چند در چند وجوہ اور منفی پروپیگنڈے کی بنیاد پر خواتین کے حوالے سے بحث کو صرف اسلام اور مسلمانوں سے منسلک کر دیا گیا ہے۔ اس طرح جہاں ’اسلام اور خواتین‘ ایک وضاحتی مسئلہ بن گیا ہے، وہیں اسلامی تحریکوں کے سامنے اس پہلو سے غوروفکر کے امکانات نمایاں ہوئے ہیں۔
شیخ عبد الحلیم ابو شقہ نے کتاب : خواتین کی آزادی عہد رسالتؐ میں، میں اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ آج کی مسلمان عورت دو جاہلیتوں میں سے کسی ایک کا شکار ہو کر رہ گئی ہے۔ ایک طرف’’ چودھویں صدی ہجری میں پائے جانے والے غلو، تشدد اور آبا و اجداد کی اندھی تقلید کی جاہلیت‘‘ ہے، اور دوسری طرف ’’بیسویں صدی عیسوی میں پائی جانے والی برہنگی، اباحیت اور مغرب کی اندھی تقلید کی جاہلیت‘‘ ہے، اور یہ دونوں جاہلیتیں اللہ کی شریعت سے بغاوت کے مترادف ہیں۔ ۲۸ مسلم عورت روایت اور تجدد کی ان دونوں جاہلیتوں کے درمیان پس کر رہ گئی ہے۔
فاضل مصنف کا خیال ہے کہ عورت معاشرے کا نصف حصہ ہے، لیکن وہ ایک طرح سے عضوِ معطل کی مانند ہے، کیوں کہ وہ ایک مجاہد نسل پیدا نہیں کر رہی ہے اور نہ اُمت مسلمہ کی سیاسی و معاشرتی بیداری میں حصہ لے رہی ہے۔ لہٰذا، مسلم عورت کی آزادی مسلمان معاشرے کے نصف حصے کی آزادی ہے اور عورت اس وقت تک آزاد نہیں ہو سکتی، جب تک مرد نہ آزاد ہو اور دونوں اسی صورت میں آزاد ہو سکتے ہیں جب اللہ کی شریعت و ہدایت کا اتباع کیا جائے۔۲۹
۱- باقی ماندہ جاہلی عادات و رسوم کے اثرات، خواہ عرب جاہلیت کی رسوم ہوں یا اسلام میں داخل ہونے والی دوسری اقوام کی رسوم و روایات۔
۲- مسلم معاشرے میں موجود تشدد اور غلو کے رجحانات۔
۳- بعض علماے سلف کے اجتہادات کی تقلید۔
۴- ائمہ کے بعض اقوال، احادیث کی میزان پر تولے نہیں جا سکتے اور خود حدیث پر تحقیق کی ضرورت و اہمیت۔ ۳۰
دورِ نبویؐ میں خواتین کو جو مقام و مرتبہ حاصل تھا اور وہ جن حقوق اور آزادیوں سے بہرہ ور تھیں، انھیں بحال کرنا اسلامی تحریکوں کی ترجیحات میں داخل ہے۔ دعوت و اصلاح اور تجدید و احیا کا کام تشفی بخش طریقے سے اسی وقت انجام پا سکتا ہے، جب کہ معاشرے کے اس نصف حصے کی سماجی زندگی اسلام کی روشنی میں بحال ہو۔
۱- دین کا ناقص فہم ، ۲- نااہل اور بددیانت افراد کا قیادت کے منصب پر فائز ہونا، ۳-دین سے خواتین کے تعلق کی کم زوری، ۴- اساطیری تصور مذہب پر بڑھتا ہوا یقین۔ ۳۱
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کی روایت ہے کہ حضرت عمرؓ کی ایک بیوی مسجد نبویؐ میں فجر اور عشاء کی نماز یں جماعت سے ادا کرتی تھیں۔ ان سے پوچھا گیا: ’’آپ گھر سے باہر کیوں نکلتی ہیں؟ جب کہ آپ کو معلوم ہے کہ عمرؓ اسے سخت ناپسند کرتے ہیں اور خلافِ غیرت تصور کرتے ہیں‘‘۔ انھوں نے کہا: ’’پھر وہ مجھے حکماً کیوں نہیں روک دیتے؟‘‘ لوگوں نے کہا: ’’انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد روک رہا ہے کہ ’’ اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں میں جانے سے مت روکو‘‘۔ ۳۲ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے یہ حدیث روایت کی تو ان کے بیٹے نے کہا: ’’بخدا، ہم انھیں مسجدوں میں نہیں جانے دیں گے‘‘۔ باپ بیٹے پر سخت ناراض ہوئے اور ان کی یہ ناراضی آخر تک برقرار رہی۔
اس تاریخی واقعے کو نقل کر کے شیخ الغزالی تأسف کا اظہار کرتے ہیں:’’یہ عجیب معاملہ ہے کہ ملت اسلاامیہ اپنے آخری ادوار میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کے صاحب زادے کے مسلک کی تو قائل ہو گئی، لیکن باپ کی روایت کر دہ حدیث سے اس نے نظریں پھیر لیں۔ چنانچہ پنج وقتہ نمازوں کی مسجدوں میں ادایگی اور خطبات و دروس کی سماعت و استفادے سے عورتیں آج تک محروم چلی آرہی ہیں۔مسجدوں سے عورتوں کو محروم کرنے کی یہ روش پوری تاریخ میں برقرار رہی، جس کی وجہ سے مسلم خاندان کا زبردست نقصان ہوا اور فرض عبادات سے بھی ان کا رشتہ ٹوٹ گیا‘‘۔ ۳۳
ڈاکٹر فضل الرحمٰن فریدیؒ خواتین کے حقوق سے غفلت اور غیر دانش مندانہ حکمت عملی اختیار کرنے کو تحریک اسلامی کے لیے مضر خیال کرتے ہیں۔ ان کا درمندانہ تجزیہ یہ ہے کہ: علماے دین اور اسلامی تحریکوں کو خواتین کے معاملے میں ’دفاع اور تحفظ‘ کی جگہ اسلامی نقطۂ نظر کا پوری قوت سے اثبات کرنا چاہیے اور اقدامی انداز اختیار کرنا چاہیے۔ ایسا اثبات کہ جس سے ایک طرف اسلامی نظام فکر کی خیر و برکات اور اس کا توازن اور عدل واضح ہوتے جائیں اور دوسری طرف عصری نقطۂ نظر کی بنیادیں منہدم ہوتی چلی جائیں، اور اس کی اساس پر تشکیل پانے والے معاشرے کی خیرہ کن تاب ناکی کے پس پردہ تاریکیوں کی جھلک بھی دکھائی جاتی رہے۔
اس اثبات کا محور ، ڈاکٹر فریدی کے الفاظ میں: ’’اسلامی نظام فکر و عمل اور اس کے اصول و اقدار ہوں گے۔ ان کی واضح اور جرأت مندانہ تفسیر اور تعبیر کی ضرورت ہے۔ خواتین کے کردار کے اس اثبات کا مطلب اُس تاریخی ثقافت اور ان تمام اداروں کا اثبات ہر گز نہیں ہے، جسے ملّتِ اسلامیہ نے اپنے طویل سفر میں اپنی اجتماعی زندگی کا لازمی جزو بنا لیا ہے۔ ہمارے رجحانات اور ہماری مرضیات ، ہمارے رسم و رواج اور ہماری کلچر ل اقدار، ان سب سے نکھار کر اس کا اثبات اور توضیح وقت کا بھی تقاضا ہے اور ہماری دینی ذمہ داری بھی‘‘۔ ۳۴
ڈاکٹر فریدی کو اس بات کا ادراک ہے کہ علماے اُمت نے ہر دور میں خواتین کے حقوق اور ازدواجی تعلقات کے متعلق اسلامی بنیادوں کی تعلیم اور تشریح کے ذریعے اصلاح کی جدو جہد جاری رکھی، مگر ان پر بھی تحفظ کا داعیہ غالب آگیا۔ خطرے کے مبالغہ آمیز احساسات کی وجہ سے اس امر کا اہتمام نہ کیا جا سکا کہ حقیقی اسلامی اقدار اور کلچر کے حشو و زوائد کو ممیز کیا جاتا رہے، بلکہ دین دار حلقوں کی ہمت افزائی کی گئی کہ جو کچھ بھی سرمایہ موجود ہے، اس کو برقرار رکھا جائے اور انحطاط سے بچایا جائے۔ تحفظ کی اس جدو جہد میں اسلامی تعلیمات اور مسلم کلچر کی تفریق کا لحاظ نہ کیا جا سکا۔ ۳۵
۱- مدینہ کے معاشرے میں بھی غلط عناصر موجود تھے، ا گر چہ ان کی تعداد حد درجہ قلیل تھی۔ منافقین ہر وقت گھات لگائے رہتے تھے۔
۲- قرآن کریم کے احکام ہر معاشرے کے لیے ہیں، خواہ وہ مدینہ منورہ کا پاکیزہ معاشرہ ہو، یا آج کاا باحیت زدہ ماحول۔ ۳۶
۱- خواتین کی عمومی مظلومیت کو دُور کرنے اور ان کو انسانی حقوق دلانے کی عام جدوجہد ۔
۲- اجتماعی امور میں ان کے اشتراکِ عمل میں اضافے کی جدو جہد ۔
۳- خواتین سے جہالت دُور کرنے اور تعلیم کے ممکنہ وسائل بہم پہنچانے کی جدو جہد ۔
۴- عائلی زندگی میں خواتین کو منصفانہ حقوق دلانے کی جدو جہد ۔
۵- عورت کو مرد سے کم تر سمجھنے کے نقطۂ نظر کی اصلاح۔
۶- معاشی زندگی میں عورت کو استقلال عطا کرنے کی جدو جہد ۔ ۳۷
ڈاکٹر فریدی مرحوم ان رجحانات کو بلا سوچے سمجھے تسلیم کرنے کا مشورہ نہیں دیتے، کیوں کہ ان کے علَم بردار بالعموم دین و مذہب سے بیگانہ ہیں۔ ان کی فکر میں ژولیدگی اور ابہام ہے۔ ان کی تعبیریں خواہش نفس اور تجدد کی ترجمان ہیں، اور ان میں افراط و تفریط بھی ہے اور رد عمل بھی۔ اگر اسلامی تحریک کوشش کرے تو اسلام کے عادلانہ اور متوازن فکر کے طفیل ان قدروں کا متوازن امتزاج اس طرح پیش کیا جا سکتا ہے، جو عصری اصطلاحات کی زبان میں سمجھ میں آسکے۔ ۴۰
بیسویں صدی میں مغرب کے لادینی نظام کی حقیقت کو بیان کرنے کے لیے اسلامی تحریکوں نے بلاشبہہ عظیم الشان لٹریچر تیار کیا ہے۔ جس نے مغرب کے الحاد پر تنقید کے ساتھ اس کے استعماری عزائم کو بھی بے نقاب کیا ہے۔ مغرب کی فکری و عسکری یلغار نے مسلمان علما و مصلحین کو آمادہ کیا کہ وہ ایک نئے علم الکلام کے ذریعے اسلام کی حقانیت پر مسلمانوں کے ایمان و اعتقاد کو بحال کریں اور عقلی استدلال کے ساتھ غیرجانب دار اسلوب میں نظام زندگی کے مختلف پہلوؤں کی وضاحت کریں۔
علّامہ محمد اقبال(۱۸۷۷ء-۱۹۳۸ء)، سیّد مودودی(۱۹۰۳ء-۱۹۷۹ء)، سید ابو الحسن علی ندوی (۱۹۱۴ء- ۱۹۹۹ء) مریم جمیلہ (۱۹۳۴ء- ۲۰۱۲ء)، سیّد قطب (۱۹۰۶-۱۹۶۶ء)، محمد قطب (۱۹۱۹ء-۲۰۱۴ء)، محمدالغزالی (۱۹۱۷ء-۱۹۹۶ء)، ڈاکٹر علی شریعتی (۱۹۳۳ء-۱۹۷۷ء)، طارق رمضان (پ:۱۹۶۲ء) پروفیسر خورشید احمد (پ: ۱۹۳۲ء)، مالک بن نبی (۱۹۰۵ء-۱۹۷۳ء)، بدیع الزماں سعید نورسی (۱۸۷۳ء- ۱۹۶۰ء) جیسے دانش وروں اور علما کی ایک قوسِ قزح ہے، جس نے مغربی فکر و فلسفہ کے خلاف اسلام کی صداقت ، معقولیت اور نافعیت کوثابت کرنے کے لیے اپنے اپنے ملکوں میں دینی و فکری ادب عالیہ تیار کیا۔ اس لٹریچر کا بین الاقوامی زبانوں میں ترجمہ ہوا، جس کی وجہ سے اس کے اثرات کسی ایک خطے تک محدود نہ رہ سکے۔ دھیرے دھیرے مغربی فکر سے مرعوبیت ، احساس کم تری اور معذرت خواہانہ ذہنیت کا خاتمہ ہوا۔ مسلم نوجوان اسلام و ایقان کی دولت سے مالا مال ہوکر دعوت و احیاے دین کی جدو جہد میں لگ گئے۔
مغرب نے اسلامی تحریکوں کو بدنا م کرنے اور احیاے اسلام کے مشن کو ناکام بنانے کے لیے عسکری، ابلاغی، مذہبی اور علمی تمام حربے اختیار کیے، مگر عالم اسلام میں مغرب کے خلاف نفرت بڑھتی گئی اور اسلامی تحریکوں کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ رفتہ رفتہ بعض عوامل کے تحت پوری غیر مسلم دنیا مسلمانوں کی نفرت میں محارب اور معاند بن گئی۔ امریکا اور مغرب کی جارحیت پسند حکومتیں ہی نہیں، وہاں کے عوام بھی دشمنوں کی صف میں کھڑے کر دیے گئے اور ان سے مسلمانوں کا باہمی تعلق اور انسانی تعامل تھم گیا ، جس کے نتیجے میں دعوت اسلامی کا دائرۂ کار عملاً مسلمانوں کے اندر محدود ہو کر رہ گیا۔ اس کا براہ راست نقصان اسلامی تحریکوں کو پہنچا۔ اسلام، مسلمان اور اسلامی تحریک سے مغرب کی دُوری بڑھی۔ دونوں کے درمیان غلط فہمیاں تیزی سے پرورش پائیں۔
طرفہ تماشا یہ ہوا کہ مسلم ممالک کی مغرب نواز قیادت نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اسلامی قائدین کو ہر طرح کی بنیادی سہولتوں اور آئینی و دستوری حقوق سے محروم کیا، بلکہ ان پر بے پناہ ظلم و ستم روا رکھا۔ قیدوبند سے لے کر تختۂ دار تک تمام صعوبتیں ان پر مسلط کر کے ان کی زندگی اجیرن بنا دی۔ردّ عمل میں اسلامی تحریکوں اور مسلم سربراہان مملکت کے درمیان کشاکش بڑھی۔ اوپر سے مغرب نے مسلم ممالک پر مسلط کر دہ رہ نمائوں کی حمایت کی اور انھیں عوام پر بدترین مظالم ڈھانے کی کھلی چھوٹ دے دی۔
جمہوری و انسانی اقدار کی کھلم کھلا خلاف ورزی نے مسلم ممالک میں بھی اور مغرب میں کام کرنے والے بعض افراد، حلقوں اور اداروں کے اندر بھی انتہا پسندی اور تشدد کو فروغ دیا، جس کا خمیازہ آج پوری امتِ مسلمہ کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ بعض حلقے اور جماعتیں پورے مغرب کو دشمن قرار دے کر اس کے خلاف جنگ لڑنے کی نظریہ سازی کر رہے ہیں۔ مسلمانوں اور مغرب کے درمیان یہ کشاکش دعوت اسلامی کو کام کرنے کا موقع نہیں دے رہی ہے۔ مغرب نے مسلمانوں کو مسلسل حالتِ جنگ میں رکھ کر وہاں کے انسانوں سے سماجی و معاشرتی تعامل و تعلقات کی راہ بند کر دی ہے۔ اس پر وقفے وقفے سے انجام پانے والی پُرتشدد کارروائیاں حالات کو اور سنگین بنا دیتی ہیں۔ معصوموں کے قتل عام سے اسلام اور دعوت اسلامی کی تضحیک ، استہزا اور تذلیل میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔
اس صورتِ حال میں استحصالی قوتیں مسلمانوں کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے گنوانا نہیں چاہتیں۔مختلف سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر ان دنوں مسلمانوں سے منسوب ایسی پوسٹوں کا خوب پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے، جس کا مقصد مسلمانوں کو بدنام کرنا اور انھیں انتہاپسند اور دہشت گردی کو فروغ دینے والی قوم کے طور پر لعن طعن کرنا ہے۔ سوشل ویب سائٹس پر ایسی قابلِ اعتراض پوسٹس آئے دن کا معمول بن چکی ہیں جن کا مقصد اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنا ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ عالمی سطح پر مسلمانوں میں بعض ایسے طائفے بھی پیدا ہوچکے ہیں جو صرف جنگ کو اسلام کا تقاضا سمجھتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ عام انسانوں سے تعامل کی قرآنی بنیاد حُسنِ سلوک اور عدل و اانصاف ہے نہ کہ عداوت و نفرت۔ سورۂ ممتحنہ کی آیات ۸-۹ اس باب میں فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہیں، جن میں صراحت ہے کہ جو غیر مسلم تمھارے ساتھ عداوت نہیں برتتے، انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ تم بھی ان کے ساتھ عداوت نہ برتو،بلکہ تم ان کے ساتھ اچھا برتائو کرو۔ آیت ۹ میں مزید صراحت ہے کہ کفار سے ترکِ تعلق کا جو حکم اس سورہ کی ابتدائی آیات میں دیا گیا ہے اس کی وجہ ان کا کفر نہیں، بلکہ اسلام اور اہل اسلام کے ساتھ ان کی عداوت اور ان کی ظالمانہ روش ہے۔
مولانا سیّد ابوالا علیٰ مودودیؒ نے ان آیات کی بہترین تشریح اس واقعے کو قرار دیا ہے جو سیرت و تاریخ کی کتابوں میں حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ اور ان کی کافر والدہ سے متعلق بیان ہوا ہے۔ بخاری ، مسلم اور مسند احمد میں یہ واقعہ مروی ہے کہ حضرت ابو بکرؓ کی ایک بیوی قتیلہ بنت عبد العزیٰ کافر تھیں اور ہجرت کے بعد مکہ ہی میں رہ گئی تھیں۔ حضرت اسما ؓ انھی کے بطن سے پیدا ہوئی تھیں۔ صلح حدیبیہ کے بعد جب مدینہ اور مکہ کے درمیان آمد و رفت کا راستہ کھل گیا تو وہ بیٹی سے ملنے کے لیے مدینہ آئیں اور کچھ تحائف بھی لائیں۔ حضرت اسماء ؓ کی اپنی روایت ہے کہ میں نے جا کر رسولؐ اللہ سے پوچھا: ’’کیا میںاپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کر سکتی ہوں؟‘‘آپؐ نے جواب دیا:’’ ہاں، ان سے صلہ رحمی کرو‘‘۔ حضرت اسماؓ کے صاحب زادے عبد اللہ بن زبیر ؓ اس واقعے کی مزید تفصیل یہ بیان کرتے ہیں کہ پہلے حضرت اسماؓ نے ماں سے ملنے سے انکار کر دیا تھا، بعد میں جب اللہ اور اس کی رسول کی طرف سے اجازت مل گئی تب وہ ان سے ملیں۔ ۳۹
قرآن کریم نے تو یہاں تک ہدایت دی ہے کہ دشمن قوم اگر ظلم و زیادتی کرے تو بھی اس کے جواب میں مسلمانوں کو ناروا ظلم کا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہیے، بلکہ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں سب کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے:
وَ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْام وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی ص وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ ص (المائدۃ ۵: ۲) اور (دیکھو)، ایک گروہ نے جو تمھارے لیے مسجد حرام کا راستہ بند کر دیا ہے تو اس پر تمھارا غصہ تمھیں اتنا مشتعل نہ کر دے کہ تم بھی ان کے مقابلے میں نا روا زیادتیاں کرنے لگو۔( نہیں) جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں، ان میں سب سے تعاون کرو اور جو گناہ زیادتی کے کام ہیں، ان میں کسی سے تعاون نہ کرو۔
اسی سورہ میں آگے اللہ نے حکم دیا ہے کہ دشمنوں کے ساتھ بھی انصاف کرو۔ اس لیے کہ تقویٰ اور خدا ترسی کا تقاضا یہ ہے کہ دوست دشمن سب کے ساتھ عدل و انصاف کیا جائے:
وَ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا ط اِعْدِلُوْا قف ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی ز (المائدۃ۵: ۸) کسی گروہ کی دشمنی تمھیں اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔
اسلامی تحریکیں غیر مسلموں سے انسانیت نواز اور ہمدردانہ تعامل کی ناگزیریت محسوس کرنے لگی ہیں۔ پچھلے دنوں عالمی سطح پر تشدد اور دہشت گردی کے جو ناخوش گوار اور ہول ناک واقعات پیش آئے ہیں اور پورے مغرب میں ’اسلامو فوبیا‘ کی جو لہر پھیلی ہے، اس نے خاص طور پر مسلم تحریکوں کو اپنی پالیسی و پروگرام پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ان کے علما، دانش ور، مصنف اور سماجی کارکن سب محسوس کرنے لگے ہیں کہ دشمن اور غیر دشمن میں تفریق کی جائے۔ جارحیت پسند حکومتوں ، افراد اور اداروں کی تمام تر سازشوں کے باوجود عام انسانوں سے معاشرتی روابط بڑھائے جائیں اور ان سے سماجی تعلقات میں بہتری لائی جائے۔
۷ جنوری ۲۰۱۵ء کو پیرس میں چارلی ہیبڈو میگزین کے دفاتر میں خود کش بندوق برداروں نے حملہ کر کے اس کے ۱۰ کارکنوں اور ۲ پولیس اہل کاروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔اس کی وجہ اس مزاحیہ رسالے کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت تھی۔ میگزین کی گستاخانہ اور اخلاق سے گری حرکت کے باوجود اس تشدد آمیز کارروائی کی مسلمانوں کے نمایندہ اداروں نے مذمت کی۔۴۲
پیرس کے مسلمانوں نے آئینِ فرانس سے اپنی وفاداری کا اعلان کیا۔ اتحاد اسلامی تنظیمات براے فرانس نے ایک بیان میں کہا :’’ ہم اپنے ملک فرانس کے تئیں وفادار ہیں۔ ہم اللہ سے محبت کرتے ہیں۔ ہم اپنے رسولؐ سے عشق کرتے ہیں، مگر ہم اپنے مسکن فرانس سے بھی محبت کرتے ہیں‘‘۔
اس ادراک کی ضرورت ہے۔ اسلامی تحریکیں ان فکری و علمی مسائل کو اپنی ترجیحات میں شامل کر لیں تو اُمت مسلمہ کا مستقبل درخشاں ہے۔ جہاں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں، وہاں پر سماجی توازن برقرار رکھنے اور دعوت کے مواقع پیدا کرنے کے لیے اسلامی تحریکوں کو غیر اسلامی قوتوں سے اشتراکِ عمل کی ضرورت کا احساس ہے۔ خدمت خلق سے اس کی بڑھتی ہوئی دل چسپی ، ملکی تعمیر و ترقی کے پروگراموں میں وہاں کے اکثریتی اہل مذہب اور باشندوں سے تعاون و تعامل میں اضافہ ہوا ہے۔ ضرورت ہے کہ کارکنوں کے اندر اس کی ناگزیریت کے احساس میں اضافہ کیا جائے اور عبادت و خدمت کے لزوم کے تصور کو ان کے دلوں میں جاگزیں کیا جائے۔ دوسرے ملکوں میں کام کرنے والی اسلامی تحریکیں اس جانب پیش رفت کر رہی ہیں، کہیں حالات کے دبائو میں، تو کہیں منصوبہ بندی کے تحت۔ ضرورت ہے کہ اس انسانیت نواز تعامل کی مؤثر تفہیم و تشریح ہو اور شرعی استدلال کے ساتھ دلوں کو اس پر مطمئن کیا جائے۔ یہ مرحلہ مشکل تو ہے، مگر ناقابلِ عبور نہیں۔
۲۸- عبد الحلیم محمد ابو شقہ، تحریر المرأۃ فی عصر الرسالۃ، کویت، دار القلم، ۱۹۹ء، ۶؍ جلدیں۔ اردو ترجمہ، خواتین کی آزادی عہد رسالت میں۔ تلخیص احمد کبیسی، مترجم: شعبہ حسنین ندوی، ہیزنڈن، ورجینیا، ص ۱۴
۲۹- حوالہ سابق ، ص ۱۵ ۳۰۔ حوالۂ سابق، ص ۲۲۔۲۴
۳۱۔ محمدالغزالی، الدعوۃ الاسلامیہ تستقبل قرنھا الخامس عشر [اُردو ترجمہ، عبید اللہ فہد فلاحی، دعوت اسلامی، پندرھویں صدی ہجری کے استقبال میں، دہلی، ۱۹۸۱ء۔ ص۸۰- ۸۳]
۳۲- مسلم، کتاب الصلوٰۃ، باب خروج النساء الی المساجد اذا لم یرتب علیہ فتنۃ، الرقم : ۴۴۲
۳۳- محمد الغزالی، حوالہ بالا، ص ۸۲ ۳۴- فضل الرحمٰن فریدی، اقامت دین کا سفر،حوالہ بالا
۳۵-حوالۂ سابق ۳۶- حوالۂ سابق
۳۷-حوالۂ سابق، ص۳۸، ۸۲۔۸۳ ۳۸-حوالۂ سابق، ص ۸۴
۳۹- سید ابو الاعلیٰ مودودی، تفہیم القرآن، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی، ۱۹۸۸ء، جلد پنجم، ص ۴۳۳، حاشیہ ۱۳
۴۰- عبید اللہ فہد فلاحی، چارلی ہیبڈو ( Charlie Hebdo) کے خاکے اور مسلمانوں کا رد عمل‘، مشمولہ در، فکر محمدؐ، ترتیب: عبید اللہ فہد اور ضیاء الدین فلاحی، سیرت کمیٹی، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی، ۲۰۱۶ء، ص ۱۶۷-۱۹۷
http://mirajnews.com/international/europel. .41
french_muslim_right_dominate_le_lourget
تحریکِ اسلامی نام ہے دین کے پورے نظامِ فکر و عمل کی طرف دعوت دینے اور اس کو قائم کر نے کے لیے اجتماعی جدو جہد کرنے کا۔ یہ جزو کی نہیں، کل کی دعوت دیتی ہے۔کسی مخصوص تعلیم سے نہیں،شریعت کی تمام تعلیمات سے بحث کرتی ہے۔ کتاب الٰہی کی چند آیات کا انتخاب نہیں کرتی، بلکہ پورے قرآن کو مرکزِ فکرو عمل بناتی ہے۔معاشرے کی فلاح کے لیے کی جانے والی مختلف اسلامی خدمات، دینی تعلیمی اداروں کا قیام، اسلامی عقائد و عبادات کی تعلیم کے لیے دینی مجلسوں اور اصلاحی جلسوں کا انعقاد ، بے جا رسوم و روایات سے مسلمانوں کو بچانے کے لیے اصلاحِ معاشرہ کے نام سے ہونے والی جدو جہد ، مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کی کوششیں ، فلاحی و رفاہی انجمنوں کی تشکیل کی وہ حمایت بھی کرتی ہے ، اور خود بھی یہ خدمات انجام دیتی ہے۔ لیکن انھی خدمات اور مصروفیات کو اپنی توانائیوں اور پروگراموں کا اصل مقصود نہیں بتاتی۔
بلاشبہہ یہ مبارک اور مسعود خدمات بڑی قابل قدر ہیں اور ہر طرح کی تائید و تقویت کی مستحق ہیں،لیکن اقدام کو بقا سے، تحریک کو تحفظ سے، اور جدید کو قدیم سے ممتاز کیے بغیر ہم تحریک اسلامی کی صحیح تعریف نہیں کر سکتے اور نہ اس کی کماحقہ شناخت ہو سکتی ہے۔۱
دنیا کی تمام اسلامی تحریکوں نے مروجہ دین داری کو احیاے دین کے لیے ناکافی قرار دیا ہے۔ انھوں نے اسلام کو عقائد و عبادات سے آگے بڑھ کر خاندان و معاشرت، سیاست و تہذیب اور معاشرہ و ریاست کے تمام میدانوں میں متحرک اور جاوداں دیکھنے کی آرزو ظاہر کی ہے اور اس کے مطابق نقشۂ کار، حکمت عملی اور منصوبہ سازی کو اپنی پالیسی و پروگرام میں جگہ دی ہے۔
تحریک اسلامی کے ایک کارکن کو دعوت اور اقامت دین کے فریضے کی ادائی میں ایک داعی کا مزاج تشکیل دینا پڑتا ہے۔ داعی کے مزاج سے مراد، اخوان المسلمون مصر کے رہ نما بہی الخولی کے الفاظ میں یہ ہے کہ وہ درج ذیل ہتھیاروں سے مسلح ہو:
’حقیقت پسندی‘ کی تشریح کرتے ہوئے بہی الخولی کہتے ہیں کہ: قرآن نے جو اسلوب اختیار کیا ہے، اس میں فکر و فلسفہ بھی ہے اور محسوس و مشاہد حقائق کا ادراک بھی۔ کچھ لوگ اپنے افکار و نظریات خالص عقلی و فکری انداز میں پیش کرتے ہیں، علت و معلول، اسباب و مسببات کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہیں، فکر و نظر کی گہرائیوں میں اتر کر جزئیات و کلیات اور مختلف مفروضات و حقائق کی چھان بین کر کے انھیں عوام کے سامنے پیش کردیتے ہیں اور بس۔ اس طریقۂ کار سے دل کے تار چھیڑے جا سکتے ہیں نہ دلوں اور دماغوں میں کوئی ہلچل پیدا کی جا سکتی ہے ۔ سچا داعی وہ ہے جو عملی زندگی سے بحث کرتا ہے اور واقعات کی دنیا کو موضوع بناتا ہے۔۳
’معاشرتی روحانیت‘ سے استاد بہی الخولی ’روح اور مادہ کا حسین اور متوازن اجتماع‘ مراد لیتے ہیں۔ کیوں کہ انسان روح اور مادہ دونوں سے مرکب ہے اور دونوں کا اپنا نظام اور اپنے تقاضے اور مطالبات ہیں۔ اسے روح اور مادہ دونوں کے حقوق حکمت، نظم اور سلیقہ سے ادا کرنا ہے۔
’معاشرتی روحانیت‘ سے متصف شخص دونوں زندگیاں جیتا ہے۔ اس کی پرواز دونوں دنیاؤں میں رہتی ہے۔ اس کاجسم زمین پر ہوتا ہے، لیکن حقیقت آسمان پر رہتی ہے۔ اعضا و جوارح اہلِ دنیا کی طرح کام کرتے ہیں، لیکن روحانی صلاحیتیں عارفین حق کی طرح کسی اور ہی مقصد کے لیے وقف ہوتی ہیں۔ وہ اس دنیا میں رہتے ہوئے بھی دنیا سے بے گانہ ہوتا ہے: ۴
الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن
مُلاّ کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے ،شاہیں کا جہاں اور
’ ایجابی فطرت اور عملی مزاج‘ سے مراد یہ ہے کہ انسان اللہ سے اپنا تعلق جوڑ کر خاموش نہ بیٹھ جائے، ورنہ یہ سلبی روحانیت ہوگی، بلکہ تعلق باللہ اسے اقدام پر ، ایجابی منصوبہ بندی پر اور تنقید و عمل پر آمادہ کرے۔ دوسرے لفظوں میں مصنف اسے ’خدائی سیر‘ کا نام دیتے ہیں، جس کی دو واضح خصوصیات ہیں:
۱- ایمان وہ بھڑکتا ہوا انگارہ ہے جس سے داعی قوت عمل اور غیرت حق اکتساب کرتا ہے۔
۲- یہ ایک قوت محرکہ ہے جس کی وجہ سے داعی یہ احساس رکھتا ہے کہ تنفیذ اور عمل کی طرف بڑھنا نا گزیر ہے۔۵
دعوت و اقامت دین کی ان تحریکوں کی جدو جہد علمی و فکری سطح پر بھی ہوتی ہے اور عمل و اقدام کے میدانوں میں بھی۔ ان دونوں کے درمیان توازن قائم رکھنا ایک نازک کام ہے۔ بسااوقات ملک و ملت کے مسائل اور فوری بحرانوں کو حل کرنے میں تحریک اس قدر الجھ جاتی ہے کہ علمی و فکری اہداف نظروں سے اوجھل ہونے لگتے ہیں، اور کبھی اس کے علی الرغم پوری تحریک علمی منصوبہ بندی میں اس طرح جت جاتی ہے کہ عملی حقائق اور زمینی واقعات بھی صرفِ نظر ہو جاتے ہیں۔ توازن اور اعتدال کو قائم رکھتے ہوئے علمی و فکری منصوبہ بند ی کاتقاضا ہے کہ:
