مراعات دینے کی اجازت دیتا ہے۔
سبرامنیم نے کہا کہ عدالت کو اس حقیقت کو دھیان میں رکھنا چاہیے کہ ’’جموں و کشمیر کسی دوسری ریاست کی طرح نہیں تھا‘‘۔انھوں نے اس دلیل کو یہ بتاتے ہوئے واضح کیا کہ دیگر راجواڑوں کے برعکس، جموں و کشمیر کا اپنا ۱۹۳۹ء کا آئین تھا، یہاں تک کہ ہندستان کے تسلط کے ساتھ الحاق کے معاہدے پر دستخط کرنے سے پہلے بھی وہاں ایک پرجا پریشد تھی۔ انھوں نے جموں و کشمیر کی دستور ساز اسمبلی کے مباحثوں کی اہمیت پر زور دیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ یہ جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی تھی جس نے آرٹیکل ۳۷۰(۱)(d) کے تحت ہندستان کو ۱۹۵۰، ۱۹۵۲ء اور ۱۹۵۴ء کے صدارتی احکامات کے ذریعے جموں و کشمیر پر ہندستانی آئین کے اطلاق کے سلسلے میں کچھ مستثنیات کو لاگو کرنے کی دعوت دی۔
سبرامنیم نے کہا کہ ہندستان ان صدارتی احکامات کی پابندی کرنے پر راضی ہے۔ واضح رہے کہ ۱۹۵۴ء کے صدارتی حکم نامے کی، جس نے پہلے کے احکامات کی جگہ لے لی تھی، بالآخر جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی نے توثیق کی۔ اس طرح جموں و کشمیر کی دستور ساز اسمبلی نے ایک رسمی قرارداد منظور کی جس میں کہا گیا کہ ہندستان کو ۱۹۵۴ء کے صدارتی حکم کی پابندی کرنی چاہیے اور اسے آرٹیکل ۳۷۰ کی شق (۱) اور شق (۳) کے ساتھ جاری رہنا چاہیے۔ اس دوران سبرامنیم نے خود سپریم کورٹ کے ہی پچھلے فیصلوں کا حوالہ دیا۔ انھوں نے کہا کہ اگر آرٹیکل ۳۷۰ کو منسوخ کرنا جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کا مینڈیٹ نہیں تھا اور ریاستی مقننہ کے ذریعے منسوخی کا اختیار کبھی بھی استعمال نہیں کیا جاسکتا ہے، تو ایسا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ وفاق یا پارلیمنٹ خود کو ریاست کی آئین ساز اسمبلی میں تبدیل کرکے اس دفعہ کو منسوخ کرادے۔
سبرامنیم ، جو لندن سے آن لائن دلائل دے رہے تھے، ان د س گھنٹے کی بحث کے بعد پوڈیم جموں و کشمیر کے معروف وکیل ظفر شاہ نے سنبھالا۔ انھوں نے وضاحت کی کہ آرٹیکل ۳۷۰ نے جموں و کشمیر کے آخری ڈوگرہ مہاراجا، مہاراجا ہری سنگھ کے ذر یعے دستاویز الحاق میں درج اختیارات کو برقرار رکھا۔انھوں نے کہا کہ مہاراجا نے جموں و کشمیر کا ہندستان کے ساتھ الحاق کیا تھا مگر انضمام کا کوئی معاہدہ عمل میں نہیں آیا تھا۔انھوں نے الحاق اور انضمام کی تشریح کی۔ شاہ نے کہا کہ چونکہ انضمام کے کسی معاہدے پر دستخط نہیں ہوئے تھے، جموں و کشمیر نے اپنی آئینی خودمختاری کو برقرار رکھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ قانون بنانے کے بقایا اختیارات کے ذریعے ہی ریاست نے اپنی خودمختاری کا استعمال کیا۔آرٹیکل ۳۷۰(۱) کے حوالے سے، انھوں نے کہا کہ یہ شق ہندستانی آئین کے ساتویں شیڈول کے تحت تین فہرستوں کے قوانین کے اطلاق کے بارے میں بات کرتی ہے جو جموں و کشمیر پر لاگو ہوگی۔ظفر شاہ نے واضح کیا کہ چونکہ جموں و کشمیر کے لیے تین موضوعات یعنی دفاع، خارجی امور اور مواصلات پر قانون بنانے کے لیے ہندستان کو پہلے ہی مکمل اختیارات دیے گئے تھے، اس لیے آرٹیکل ۳۷۰(۱)(i) لفظ ’مشاورت‘ کا استعمال کرتا ہے۔اس موقع پر، شاہ نے یہ بھی نشاندہی کی کہ آرٹیکل ۳۷۰(۱)(ii) یا ۳۷۰(۱)(d) میں استعمال ہونے والے اظہار ’اتفاق‘ کا مطلب ہے کہ دونوں فریقوں کو متفق ہونا پڑے گا۔انھوں نے کہا کہ انسٹرومنٹ آف ایکشن کے تحت متعین کیے گئے ہندستانی قوانین میںیہ واضح ہے کہ دونوں فریقین کا رضامند ہونا ضروری ہے۔
ظفر شاہ نے کہا کہ آرٹیکل ۳۷۰ کے تحت، یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ پارلیمنٹ کوئی یک طرفہ فیصلہ کرے۔ جسٹس کھنہ نے شاہ کی اس بات کا جواب دیتے ہوئے کہ جموں و کشمیر کا ہندستان کے ساتھ انضمام مکمل نہیں ہوا، کہا کہ انضمام کا سوال 'مکمل طور پر یقینی ہے۔انھوں نے ہندستانی آئین کے آرٹیکل (۱) کا حوالہ دیا جس میں لکھا ہے کہ ہندستان ریاستوں کا ایک یونین ہے جو جموں و کشمیر کے آئین کے آرٹیکل ۳ سے مطابقت رکھتا ہے۔کھنہ نے واضح کیا کہ آرٹیکل ۳۷۰ صرف ریاستی مقننہ کو اپنے لیے قانون بنانے کا خصوصی حق دیتا ہے۔جسٹس کھنہ نے ریمارکس دیئے: مجھے مکمل انضمام کے لفظ کے استعمال پر تحفظات ہیں۔ انھوں نے مزید کہا: 'بھارتی آئین کے آرٹیکل(۱) کے لحاظ سے مکمل انضمام ہوا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے جموں و کشمیر کے ذریعے الحاق کے مسودہ پر دستخط کرنے کے بعد انضمام کی بحث ختم ہوتی ہے۔ ظفرشاہ، بنچ کے استدلال سے متفق نہیں ہوسکے۔ انھوں نے اپنے استدلال کو دہرایا کہ خودمختاری دستاویز الحاق کے ذریعے منتقل نہیں کی گئی۔ اسے صرف انضمام کے معاہدے کے ذریعے منتقل کیا جا سکتا ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے نشاندہی کی کہ آج بھی، پارلیمنٹ کے پاس ریاستی فہرست میں اندراجات کے لیے قانون بنانے کے مکمل اختیارات نہیں ہیں لیکن اس سے اس حقیقت پر کوئی اثر نہیں پڑتا کہ بالآخر خودمختاری ہندستان کے پاس ہے۔انھوں نے مزید کہا: 'ایک بار جب ہندستانی آئین کا آرٹیکل (۱) کہتا ہے کہ ہندستان ریاستوں کا ایک یونین ہوگا، جس میں ریاست جموں و کشمیر شامل ہے، خودمختاری کی منتقلی مکمل ہوگئی تھی۔ ہم ہندستانی آئین کو ایک دستاویز کے طور پر نہیں پڑھ سکتے جو آرٹیکل ۳۷۰ کے بعد جموں و کشمیر کو کچھ خودمختاری برقرار رکھے۔اس دلیل کو آگے بڑھاتے ہوئے، چیف جسٹس نے کہا کہ لفظ ’اتفاق‘ کا استعمال جموں و کشمیر کے آئینی حوالہ جات کے لیے منفرد نہیں ہے، ہندستان کے آئین میں ’اتفاق‘ کے بہت سے مختلف شیڈز کی ضرورت ہے۔ چیف جسٹس نے ہندستانی آئین کے آرٹیکل ۲۴۶-اےکی مثال پیش کی، جو گڈز اینڈ سروسز ٹیکس (جی ایس ٹی) کے لیے جواز فراہم کرتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس دفعہ کے تحت پارلیمنٹ ریاستی مقننہ کی منظوری کے بغیر کچھ نہیں کر سکتی۔
