بنگلہ دیش کے ممتاز عالم دین، کرشماتی شخصیت، شان دار خطیب، بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے نائب امیر، سابق ممبر بنگلہ دیش پارلیمنٹ اور مفسرقرآن علّامہ دلاور حسین سعیدی ۱۴؍اگست ۲۰۲۳ء کو جیل کی کال کوٹھڑی سے، دل کے دورے کے بعد تشویشناک حالت میں ہسپتال منتقل ہونے کے چند گھنٹوں بعد انتقال کرگئے، انا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون!
جناب دلاور حسین سعیدی کی عمر ۸۴برس تھی۔ وہ ۲فروری ۱۹۴۰ء کو ضلع فیروز پور کے گائوں سید کھلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد گرامی یوسف سعیدی ممتاز عالم دین تھے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم والد ماجد سے حاصل کی۔سرسینا عالیہ مدرسہ سے عالم اور ۱۹۶۲ء میں کھلنا کے عالیہ مدرسہ سے کامل کی سند لی۔ وہ قرآن، حدیث، فقہ، فلسفہ، معاشیات، خارجہ تعلقات، نفسیات اور ادبیات کا گہرا مطالعہ رکھتے تھے۔ اسی طرح بنگلہ کے علاوہ اُردو، عربی، فارسی اور انگریزی میں مطالعہ کی قابلیت رکھتے تھے۔ بنگالی، اُردو اور عربی میں بڑی روانی سے خطاب فرماتے تھے۔ آپ سولہ بلندپایہ کتب کے مصنف تھے۔ دلاور سعیدی بنگلہ دیش بننے کے گیارہ برس بعد ۱۹۸۲ء میں جماعت اسلامی کے رکن بنے، ۱۹۸۹ء میں جماعت کی مجلس شوریٰ کے رکن منتخب ہوئے اور تھوڑے عرصے بعد بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے نائب امیر مقرر ہوئے۔ وہ اس ذمہ داری پر آخری لمحے تک فائز رہے۔ ضلع فیروزپور، حلقہ نمبر ایک سے ۱۹۹۶ء اور پھر ۲۰۰۱ء میں بھاری اکثریت کے ساتھ ممبر پارلیمنٹ منتخب ہوئے۔یاد رہے کہ اس حلقے میں ہندو آبادی بنگلہ دیش کے کسی بھی حلقے سے زیادہ ہے۔
۱۹۶۷ء سے انھوں نے اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لیے وقف کردیا، اور آخری قید سے پہلے بنگلہ دیش کے علاوہ دنیا کے تقریباً ۵۰ممالک میں درس و تعلیم کے لیے سفر پر گئے۔ درس قرآن میں وہ قرآنی آیات کی تفسیر اس انداز سے کرتے کہ سامعین کو یوں لگتا جیسے ہرآیت، ایک ایک فرد کو پکار رہی ہے، جھنجھوڑ رہی ہے اور دین کے لیے کام پر اُبھار رہی ہے۔ اسی لیےبچّے، جوان، بزرگ، خواتین و حضرات لاکھوں کی تعداد میں ان کے دروس میں شرکت کرتے۔ انھیں جلسے کے انعقاد کے لیے کسی اشتہار یا اعلان کی ضرورت نہیں ہوتی تھی، بلکہ فیصلہ ہوتے ہی سینہ بہ سینہ یہ خبر پورے علاقے میں خوشبو کی طرح پھیل جاتی۔ انھوں نے جماعت اسلامی کو بنگلہ دیش کی عوامی جماعت بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔وہ علّامہ اقبال کے کلام کے حافظ تھے اور مولانا مودودی سے محبت رکھتے تھے۔
علّامہ دلاور حسین سعیدی کو بھارت کی پشت پناہی میں قائم عوامی لیگی حسینہ واجد حکومت نے جعلی، من گھڑت اور افسانوی الزامات کے تحت ۲۹جون ۲۰۱۰ء کو گرفتار کیا اور جیل میں لے جاتے ہوئے کہا: ’’جماعت کو چھوڑنے کا اعلان کردو تو مقدمہ واپس لے لیں گے‘‘۔ مگر انھوں نے اس پست درجے کی سودے بازی کا حصہ بننے سے انکار کردیا۔ عوامی لیگی حکومت کے قائم کردہ نام نہاد ’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل‘ کے جج فضل کبیر نے اپنے دوساتھیوں کے ہمراہ سعیدی صاحب کے گواہوں کو سنے بغیر یک طرفہ طور پر ۲۸فروری ۲۰۱۳ء کو سوا بارہ بجے انھیں سزائے موت سنائی۔ اس اعلان پر سرکاری وکیل نے کہا: ’’سعیدی کے لیے موت کی سزا کا حکم نامہ سن کر بہت خوشی ہوئی ہے‘‘۔ اگلے ہی لمحے ڈھاکا میں کمیونسٹوں کے اخبار ڈیلی اسٹار کے انٹرنیٹ ایڈیشن نے سرخی جمائی: Sayeedy to be hanged، اور انڈین ٹیلی ویژن NDTV نے بار بار یہ خبر نشر کی: Senior Jamaat Leader Sayeedy gets Death Sentence.
