پاکستان جب معرض وجود میں آیا تو سیّد علی شاہ گیلانی [۲۹ستمبر ۱۹۲۹ء- یکم ستمبر۲۰۲۱ء] کی عمر اٹھارہ سال کے قریب تھی۔ وہ اورینٹل کالج، لاہور میں زیر تعلیم تھے اور پاکستان کی آزادی کا سورج اُن کی آنکھوں کے سامنے طلوع ہوا ۔ پھر وہ ریاست جموں وکشمیر کی آزادی کا خواب لے کر واپس سوپور آئے اور تمام عمر اس خواب کی تعبیر کے لیے جد وجہد کرتے رہے۔
سیّد علی شاہ گیلانی پر کئی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں، لیکن آج مجھے اُن کے بارے میں صرف اپنے ذاتی مشاہدات اور احساسات لکھنے ہیں___گیلانی صاحب کے ساتھ میری پہلی ملاقات جولائی ۲۰۰۱ء میں ہوئی۔یہ اُس زمانے کی بات ہے جب پاکستان کے فوجی صدر جنرل پرویز مشرف [م:۵فروری ۲۰۲۳ء]، بھارت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی [م: ۱۶؍اگست ۲۰۱۸ء]کے ساتھ مذاکرات کے لیے دہلی پہنچے ہوئے تھے۔ میں روزنامہ اوصاف اسلام آباد کا ایڈیٹر تھا اور پاک بھارت مذاکرات کے اس تاریخی عمل پر روزانہ دہلی سے کالم لکھ کر بھیجتا تھا۔
ہم موریہ شیرٹن ہوٹل میں ٹھیرے ہوئے تھے۔ایک دن میں نے شکیل ترابی صاحب کے ذریعے دہلی میں حریت کانفرنس کے دفتر فون کیا او رسید علی شاہ گیلانی صاحب سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ غلام محمد بٹ صاحب کے ذریعے وقت طے ہوا اور ہم دونوں حُریت کانفرنس کے دفتر پہنچ گئے۔یہ ایک چھوٹا سا دفتر تھا۔ہم گیلانی صاحب سے علیحدہ ملنا چاہتے تھے۔ ہمارے لیے ایک علیحدہ کمرے میں ملاقات کا بندوبست ہوگیا، لیکن اسی دوران وہاں پروفیسر عبدالغنی بٹ صاحب بھی آگئے اور پھر مولوی عباس انصاری صاحب [م: ۲۵؍اکتوبر ۲۰۲۲ء]بھی آگئے۔انصاری صاحب کچھ دیر بعد چلے گئے، لیکن پروفیسر عبدالغنی صاحب موجود رہے۔جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ ان مذاکرات کی مخالفت کررہی تھی اور سید علی شاہ گیلانی بھی اس طریقِ کار پر خوش نہ تھے۔ تاہم، پروفیسر عبدالغنی بٹ صاحب مذاکرات کی حمایت کررہے تھے۔
ہم درحقیقت علی گیلانی صاحب سے اُن کے تحفظات جاننے آئے تھے۔گیلانی صاحب کی پاکستان سے محبت اور وفاداری غیر مشروط تھی، لیکن وہ جنرل پرویزمشرف کو سب پاکستانیوںکا ترجمان نہیں سمجھتے تھے۔انھوں نے ہمیں بتایا کہ ’’بھارتی حکومت نے حریت کانفرنس کے ساتھ مذاکرات کی بہت کوشش کی، لیکن ہم نے مذاکرات سے یہ کہہ کر انکار کیا کہ مسئلہ کشمیر میں پاکستان ایک فریق ہے۔ ہم پاکستان کے بغیر مذاکرات نہیں کریںگے‘‘۔گیلانی صاحب نے بڑے دُکھی لہجے میں کہا کہ ’’ہم سے مایوس ہوکر بھارتی سرکار نے پاکستان کے حکمرانوں سے رابطہ کیا اور پاکستان نے ہمیں مذاکرات میں شامل کیے بغیر مذاکرات پر آمادگی ظاہر کردی‘‘۔