۱- تحریک کے کارکن مطالعے کو اپنی روز مرہ کی عادت بنائیں۔ سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ (۱۹۰۳ء- ۱۹۷۹ء)، انجینیرمالک بن نبی (۱۹۰۳ء-۱۹۷۳ء)، شہید مرتضیٰ مطہری (۱۹۱۹ء- ۱۹۷۹ء) کے علاوہ تحریک سے باہر کے علما وفضلا کی تحریروں کا مطالعہ قلب و ذہن کو وسعت بھی بخشے گا اور امت مسلمہ سے قریب بھی کرے گا۔
۲- تحریک اسلامی کے سنجیدہ اہل قلم اور ارباب تحقیق تحریک سے باہر کے علما و فضلا، اربابِ علم و تحقیق سے رابطہ رکھیں۔ انھیں تحریک کی علمی و فکری منصوبہ بندی میں شامل کریں۔ ان کے تعاون سے ایسا صالح لٹریچر تیار کریںجو مسلمانوں کی نشاتِ ثانیہ کے لیے ضروری ہے۔ اربابِ قلم کی ایک کہکشاں تیار کرنے کے لیے یہ کام مستقل منصوبہ بندی کا متقاضی ہے۔
۳- دینی مدارس کے علما اور عصری جامعات کے فضلا کو ایک ساتھ دعوت دین کے کاز سے جوڑنا ناگزیر ہو گیا ہے۔ دونوں گروہوں کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج نے امت کو دو متوازی دھاروں میں تقسیم کر دیا ہے اور اس کے نقصانات فکری انتہا پسندی کی شکل میں ظاہر ہورہے ہیں۔۶ تحریک اسلامی ان دو متوازی دھاروں کو خدمت دین کے مقصد سے قریب کر دے تو امت کے بہت سے فکری بحرانوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
’ما بعد مودودی‘ کی اصطلاح بعض دانش وروں نے یہ ثابت کرنے کے لیے استعمال کی کہ مولانا مودودیؒ کے افکار اب بدلتے حالات کا ساتھ نہیں دیتے۔ یہ سیّد مودودیؒ کی تحریروں کے ناقص فہم کا ثمرہ ہے، یا ان کے مقام و مرتبے کے ساتھ ناانصافی کرنے کی جارحانہ ذہنیت کی عکاسی ہے۔ الجامعہ الاسلامیہ شانتا پورم کیرالہ میں اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا کی اسلامک اکیڈمک کانفرنس (۱۴-۱۵ جولائی ۲۰۱۲ء ) میں مضمون نگار نے ’سیّدمودودیؒ کا مطالعہ - معاصر دور میں‘ کے موضوع پر ایک بحث پیش کی۔ سیّد مودودیؒ نے احیاے اسلام کے لیے دستوری اور جمہوری جدوجہد کی جو اسکیم تیار کی تھی، وہ گفتگو کا خاص نکتہ تھی۔ اس کی افادیت آج پہلے سے زیادہ محسوس ہوتی ہے۔۷
بلاشبہہ سیّد مودودیؒ نے جن حالات میں تحریک اسلامی کی عملی جدوجہد کا نظریہ پیش کیا تھا، وہ اب کافی بدل چکے ہیں۔بدلتے ہوئے حالات میں دین کی تعبیر و تشریح کے لیے متعدد نئے اُفق اور چیلنج سامنے آچکے ہیں۔ یہ تعبیر و تشریح سیّد مودودیؒ کے فکر کی توسیع ہوگی، تغلیط نہیں۔ سیّد سعادت اللہ حسینی نے تحریک اسلامی ہند کے سیاق و سباق میں دعوت فکر دی ہے کہ جماعت اسلامی کے مصنفین ’مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش‘ کی سیاسی بحث کو کیوں آگے نہ بڑھا سکے؟ کیوں استعمار سے آزاد ملک کے احوال میں کوئی ایسا سیاسی فلسفہ تشکیل نہیں دیا جا سکا جو ’ مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش‘ کی بحث کا فطری ارتقا بھی ہوتا اور نئے احوال میں رہ نمائی کا ذریعہ بھی بنتا۔۸
سیّد مودودیؒ نے مغربی جمہوریت کو اسلام کے نظام شورائیت سے متصادم قرار دیا تھا۔ اسلامی ریاست ’’نہ تو مغربی اصطلاح کے مطابق مذہبی حکومت ہے اور نہ جمہوری حکومت، بلکہ وہ ان دونوں کے درمیان ایک الگ نوعیت کا نظام سیاست و تمدن ہے‘‘۔۹ مغربی اصطلاح میں مذہبی حکومت دو بنیادی تصورات کا مجموعہ ہے: ایک خدا کی بادشاہی، قانونی حاکمیت کے معنیٰ میں۔ دوسرے پادریوں اور مذہبی پیشواؤں کا ایک طبقہ، جو خدا کا نمایندہ اور ترجمان بن کر خدا کی اس بادشاہی کو قانونی اور سیاسی حیثیت سے عملاً نافذ کرے ۔ مولانا مودودیؒ نے مغربی جمہوریت کو بھی دو تصورات کا مجموعہ قرار دیا تھا:
۱- عوام کی قانونی اور سیاسی حاکمیت، جو عوام کی اکثریت ، یا ان کے منتخب کیے ہوئے نمایندوں کی اکثریت کے ذریعے عملاً ظہور میں آئے۔
۲- ریاست کا انتظام کرنے والی حکومت کا عوام کی آزادانہ خواہش سے بننا اور بدل سکنا۔
سیّد مودودیؒ نے مغربی جمہوریت کے قانونی حاکمیت کے تصور کو تبدیل کر کے اللہ کے لیے خاص کیا اور سیاسی حاکمیت کو خلافت قرار دے کر اسے ریاست کے عام مسلمان باشندوں کے حوالے کر دیا۔ اس طرح اسلامی ریاست کو مغربی اصطلاح کے مطابق جمہوریت قرار دینے کو سیّدمودودیؒ نے غلط قرار دیا۔ ۱۰
جماعت اسلامی ہند نے بدلتے ہوئے حالات کا ادراک کیا۔ ہندستان میں رائج جمہوریت کی حمایت و تقویت ، ملکی انتخابات میں شرکت کا جواز، انتظامی اداروں میں ملازمت کا حصول، سیکو لر سیاسی افراد اور جماعتوں سے ارتباط و تعاون اور سیاسی نظام میں مسلمانوں کی حصہ داری کے لیے اس کے فیصلے اور کل ہند ویلفیئر پارٹی کی تشکیل وغیرہ ایسے اقدامات ہیں، جن کا فیصلہ جماعت اسلامی ہند نے طویل مشاورت اور اجتماعی اجتہاد کے بعد کیا، مگر اس کی تائید میں اسلامی لٹریچر کی تیاری کا کام ابھی باقی ہے۔ یاد رہے کہ مولانا مودودیؒ کی تحریریں ان فیصلوں کی تائید کرتی نظر نہیں آتیں ۔
عالمِ عرب کی طاقت ور اسلامی تحریک اخوان المسلمون ۱۹۲۸ء میں قائم ہوئی۔ سید قطب اس کے نظریہ ساز قرار پائے۔ ۱۹۵۳ء میں وہ اخوان میں شامل ہوئے اور اس کے ترجمان الاخوان المسلمون کے مدیر مقرر ہوئے۔ آگے چل کر وہ مکتب الارشاد(مجلس عاملہ) کے رکن بنے۔ انھوں نے اپنے مؤثر اسلوب میں عالم عرب کے حالات پر اسلامی رہ نمائی کا فریضہ ادا کرنا شروع کیا۔ جنوری ۱۹۶۴ء میں ان کی معرکہ آرا تصنیف معالم فی الطریق منظر عام پر آئی۔ ۱۱ اس کتاب نے یہ بحث زور شور سے اٹھائی کہ آج پوری دنیا جہالت و جاہلیت میں ڈوبی ہوئی ہے۔ اس جاہلیت کی بنیاد ہے اللہ کے اقتدار اعلیٰ پر دست درازی اور حاکمیت الٰہ سے بغاوت۔ ۱۲ تمام عرب اور مسلم حکومتیں اس جہالت و جاہلیت کو فروغ دے رہی ہیں۔ اس لیے سید قطب نے کہا کہ ’’آج احیاے اسلام کا آغاز اس ہراول دستے سے ہوگا، جو اس کار عظیم کا عزم مصمم لے کر اٹھے اور پھر مسلسل منزل کی طرف پیش قدمی کرتا چلا جائے اور جاہلیت کے اس بے کراں سمندر کو چیرتا ہوا آگے کی جانب رواں دواں رہے‘‘۔ ۱۳ یہی کتاب ۱۹۶۶ء میں فاضل مصنف کی شہادت کا سبب قرار دی گئی۔ ۱۴
مصر اور پورے عالم عرب میں جبر و ظلم کی ایک طویل تاریخ سے گزر کر اخوان المسلمون کے جاں نثاروں نے دعوت و اقامت دین کا فریضہ انجام دیا۔ان کے متعدد رہ نمائوں کو تختۂ دار پر چڑھا دیا گیا۔ تزکیہ و شہادت کے اس پورے سفر میں سید قطب شہید ؒ کی تحریریں ہی مرکز توجہ رہی ہیں۔ دوسرے اخوان مصنفین نے بلا شبہہ دعوت و تربیت کے لیے بے شمار موضوعات پر اپنی یادگار تخلیقات پیش کیں، لیکن ان کی حیثیت تفہیم و تشریح سے زیادہ نہ تھی۔ جناب حسن بن اسماعیل الہضیبیؒ(۱۸۹۱ء-۱۹۷۳ء) ۱۷؍ اکتوبر ۱۹۵۱ء کو مرشد عام منتخب ہوئے ۔ انھوں نے مارچ ۱۹۲۴ء تک مصری عدالتوں میں وکالت کرنے کے بعد ۲۷برس جج کے فرائض بھی انجام دیے تھے۔ قانونی و فقہی امور میں مہارت رکھنے کے علاوہ اخوان کے اندر ایک گروہ کی فکر میں پرورش پانے والی انتہاپسندی پر وہ سخت مضطرب تھے۔ انھوں نے پوری کوشش کی کہ اخوان ملکی قوانین کی پابندی کریں اور حکومت سے کوئی تصادم مول نہ لیں۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے اپنی معروف زمانہ تصنیف دعاۃ لا قضاۃ تصنیف کی۔ ۱۵
حسن الہضیبی نے اس کتاب میں یہ نقطۂ نظر پیش کیا کہ قرآن و سنت کی روشنی میں داعیانِ دین کی یہ ذمہ داری تو ہے کہ وہ اصلاح و احیا کے لیے کماحقہ جدو جہد کریں، تاہم افراد و اقوام کو زبردستی اور قوت کے استعمال سے راہِ ہدایت پر لانا ان کی ذمہ داری نہیں ہے، اور غیر مسلم معاشرے میں رہنے والے مسلمان اپنی نیت اور عمل کے مطابق اللہ کے سامنے جواب دہ ہیں۔ ان کے خلاف تکفیر و تفسیق کی مہم چلانا، دعوت دین کے دائرے سے باہر ہے۔
شیخ الہضیبیؒ کی اس صراحت و وضاحت کے باوجود انتہا پسند نوجوانوں نے جماعۃ التکفیر والھجرۃ کے نام سے ایک الگ گروپ تشکیل دے دیا۔ ۱۶ اور مصر میں فکری انتہا پسندی کی ایک نئی لہر آگئی۔ اس حقیقت کا اعتراف کیے بغیر چارہ نہیں ہے کہ آج بھی سید قطب شہیدؒ کی تحریریں عالمِ عرب میں سب سے زیادہ مقبول ہیں۔ اخوان مفکرین بدلے ہوئے حالات میں نئی تعبیر و تشریح کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔
تکثیریت کی ایک تفہیم، جو موجودہ دور میں رائج ہے، اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ: ’’سارے مذاہب اور متنوع افکا ر کو بیک وقت درست مانا جائے اور کسی عقیدہ، فلسفہ یا فکر پر تنقید نہ کی جائے‘‘۔ گویا معاشرے میں موجود سارے افکار اور فلسفے اپنی انفرادیت کھو کر ایک نئی فکر اور فلسفہ تشکیل دیں، جس میں سب کی سوچ، ذہنیت اور رنگ و آہنگ شامل ہو۔ اس فکر کے مطابق کسی ایک فکر یا عقیدے کی صداقت پر اصرار باقی نہیں رہتا۔
تکثیری معاشرے کا ایک دوسرا فہم یہ ہے کہ: ’’مختلف و متصادم افکار و نظریات اور عقائد کو یکساں آزادی حاصل ہو۔ کسی فکر کو صحیح سمجھنے والا آزاد ہو کہ اس فکر کی معقولیت اور نافعیت کا اثبات کر سکے اور علمی انداز اور شائستہ اسلوب میں دوسرے نظریے پر تنقید و جرح کرسکے۔ گویا اپنے نظریے پر قائم رہتے ہوئے، دوسرے نظریات سے مباحثہ و مجادلہ کی راہ اختیار کرے۔ اس طرح تمام افکار و مذاہب کے لیے مکالمہ کی راہ ہموار ہوتی ہے‘‘۔
موجودہ دور کے مسلم مفکرین نے تکثیریت کے آخر الذکر فہم کو تسلیم کیا ہے۔ انھوں نے اسلام کی حقانیت پر ایمان رکھنے کے ساتھ دوسرے مذاہب و نظریات کی آزادی و حقوق کو خوش دلی سے مانا ہے اور مکالمہ اور اشتراک و تعاون کے لیے راہیں استوار کیں ہیں۔
ڈاکٹر فضل الرحمٰن فریدی(۱۹۳۲ء-۲۰۱۱ء)نے غیر اسلامی قوتوں سے اشتراک کی حدود کار پر مفصل گفتگو کی ہے۔ ان کے خیال میں مکہ میں حلف الفضول کا تاریخی معاہدہ، جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت سے قبل ایک تکثیری معاشرے کے اندر بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا، مسلمانوں کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ یہ ایک معاہدے تھا، جس میں مشرکین ، ملحدین اور موحدین سب نے متحد ہو کر برائی اور نانصافی کے خلاف مشترکہ جدو جہد کرنے کا عہد باندھا تھا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم عہد رسالت میں بھی اس معاہدے کی بڑی قدر کرتے تھے اور ایک روایت کے مطابق آپؐ نے فرمایا تھا کہ: ’’اگر اس طرح کا کوئی معاہدہ دوبارہ ہو تو آپؐ اس میں شریک ہونا پسند کریں گے‘‘۔ ڈاکٹر فریدی کہتے ہیں:’’اس قسم کی کاوشوں میں تعاون مسلمانوں کا اخلاقی فریضہ ہے۔ اپنے تعاون کو اس شرط پر مشروط کرنا کہ اس طرح کی کوشش جامع اور ہمہ جہت ہو اور معاشرے کی بنیادی برائیوں کا انسداد اس میں شامل ہو، صحیح نہیں ہے‘‘۔ ۱۷
حزب النہضۃ تیونس کے رہنما راشد الغنوشی (پ:۱۹۴۱ء) اسلام کے نظام عدلِ اجتماعی کے قیام کے لیے شراکتِ اقتدار کو ناگزیر تصور کرتے ہیں، خواہ وہ معاشرہ مسلم ہو یا غیر مسلم۔ اس شراکت کے لیے صرف یہ ضروری نہیں ہے کہ شریعت اسلامیہ کی تنفیذ اس کا مطمح نظر ہو، بلکہ ملک میں آمریت کو روکنے کے لیے بھی یہ شراکت کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح آزادی، ترقی، سماجی استحکام، شہری آزادیوں کے حصول، حقوق انسانی کے احترام، سیاسی تکثیریت کی پاس داری، عدلیہ کی آزادی کی بحالی، آزادی اظہارِ راے، اسلامی اوقاف، مساجد و مدارس کے تحفظ وغیرہ، وسیع تر مقاصد میں غیرمسلموں کی شراکت کے ساتھ بے دین اور ملحد قوتوں کے ساتھ حصہ داری نبھائی جاسکتی ہے۔ ۱۸
غیر اسلامی حکومتوں میں شراکت کے ثبوت کے لیے راشد الغنوشی، سورۂ یوسف سے استدلال کرتے ہیں، جس میں حضرت یوسف ؑ نے شاہِ مصر سے کہا تھا کہ ملک کے خزانے میرے سپرد کر دیجیے، کیوں کہ میں ان کی حفاظت کر سکتا ہوں: قَالَ اجْعَلْنِیْ عَلٰی خَزَآئِنِ الْاَرْضِ ج اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌ (یوسف۱۲:۵۵) ۔اس کے بعد قرآن حضرت یوسف ؑ کے کامل تسلط اور ہمہ گیر اقتدار کو اس طرح بیان کرتا ہے:
وَ کَذٰلِکَ مَکَّنَّالِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ ج یَتَبَوَّاُ مِنْھَا حَیْثُ یَشَآئُ ط نُصِیْبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَّشَآئُ وَ لَا نُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ o(یوسف۱۲:۵۶) اس طرح ہم نے اس سرزمین میں یوسف ؑ کے لیے اقتدار کی راہ ہموار کی۔ وہ مختار تھا کہ جہاں چاہے اپنی جگہ بنائے۔ ہم اپنی رحمت سے جس کو چاہتے ہیںنوازتے ہیں۔ نیک لوگوں کا اجر ہمارے یہاں مارا نہیں جاتا۔
حضرت یوسف ؑ کا حوالہ دے کر راشد الغنوشی نے لکھا کہ پیغمبر وقت کو جیل کی سزا برداشت کرنا پڑی، سوتیلے بھائیوں کے ناروا سلوک کو برداشت کرنا پڑا، مگر جب مناسب وقت آیا توشاہ مصر کے دربار میں سب سے اہم ذمہ داری بڑھ کر قبول کی، تاکہ قحط اور خشک سالی میں مبتلا عوام کو راحت پہنچا سکیں۔ انھوں نے یہ انتظار نہ کیا کہ مصری عوام دعوت توحید کو قبول کر لیں اور شرک و کفر کو چھوڑ کر مؤحد بن جائیں، تاکہ ایک اسلامی ریاست کی تشکیل ہو سکے۔ ۱۹
راشد الغنوشی نے سیرت طیبہ سے ہجرت حبشہ کی مثال بھی پیش کی ہے، جو بڑی دل چسپ ہے۔ حبشہ کا بادشاہ عیسائی تھا، مگر انصاف پسند تھا۔ مکہ میں جب حالات ناقابل برداشت حد تک پہنچ گئے تو رجب ۴۵ عام الفیل؍ ۵ بنوی میں اللہ کے رسولﷺ نے اپنے اصحاب سے فرمایا:
لَوْ خَرَجْتُمْ اِلٰی أَرْضِ الْحَبْشَۃِ، فَاِنَّ بِھَا مَلِکاً لَا یُظْلَمُ عِنْدَہٗ أَحَدٌ، وَھِیَ أَرْضُ صِدقٍ حَتّٰی یَجْعَلَ اللہُ لَکُمْ فَرَجًا مِـمَّا أَنْتُمْ ۲۰ اچھا ہو کہ تم لوگ نکل کر حبشہ چلے جائو۔ وہاں ایک ایسا بادشاہ ہے جس کے ہاں کسی پر ظلم نہیں ہوتا اور وہ بھلائی کی سر زمین ہے۔ جب تک اللہ تمھاری اس مصیبت کو رفع کرنے کی کوئی صورت پیدا کرے، تم لوگ وہاں ٹھیرے رہو۔
اس ارشاد کی بنا پر ۱۱ مرد اور ۴ خواتین نے حبشہ کی راہ لی۔ پھر چند مہینوں کے اندر مزید لوگوں نے ہجرت کی، یہاں تک کہ ۸۳ مرد ، ۱۱عورتیں اور ۷ غیر قریشی مسلمان حبشہ میں جمع ہو گئے اور مکہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف ۴۰ آدمی رہ گئے تھے۔۲۱ صحابہ و صحابیات کی حبشہ آمد کا نتیجہ یہ ہوا کہ بادشاہ مسلمان ہو گیا،ا گر چہ اس نے اسلامی شریعت ملک میں نافذ نہ کی۔ اسے خدشہ ہوا کہ اسلام قبول کرنے کا اعلان ہوتے ہی اس کی سلطنت خطرے میں پڑ جائے گی اور مہاجرین کا تحفظ مشکل ہو جائے گا۔ جب شاہِ حبشہ کا انتقال ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی۔۲۲
بھارت کے ممتاز عالم دین مولانا سلطان احمد اصلاحیؒ (۱۹۵۲ء-۲۰۱۶ء) نے اس موضوع کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنی کتاب مسلمان اقلیتوں کا مطلوبہ کردار میں ہندستانی مسلمانوں کے شرعی اور اسلامی کردار پر کھل کر گفتگو کی ہے۔ انھوں نے ملک و ملت کی تعمیر اور بھلائی کے کاموں میں شرکت کو ’ ہر مسلمان کی دینی زندگی کا لازمی ایجنڈا ‘ قرار دیا ہے۔۲۳ انھوں نے مسلمانوں کو تاکید کی کہ ان کی اجتماعیت ’ غیر متحارب اور غیر نزاعی‘ ہو۔ اس پر سخت نگاہ رکھی جائے کہ ’سیاسی و غیرسیاسی‘ کسی دائرے میں اس کا رنگ و آہنگ معاندا نہ نہ ہونے پائے اور ان کی تمام تر دینی اور مذہبی جماعتوں کا کردار اصلاً دعوتی، رفاہی اور اصلاحی رہے۔۲۴ انھوں نے بھی حضرت یوسف ؑ اور شاہِ حبشہ کے نمونوں سے استدلال کیا کہ غیر مسلم اکثریت کے درمیان کسی منصب کو قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں اور ضرورت کے تقاضے سے غیر دینی نظام حکومت کے ساتھ اشتراک و تعاون کی راہ عام مسلمان کے لیے درست اور صائب ہے۔۲۵ اس معاملے میں کلیدی مناصب ہوں یا غیر کلیدی مناصب، سب یکساں ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ :’’ عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ کی چھوٹی بڑی ہرطرح کی ملازمت اور چھوٹا بڑا ہر طرح کا عہدہ و منصب مسلمان اقلیت کی یکساں ضرورت ہے۔۲۶
مولانا اصلاحیؒ ملک کی مقننہ، یعنی اس کی اسمبلی اور پارلیمنٹ اور اس کے واسطے سے حکومت اور وزارت میں مسلمان اقلیت کی مؤثر حصہ داری کے لیے انتخابات میں شرکت کو ضروری قرار دیتے ہیں اور قوم اور اجتماعیت کی حیثیت سے مسلمان امت کو ہوم ورک اور منصوبہ بندی کی تلقین کرتے ہیں۔ اسی طرح انتظامیہ و عدلیہ میں جگہ پانے کے لیے مقابلہ جاتی امتحانات میں شرکت کو ضروری تصور کرتے ہیں ۔۲۷
تکثیری معاشرے میں اسلام کی رہ نمائی سے متعلق یہ تخلیقات بہت اہم ہیں، مگر بہت سے سوالات ہنوز حل طلب ہیں۔ اس نئے فلسفے کی مکمل اسلامی تفہیم ابھی باقی ہے اور اس کے بطن سے جنم لینے والے اشکالات کا شافی جواب دینا اسلامی تحریکوں کا فوری مسئلہ ہے۔
۱- ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی ، اسلامی نشاتِ ثانیہ کی راہ، مرکزی کتبہ اسلامی، دہلی، اکتوبر ۱۹۷۴ء، ص ۱۶۶
۲- بہی الخولی، تحریک اور دعوت ، اُردو ترجمہ، عبید اللہ فہد فلاحی، بیروت ۱۴۰۳ھ؍ ۱۹۸۳ء، ص ۶۸
۳- حوالۂ سابق، ص ۷۰ ۴۔ حوالۂ سابق ،ص ۳۳۹-۳۴۰ ۵۔ حوالۂ سابق، ص۴۰۴
۶- جدید تعلیم گاہوں سے دینی و تعلیمی اداروں کے اشتراک کی ناگزیریت کے لیے دیکھیے راقم کا مضمون ’بدلتے ہوئے حالات میں مدارس اسلامیہ کی ترجیحات‘، ماہ نامہ تہذیب الاخلاق، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی، جلد، ۳۵، شمارہ۴ ،ص ۳۶۔
۷- Post-Maududismکی اصطلاح حسن الامین نے اپنے پی ایچ ڈی مقالے میں استعمال کی ہے جو انھوں نے ۲۰۱۰ء میں ارسمس یونی ورسٹی روٹر دم، نیوزی لینڈ میں پیش کیا۔ راقم کی راے ہے کہ ’مابعد اسلامیت‘ یا ’ ما بعد مودودیت‘ کی اصطلاحات نرے ابہام کے سوا کچھ بھی نہیں۔
۸- سیّد سعادت اللہ حسینی، ’تحریک اسلامی اور فکری چیلنج‘، ماہ نامہ عالمی ترجمان القرآن لاہور، دسمبر ۲۰۱۵ء، ص ۸۴۔ انھوں نے تحریک اسلامی کے حلقوں کو دعوت احتساب دی ہے۔ ان کے بقول دنیا کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے پاس کوئی ڈھنگ کا ’تصور جہاں‘ (ورلڈ ویو) نہیں ہے، جہاں سے کار آمد آئیڈیاز پیدا ہوسکیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس ورلڈ ویو ز ہیں، لیکن آئیڈیاز نہیں ہیں۔
۹- سید ابوالاعلیٰ مودودی، اسلامی ریاست ، ترتیب: خورشید احمد، اسلامک پبلی کیشنز لمیٹڈ، لاہور۔
۱۰- حوالۂ سابق، ص ۴۸۰-۴۸۱ ۔ دوسری طرف ڈاکٹر فضل الرحمٰن فریدیؒ نے جمہوریت کو اصلاً ملوکیت، ڈکٹیٹرشپ اور جبر و استحصال سے متصادم قرار دیا ہے ۔ انھوں نے لکھا ہے کہ:’’ یہ موقف کہ جمہوریت فی نفسہ طاغوت ہے، حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔ [جمہوری] نظام، عوام کے فیصلے اور اختیار سے مولانا مودودیؒ کے الفاظ میں جمہوری خلافت بھی بن سکتا ہے‘‘۔ ’ملاحظہ کیجیے، فضل الرحمٰن فریدی، اقامت دین کا سفر، ہندستانی تناظر میں، مرکزی مکتبہ اسلامی، دہلی، نومبر ۱۹۹۷ء، ص ۴۹
۱۱- سید ، قطب، معالم فی الطریق، دار الشروق، بیروت ۱۹۶۸ء، ص ۸ ۱۲ (جادہ و منزل، مترجم: خلیل احمد حامدی، ناشر، اسلامک پبلی کیشنز، لاہور)۔ ۱۲- حوالۂ سابق، ص ۹
۱۳- عبید اللہ فہد فلاحی اور محمد صلاح الدین عمری، سید قطب شہیدؒ: حیات و خدمات، منشورات، لاہور، ۱۹۹۹ء، صفحات۴۰۰۔ سلیم منصور خالد،اسلام کی آواز، سیّد قطب شہید، منشورات، لاہور، ۲۰۱۵ء
۱۴- اخوان المسلمون کی تاریخ جاننے کے لیے مطالعہ کیجیے راقم کی کتاب: اخوان المسلمون: تزکیہ، ادب، شہادت ، القلم پبلی کیشنز ،سری نگر، ۲۰۱۱ء، صفحات: ۳۰۲۔ ۱۵- حوالۂ سابق، ص ۱۰۔ ۱۶
۱۶- الہضیبی، حسن بن اسماعیل، دعاۃ لا قضاۃ، قاہرہ، ۱۹۷۷ء، ص ۵۔ اُردو ترجمہ: داعی کا منصبِ حقیقی، مترجم: گل زادہ شیرپائو،ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور، ۲۰۰۹ء۔
۱۷-ڈاکٹر فضل الرحمٰن فریدی، ’تکثیری معاشرہ اور ہمارا مطلوبہ رویہ‘، [ترجمانی: عرفان وحید]، ماہ نامہ رفیق منزل نئی دہلی، اکتوبر ۲۰۱۳ء، قسط پنجم، ص۲۸۔ انھوں نے پرہیزگاری کے اس موہوم تصور پر تنقید کی ہے جس کے تحت مسلمانوں کا ایک طبقہ انسانوں کی تکالیف کے سدّباب کی چھوٹی کوششوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتا اور یہ سوچتا ہے کہ اگر اللہ پر ایمان نہ لانے کی بنیادی برائی کو ختم کر دیا جائے تو تمام انسانی مصائب خودبخود ختم ہو جائیں گے۔ ڈاکٹر فریدی کہتے ہیں: ’’ شریعت کی یہ تعبیر یکسر غیر مطلوب ہے۔ یہ سوچ انفرادی و اجتماعی معاشرتی تبدیلی کے محرکات کے عدم فہم کی بھی چغلی کھاتی ہے‘‘۔ حوالۂ سابق، ص ۲۹۔
۱۸- راشد الغنوشی، The Participation of a Islamist in a Non-Islmaic Government، لندن ۱۹۹۳ء، ص ۵۱، ۶۳ ۱۹- حوالۂ سابق، ص ۶۵
۲۰-ابن ہشام، سیرت النبیؐ، [تحقیق: محمد محی الدین عبد المجید]، دار الفکر، القاہرہ، ۱۹۳۷ء، الجزالاول، ص۳۴۳
۲۱- سید ابو الاعلیٰ مودودی، سیرت سرور عالم، ادارۂ ترجمان القرآن لاہور، مرتبین: نعیم صدیقی، عبد الوکیل علوی، اشاعت سوم، دسمبر، ۱۹۸۰ء، جلد اول، ص ۷۰۵- ۷۰۶۔
۲۲- راشد الغنوشی، حوالۂ سابق، ص ۵۸
۲۳- سلطان احمد اصلاحی ، ’مسلم اقلیتوں کا مطلوبہ کردار‘، فکرو آگہی، اعظم گڑھ، ۲۰۰۲ء، ص ۱۰۱ ۲۴۔
۲۴- حوالۂ سابق، ص ۱۰۲ ۲۵۔ ۲۵- حوالۂ سابق، ص ۱۳۰ ۲۶- حوالۂ سابق، ۱۵۰
۲۷-حوالۂ سابق، ص ۱۵۰۔ ۱۵۷ ، تکثیری معاشرے میں مسلمانوں کے کردار پر ایک عالمانہ تحقیق معروف سیرت نگار پروفیسر محمد یاسین مظہر صدیقی نے سپردِ قلم کی ہے: مکی اسوۂ نبویؐ ، مسلم اقلیتوں کے مسائل کا حل، اسلامک بک فائونڈیشن، نئی دہلی، اپریل ۲۰۰۵ء۔
ہر موسم کے اپنے پھل اور ہر زمانے کے اپنے ’نمونے‘ (ماڈل) ہوتے ہیں۔ ہمارے موجودہ زمانے کا نمونہ ’بیانیہ‘ سے منسوب ہے۔ خورشید ندیم صاحب نے ۱۵؍اپریل ۲۰۱۷ء کو ایک غیر معروف مصنف کی شرانگیزی کو ایجابی طور پر اپنے ’بیانیہ‘ میں پیش کیا اور ایمن الظواہری سے منسوب قول دہرایا: ’’سید قطب کی کتابیں وہ بارود تھیں، جنھوں نے امت میں جہادی سوچ پیدا کی… [سید قطب] کی کتب اور رسائل میں بہت سے مقامات پر تکفیر کی تپش محسوس ہوتی ہے‘‘۔
یہ نقل کرنے کے بعد ندیم صاحب نے لکھا ہے: ’’میں اگر یہ پڑھ کر چونکا تو اس کا سبب سید قطب کے خیالات نہیں ہیں۔ [ان] کی کتاب معالم فی الطریق کا اردو ترجمہ میں نے بچپن میں پڑھا [تھا، جس] کے تعارف میں لکھا ہے، جب فوجی عدالت نے سید قطب سے پوچھا کہ اُن کے اور مولانا مودودی کی دعوت میں کیا فرق ہے؟ سید صاحب نے جواب دیا ’لافرق‘ (کوئی فرق نہیں ہے)‘‘۔ موصوف نے اپنے ’بیانیے‘ میں زور پیدا کرنے کے لیے لکھا ہے: ’’میں سید قطب کے ان خیالات سے بہت پہلے سے واقف ہوں۔ یہ بحث بھی نئی نہیں ہے کہ دور جدید میں جہادی اور تکفیری سوچ کے بانی سید قطب ہیں… اخوان کی فکر اور تنظیم ہی سے دوسری انتہا پسند تنظیمیں وجود میں آئیں، جو مسلمان حکمرانوں کو مرتد قرار دیتی ہیں، اور ان کی تکفیر کرتی ہیں۔دیکھیے، اب جماعت اسلامی کا کیا موقف سامنے آتا ہے؟ وہ بھی خود کو اس سوچ سے الگ کرتی ہے یا پھر بدستور ’لافرق‘ کے نقطۂ نظر ہی کو اختیار کرتی ہے‘‘۔ (روزنامہ دنیا، ۱۵؍اپریل۲۰۱۷ء)
درحقیقت یہ کالم ایک چارج شیٹ سے بڑھ کر ایک تہمت ہے، جس میں یہ متعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ فی زمانہ مسلمانوں سے منسوب جتنی قتل و غارت گری ہورہی ہے، اس کا منبع سیّد قطب شہید اور اخوان المسلمون کی فکر ہے۔ چوںکہ سیّدقطب نے اپنے آپ کو مولانا مودودی کا ہم خیال قرار دیا ہے، اس لیے جماعت اسلامی والے اس ’مذموم سوچ‘ سے اپنی علیحدگی کی وضاحت کریں ورنہ وہ بھی اس قتل و غارت گری کے ذمہ دار ہیں۔
کسی فرد کے لکھنے اور بولنے پر تو کوئی قدغن نہیں لگا سکتا۔ یہ مشاہدے کی بات ہے کہ موصوف اپنے ہر اس کالم میں، جو وہ اہلِ مذہب کی ’اصلاح‘ کے جذبے سے لکھتے ہیں، ان میں اِدعا کی کثافت اور سرزنش کا انداز پایا جاتا ہے، اور اکثر احساسِ ذمہ داری سے بے نیاز ہو کر لکھا جاتا ہے۔ افسوس کہ انھوں نے اس تحریر میں ہوشیاری بلکہ سفاکی سے، مغرب کے اُس بیانیے کو دُہرا ڈالا ہے، جسے وہ گذشتہ ۲۵برس سے ہر آن مسلم دانش کے سرتھوپے چلے جا رہا ہے، اور سید قطب شہید کو حالیہ زمانے کی تمام ’دہشت گردی کا مرکز‘ بنا کر پیش کر رہا ہے۔