ظفرشاہ، جنھوں نے اسی معاملے پر پھر بنچ سے کہا کہ وہ ہندستانی آئین کے آرٹیکل ۲۵۳ جو بین الاقوامی معاہدوں، معاہدوں اور کنونشنز سے متعلق ہے، میں ایک شرط شامل کی گئی، کہ ریاست جموں و کشمیر کے اختیار کو متاثر کرنے والا کوئی فیصلہ ریاست کی حکومت کی رضامندی کے بغیر انڈیا کی حکومت نہیں کرسکتی ہے۔ شاہ نے مزید کہا کہ جموں و کشمیر کی صورت حال کی ایک اندرونی اور ایک بیرونی جہت ہے اور دونوں ایک ساتھ ہندستانی آئین کے آرٹیکل ۳۰۶-اے کے مسودہ میں شامل ہیں جو کہ حتمی فیصلہ تک زیر التوا ہے۔شاہ نے اپنی دلیل کا اختتام بھارت کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی۲۰۰۵ء کی سری نگر کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کیا کہ 'مسئلہ کشمیر کو انسانیت اور جمہوریت کے دائرے میں حل کیا جائے گا۔ شاہ نے امید ظاہر کی کہ عدالت اس بیان کی روشنی میں اپنا فیصلہ صادر کرے گی۔
شاہ کی آٹھ گھنٹے طویل بحث کے بعد ڈاکٹر راجیو دھون نے مختصر بحث میں عدالت کو بتایا کہ بھارت ایک ملک کے بجائے ایک براعظم ہے اور اس کے تنوع کے لیے خود مختاری کے انتظامات کی ضرورت ہے جیسا کہ آئین کے آرٹیکل ۳۷۰ کے تحت جموں و کشمیر میں موجود تھا۔ راجیو دھون نے دلیل دی کہ آئینی اخلاقیات تجویز کرتی ہے کہ اس طرح کے انتظامات کو محفوظ رکھا جانا چاہیے۔انھوں نے نشاندہی کی کہ بحث کے دوران چیف جسٹس نے آرٹیکل ۲۴۹ اور ۲۵۲ کا حوالہ دیا۔انھوں نے ان آرٹیکلز کے حوالے سے بینچ کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات کو بہت اہم قرار دیا اور کہا کہ اس نے درخواست گزاروں کو 'بنیادی ڈھانچا کے خطوط پر بحث کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بینچ نے انضمام کے معاہدوں کی حیثیت سے کئی سوالات اٹھائے ہیں۔ اس پر دھون نے کہا کہ دستاویز الحاق کی رو سے بیرونی خودمختاری ختم ہو جاتی ہے، لیکن اندرونی خودمختاری ختم نہیں ہوتی ہے۔
دھون نے نشاندہی کی کہ مہاراجا ہری سنگھ نے ہندستان کے ساتھ جوں کے توں یعنی اسٹینڈ اسٹل کے معاہدے پر دستخط نہیں کیے تھے۔اس طرح کا معاہدہ مہاراجا نے پاکستان کے ساتھ کیا تھا۔ دھون نے اپنی دلیل کو مضبوط کرنے کے لیے پریم ناتھ عدالتی فیصلہ کا حوالہ دیا کہ آرٹیکل ۳۷۰ اسٹینڈ اسٹل یا انضمام کے معاہدے کا آئینی متبادل ہے۔ انھوں نے کہا کہ دستاویز الحاق کے ذریعے مہاراجا نے اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ جموں و کشمیر ہندستان کے تسلط کا حصہ بن چکا ہے۔ لیکن مہاراجا نے الحاق کے ذریعے اپنی خودمختاری کو منتقل نہیں کیا۔دھون نے نشاندہی کی کہ خودمختاری کی منتقلی کا عمل جزوی طور پر سیاسی وجوہ اور جزوی طور پر آرٹیکل ۳۷۰ کی وجہ سے شروع ہوا۔ انھوں نے آرٹیکل ۳ کے مندرجات کا حوالہ دے کر کہا کہ اس کی رُو سے کسی بھی ریاست کے نام یا حدود کو تبدیل کرنے والا کوئی بل ریاستی مقننہ کی رضامندی کے بغیر پیش نہیں کیا جا سکتا۔
انھوں نے مزید کہا کہ ۱۹۵۴ء (صدارتی حکم CO 48) نے آرٹیکل ۳ میں ایک اور شرط شامل کی، جس میں کہا گیا ہے کہ جموں و کشمیر کے رقبے کو بڑھانے یا کم کرنے یا ریاست کے نام یا حدود کو تبدیل کرنے کا کوئی بل جموں و کشمیر مقننہ کی رضامندی کے بغیر ہندستانی پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ دھون نے سوال کیا کہ ریاستی مقننہ کی مشاورتی طاقت کو پارلیمنٹ کے ساتھ کیسے بدل دیا گیا؟دھون نے ہندستانی آئین کے آٹھویں شیڈول کے ساتھ پڑھے گئے آرٹیکل ۳۴۳ کا بھی حوالہ دیا، جو کشمیری کو ایک زبان کے طور پر تسلیم کرتا ہے۔انھوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ ایک ایگزیکٹو ایکٹ کے ذریعے کشمیری کو بطور زبان نہیں چھینا جا سکتا۔انھوں نے کہا کہ آرٹیکل ۳۵۶ کے تحت صدر کو جو اختیارات دیئے گئے ہیں وہ مکمل نوعیت کے نہیں ہیں۔ اختیارات کا اس حدتک استعمال اور غلط استعمال کیا گیا ہے کہ ان کے استعمال میں کچھ نظم و ضبط لازمی ہے۔ دھون نے متنبہ کیا کہ صدارتی راج کی آڑ میں جموں و کشمیر کے ساتھ جو ہوا وہ کسی اور ریاست کے ساتھ ہوسکتا ہے اگر آرٹیکل ۳۵۶ کے تحت اختیارات پر قدغن نہیں لگائی گئی۔انھوں نے دلیل دی کہ آرٹیکل ۳اور ۴ کے تحت نہ تو صدر اور نہ پارلیمنٹ ہی ریاستی مقننہ کا متبادل ہو سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے دھون سے سوال کیا کہ ’’کیا پارلیمنٹ آرٹیکل ۲۴۶(۲) کے تحت صدر راج کے دوران ریاست کے لیے قانون بنا سکتی ہے؟‘‘اس پر دھون نے جواب دیا: پارلیمنٹ ریاستی فہرست کے تحت قانون بنا سکتی ہے لیکن جب وہ آرٹیکل ۳ کے تحت کوئی قانون پاس کرتی ہے، تو اسے مذکورہ شرائط کی پابندی کرنی ہوگی۔انھوں نے نشاندہی کی کہ جموں و کشمیر میں ایک قانون ساز کونسل بھی تھی جسے آئینی ترمیم کے بغیر ختم نہیں کیا جا سکتا تھا۔ دھون نے کہا کہ آرٹیکل۲۴۴-اے خود مختار ریاستوں کے قیام کا انتظام کرتا ہے۔ یہ ریاستوں کی خود مختاری کو تقویت دیتا ہے جو آرٹیکل ۳۷۰ میں جموں و کشمیر کو دی گئی خود مختاری کے مطابق ہے۔دھون نے کہا کہ آئین کو اخلاقیات کے ساتھ پڑھا جانا چاہیے۔ بھارتی حکومت نے کشمیری عوام کے ساتھ جو وعدے کیے ہیں کہ ان کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق ہوگا۔ انھوں نے یاد دلایا کہ کئی مواقع پر بھارتی لیڈران نے عزم کا اظہار کیا کہ وہ رائے شماری کے ذریعے لوگوں کی مرضی جاننے کے لیے پابند ہیں بشرطیکہ پُرامن اور معمول کے حالات بحال ہوں اور رائے شماری کی غیر جانب داری کی ضمانت دی جا سکے۔ دھون نے کہا کہ ہم نے اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے کہ آئین ساز اسمبلی کے ذریعے لوگوں کی مرضی ریاست کے آئین کے ساتھ ساتھ یونین کے دائرۂ اختیار کا تعین کرے گی۔انھوں نے کہا کہ یہ وہی عہد ہے جو آرٹیکل ۳۷۰ کی روح ہے۔