گیلانی صاحب نے جے کے ایل ایف کی طرح کھل کر مذاکرات کی مخالفت نہیں کی، لیکن وہ مجھے بار بار یہ کہتے رہے کہ ’’جنرل پرویزمشرف پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ مسئلہ کشمیر کی نزاکتوں کو نہیں سمجھتے‘‘۔اُنھیں یہ شکوہ بھی تھا:’’۲۰۰۰ء میں جنرل مشرف نے مجاہدین کی قیادت کو اعتماد میں لیے بغیر سیز فائر کرانے کی کوشش کی اور اب حُریت کانفرنس کو شامل کیے بغیر بھارت سے مذاکرات کیے جارہے ہیں، جس سے حُریت کانفرنس کے تقسیم ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے‘‘۔ اس طویل ملاقات کی تفصیل میں جانے کا وقت نہیں،لیکن اس ملاقات میں گیلانی صاحب کے اخلاص اور جموں و کشمیر کی آزادی کے ساتھ اُن کی کمٹ منٹ کو دیکھ کر میں بہت متاثر ہوا۔
سیّد علی شاہ گیلانی کے ساتھ دوسری ملاقات دہلی میں پاکستان کے ہائی کمشنراشرف جہانگیر قاضی صاحب کی رہائش گاہ پر ہوئی، جہاں پاکستان سے جانے والے صحافیوں کے اعزاز میں عشائیہ تھا۔ یہاں دہلی کی جامع مسجد کے امام سیّد عبداللہ بخاری [۱۹۲۲ء-۲۰۰۹ء]نے میرے سامنے گیلانی صاحب کے بارے میں کچھ سخت باتیں کیں اور کہا کہ ’’گیلانی صاحب آزادی کی بات نہیں کرتے بلکہ جہاد کی بات کرتے ہیں،جس سے بھارتی مسلمانوں کے لیے مشکلات پیدا ہوتی ہیں‘‘۔
گیلانی صاحب قریب ہی کھڑے تھے۔میںنے اُنھیں متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’ذرا سنیے، یہ بخاری صاحب کیا کہہ رہے ہیں ؟ گیلانی صاحب نے امام عبداللہ بخاری سے کہا:’’اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں جموں وکشمیر ایک متنازعہ خطہ ہے اور ایک متنازعہ خطے میں آزادی کی بات کرنا کوئی جرم نہیں‘‘۔ اس پر عبداللہ بخاری صاحب نے غصے میں کہا:’’کشمیر بھارت کا حصہ ہے، آپ پاکستان چلے جائیں‘‘۔ یہ سُن کر ’حریت کانفرنس‘ میں جموں و کشمیر پیپلزلیگ کے سربراہ شیخ عبدالعزیز [م:۱۱؍اگست ۲۰۰۸ء]کو تائو آگیا ،انھوں نے کہ ’’ہم کشمیر کو آزاد ضرور کرائیں گے اور پھر تمھیں ویزا لے کر کشمیر آنا پڑے گا‘‘۔ یہ سُن کر بخاری صاحب وہاں سے کھسک گئے۔ گیلانی صاحب مجھے ایک کونے میںلے گئے اور کہا:’’پاکستان کو اقوام متحدہ کی قراردادوں سے نہیں ہٹنا چاہیے، چناب فارمولے یا کسی اور فارمولے پر بات نہیںکرنی چاہیے‘‘۔
’مشرف واجپائی مذاکرات‘ کا کوئی نتیجہ نہ نکلا اورہم پاکستان واپس آگئے۔ لیکن اس کے بعد بھی محترم سیّد علی گیلانی صاحب سے فون پر رابطہ رہتا تھا۔ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ ء کو نیو یارک اور واشنگٹن میں حملوں کے بعد مشرف نے افغان پالیسی تبدیل کی تو گیلانی صاحب کا خیال تھا کہ ’’اس پالیسی کا پاکستان کو نقصان ہوگا‘‘۔مشرف نے گیلانی صاحب کو پیغام بھیجا کہ ’’پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کریں‘‘۔ایک دن گیلانی صاحب نے فون پر بڑے دُکھی لہجے میں کہا: ’’میںتو اپنے آپ کو پاکستانی سمجھتا ہوں، لیکن مشرف صاحب فرماتے ہیں کہ پاکستان کا آپ سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔
مشرف کی طرف سے بلوچستان میں فوجی طاقت کے استعمال سے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی پوزیشن کمزور ہوگئی تھی۔ گیلانی صاحب، بلوچ بھائیوں کے ساتھ مذاکرات کے حامی تھے۔ وہ جو بھی کہتے اور کرتے تھے اُس میں پاکستان کے مفاد کو مقدم رکھتے تھے اور پاکستان کے طاقت ور حکمرانوں کی ناراضی کو بالکل خاطر میںنہیںلاتے تھے۔ اُن کی اسی حق گوئی کے باعث حریت کانفرنس میں گروپ بندی کرادی گئی۔