مولانا مودودی اور سیّد قطب شہید کے حوالے سے پہلی بات یہ ذہن نشین کر لیجیے کہ ان دونوں حضرات نے کبھی تکفیر اور کفرسازی کا اسلوب اختیار نہیں کیا، بلکہ اس سے ہمیشہ پہلو بچایا ہے۔ کیا کالم نگار کا کوئی ہم نوا یہ بے بنیاد دعویٰ کرسکتا ہے کہ مولانا مودودیؒ نے تکفیری فکر کی ترویج یا تائید کی ہے؟ جس طرح سید مودودیؒ کے بارے میں برعظیم جنوبی ایشیا کا کوئی باشعور شخص یہ دعویٰ تسلیم نہیں کرسکتا، بالکل اسی طرح سید قطب شہید کا لٹریچر ان الزامات کا جواب خود دیتا ہے۔
ذرا ماضی میں جھانکتے ہیں:یہ ۱۹۳۶ء کی بات ہے کہ چند جیّد علما کی طرف سے مولانا شبلی نعمانی اور مولانا حمیدالدین فراہی کے خلاف کفر کا فتویٰ شائع ہوا۔ مولانا مودودی نے تڑپ کر اس کے جواب میں لکھا: ’’مومن کو کافر کہنے میں اتنی ہی احتیاط کرنی چاہیے، جتنی کسی شخص کے قتل کا فتویٰ صادر کرنے میں کی جاتی ہے، بلکہ یہ معاملہ اس سے بھی زیادہ سخت ہے۔ کسی کوقتل کرنے سے کفر میں مبتلا ہونے کا خوف تو نہیں ہے، مگر مومن کو کافر کہنے میں یہ خوف بھی ہے کہ اگر فی الواقع وہ شخص کافر نہیں ہے، اور اس کے دل میںذرہ برابر بھی ایمان موجود ہے، تو کفر کی تہمت خود اپنے اوپر پلٹ آئے گی۔ پس، جو شخص اللہ تعالیٰ کا خوف اپنے دل میں رکھتا ہو، اور جس کو اس کا کچھ بھی احساس ہو… وہ کبھی کسی مسلم کی تکفیر کی جرأت نہیں کر سکتا… جو شخص، مسلمان کی تکفیر کرتا ہے، وہ دراصل اللہ کی اُس رسی پر قینچی چلاتا ہے، جس کے ذریعے سے مسلمانوں کو جوڑ کر ایک قوم بنایا گیا ہے… اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ علماے دین میں کافروں کو مسلمان بنانے کا اتنا ذوق نہیں، جتنا مسلمانوں کو کافر بنانے کا ذوق ہے‘‘… (ماہ نامہ ترجمان القرآن، جولائی ۱۹۳۶ء)
ہم دیکھتے ہیں، سیّد قطب شہید نے سہ طرفہ جبر، یعنی: مغربی سامراجی سازشیوں،اشتراکیت کے پرچم برداروں اور عرب قوم پرستی کے نشے میں مدہوش عرب فوجی حاکموں کا جبر دیکھا اور اس کا سامنا بھی کیا، مگر اس کے باوجود سید قطب نے یہ کہیں نہیں لکھا کہ: ’’میرے ہم نواؤ، اُٹھو اور سوشلسٹ عرب قوم پرست ڈکٹیٹر ناصر کی حکومت اور اس کے اہل کاروں کو قتل کر ڈالو‘‘۔ نہ یہ کہا کہ: ’’جہاں کوئی امریکی یا یہودی نظر آئے، اسے پھڑکا دو‘‘۔ نہ انھوں نے اُس جاہلیت کوجو اشتراکیت، سرمایہ دارانہ مادہ پرستی اور نسلی قوم پرستی کے مرکب سے سرطان کا پھوڑا بن چکی ہے اور اس نے نوعِ انسانی کو کرب میں مبتلا کررکھا ہے، اس کے بارے میں کہا کہ: ’’اِس کے فرستادوں کو اڑا دو‘‘۔ ہرگز نہیں، بلکہ انھوںنے اس کے لیے دعوت، تنظیم اور اخلاقی تربیت ہی کو بنیاد بنانے کی دعوت دی۔
دوسری طرف مولانا مودودی نے اپنے عزیز از جاںکارکنوں [اللہ بخش ۱۹۶۳ء لاہور، محمدعبدالمالک ۱۹۶۹ء ڈھاکہ ، ڈاکٹر نذیراحمد۱۹۷۲ ء ڈیرہ غازی خان] کی لاشیں اُٹھا کر بھی بار بار یہی تلقین کی: ’’ہم نے کسی صورت تشدد کا راستہ اختیار نہیںکرنا، دعوت کا راستہ ہی اصلاح اور تبدیلی کا راستہ ہے۔ ہم نے کسی سازش کا حصہ نہیں بننا اور آئینی و جمہوری راستے ہی سے منزل کی طرف گامزن رہنا ہے‘‘۔ مولانا مودودی نے ۹مئی ۱۹۶۳ء کو مکہ مکرمہ میں عرب نوجوانوں سے خطاب میں ہدایت فرمائی تھی: ’’اسلامی تحریک کے کارکنوں کو میری آخری نصیحت یہ ہے کہ انھیں خفیہ تحریکیں چلانے اور اسلحے کے ذریعے سے انقلاب برپا کرنے کی کوشش نہ کرنی چاہیے‘‘ (ماہ نامہ ترجمان القرآن، جون ۱۹۶۳ء، تفہیمات، سوم، ص ۳۶۲)۔جماعت اسلامی تو اگست ۱۹۴۱ء میں بنی، لیکن مولانا مودودی کی وہ تحریریں، جو انھوں نے اپنے دورِ نوجوانی میں اخبارات مسلم اور الجمعیۃ میں ۱۹۲۲ء سے ۱۹۲۸ء کے زمانے میں لکھیں، ان میں بھی تشدد کے عمل کی تائید و تحسین نہیں کی، بلکہ گرفت اور مذمت کی۔
کالم نگار نے جماعت اسلامی کو اپنا ’موقف واضح‘ کرنے کا حکم صادر فرمایا ہے۔ عرض یہ ہے کہ جماعت اسلامی کی تاریخ، عمل اور اس کا دستور اس پر واضح ہیں۔ ’دستور جماعت اسلامی پاکستان‘ کی دفعہ ۵ (شق۳،۴) میں درج ہے: ’’جماعت اپنے پیش نظر اصلاح اور انقلاب کے لیے جمہوری اور آئینی طریقوں سے کام کرے گی۔ جماعت اپنے نصب العین کے حصول کی جدوجہد خفیہ تحریکوں کی طرز پر نہیں کرے گی بلکہ کھلم کھلا اور علانیہ کرے گی‘‘۔(دستور، ص ۱۵)
اسی طرح سیّد قطب کے فکری وارثوں، یعنی الاخوان المسلمون نے کبھی بغاوت اور تکفیر اور قتل و غارت کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ اخوان کے مرشد عام ڈاکٹر محمد بدیع کا یہ تاریخ ساز جملہ اخوانی فکر کا حقیقی عکاس ہے، جو انھوں نے اگست ۲۰۱۳ء کو قاہرہ کے میدان رابعہ میں فرمایا تھا کہ: ’’ہم پُر امن ہیں، پُرامن رہیں گے، اور ہمارا پُرامن رہنا تمھاری گولیوں اور توپوں سے زیادہ طاقت ور ثابت ہوگا‘‘۔ مرشد عام اور ان کے ۴۵ ہزار جاں نثار آج بھی، مصر کی جیلوں میں صبر و ثبات کا نشان بن کر ہمارے معذرت خواہی کے دل دادہ دانش وروںکی تخیل آفرینی کا عملی جواب ہیں۔
سیّد قطب شہید نے اپنی کتاب معالم فی الطریق میں یہ اصولی بات بیان کی ہے: ’’اسلام، جاہلیت کے ساتھ نیمے دروں نیمے بروں نوعیت کی کوئی مصالحت قبول نہیں کرسکتا۔ معاملہ خواہ اس کے تصور اور نظریے کا ہو اور خواہ اس تصور اور نظریے پر مرتب ہونے والے قوانینِ حیات کا۔ اسلام رہے گا یا جاہلیت‘‘ (اردو ترجمہ: جادہ و منزل، ص ۳۶۴-۳۶۵)۔ یہ اصولی بات سیّدقطب نے قرآن اور آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تتبّع میں کہی ہے، جس کی بازگشت صحابہؓ اور صلحاؒ کے ہاں بھی سنائی دیتی ہے۔ ارشادِ الٰہی ہے: ’’اور حق اور باطل کو گڈمڈ نہ کرو‘‘ (البقرہ۲: ۴۲)۔ مزید فرمایا: ’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے کہ اس کو سارے ادیان پر غالب کردے، ان مشرکوں کے علی الرغم‘‘ (التوبہ۹:۳۳)۔ یہ ابدی حقیقت قرآن میں موجود ہے تو سیّدقطب اپنی شہادت کے ۵۰سال بعد بھی کیوں گردن زدنی ہیں؟
اگر ایمن ظواہری نے اپنی صواب دید پر یہ کہا ہے کہ انھوں نے سیّد قطب کی تحریروں سے اپنی منزل کا سراغ پایا ہے، تو کسی بھی فرد کی جانب سے ایسا من مانا دعویٰ کوئی انوکھی بات نہیں۔ ماضی میں خوارج نے ایک منفی رول ادا کیا تھا اور آج منکرینِ حدیث یا درست لفظوں میں امریکی مرضی کے مطابق ’اسلام پیش کرنے والے‘ بھی قرآن ہی کو اپنے لیے ’ذریعۂ رہنمائی‘ قرار دینے کا دعویٰ کرکے اُمت کے سینے پر مونگ دَل رہے ہیں۔ تو اب کیا یہ کہا جائے گا کہ خارجیوں اور منکرینِ حدیث کی جدید ترین قسموں کا ذمہ دار (نعوذباللہ) قرآن ہے؟ اگر ایک فرد، سیّدقطب شہید یا علامہ محمد اقبال یا مولانامودودی کی تحریروں سے وہ شگوفہ نکالتا ہے، کہ جس پودے کو کبھی انھوں نے پانی دیا ہی نہیں تھا، تو وہ، ایسے کم فہم فرد یا شرانگیز گروہ کی حرکات کے کیسے ذمہ دار قرار پاتے ہیں؟
معذرت خواہ دانش ور، نہ تو سیّد قطب شہید کے عہد کے جبر کو جان سکتے ہیں، نہ وہ زمان و مکان اُن کے تجزیے کی گرفت میں آسکتے ہیں، جن میں انھوں نے پھانسی کے پھندے کو چوم کر بھی اللہ اور اس کے رسولؐ سے وفاداری کا ثبوت دیا۔ شکوک و شبہات کی فصلیں بونے والے قلم کار، بھلا نہتے کارکنوں کی قتل و غارت گری کا ادراک کیسے کرسکتے ہیں؟ یک قطبی امریکی سامراجی عہد میں سانس لینے والے ’مغرب زدہ علما‘ کے لیے انسانی حقوق، امن، عدل، رواداری کے کاغذی الفاظ میں ’بڑی قوت‘ ہے، مگر ناصر اور سیسی کی جیلوں میں سسکتی انسانیت اور صلیبوں پر لٹکتے لاشے اور جیل میں کتوں کے جبڑوں میں بھنبھوڑی جاتی عفت مآب خواتین کی کوئی آوازکانوں سے نہیں ٹکراتی۔
ہمارے ان پارا صفت قلم کاروں کو نہ توسامراجی سلطنتوں میں وسعت لانے والی مغربی سامراجی طاقتیں یاد آتی ہیں ، نہ اقوامِ متحدہ کی بارگاہ سے نازل ہونے اور قتل و غارت مسلط کرنے والی خونیں قراردادیں متوجہ کرتی ہیں، اورنہ ڈیزی کٹر اور بموں کی ماں یاد آتی ہے۔یاد آتا ہے تو بس یہ کہ کسی طرح شرق و غرب کے غاصبوں کو چیلنج کرنے والی کوئی آہ، چیخ بن کر فضا کو نہ چیر دے۔
یہی کالم نگار اس سے قبل متعدد بار لکھ چکے ہیں کہ ’سیاسی اسلام‘ یا ’اسلام کی سیاسی تعبیر موجودہ المیے کی ذمہ دار ہے،سوال پیدا ہوتا ہے کہ گذشتہ ڈیڑھ دو عشروں سے پہلے انھی اصحابِ قلم کی تحریروں نے وہ قیامت کیوں نہ ڈھائی، جو آج ان کے سر تھوپی جارہی ہے؟ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ان مظلوم مفکرین نے نہ وہ ’نظریہ‘ دیا تھا اور نہ وہ ’تنظیمیں‘ بنائی تھیں، جنھیں آج ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے۔ دراصل یہ دانستہ مغالطہ انگیزی اس حقیقی مجرم اور سامراج کو بچانے کی یاوہ گوئی ہے، جس سے اصل قاتل سے توجہ ہٹاکر قتل اور آلۂ قتل کو، خود مقتول کے ذمے لگایا جارہا ہے۔
اہلِ صدق و صفا جانتے ہیں کہ ایسی وعدہ معاف دانش کی عمر مچھر کی زندگی سے زیادہ حقیر ہے۔ ہم جیسے لوگوں کے لیے اگرچہ سیدقطب شہید دل اور سیّد مودودی دماغ کا درجہ رکھتے ہیں، لیکن ہم ان کی باتوں کو آخری سند نہیں مانتے، یہ مقام تو صرف کلام اللہ اور سنت اور حدیث رسولؐ اللہ کو حاصل ہے۔
کسی بھی نظریاتی مملکت میں تعلیم کا مقصد ایسے افراد پیدا کرنا ہوتا ہے، جو اس کے نظریے پر پختہ یقین رکھتے ہوں اور اپنی زندگیوں کو اس نظریے کے مطابق ڈھال سکیں۔ پاکستان ان معنوں میں ایک نظریاتی مملکت ہے کہ اس کی بنیاد اسلام پر ہے، اور یہ [عصرِحاضر] میں اسلام کو زندگی کے ہرشعبے میں نافذ کرنے کے لیے وجود میں آئی ہے۔ اس لیے پاکستان میں تعلیم کا مقصد ایسے افراد پیدا کرنا ہے، جو اسلام پر مکمل یقین رکھتے ہوں اور اسلام کے مطابق زندگی بسر کرسکیں، یعنی پکّے اور سچے مسلمان ہوں۔
بظاہر یہ ایک سیدھی سادی اور منطقی بات ہے، جس میں کوئی پیچیدگی یا اُلجھائو نظر نہیں آتا۔ لیکن جب ہم اس بات پر عملی نقطۂ نظر سے غور کرتے ہیں تو بہت سے سوالات پیدا ہونے لگتے ہیں، جن پر غور کیے بغیر اور ان کا کوئی تشفی بخش جواب سوچے بغیر، ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ ایک سوال یہ ہے کہ ہم جب اسلام کو عہد ِ جدید کے تقاضوں سے مشروط کرتے ہیں تو اس سے ہماری کیا مراد ہوتی ہے؟ کیا [اکیسویں] صدی عیسوی میں مسلمان ہونا، پندرھویں صدی ہجری میں مسلمان ہونے سے مختلف بات ہے؟ دوسرے لفظوں میں ہمارا سوال یہ ہے کہ وہ کیا چیزیں ہیں جو [عصرِحاضر] سے تعلق رکھتی ہیں، اور وہ کیا چیزیں ہیں، جو اسلام سے تعلق رکھتی ہیں اور پھر لمحۂ موجود میں ان کا اشتراک کیامعنی رکھتا ہے؟
ہمارے سامنے یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ ظہورِ اسلام سے اب تک ہماری معاشرت بہت کچھ بدلتی رہی ہے۔ اسلام عرب کے قبائلی نظام میں پیدا ہوا تھا اور اپنی تاریخ کے مختلف اَدوار میں متعدد معاشروں سے دوچار ہوا۔ ان کے اعتبار سے عرب،عجم، ہندستان،وسطی ایشیا، افریقہ وغیرہ میں مسلمانوں نے کم از کم ظاہری طور پر مختلف شکلیں اختیار کیں۔ اب ان سب ملکوں کی معاشرت میں واضح اور نمایاں تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اسلام ان تبدیلیوں کے بارے میں کیا رویّہ رکھتا ہے؟شاید یہ سوال ایک مثال سے زیادہ واضح ہوسکے۔
عہدِ جدید سے پہلے پردے کی مختلف شکلیں مسلمان ملکوں اور معاشروں میں رائج تھیں۔ برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں میں بھی اس کی ایک مخصوص شکل تھی۔ ہندستان میں انگریزوں کی آمد کے بعد جب عورتوں میں بے پردگی پھیلی، تو پورے معاشرے میں بڑی بے چینی پیدا ہوئی اور عورتوں کے پردے سے باہر نکلنے کو خلافِ اسلام قرار دیا گیا۔ اس کے مقابلے پر جو جدیدیت پسند لوگ بے پردگی کے حامی تھے، انھوں نے ایسے دلائل دینے شروع کیے کہ: ’’برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں میں جو پردہ رائج تھا وہ تو غیراسلامی تھا اور اس کے مقابلے پر موجودہ بے پردگی ہی اسلامی ہے‘‘۔ یہ بحثیں کچھ عرصے تک زوروشور سے جاری رہیں، لیکن اس کے بعد بے پردگی کے رجحان نے قوت پکڑلی اور معاشرے میں دو طبقات وجود میں آگئے۔ ایک طبقہ اُن لوگوں کا، جو اَب بھی عورتوں کو پردہ کراتے ہیں۔ دوسرا طبقہ ان لوگوں کا، جن کی عورتیں پردہ نہیں کرتیں۔
تاہم، پردہ کرنے والوں میں بھی اب وہ سختی باقی نہیں رہی اور ایک ایسا ڈھیلا ڈھالا [بقاے باہم کا] نظام وجود میں آیا کہ ماں برقعہ اُوڑھ کر باہر نکلتی ہے تو بیٹی بے پردہ ساتھ ہوتی ہے۔ بہ ظاہر حالات جوں جوں تبدیل ہوتے جارہے ہیں بے پردگی کا رجحان زیادہ تقویت پکڑتا جارہا ہے۔ اب عملاً تو یہ بے عملی موجود ہے، لیکن نظریاتی طور پر یہ بات کھل کر طے نہیں ہوسکی کہ دونوں طبقات میں کس طبقے کا عمل اسلام کے مطابق ہے اور کس کا اسلام کے خلاف؟ کم از کم اسلام کے مستند شارحین اس مسئلے پر ویسی بات نہیں کرتے جیسی پہلے کرتے تھے۔ ایسا لگتا ہے جیسے پچھلے مقتدر نقطۂ نظر کی جگہ ایک خاموش قسم کے سمجھوتے نے لے لی ہے، اور زبان سے صاف طور پر قبولے بغیر بے پردگی کو تسلیم کرلیا گیا ہے۔
یہ ایک مثال ہے جس کے ذریعے بہت سے دوسرے مسائل کو دیکھا اور سمجھا جاسکتا ہے۔ عورتوں ہی سے متعلق ایک دوسرا سوال مخلوط تعلیم کا ہے۔ آپ ان مثالوں کو پیش نظر رکھیں تو آپ کو بہت سے ایسے مسائل نظر آئیں گے، جن میں اسلام کا وہ نقطۂ نظر جو اِن تبدیلیوںکے آغاز میں اختیار کیا گیا تھا، عہدِ حاضر کے رویوں سے متصادم نظر آئے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں اسلام کا نفاذ [پہلے والے] نقطۂ نظر کے مطابق ہوگا، یا اس میں ان جدید رویوں کو قبول کرلیا جائے گا، جو خواہ کسی زمانے میں اسلامی نہ سمجھے گئے ہوں، مگر موجودہ زمانے میں کسی نہ کسی طرح مسلمانوں میں قبول یا رائج ہوگئے ہیں؟
اُوپر دی ہوئی وضاحت کی روشنی میں یہ حقیقت ہے کہ دنیا کے ہر معاشرے کی طرح ہمارا معاشرہ بھی آئے روز نت نئی تبدیلیوں کی زد میں ہے۔ اس جبر و اختیار کی فضا میں: اسلامی نقطۂ نظر سے ہمارا رویّہ کیا ہونا چاہیے؟ ہمیں ان تبدیلیوں کو قبول کرنا چاہیے یا انھیں رد کرنا چاہیے؟ اگر قبول کرنا چاہیے تو اسلام میں اس کا اصول کیا ہے؟ اگر رد کرنا چاہیے تو کیا اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہمیں ویسا رہنا چاہیے جیسے ہم عہدِ حاضر کے آغاز سے پہلے تھے، اور کیا یہ ممکن ہے؟
جہاں تک دین و مذہب کے مستند نمایندوں کا تعلق ہے، ہم یہ دیکھتے آئے ہیں کہ انھوں نے ابتدا میں معاشرے میں رُونما ہونے والے ہر چھوٹے بڑے تغیر کی مخالفت کی۔ بالوں کی وضع قطع، لباس، داڑھی کی مقدار، پردہ ، تصویریں کھنچوانا، مسجدوں میں لائوڈ اسپیکر کا استعمال تک ایسے ہی بے شمار مسائل پر اختلاف موجود تھا کہ یہ اسلامی ہیں یا غیراسلامی؟ یہاں تک کہ خود جدید تعلیم کا مسئلہ بھی ایک اختلافی مسئلہ تھا۔ بعد میں حالات کی تبدیلی کے ساتھ خاموشی اور پھر رفتہ رفتہ سمجھوتے کا رویہ اختیار کیا گیا۔
اعتراض یہ نہیں ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ اعتراض یہ ہے کہ عملاً اگر کچھ چیزیں ابتدائی مخالفت کے بعد اختیارکرلی گئیں تو اس اصول کو واضح کیوں نہیں کیا گیاکہ جن کے تحت تبدیلیوں کو قبول کیا جاسکتا ہے۔ دین کے شارحین اور علماے کرام کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس بنیادی سوال کی وضاحت کریں کہ معاشرتی تبدیلیوں کے بارے میں اسلام کا رویّہ کیا ہے؟ جدید تعلیم یافتہ لوگوں کا ایک گروہ جو مذہب سے بھی کچھ شغف رکھتا ہے ’اجتہاد‘ کے اصول پر زور دیتا ہے۔ لیکن جیساکہ ہم سب جانتے ہیں، ہمارے یہاں ایسے مذہبی مکاتب ِ فکر موجود ہیں، جو ’اجتہاد‘ کے بجاے تقلید کے قائل ہیں۔
سوال یہ ہے کہ پاکستان بطور ایک نظریاتی مملکت کے ’اجتہاد‘ کو اپنا اصول بنائے گا یا تقلید کو؟ اس کے بعد دوسرا سوال یہ ہے کہ اجتہاد کا حق کسے حاصل ہوگا؟ اب تک صورتِ حال یہ رہی ہے کہ کچھ لوگوں نے انفرادی طو ر پرجو ’اجتہاد‘ کرنا چاہا ہے، علما اور معاشرے کی اکثریت نے اسے رد کر دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ’ اجتہاد‘ اگر ہماری ضرورت ہے تو اس کے لیے باقاعدہ ایک ادارے کی ضرورت ہوگی۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ ادارہ کس قسم کے لوگوں پر مشتمل ہوگا؟ اگر اس کی باگ ڈور علما کے ہاتھ میں ہوگی تو کیا ان میں وہ لوگ شامل ہوں گے جو تقلید سے ایک انچ بھی ہٹنے کے لیے تیار نہیں؟ اگر نہیں تو پھرکیا علما کے تعاون کے بغیر کوئی ’اجتہاد‘ مستند سمجھا جاسکے گا؟
یہ سوال بظاہر تعلیم کے مسئلے سے غیرمتعلق معلوم ہوتے ہیں، لیکن ذرا گہرائی میں جاکر دیکھا جائے تو تعلیم کے مسئلے سے ان کا براہِ راست تعلق ہے۔ تعلیم کا مقصد اگر سچے اور پکّے مسلمان تیار کرنا ہے، تو ہمیں اس سوال کا جواب دینا ہوگا کہ ایک سچے اور پکّے مسلمان کا ہمارے ذہن میں کیا تصور ہے؟ یعنی وہ ظاہر اور باطن میں کیسا ہوگا؟ اکبر الہ آبادی [م:۱۵فروری ۱۹۲۱ئ]کے الفاظ میں ہم اسے ’مسٹر‘ دیکھنا پسند کریں گے یا ’مولانا‘، یا دونوں کی کوئی ملی جلی شکل؟
ہم نے معاشرتی تبدیلیوں کے حوالے سے جو سوال اُٹھائے ہیں، اب تعلیم سے اُن کے تعلق کو واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ کا جواب پردے کے بارے میں یہ ہے کہ پردہ ہونا چاہیے تو تعلیم پر اس کے مختلف اثرات نمایاں ہوں گے۔ سب سے پہلے یہ سوال پیدا ہوگا کہ عورتوں کو کس قسم کی تعلیم دی جائے؟ جو نقطۂ نظر پردے کے حق میں ہے، وہ عورتوں کے مخصوص سماجی کردار کا قائل ہے۔ اس کے نزدیک عورت: ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کی حیثیت سے خاتونِ خانہ ہے، لیکن معاشرے میں اس کا گھر سے باہر کوئی کردار نہیں ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اس نقطۂ نظر سے عورتوں کو ایسی تعلیم نہیں دی جائے گی، جس سے وہ ملازمتوں یا دوسرے پیشوں میں، جہاں مردوں سے اُن کے آزادانہ ربط ضبط کے مواقع ہوں داخل ہوسکیں۔
اسی طرح مردوں کے بارے میں یہ سوال اُٹھایا جائے گا کہ ان کی تعلیم میں سیرت و کردار کی تعمیر کو اوّلین اہمیت دی جائے یا پیشہ ورانہ ہنرمندی کو، یا دونوں کو۔ کچھ عرصہ پہلے جھوٹی گواہی کے مسئلے پر اسلامی نقطۂ نظر سے سفارشات کی گئی ہیں۔ ہمارے خیال میں ایسا ہی مسئلہ خود وکالت کے پیشے کے سلسلے میں بھی پیدا ہوتا ہے۔ وکالت بطور پیشے کے، جھوٹے مقدمات سے دامن نہیں چھڑا سکتی۔ اب پہلا سوال یہ ہے کہ پاکستان میں کیا عدالت کا کوئی ایسا نظام پیدا کرنا ہوگا، جس میں وکیل کی ضرورت نہ پڑے یا وکیلوں میں خود ایسی ماہیت ِ قلب کرنی پڑے گی کہ وہ جھوٹے مقدمات کی پیروی نہ کریں؟ اگر ہمارا جواب یہ ہو کہ اسلامی معاشرے میں پیشہ ور وکیل کی ضرورت نہیں ہوگی، تو نظامِ تعلیم میں اس کے مطابق ردّ و بدل کرنا پڑے گا۔ ایک طرف ضروری ہوگا کہ وکالت کی مخصوص تعلیم ختم کردی جائے۔ دوسری طرف اس کے بدل کے طور پر ہر طالب ِ علم کو اتنا قانون سکھاناپڑے گا کہ وہ وقت ِ ضرورت اپنے مقدمے کی پیروی خود کرسکے۔
معاشرتی تبدیلیوں کے بارے میں ایک زیادہ گہری بات یہ ہے ،کہ وہ ذہنی تبدیلیوں کا نتیجہ یا سبب بنتی ہیں۔ ذہنی تبدیلی میں خیال، جذبہ اور احساس سب کی تبدیلی شامل ہے۔ ایک ایسا فرد جو بچپن سے مذہبی ماحول میں رہا ہو، ایک ایسے فرد سے مختلف ہوتا ہے ، جو طبعاً آزادانہ ماحول کا تربیت یافتہ ہو۔ اس کی مثالیں آپ عورتوں اور مردوں میں واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ ایک لڑکی جو پردے میں رہی ہو اور روایتی مشرقی ماحول میں پروان چڑھی ہو، وہ جدید تعلیم و تربیت کے گہوارے میں پلی بڑھی لڑکیوں سے اپنے پورے طرزِ احساس میں مختلف ہوتی ہے اور قطعی مختلف قسم کے معاشرتی رویّے کا اظہار کرتی ہے۔
پاکستانی معاشرے میں کس قسم کے معاشرتی رویوں کو پروان چڑھائیں گے اور تعلیم و تربیت کے ذریعے ان میں سے کون سے رویے کی حوصلہ افزائی کریں گے ؟
ذہنی تبدیلیوں کے سلسلے میں دوسرا اہم سوال خالص نصابی نوعیت رکھتا ہے۔ ایک نوجوان، جس کو تخلیقِ کائنات اور تخلیقِ انسان کے دینی عقائد کی تعلیم دی گئی ہے، وہ اس نوجوان سے مختلف ذہنیت رکھتا ہے جو مثال کے طور پر ڈارون [م:۱۹؍اپریل ۱۸۸۲ئ]کے نظریۂ ارتقا پر یقین رکھتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم اپنے نصاب میں ان نظریات اور خیالوں کو شامل کریں گے یا نہیں جو دین کی عام تعلیم سے لگّا نہیں کھاتے؟ یہ نظریہ کہ انسان آدم کی اولاد ہے اور یہ نظریہ کہ انسان بندر سے بنا ہے؟ ہم اپنے بچوں کو دونوں طرح کی باتیں بغیر کسی ترجیح کے سکھاتے ہیں۔جس کے نتیجے میں ان کی شخصیت میں تضاد، ثنویت اور کش مکش پیدا ہوتی ہے۔ ہمیں بہرحال یہ طے کرنا پڑے گا کہ ایسے علوم جو اسلام سے مختلف تصورات پر قائم ہیں۔ ان کے بارے میں ہمارا رویّہ کیا ہو؟ ایسے علوم پڑھانے سے کیا ہم گریز کریں گے یا ان کے نظریات سکھانے کے باوجود ان کے بارے میں ایک تنقیدی نقطۂ نظر کو پیدا کرنے پر زور دیں گے؟ جن نظریات سے اسلامی سیرت و کردار کی تعلیم پر گہرا اثر پڑسکتا ہے، ان میں بعض نفسیاتی نظریے بھی شامل ہیں۔ ایک طالب علم جو لاشعوری محرکات کے نفسیاتی نظریات سے اثر قبول کرتا ہے، وہ سیرت و کردار کی شعوری تعمیر کے نصب العین سے ہم آہنگی محسوس نہیں کرتا۔ ہمیں اپنی تعلیم میں اس بات کو طے کرنا پڑے گا کہ ہم اپنے بچوں کو ایسے نظریات پڑھائیں یا نہ پڑھائیں؟ اگر ہمارا فیصلہ یہ ہو کہ ایسے نظریات کی تعلیم دینا مناسب نہ ہوگا، تو پھر یہ سوال پیدا ہوگا کہ ہم اپنے بچوں کو کس کس علم کی تعلیم نہ دیں؟ دیں تو کس حد تک ، اور اس کے بارے میں ہمارا مجموعی رویّہ کیا ہو؟
ہمارے پُرانے نظامِ تعلیم میں جو فکروعمل کی یک جائی پائی جاتی تھی، اس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ اس نظام کا بنیادی پتھر مذہب تھا۔ اس کے نصاب میں جو کچھ سکھایا جاتا تھا، وہ مذہب کی روشنی میں سکھایا جاتا تھا۔ دوسرے لفظوں میں زندگی کے ہر شعبے کی تشریح و تفسیر، مذہبی نقطۂ نظر ہی سے کی جاتی تھی، اور اگر ایسے علوم کی تعلیم دی بھی جاتی تھی جو مذہب سے براہِ راست تعلق نہیں رکھتے تھے، تو اُن میں مذہبی نقطۂ نظر شامل کر دیا جاتا تھا۔مثال کے طور پر فلسفۂ یونان کی تعلیم تو دی جاتی تھی، مگر اس کی خالص شکل میں نہیں، بلکہ اُس کے اس جواب کی شکل میں جو مسلمانوں میں ’علم الکلام‘ کی صورت میں ظاہر ہوا تھا۔ اس لیے ایک مسلمان طالب علم، فلسفۂ یونان کے مسائل کو کلامی استدلال کی روشنی میں پڑھتا تھا۔ اب اگر اس اصول کو ہم نئے علوم پر منطبق کریں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہمیں سب سے پہلے مذہب کی روشنی میں ان علوم کا جواب پیش کرنا ہوگا۔ صرف اسی صورت میں ہم اپنے بچوں کو ان علوم کے ساتھ اسلامی نقطۂ نظر کی تعلیم دے سکیں گے۔
جذباتی باتوں کا تو خیر معاملہ ہی اور ہے، لیکن جو لوگ ٹھوس بنیادوں پر اسلام کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں، وہ اس حقیقت سے صرفِ نظر نہیں کرسکتے کہ موجودہ زمانہ غالب طور پر ایک مخالف ِ مذہب زمانہ ہے۔ جدید سائنسی اور معاشرتی علوم اپنی بنیاد میں اگر مذہب دشمن نہیں تو کم از کم غیرمذہبی یا سیکولر ضرور ہیں۔ طبیعیات [Physics] میں ہم پہلا اصول کچھ اس طرح پڑھتے ہیں کہ: ’’’مادّہ‘ [matter] کو نہ پیدا کیا جاسکتا ہے، نہ ختم کیا جاسکتا ہے‘‘۔ دوسری طرف مذہب میں ہمیں تعلیم دی جاتی ہے کہ: ’’ہرچیز کا پیدا اور ختم کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے‘‘۔ بالکل اسی طرح نفسیات، بشریات، حیاتیات اور دیگر علوم میں ہمیں بہت سی ایسی باتیں پڑھائی جاتی ہیں، جو مذہبی نقطۂ نظر کے بجاے ایک غیرمذہبی نقطۂ نظر کے حق میں زیادہ جاتی ہیں۔ پاکستان میں اگر تعلیم کا مقصد سچّے اور پکّے مسلمان پیدا کرنا ہے تو ہمیں یا تو ان علوم کی تعلیم بند کرنی پڑے گی یا پھر ان کے مقابلے پر اسلامی علوم پیدا کرنے ہوں گے۔