دھون کے بعد وشانت دوئے نے دلیل دی کہ ۲۰۱۹ء کے آئینی احکامات تضادات کا مجموعہ اورآئین ہند کے ساتھ دھوکا دہی ہیں۔ انھوں نے عدالت کو کہا کہ انصاف صرف ہونا ہی نہیں چاہیے، ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے۔آرٹیکل ۳۷۰ کے عارضی ہونے کی وجہ بتاتے ہوئے دوئے نے کہا کہ یہ ہندستان کے لیے کبھی بھی عارضی نہیں تھا۔ یہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے لیے اس حد تک عارضی تھا کہ وہ جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کے ہاتھوں اپنی قسمت کا فیصلہ کر سکتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کے آخری ڈوگرہ مہاراجا ہری سنگھ نے ہندستان کے اس وقت کے گورنر جنرل لارڈ لوئس ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ مشروط طور پر ہندستان کے تسلط میں الحاق کے لیے جو معاہدہ کیا تھا، اس کی تشریح آرٹیکل ۳۷۰ کی روشنی میں کی جانی چاہیے۔وشانت دوئے نے کہا کہ معاہدہ سازی کی طاقت کو آئین کے زیر غور طریقے سے استعمال کرنا ہوگا اور اس کی طرف سے عائد کردہ حدود کے تابع ہونا پڑے گا۔ آیا یہ معاہدہ عام قانون سازی کے ذریعے نافذ کیا جا سکتا ہے یا آئینی ترمیم کے ذریعے یہ قدرتی طور پر خود آئین کی دفعات پر منحصر ہوگا۔دوئے نے کہا کہ آرٹیکل ۳۷۰ کی تشریح آرٹیکل ۳۷۰ میں ہی موجود ہے۔
کشمیر کے معاملے پر وہ چاہے سپریم کورٹ ہو یا انڈین قومی انسانی حقوق کمیشن ، بھارت کے کسی بھی ادارے کا ریکارڈ کچھ زیادہ اچھا نہیں رہا ہے، مگر چونکہ اس مقدمے کے بھارت کے عمومی وفاقی ڈھانچے پر بھی دُور رس اثرات مرتب ہوں گے، اس لیے شاید سپریم کورٹ کو اس کو صرف کشمیر کی عینک سے دیکھنے کے بجائے وفاقی ڈھانچے اور دیگر ریاستوں پر اس کے اثرات کو بھی دیکھنا پڑے۔ اس تناظر میں امید ہے کہ وہ ایک معروضی نتیجے پر پہنچ کر کشمیری عوام کی کچھ دادرسی کا انتظام کر پائے گا۔خیر اس وقت تمام نگاہیں بھارتی سپریم کورٹ کی طرف لگی ہوئی ہیں۔ کیا سپریم کورٹ واقعی کوئی تاریخ رقم کرے گا؟ ایک بڑا سوال ہے، جس کا جواب وقت ہی دے گا۔
ایران اور امریکا نے حالیہ دنوں میں طے پانے والے ایک پیچیدہ معاہدے کے تحت اپنے اپنے ملکوں میں ایک دوسرے کے قیدی شہریوں کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس معاہدے پر یہ اتفاق رائے دونوں ملکوں کے درمیان بالواسطہ (indirect) مذاکرات کے بعد سامنے آیا۔ جس کے تحت تہران کو امریکی ایما پر منجمد کیے جانے والے چھ ارب ڈالر مالیت کے اثاثوں تک دوبارہ رسائی ملنے کا امکان بھی پیدا ہوا ہے۔ امریکا اور ایران اپنی سطح پر محدود مقاصد کے حامل’ قیدیوں کے معاہدے‘ کو تبدیلی کے ایک بڑے قدم کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرنے میں مصروف ہیں۔
معاہدے کی خبر شائع ہوتے ہی تہران میں قید پانچ امریکی شہریوں کو ’ایون جیل‘ سے نکال کر نامعلوم مقام پر ہوٹل کے الگ الگ کمروں میں نظر بند کر دیا گیا ہے۔جیل سے رہائی کے بعد ہوٹل میں نظربند کیے جانے والوں میں تاجر صیامک نمازی، عماد شرجی اور ماہر ماحولیات مرادطہباز شامل ہیں، جو برطانوی شہری بھی ہیں۔ اسی طرح امریکا میں قید ایرانیوں کو بھی رہائی کا پروانہ جلد ملنے والا ہے۔
اس پیش رفت کے باوجود ایران پر امریکی پابندیاں اور فریقوں کے درمیان عدم اعتماد کی فضا پہلے کی طرح برقرار ہے۔ تاہم، یہ معاہدہ اہم سیاسی پیش رفت ہے۔ بعض سیاسی تجزیہ کار اسے ۲۰۱۵ء میں امریکا اور ایران کے درمیان طے پانے والے جوہری معاہدے پر نظرثانی کے لیے بنیادی کام قرار دے رہے ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا قیدیوں کی رہائی سے متعلق معاہدے کے دُور رس نتائج کا حامل کوئی نیا معاہدہ سامنے آنے والا ہے؟ کیا یہ معاہدہ دیرینہ دشمن ملک سے تعلقات میں بہتری کا پیش خیمہ بن سکتا ہے؟
یاد رہے ’قیدیوں کا معاہدہ ‘ تہران اور واشنگٹن کے درمیان خلیج کے علاقے میں بڑھتی کشیدگی کے تناظر میں طے پایا۔خلیج میں تجارتی جہازوں کی نقل وحمل کی نگرانی کے لیے امریکا نے اپنے ہزاروں فوجی خطے میں تعینات کر رکھے ہیں، تاکہ ایران کو بین الاقوامی تجارتی جہازوں کو ہراساں کرنے سے باز رکھا جا سکے۔
ایران کو قطر اور عمان جیسے اہم علاقائی ملکوں کا اعتماد بھی حاصل ہے، جو منجمد ایرانی اثاثوں کی واپسی کے لیے بطور چینل استعمال ہوں گے۔ ایران کو روس اور چین جیسی بڑی طاقتوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔سعودی عرب کے ساتھ ایران کے دیرینہ کشیدہ تعلقات، چین کی ثالثی کے بعد کافی حد تک معمول پر آرہے ہیں۔ دونوں ملکوں نے اپنے مستقل سفارتی رابطے کو یقینی بنا لیا ہے۔
تاہم، امریکی وزیرخارجہ اس رائے کا اظہار کر چکے ہیں:’’امریکا میں ایران کے غیر منجمد اثاثوں کو صرف انسانی ضروریات یعنی ادویہ اور خوراک کی خریداری کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے‘‘۔ حالانکہ ادویہ اور خوراک کی خریداری پہلے بھی امریکی پابندیوں سے مستثنیٰ تھی۔
اس صورت حال کے بعد تہران اور واشنگٹن کے درمیان ۲۰۱۵ء میں طے پانے والے جوہری معاہدے کی بحالی کا امکان پیدا ہوا ہے، تاہم امریکی حکومت ردعمل اور خجالت کے ڈر سے بار بار اس امر کی تردید کرتی بھی دکھائی دیتی ہے۔
امریکی نیشنل سکیورٹی کونسل کے ترجمان جان کربی کے بقول: ’جوہری معاہدے کی طرف واپسی یا اس سے متعلق مذاکرات نہ امریکا کی ترجیح ہیں اور نہ قیدیوں کی رہائی سے متعلق معاہدے کی شرائط میں یہ بات شامل تھی۔‘
تہران نے ’مشترکہ جامع منصوبۂ عمل معاہدے‘ کے تحت اس شرط پر جوہری پروگرام میں کمی لانے پر رضامندی ظاہر کی تھی کہ ’’اگر عائد عالمی اقتصادی پابندیاں ختم کر دی جائیں‘‘۔ مگر ۲۰۱۸ء میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس جوہری معاہدے سے باہر نکلنے کا فیصلہ کیا اور نتیجتاً ایران پر دوبارہ اقتصادی پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ اگرچہ اُن کے بعد امریکی صدر جوبائیڈن نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی بحالی میں دلچسپی تو ظاہر کی ہے، تاہم اس پر عمل درآمد کی صورت میں دونوں فریقوں کو نئے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