نام نہاد جج نے جب سزائے موت کا فیصلہ سنایا، تب سعیدی صاحب نے جو ہاتھ میں قرآن تھامے ہوئے تھے، کٹہرے سے ٹریبونل کے جج کو مخاطب کرکے مضبوط لہجے میں کہا: ’’میں نے ان میں سے کوئی جرم نہیں کیا اور آپ نے یہ فیصلہ اپنے دل اور دماغ کی گہرائی اور انصاف کی زبان سے نہیں سنایا۔ میں اپنا معاملہ اللہ کی عدالت پہ چھوڑتا ہوں‘‘ اور کسی قسم کی گھبراہٹ کے بجائے باوقار انداز سے چلتے ہوئے قیدیوں کی ویگن میں قدم رکھا۔ سعیدی صاحب کے وکیل بیرسٹر عبدالرزاق نے صحافیوں سے کہا: ’’علّامہ سعیدی، عدل و انصاف کے قلم سے نہیں بلکہ بے انصافی، جھوٹ اور سفاکی کے خنجر سے، ایک گھنائونے سیاسی انتقام کا نشانہ بنائے گئے ہیں‘‘۔ سعودی اخبار نے لکھا: ’’سعیدی کی پھانسی کے فیصلے نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ ٹریبونل ایک کینگرو کورٹ ہے‘‘(سعودی گزٹ، ۷مارچ ۲۰۱۳ء)۔ ایک سال قبل ’امریکن سوسائٹی آف انٹرنیشنل لا‘ ۲۱جون ۲۰۱۱ء کی رپورٹ نے اس ٹریبونل کی قانونی حیثیت کو مضحکہ خیز قرار دے کر مسترد کردیا تھا۔اس فیصلے کی خبر سنتے ہی پورے بنگلہ دیش میں احتجاجی ہنگامےپھوٹ پڑے، جس میں ۱۵۰ سے زیادہ مظاہرین پولیس فائرنگ سے شہید ہوگئے۔ وکلا نے سپریم کورٹ میں اپیل کی، جس نے ۱۷ستمبر ۲۰۱۴ء کو سزائے موت کو تادمِ مرگ جیل میں قید کی صورت تبدیل کر دیا۔
جناب سعیدی کے مقدمے کا ایک شرمناک پہلو یہ ہے کہ ضلع فیروزپور میں ۱۹۷۱ء میں ایک ہندو کے قتل کا الزام بھی ان پر لگایا گیا۔ لیکن اس مقتول کے بھائی سکرنجن بالی نے سرکاری گواہ بن کر، سعیدی صاحب کے خلاف گواہی دینے کے بجائے، تمام زور زبردستی کے باوجود اُن کے حق میں گواہی دینے کا فیصلہ کیا اور کہا: ’’علّامہ سعیدی ہمارے محسن ہیں اور ہمیں ان سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ اُن پر میرے بھائی کے قتل کا الزام جھوٹا ہے، پچھلے چالیس برسوں میں ہم نے سعیدی صاحب پر یہ الزام لگانے کا کبھی سوچا تک نہیں‘‘۔ یہ گواہی دینے کے لیے سکرنجن ۵نومبر۲۰۱۲ء کو خصوصی ٹریبونل پہنچ گیا، جہاں گیٹ ہی سے نامعلوم افراد نے اسے اغوا کرلیا۔ اخبار New Age نے پانچ ماہ بعد اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا: ’’پولیس کی برانچ (Deductive Branch) نے سکرنجن کو اغوا کرلیا، اور پھر چھ ہفتے کی غیرقانونی حراست کے بعد دسمبر ۲۰۱۲ء میں اسے انڈین بارڈر سیکورٹی فورس (BSF) کے سپرد کردیا، جس نے ڈم ڈم جیل، کلکتہ میں اسے قید کردیا۔ مارچ ۲۰۱۳ء سے کسی طرح اس کے خاندان کو اس بات کا علم ہوا تو وہ انڈیا پہنچے، جنھیں ۸جون ۲۰۱۳ء کو سکرنجن بالی نے بتایا: ’’مجھے بنگلہ دیش کی نقاب پوش خفیہ پولیس نے اغوا کرکے ایک سیل میں پہنچایا اور کہا: ’’تم سعیدی کے حق میں کیوں گواہی دیتے ہو؟ اس نے تو پھانسی کی سزا پانی ہی ہے، مگر اس طرح تم بھی قتل کر دیئے جائو گے‘‘۔ بالی نے بتایا: ’’مجھے بنگلہ دیشی خفیہ پولیس اہل کاروں نے کہا: ’’تمھیں سعیدی کے بڑے بیٹے ’بلبل سعیدی نے ورغلایا ہے‘‘، حالانکہ وہ بےچارا مئی ۲۰۱۲ء ہی میں پولیس کے دعوے کے مطابق ہارٹ اٹیک سے فوت ہوگیا۔ اگرچہ مجھے ہارٹ اٹیک والے پولیس کے اس دعوے پر بھی شک ہے۔ میں نے کہا: ’’مجھے کسی نے نہیں ورغلایا، میں ایک بے گناہ فرد کے خلاف جھوٹی گواہی دینے کو جرم سمجھتے ہوئے ایسا کرنے سے انکار کر رہا ہوں‘‘۔
اس شرمناک مثال پر برطانیہ کے معتبر رسالے The Economist نے اپنی رپورٹ میں لکھا: ’’اسرائیل کی خفیہ پولیس نے ۱۹۶۱ء میں ارجنٹائن سے جرمن ایل ایچ مین کو اغوا کرکے اسرائیل پہنچایا، ۲۰ سال پرانے ہولوکاسٹ جنگی جرائم کا ذمہ دار قرار دے کر مقدمہ چلایا۔ بالکل اسی طرح بنگلہ دیش میں ’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل‘ میں چالیس سال پرانے الزامات کے تحت وہ مقدمے چلائے جارہے ہیں، جو نہ کبھی درج ہوئے اور نہ کبھی اُن کا نشانہ بننے والوں کے خلاف آواز اُٹھائی گئی اور ا ب اچانک انھیں پکڑ کر مقدمے چلانے کا ڈراما کھیلا جارہا ہے‘‘۔ (۲۳مارچ ۲۰۱۳ء)
علامہ دلاور حسین سعیدی کی جانب سے قرآنی تعلیم کا پروگرام سالہا سال سے پورے بنگلہ دیش کے ہرضلعی صدرمقام میں پھیلا ہوا تھا۔ اس پھیلائو کی نسبت سے چند مثالیں ملاحظہ کیجیے: lراج شاہی کے گورنمنٹ مدرسہ گرائونڈ میں مسلسل ۳۵برس تک، ہرسال ۳ دن درس دیتے۔ lکھلنا کے سرکٹ ہائوس میدان میں ۳۸برس تک، ہرسال ۳ روز درسِ قرآن دیتے۔ lبوگرہ شہر کے مرکزی میدان میں ۲۵برس تک ۳ روز تک درسِ قرآن دیتے۔ lچٹاگانگ پریڈ گرائونڈمیں ۲۹سال تک ۵ دن باقاعدہ قرآن کا پیغام ہرخاص و عام تک پہنچاتے اور شرکا کی تعداد بلامبالغہ ۶،۷ لاکھ سے زیادہ سامعین پر مشتمل ہوتی۔ lسلہٹ، گورنمنٹ عالیہ مدرسہ گرائونڈ میں مسلسل ۳۳ برس تک ۳روز محفل قرآن کے پروگرام کرتے۔ lڈھاکہ پلٹن میدان اور کملاپور ریلوے میدان میں ۳۴برس تک ہرسال تین، تین روز درس قرآن پروگرام کرتے رہے، جن میں لاکھوں سامعین شرکت کرتے___ ہرجگہ خواتین کی شرکت کے لیے الگ سے انتظامات کیے جاتے جنھیں وہاں کے اہل خیر مل کر یقینی بناتے۔
ڈاکٹر محمد نورالامین (لندن) نے اپنی یادداشت میں لکھا: ’یہ ۱۹۷۹ء کی بات ہے کہ میں نواکھالی ڈسٹرکٹ اسکول گرائونڈ میں سنجیدگی یا اخلاص کے ساتھ نہیں بلکہ مذاق اور شغل کے جذبے کے تحت سعیدی صاحب کے درس میں شریک ہوا۔ وہاں چند منٹوں کا خطاب سننے،اور ہرجملے میں براہِ راست قرآن کریم کا مخاطب ہونے پر یہ سوچتا رہ گیا کہ مجھ سے قرآن مخاطب ہے یا یہ فاضل مقرر مجھے پکار رہے ہیں۔ میرا یہ ارادہ کہ چند منٹ تماشا دیکھ کر واپس چلا آئوں گا، ریت کی دیوار ثابت ہوا، اور مَیں وہیں دیر تک کھڑا خطاب سنتا رہا۔ علّامہ سعیدی کا اندازِ گفتگو، طرزِ استدلال، سنجیدگی، علمی گہرائی اور وسعت، دردمندی، اخلاص اور دل کی دُنیا کو جھنجھوڑتی باوقار آواز___ بتانہیں سکتا کہ ایک خطاب میں کتنے رنگ میرے دل و دماغ کی دُنیا کو ایک نئے پہلو سے متعارف کرانے کا ذریعہ بن گئے۔مولانا سعیدی نے ہماری روز مرہ کی زندگی کے بڑے بڑے مسائل کو اُٹھایا، قرآن و سنت کی روشنی میں ان کا فی زمانہ حل بتایا اور سامعین کو کام کا عملی منصوبہ تھمایا۔ان کی گفتگو میرے لیے اتنی دل پذیر اور روح پرور بن گئی کہ وہیں شامیانے کے نیچے بیٹھ گیا اور اختتام تک خطاب سنتا رہا۔ تب میرے لیے اس میں حیرت کا یہ زاویہ بھی تھا کہ قرآن، عربی، یادداشت اور موزوں الفاظ کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ وہ جدید سائنسی علوم کے سماجی پہلوئوں پر کامل گرفت کے ساتھ کلام کرنے کی صلاحیت سے سرفراز تھے‘‘۔
بنگلہ دیش میں کس قسم کی سفاک، فاشسٹ اور بھارت کی آلۂ کار پارٹی، عوامی لیگ گذشتہ پندرہ برسوں سے حکومت کر رہی ہے؟ اس کا اندازہ محض چند مثالوں سے لگایا جاسکتا ہے۔ یہ چند خبریں عوامی لیگ کے اُس مزاج کا اچھا تعارف کرا دیتی ہیں، جس مزاج کے ساتھ اُس نے ۱۹۶۹ء سے مشرقی پاکستان پر قبضہ جمایا، ۱۹۷۰ء میں تمام مدِمقابل متحدہ پاکستان کی حامی پارٹیوں کو تشدد کرکے میدان سے باہر نکال دیا، اور ۱۰دسمبر ۱۹۷۰ء کو پولنگ اسٹیشنوں پر قبضہ کرکے من مانا، سوفی صد نتیجہ حاصل کر لیا، جسے عقل کے اندھے دانش ور ’’شفاف ترین الیکشن اور بنگلہ دیش کے حق میں ریفرنڈم‘‘ قرار دیتے ہیں۔ جس مزاج کے ساتھ ۷۰سال پہلے عوامی لیگ کو بنایا، اُٹھایا اور غالب کرایا گیا تھا۔ اُس کی جانب سے آج بھی وہی فاسد خون بنگلہ دیش کی نئی نسل میں منتقل کیا جا رہا ہے:
علّامہ سعیدی کی زندگی ایک دینی اور قومی ہیرو کی سی زندگی کا عنوان ہے۔ جس میں عقیدت بھی ہے اور عظمت بھی۔ سچائی پر جم کرکھڑے ہونے کا پیغام بھی ہے اور حق کے لیے جان دینے کے اسوئہ حسینیؓ سے وابستگی کا روشن نقش بھی۔ انھوں نے دین سے محبت، قرآنی تعلیم و تدریس کے شوق اور سیاست میں خدمت کی شاہراہ پر چلتے ہوئے، خوشی خوشی اپنی قتل گاہ تک کا سفر طے کیا۔ علّامہ دلاور حسین سعیدی نے نہ صرف بنگلہ دیش بلکہ برصغیر جنوبی ایشیا کے تمام ممالک میں اسلامی تاریخ کے دبستانوں پر اَن مٹ اثرات چھوڑے ہیں، جن سے آیندہ نسلیں سبق اور عزم کی سوغات پاتی رہیں گی، گفتگو کرتی رہیں گی۔
سوائی مادھوپور، راجستھان ،انڈیا سے بلندپایہ شاعر جناب سرفراز بزمی نے اس موقعے پر کہا:
سفید ریش، جبینوں پہ ضوفگن سجدے
فرشتے دار پہ آتے ہیں مسکراتے ہوئے
رہ وفا کے شہیدو، سلام ہو تم پر
تمھی تو غیرتِ اُمت کی آن بان ہوئے
جھکے نہ نخوتِ شاہی کے آستانے پر
بلا سے راہِ وفا میں لہولہان ہوئے