ہم اگر اسلام کو علوم کی بنیاد بنانا چاہیں گے، تو ہمیں غیرمذہبی یا سیکولر طبیعیات کے مقابلے پر اسلامی طبیعیات، غیرمذہبی یا سیکولر حیاتیات کے مقابلے پر ایک اسلامی حیاتیات، اور اسی طرح درجہ بہ درجہ دیگر اسلامی علوم پیدا کرنے یا پروان چڑھانے ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ یہ کام آسان نہیں ہے۔ سرسیّد احمد خاں [م: ۲۷مارچ ۱۸۹۸ئ] کے زمانے میں کچھ حالات ایسے پیدا ہوگئے تھے، جو نوجوانوں کو مذہب سے دُور لے جارہے تھے، مثلاً: فلکیات کا نیا علم بظاہر ان عقائد سے متصادم تھا، جو اس وقت ہمارے معاشرے میں رائج تھے۔ زمین کے گول ہونے اور حرکت کرنے کا نظریہ، مادے کے خواص میں تبدیل نہ ہونے کا نظریہ، یہ سب نئے نئے مشہور ہوئے تھے اور یہاں تعلیمی دنیا میں مروجہ تصورات سے متصادم تھے۔
سرسیّد احمد کو ان نظریات کی روشنی میں اسلامی عقائد کی ایک ایسی تاویل پیش کرنی پڑی، جس نے پورے معاشرے میں کہرام برپا کردیا۔ مذہبی حلقوں کی طرف سے سرسیّد کی تکفیر کی گئی اور عوام میں اُن کو ’نیچری‘ قرار دیا گیا۔ اکثر حلقوں میں ان پر اب بھی یہ اعتراض ہوتا ہے کہ :’’انھوں نے اسلامی عقائد میں جدید سائنس کا پیوند لگایا‘‘۔ یہ بات اگر بُری تھی تو ہمیں اس بات کا جواب دینا پڑے گا کہ سائنس سے تصادم کی صورت میں ان عقائد کے بارے میں کیا رویّہ اختیار کیا جائے، جو اَب جدید ذہن کو کسی طرح قابلِ قبول نہیں معلوم ہوتے؟ جواب شاید یہ ہے کہ سوال کو ذہن میں آنے ہی نہ دیا جائے، لیکن یہ رویّہ چند در چند خطرات سے خالی نہیں ہے۔ اس کے نتیجے کے طور پر یا تو آپ ایک ایسا ذہن پیدا کریں گے جو جدید ماحول اور اس کے تقاضوں سے یکسر بے خبر ایک جامد ذہن ہوگا، یا پھر طالب علموں میں خودبخود ایک ناگزیر منافقت کا رویّہ پیدا ہوجائے گا۔ ایسے طالب علم اجتماعی طور پر آپ کے سامنے تو سرتسلیم خم کے رویّے کا اظہار کریں گے، مگر شخصی اور انفرادی طور پر اس پر یقین نہ کریں گے، بلکہ شاید تنفّر اور حقارت کا رویہ اختیار کریں گے۔
ہماری دانست میں یہ بات انتہائی ضروری ہے کہ ایک طرف تو یہ بات بالکل واضح طور پر سرکاری پالیسی کی بنیاد ہو کہ: اسلام کی وہ کون سی چیزیں ہیں جو جزوِ دین ہیں؟ اور کون سی چیزیں ہیں جو صرف ماحول اور زمانے کے اثر سے کسی خاص وقت میں اسلامی سمجھ لی گئی ہیں؟ جب کہ موجودہ زمانے میں اُن کی validity[اعتبار، صحت] باقی نہیں رہی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ ان مسائل سے دوچار ہوکر مسلمان ائمہ فکر نے جو کچھ سوچا ہے، اس میں کتنا حصہ ہمارے لیے قابلِ قبول ہے اور کتنا حصہ نظرثانی کا محتاج ہے۔کچھ عرصہ پہلے پروفیسر کرّار حسین [م:۷نومبر ۱۹۹۹ئ]اور محمد حسن عسکری [م:۱۸ جنوری ۱۹۷۸ئ] نے مولانا اشرف علی تھانوی [م:۴جولائی ۱۹۴۳ئ]کے ایک رسالے کا انگریزی ترجمہ شائع کیا تھا، جس میں مولانا تھانویؒ نے جدید ذہن کے مسائل کی روشنی میں مذہبی نقطۂ نظر سے بعض اصولوں کی تشریح کی ہے۔ یہ کام ابتدائی نوعیت کا ہے اس لیے موجودہ حالات میں زیادہ کارگر اور مؤثر معلوم نہیں ہوتا۔ بہرحال اصولی طور پر ہمیں ایسے کام کی شدید ضرورت ہوگی اور وہ بھی بڑے پیمانے پر جدید ذہن کے اشکالات اور ضروریات کو سامنے رکھ کر اسلامی عقائد کی قابلِ فہم اور دل لگتی تشریحات کے بغیر ہم اپنے نظامِ تعلیم کو ایک قدم بھی آگے نہ لے جا پائیں گے۔
پاکستان کو اگر نظریاتی مملکت کی حیثیت سے اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کرنا ہے، تو اسے اوّلین اہمیت اسی کام کو دینا پڑے گی اور اپنے پورے وسائل کے ساتھ ایسے ادارے قائم کرنے پڑیں گے، جو ایک طرف ایسے لوگوں پر مشتمل ہوں جو دینِ اسلام کا صحیح اور مستند علم رکھتے ہوں، اور دوسری طرف ایسے لوگوں پر مبنی ہوں جو جدید ذہن کے مسائل کو سمجھتے ہوں۔ ان دونوں کے اشتراک سے اسلام کی ایسی تشریح کی جاسکے گی، جو جدید ضروریات کے مطابق مذہب کو نئے ذہن کے لیے نئی زبان اور نئے طریق استدلال کے ساتھ ہم آہنگ کرسکے۔یہ کام جتنا زیادہ گہرا اور وسیع ہوگا، اتنی ہی آسانی سے ہمارے نظامِ تعلیم کی بنیاد بن سکے گا۔
زیرنظر مضمون میں جہاں تحریکِ اسلامی کے محترم اہلِ قلم کی کاوشوں اور خدمات کا اعتراف ہے، وہیں اس معرکۂ علم و فضل میں خود احتسابی اور خود توجہی کا دل آویز حوالہ بھی موجود ہے۔ ادارہ
تحریک ِ اسلامی کے لٹریچر کا ایک بڑا حصہ ’علمِ کلام‘ یعنی اسلامی عقائد و اصولوں کے حق میں عقلی دلائل پر مبنی ہے۔ یہ مولانا مودودی کے بڑے کارناموں میں سے ہے کہ ایک بڑے نازک موڑ پر انھوں نے اُمت کے جدید تعلیم یافتہ اور ذہین طبقے کو فکری ارتداد سے بچایا اور ان کے ذہن و قلب میں اسلام پر یقین و اعتماد کو بحال کیا اور اس کے لیے بڑی گہری اور پاے دار بنیادیں فراہم کیں۔
اسلامی عقائد و ایمانیات پر پختہ یقین پیدا کرنے میں مولانا مودودی کی شہرئہ آفاق کتابیں: دینیات ، خطبات اور اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر شامل ہیں۔ا ن کتابوں میں مولانا نے عام فہم اور سادہ طریقے سے اسلام کے بنیادی عقائد کو عقلی دلائل سے ثابت کیا ہے۔ اسی طرح اسلامی نظامِ زندگی اور اس کے بنیادی تصورات کے بعض مقالات اور تفہیم القرآن کے بہت سے مباحث میں انھی موضوعات کو اور زیادہ عالمانہ طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔
آج، اسلامی دعوت کی بڑی علمی ضرورت یہ ہے کہ علم و فضل کے اس سلسلے کو مزید آگے بڑھایا جائے۔ اسلامی علمِ کلام کو ترقی دی جائے اور اسلامی عقائد کو فلسفے کی اعلیٰ ترین سطح پر ثابت کیا جائے۔
مولانا مودودی کی کتابیں ایک عام تعلیم یافتہ فرد کو اللہ کے وجود پر قائل کرنے کے لیے کافی ہیں۔ ان کتابوں میں اُن دلائل سے بھی استفادہ کیا گیا ہے، جو عہدوسطیٰ کے متکلمین، بالخصوص امام غزالی [۱۰۵۸ئ-۱۱۱۱ئ]نے یونانی فلسفے کے توڑ کے لیے استعمال کیے تھے۔ مولانا مودودی نے ان کلاسیکل دلائل کو اپنے مخصوص طرزِ بیان اور جدید مثالوں سے نیا آہنگ اور پُرتاثیر خوب صورتی بخشی ہے اور جدید ذہن کے لیے انھیں قابلِ قبول بنا دیا ہے۔ بلاشبہہ مولانا مودودی کی یہ کتابیں ہمارے عہد کی محسن کتابیں ہیں۔ ان مباحث نے نجانے کتنے قلوب سے تشکیک کا غبار صاف کیا ہے اور بلامبالغہ لاکھوں دلوں کو ہدایت ِ الٰہی کی شمع سے روشن کیا ہے۔
جیسا کہ عرض کیا ہے ، یہ دلائل عام پڑھے لکھے لوگوں کے لیے تو کافی ہیں، لیکن جنھوں نے مغربی فلسفوں کا گہرا مطالعہ کیا ہے اور ان کا کم و بیش اثر قبول کیا ہے، ان کے لیے کام باقی ہے۔ اٹھارھویں اور انیسویں صدی میں ملحد مغربی فلسفیوں نے انھی دلائل کی کاٹ کی ہے۔ اللہ کے وجود کے اثبات میں مولانا مودودی نے گھڑی اور مشینوں کی جو مثال دی ہے، پہلے پہل یہ مثال برطانوی عیسائی فلسفی ولیم پیلے [۱۷۴۳ئ-۱۸۰۵ئ] نے پیش کی تھی۔ گذشتہ ۲۰۰ برسوں میں یہ مثال مختلف اہلِ علم کے ہاں مختلف حوالوں سے بہ کثرت زیربحث آچکی ہے۔
ڈیوڈ ہیوم [۱۷۱۱ئ-۱۷۷۶ئ]سے لے کر رچرڈ ڈاکنز [پ:۱۹۶۱ئ] تک درجنوں فلسفیوں نے اس پر جرح کی ہے اور رچرڈ ڈاکنز نے ایک مستقل کتاب صرف اس ایک دلیل کے رد میں لکھی ہے۔ برٹرنڈرسل [۱۸۷۲ئ-۱۹۷۰ئ] کے دلائل اچھے اچھے اہلِ ایمان کو متشکک کر دیتے ہیں۔ ہمارے زمانے میں رچرڈ ڈاکنز، کرسٹوفر ہیحنز [۱۹۴۹ئ-۲۰۱۱ئ] اور وکٹر جے استینجر [۱۹۳۵ئ-۲۰۱۴ئ] جیسے دسیوں بلندپایہ فلسفی ہیں، جنھوں نے الحاد کے حق میں دلائل کی وسیع عمارتیں کھڑی کی ہیں۔ یہ سب فلسفے، علمی دنیا میں الحاد، خدا بے زاری اور انتہاپسندانہ سیکولرزم کے لیے مضبوط بنیادیں فراہم کرتے ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ ان فلسفوں کے مقابلے کے لیے اور جدید اسلوبِ نگارش میں ہمارا موجودہ اسلامی تحریری سرمایہ کسی صورت کافی نہیں ہے۔ میں ایسے کئی صالح، دین دار نوجوانوں سے واقف ہوں جو عمانویل کانٹ [۱۷۲۴ئ-۱۸۰۴ئ] اور برٹرنڈرسل کو پڑھ کر کئی کئی سال تشکیک اور سخت پریشانی کے عالم میں رہے۔ اس پس منظر میں یہ اسلامی دعوت کی اہم ترین علمی ضرورتوں میں سے ہے کہ عالمانہ اور فلسفیانہ سطح پر الحاد کی کاٹ کی جائے اور بجاطور پر اللہ تعالیٰ کے وجود کو ثابت کیا جائے۔ یہ کام عہد وسطیٰ میں امام غزالی نے کیا تھا، جنھوں نے یونانی فلسفے کی بنیادیں ہلا دی تھیں۔
مسیحی دنیا میں اس محاذ پر بڑا قابلِ قدر کام ہوا ہے۔ اگر اس سے استفادہ کرتے ہوئے بھی کچھ کتابیں لکھ دی جاتیں تو مفید کام ہوتا۔ اس طرح کی کچھ کوششیں ہوئی بھی ہیں۔ مثال کے طور پر ترکی کے دانش ور، ہارون یحییٰ [پ:۱۹۵۶ئ] نے سائنسی دلائل کا سہارا لیتے ہوئے بہت قیمتی لٹریچر پیش کیا ہے۔ لیکن یہ دلائل بھی عام لوگوں کے لیے ہیں۔ ملحد فلاسفہ کی گتھیوں کو فلسفیانہ سطح پر حل کرنا ان کا مقصد بھی نہیں ہے۔ وحیدالدین خان صاحب [پ:۱۹۲۵ئ] نے بھی ایک زمانے میں اس ذیل میں اچھی کوششیں شروع کی تھیں۔ اگر وہ اس کام کو جاری رکھتے تو شاید بڑا اہم کام ہوتا۔ لیکن بعدازاں خودملامتی رنگ اپنانے کے نتیجے میں اس موضوع پر ان کا موجودہ لٹریچر بہت سطحی نوعیت کا ہے۔ اس سے اہلِ ایمان کے ایمان میں کہیں اطمینان اور کہیں تزلزل تو پیدا ہوسکتا ہے، لیکن کسی ملحد فلسفی کو قائل کرنے کا کام نہیں ہوسکتا۔
مولانا عبدالباری ندوی [۱۸۸۶ئ-۱۹۷۶ئ]کی کتب: برکلے اور اس کا فلسفہ، مذہب اور عقلیات، مذہب اور سائنس میں ان موضوعات پر گراں قدر مباحث ہیں۔ خاص طور پر کوانٹم میکانکس اور ’نظریۂ نسبیت‘ (Relativity)کے بعد کی فلسفیانہ صورتِ حال کے پیش نظر بعض اچھے نکات زیربحث آئے ہیں۔ لیکن ایک تو یہ بحث کافی نہیں ہے اور دوسرے کافی قدیم ہے۔
امریکی مسیحی فلسفی ولیم لین گریگ [پ: ۲۳؍اگست ۱۹۴۹ئ] نے اسلامی علمِ کلام ہی کو مسیحی نقطۂ نظر اور سائنس و فلسفے کی جدید ترقیوں کی روشنی میں کافی ترقی دی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے وجود کے اثبات میں ان کے کام کو بڑ ی اہمیت حاصل ہے اور ان کی ۳۰ سے زائد کتب، خاص طور پر ۱۹۷۹ء میں ان کی کتاب The Kalam Cosmological Argument(KCA) اللہ کے وجود کے اثبات پر بڑی گہری فلسفیانہ کتاب ہے اور ملحد فلسفیوں کے بیش تر دلائل کا پُرزور رد ہے۔
اسی طرح برطانوی فلسفی اینٹونی فلیو [۱۹۲۳ئ-۲۰۱۰ئ]زندگی بھر ملحد رہے اور الحاد کے حق میں اور اللہ کے وجود کے رد میں تین درجن سے زیادہ کتابیں لکھیں۔ یاد رہے انھیں ’دنیا کا بدنام ترین ملحد‘ کہا جاتا تھا، لیکن مرنے سے دو تین سال قبل انھوں نے اپنا ذہن بدلا اور مرتے مرتے، اللہ تعالیٰ کے وجود کے اثبات میں کتاب لکھ گئے۔ ان کی کتاب There is a God اس موضوع پر بہت گہری فلسفیانہ دستاویز ہے۔ عمانویل کانٹ اور ڈیوڈ ہیوم سے لے کر عصرحاضر کے معروف ملحدین تک کی ہردلیل کا مسکت جواب اس کتاب میں موجود ہے۔ یہ کتاب چونکہ ایک ایسے فرد کی لکھی ہوئی ہے، جو عصرِحاضر میں الحاد کا بڑا قدآور امام مانا جاتا تھا، اس لیے اس کی اہمیت دوچند ہوگئی ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ ولیم گریگ اور اینٹونی فلیو کے ’تصورِ خدا‘ میں اور اسلام کے ’تصورِالٰہ‘ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس لیے ان کتابوں سے استفادہ محدود پیمانے پر ہی ہوسکتا ہے۔ اس لیے ابتدا میں کم از کم یہ ہونا چاہیے کہ فلسفے کے کچھ ذہین طالب علم، ان عیسائی فلسفیوں کے افکار سے استفادہ کرتے ہوئے اسلام کے ’تصورِ الٰہ‘ کے حق میں کچھ گہری کتابیں لکھیں اور دھیرے دھیرے یہ کاوشیں جدید اسلامی فلسفے کی ایک مستقل شاخ بن جائیں۔
تھیوری ، تصورات کے منظم ڈھانچے کا نام ہے۔ ایک ذہین مفکر جب واقعات اور احوال پر غور کرتا ہے، تو ان کی توجیہات کا ایک ایسا منظم خاکہ اور ایک ایسی آفاقی اسکیم تیار کرتا ہے، جس کی بنیاد پر اس طرح کے بے شمار واقعات اور احوال کا تجزیہ کیا جاسکتا ہے۔ مستقبل سے متعلق پیش گوئی کی جاسکتی ہے اور آیندہ چند در چند واقعات کے متعلق کوئی راے قائم کی جاسکتی ہے۔
اکثر تھیوری میں تجریدی (abstract)تصورات پیش کیے جاتے ہیں اور انھیں مخصوص (اور اکثر منفرد اور نئی) اصطلاحات کے ذریعے بیان کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر مولانا مودودی نے خلافت راشدہ اور بنواُمیہ کی تاریخ اور اس زمانے میں پیش آئے واقعات کی بنیاد پر خلافت سے ملوکیت کی طرف سفر کی ایک پوری تھیوری تعمیر کی اور اس تھیوری کو خلافت، ملوکیت وغیرہ اصطلاحات کے استعمال سے واضح کیا۔ یا تحریکِ آزادیِ ہند کے زمانے کے احوال و واقعات کا تجزیہ کرتے ہوئے اسلامی ریاست و سیاست کی تھیوری تعمیر کی۔ ابن خلدون [۱۳۳۲ئ-۱۴۰۶ئ] نے ’عصبیہ‘ (Social Cohesion) کی تھیوری پیش کی، یا امام غزالی نے اخلاق کی تھیوری پیش کی تھی اور ’شہوت’، ’حکمت‘ اور’ غضب‘ کی اصطلاحات سے اس تھیوری کی وضاحت کی تھی۔
تھیوری کی تعمیر ایک بہت مشکل کام ہوتا ہے۔ تھیوری بن جائے تو تفصیلات کا تعین بھی آسان ہوجاتا ہے اور اثبات بھی۔ کارل مارکس کا ’ورلڈ ویو‘ [تصورِجہاں] ہم کو معلوم ہے۔ اسی ’تصورِجہاں‘ کی بنیاد پر اس نے تاریخ میں ’جدلیاتی مادیت‘ (Dialectical Materialism) کی تھیوری پیش کی۔ اب ایک مارکسی مفکر کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ وہ اس تھیوری کی بنیاد پر ہرتاریخی واقعے کی توجیہ کرے اور مستقبل کی پیش گوئی کرے۔ یوں سماجیات میں اس نے ’معاشی جبریت‘ (Economic Determinism) کی تھیوری پیش کی۔ نومارکسی مفکرین نے اس میں ترمیم کی اور فرانسیسی مفکر لوئی التھیوز [۱۹۱۸ئ-۱۹۹۰ئ] نے ’زائد جبریت‘ (Overdeterminism) اور ’نسبتی خودمختاری‘ (Relative Autonomy) جیسی نئی سماجی تھیوریاں تشکیل دیں۔
مولانا مودودی نے اسلامی نظامِ اجتماعیات میں سیاسی سطح پر تھیوری کی تعمیر کا مکمل کام کیا ہے۔ حاکمیت و شارعیت ِالٰہ، خلافت ِ جمہور، عالم گیر انسانی اخوت، حکومت ِالٰہیہ ، اقامت ِدین وغیرہ اس تھیوری کے کچھ مرکزی عنوانات ہیں۔ دیگر محاذوں پر بھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مولانا مودودی کے ذہن میں تھیوریوں کا مکمل خاکہ موجود تھا اور ان کی تصنیفات میں تعلیم، معیشت، تہذیب اور تاریخ کی تھیوریوں کے سلسلے میں واضح اشارات ملتے ہیں۔
تاہم، آج اسلامی فکر کے سامنے ایک بڑا اہم چیلنج یہ ہے کہ theory construction [تعمیر ژرف اندیشی] کے اس کام کو آگے بڑھایا جائے۔ اسلامی معاشیات کے باب میں مولانا مودودی، ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی، پروفیسر خورشیداحمد، ڈاکٹر محمدعمر چھاپرا، ڈاکٹر انس زرقا، محمداکرم خان، ابوالحسن بنی صدر، باقرالصدر وغیرہ کی خدمات قابلِ ذکر ہیں۔ لیکن اسلامی معاشیات کو ابھی بہت سے حل طلب مسائل اور چیلنج درپیش ہیں، جس کے لیے نئی نسل کو آگے بڑھنا ہے۔تعلیم میں فلسطینی نژاد اسکالر ڈاکٹر اسماعیل راجی الفاروقی شہید [۱۹۲۱ئ-۱۹۸۶ئ] اور دیگر بے شمار دانش وروں اور اداروں کی گراں قدر کوششوں اور سیّدمحمد نقیب العطاس [پ:۱۹۳۱ئ] کی چشم کشا تحریروں کے باوجود یہ امرواقعہ ہے کہ منظم تھیوری کی تشکیل کا کام ابھی باقی ہے۔ غالباً ابھی تک اس سطح کا کام نہیں ہے کہ ہم اسے Educational Essentialism [تدریسی ماہیت گری]، یا Criticial Pedagogy [تنقیدی فنِ تدریس] یا ۱۹۱۱ء سے رُوبہ عمل ’مونٹی سوری تدریسی طریقے‘ یا ۱۹۱۹ء سے متعارف ’والڈ روف تدریسی عمل‘ وغیرہ کے مقابلے میں پیش کرسکیں۔ تاریخ اور تہذیب میں بھی یہ کام نامکمل ہے۔ نفسیات میں سوڈان سے عالی مرتبت ڈاکٹر مالک بدری [پ:۱۹۳۲ئ] کی شان دار کوششوں کے باوجود، سگمنڈ فرائڈ [۱۸۵۶ئ-۱۹۳۹ئ] کے گمراہ کن نظریات کا متبادل پیش کیا جانا باقی ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ معاصر اسلامی لٹریچر میں ’سماج‘ یا ’معاشرہ‘ کی کوئی مبسوط تھیوری تشکیل نہیں پاسکی۔ حالیہ دنوں میں امریکی ایرانی مصنف سیّد حسین نصر [پ:۱۹۳۳ئ]، ترک مصنف فتح اللہ گولن [پ:۱۹۴۱ئ] اور عرب نژاد طارق رمضان [پ:۱۹۶۲ئ] نے اور ماضی قریب میں ایران سے استاذ مرتضیٰ مطہری [۱۹۱۹ئ-۱۹۷۹ئ] اور ڈاکٹر علی شریعتی [۱۹۳۳ئ-۱۹۷۹ئ] نے اس ذیل میں کچھ اچھی تھیوریاں ضرور پیش کی ہیں، لیکن اسلامی سماجی تشکیلِ نو کے لیے غالباً یہ نظریات تحریکِ اسلامی کے فکر کی اطمینان بخش نمایندگی نہیں کرتے۔
ظاہر ہے کہ تھیوری اور خاص طور پر مولانا مودودی، ابن خلدون، امام غزالی اور کارل مارکس وغیرہ کی متذکرہ طرز کی گرینڈ تھیوریوں (grand theories) کی تشکیل ایک عبقری کام ہے اور عبقری مفکرین روز روز نہیں پیدا ہوتے۔ لیکن اس طرح کے بڑے مفکرین کے دیے ہوئے اشارات کی بنیاد پر اجتماعی کوششوں اور اجتماعی دانش کے ذریعے اُس کام کی تکمیل بآسانی ہوسکتی ہے، جو انھوں نے چھوڑا ہے۔ ’نومارکسیت‘ میں ’فرینکفرٹ اسکول‘، ’نیولبرلزم‘ میں ’شکاگو اسکول‘ وغیرہ، درحقیقت افراد کے کارنامے نہیں ہیں بلکہ اجتماعی اداروں کے کارنامے ہیں، جن کی تھیوریوں نے دنیا پر بڑے گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ خود ہمارے حلقوں میں اسلامی معاشیات میں جو کام ہوا ہے وہ زیادہ تر اجتماعی سطح پر ادارہ جاتی کوششوں کے ذریعے ہوا ہے۔ اس لیے کوشش کی جائے تو اسلامی فکر میں بھی یہ کام ہوسکتا ہے۔
اسی طرح ہم دنیا کو بہت شرح و بسط کے ساتھ یہ نہیں بتا سکے کہ ہمارے خوابوں کی دنیا کیسی ہوگی؟ مراد یہ ہے کہ ہمارے بہت سے خواب ابھی بھی بہت غیرواضح ہیں۔ اس عدم وضاحت کی وجہ سے مزاحم اور متحارب گروہوں میں سے کوئی یہ سمجھتا ہے کہ: ’’شاید ہم دنیا کو محض ٹائم مشین میں بٹھاکر ۱۴۰۰برس پہلے کے تمدن میں لے جانا چاہتے ہیں‘‘۔ اور کسی کا خیال یہ ہے کہ: ’’ہماری منزل غالباً ساری دنیا کو اسامہ بن لادن اور طالبان کا افغانستان بنادینا چاہیے‘‘۔ کوئی ہمارے حق میں بہت کشادہ دل واقع ہوا تو یہ سمجھتا ہے کہ: ’’ہم آیت اللہ خمینی والا ایران چاہتے ہیں‘‘۔ حالانکہ ہمارے بارے میں یہ تینوں مفروضے ہرگز درست نہیں ہیں، اور منفی سوچ کے مظہر ہیں۔
گویا کہ نظریاتی تحریکوں کی ایک بڑی ضرورت یہ ہوتی ہے کہ وہ واضح خواب دیکھیں اور دنیا کو وہ واضح خواب دکھائیں۔ خواب دکھانے کا یہ کام بہت وسیع الاطراف اور ہمہ تخصصی (multi- disciplinary) معرکہ ہے۔ ۲۰ویں صدی کے نصف اوّل میں کمیونسٹوں نے یہ کام بہت مؤثر طریقے سے انجام دیا تھا۔ اس خواب کی پیش کاری کے لیے فکروفلسفے سے لے کر لوک گیتوں اور تھیٹر اور ناچ کی محفلوں تک کوئی ذریعہ انھوں نے نہیں چھوڑا تھا۔ فلسفہ، تاریخ، سماجیات، سیاسیات، معاشیات، نفسیات، ادبیات، حتیٰ کہ صنفیات وغیرہ میں ان کی اپنی مستقل تھیوریاں تھیں۔ پالیسیوں اور مسائل پر ان کے واضح موقف تھے اور اس کی تائید میں بھرپور لٹریچر تھا، فلمیں تھیں، ناول، افسانے، شاعری تھی اور ادب عالیہ و فنون لطیفہ کے ذریعے عام ناخواندہ اور خواندہ خواتین و حضرات کو بھی انھوں نے اپنی مطلوب دنیا کی جھلک دکھا دی تھی۔ اُردو شاعری ہی میں دیکھ لیجیے، فیض احمد فیض، اسرار الحق مجاز، ساحر لدھیانوی وغیرہ نے کس خوب صورتی سے ’پرولتاری آمریت‘ [نام نہاد جمہوری] پر مبنی دنیا کے مناظر دکھائے تھے:
مجبور بڑھاپا، جب سونی راہوں کی دھول نہ پھانکے گا
معصوم لڑکپن، جب گندی گلیوں میں بھیک نہ مانگے گا
حق مانگنے والوں کو جس دن ، سولی نہ دکھائی جائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
سنسار کے سارے محنت کش کھیتوں سے نکلیں گے
بے گھر ، بے دَر ، بے بس انساں ، تاریک بلوں سے نکلیں گے
دنیا امن اور خوش حالی کے پھولوں سے سجائی جائے گی
وہ صبح ہمیں سے آئے گی
تاہم، ہمیں کمیونسٹوں کی طرح ایسی سستی نعرے بازی کے بجاے متوازن اور مؤثر انداز سے: عدل، سچائی اور آخرت میں جواب دہی کے احساس کے زیرسایہ، اس میدان میں بہت زور و شور سے پیش رفت کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے تھیوریوں کی تعمیر کا کام ہو۔ ان کی روشنی میں پالیسیوں پر اُٹھنے والے سوالوں کا جواب (response) ہو اور متبادل آئیڈیاز کی تخلیق اور پیش کش کا کام ہو۔ ادب عالیہ کو بڑے پیمانے پر ہمارے خوابوں کی دنیا دکھانے کے لیے ادبی لطافتوں کی بھرپور رعایت اور تفہیم کے ساتھ استعمال کیا جائے۔ اس غرض کے لیے فلمیں بنیں۔ فائن آرٹ کا استعمال ہو۔ یہاں تک کہ لوگ ہمارے خوابوں کو اور ہمارے خوابوں کی دنیا کو سمجھ جائیں اور ان خوابوں میں عملی زندگی کو ڈھالنے کے لیے اُمنگ محسوس کریں۔ یہ کام عمومی طور پر عالمی سطح پر بھی ہونا چاہیے اور ہرملک کے مخصوص احوال کے پس منظر میں بھی۔
جائزے کا ایک زاویہ یہ بھی ہونا چاہیے کہ مستقبل قریب میں ہمارے اور باقی دنیا کے درمیان اصل بحث طلب موضوعات کیا ہیں اور کیا ہوسکتے ہیں؟ ان موضوعات پر بھرپور تیاری کی ضرورت ہے۔ یہ جائزہ ملک کی سطح پر بھی ہونا چاہیے اور عالمی سطح پر بھی۔
اب دنیا کا منظرنامہ بڑی حد تک بدلا ہوا ہے۔ سیکولرزم کے حق میں پہلے جیسا جوش و خروش باقی نہیں ہے۔ فرانس جیسے ملک کا سابق صدر فرانس نکولاس سرکوزی [پ:۱۹۵۵ئ] جیسا متشدد سیکولرسٹ بھی برسرِعام یہ کہہ رہا ہے کہ: ’’مذہب کی بنیاد کے بغیر وجود میں آنے والی اخلاقیات ناپاے دار ہیں اور سوسائٹی کے لیے خطرناک بھی‘‘۔ دوسری طرف مذہب سے بغاوت پر مبنی ، مادر پدر آزاد اجتماعی زندگی کا ۳۰۰ سالہ طویل تجربہ، اپنی تمام حشر سامانیوں کے ساتھ دنیا کے سامنے موجود ہے۔ ان تین چار سو برسوں میں خود مذہب کے صحیح و غلط اور اجتماعی زندگی پر اس کے اثرات کا ریکارڈ بھی موجود ہے۔ ان تجربات کی بنیاد پر بہت سے سیکولر دانش ور بھی مذہب اور ریاست کے درمیان تعلق کی ازسرِنوتعین کی ضرورت محسوس کر رہے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اس بحث کو تحریکی دانش ور نئے زاویے دیں، اور یہ ثابت کریں کہ اکیسویں صدی کے باشعور انسان کو مذہب کے تئیں خوف و احتیاط کے اس رویے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے، جو یورپ کی نشاتِ ثانیہ کے زمانے میں اختیار کیا گیا تھا، اور یہ کہ اجتماعی زندگی میں مذہب کا تعمیری اور مثبت کردار انسانیت کے بہت سے مسائل کو حل کرسکتا ہے اور اس کا عملی ماڈل صرف اسلام پیش کرسکتا ہے۔ اس سلسلے کی جو اُلجھنیں جدید سیکولر ذہن محسوس کرتا ہے، انھیں اور زیادہ تفصیل اور دلائل کے ساتھ رفع کرنے کی ضرورت ہے، اور اس بات کی ضرورت ہے کہ ان اُلجھنوں کا قابلِ عمل حل پیش کیا جائے۔
اسی سے ملتی جلتی ایک بحث، مختلف مذاہب کے ساتھ تعلق اور تکثیری معاشروں میں رویوں کی بحث بہت اہمیت کی حامل ہے۔ عام ذہن کسی ایک مذہب کی حقانیت پر اصرار اور باقی مذاہب کے ردّ و ابطال کو پسند نہیں کرتا۔ اپنے مذہبی عقیدے کو واحد سچائی سمجھنا مذہبی جنون (fanaticism) سمجھا جاتا ہے اور یہاں تکثیریت (Pluralism) کے اُس فلسفے کو قبولِ عام حاصل ہے، جس میں سماج یا معاشرے کو شربت کے ایک ایسے جار سے تشبیہہ دی جاتی ہے، جس میں مختلف مشروبات مل کر اور اپنا منفرد رنگ و مزا کھو دیتے ہیں اور پھر ایک نیا رنگ اور نیا مزا پیدا کرتے ہیں۔ اب نئے عالمی حالات میں اور خاص طور پر پوسٹ ماڈرن فلسفوں کے پس منظر میں یہ ذہن دنیا میں قبولِ عام اختیار کرتا جا رہا ہے۔دنیا کا یہ رویہ مذہب کے علاوہ کسی اور علمی محاذ پر نہیں ہے (پوسٹ ماڈرن فلسفوں کی استثنا کے ساتھ)۔
فلسفہ، مختلف سماجی علوم، حتیٰ کہ نظریاتی سائنس میں بھی مختلف متضاد تھیوریوں پر زوردار بحثیں جاری ہیں۔ لوگ اپنے موقف ہی کو صحیح سمجھتے ہیں اور متضاد موقف کو غلط سمجھتے ہیں، اور اسے تنقید و جرح کا موضوع بناتے ہیں۔ البتہ اس ’غلط‘ موقف کو اختیار کرنے کے اپنے مخالفین کے حق کو بھی تسلیم کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اگر یہ رویہ راست فکری سے اپنایا جائے تو اسی مجادلے سے سچائی نکھر کر سامنے آسکتی ہے، اور دیگر لوگوں کو اپنے موقف کے تعین میں مدد مل سکتی ہے۔