قیدیوں کی رہائی سے متعلق معاہدے کو عملی جامہ پہنانے سے متعلق لائحہ عمل میں کچھ دوسرے ملک بھی ملوث ہیں۔ معاہدے کے لیے کئی برسوں سے دونوں ملکوں کے درمیان گفتگو جاری تھی، لیکن اسی دوران میں تہران نے ایک اور امریکی شہری کو یرغمال بنا کر واشنگٹن کا اعتماد مجروح کیا۔
اس پیش رفت نے امریکا کو تذبدب کا شکار کر دیا کہ قیدیوں کی رہائی سے متعلق معاہدے کے ذریعے تہران کون سے مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے؟ واشنگٹن کو خدشہ تھا کہ تہران منجمد اثاثے واپس ملنے کے بعد انھیں ’سپاہ پاسداران انقلاب‘ کے لیے ہتھیار خریدنے میں استعمال کرے گا، جس سے خطے میں تہران کے خفیہ پروگراموں کو قوت ملے گی۔
دوسری جانب امریکا کو اس بات کا بھی ادراک تھا کہ اگر یہ مذاکرات ناکام ہوئے تو جوہری معاہدے سے متعلق گفتگو کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے گا۔ قیدیوں کی رہائی کا معاہدہ دراصل علاقے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کی فضا کو کم کرنا تھا تاکہ مشرق وسطیٰ کسی بڑی جنگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آنے سے محفوظ رہے۔ایران کو اپنی معیشت بچانا تھی اور امریکا کو جنگ سے گریز کی پالیسی میں عافیت دکھائی دیتی تھی۔ ایران نے چین کی ثالثی میں سعودی عرب سے مذاکرات کا ڈول ڈالا، تو اس کے بعد تہران کے پاس امریکا کے ساتھ مذکرات سے انکار کا کوئی جواز باقی نہیں تھا۔
امریکی جاسوس دنیا کے کئی ملکوں میں کام کر رہے ہیں۔ واشنگٹن کی ایران دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اس وقت ایرانی ہوٹل میں نظر بند امریکی شہریوں میں کتنے جاسوس ہیں یا نہیں؟ اس بحث میں اُلجھے بغیر یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ امریکی سی آئی اے نے روس، ایران اور چین کو کئی برسوں سے اپنی خارجہ پالیسی کا محور بنا رکھا ہے۔
ماضی میں بھی حکومتی تبدیلی کی امریکی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے تہران مشتبہ غیرملکیوں کو ’یرغمال‘ بنانے کی پالیسی پر عمل کرتا چلا آیا ہے۔ ایران کے پانچ شہری بھی امریکی جیلوں میں قید ہیں۔ سی آئی اے کا الزام ہے کہ ان گرفتار ایرانیوں نے امریکی پابندیوں کی خلاف ورزی کا ارتکاب کیا ہے۔
ایران سے ’جوہری معاہدے‘ کو معطل کر کے امریکا نے ایران پر جن پابندیوں کا دوبارہ احیا کروایا، امریکی فہم کے مطابق آج تک ان کا کوئی مثبت نتیجہ دُنیا کے سامنے نہیں آیا ہے۔ تہران کی پالیسیاں جوں کی توں برقرار ہیں اور ان پابندیوں نے ساڑھے آٹھ کروڑ ایرانیوں کو گوناگوں مسائل سے دوچار کیا ہے۔
قیدیوں کی رہائی اور ’جوہری معاہدے‘ سے متعلق مذاکرات کا آغاز حالیہ دنوں میں طے پانے والے ’قیدیوں کی رہائی کا معاہدہ‘ کا ایک انتہائی چھوٹا حصہ ہے، جس پر اذیت پسند امریکا نے تہران پر اپنی اقتصادی پابندیوں کو برقرار رکھنے کا اعلان کر کے ایران کی خوش گمانی کو ایک مرتبہ پھر گہرا صدمہ پہنچایا ہے۔
نائیجر چاروں طرف سے خشکی میں گھرا ملک ہے اور سرکاری طور پر اس کا نام جمہوریہ نائیجر ہے۔ مغربی افریقہ میں واقع اس ملک کا نام اسی سرزمین پر بہنے والے دریائے نائیجر کی نسبت سے رکھا گیاہے ۔ملک کے جنوب میں نائجیریا اور بنین ،مغرب میں بورکینا فاسو اور مالی، شمال میں الجزائر اور لیبیا، جب کہ اس کی مشرقی سرحد پر چاڈ واقع ہے ۔
نائیجر کا کُل رقبہ ۱۲ لاکھ ۷۰ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ مغربی افریقہ کا یہ سب سے بڑا ملک ہے۔۲۰۲۱ء کی مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی ۲ کروڑ ۵۰لاکھ سے کچھ زیادہ ہے اور بیش تر آبادی ملک کے انتہائی جنوبی اور مغربی علاقوں میں آباد ہے۔ دارالحکومت نیامی ہی ملک کا سب سے بڑا شہر ہے اور یہ دریائے نائیجر کے مشرقی کنارے پر ملک کے جنوب مغرب میں واقع ہے ۔آبادی کی غالب ترین اکثریت مسلمان ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق ملکی آبادی کے ۹۹ء۳ فی صد کا مذہب اسلام ہے ۔
نائیجر میں اسلام کب آیا؟ اس کے بارے میں مؤرخین کی رائے مختلف ہے ۔کچھ مؤرخین کے نزدیک اس علاقے میں اسلام بالکل ابتدائی دور میں جلیل القدر صحابی حضرت عقبہ بن عامرؓ کے ہاتھوں پہنچا تھا ، اور مؤرخ عبد اللہ بن فودیو کی کتاب بھی اسی رائے کی تائید کرتی ہے ۔ بعض مؤرخین اس کی نسبت حضرت عقبہ بن نافعؓ کی طرف کرتے ہیں، جو ۶۶۶ء میں اس علاقے میں تشریف لائے تھے۔ روایات میں ملتا ہے کہ حضرت عقبہ بن نافعؓ براعظم افریقہ کے اس گریٹ صحارا ریگستان میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے اور جنوب کی طرف فتوحات کرتے شہر’ کعوار‘ تک جاپہنچے اور اسے بھی فتح کیا۔ انھوں نے ریگستان کے جنوب میں واقع تقریباً تمام قابلِ ذکر شہر فتح کرلیے تھے۔ آج کل ’کعوار‘ کا علاقہ نائیجر اور لیبیا کی سرحد پر ملک کی شمال مشرقی سمت میں واقع ہے ۔اس روایت کے مطابق اسلام نائیجر اور اس کے اطراف میں واقع دیگر علاقوں میں اپنی تاریخ کے بالکل ابتدائی زمانے یعنی پہلی صدی ہجری میں ہی پہنچ چکا تھا ۔
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ بحیرۂ چاڈ کے کنارے اور ملک کے مشرق میں رہنے والوں نے پہلے پہل اسلام قبول کیا ۔اور ان میں دین حق کی روشنی پہنچانے کا شرف ان مسلمان عرب تاجروں کو حاصل ہے جو نائیجر کے ساتھ تجارتی تعلقات اوربندھنوں میں جڑے ہوئے تھے اور انھی کے توسط سے علاقے میں عربی زبان بھی عام ہوئی۔ بعد ازاں مملکت غانا کے خاتمے کے بعد یہاں مرابطین کی حکمرانی رہی۔ غربی نائیجر کا علاقہ مالی کی اسلامی مملکت کے تابع بھی رہا اور اس کے بعد یہ علاقہ سنغی حکومت کے تابع تھا جو شمالی نائیجر میں اجادیس (شہر) تک پھیلی ہوئی تھی۔