وہ ایک طرف بھارتی حکمرانوں کے عتاب کا نشانہ تھے تو دوسری طرف جنرل مشرف کی حکومت اُن سے ناراض تھی، لیکن اُنھوں نے مشرف کی ناراضی کو پاکستان سے اپنی محبت پر اثرانداز نہیںہونے دیا۔ کچھ عرصے کے بعد اُنھوںنے میر واعظ عمر فاروق اور یاسین ملک کے ساتھ مل کر کشمیری قیادت کو متحد کردیا۔ اس اتحاد سے گھبراکر بھارتی حکومت نے اُن سمیت کئی کشمیری رہنمائوں کو پھر نظر بند کردیا۔گیلانی صاحب کی قید وبند ۱۹۶۲ ء میں شروع ہوئی اور ۲۰۲۱ء میں اُن کی وفات کے بعد اُن کے جسد خاکی کو بھی اطمینان سے دفنانے نہ دیا گیا۔
فروری ۲۰۲۱ء میں پاکستان اور بھارت نے کنٹرول لائن پہ کمانڈروں کی سطح پر سیز فائر کا اعلان کیا، تو گیلانی صاحب نے پاکستان میں عمران خان کی حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے ایک بیان جاری کیا اور کہا کہ ’’جس معاہدے سے قبل کشمیری قیادت کو نہ پوچھا جائے وہ دیر پا ثابت نہیں ہوگا۔ انڈیا کے حکمرانوں کی طرف سے یہ قدم محض اپنے اُوپر دبائو کم کرنے کے لیے ایک ہتھکنڈے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔اس لیے پاکستان کو ایسے نمایشی اقدامات میں پھنسنے سے اجتناب کرنا چاہیے، اور عالمی سطح پر کشمیریوں کے تسلیم شدہ حق خود ارادیت کے لیے ہی ثابت قدمی کا ثبوت دینا چاہیے‘‘___گیلانی صاحب دنیا سے چلے گئے اور وہ مقتدر حضرات جنھوں نے بھارت کے ساتھ سیزفائر کیا تھا، آج پاکستان کے خلاف بھارت کی سازشوں پر چیخ پکار کررہے ہیں اورگیلانی صاحب ایک دفعہ پھر سچے ثابت ہوگئے۔
علی گیلانی صاحب کی محبت پاکستان اور پاکستان کے لوگوں سے تھی۔وہ پاکستان کے حکمرانوں سے ڈکٹیشن نہیںلیتے تھے کہ ڈکٹیشن لینے والے حریت پسند نہیں ہوتے بلکہ غلامی پسند ہوتے ہیں۔ کشمیریوں پر آج ایک مشکل وقت ہے۔یہ مشکل وقت ان شاء اللہ ایک دن ختم ہوجائے گااور مؤرخ لکھے گا کہ ایک مرد قلندر سید علی شاہ گیلانی ؒ تھا، جو آخری وقت تک دشمن کی سازشوں کا مقابلہ کرتا رہا۔
گیلانی ؒصاحب کو زیادہ تکلیف اپنے دشمنوں کی سازشوں سے نہیں تھی بلکہ زیادہ تکلیف اپنوں کی سازشوں سے تھی۔ اُنھوں نے پاکستان کی محبت اور تحریک آزادی کے مفاد میں اس موضوع پر اپنی زبان نہیں کھولی، لیکن تاریخ خاموش نہیںرہے گی۔
میںبڑی عاجزی سے اُن سب افراد سے گزارش کرتا ہوں، جنھوں نے آخری دنوں میں گیلانی صاحب کو دُکھ پہنچائے، کہ وہ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لیں اور ممکن ہوتو اپنی غلطیوں کا کھل کر اعتراف کرلیں۔آج نہیں تو کل، سیّدعلی گیلانی صاحب کو دُکھ دینے والے بے نقاب ہوجائیں گے۔گیلانی صاحب کو تاریخ سرخرو کرے گی اور اُنھیں دُکھ دینے والوں کے پاس ندامت کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔(خصوسی تحریر کشمیر الیوم ،اکتوبر ۲۰۲۱ء)