اسلام، دین و مذہب کے معاملے میں بھی اسی معقول علمی رویے کا قائل ہے۔اسے بجاطور پر اپنی سچائی پہ اصرار ہے اور وہ اپنے ماننے والوں سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اس کی حقانیت کو باقی دنیا پر واضح کریں۔ اسلام چاہتا ہے کہ جو لوگ اس سچائی کے قائل نہیں ہیں، ان کے ساتھ مکالمہ و مجادلہ ہوتا رہے۔ لیکن اگر کوئی ماننا ہی نہیں چاہتا تو اس دنیا میں، اسلام اسے نہ ماننے کا اختیار بھی دیتا ہے۔ دنیا کو دلائل کے ساتھ یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ مذہب سمیت تمام مختلف فیہ معاملات میں یہی معقول اور مطلوب رویہ ہے۔
تاہم، مخالف موقف کو بھی صحیح سمجھنے کا مطالبہ اور اس پر اصرار ایک غیرفطری اور نامعقول مطالبہ ہے جو بدترین نفاق کو جنم دیتا ہے۔ مذہب کے معاملے میں بحث و مجادلے سے گریز اور سبھی مذاہب کو بیک وقت صحیح سمجھنے پر اصرار کی روش کو ہمیں علمی سطح پر تنقید کا موضوع بنانا چاہیے۔ ڈاکٹر عبدالحق انصاری، مولانا فاروق خان اور مولانا سلطان احمد اصلاحی صاحبان نے اس تصور پر جرح کی ہے، لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ دیگر مذہبی فلسفیوں کے دلائل کا جائزہ لے کر اور زیادہ تفصیل اور گہرائی کے ساتھ اس مسئلے کا جائزہ لیا جائے۔
اس تھیوری کی وکالت میں سماجی سائنس دان ، ماہرین نفسیات، ماہرین حیاتیات، ماہرین طب و علم الابدان، ماہرین قانون اور علماے اخلاقیات و فلسفہ وغیرہ پر مشتمل اہلِ علم کا بڑا گروہ پوری دنیا میں کام کر رہا ہے۔ یہ بات اب تیزی سے مشرقی ممالک کے اشرافیہ میں بھی قبولِ عام اختیار کرتی جارہی ہے۔ مثال کے طور پر ہندستان میں ہم جنسی کے خلاف باقاعدہ قانون موجود ہونے کے باوجود، عدالتیں اس عمل کو نہ صرف یہ کہ جرم نہیں سمجھتیں، بلکہ اُلٹا اس عمل کی ہلکی سے ہلکی مخالفت یا قانون کے نفاذ کو ’سنگین اور خلافِ انسانیت جرم‘ سمجھتی ہیں۔ عیسائی مذہبی قیادت اس مسئلے پر تقریباً سر نگوں ہوچکی ہے اور مغربی دنیا میں مسلمان اہلِ علم کی ایک قابلِ لحاظ تعداد، انتہائی مدافعانہ اور معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے پر مجبور نظر آتی ہے۔ جان لینا چاہیے کہ آج یہ مغرب میں کھلے عام اور مشرق میں صرف بالائی سطح پر زیربحث اور زیرعمل رویہ دکھائی دے رہا ہے، تو ممکنہ پیش بندی نہ ہونے کی صورت میں، یہ آنے والے برسوں میں مسلم معاشروں کا ایک عمومی مسئلہ بن جائے گا۔
ان حالات میں یہ موضوع ایک وسیع اور ’ہمہ تخصصی منصوبے‘ (multi disciplinary project) کا تقاضا کرتا ہے۔ اس بات کو بطور ایک ’مفروضہ‘ (hypothesis) لینا چاہیے کہ ’’غیر محرمات کے درمیان نکاح کے ذریعے مرد و عورت کے درمیان جنسی تعلق کے سوا تمام جنسی رویے اور رجحانات غیرفطری اور انسانی جسم، معاشرے اور آخرکار تہذیب کے لیے نقصان دہ ہیں‘‘۔ میڈیکل سائنس، نفسیات اور میڈیکل نفسیات (Psychiatry)، سماجی سائنس وغیرہ کے مسلمہ اصولوں کی روشنی میں خالص علمی طریقے سے اس مفروضے اور موقف کو ثابت کیا جانا چاہیے۔
اس نظام کے متبادل کے طور پر کئی نظریات دنیا میں بہت شدومد کے ساتھ پیش ہورہے ہیں۔ ان میں سرفہرست ’مارکسیت‘ کی نئی تعبیر ’نومارکسیت‘ (Neo-Marxism) ہے۔ ’مارکسیت‘ کے جن عناصر پر ہم اب تک تنقید کرتے آئے ہیں، ان میں سے بہت سارے عناصر سے نومارکسی مفکرین نے اعلان برا ء ت کرلیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اب اس بدلے ہوئے رُوپ سے ہمارا کیا تعامل ہو؟ ان میں اور ہم میں مشترک اُمور کیا ہیں اور کیا اُمور مختلف فیہ ہیں؟ان پر کام کی ضرورت ہے۔
ایک اور متبادل جو پوری دنیا میں بہت پُرزور طریقے سے پیش ہو رہا ہے، وہ لبرٹیرین ازم (Libertarianism: شخصی آزاد خیالی) کی مختلف شاخیں اور مختلف نظریاتی دھارے ہیں۔ انارکزم، نیوانارکزم، میوچلزم وغیرہ جیسے خیالات نے اسلامی دنیا سمیت پوری دنیا میں پڑھے لکھے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو متاثر کر رکھا ہے۔ عالمی سطح پر نوم چومسکی [پ:۱۹۲۸ئ]جیسا دانش ور ان افکار کا پُرجوش مبلغ ہے۔ اسی طرح ارون دھتی راے [پ:۱۹۶۱ئ] جیسے بااثر مصنّفین اس فکری دھارے سے وابستہ ہیں۔ ان سیاسی و سماجی نظریات کے علاوہ، سماجی سطح پر ’اکولوجی موومنٹ‘ (جس نے کئی سیاسی و سماجی تنظیموں، حتیٰ کہ یورپ کی ’ارتھ لبریشن فرنٹ‘ جیسی دہشت گرد تنظیم کو بھی جنم دیا ہے)، طرزِ زندگی کی سطح پر ویجین موومنٹ، تعلیم کی سطح پر ’ڈی اسکولنگ‘ اور ’ان اسکولنگ‘ کی تحریک، ’طرف داریِ نسواں‘ (Feminism)کے مختلف روپ بشمول ’اسلامی طرف داریِ نسواں‘ (Islamic Feminism) وغیرہ دسیوں فلسفے ہیں، جن کا کوئی نوٹس نہیں لیا گیا ہے۔ ہوسکتا ہے ان میں سے ہرایک کا نوٹس لینے کی ضرورت نہ ہو، لیکن جو خیالات انسانی آبادی کے قابلِ لحاظ حصے کو متاثر کر رہے ہوں اور خود مسلم نوجوان بھی جن کا اثر قبول کر رہے ہوں، ان پر خاموشی ممکن نہیں ہے۔
ان حالات میں مستحکم خاندان اور خاندانی سکون، آنے والے زمانوں میں اسلام کی بہت بڑی قوت اور اسلام کی کشش کا ایک اہم سبب ثابت ہوگا، کیونکہ اس بکھری ہوئی صورتِ حال کو سنبھالنے کے لیے ویسا طاقت ور بیانیہ اور نظام دوسروں کے ہاں ناپید ہے۔ چنانچہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خاندان کے زبردست وکیل اور عالمی سطح پر تحفظ خاندان کے طاقت ور نگہبان کے طور پر سامنے آئیں۔ خاندان کی اہمیت پر مؤثر کتابیں لکھی جائیں اور اس بات کو مستحکم سائنسی دلائل سے ثابت کیا جائے کہ خاندان، انسانی معاشرے کی بنیادی ضرورت ہے اور یہ کہ خاندان کا بس ایک ہی مطلب ہے، اور وہ یہ ہے کہ مرد و عورت کے روایتی طور پر مخصوص صنفی اور سماجی کرداروں کو تسلیم کیا جائے اور اس بنیاد پر قانونی طور پر تسلیم شدہ مرد شوہر اور عورت بیوی مل کر اپنے بچوں کی پرورش کریں۔ نام نہاد غیرروایتی خاندان سے، خاندان کی تشکیل اور انسانی تہذیب کی تعمیر کا کوئی مقصد حاصل نہیں ہوسکتا، اور خاندان کی بقا کا کوئی راستہ اسلامی اخلاقیات کے سوا ممکن نہیں ہے۔
جائزے کا ایک زاویہ یہ بھی ہونا چاہیے کہ نئے حالات میں مسلم اُمت اور خصوصاً مسلم نوجوان کو کس قسم کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں چند گوشوں کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں:
ایک اہم موضوع خود مسلم خاندان کی تفصیلات کا موضوع ہے۔ نئے حالات میں مسلم خاندان کے خدوخال کے تعین کے لیے اسلامی فقہ اور اسلامی سماجیات ، دونوں سطحوں پر اجتہادی کام کی ضرورت ہے۔ عورت کا سماجی کردار کیا ہو؟ خواتین کی تعلیمی اور کیریر کی ترجیحات کیا ہوں؟ مسلم خاندان میں میاں بیوی اور بچوں کے علاوہ دیگر رشتہ داروں سے تعلق کی کیا نوعیت ہو؟ کیا خاندان نیوکلیائی ہو یا جائنٹ، یا دونوں کے امتزاج سے کوئی نئی صورت بنے؟ حتیٰ کہ مسلم خاندان میں ٹی وی اور انٹرنیٹ کو کیا مقام ملے؟ اس کے حدود و قیود کیا ہوں؟ (کہ میڈیا ہماری انفرادی اور خانگی زندگی میں بہت بڑا حصے دار بن کر انسانی زندگی کے بہترین اوقات کا مالک بن چکا ہے)۔ اس طرح کے دسیوں موضوعات ہیں، جن پر یا تو سرے سے کام نہیں ہوا ہے، یا صرف روایتی اور چلتی باتوں کی تکرار ہو رہی ہے اور نئے حالات کے لحاظ سے اجتہادی کوششیں نہیں ہوئی ہیں، یا تفصیلی وضاحت کا فقدان ہے، یا پھر محدود دائرے میں صرف فقہی بحث ہے۔ مسائل کے سماجیاتی (sociological) اور گہرے علمی تجزیے کا فقدان تو بہرحال پایا جاتا ہے۔
عورت کے رول اور کردار پر مولانا مودودی کی کتاب پردہ اور مولانا سیّد جلال الدین عمری کی کتابیں مسلمان عورت کے حقوق اور ان پر اعتراضات کا جائزہ، اور عورت اسلامی معاشرہ میں بڑی اہم تصنیفات ہیں۔ لیکن ان تصنیفات کے مخاطب زیادہ تر اسلام کے معترضین ہیں۔ دوسری بات یہ کہ ان کتابوں میں اکیسویں صدی کی مسلمان خاتون کے اُس فعال حرکیاتی، سماجی و تحریکی کردار کی نہ جھلک ملتی ہے اور نہ اس کی توجیہہ ہے، جو عملاً ہمیں ساری مسلم دنیا میں اور جماعت اسلامی کے بشمول دنیا بھر کی اسلامی تحریکات میں نظر آرہا ہے۔
اسی طرح جناب جلال الدین عمری کی کتاب اسلام کا عائلی نظام اسلامی خاندان کے متعدد پہلوئوں پر قیمتی رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ جسٹس ملک غلام علی نے ماہ نامہ ترجمان القرآن لاہور میں اور مولانا رضی الاسلام ندوی نے زندگی نو دہلی میں، ان اُمور سے متعلق بعض سوالات کے فقہی نقطۂ نظر سے جو جواب دیے ہیں، وہ بھی بہت اہم ہیں۔ اسلامی فقہ اکیڈمی دہلی کے سیمی نار میں پیش کردہ مقالات اور تجاویز بھی نہایت گراں قدر ہیں، لیکن یہ سب باتیں بہت اختصار کے ساتھ کہی گئی ہیں۔ ان متفرق باتوں میں جدید دور میں اسلامی خاندان سے متعلق کچھ اشارات ضرور ملتے ہیں، مگر ایک مفصل اور مربوط خاکہ اور تھیوری نہیں ملتی ہے۔ ضرورت ہے کہ ان اشارات پر کام آگے بڑھے اور جدید حالات کے تناظر میں اسلامی خاندان کی تفصیلی ہیئت نکھر کر سامنے آئے۔
اسلامی خاندان سے متعلق ہی ایک اہم مسئلہ مسلم خواتین کے بعض مسائل اور ان مسائل کے حل کی راہ میں، مختلف مقامات پر رواجی، قبائلی اور روایتی پرسنل لا کی جانب سے درپیش رکاوٹوں کا مسئلہ ہے، جن پر ہمارے ملک کے نام نہاد ’روشن خیال‘ طبقے مبالغے کے ساتھ متوجہ کرتے رہے ہیں۔ ان میں ایک اہم مسئلہ شوہر کی جانب سے بیوی پر ناروا ظلم اور اس ظلم کی صورت میں نجات کی کسی راہ کا نہ ہونا ہے۔ مولانا مودودی نے اس سلسلے میں حقوق الزوجین میں بہت جرأت مندانہ موقف اختیار کیا تھا۔ لیکن اس موقف پر کام آگے نہیں بڑھ سکا اور بات وہیں رُک کر رہ گئی ہے۔
اگرچہ ہمارے کئی زعما باوجود بے شمار مطالعات اور اعداد و شمار کے، اس مسئلے کے وجود سے ہی انکار کرتے ہیں، لیکن ہم سب کے عمومی مشاہدات بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ مسلم سوسائٹی میں یہ مسئلہ موجود ہے۔ اگر اس میں کوئی شک ہے، تو ہم خود سائنٹی فک مطالعہ اور سروے کرا سکتے ہیں۔ بہرحال، اس مسئلے کو نظرانداز نہیں کرسکتے، اور نہ اس مسئلے کا حل ثالثی عدالتوں سے ممکن ہے۔ نہ ان عدالتوں کی تعداد کافی ہے اور نہ پیشہ ورانہ تربیت کے بغیر قاضی ان مسائل کو حل کرسکتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس طرح کے مسائل کا قابلِ عمل حل ، شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے، لیکن اجتہادی بصیرت اور جرأت کے ساتھ تلاش کیا جائے اور اسلامی تحریک اس عمل میں قائدانہ کردار ادا کرے۔ ایسا کرتے ہوئے دارالعلوموں کے مراکز فتویٰ کے جبر سے آزاد مگر قرآن و سنت کی روح کے زیرسایہ، روحِ عصر کو جرأت سے جواب اور حل بھی پیش کریں۔
اسلامی خاندان کے تعلق سے مولانا سلطان احمد اصلاحی (علی گڑھ) نے بعض اہم نظریات پیش کیے تھے۔ خاص طور پر ’مشترکہ خاندان‘ اور ’پردیس کی زندگی‘ سے متعلق ان کے خیالات اہمیت کے حامل تھے، لیکن ان خیالات پر بحث و مباحثہ کے بعد کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے کی ضرورت ہے۔ ’خاندانی تشدد‘ کے مسئلے پر مولانا رضی الاسلام ندوی کی کاوش قابلِ ذکر ہے۔
۱- انتظامیات ، کاروباری مطالعات اور شخصیت کو بہتر بنانے کی کتابیں، ۲- بچوں کی معلوماتی کتابیں، ۳- خانہ داری، تربیت اطفال ، غذا اور صحت سے متعلق خواتین کی کتابیں۔
ہمارے یہاں پاپولر لٹریچر اور خاص طور پر ان تین اقسام (categories) پر کماحقہ کام نہیں ہوسکا۔ ان تینوں اقسام میں یہ زبردست صلاحیت موجود ہے کہ اقدار، اصول اور تصورات کو عوامی سطح پر ان کے ذریعے مقبول بنایا جاسکتا ہے۔ خواتین کے لٹریچر میں ایک زمانے میں ماہنامہ بتول لاہور نے اچھا کام کیا تھا۔ محترمہ حمیدہ بیگم، پروفیسر بنت الاسلام اور نیربانو نے اس ضمن میں شان دار کام کیا تھا۔ لیکن ایک عرصے سے یہ محاذخالی ہوتا جا رہا ہے اور سطحی افسانوی ادب کے علَم بردار رسالوں اور ان کے اشاعتی اداروں نے اس محاذ پر قبضہ جما رکھا ہے۔ ہمارے حلقہ ہاے خواتین کو بھی اس مسئلے پر توجہ دینی چاہیے اور تحریک کو بحیثیت مجموعی اس پر متوجہ ہونا چاہیے۔
اسی طرح بچوں کے لٹریچر کی تیاری بہت پتّا ماری کا کام ہے۔ اب بچوں کا ذوق بہت بلند ہوچکا ہے۔ وہ صرف کہانیوں کی کتابیں نہیں پڑھتے، بلکہ چھے سات سال کے بچے بھی اُونچی معلوماتی کتابیں پڑھنے لگے ہیں۔ ان کی کتابوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ کاغذ کی قسم اور طباعت کے معیار کے اعتبار سے بھی اعلیٰ درجے کی ہوں اور معنوی خصوصیات کے اعتبار سے بھی مثالی۔ یاد رہے کہ مارکیٹ میں بچوں کے لیے کتابوں کی بڑی وسیع دنیا موجود ہے۔ مغربی تہذیب کے ساتھ اب اس محاذ پر عیسائی اور ہندو ادارے بھی خاصے سرگرم ہیں۔ کتابوں کی دکانوں پر ان کی پُرکشش اور دیدہ زیب کتابیں بچوں کو للچاتی ہیں۔ ہندستان میں ثانی اثنین خان کے ادارہ گڈورڈ پبلی کیشنز نے اور عالمی سطح پر عبدالملک مجاہد [پ:۱۹۵۱ئ] کی سربراہی میں سائونڈ وژن، شکاگو نے اچھی ابتدا کی، لیکن یہ ازحد ضروری ہے کہ تحریکاتِ اسلامی بھی اس پر بھرپور توجہ دیں۔گذشتہ صدی کے پانچویں عشرے کے دوران مائل خیرآبادی، بنت الاسلام اور طالب الہاشمی وغیرہ نے اُردو میں، اور پھر ساتویں عشرے میں خرم مراد [۱۹۳۲ئ-۱۹۹۶ئ] نے انگریزی میں بچوں کے لیے لٹریچر تیار کرنے کی خاطر ’دی اسلامک فائونڈیشن‘، برطانیہ میں بامعنی قدم اُٹھایا تھا، مگر بعدازاں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوسکی۔ یاد رہے، بچوں کے لٹریچر میں تازگی کا احساس اور عصری حوالوں کا وجود ازحد ضروری ہے۔
مسابقت کی دوڑ، شہری زندگی کے تنائو اور روحانی پیاس نے آج دنیا بھر میں اُس لٹریچر کو بہت مقبول بنایا ہے، جسے ذاتی بہتری (self improvement) کا لٹریچر کہا جاتا ہے۔ دل نشیں زبان اور پُرکشش پیراے میں زندگی کی تنظیم کے اصول اور نظریات بیان کیے جاتے ہیں اور قصوں، تمثیلوں، لطائف وغیرہ کے ذریعے مشکل فلسفوں کو نہایت آسان کر دیا جاتا ہے۔ یہ کتابیں تھکے ماندے ذہنوں کے لیے تفریح بھی فراہم کرتی ہیں اور ان کی مصروف اور تنائو سے پُر زندگیوں کی اُلجھنوں کو دُور کرنے کا کام کرتی ہیں۔
اسلامی علمی تاریخ میں سعدی شیرازی [۱۲۱۰ئ-۱۲۹۲ئ]اور مولانا جلال الدین رومی [۱۲۰۷ئ- ۱۲۷۳ئ] نے اس فن کو انتہائی بلندی تک پہنچایا تھا۔ ماضی قریب میں گرو اوشور جنیش [۱۹۳۱ئ- ۱۹۹۰ئ] نے اسی طرزِ بیان کے ذریعے اپنے خیالات کو ساری دنیا میں پھیلا دیا۔ آج ساری دنیا میں اس طرح کا لٹریچر مقبول ترین لٹریچر بن چکا ہے اور ہوائی جہازوں سے لے کر پارکوں اور دفتروں تک، ہر جگہ لوگ اس طرح کی کتابیں پڑھتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اسلامی حلقوں میں عربی زبان میں اس طرح کی کتابوں کا رجحان شروع ہوا ہے، لیکن اُردو اور انگریزی میں اس پر توجہ ہونا ابھی بھی باقی ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ ایمان اور دعوت، انصاف اور تہذیب، شرفِ انسانی کو پروان چڑھانے اور قرآن و سنت سے دنیا کو جوڑنے کے لیے یہ اُمور مرکزیت رکھنے کے باوجود، غالباً ثانوی درجے ہی میں کہیں دُور دکھائی دیتے ہیں، یا پھر سرے سے نگاہوں سے اوجھل۔
کیا اس صورت میں غالب اور حاکم تہذیب و تمدن کا جواب دینا ممکن ہے؟
دھریت اور تشکیک کا چیلنج:ایک اہم موضوع جس کی طرف توجہ کی ضرورت ہے وہ دہریت (Atheism) اور تشکیک (Agnosticism) ہیں۔ ان نظریات کے رد میں بہت کم لکھا گیا ہے۔ جو چیزیں لٹریچر میں موجود ہیں وہ ناکافی ہیں۔ خاص طور سے نئے چیلنج جو مغربی مفکرین نے بڑی شدومد سے اُٹھائے ہیں اور انھوں نے باقاعدہ دہریت کے پرچار کی تحریک چلائی ہے۔ ان کا مؤثر دلائل سے جواب نہیں دیا گیا ہے۔
دہریت کی ترویج و تبلیغ میں چند شخصیات کاخاصا نمایاں حصہ ہے۔ ان میں سب سے زیادہ پُرزور مبلغ رچرڈڈوکنس (Richard Dawkins)ہے جو اوکسفرڈ یونی ورسٹی میں پروفیسر رہ چکا ہے، اور مذہب کو دنیا کی سب سے بڑی بُرائی تصور کرتا ہے۔ اس کی کتاب The God Delusion (خدا کا واہمہ) جو ۲۰۰۶ء میں شائع ہوئی اور سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب بن گئی اور نئی دہریت کی تحریک کی محرک بھی ثابت ہوئی۔ رچرڈ ڈوکنس بذاتِ خود اس تحریک کے فروغ میں سرگرم ہے۔ اس نے ۲۰۰۸ء میں لندن میں بسوں پر اشتہارات کے ذریعے دہریت کے پرچار کی مہم شروع کی تھی۔
اس سلسلے میں دوسرا اہم شخص کرسٹوفر ہٹ چنس(Christopher Hitchens) تھا جو اپنے آپ کو atheist (دہریہ) کہنے کے بجاے anti-theism کا مخالف کہتا تھا۔ اس لیے کہ theism (خدا پرستی) کے لیے کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اس کا کہنا تھا:’’جو چیز بغیر ثبوت کے مان لی جائے، وہ بغیر ثبوت کے رد کی جاسکتی ہے‘‘۔ اس کی کتاب God is not Great (خدا بالاتر نہیں ہے) جو ۲۰۰۷ء میں شائع ہوئی تھی کافی مقبول ہوئی جس میں اگرچہ تمام ہی مذاہب کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھالیکن خاص طور پر ابراہیمی مذاہب اس کا ہدف تھے۔ اس کی نظر میں یہ Axis of Evil (بُرائی کا محور) ہیں۔ اُس نے دہریت کے فروغ کے لیے جارحانہ رویہ اختیار کیا اور چیلنج کیا کہ وہ کسی بھی مذہبی اسکالر سے مناظرہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ ۲۰۰۶ء میں جب ڈنمارک کے ایک اخبار نے نازیبا خاکے شائع کیے تھے تو اس نے ان کی حمایت میں ریلی نکالی تھی۔
دہریت کا تیسرا حامی مشہور سائنس دان اسٹیفن ہاکنگ(Stephen Hawking) ہے جو پہلے تشکیک کا شکار تھا لیکن اب علانیہ دہریت کو قبول کرلیا ہے۔ اس کی ۲۰۱۰ء میں شائع ہونے والی کتاب The Grand Design(اعلیٰ ڈیزائن) میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کائنات کی تخلیق کے نظریے میں خدا کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے کیونکہ خدا کا کوئی وجود نہیں ہے اور نہ کائنات کو ہی کسی نے پیدا کیا ہے اور نہ کوئی ہماری تقدیر ہی بنارہا ہے اور مرنے کے بعد کوئی اور زندگی نہیں ہے۔
ان خیالات کی اشاعت کا نتیجہ یہ ہے کہ برطانیہ میں دہریت تیزی سے پھیل رہی ہے۔ اس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ ۲۰۱۱ء کی مردم شماری میں وہ لوگ جنھوں نے اپنا کوئی مذہب نہیں بتایا ان کی تعداد ۱۰سال میں دگنی ہوگئی ہے۔ اب یہ لوگ ۱۴ملین سے زیادہ ہیں۔ اس طرح کُل آبادی کا ۱ئ۲۵، یعنی چوتھائی سے زیادہ تعداد میں ہیں۔ تقریباً اس طرح کی صورتِ حال دوسرے مغربی ممالک میں بھی ہے، لہٰذا یہ مسئلہ بڑی سنگین صورت اختیار کر رہا ہے۔
یہ مسئلہ اس لیے اور بھی ہمارے لیے قابلِ توجہ ہے کہ خود مسلمان نوجوانوں میں اس کے اثرات تیزی سے پھیل رہے ہیں اور وہ علانیہ یا خفیہ طور پر مرتد ہوکر اسلامی عقائد کے خلاف متحرک ہو رہے ہیں۔ برطانیہ میں چند سال قبل Council of Ex-Muslims (کونسل براے سابق مسلمان) قائم ہوئی تھی۔ اس کی ممبرشپ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ برطانیہ کے اخبارات اور ٹی وی پروگراموں سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمان نوجوان اپنے خاندان کے دبائو کی وجہ سے علی الاعلان دہریت کا اظہار نہیں کر رہے ہیں۔ سائمن کوٹ(Simon Cottee) کی حالیہ کتاب The Apostates: When Muslims Leave Islam (مرتدین: جب مسلمان اسلام ترک کردیتے ہیں) میں ان مشکلات کا تجزیہ کیا گیا ہے جو انھیں پیش آتی ہیں۔ اس ضمن میں اسلام میں مرتد کی سزا کا مسئلہ بھی زیربحث رہتا ہے۔ کونسل آف ایکس مسلمز کا اثر زیادہ تر یونی ورسٹی کے طلبہ میں ہے اور اب یہ وبا یورپ کے دیگر ممالک میں بھی پھیل رہی ہے، اور بہت سے ملکوں میں اس طرح کی کونسلیں بن گئی ہیں۔ اب ایک متحدہ ادارہ Central Council of Ex-Muslims کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے۔ برطانوی کونسل کا ایک منشور (Manifesto) بھی ہے جس میں ۱۰نکات پر مشتمل اپنے حقوق کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ ان کا کلمہ یہ ہے: There is no God and Muhammad is not the Messenger of God (کوئی خدا نہیں ہے اور محمد اللہ کے رسول نہیں ہیں)۔ افسوس کہ مسلمان دانش وروں (بشمول تحریکِ اسلامی کے زعما) کی طرف سے ان نظریات پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا اور نہ دہریت کی تردید ہی میں کچھ لکھا گیا ہے اور ارتداد کا مسئلہ بھی اسی طرح نظرانداز کیا جا رہا ہے۔
یہ سب ہی ادارے بیرونی طاقتوں کے آلۂ کار بنتے رہے ہیں اور مسلم حکمران اپنے اقتدار کے تحفظ کے لیے ان ہی پر انحصار کرتے ہیں۔ حالیہ واقعات سے جو چیز سامنے آئی ہے وہ یہ کہ کم از کم تین عرب ممالک کی حکومتوں نے کھلم کھلا تحریکِ اسلامی کو کچلنے کا التزام کیا ۔ نہ صرف خود اپنے ملکوں میں بلکہ مغربی ممالک میں بھی تحریک کو ختم کرنے کے لیے وہاں کی حکومتوں پر زور ڈالا جس کے نتیجے میں وہاں اسلامی جماعتوں اور اداروں کے لیے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔
اس صورتِ حال میں تحریک کی حکمت عملی کیا ہو؟ ایک اہم سوال ہے۔ یہ بات ظاہرہے کہ سیاست دان اور حکمران ہر جائز اور ناجائز طریقے سے اقتدار پر قابض رہنا چاہتے ہیں اور اگر بعض لوگ اسلام کا نام لیتے بھی ہیں تو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ایسا کرتے ہیں۔ ان حالات میں کیا ساری قوت براہِ راست تبدیلی پر صرف کی جائے یا دوسرے ذرائع کے بارے میں بھی سوچ بچار اور نئے تجربات کی کوشش کی جائے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ براہِ راست ان سے اقتدار کی کش مکش کے بجاے ایسے ذرائع استعمال کیے جائیں جن سے وہ اصلاحات اور نتائج کسی نہ کسی حد تک حاصل کیے جاسکیں جو مطلوب ہیں؟ ان کے مصاحبین اور بااثر اشخاص کے ذریعے ان پر اثرانداز ہوکر وہ تبدیلیاں لائی جاسکیں۔ اصطلاحاً ان کو Hidden Persuders (خفیہ ترغیب دینے والے) کہہ سکتے ہیں جن کو ہم پس پردہ اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے بروے کار لاسکتے ہیں۔ اس طرح کی کامیاب کوشش مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ نے اکبر کے دربار میں بارسوخ افراد کے ذریعے کی تھی جس سے دین الٰہی کا خاتمہ عمل میں آیا۔ اس امر پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ سیاسی تبدیلی کے لیے جس قسم کی تنظیم کار اور مہم جوئی کی ضرورت ہے اسے کہاں تک اسلامی قوتوں نے اختیار کیا ہے۔
ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ دنیا میں مسلمانوں کی تقریباً آدھی سے زیادہ آبادی غیرمسلم ممالک میں آباد ہے۔ ان کی ایک بہت بڑی تعداد ہندستان میں ہے، تاہم وہاں کے مسلمان حکومتوں کے امتیازی اور ناروا رویے اور شدت پسندقوتوں کے جارحانہ اقدامات کے باوجود کچھ بہتر پوزیشن میں ہیں کہ تاریخی طور پر ان کے حقوق کا تحفظ کسی نہ کسی حد تک برطانوی دور سے چلا آرہا ہے اور وہاں مساجد اور دیگر تعلیمی اور سماجی ادارے قائم ہیں۔ افسوس کہ اب انھیں بھی بڑھتی ہوئی ہندو جارحیت کا سامنا درپیش ہے لیکن مغربی ممالک میں آباد مسلمانوں کو جن مشکلات اور مسائل کا سامنا ہے، وہ کہیں زیادہ سنگین ہیں۔ اگرچہ فقہ الاقلیات میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے خاص طور سے ہندستان میں اسلامک فقہ اکیڈمی اور یورپ میں Europeon Council for Fatwa & Research جو غیرمسلم معاشرے میں مسلمانوں کے مسائل پر رہنمائی کر رہے ہیں، تاہم تحریکی کام کے لیے ان کی حکمت عملی اور رول ماڈل کیا ہو؟ اس میں کوئی خاص رہنمائی مہیا نہیں کی گئی ہے۔ وہ اب بھی اپنے دیرینہ ملکی مسائل میں دل چسپی لیتے ہیں۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر یوسف القرضاوی کی کتاب Priorities of the Islamic Movement in the Coming Phase(عصرِحاضر میں اسلامی تحریک کی ترجیحات) میں مختصراً کچھ باتوں کا ذکر کیا گیا ہے لیکن کوئی قابلِ عمل تجاویز نہیں پیش کی گئی ہیں۔ اس شعبے میں مزید تحقیق اور راہ نمائی کی ضرورت ہے۔
یہ چند اُمور ہیں جن میں تحریکی لٹریچر کی تشنگی محسوس ہوتی ہے۔ امید ہے ارباب حل و عقد ان کا نوٹس لیں گے اور اپنے مفید مشوروں سے راہ نمائی فرمائیں گے۔