نائیجر کا مغربی سامراجیوں سے ۱۸۹۹ء میں اس وقت واسطہ پڑا، جب فرانس نے اس علاقے پر فوجی حملہ کیا۔ اس حملے میں فرانسیسی فوجوں کو مقامی مجاہدین کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا رہا اور وہ علاقے میں قدم نہ جماسکیں۔ پے درپے حملوں کے بعد فرانس کو ان افریقی ممالک میں اسی وقت قدم جمانے میں کامیابی حاصل ہوئی جب ۱۹۲۲ء میں علاقے میں شدید قحط اور خشک سالی کا دور آیا اور صحرا نشین لوگوں کی مزاحمت اس کے آگے بے بس ہوگئی ۔یوں نائیجر بھی مغربی افریقہ کے دیگر ممالک کی طرح فرانسیسی مقبوضات کا حصہ بن گیا ۔
۱۹۴۶ءمیں نائیجر کو فرانس کا حصہ بناکر یہاں کے لوگوں کو فرانسیسی شہریت دی گئی۔ان کے لیے مقامی پارلیمنٹ بنائی گئی جس کے نمایندوں کو ایک خاص تناسب کے مطابق فرانسیسی پارلیمنٹ میں بھی نمایندگی دی گئی تھی ۔۱۹۵۶ء میں جب فرانس نے اپنے بعض قوانین میں تبدیلی و ترمیم کی تو افریقی مقبوضات میں سے کچھ علاقوں کو فرانسیسی قوانین کے اندر رہتے ہوئے داخلی خود مختاری حاصل ہوگئی۔
۱۹۵۸ء میں نائیجر نام کی حد تک رسمی طور پر فرانس سے علیحدہ ہوگیا، تاہم ۱۹۶۰ء میں مکمل طور پر اس کی آزادی کو تسلیم کرلیا گیا ۔تحریک آزادی کے رہنما حمانی دیوری یہاں کے پہلے سربراہ بنے۔ تاہم، ان کے عہد حکومت کو بےتحاشا کرپشن کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے ۔
۱۹۷۴ء میں ایک فوجی انقلاب کے نتیجے میں حمانی حکومت کا خاتمہ ہوا اور انقلابی جرنیل سانی کونتشیہ نے ملک کی باگ ڈور سنبھال لی۔ وہ ۱۹۸۷ء میں اپنی وفات تک ملک کی سربراہی کرتے رہے ۔ ان کی وفات کے بعد علی سیبو نے نائیجر کی سربراہی سنبھالی اور نائیجر کی دوسری جمہوریہ کے قیام کا اعلان کیا۔اپنے دور میں ان کی کوشش رہی کہ ملک کو ایک پارٹی سسٹم کے تحت چلایا جائے۔ لیکن انھیں عوامی مطالبات کے آگے جھکنا پڑا اور ملک میں نئے سرے سے جمہوری دور کا آغاز ہوا ۔
۱۹۹۳ء میں پہلے کثیر جماعتی انتخابات میں ماھمان عثمان ملک کے پہلے صدر منتخب ہوگئے۔ ان کا عرصۂ اقتدار زیادہ عرصہ نہیں رہا اور ۱۹۹۶ء میں ایک فوجی بغاوت کے نتیجے میں ان کے اقتدار کا خاتمہ ہوگیا اور ابراہیم مناصرہ نئے فوجی صدر بنے۔ تاہم، ان کی حکومت کو ملک کے سیاسی حلقوں میں پذیرائی نہ مل سکی۔
۱۹۹۹ء میں ایک اور فوجی بغاوت میں ابراہیم مناصرہ قتل کردئیے گئے اور نئی عبوری حکومت تشکیل دی گئی ۔ملک میں یہ تیسرا فوجی انقلاب تھا، جسے خونی انقلاب کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس انقلاب کے نتیجے میں فوجی سربراۂ مملکت ابراہیم مناصرۃ قتل کردئیے گئے تھے۔حالانکہ اس سے قبل کسی فوجی انقلاب کے نتیجے میں کوئی خون خرابہ نہیں ہوا تھا ۔
اسی سال ملک کا نیا دستور منظور ہوا اور نئی جمہوری حکومت مامادو تانجا کی زیر قیادت تشکیل پائی۔ اس دور میں سیاست دانوں کے درمیان اختلاف رہا کہ شریعت اسلامیہ کو ملکی دستور اور قانون کی اساس ہونا چاہیے یا نہیں ؟
۲۰۰۴ء میں ملک میں نئے انتخابات ہوئے جن میں ایک بار پھر مامادو تانجا دوسری مدت صدارت کے لیے منتخب ہوئے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا دسمبر۲۰۰۹ء میں آئینی طور پراپنی مدت صدارت کی تکمیل پر وہ عہدۂ صدارت چھوڑ دیتے لیکن ان کا مطالبہ تھا کہ ان کی تیسری مدت صدارت کے لیے بھی دستور میں گنجایش نکالی جائے۔ لیکن فروری ۲۰۱۰ء میں ان کی حکومت ملک کے چوتھے فوجی انقلاب کے نتیجے میں ڈھیر ہوگئی ۔
نئی فوجی حکومت نے عبوری فوجی کونسل بنائی ،دستور پر عمل درآمد کو معطل کیا، مملکت کے تمام آئینی ادارے تحلیل کردئیے گئے اور نعرہ یہ لگایا کہ ہم حقیقی جمہوریت چاہتے ہیں ۔عملاً ایک نیا دستور وضع کیاگیا جس میں صدر کے بہت سے اختیارات کو سلب کرلیا گیا۔ نئے دستور کی روشنی میں ۳۱جنوری ۲۰۱۱ء کو ملک میں نئے صدارتی انتخابات ہوئے اور دوسری بار کے انتخاب میں محمدایسوفو کامیاب ہوکر ملک کے نئے صدر بنے۔
۲۰ مارچ ۲۰۱۶ء کو محمد ایسوفو دوسری مدت صدارت کے لیے پھر منتخب ہوگئے اگرچہ ملک اس وقت شدید سیاسی اختلافات کا شکار تھا اور کئی سیاسی پارٹیاں الیکشن کا بائیکاٹ بھی کرچکی تھیں۔ ملک بدامنی کا بھی شکار ہوچکا تھا اور مسلح حملوں کا سامنا کررہا تھا ۔تاہم، ان کی دوسری مدت صدارت اس لحاظ سے کچھ کامیاب کہلاسکتی ہے کہ ان کے اس عہد ِحکومت میں خط ِغربت سے نیچے رہنے والی آبادی کی شرح ۵۰٪ فی صد سے گھٹ کر ۴۱ فی صد رہ گئی تھی ۔
۲۱فروری ۲۰۲۱ء کے صدارتی الیکشن میں اقلیتی عرب قبائل سے تعلق رکھنے والے محمد بازوم ملک کے نئے صدر منتخب ہوگئے ۔ایک ایسے ملک میں جہاں قبائلی عصبیتیں عروج پر ہوں ایک اقلیتی قبیلے کے فرد کا صدر منتخب ہوجانا انہونی بات ہے۔ تاہم، خوشی کا یہ عالم زیادہ دیر برقرار نہ رہ سکا اور ۲۶ جولائی ۲۰۲۳ء کو ایک نیا فوجی انقلاب صدارتی محل کے دروازے پر دستک دے رہا تھا ۔ صدارتی محافظوں نے اپنے ہی صدر کو یرغمال بناکر ایک بار پھر پورے ملک کا کنٹرول سنبھال لیا۔ حالیہ فوجی بغاوت کا آغاز اگرچہ صدارتی محل کے گارڈز نے کیا تھا، تاہم اب ملک کی بَری اور فضائی اور ساری فوج ایک ہی پیج پر آچکی ہے۔
مغربی ممالک نے اس فوجی بغاوت کو یکسر مسترد کر ہوئے نظر بند صدرمحمد با زوم کی فوری رہائی اور دستور کی مکمل بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔ ایکواس ممالک (اکنامک گروپ برائے مغربی افریقی ممالک) نے جس کی سربراہی اس وقت پڑوسی ملک نائجیریا کے پاس ہے ،یورپین یونین اور فرانس اس کے اقدامات کی حمایت کررہے ہیں ،نئی فوجی قیادت کو بیرکوں میں واپسی کے لیے ۱۵ دن کی مہلت دی ہے۔ نائیجر کےہمسایہ ایکواس ممالک نے گذشتہ اتوار کو اپنے سربراہی اجلاس میں فیصلہ کیا تھا کہ نائیجر میں جمہوریت کی بحالی اور فوجی انقلاب کی پسپائی اور منتخب مگر تاحال نظر بند صدر محمد بازوم کے اقتدار کی اَز سر نو بحالی کو بہرصورت ممکن بنایا جائے گا، خواہ اس مقصد کے حصول کے لیے انھیں فوجی مداخلت ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔ مغربی ممالک نے نئی انتظامیہ پر اقتصادی پابندیاں عائد کردی ہیں۔ دوسری طرف ایکواس ممالک کی سربراہی کرنے والے ہمسایہ ملک نائجیریا نے بجلی کی سپلائی بند کردی ہے ۔
مغرب کی نائیجر میں دلچسپی کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ غریب مسلم ملک کسی وقت فرانسیسی کالونی رہا ہے ۔دوسرے، یہ علاقہ قیمتی معدنیات سے مالامال ہے۔نائیجر افریقہ کا یورینیم برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ملک کا ۳۵ فی صد یورینیم فرانس کو برآمد کیا جاتا ہے، جس سے فرانس اپنی توانائی کی ۷۵ فی صد ضروریات کی تکمیل کرتا ہے ۔بدلے میں فرانس اس غریب افریقی ملک کو کیا دیتا ہے ؟محض ۱۵۰ ملین یورو سالانہ۔قیمتی معدنیات سے مالا مال ہونے کے باوجود اس ملک کا شمار براعظم افریقہ کے غریب ترین ممالک میں ہوتا ہے۔
بحر اطلس پر واقع یورپی ممالک کے لیے نائیجیر کی اہمیت اس لیے بھی دوچند ہوجاتی ہے کہ اس کے ہمسایہ ملک نائیجیریا سے نکلنے والی زیر تعمیر گیس پائپ لائن، نائجیر سے گزر کر ہی شمالی افریقہ اور پھر یورپی ممالک تک گیس کی سپلائی یقینی بنائے گی۔
اپنے مذکورہ مفادات کے تحفظ کے لیے اور علاقے میں بوکو حرام اور دیگر مسلح گروپس کے مقابلے کے لیے مغربی ممالک نے نائیجر میں اپنے فوجی اڈے قائم کررکھے ہیں ۔اس وقت نائیجر میں فرانسیسی فوجی اڈوں کی تعداد چار ہے، جن میں ہزاروں فوجی تعینات ہیں ۔ علاقے میں نیٹو افواج کا ہیڈ کوارٹر بھی نائیجر ہی میں واقع ہے ۔ علاوہ ازیں امریکا سے باہر امریکی ڈرونز کا سب سے بڑا اڈا بھی نائیجر ہی میں واقع ہے اور اس کی منتخب فوج کی اسپیشل یونٹ بھی نائیجر کے شہر اکا دیش میں تعینات ہے ۔نائیجر کے علاوہ ہمسایہ ممالک، مالی، چاڈ، موریطانیہ، برکینا فاسو میں بھی جگہ جگہ امریکی، فرانسیسی اور جرمن فوجی اڈے قائم ہیں۔ اسی بنا پر کہا جاتاہے کہ نائیجر سمیت پورا غربی افریقہ ایک بار پھر مغربی سامراجی قبضے کا شکار ہوچکا ہے ۔
دیکھیے نائیجر کے تازہ ترین فوجی انقلاب کے بعد علاقے کے حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں، اور بدلتے حالات میں کیا غریب نائیجر مسلمانوں کے لیے بھی خوشی اور راحت کا کوئی پیغام پوشیدہ ہےیا نہیں ؟
پارلیمنٹ بنیادی طور پر قوم کا ایک امانت دار فورم ہے، جو حکمرانوں کو اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ اختیارات ادا کرنے کا ذمہ دار ہے۔ مگر بدقسمتی سے ہماری پارلیمنٹ ان احساسات سے عاری دکھائی دیتی ہے۔ حالیہ قانون سازی اس کی تازہ مثال ہے۔ ’قرارداد مقاصد‘ کے مرکزی اصولوں میں پہلے تین نکات یہ ہیں: ۱- حاکمیت اعلیٰ، اللہ کی ہوگی، ۲-اقتدار ایک مقدس امانت ہے، جسے اللہ کی مقرر کردہ حدود میں رہ کر استعمال کیا جائے گا، ۳- اقتدار کا جواز، آزادانہ رائے کے ذریعے منتخب نمایندوں کو حاصل ہوگا___ لیکن اس وقت ’حاکمیت اعلیٰ‘ عملاً عالمی ساہوکاروں،عالمی مالیاتی فنڈ، عالمی بنک، مقتدر اداروں اور ایجنسیوں کی ہے ۔ اقتدار ’مقدس امانت‘ کے بجائے مراعات یافتہ طبقوں اور اشرافیہ کی خدمت کے لیے استعمال ہورہا ہے جس کی سب سے بڑی تکلیف دہ مثال یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے آخری سیشن میں۱۲۰ قوانین متعارف کرائے گئے۔ ۷۵قوانین منظور کیے گئے۔ ان منظور کردہ قوانین کا انسانی فلاح سے ذرہ برابر تعلق نہیں ہے، بلکہ محض طاقت ور اور دولت مند طبقوں کی چاکری اور عوام کی غلامی کے لیے قانونی تحفظ کا حصول ہے۔ ایسی ربرسٹمپ اور انگوٹھا چھاپ پارلیمنٹ کے بارے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا یہ کہنا لمحۂ فکریہ ہے کہ بعض ارکانِ پارلیمنٹ پر مطلوبہ قانون سازی کے لیے تعاون حاصل کرنے پر بڑی رقوم خرچ کی گئی ہیں۔
یہاں مثال کے طور پر چند قوانین کی منظوری کے وقت میں نے جو معروضات پیش کیں، ملاحظے کے لیے پیش ہیں:
آرمی آفیشل سیکرٹ ایکٹ جو بڑی جلدبازی میں پیش کیا گیا، اس میں کچھ اصلاحات تجویز کی گئی ہیں، جو حددرجہ بودی، سطحی (superficial) اور ناکافی ہیں۔ اگر پارلیمنٹ نے اس کو اسی انداز سے منظور کیا تو نتیجے میں پورا ملک ایک چھائونی کا منظر پیش کرے گا۔
اس مجوزہ ایکٹ کے نتیجے میں غیرمعمولی اندھے اختیارات، انٹیلی جنس ایجنسیوں کے پاس آجائیں گے، جن سے انسانی حقوق، سیاسی و انسانی آزادیاں اور میڈیاکی آزادی بُری طرح متاثر ہوگی۔ ’فوجی مارشل لا‘ کے وزن پر اگر ’قانونی مارشل لا‘ کی کوئی اصطلاح قانون کی کتابوں میں درج ہے تو یہ ایکٹ اس اصطلاح پر پورا اُترتا ہے، کیونکہ اس قانون سازی کے نتیجے میں وہی سامنے آئے گا۔اس ایکٹ کو دستورِ پاکستان کی روح کے مطابق رکھنے کے لیے مَیں نے ۶ ترامیم جمع کروائی تھیں، مگر ان پر غور تک نہیں کیا گیا۔
اس ایکٹ کے مسودے کے پہلے صفحے پر لکھا ہے: include written and unwritten (’لکھا‘ اور ’نہ لکھا‘ اس میں شامل ہے)۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ unwritten (نہ لکھے)میں تو سادہ کاغذبھی ہوتا ہے، جس پر کچھ نہیں لکھا ہوتا۔ میں کوئی قانون دان نہیں ہوں، لیکن پھر یہاں یہ بھی لکھا ہے: memorandium etc (یادداشت وغیرہ)۔ قانون کی دستاویزات میں تو etc یا وغیرہ وغیرہ کا لفظ نہیں ہوتا۔ آپ نے تو یہ ایک ایسی چیز اس میں رکھ دی ہے کہ اس میں کوئی بھی چیز شامل کی جاسکتی ہے۔ قانون تو سیاہ و سفید میں بالکل واضح ہوتا ہے اور اس میں اس طرح کی چیزیں شامل نہیں ہوتی ہیں۔ اسی طرح صفحہ ۲ پر ہے:
Any place occupied by Armed force for the purpose of war games, exercise, training, research and development.