کتابیات
1. Richard Dawkins: The God Delusion, Boston: Houghton Mifflin, 2006.
2. Chrostopher Hitchen: God is Great: The Case Against Religion, Atlantic Books, 2007.
3. Stephen Hawking and Leonard Mlodinow: The Grand Design, Bantam Books, 2010.
4. Cottee, Simon: The Apostates: When Muslims Leave Islam, London: C. Hurst & Co, 2015.
5. http://ex-muslim.org.uk/manifesto
.6 خرم مراد، مسائل اور افکار، لاہور، منشورات، لاہور۔
.7 سیّدابوالاعلیٰ مودودی، دنیاے اسلام کی موجودہ حالت، ترجمان القرآن، جون ۱۹۶۳ئ۔
8. Sheikh Yusuf Al-Qaradawi: Priorities of the Islamic Movement in the Coming Phase, Swansea: Awakening Publications, 2000, pp. 179-185.
اس تحریر میں علمی و فکری سطح پر پیش آمدہ مسائل کی مناسبت سے ایک محتاط تجزیہ پیش کیا گیا ہے، جو اہلِ علم ، خاص طور پر نوجوان نسل کے لیے غوروفکر کی راہیں کشادہ کرتا ہے۔ زندگی کا ہرلمحہ نئے سوال لے کر آتا ہے۔ اس لیے فکر، تجزیے اور مکالمے کا باب کبھی بند نہیں ہوتا، اور وہ اپنے سوالوں کا جواب طلب کرتا ہے۔ ایسی خود احتسابی کو مؤثر اور شافی جواب کا پیش خیمہ بننا چاہیے۔ (ادارہ)
ہماری تحریک کی نوعیت کچھ ایسی ہے کہ فکری سرمایہ ہمارا اہم ترین سرمایہ ہے اور ہمارے کام کی نوعیت بنیادی طور پر فکری و نظریاتی ہے۔ اس ملک میں ایک طویل عرصے تک ہمیں نظریاتی محاذ پر ایک لمبی فکری لڑائی لڑنی ہے۔ مولانا مودودیؒ نے بالکل ابتدا میں یہ بات واضح کر دی تھی کہ:
اب اسلام اگر دنیا کا رہنما بن سکتا ہے تو اس کی بس یہی ایک صورت ہے کہ مسلمانوں میں ایسے مفکر اور محقق پیدا ہوں، جو فکر ونظر اور تحقیق و اکتشاف کی قوت سے ان بنیادوں کو ڈھادیں، جن پر مغربی تہذیب کی عمارت قائم ہوئی ہے۔ قرآن کے بتائے ہوئے طریق فکرونظر پر آثار کے مشاہدے اور حقائق کی جستجو سے ایک نئے نظامِ فلسفہ کی بنا رکھیں جو خالص اسلامی فکر کا نتیجہ ہو۔
اس طرح تحقیق و اکتشاف کا کام ہمارا اہم ترین کام قرار پاتا ہے اور فکرونظر کا محاذ ہمارا اہم ترین محاذ ہے۔ ایک فکری و نظریاتی تحریک کے لیے یہ کام ’خطِ زندگی‘ (لائف لائن) کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ کام ہمارے لیے کئی ضروری کاموں میں سے ایک کام نہیں ہے، بلکہ ہماری ترقی اور پسپائی، زندگی اور موت اس اساسی کام پر منحصر ہے۔فکری تحریکیں انتشار سے مرتی ہیں اور نہ ملّت قلت ِ وسائل اور دشمنوں کے ظلم و جبر سے موت کے گھاٹ اُترتی ہے، بلکہ فکری و نظریاتی تحریکوں کی موت، فکری پسپائی سے ہوتی ہے یا فکری جمود سے۔ اسی لیے یہ فکری کام ہمارے لیے ’خط ِ زندگی‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے جتنا یہ ضروری ہے کہ ہم تنظیم کی توسیع و استحکام اور دیگر تنظیمی و تحریکی تقاضوں پر غوروفکر کریں اور اس کے لیے نشستیں کریں، اتنا ہی یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اپنے فکری اثاثے کی حقیقی صورتِ حال کو بھی، اپنے سنجیدہ جائزے اور بحث و گفتگو کا موضوع بنائیں۔ اس کے لیے بار بار نشستیں ہونی چاہییں، اور سرجوڑ کر اپنے فکری تقاضوں کی تکمیل پر غور کرنا چاہیے۔
اس وقت دنیاکی صورت حال بھی بہت بدل چکی ہے۔ اب اسلام ساری دنیا میں ایک سنجیدہ علمی اور سیاسی موضوع بن گیا ہے۔ اہلِ اسلام کا یہ دعویٰ کہ: ’’اسلام مسائلِ انسانیت کا واحد حل ہے‘‘، اب کوئی ایسا دعویٰ بھی نہیں رہا ہے کہ جسے لوگ چند دیوانوں کی بڑ کہہ کر نظرانداز کرسکیں۔ اب یہ دعویٰ دانش گاہوں سے لے کر عالمی سطح کے تحقیقی اداروں تک، اور قانون سازی کے ایوانوں سے لے کر عالمی سطح کی سفارتی محفلوں تک، ہر جگہ سنجیدہ مباحث کا موضوع بن گیا ہے۔ اب وہ دور نہیں ہے کہ جب مسلمان مفکرین کو پڑھنے والے اور ان سے متاثر ہونے والے، راسخ العقیدہ اور عقیدت مند مسلمان ہی ہوا کرتے تھے۔ آپ پر نقدوجرح بھی کرتے تھے تو مسلمان علما اور مسلمان مفکرین ہی کرتے تھے۔ دنیا ہمیں بس مسلمانوں کے ایک شدت پسند گروہ کی حیثیت سے دیکھتی تھی۔ اور واقعہ یہ ہے کہ ہم نے بھی معاصر علمی دنیا کو مخاطب کرنے اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی بات کہنے کی جرأت کم ہی کی تھی۔ ہم مغرب پر اور اسلام مخالف خیالات پر تنقید ضرور کرتے تھے، لیکن اس تنقید کے مخاطب بھی مسلمان ہی ہوا کرتے تھے اور مقصد بس یہ ہوتا تھا کہ: ’’مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت کی جائے اور اسلام پر ان کے یقین و اعتماد کو بڑھایا جائے‘‘۔
اب منظر نامہ مختلف ہے۔ آپ چاہنے، نہ چاہنے کے باوجود، پوری کی پوری دنیا کو مخاطب کرنے پر مجبور ہیں اور دنیا آپ کی باتوں کو اپنے علمی معیارات کے مطابق جانچنے اور نقدو جرح کرنے کا حق حاصل کرچکی ہے۔ اب عالمی اداروں میں صرف اسلامی تحریکات کے اثرات، مسلمانوں میں ان کی پوزیشن، قومی سلامتی سے ان کے تعلق وغیرہ پر ہی ریسرچ اور تجزیے نہیں ہورہے ہیں بلکہ ان کے موقف، خیالات، ان کے تجویز کردہ حل اور ان کا وژن بھی زیربحث آرہا ہے۔
یہ صورت حال خوش آیند تو ہے، لیکن ہمیں بڑی ذمہ دارانہ اور نازک پوزیشن میں کھڑا کردیتی ہے۔ ’تاریخ کے سیمی نار ہال‘ میں ہم ۳۰۰سال سے اپنی باری کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے اور اب کنوینر نے ہمارے نام کا اعلان کر دیا ہے۔ ہمیں بولنے کے لیے مدعو کر لیا ہے۔ اب ہمیں بولنا اور دنیا کو قائل کرنا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم بولنے کے لیے تیار ہیں؟ اس ’سیمی نار‘ میں جہاں فرانسس فوکویاما [پ: ۱۹۵۲ئ] اور نوم چومسکی [پ:۱۹۲۸ئ] اپنا موقف لیے بیٹھے ہیں، کیا ہم اپنی بات پیش کرسکتے ہیں؟ ان معروضات کا مقصد اسی سوال کا جواب تلاش کرنا ہے۔
میں ذرا ماضی میں جانا چاہتا ہوں۔ اس خطۂ ارضی پر ایک تاریخ ساز جگہ واقع ہے: ایک چھوٹی سی مسجد، جس کے کمروں میں کبھی ترجمان القرآن کا دفتر ہوا کرتا تھا۔ ۷۰برس پہلے، ایک شخص نے یہاں بیٹھ کر پورے یقین و اعتماد کے ساتھ ساری علمی دنیا کو چیلنج کیا تھا۔ یاد کیجیے، مولانا مودودیؒ کے زمانے میں بھی بڑے بڑے اکابر علما دانش ورموجود تھے۔ ابوالکلام آزاد، سیّد سلیمان ندوی اور مولانا اشرف علی تھانوی، لیکن مولانا مودودیؒ کا امتیاز یہ تھا کہ انھوں نے صرف مسلمانوں کو مخاطب نہیں بنایا، بلکہ اپنے عہد سے خطاب کیا۔ اپنے زمانے کی پوری علمی دنیا کو خطاب کیا۔ اس کے لیے انھوں نے روایتی طرزِبیان اختیار نہیں کیا، بلکہ وہ لب و لہجہ اور وہ زبان استعمال کی، جو معاصر علمی دنیا کی زبان تھی۔ فقہ و کلام کے ان مسائل تک خود کو محدود نہیں رکھا، جن پر مسلمانوں کی محفلوں میں بحثیں ہوا کرتی تھیں، بلکہ ان موضوعات کو چھیڑا جن پر معاصر دنیا مکالمہ کرنا چاہتی تھی۔
آج ہم اسی تحریک کا حصہ ہیں۔ تاریخ کے ایک نازک موڑ پر، اس عظیم تحریک کے ورثے کی امانت ہمارے حوالے کی گئی ہے۔ لیکن صورتِ حال یہ ہے کہ دنیا بھر میں تحریکی فکر، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ٹھیر سی گئی ہے۔ آج ہمارے کام بڑھ رہے ہیں، سماجی اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے، وسائل بھی بڑھ رہے ہیں، لیکن شاید فکر ترقی نہیں کر رہی ہے۔ خود ہم نے اپنے سفر میں جو نئے موڑ لیے ہیں اور نئی حکمت عملیاں وضع کی ہیں، ان کی پشت پر بھی [غالباً] مضبوط اور مرتب افکار اور منظم خیالات نہیں ہیں، جس کی وجہ سے فکری پراگندگی اور انتشار کے آثار ہماری صفوں میں نظر آنے لگے ہیں۔
اور جہاں تک دنیا سے ہمارے فکری تعلق کی بات ہے ، دنیا کو دینے کے لیے ہمارے پاس کوئی نیا اور منفرد آئیڈیا نہیں ہے۔ ان درخشاں افکار (brilliant ideas) کی بلاشبہہ آج بھی اہمیت ہے، جو ہمارے اوّلین مفکرین ہمیں دے گئے ہیں اور ہم انھی آئیڈیاز کے سہارے آج بھی اپنی فکری لڑائی لڑ رہے ہیں۔ لیکن لحظہ بہ لحظہ بدلتی ہوئی اس دنیا میں افکار و خیالات اور نقشہ ہاے کار کا یہ مختصر اور قدیم سرمایہ کسی صورت کافی نہیں ہے۔ دنیا ہمہ تن گوش ہے کہ ہم بولیں اور ہم حیران ہیں کہ بولیں تو کیا بولیں؟ یہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ بہت سی اُلجھنوں کی جڑ اور بہت سے مسائل کی ماں ہے۔ اگر ہم ایک فکری تحریک کی حیثیت سے زندہ رہنا چاہتے ہیں اور یقینا زندہ رہنا چاہتے ہیں تو اس مسئلے کو بھرپور اہمیت دینا ہوگی اور اس کے حل کے لیے اپنی قوتوں اور وسائل کا ایک قابلِ لحاظ حصہ صرف کرنا ہوگا۔
فکری کام کی جب بھی بات ہوتی ہے تو ہم: کچھ موضوعات تجویز کر دیتے ہیں، کچھ ترجمے، کچھ جمع و ترتیب اور کچھ صحافتی قسم کے مقالے پیش کردیتے ہیں۔ یہ کام دنیا کے ہر ادارے میں چل رہے ہیں۔ ہر مدرسے میں یہ کام ہو رہا ہے۔ اگر ایک فکری تحریک بھی اسی کام پر اکتفا کرلے تو اس کا جواز باقی نہیں رہتا۔ ہمیں تو یہ سوچنا ہے کہ مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش کی سیاسی بحث کو ہم کیوں آگے نہیں بڑھا سکے؟ کیوں استعمار سے آزاد ملک کے احوال میں کوئی ایسا سیاسی فلسفہ تشکیل نہیں دے سکے، جو مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش کی بحث کا فطری ارتقا بھی ہوتا اور نئے احوال میں رہنمائی کا ذریعہ بھی بنتا۔
مولانا مودودیؒ نے جدید زمانے کے اہم مسائل کو موضوع بنایا۔ انھوں نے مسلم دنیا اور مغرب کے تجربات کو سامنے رکھ کر، قرآن و سنت کی تعلیمات سے مطابقت رکھنے والی فکری کسوٹی کی بنیاد پر ، ان مسائل کے تجزیے کا ایک منفرد طریق کار (methodology) ایجاد کیا۔ ان کی تحریروں سے، ان کی عمیق فکر، وسیع علم ، قرآن و حدیث اور ان کے انطباق کا گہرا شعور اور مغربی افکار اور تاریخ کی تنقیدی بصیرت جھلکتی ہے۔ ان کی انھی خصوصیات نے زندگی کے مسائل کے تئیں مسلمانوں کے اپروچ کو ایک نئی تازگی اور زندگی بخشی ہے، اور ان کے پیغام میں ایک وسیع تر اپیل پیدا کی ہے۔ ان کا اثر، تنظیموں اور سرحدوں سے ماورا ہے۔ ان کی حیثیت دنیا بھر کے مسلمانوں کے (فکری) باپ کی سی ہے۔ اور ایک مفکر اور مصنف کی حیثیت سے بلاشبہہ وہ ہمارے عہد کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے جلیل القدر مسلمان رہنما ہیں۔
آخر کیا وجہ ہے کہ عصرِحاضر کو مخاطب کرنے کا یہ حوصلہ اور سلیقہ مولانا مودودیؒ کے بعد جاری نہیں رہ سکا۔ معیار کی بات تو چھوڑیئے کہ مولانا مودودیؒ جیسے مصنّفین روز روز نہیں پیدا ہوتے۔ لیکن ہم اس اسلوب، زبان اور طرز کو بھی جاری نہیں رکھ سکے ، جو جدید علمی دنیا سمجھتی ہے اور اکثر ہم نے علما کا وہ روایتی طرزِ بیان اختیار کرلیا ہے، جو صرف دین دار مسلمان سمجھ سکتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ہماری کتابوں پر دنیا کے علمی حلقوں نے دھیان دینا چھوڑ دیا۔ تحریکی حلقوں میں غالباً صرف معاشیات میں نجات اللہ صدیقی صاحب کی تخلیقات نے دنیا کو متوجہ کیا ہے اور پاکستان میں محدود پیمانے پر خرم مراد مرحوم اور خورشیداحمد صاحب کی باتیں کسی درجے میں عالمی یونی ورسٹیوں اور دانش گاہوں کو متوجہ کرسکی ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہماری بقیہ کتابیں صرف مسلمان اور اکثر کتابیں صرف تحریکی حلقے ہی پڑھتے ہیں؟ خود ہی لکھنے اور خود ہی پڑھنے کا عمل ایک بند گروہ کے لیے تو مفید ہوسکتا ہے، کسی زندہ اور عالم گیر مشن رکھنے والی تحریک کے لیے ہرگز مفید نہیں ہوسکتا۔ ایک عالم گیر پیغام کی حامل، ہمہ گیر نظریاتی تحریک کی حیثیت سے ہمارا ہدف تو یہ ہونا چاہیے، کہ ہم اس سطح سے بات کریں جس سطح سے امام غزالی، ابن خلدون، ابن تیمیہ اور شاہ ولی اللہ نے بات کی تھی، یا کارل مارکس، سگمنڈ فرائڈ، مثل فوکو اور ژاک دریدا نے بات کی تھی کہ ان لوگوں نے جو کچھ کہا پوری علمی دنیا نے اسے ہمہ تن گوش ہو کر سنا۔ آخر ہم کیوں ایسی باتیں نہیں کہہ سکتے؟ اور آج ہماری اصل ضرورت ایسی ہی چونکا دینے والی باتیں کہنے کی ہے۔ دنیا کا بڑھتا ہوا نظریاتی خلا آئیڈیاز کی مانگ کررہا ہے۔ دنیا کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے پاس کوئی ڈھنگ کا ’تصورِ جہاں‘ (ورلڈ ویو) نہیں ہے، جہاں سے کارآمد آئیڈیاز پیدا ہوسکیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس ورلڈ ویو ہے لیکن آئیڈیاز نہیں ہیں:
سب اپنے بنائے ہوئے زنداں میں ہیں محبوس
خاور کے ثوابت ہوں کہ افرنگ کے سیّار
پیرانِ کلیسا ہوں کہ شیخانِ حرم ہوں
نے جدت گفتار ہے ، نے جدتِ کردار
دنیا کو ہے اُس مہدیِ رحق کی ضرورت
ہو جس کی نگہ زلزلۂ عالمِ افکار
ہماری ضرورت کسی لیپاپوتی یا سطحی کام سے پوری ہونے والی نہیں۔ ہمیں اس کام کی ضرورت ہے جو زلزلۂ افکار پیدا کردے۔ شاید بات بہت بڑی ہوگی۔ بے شک آج ہمارے پاس ایسی صلاحیتیں نہیں ہیں کہ ہم اس سطح کا کام کرسکیں۔ لیکن اس کام کا ہم خواب تو دیکھ سکتے ہیں۔ اس خواب کو اپنی اگلی نسلوں کو منتقل تو کرسکتے ہیں اور اس خواب کو شرمندئہ تعبیر کرنے کی تیاری تو کرسکتے ہیں، تاکہ ہم یہ کام کماحقہٗ نہ بھی کرسکیں تو کم از کم ہماری اگلی نسل اس کام کے لیے کھڑی ہوجائے یا ان کی اگلی نسل کھڑی ہوجائے۔ اس کے لیے چھوٹے اور کارگر اقدامات کی ابتدا کو بھی ذریعہ بنایئے اور اُونچے خواب دیکھنے اور ان خوابوں کی بنیاد پر ایک نئی نسل کی تیاری کا محرک بھی بنایئے۔
ہم اس وقیع تحریک کو صرف روزمرہ کی تجاویز کی نذر نہ کردیں بلکہ ہماری کوشش یہ ہو کہ ہمارے یہاں زیادہ اہم اور وسیع تر موضوعات زیربحث آئیں۔ ہم یہاں نئی کتابوں کی نہیں، نئے فلسفوں کی فکر کریں، نئے مثالی نمونوں (paradigms) کی اُپج کے طریقے ڈھو نڈیں۔ ان ضروریات کا تعیین کریں، جن کی تکمیل کے لیے ہم کو اُچھوتے خیالات اور منفرد آئیڈیاز کی ضرورت ہے، اور یہ بھی سوچیں کہ یہ آئیڈیاز کیسے پیدا ہوں گے؟
ہمیں تحریک کی انھی فکری ضروریات کی تکمیل کے لیے بتدریج آگے بڑھنا ہے۔ ظاہر ہے کہ جو باتیں یہاں عرض کی ہیں، ان کی فوری تکمیل ممکن نہیں ہے۔ یہ مقاصد بہت طویل اور صبرآزما جدوجہد چاہتے ہیں۔ فوری طور پر ہمارے پیش نظر چند ذیلی اہداف ہیں:
ان تینوں فوری اہداف کی تکمیل میں تحریک کا بھرپور تعاون مطلوب رہے گا، جس کے لیے اپنے حلقۂ اثر سے ذہین اسکالرز کو جوڑنا اور پوری تحریک میں علمی ماحول کی افزایش ہے۔
یہ کام دھیرے دھیرے ہی ترقی کرے گا۔ ہمارے اہلِ علم بزرگ اس قدر متنوع کاموں کے دبائو میں ہیں کہ ان کی توجہ کھینچنے کے لیے اس کام پر کم از کم اتنا سماجی دبائو ضروری ہے، جتنا دیگر کاموں کے لیے مطلوب ہے۔ تحریک میں فضا بنے گی تو یہ دبائو بھی پیدا ہوگا۔
پہلے قدم کے طور پر ہمیں ان سوالوں کے جوابات حاصل کرنے ہیں:
۱- مختلف زمروں (categories) میں کون سے اُمور ابھی تحریکی لٹریچر میں تشنہ ہیں؟
۲- گذشتہ ۵۰برس میں ایسی کون سی علمی ترقیاں ہوئی ہیں، جن کا نوٹس لیا جانا ضروری ہے اور تحریکی لٹریچر اس پہلو سے ناکافی ہے؟
۳- دنیا میں سماجی، سیاسی و دیگر تبدیلیوں کے نتیجے میں وہ کون سے نئے مسائل اور سوالات پیدا ہوئے ہیں جن کے حوالے سے تحریکی لٹریچر میں تشنگی کا احساس ہوتا ہے؟
۴- کن اُمور میں ہمارے موقف پر اب نظرثانی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے؟
۵- تحریکی لٹریچر کو عصری تقاضوں اور ضرورتوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے آپ کیا مشورہ دیتے ہیں؟ اور اس ذیل میں عملی پروگرام کیا ہوسکتا ہے؟
دینی تعلیم کے نظام اور نصابِ تعلیم کی اصلاح پر ایک عرصہ سے گفتگو ہورہی ہے اور عملاً پیش رفت بھی ہوئی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ وابستگانِ مدارس او راہلِ علم مشاورت میں برابر دل چسپی لے رہے ہیں۔ جنوری ۲۰۱۴ء کے ماہنامہ العصر میں جو محترم مفتی غلام الرحمن صاحب کی ادارت میں پشاور سے شائع ہوتا ہے مفید مضمون بطور اداریہ شائع ہوا ہے۔ اپنے قارئین کی نذر کر رہے ہیں اور اہلِ علم کو اس موضوع پر غوروفکر کی دعوت دیتے ہیں۔ (مدیر)
برعظیم پاک وہند میں بالخصوص اورعالم اسلام کے بیش تر خطوں میں بالعموم دینی مدارس کا تصور اورمعاشرے میں ان کی ہمہ جہت خدمات ایک ناقابل تردید حقیقت بن چکی ہے ۔یہی مدارس عربیہ، اسلام کی حفاظت اورعملی زندگی میں اس کی بقا کے حوالے سے ایک کلیدی کردار اداکرتے آرہے ہیں۔ آج اگرمعاشرے میں شعائر اسلام باقی ،مساجد آباد وبارونق اوراسلامی تہذیب وثقافت زندہ ہے، تو اس کی پشت پر یقینا دینی مدارس کے بوریہ نشینوں کی قربانیاں عیاں ہیں،جنھوں نے فقروفاقہ کو سینے سے لگاکردین اسلام کی خدمت کو ہرموقع پر اپنی جان سے مقدم اورعزیز رکھاہے۔ جو نہایت بے سروسامانی کے عالم میں مدرسے کی چاردیواری اوروہاں کی شبانہ روز زندگی اپنے لیے قابلِ افتخار سرمایہ سمجھتے ہیں ۔
آج دینی مدارس کاوجودِ مسعود بغیر کسی تردد کے جملہ شعبوں کی آب یاری میں مصروفِ عمل ہے ۔دینی مدارس کی خدمات کاسلسلہ اتنا متنوع اورکثیر الجہت ہے تووہاں کانظم ونسق ،طریقہ تعلیم اور نصاب تعلیم کامعاملہ بھی نہایت حساس نوعیت کاہے ۔ جس کے کسی بھی زاویے کی درست تشخیص اورتراش خراش کااستحقاق صرف وہی لوگ رکھ سکتے ہیں جوبراہِ راست ایسے نظام سے وابستہ ہوں۔
عرصہ دراز سے موجودہ دینی مدارس کے نظام پر مختلف زاویوں سے تنقید کابازارگرم ہے۔ اس میں اگرایک طرف مغربی طاقتوں کی کارستانیاں ہیں، تودوسری طرف سرزمین پاکستان کے حکمرانوں کابھی وافرحصہ ہے ۔جب دشمنان اسلام کومذہب سے وابستہ افراد کی غیرتِ ایمانی اور حمیت دینی کے مظاہر دنیاے عالم کی مختلف تحریکوں میں دیکھنے کوملے اوران کواس جذبۂ ایمانی کی پیداوارکا اصل سراغ لگانے میں دینی مدار س کاپلیٹ فارم دکھائی دیا تواپنے جملہ وسائل کے ذریعے مدارس پر انھوں نے طرح طرح کے پروپیگنڈوں کے ذریعے الزامات کی بوچھاڑ کی، تاکہ وہ ان کے کردار کو متنازع اورمشکوک بناکر اپنے ذاتی مفادات کوتحفظ دے سکیں۔بدقسمتی سے ان کواپنے ان مذموم مقاصد کوعملی جامہ پہنانے کے لیے ایسے حکمران بھی ملے، جنھوں نے دشمن کے بے بنیاد پروپیگنڈے پر اعتماد کیا اور بغیرکسی تحقیق کے ان پر دہشت گردی اورانتہا پسندی کے الزامات لگانے میں دیر نہیں کی۔ پھر یہاں کے نظم ونسق میں مداخلت کے لیے مختلف ذرائع تلاش کیے، جس میں سرفہرست مالی تعاون ، نصاب ونظام میں تبدیلیوں کی صدائیںاورماڈل دینی مدارس جیسے منصوبے شامل رہے ۔ تاحال تو ان قوتوں کو مدارس کے آزادانہ ماحول میں کسی قسم کی مؤثر مداخلت کے مواقع نہیں ملے، مگرمیڈیا جیسے ذرائع سے ان پررکیک حملوں کاسلسلہ تاہنوز جاری ہے۔میرے خیال میں خودمغربی طاقتوں اوران کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے والے ضمیر فروشوں کواس شخصیت کے پیغام سے سبق لیناچاہیے، جوخود یورپ کے تعلیمی اداروں میں پلنے بڑھنے کے بعد مشرق ومغرب میں ایک قانون دان اورایک عظیم مفکرکی حیثیت سے یکساں طورپرمقبول ہیں۔
مفکراسلام علامہ محمد اقبال ؒدینی مدارس کی افادیت،اہمیت اوران کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’ان مکتبوں (مدرسوں)کو اسی حالت میں رہنے دو ،غریب مسلمانوں کے بچوں کو انھی مکتبوں میں پڑھنے دو۔ اگریہ مُلّااوردرویش نہ رہے توجانتے ہوکیاہوگا؟جوکچھ ہوگا،میں اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ آیاہوں۔ اگرہندستان کے مسلمان ان مکتبوں کے اثر سے محروم ہوگئے توبالکل اسی طرح جس طرح ہسپانیہ (اسپین )میں مسلمانوں کو ۸۰۰برس کی حکومت کے باوجود آج غرناطہ وقرطبہ کے کھنڈراورالحمرااورباب الاخوتین کے سوا اسلام کے پیرووں اوراسلامی تہذیب کے آثارکاکوئی نقش نہیں ملتا، یہاں بھی تاج محل اوردلی کے لال قلعے کے سوا مسلمانوں کی تہذیب کاکوئی نشان نہیں ملے گا‘‘۔گویاکہ حضرت علامہ کی نظر میں مدارس دینیہ کی مخالفت قہر خداوندی کودعوت دینے کے مترادف ہے۔
ہمیں اس بے بنیاد پروپیگنڈے سے ہٹ کر دینی مدارس کے رواں سفر میں حالات اور وقتی تقاضوں کے مطابق نصاب تعلیم اورنظام تعلیم میں مزید ترمیم واضافے کاعمل برابر جاری رکھنا چاہیے ۔جب ہم اسلام کی آفاقیت اوردنیاکے کونے کونے میں اس کی تنفیذ کی بات کرتے ہیں، جو محض ایک دعویٰ نہیں بلکہ حقیقت ہے، توپھر کیا ہم نے ذرہ بھر یہ بھی سوچاہے کہ اس عالم گیر مہم کے تقاضے، ضروریات اورطریقۂ کار کیا ہوگا اوریہ کہ ہم کس نہج پر اس کی تیاری کررہے ہیں؟ یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ تعلیمی اداروں میں نصاب تعلیم کاتقرر وقت اورحالات کے تقاضوں کے مطابق کیاجاتاہے اورمعاشرتی اقدارکی اس میں برابر کی ترجمانی اورعکاسی ہوتی ہے، اورایسے میں ہرمضمون کے بنیادی اہداف اوراس کی روشنی میںاس کے تدریجی ارتقا کاعمل بھی جاری رہتاہے۔
ہمارے مدارس دینیہ کاموجودہ نصاب مُلّا نظام الدین سہالویؒ نے اس زمانے میں مرتب کیاتھا،جب ان کو مغلیہ علم دوست حکمران اورنگ زیب عالم گیر نے فرنگی محل نامی مکتب میں بطوراستاذ تعینات کیا۔ اس زمانے میں مملکت کی جملہ عدالتوں میں فقہ حنفی رائج تھی اورانفرادی اوراجتماعی زندگیوں میں اس کے مطابق فیصلے کیے جاتے تھے تواسلامی عدالتوں کو مفتیانِ کرام، قضاۃ اور فقہ اسلامی کوخاص قانونی نقطۂ نظر سے مرتب کرنے کے لیے جن رجالِ کارکی ضرورت ہوتی وہ مذکورہ نصاب سے پوری کی جاتی تھی ۔نصاب تعلیم کی یہ شکل خود مغلیہ دور کے سقوط اور ۱۸۵۷ء کے آخری مغل حکمران بہادر شاہ ظفر تک جاری رہی ۔پھر جب ۱۸۶۷ء میں دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی گئی، اس وقت بھی یہی نصاب وہاں کے حالات اورتقاضوں کے مطابق ترمیم واضافے کے ساتھ مروج رہا ۔چنانچہ دارالعلوم دیوبندکے نصاب میں علم ہندسہ،اورخاص کرعلم طب پر خصوصی توجہ دی جاتی تھی۔ آج بھی دارالعلوم کے بیش تر فیض یافتہ حضرات کے مطب اورعلم حکمت سے براہِ راست وابستگی کے کئی مظاہر دیکھنے کوملتے ہیں ۔ معلوم ہوتاہے کہ نصاب تعلیم اورنظام تعلیم کامدتوں تک ایک ہی سانچے میں رہنا فطرت کے تقاضوں کے مطابق ایک مشکل امرہے۔جوں جوں معاشرے میں تغیر وتبدل اور ارتقا کاسفر جاری رہے گا،توایسے میں تعلیم گاہوں اورخاص کردینی مدارس کے نصاب تعلیم کا ایک ہی نقطے پرمستمر رہنا شایداس کی اپنی افادیت کے دائرے کومحدود کرنے کے مترادف ہوگا۔
ہمارے ہاں مروجہ نصاب تعلیم پراگر غورکیاجائے توقدیم ذخیرے میں بیش ترایسے نظریات دیکھنے کو ملیں گے جوبذات خود ہماری شریعت کے نصوص سے واضح طورپرمتصادم ہیں۔جن میں بطور خاص علم الکلام کے قدیم مباحث میں فلسفہ اورمنطق کے مُغْلَقْ نظریات سرفہرست ہیں۔ مگر متقدمین علماے حق نے اس زمانے میں ان کو صرف وقت کے تقاضوں کے مطابق اس دور کی طاغوتی قوتوں کے آلۂ کاروں کو ان کے فہم وزعم کے مطابق اسلام کے بنیادی عقائد سمجھانے کے لیے بطور ہتھیاراستعمال کیاتھا۔ آج اسی فلسفہ اورمنطق کے مقام کومتبادل نئی چیزوں نے لے لی ہے اور ہمارے لیے مسلسل چیلنج کے طورپرسامنے ہیں۔ اوراس وقت مذہب کی تعلیم سے وابستہ افراد کوموجودہ زمانے کے لب ولہجہ کوسمجھنا وقت کاایک اہم تقاضاہے ۔کیونکہ دشمنانِ اسلام کو زہریلی اورشرپسند ذہنیت سے بچنے کے لیے پہلے ان کی فکر ،اندازِ تخاطب اورخاص کران کی زبان سے واقفیت حاصل کرناہماری مذہبی اورمعاشرتی ذمہ داری ہے۔اس حوالے سے ہم خلیفہ ثانی حضرت عمرؓ کے اس جملے سے سبق حاصل کرسکتے ہیں کہ جس میں آپ نے اُ س موقع پرارشاد فرمایا،جب ایک شخص کے بارے میں آپ سے کہا گیا کہ ان کوامیر اس لیے بنایاجائے کہ وہ اتنامتقی ہے کہ گویا کانہ لم یعرف الشر،کہ شرنامی چیز کوجانتا نہیں۔آپ نے فرمایا: اذاًیوشک ان یقع فیہ، پھر توقریب ہے کہ وہ اس میں مبتلا ہوجائے۔
آج اگر معاشرے کے مختلف حلقوں کی جانب سے دینی مدارس کے نصاب میں تبدیلی کی صدائیں بلند کی جاری ہیں تواس سے قطعاًیہ مراد نہیں کہ یہ مدارس، معاشرے کوڈاکٹر، انجینیراور سائنس دان فراہم کریں۔ کیونکہ یہ توبالکل ایساہی ہے کہ جیسے آپ میڈکل کالج والوں سے بیک وقت ایک ہی شخص کے بارے میں ڈاکٹر ،انجینیراورسائنس دان کامطالبہ کریں ۔درحقیقت وہ کبھی یہ نہیں چاہتے کہ دینی مدارس کے طلبہ معاشرے کی یہ ذمہ داریاں بھی سنبھالیں، بلکہ جب معاشرے کے بیش تر شعبوں میں دینی مدارس کے فضلا کی منصبی ذمہ داریوں کے مواقع آتے ہیں توایسے میں خود ان کے اورمروجہ روش کے درمیان ابلاغ اور وضاحت کی رکاوٹیں پیدا ہوجاتی ہیں۔ اس لیے ان کومعاشرے کااسلوب بھی جاننا چاہیے ۔بہت ممکن ہے کہ نصاب میں یکایک تبدیلی شاید ہمارے دینی ماحول میں بہت جلد واقع نہ ہو،مگررفتہ رفتہ اس میں ترمیم جوکہ یقینا کچھ عرصے سے جاری ہے، مزید اس کی ضرورت ہے،اوریہ عمل اہلِ علم کی وسیع ترمشاورتوں اور تجربات سے ہی پایۂ تکمیل تک پہنچ سکے گا۔
عصر حاضر کے جدید اسلوب کے حوالے سے ہم دینی مدارس میں اپنے مروجہ نصاب کے ساتھ ساتھ ایسے اقدامات ضرور اٹھائیں، کہ جس سے ہمارادینی طبقہ معاشرے کے ساتھ براہِ راست آمناسامنا کرنے میں کسی قسم کی دقت محسوس نہ کرے ۔
بطورمثال، قرآن وحدیث جوہماری زندگی کے جملہ شعبوں کے لیے اساس اوردستورکامل کی حیثیت رکھتے ہیں، مگرتدریس قرآن کے قدیم اسالیب کے ساتھ ساتھ عصرحاضر کے نئے فتنوں کامطالعہ اورقرآن مجیدسے ان کے استشہادات کوبہ نظرِ غائر مطالعے میں رکھنا آج کی ایک اہم ضرورت ہے ۔اسی طرح قرون اولیٰ کے تفسیری مناہج کے ساتھ ساتھ علوم القرآن ،تدریسِ قرآن مجید دورِ جدید کی ضروریات اورتقاضوں کے حوالے سے نئے اسالیب پر غوروفکرکرنے سے شاید ہم معاشرے کوکتاب اللہ سے وابستہ رکھنے میں مؤثرکرداراداکرسکیں۔
اسی طرح علم حدیث اگرایک طرف اپنے گہرے رموز اوراسرار کے حوالے سے ایک مہتم بالشان علم ہے تودوسری طرف اس کے تدریس کے تقاضے بھی نہایت اہم ہیں۔ ہمارے مروجہ نصاب میں تدریسِ حدیث فقط ائمہ فقہا کی آرا اوراستنباطات کے اردگرد گھومتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ بعض جگہوںمیںطریقۂ استدلال کے جواب میں رُواۃ کاتذکرہ اوران پرجرح وتعدیل کے مواقع بھی پیش آتے ہیں، مگر مجموعی صورت حال کے مطابق طلبہ کے ذہن میں احادیث مبارکہ کی تعلیم سے فقط استدلال واستشہاد اورکسی خاص مسلک کی تائید کے حوالے سے ایک محدود شناسائی رہتی ہے ۔اگراس کے ساتھ ساتھ اس میں وسعت پیداکرکے طلبہ کواحادیث کی عمومی اوراصلاحی مفاہیم پرتوجہ دلائی جائے، توعین ممکن ہے کہ کل وہ معاشرے کے کسی بھی اجتماع کے سامنے احادیث مبارکہ کی روشنی میں رسول اکرمؐ کے اسوۂ مبارکہ کوایک اچھے قالب میں منطبق کرنے کی صلاحیت رکھیں گے۔
اس کے ساتھ احادیث کے زمرے میں علم الآثار کے حوالے سے صحابہ کرامؓ اورتابعینؒ کے قرآن وحدیث کی تفسیر کے دوران جوقیمتی آرا منقول ہیں، ان سے بھی ان کوروشناس کرایاجائے تو معاشرے کے بیش تراختلافی مسائل بیان کرنے میں اس کوایک مثبت راہ دکھانے میں ممد اور معاون ثابت ہوگا۔اس مرحلے میں قدیم دورکے فرق ضالہ کے ساتھ ساتھ موجودہ دورکے اہم فرقوں کے بارے میں عمومی تعارف کروایاجائے اورپھر اس کی روشنی میں مناسب گرفت کے راستے متعین کیے جائیں۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں عموماً نئے گروہ یانئی آواز بلندکرنے والوں پرسب وشتم توپہلے کیاجاتاہے اوران کے منظورنظر عقائد وافکارکا مطالعہ بعد میں کیاجاتاہے، جوکہ یقینا ہمارے غیر ذمہ دارانہ رویے کی عکاسی ہے ۔
فقہ اوراصول فقہ کی تدریس کے دوران قدیم طرزِ تعبیر کے ساتھ آج دونوں میں جدید اسالیب سامنے آچکے ہیں۔طلبہ کواگرقدیم ذخیرہ پڑھاتے ہوئے اس معاصرانہ تطبیق سے روشناس کرایا جائے، توعین ممکن ہے کہ وہ تعلیمی سلسلے کے دوران معاشرے کے اُتارچڑھاؤ اورباہر دنیا کے حالات کودرست زاویے پرپرکھیں اوراس کے لیے مناسب زادِ راہ تیاکریں۔کوئی شک نہیں کہ ان دونوں علوم میں وسعت اوراضافے کابنیادی محرک معاشرے کے رواں سفر میں نت نئے حالات وواقعات کا تغیر بھی گہرااثر رکھتا ہے ۔ آج تمام بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹیوںمیںقرآن وحدیث، فقہ اوراصول فقہ اوردیگرعلوم کی تدریس کے حوالے سے تدوین نومختلف زاویوں پرعرصہ دراز سے جاری ہے۔ہم اپنے دینی مدارس کے ظروف اوراندرونی ماحول کے مطابق اس سے استفادہ کرسکتے ہیں۔
مدارس کی چاردیواری سے نکل کر باہر کی دنیامیں عمومی دعوۃ وارشاد کے حوالے سے محنت کرناہمارے مدارس دینیہ کی اولین ترجیحات میں سے ہے مگر مغربی دنیاکے مسلم معاشرے میں مسلسل نئے روپ میں فساد وگمراہی کے جال پھیلانے کے باعث ہماری یہ ذمہ داری کچھ زیادہ نزاکتوں کاشکار ہے۔ہمارے پاس اس اہم فریضے کی ادایگی کے لیے مسجد کے منبر ومحراب کا وسیع پلیٹ فارم ہے، جوکہ نہ صرف مسلمانوں کاعبادت خانہ ہے بلکہ اس سے بڑھ کرمسلم معاشرے کااسلام کے روزِاول سے جملہ شعبوں کی نگرانی کاتسلسل سے مرکز چلاآرہاہے ۔اس لیے ہمارے فضلاکواس منصب تک پہنچنے کے بعد صرف روایتی مذاق کو اپنانے کے بجاے مسجد کے ماحول سے وابستہ افراد کے ہرذہن کوپڑھنے کے بعد مثبت انداز میں مذہبی تعلیمات کودرست اورفی الواقع تطبیقات کی روشنی میں پیش کرناایک اہم ذمہ داری ہے ۔
یہ حقیقت ہے کہ معاشرے کابیش تر طبقہ شریعت اورمذہب سے آگاہی کا خواہاں ہے، مگر جب ان کو ہمارے عمومی اجتماعات اورخاص کر جمعہ کی نشست میں کوئی واضح اورٹھوس پیغام نہیں مل رہاہوتا، تویہ بے چارے جمعۃ المبارک کے اہم موقعے پربھی صرف وقتی فریضے کی ادایگی کو اپنے لیے غنیمت سمجھتے ہیں۔آج کے دورمیں معاشرے کے پاس مسجد کے امام وخطیب سے ہٹ کر بھی علم وتحقیق کے دیگر ذرائع موجود ہیں، جوغلط ہوں یاصحیح مگر طبعی طورسے ان کے گہرے اثرات نمایاں ہیں۔ ہمیں ان چیزوں سے آگاہی حاصل کرکے معاشرے کودرست تطبیق کی نشان دہی کرکے بہترراہ پرگامزن کرناہے ۔
ایسے حالات میں دینی مدارس کے جملہ ارباب بالخصوص وفاق المدارس العربیہ پاکستان کو ان نوخیز فضلاکے مستقبل کے حوالے سے ان تمام چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ہنگامی اورمستقل بنیادوں پر کام کی ضرورت ہے ۔اس وقت دینی مدارس کے بعض سربراہان جب معاشرے کے اس قسم کے حالات کامشاہد ہ کرتے ہیں، تواپنے فضلا کے بارے میں مؤثر طریقہ کارپرسوچنے کے لیے بے قرارہیںتو وفاق المدارس کواپنی جملہ سرگرمیاں ایک امتحانی سیکشن تک محدود کرنے کے بجاے تعلیمی ادارے جیسے فرائض سرانجام دینے چاہییں ۔عمومی مشاہدہ ہے کہ دینی مدارس کے ماحول میں متنوع خدادادصلاحیتوں کے حامل طلبہ آتے ہیںاورفراغت کے بعد اپنی ذاتی رجحان کی بنیاد پر آگے تعلیمی سلسلے کومختلف پہلوؤں پرجاری رکھناچاہتے ہیں، مگر معاشی تنگ دستی یاپھر مناسب عدم سرپرستی کے باعث وہ اس کام میں لیت ولعل کے شکارہو جاتے ہیں ۔
میرے خیال میں وفاق المدارس اگر فضلاکے ایسے گروہ پر خصوصی توجہ دے اوران کی ذہنی صلاحیتوںکے مطابق متعلقہ اداروں میں رہتے ہوئے ان کی جملہ سرپرستی کوقبول کرے، تومستقبل قریب میں ہمارے پاس معاشرے کے مختلف میدانوں میں رجالِ کارکی فراہمی میں ایک اچھی خاصی ٹیم تیارہوگی ۔اوراس کے علاوہ عمومی فضامیں مروجہ نصاب کے ساتھ ساتھ درج ذیل عنوانات پر عمومی ورکشاپ اورمختصردورانیے کے حامل کورسوں کے ذریعے ہم اپنے طلبہ کوقومی ، ملکی اوربین الاقوامی حالات وواقعات اوراس کے اثرات سے بخوبی آگاہ رکھنے کااحساس دلاسکتے ہیں:
اس کے ساتھ ساتھ دینی مدارس کے عمومی مزاج میں مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے یکساں تسلسل ،افرادی قوت کے تحفظ اورفروعی مسائل میں زیادہ شدت اختیارکرنے کے بجاے امت کی وحدت کوہرحال میں مقدم رکھنے کی عملی جدوجہد کرنا ہمارے اہداف حاصل کرنے کاایک مؤثرانداز ہے۔ہم ان تمام تراقدامات کے ساتھ دینی مدارس کے عمومی مذاق،اس کی اخلاقی اور روحانی فضا کو برقراررکھتے ہوئے گردوپیش کے حالات وواقعات سے اپنے فضلا کوہمہ وقت ہرقسم کے حالات کے لیے بیدار مغز رکھ سکتے ہیں،اورسیرتِ نبویؐ کے حامل وارث کودنیاکے جس کونے،جس شعبے میں خدمت کے لیے بھیجیں وہ وہاں کے تقاضے اورحالات کاسامناکرتے ہوئے دوٹوک موقف کے ساتھ اسلام کی روشن تعلیمات کوواضح کرے۔ یوں ہم دشمن کے منفی پروپیگنڈے سے مثبت انداز میں نمٹ کردینی مدارس کے ماحول کوہرقسم کے خطرات اورحادثات سے بچاکر رکھ سکتے ہیں ؎
اُٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرقِ و مغرب میں تیرے دور کاآغاز ہے
وَالْعَصْرِ o اِِنَّ الْاِِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ o
_______________
مصر میں انتخابات کے پہلے دور کے نتائج نے مغربی سیاسی تجزیہ نگاروں، مسلم دنیا کے لادین عناصر، اسرائیل اور اُس کے پشت پناہ ممالک کو ان زمینی حقائق سے روشناس کردیا ہے جن کو دیکھنے اور ان کا اعتراف کرنے کے لیے وہ تیار نہ تھے۔ تقریباً ۶۰برس سے مصر پر مسلط لادین عناصر اپنی تمام تر سیاسی حکمت ِعملی، عارضی فوجی کونسل کی حمایت اور مغربی ممالک کی ’نیک خواہشات‘ کے باوجود ہرمحاذ پر ناکام رہے۔ اس کے مقابلے میں ۶۰برس سے جبروتشدد اور ظلم واستحصال کا نشانہ بننے والی تحریکِ اسلامی کے سیاسی محاذ کو عوام الناس کی بھاری اکثریت نے، ان مقامات پر بھی جو قدرے اباحیت پسند شمار کیے جاتے ہیں اور جہاں پر شہری آبادیاں بظاہر دینی معاملات میں کچھ زیادہ روشن خیال شمار کی جاتی ہیں، کامیابی سے ہم کنار کیا۔ نہ صرف تحریکِ اسلامی کو بلکہ غلو کی طرف مائل سلفی اُمیدواروں کو بھی قابلِ ذکر نمایندگی حاصل ہوئی۔
انتخاب کے تینوں مراحل کے نتائج اب آگئے ہیں۔ سرکاری اعلان کے مطابق حزب الحریہ والعدالہ (Freedom & Justice Party) کو جو اخوان المسلمون کا سیاسی محاذ ہے، کُل ووٹوں کا ۴۶ فی صد حاصل ہوا ہے، اور اس طرح ۴۹۸ کے ایوان میں ان کو الحمدللہ ۲۳۰ نشستیں حاصل ہوچکی ہیں اور ۹ کی مزید توقع ہے (یہ ان ۱۸ نشستوں کے سلسلے میں ہیں جن کا انتخاب دوبارہ ہو رہا ہے)۔ سلفی تحریک کے سیاسی محاذ حزب اللہ کو ۲۳ فی صد ووٹ اور ۱۱۳ نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ اسلام پسند قوتوں کو دو تہائی ووٹ (۶۹ فی صد) کی تائید حاصل ہے۔
یہ تناسب نہ صرف مصر کے لادین عناصر بلکہ خود یورپ اور امریکا کے دانش وروں کے لیے ناقابلِ یقین تصور کیا جارہا تھا۔ اسرائیل جو کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد سے مصر کو عملاً اپنا حلیف سمجھتا رہا ہے، اسلامی عناصر کے اُوپر آنے سے سخت مضطرب ہے کیونکہ تحریکِ اسلامی کا فلسطین کی آزادی پر موقف ۱۹۴۸ء سے آج تک اسرائیل کی آنکھ کا سب سے بڑا کانٹا رہا ہے۔ مصر میں تحریکِ اسلامی کے سیاسی محاذ کا وجود میں آنا اور ایک مناسب سیاسی حکمت ِعملی کا وضع کیا جانا دیگر تحریکاتِ اسلامی کے لیے ایک لمحۂ فکریہ فراہم کر رہا ہے۔
یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ تحریکاتِ اسلامی کا اصل مشن اور مقصد حاکمیت ِالٰہی کے قیام کے ذریعے تمام انسانوں کے لیے ایک ہمہ جہتی نظامِ عدل کا قیام ہے۔ یہ نظام دلوں کی تائید اور انفرادی، خاندانی اور اجتماعی زندگی کے تمام اداروں کی کارکردگی کے ساتھ خود سیاسی قوت کے تعمیری استعمال سے وجود میں آتا ہے۔ دعوت و اصلاح کا عمل جہاں فرد اور ْخاندان کی اصلاح کرتا ہے وہیں معاشی، معاشرتی، قانونی اور سیاسی محاذ پر بھی اللہ تعالیٰ کی ہدایات پر عملی طور پر شریعت کے کُلی نظام کے نفاذ کو یکساں اہمیت دیتا ہے۔ سیاسی حکمت ِعملی اس کُلی عمل کا ایک لازمی عنصر ہے۔
۸۳برس تک مسلسل جدوجہد کرنے، سخت آزمایشوں اور ابتلا سے گزرنے اور تقریباً ۵۸برس تک جابرانہ حکومتوں کے کالے قانون کے زیراثر غیرقانونی قرار دیے جانے کے باوجود مصر میں تحریکِ اسلامی کا اُبھرنا، جہاں دعوت کی صداقت کی دلیل ہے وہاں قرآن کریم کی اُس پیش گوئی کی عملی تعبیر بھی ہے کہ جو لوگ ہماری راہ میں جہاد کریں گے ہم انھیں اعلیٰ انعامات سے نوازیں گے۔ یہ جہاد فکری، اخلاقی، معاشرتی ، سیاسی بھی اور ضرورت پڑنے پر عسکری بھی۔ البتہ تحریکاتِ اسلامی کو سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ کسی مرحلے میں جہاد کے کس پہلو پر زیادہ توجہ دی جائے۔
بالکل اسی طرح اخوان کی تصویر (image) کو مشرق و مغرب میں عسکریت پسند، تشددپسند ، انتہا پسند مشہور کر کے مسخ کرنے کی کوشش کی گئی۔ اخوان المسلمون کے سوچنے سمجھنے والے افراد نے اس تاثر کی اصلاح کے لیے نہ تو مداہنت اختیار کی،نہ جہاد پر کسی معذرت کا اظہار کیا اور نہ اپنی سرگرمیوں کو صرف عقائد و عبادات تک محدود کرنے پر غور کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے عصرِحاضر کے مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے اصل مشن ’’اللہ ہماری غایت ہے، رسولؐ ہمارے قائد و رہنما ہیں، اور جہاد ہمارا راستہ ہے‘‘ سے انحراف کیے بغیر اپنی تربیتی اور تنظیمی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ایک آزاد سیاسی محاذ کو قائم کیا، جو مقامی اور ملکی مسائل پر عوام کے تعاون سے حل کرنے کے لیے جدوجہد کرے۔ اس حکمت ِعملی سے ایک جانب اخوان کے حلقۂ اثر میں وسعت پیدا ہوئی، تو دوسری جانب نیا خون اور نئے چہرے ملک میں اصلاح کے عمل کی خواہش کے ساتھ سامنے آئے، اور نوجوان آبادی کو خصوصاً اپنے آپ کو منظم کر کے قیادت کا فرض ادا کرنے کی تربیت ملی۔
ملکی مسائل میں غربت کا خاتمہ، معاشی اور سماجی ترقی کا حصول، دولت کی منصفانہ تقسیم، روزگار، صاف پانی کی فراہمی، زمینوں کی عادلانہ تقسیم، خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد وہ مسائل تھے جن پر زیادہ توجہ دی گئی۔ اس کے مقابلے میں وہ مسائل جو کہ بنیادی ہیں لیکن جن سے عوام کی سوچ پر زیادہ اثر نہیں پڑتا، مرکزِ توجہ نہیں بنائے گئے۔ اخوان کے حوالے سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ وہ امریکااور اسرائیل کو شدت سے ناپسند کرتے ہیں لیکن سیاسی حکمت ِعملی میں ان کا زیادہ زور جمہوری روایت کا احیا، خواتین کے حقوق کی فراہمی اور معاشی ترقی کے منصوبوں پر رہا۔
حصولِ مقصد کے لیے حکمتِ عملی بنانے کا مطلب یہ نہیں لیا جاسکتا کہ جو ترجیحات ۵۰،۶۰برس پہلے طے کی گئی تھیں، ان سے سرموانحراف نہ کیا جائے، بلکہ وقت اور ضرورت کے لحاظ سے حکمت ِعملی وضع کرنا خود شریعت کا مطالبہ ہے۔ بلاشبہہ مقاصد اور اخلاقی اور روحانی اقدار کے فریم ورک میں نئے حالات کی روشنی میں مسائل کے نئے حل کی تلاش شریعت کا ایک مسلّمہ اصول ہے اور اس کے نتیجے میں تبدیلیِ حالت کی بنا پر حکم میں تبدیلی شرعی اصولوں کے مطابق کی جاتی ہے۔ اس لیے اخوان المسلمون کا اپنے دعوتی اور تربیتی نظام کے ساتھ بطور تحریک اسلامی قائم رہنا اور ایک سیاسی محاذ کا بنانا شریعت کے اصولوں سے مطابقت رکھتا ہے۔
ترکی میں بھی تحریکِ اسلامی نے اپنا تاثر ایک معاشی اصلاح، اور یورپی یونین میں شمولیت کی خواہش مند رفاہِ عامہ کے کاموں کو اہمیت دینے والی جماعت کے طور پر پیش کیا جس کے نتیجے میں بہت سے ذہنوں سے وہ خدشات جو مغرب کے منفی پروپیگنڈے سے پیدا کیے گئے تھے، آہستہ آہستہ دُور ہوئے۔ ترکی پر اس جملۂ معترضہ سے قطع نظر صرف اس جانب اشارہ کرنا مقصود ہے کہ بعض اوقات تحریکاتِ اسلامی کو اپنے مقصد، منزل، طریق کار پر پورے اعتماد کے ساتھ ایسی حکمت ِعملی اختیار کرنی پڑتی ہے جو حصولِ مقصد کے لیے مباح اور ترجیحات میں تبدیلی کی متقاضی ہو۔
مصر میں تحریکِ اسلامی نے اپنے نظم اور نظامِ تربیت کو برقرار رکھتے ہوئے جو حکمت ِعملی اختیار کی ہے وہ دیگر تحریکات کے لیے غوروفکر کا ایک اہم پہلو نمایاں کرتی ہے۔ تاہم یہ ضروری نہیں کہ جو حکمت ِعملی کسی ایک مقام پر کامیاب ہو، بعینہٖ وہی حکمت ِعملی کہیں اور بھی اختیار کی جائے۔ ہاں، اگر زمینی حقائق کا تجزیہ یہ بتائے کہ اس حکمت ِعملی سے حصولِ مقصد میں آسانی ہوگی تو محض اس بنا پر کہ چونکہ وہ حکمت ِعملی کسی اور مقام پر کارگررہی،لہٰذا اس کے اختیار کرنے سے احتراز کیا جائے، مناسب نہیں۔نیز ضروری نہیں کہ ایک مقام کے تجربات کو من و عن دوسری جگہوں پر اختیار کیا جائے۔ مختلف اجزا اور پہلوئوں میں انتخاب اور ترمیم و تصحیح (modification) کا عمل بھی جذب و انجذاب کے اس وسیع ترعمل کا حصہ ہے۔
مصر کی تحریک اسلامی کے سربراہوں سے جب یہ کہا گیا کہ وہ مصر میں ترکی ماڈل کیوں نہ اختیار کریں، تو ان کا جواب یہی تھا کہ ہم اپنا ماڈل خود تعمیر کرنا پسند کریں گے۔ ہمارے خیال میں یہ ایک تحریکی ضرورت ہے کہ تحریکاتِ اسلامی کی قیادت ایسے معاملات میں کھلے ذہن کے ساتھ غوروفکر کرے اور ایک دوسرے کے تجربات و مسائل سے آگاہی اور استفادہ کرے۔
اوّلاً، گذشتہ ۸۳برس کے عرصے میں اقامت ِدین کی جدوجہد میں نظامِ تربیت کے ذریعے ایسے افراد کی تیاری جو اپنے مقصدحیات کے لیے ہرقربانی دینے کے لیے تیار ہوں اور جن کا تعلق زندگی کے ہرشعبے سے ہو۔ چنانچہ ڈاکٹر، انجینیر، اساتذہ، تاجر، قانونی ماہرین اور کسان، ہرہرطبقے میں دعوت کے نفوذ کے ذریعے زندگی کے ہر شعبے کے لیے متبادل قیادت اور ایک ایسی افرادی قوت کی تیاری جو تبدیلی کی صلاحیت رکھتی ہو،اخوان کی حکمت ِعملی کا حصہ رہی۔
ثانیاً، نوجوان نسل میں اسلامی فکر کا احیا اور جمہوری عمل کے ذریعے تبدیلی کی حکمت ِعملی۔ اس غرض کے لیے دعوت کے دائرۂ اثر کو وسیع کرنے کے ساتھ عوام تک یہ پیغام پہنچایا گیا کہ اس جماعت کے افراد ایمان داری، حق پرستی اور مستقل مزاجی اور اعتماد کے ساتھ بغیر کسی ذاتی مفاد کے ملک میں امن، عدل، تعلیم اور معاشی خوش حالی چاہتے ہیں۔ اخوان کے دفاعی اور تعلیمی ادارے اور اجتماعی زندگی میں، syndicates میں ان کی مؤثر کارکردگی نے قوم میں یہ اعتماد پیدا کیا کہ ان کے ذریعے دیانت دار اور اہلیت کی حامل قیادت برسرکار آسکتی ہے۔یہی وہ عنصر ہے جو اخوان کے سیاسی محاذ کے طور پر حالیہ واقعات میں اُبھر کر سامنے آیا اور جس پر مصری عوام نے اپنے اعتماد کا اظہار کیا۔
ثالثاً، تحریک اور اس کے سیاسی محاذ میں قریبی ربط کے باوجود ایک فاصلہ رکھنا تاکہ عملی معاملات میں اصولوں سے انحراف نہ ہو، اور سیاسی مہم میں پیش آنے والے بعض معاملات میں سیاسی محاذ کو رکاوٹ بھی پیش نہ آئے۔ یہ احتیاط اور توازن غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو پھر تحریک کے مرکز قوت پر اس کے دیگر اعضا میں عدم تعاون کی شکل پیدا ہوجاتی ہے۔