جس کا مطلب ہے افواج کے تعلیمی ادارے، نیشنل ڈیفنس یونی ورسٹی، ایئر یونی ورسٹی اور باقی اداروں کو بھی آپ نے اس میں شامل کیا ہے۔ اور آگے چلیں تو آپ نے ’دشمن‘ (enemy) کی تعریف (definition) میں ’نان اسٹیٹ ایکٹرز‘ کو بھی شامل کیا ہے۔ ’نان اسٹیٹ ایکٹر‘ کی تعریف کی جائے کہ اس سے کیا مراد ہے؟ اگر اس کی تعریف واضح نہیں کی گئی تو پھر آپ یہاں ANSA /انسا، آرمڈ نان اسٹیٹ ایکٹر کو شامل کریں۔ اس طرح آپ نے تمام این جی اوز کو بھی اس میں ڈال دیا ہے اور تمام خیراتی اداروں کو بھی اس میں شامل کردیا ہے۔ اس لیے نان اسٹیٹ ایکٹر کی وضاحت کے ساتھ باقاعدہ تعریف شامل کریں یا پھر ANSA لکھیں۔
پھر اس میں دفعہ ۲-الف کا اضافہ کرلیا جائے یعنی دستور ِ پاکستان میں جن بنیادی انسانی حقوق کی نشان دہی کی گئی ہے، ان کو اس میں شامل کرلیا جائے۔ دستور کے پہلے باب کے دوسرے حصے میں جو بنیادی انسانی حقوق دیئے گئے ہیں اور بالخصوص آرٹیکل ۹، آرٹیکل ۱۰، آرٹیکلA- ۱۰ اور آرٹیکل ۱۴ کو پیش نظر رکھا جائے۔
ص ۴ پر بھی کئی چیزوں میں ترمیم ہونی چاہیے۔ ان میں ایک چیز unauthorise disclosure of identity ہے، اسی طرح یہ بھی ہے کہ:
a person shall commit an office who intentionally acting in any pre-judicial to public order or safety.
یہاں ’پبلک آرڈر‘ یا ’سیفٹی‘ سے کیا مراد ہے؟ یہ تو ایک ایسی بات ہے جس میں پورے معاشرے کو اس کے اندر لے آیا گیا ہے اور غیرمعمولی اختیارات دے دیئے گئے ہیں۔
اسی طرح یہ شامل کرنا چاہیے کہ اس پر قانونِ شہادت کے مطابق ہی عمل درآمد کیا جائے گا۔
میں پھر خبردار کرتا ہوں کہ اگر آپ نے اس قانون کو اسی طرح منظور کرلیا تو اس کے نتیجے میں انسانی حقوق، انسانی آزادی، جمہوری آزادی، میڈیا اور سیاسی آزادیاں سب خطرے میں پڑجائیں گی اور انٹیلی جنس اداروں کو اندھے اختیارات مل جائیں گے۔
این ایل سی (NLC)کو سویلین حکومت کے تحت کر دینا درست قانون سازی ہے، لیکن یہ نامکمل ہے۔ اس کے آرٹیکل ۱۰ میں لکھا ہے:
Appointment of Director General: the prime minister shall on recmendation of chief of Army Staff appointing a serving major general of the Pakistan Army .....
ہماری دردمندانہ درخواست ہے کہ پاکستان کی قومی فوج کو ان کاموں سے دُور رکھیں۔ فوج پورے وطنِ عزیز کا قابلِ قدر اور غیرمتنازع ادارہ اور اثاثہ ہے۔ فوج کا کام ملک کی سلامتی کا تحفظ اور سرحدوں کا دفاع کرنا ہے۔ جب ان سے بنک، ہسپتال اور یونی ورسٹیاں بنوائیں گے، زمینوں کی خرید و فروخت، کاروباری کاشت کاری اور فارمنگ کروائیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ ٹرانسپورٹ کمپنیاں ان کے حوالے کریں گے، تو وہ اپنا بنیادی اور منصبی کام نہیں کرسکیں گے۔ اس لیے ضروری ہے کہ قانون سازی کے ذریعے اسے سول انتظامیہ کے تحت لایا جائے۔
پاکستان کی مسلح افواج سے اخلاص اور محبت کا تقاضا یہ ہے کہ سوائے دفاعی اُمور کے انھیں باقی تمام کاموں سے فارغ کردیا جائے تاکہ وہ پوری یکسوئی کے ساتھ ملکی دفاع پر ایک پروفیشنل انداز سے اپنی ذمہ داریوں کی طرف توجہ کرسکیں۔ آپ نے ۴۰/۴۵ سال بعد ترمیم کی اور قانون سازی کی اور این ایل سی جو پہلے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے تحت فوج کے پاس تھا، اب اسے پارلیمنٹ کی قانون سازی کے ذریعے فوج کے حوالے کر رہے ہیں، جو بنیادی طور پر ایک غلط اقدام ہے۔
آپ قانون سازی کرنا چاہتے ہیں تو بے شک کریں لیکن قانون سازی سوچ سمجھ کر ہی کریں، بحث و مباحثہ کے بعد کریں، ووٹوں کی قوت کے زور پر نہ کریں۔اینٹی نارکوٹکس قانون کے بارے میں متعلقہ وزیرجناب مرتضیٰ عباسی صاحب سے پوچھیں کہ اس قانون میں کیا تھا اور انھوں نے اسے کیوں پاس کیا؟ تو مجھے یقین ہے کہ ان کو بھی اس کے مندرجات کا علم نہیں ہے۔
اینٹی نارکوٹکس کے قانون میں دفعہ ۶ میں پوزیشن( قبضہ یا ملکیت)، دفعہ۷ میں درآمد و برآمد، دفعہ۸ میں ترسیل یا ٹریفکنگ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’’جس کے پاس پانچ کلوگرام اور چھے کلوگرام نارکوٹکس ہوگی، اس کو سزائے موت نہیں دی جائے گی‘‘۔ اس مضحکہ خیز شق سے مَیں اختلاف کرتا ہوں۔
اس وقت اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان میں ۱۵سال سے لے کر ۳۹سال کی عمر تک ۹۰لاکھ لوگ نشے کا شکار ہیں۔اقوام متحدہ کے مطابق دُنیا کے ۶۲ممالک کی آبادی سے زیادہ پاکستان میں نشے کے عادی افراد پائے جاتے ہیں۔ پاکستان کو ہائی وے آف دی نارکوٹکس (منشیات فروشی کی شاہراہ)کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں نارکوٹکس کا جو کاروبار ہورہا ہے وہ پاکستان کے دفاع کے بجٹ سے ۸۰گنا زیادہ ہے۔ہمارے بچّے تباہ ہورہے ہیں۔ گلی کوچوں میں نارکوٹکس ہے، کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں نارکوٹکس ہے۔ حال ہی میں بہاولپور اسلامیہ یونی ورسٹی کا واقعہ پیش آیا ہے۔اس میں نارکوٹکس برآمد ہوئی ہیں اور سیکس ٹیبلٹس اور ہماری بچیوں کی ہزاروں قابلِ اعتراض تصاویر نکلی ہیں۔ ان حالات میں آپ نے جو لوگ پانچ اور چھ کلوگرام نارکوٹکس رکھتے ہیں، ان کی سزائے موت کو ختم کردیا ہے۔
مرتضیٰ عباسی صاحب یا ن لیگ سے وابستہ اور وفاقی وزیرقانون و عدل سینیٹر نذیر تارڑ صاحب یہ بتائیں کہ اب تک نارکوٹکس کے جرم میں کتنے لوگوں کو سزائے موت ملی ہے؟ کسی ایک فرد کو بھی اس جرم میں پھانسی کی سزا نہیں ہوئی ہے۔ اسی وجہ سے نارکوٹکس کا کاروبار پوری قوت اور پورے پھیلائو کے ساتھ چل رہا ہے۔ اسی لیے ہمارے نوجو ان نشے کے عادی بن رہے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں اور ملک کے مستقبل کے لیے بڑا خطرہ نارکوٹکس ہیں۔ لیکن یہ دیکھ کر مجھے حیرت اور شرمندگی ہورہی ہے کہ آپ منشیات اسمگلروں کو سپورٹ کرنا چاہتے ہیں۔ آپ ڈرگ کا کاروبار کرنے والوں اور اُسے امپورٹ ایکسپورٹ کرنے والوں کو امداد فراہم اور راستہ دینا چاہتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نشے کا کاروبار کرنے والوں کو سرعام پھانسی دی جائے۔
نگران حکومتوں کے اختیارات میں اضافے کے اس بل کی مَیں حمایت نہیں کرسکتا اور حکومت کے علم میں یہ بات لانا چاہتا ہوں کہ کیا نگران حکومت خیبرپختونخوا غیر جانب دار ہے؟ وہ قطعاً غیر جانب دار نہیں ہے۔ کیا نگران حکومت پنجاب غیرجانب دار ہے؟ وہ قطعاً غیر جانب دار نہیں ہے۔ یہ تو اب بالکل واضح ہوچکا ہے کہ یہ حکومتیں ایک ایجنڈے کو لے کر آگے بڑھ رہی ہیں۔ بہت دُکھ سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ اس وقت ہم آئی ایم ایف کی غلامی میں اس حد تک جکڑ گئے ہیں کہ یہ ہمارے انتخابی قوانین کے اُوپر بھی اثرانداز ہورہا ہے اور ان کی ناراضی اور خوشی کو ہم پیش نظر رکھ رہے ہیں۔
نئی ترامیم آئین کی روح کے خلاف ہیں۔ یہ سب نگران حکومت کے وجود اور فرائض کی روح کے خلاف ہے۔مَیں اس کو ’سافٹ کو‘ کہتا ہوں اور اس کو آیندہ انتخابات کو متنازعہ بنانے کی بنیاد قرار دیتا ہوں، جس کے نتیجے میں اس بات کا امکان ہے کہ نگران حکومت اس کی آڑ میں اپنی مدت کو توسیع دے کر انتخابات کو التوا میں ڈالے۔ اس وقت ملک میں جمہوریت بہت مشکل دور سے گزر رہی ہے۔ میری درخواست ہوگی کہ اس شق کو نکالیں اور آیندہ انتخابات کو متنازع نہ بنائیں اور نگران حکومتوں کو وہ اختیارات نہ دیں جو ان کو دستور میں نہیں دیئے گئے ہیں۔
سوال : موجودہ قانون میں کورٹ میں اپیل کے بعد بھی اگر قاتل کو پھانسی کی سزا تجویز ہوجائے تو پھر صدر حکومت یا گورنر جنرل کے سامنے رحم کی اپیل ہوتی ہے، جس میں سزا کے تغیر کا امکان رہتا ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے یہ صورت کس حد تک جائز ہے؟
جواب :یہ بات اسلامی تصورِ عدل کے خلاف ہے کہ عدالتی فیصلے کے بعد کسی کو سزا کے معاف کرنے یا بدلنے کا اختیار حاصل ہو۔ عدالت اگر قانون کے مطابق فیصلہ کرنے میں غلطی کرے، تو امیر یا صدرِ حکومت کی مدد کے لیے پریوی کونسل کی طرز کی ایک آخری عدالت مرافعہ قائم کی جاسکتی ہے، جس کے مشورے سے وہ ان بے انصافیوں کا تدارک کرسکے، جو نیچے کی عدالتوں کے فیصلوں میں پائی جاتی ہوں۔ مگر مجرد ’رحم‘کی بناپر عدالت کے فیصلوں میں رد و بدل کرنا اسلامی نقطۂ نظر سے بالکل غلط ہے۔ یہ ان بادشاہوں کی نقالی ہے جو اپنے اندر کچھ شانِ خدائی رکھنے کے مدعی تھے یا دوسروں پر اس کا مظاہرہ کرنا چاہتے تھے۔(ترجمان القرآن، جون و جولائی ۱۹۵۲ء)
سوال : پاکستان کے بقا و استحکام کے لیے اسلامی نظامِ تعلیم کی ضرورت و اہمیت کیا ہے؟
جواب : پاکستان کے بقا و استحکام کے لیے اسلامی نظامِ تعلیم کی ضرورت و اہمیت کا اندازہ اس حقیقت کو ذہن نشین کرلینے سے ہوسکتا ہے کہ ملک و قوم کی قیادت ہمیشہ تعلیم یافتہ طبقے ہی کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور اَن پڑھ یا نیم خواندہ طبقے اپنے قائدین ہی کے پیچھے چلتے ہیں۔ تعلیم یافتہ طبقے کے بنائو اور بگاڑ میں نظامِ تعلیم کو جو مقام حاصل ہے، وہ محتاجِ بیان نہیں ہے۔(ترجمان القرآن، جولائی ۱۹۷۷ء)
امام [ابوحنیفہؒ] کے نزدیک مسلم معاشرے اور اسلامی ریاست میں قضا [عدالت]کی آزادی کے ساتھ آزادیٔ اظہار رائے کی بھی بہت بڑی اہمیت تھی، جس کے لیے قرآن و سنت میں ’امربالمعروف ونہی عن المنکر‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔
محض ’اظہارِ رائے‘ تو نہایت ناروا بھی ہوسکتا ہے، فتنہ انگیز بھی ہوسکتا ہے، اخلاق اور دیانت اور انسانیت کے خلاف بھی ہوسکتا ہے، جسے کوئی قانون برداشت نہیں کرسکتا۔ لیکن بُرائیوں سے روکنا اور بھلائی کے لیے کہنا، ایک صحیح اظہاررائے ہے اور اسلام یہ اصطلاح اختیار کرکے اظہارِرائے کی تمام صورتوں میں سے اسی کو مخصوص طور پر عوام کا نہ صرف حق قرار دیتا ہے بلکہ اسے ان کا فرض بھی ٹھیراتا ہے۔
امام ابوحنیفہؒ کو اس حق اور اس فرض کی اہمیت کا سخت احساس تھا کیونکہ ان کے زمانے کے سیاسی نظام میں مسلمانوں کا یہ حق سلب کرلیا گیا تھا اور اس کی فرضیت کے معاملے میں بھی لوگ مذبذب ہوگئے تھے۔ اُس زمانے میں ایک طرف مُرحِبَہ اپنے عقائد کی تبلیغ سے لوگوں کو گناہ پر جرأت دلا رہے تھے، دوسری طرف حَشْویہ اس بات کے قائل تھے کہ ’حکومت کے مقابلے میں امربالمعروف ونہی عن المنکر ایک فتنہ ہے‘، اور تیسری طرف بنی اُمیہ و بنی عباس کی حکومتیں طاقت سے، مسلمانوں کی اِس روح کو کچل رہی تھیں کہ وہ امراء کے فسق و فجور اور ظلم و جور کے خلاف آواز اُٹھائیں۔
اس لیے امام ابوحنیفہؒ نے اپنے قول اور عمل دونوں سے اس روح کو زندہ کرنے کی اور اس کے حدود واضح کرنے کی کوشش کی۔الجصاص کا بیان ہے کہ ابراہیم الصائغ(خراسان کے مشہور و بااثر فقیہ) کے سوال پر امامؒ نے فرمایا کہ ’امربالمعروف ونہی عن المنکر فرض ہے‘۔ اور عِکرمہ عن ابن عباس کی سند سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سنایا کہ ’’افضل الشہداء ایک تو حمزہؓ بن عبدالمطلب ہیں، دوسرے وہ شخص جو ظالم امام کے سامنے اُٹھ کر اسے نیک بات کہے اور بدی سے روکے اور اِس قصور میں مارا جائے‘‘۔ابراہیمؒ پر امامؒ کی اس تلقین کا اتنا زبردست اثر پڑا کہ وہ جب خراسان واپس گئے تو انھوں نے عباسی سلطنت کے بانی ابومسلم خراسانی (م:۱۳۶ھ/ ۷۵۴ء) کو اس کے ظلم و ستم اور ناحق کی خوں ریزی پر برملا ٹوکا اور باربار ٹوکا، یہاں تک کہ آخرکار اس نے انھیں قتل کردیا۔ (خلافت کے مسئلہ میں امام ابوحنیفہؒ کا مسلک، سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ، ترجمان القرآن، جلد۶۰، عدد۶، ستمبر ۱۹۶۳ء، ص ۲۳-۲۴)