اس پورے عرصے میں اخوان المسلمون نے اپنی امریکا مخالف پالیسی میں کوئی نرمی اختیار نہیں کی، لیکن اپنے دروازے امریکا کے اہلِ فکر کے لیے بند بھی نہیں کیے۔ یہ کرنا اس لیے ضروری تھا کہ عالمی سطح پر اخوان کے بارے میں جو تاثر پہلے ہی سے قائم کرلیا گیا تھا، اس میں ان کا غیرجمہوری اور تشدد پسند ہونا مرکزی حیثیت رکھتا تھا، اور تحریک کے نئے تشخص میں یہ بات بنیادی حیثیت رکھتی تھی کہ وہ جمہوری ذرائع سے اسلام کی عظمت چاہتی ہے۔ اس پس منظر میں اخوان کی مذاکراتی (dialogue)پالیسی کو بہتر سمجھا جاسکتا ہے۔
بظاہر تین مسائل غور طلب ہیں: کیا اپنے اصولی موقف کے ساتھ تحریکِ اسلامی نے داخلی مسائل پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ایسی حکمت ِعملی وضع کی جو عوام میں اُمید اور ان کے مسائل کے حل کے امکانات کو روشن کرسکے؟ امریکا کی مخالفت اور ملک کی سلامتی اور خودمختاری کی حفاظت کے لیے ملک میں اس کے عمل دخل کو ختم کرنے کی جدوجہد، وقت کی ایک اہم ضرورت ہے، لیکن ضروری ہے کہ ان اُمور کے ساتھ قوم کو پوری قوت سے ان اُمور پر مرکوز کیا جائے جن کا تعلق ایک عام آدمی کی زندگی سے ہے۔ ایک مزدور اور کسان اور تاجر جن مسائل کا سامنا روزانہ کرتا ہے، ان کا تعلق اس کی معاشی بدحالی، انرجی کی قلت، قیمتوں میں ہوش ربا اضافے، غربت، عدمِ مساوات، تعلیم اور صحت سے محرومی، بنیادی حقوق کی پامالی اور عدم تحفظ کے شدید احساس سے ہے۔
دوسرا اہم مسئلہ سیاسی معاملات میں ابلاغِ عامہ کا مؤثر استعمال ہے۔ پاکستان ہویا کوئی اور ملک، آج سیاسی جنگ دراصل ابلاغی جنگ ہے۔ جب تک ایک سیاسی جماعت کو ابلاغِ عامہ میں مرکزی مقام حاصل نہ ہو، اپنی تمام تر تنظیمی، افرادی اور اخلاقی قوت کے باوجود وہ عوام کی نگاہ میں ایک سیاسی جماعت تو رہتی ہے لیکن جیتنے والی جماعت کی شکل اختیار نہیں کرپاتی۔ ابلاغی جہاد کو جب تک مرکزیت حاصل نہیں ہوگی علمی و فکری اور سیاسی و رفاہی کام کے اثرات معاشرے میں ظاہر نہیں ہوسکتے۔ نیز ابلاغ کے میدان میں جو انقلابی تبدیلیاں گذشتہ تین چار عشروں میں ہوئی ہیں اور جن میں پرنٹ میڈیا کے ساتھ الیکٹرانک میڈیا اور پھر سوشل میڈیا نے غیرمعمولی اہمیت حاصل کرلی ہے، ان سب کا مؤثر استعمال ہماری جدوجہد کی کامیابی کے لیے ازبس ضروری ہے۔
تیسرا اہم مسئلہ عوامی سطح پر متعین طور پر ایسے مقامات کا انتخاب جہاں پر تحریک سے وابستہ افراد نے سماجی اور فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہو، اور ان مقامات سے ایسے بااثر افراد کا منتخب کرنا جن کی ساکھ ایک ایمان دار شخص کی ہو، اور لوگ ان پر اعتماد کرتے ہوں، کو سیاسی محاذ پر متعارف کرانا اور ان سے مسلسل رابطے کے ذریعے ان کی نظریاتی رہنمائی کرتے رہنا بھی ضروری ہے۔
اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ راے عامہ کے آزادانہ جائزے ( polls) کے ذریعے عوامی رجحانات کا اندازہ کرنے کے بعد حکمت ِعملی وضع کی جائے۔ گو، تحریکی ذرائع سے ملنے والا فیڈبیک بھی اہمیت رکھتا ہے، لیکن آزاد ذرائع سے آنے والی معلومات بعض اوقات غیرمتوقع طور پر اہم اور فیصلہ کن ہوتی ہیں۔ سیاسی حکمت ِعملی اور اس کے نفاذ کے مدارج کو واضح اور متعین ہونا چاہیے تاکہ تمام عناصر یک جا ہوں اور متوقع اہداف کے حصول میں آسانی پیدا ہوسکے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے مخلص بندوں سے وعدہ فرمایا ہے کہ اگر وہ اس کے راستے پر صرف اس کی رضا کے حصول کے لیے حکمت اور موعظۂ حسنہ کے ساتھ آگے بڑھیں گے تو وہ غیبی قوتوں کے ذریعے ان کی مدد کرے گا۔ بلاشبہہ اس کی نصرت کے بغیر کوئی حکمت ِعملی کامیاب نہیں ہوسکتی۔
اِِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ o نَحْنُ اَوْلِیٰٓؤُکُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَشْتَہِیْٓ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَدَّعُوْنo (حم السجدہ ۴۱:۳۰-۳۱) جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے، یقینا اُن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ ’’نہ ڈرو، نہ غم کرو، اور خوش ہوجائو اُس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ ہم اِس دنیا کی زندگی میں بھی تمھارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی۔ وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمھیں ملے گا اور ہرچیز جس کی تم تمنّا کرو گے وہ تمھاری ہوگی، یہ ہے سامانِ ضیافت اُس ہستی کی طرف سے جو غفور اور رحیم ہے‘‘۔
۸ کروڑ ۵۰ لاکھ کی آبادی پر مشتمل مصری عوام، فوجی آمرحسنی مبارک کے ۳۰سالہ جابرانہ دور کے عوامی قوت کے ذریعے خاتمے کے باوجود اپنے خوابوں کی تعبیر کے منتظر اور نام نہاد سپریم کونسل کی شاطرانہ چالوں کا ہدف ہیں۔ حسنی مبارک کی جانشینی ان فوجی سربراہوں نے اختیار کی جن کی اپنی سلامتی حسنی مبارک سے اپنے آپ کو علیحدہ کرنے میںتھی، اور جو ہوا کے رُخ کو دیکھ کر یہ سمجھ چکے تھے کہ اب حسنی مبارک کا باقی رہنا ناممکن ہے۔ چنانچہ وہ معصوم چہرے کے ساتھ عوامی جدوجہد میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے آگے بڑھے اور مصری انقلابی نوجوانوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگئے کہ وہ چند ہفتوں میں اقتدار عوام کے حوالے کردیںگے۔ طاغوتی طاقتوں کا یہ حربہ نیا نہیں ہے۔ عموماً اسی عہد کے ساتھ پاکستان، انڈونیشیا اور دیگر ممالک میں بعض نام نہاد نجات دہندہ سامنے آئے ہیں اورپھر سالہا سال تک اقتدار سے چمٹے رہنے کے بعد بھی بخوشی کرسی چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوئے ہیں۔
مصر کے تناظر میں جہاں فوج حسنی مبارک کے طویل آمرانہ دور میں معاشی اور سیاسی فوائد سے فیض یاب ہوتی رہی، وہیں فوج کی تربیت اور اس کی فکری رہنمائی امریکی حکومت کے ہاتھ میں رہی۔ اس بنا پر فوج کی اعلیٰ اور درمیانہ قیادت امریکا کی پروردہ ہونے کے سبب امریکا نواز تسلیم کی جاتی ہے۔ امریکی وزیرخارجہ کے حالیہ بیان کو جس میں اس نے سپریم کونسل سے کہا ہے کہ وہ جلد اقتدار کی منتقلی کی کارروائی شروع کرے، اگر بغیر کسی پس منظر کے پڑھاجائے تو بہت جمہوریت پسندانہ نظر آتاہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مصری عوام امریکا کے مصر میں عمل دخل کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔ چونکہ فوج امریکی حکومت سے قریبی تعلق رکھتی ہے اس لیے امریکی وزیرخارجہ کے بیان کا اصل مقصد خود اپنی صفائی پیش کرناہے کہ امریکا فوجی کونسل کے مستقل طور پراقتدار پر قابض رہنے کی حمایت نہیں کرتا۔ گو حقیقتاً یہ امریکا ہی تھا جس نے ۳۰سال حسنی مبارک کی اندھادھند حمایت کی، اور جہاں کہیں بھی فوجی یا غیر فوجی آمر مسلم دنیا میں اقتدار پر قابض ہوئے امریکا نے ہمیشہ ان کی حمایت اور سرپرستی کا نیک فریضہ جمہوریت کے وظیفے کے ساتھ جاری رکھا ہے۔
جہاں تک عوام کے تاثرکا تعلق ہے وہ خود مغربی ذرائع کے مطابق واضح طور پر اسلامیان (Islamists) کے حق میں ہے۔ نیویارک ٹائمز کے تجزیہ نگار کے مطابق ۸۰ فی صد عوام اخوان المسلمون کو پسند کرتے ہیں اور اگر آج غیر جانب دار انتخابات کرائے جائیں تو وہ بھاری اکثریت کے ساتھ پارلیمنٹ میں کامیاب ہوں گے۔ مصری پارلیمنٹ کی ۴۹۸ نشستوں کے لیے تقریباً ۶ہزار اُمیدواروں کو میدان میں آنا ہے۔ ملک کی زرعی علاقوں اور دیہاتوں کی آبادی روایتی طور پر اسلام سے تعلق رکھتی ہے اور اگر اسے بغیر کسی دھاندلی اور دبائو کے ووٹ کا حق دیا جائے تو اسلامی جماعتوں خصوصاً اخوان المسلمون کو ووٹ دے گی۔ اخوان نے ۱۹۲۸ء سے عوامی سطح پر کام کیا ہے، عظیم قربانیاں دی ہیں اور ہر دور میں آمروں کے مظالم کا نشانہ بنے ہیں۔ اس کے باوجود انھوں نے عزم و استقامت کے ساتھ اپنی دعوت کو دیہاتوں اور شہروں میں ہرجگہ بہت سلیقے سے پیش کیا ہے۔
آج بھی اخوان کے رہنما عدل و حریت کا علَم لے کرمیدان میں آئے ہیں اور اپنے روایتی شعار کی جگہ نئی سیاسی زبان کا استعمال کرتے ہوئے عوام کے بنیادی مسائل روٹی، روزگار، پانی کی فراہمی، زمینوں کی عادلانہ تقسیم، خواتین کے حقوق کی بحالی جیسے اہم بنیادی مسائل کو اپنی انتخابی مہم کا موضوع بنارہے ہیں۔ نتیجتاً مصر کی آبادی کا بڑا حصہ مصر میں اسلامی عدل و انصاف اور حقوقِ انسانی کی بحالی کے لیے اخوان کے موقف کی تائید کرر ہاہے۔ یہ امر امریکی حکومت کے لیے بہت اضطراب اور فکرمندی کا باعث ہے۔ گو وہ عرصے سے یہ کوشش کرتی رہی ہے کہ غیرسرکاری طور پر اخوانی رہنمائوں سے رابطہ رکھے لیکن اس کی اپنی ترجیح فوجی یا نیم فوجی قیادت کے دوبار ہ آجانے میں ہوگی کیونکہ اس طرح وہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے چند افراد سے معاملہ طے کرتا ہے، جب کہ عوامی نمایندوں کی حکومت کی شکل میں اس کے لیے اتنی تعداد میں افراد کا خریدنا اور انھیں امریکی مفاد کی حمایت پر قائم رکھنا قدرے مشکل ہوجاتا ہے۔ اس کے باوجود ظاہری طور پر امریکی حکومت عوامی خواہش کواچھی طرح جاننے کے باوجود کوشش کرے گی کہ اسلامی قوتوں کے درمیان آپس میں مقابلہ ہوکر ووٹ تقسیم ہوجائیں اور سیکولر اور سوشلسٹ ذہن کی جماعتوں کو کامیابی حاصل ہو اور اس طرح اسلامی قوتوں کو واضح اکثریت نہ مل سکے۔
تیونس میں بھی امریکی حکمت عملی یہی تھی لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت سے وہاں تحریک اسلامی نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ اس عشرے میں جو بظاہر تحریکاتِ اسلامی کا عشرہ نظرآرہا ہے، مصر میں حالات جس رُخ پر جارہے ہیں اس میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ ان شاء اللہ اخوان المسلمون مناسب اکثریت سے کامیاب ہوں گے۔ گو مصر کی قبطی عیسائی آبادی جو اندازاً ۱۰ فی صد بتائی جاتی ہے اسلامی تحریک کی کامیابی کی مخالفت کرے گی ۔ نہ صرف عیسائی بلکہ بعض آزاد خیال مسلمان بھی تحریکاتِ اسلامی کے بارے میں یہ غلط تصور رکھتے ہیں کہ یہ ’قدامت پرست‘، ’انتہاپسند‘ اور ماضی میں بسنے والی جماعتیں ہیں۔ حقیقت حال بہت مختلف ہے۔ اخوان المسلمون کی قیادت کی بڑی تعداد ان افراد پر مبنی ہے جو مغرب کی اعلیٰ درس گاہوں سے انجیینرنگ، میڈیکل سائنسز، عمرانی علوم اور دیگر شعبہ ہاے علم میں اعلیٰ سندات لے کر مصروفِ عمل ہیں۔ اخوان کے رہنما عصام العریان نے اپنے حالیہ بیان (۱۷نومبر ۲۰۱۱ء) میں واضح طور پر یہ کہا ہے کہ ان کی جماعت جمہوریت اور جمہوری ذرائع پر یقین رکھتی ہے اور وہ انتخابی نتائج جو بھی ہوں انھیں تسلیم کریں گے۔ انھوں نے مزید یہ کہا ہے کہ ان کی جماعت حقوقِ انسانی کی بحالی اور خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد میں یقین رکھتی ہے۔ واضح رہے کہ اخوان کے زیراثر جو سیاسی جماعت میدان میں ہے اس کا ایک نائب صدر ایک عیسائی قبطی ہے۔
دوسری جانب مصر کی فوجی سپریم کونسل عوامی انقلاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود یہ چاہتی ہے کہ پارلیمنٹ کے انتخابات تو ہو جائیں لیکن فوج کو فیصلہ کن مقام حاصل رہے۔ اس کے لیے اس کا اصرار ہے کہ اصل فیصلے فوج کی اعلیٰ قیادت کرے، چنانچہ یہ اعلان کیا گیا ہے کہ پارلیمنٹ کے ۱۰۰ نمایندوں پر مبنی ایک کمیٹی بنے گی جو ملک کے نئے دستور کومرتب کرے گی جس میں دستوری طور پر سپریم کونسل کو حتمی فیصلہ کرنے کا حق دیا جائے گا!
گویا اس جمہوری جدوجہد اور قیمتی جانوں کی قربانی کے بعد بھی وہی ڈھاک کے تین پات! فرق صرف یہ ہے کہ حسنی مبارک کی جگہ فیلڈمارشل طنطاوی اور اس کا ٹولہ ملک پر قابض رہے اور پارلیمنٹ محض ایک غیرمؤثر عوامی نمایندوں کے ادارے کے طور پر کام کرتی رہے۔ اس بات کا اظہار مصر کے معروف اخبار الاھرام کے تجزیہ نگار عماد جاد نے بھی کیا ہے کہ مصر کے عوام کی ۵۰فی صد آبادی اس امر پر متفق ہے کہ مصری سپریم کونسل انقلاب کو ناکام بنانے اور اس کی روح کو ختم کرنے کے درپے ہے اور اس بنا پر انتخابات کا عمل شروع کرانے اور اقتدار منتقل کرنے میں شعوری طور پر تاخیر کی جارہی ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ انتخابات کے بعد بھی ۲۰۱۳ء تک یہی کونسل حکمران رہے گی۔
نیوزویک کے تبصرہ نگار نے مصری عوام سے براہِ راست انٹرویو کرنے کے بعد جو راے قائم کی ہے وہ بھی ہمارے لیے غور کے زاویے فراہم کرتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اسلام پسند جماعتوں کو بعض حلقے ’سلفی‘ کہہ کر ان کے بارے میں ذہنوں میں تحفظات پیدا کرنے میں مصروف ہیں لیکن اس کے اپنے تجربے کے مطابق جن کو سلفی کہا جا رہا ہے، یہ وہ حضرات ہیں جو نماز، روزے کی پابندی کے ساتھ عوامی فلاحی کاموں میں مصروفِ عمل ہیں۔ چنانچہ غریبوں کو طبی امداد کی فراہمی اور غریبوں کے علاج کے لیے خون کے عطیات جمع کرنے اور دیہی آبادی میں غریب اور ضرورت مند افراد کے لیے ضروری سہولتیں فراہم کرنے میں ان کا بڑا حصہ ہے۔
ا س کا کہنا ہے کہ ملک کی ایک اقلیت ضرور یہ راے رکھتی ہے کہ حکومت میں اسلام کا عمل دخل نہیں ہونا چاہیے لیکن عوام الناس کی بھاری اکثریت جو کُل آبادی کا تقریباً ۸۰ فی صد ہے، قرآنی نظام کا نفاذ چاہتی ہے۔ لوگ بدعنوانی، بے ایمانی، حکمرانوں کی نفسا نفسی اور اپنی ذات کے لیے ہرکام کرنے کی روش سے تنگ آچکی ہے۔ اب وہ عدل و انصاف چاہتے ہیں اور اس بنا پر اخوان المسلمون کا اپنی سیاسی جماعت کے لیے حریت اور عدل کا اختیار کرنا عوامی جذبات کی صحیح نمایندگی ہے۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان میں تحریکِ اسلامی کے لیے غور کرنے کے کئی زاویے سامنے آتے ہیں۔ انتخابی حکمت کے حوالے سے اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کن مسائل کو مرکزی اہمیت دی جائے۔ اندرونی مسائل اور بیرونی مسائل میں ترجیحات کا تعین غیرمعمولی طور پر معروضیت اور خود احتسابی کا متقاضی ہے۔
پاکستان میں تحریکِ اسلامی نے امریکا کی دخل اندازی کی پالیسی کی ہرسطح پر مستقلاً مخالفت کی ہے اور عوامی سطح پر ’بھاگ امریکا بھاگ‘ کے نعرے کو عوامی مقبولیت کی حد تک پہنچا دیا ہے۔ اس سلسلے میں دیکھاجائے تو جماعت کے اس طرزِعمل کا عکس تقریباً عالمی تحریکاتِ اسلامی کے ہاں بھی نظر آتا ہے۔ مصر ہو یا تیونس، تحریکاتِ اسلامی نے امریکی دخل اندازیوں پر مسلم مفاد کے خلاف بین الاقوامی پالیسی اختیار کرنے پر امریکا کی مخالفت میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی۔ لیکن کیا اسے الیکشن کا ایشو بنانا عوامی حمایت کے حصول میں مددگار ہوگا یا اس کے مقابلے میں ملک میں بجلی کا بحران، ضروریاتِ زندگی کی قیمتوں میں ناقابلِ برداشت اضافے، بے روزگاری، ملکی اداروں کی تباہی، عدلیہ کے فیصلوں کو نظرانداز کرنا، اہم مناصب پر نااہل افراد کی تقرری، ملک میں لاقانونیت، بدامنی اور عدم تحفظ، فرقہ واریت کا برداشت کیا جانا اور ملک میں کرپشن کا طوفان وہ مسائل ہیں جن کا تعلق ایک عام شہری سے ہے، اور کسی بھی نمایندہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ ان بنیادی مسائل کے حل کے لیے اپنا مجوزہ حل پیش کرے۔
خارجہ پالیسی کو بھی ایک اہم مقام حاصل ہے اور دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ نے حالات کو بگاڑنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ لیکن مسئلہ focus کا ہے، یعنی وہ چیز جو عوام کو متحرک کرنے کا مؤثر ذریعہ بن سکے۔ اس پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔
تحریکِ اسلامی مصر نے سیاسی محاذ پر ایک نئے نام سے جدوجہد کا آغاز کر کے یہ مثال قائم کی ہے کہ تحریک بغیر کسی تضاد کا شکار ہوئے اپنے دستوری اہداف کے حصول کے لیے نیم خودمختار تنظیم یا ادارہ قائم کرسکتی ہے جس کا یہ مطلب نہیں لیا جاسکتا کہ ایسے ادارے سے وابستہ افراد تحریک کی اخلاقی اور دستوری پابندیوں سے آزاد تصور کیے جائیں گے۔ اس کا مقصد صرف مخصوص سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے ایسی حکمت عملی اختیار کرنا ہے جو تحریک کے سیاسی مقاصد کے حصول میں راے عامہ ہموار کرسکے۔ اس کا یہ مطلب لینا بھی درست نہ ہوگا کہ تحریک صرف تزکیۂ نفس اور تربیت اخلاق کے لیے ہے اور ذیلی سیاسی جماعت سیاسی ہنگامہ خیزی کے لیے۔ نہ اسے کوئی اصولی انحراف کہا جاسکتا ہے۔ تحریکات کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ مباحات کے دائرے میں رہتے ہوئے اور حرام سے مکمل اجتناب کرتے ہوئے کس طرح حصولِ مقصد کے لیے حکمت عملی میں وقت کے لحاظ سے تبدیلی پیدا کی جائے۔ اگر کسی ایسی حکمت عملی سے تحریک کی پہنچ زیادہ وسیع دائرے تک ہوسکتی ہے تو ایسا کرنا تحریکی مفاد اور دستور کی روح کے مطابق ہی سمجھا جائے گا۔
تحریکاتِ اسلامی کو عموماً دو محاذوں پر مخالفین کی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک شریعت کا نفاذ، دوسرا خواتین کی آزادی کا مسئلہ۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ اصولوں سے انحراف کیے بغیر واضح طور پر یہ بات سمجھائی جائے کہ شریعت کے نفاذ سے ہمار ی مراد کیا ہے۔ کیا اسلام کا نظامِ قانون صرف سزائوں پر مشتمل ہے یا اسلامی شریعت دراصل عدل و انصاف کے قیام کا نام ہے۔ اس عدل میں نہ صرف انفرادی طور پر عدل شامل ہے بلکہ ایک فرد کے اپنے نفس کے حقوق کا صحیح طور پر ادا کرنا، اہلِ خانہ کے حقوق کی ادایگی، اعزہ و اقربا اور دوستوں کے حقوق کی ادایگی بھی شامل ہے، اس کے ساتھ ہمسایوں اور خصوصاً اہلِ حاجت کے حقوق کی ادایگی معاشرے میں بھلائی کے قیام اور بُرائی کے مٹانے کی کوشش، معاشی استحصال کا خاتمہ اور معاشی عدل کا قیام بھی۔ اسی طرح معاشرتی معاملات میں خواتین کو جو حقوق اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیے، ان کا نفاذ، ان کی تعلیم، صحت، عزت و احترام، گھر اور معاشرے میں ان کا تحفظ۔ پھر ثقافتی میدان میں عدل کا قیام کہ جن اقدار پر ثقافت کی بنیاد ہے، ان کا فروغ اور جو صفات اسلام ناپسند کرتا ہے، ثقافت سے ان کا خاتمہ۔ غرض عدل و انصاف کا قیام بذاتِ خود ایک ایسا موضوع ہے جس پر اگر ایک عام شہری کو اس کی زبان میں اس کے معاشرے کی مثالوں کی مدد سے بات سمجھائی جائے تو وہ سب سے بڑا شریعت کا حامی بننا پسند کرے گا۔ اسی طرح خواتین کی آزادی کی حدود، اور ان معاملات میں ان کے حقوق کے لیے جنگ جنھیں ہمارے معاشرے میں برادری، قبیلے کی روایت اور ذات پات کی ناک کا مسئلہ بنا دیا گیا ہے۔ ان معاملات پر کھل کر موقف کی وضاحت کرنا بہت ضروری ہے۔
یہ تمام امور انتخابی منشورمیں وضاحت سے آنے چاہییں اور اس کے ساتھ چھوٹے بڑے اجتماعات، ٹی وی پر گفتگو، اخبارات میں بیانات، پمفلٹ اور کتابچوں کے ساتھ ساتھ جدید ذرائع ابلاغ کا استعمال بھرپور طریقے سے کرنا ہوگا، کیونکہ آج کی اصل زبان سوشل میڈیا کی زبان ہے۔ موبائل فون، انٹرنیٹ، فیکس بُک وغیرہ کے ذریعے پیغامات اور دیگر ذرائع کا استعال ہی ان موضوعات پر پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دُور کرسکتا ہے۔
امریکا کی سامراجی پالیسیوں اور کارروائیوں کی بھرپور مخالفت کے ساتھ عالمی سطح پر مغربی ممالک کے ایسے معاملات میں تعاون کے امکانات کو ختم نہیں کیا جاسکتا، جن میں مسلمانوں کا مفاد شامل ہو، یا جو آج کے عالم گیریت کے ماحول میں ہرملک کے لیے اہمیت اختیار کرچکے ہیں۔ اس لیے خود ان ممالک کے بارے میں سوچی سمجھی راے تیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ جہاں ایک طرف اُمت مسلمہ کے مفاد کے خلاف اقدام کا مقابلہ کیا جائے وہیں انسانیت کے مشترکہ مفاد اور باہمی مفادات کے تحفظ کے لیے سب کے ساتھ معاملہ کیا جاسکے، اور عدل اور مشترکات کے حصول کے لیے ہر دروازہ کھلا رکھا جائے۔
مصر، تیونس، لیبیا، شام، یمن، کویت، بحرین، غرض مسلم ممالک میں حالیہ صورت حال پر باربار مختلف زاویوں سے غور کرنے اور اس تناظر میں تحریکِ اسلامی کی اپنی حکمت عملی پر تنقیدی نگاہ سے غور کرنا ہی تحریک کے آگے بڑھنے اور ایک صحیح فیصلے تک پہنچنے میں مددگار ہوسکتا ہے۔ حالات جس رُخ پر جارہے ہیں ان میں تحریکِ اسلامی کی کامیابی اور مقبولیت میں اضافے کے گہرے نقوشِ نظر آرہے ہیں۔عزم و استقامت اور حکمت عملی کے ساتھ ان حالات کے جائزے کے ساتھ اپنی حکمت عملی میں نئی صبح کے انتظار کے ساتھ ہمیں اپنے وسائل کی تنظیمِ نو کرنی ہوگی۔
عصرِحاضر کی مسلم ’دانش وری‘ کا دعویٰ یہ ہے کہ قرآن کریم سے گہرے اور غیرمعمولی تعلق کا اظہار کیا جائے، مگر عملاً اس کے معانی و مطالب میں خوب کھینچ تان کی جائے اور دُور کی کوڑیاں لائی جائیں۔ حدیث کے معتبر و مستند ذخیروں کی طرف رجوع کیے بغیر انھیں اوہام پر مبنی، ناقابلِ اعتبار اور سائنسی و عقلی اعتبار سے ناقابلِ قبول بلکہ لائق رد قرار دیا جائے۔ عربی زبان کی معمولی شُدبد کے ذریعے قرآنی الفاظ پر دقیق لغوی بحث کی جائے اور اپنے اخذکردہ معانی پر اصرار کیا جائے۔ اپنے اختصاص کے میدان کو دین و شریعت کی روح اور اصل قرار دے کر پورے دین کو اس کے گرد گھمایا جائے۔ ایسی ہی دانش وری کا ایک نمونہ وہ کتاب ہے جو ابھی حال ہی میں قرآن میں آبی وسائل اور انجینیری کے نام سے آئی ہے۔ اس کے مصنف جناب ڈاکٹر سید وقار احمد حسینی ہیں، جنھوں نے آبی وسائل کی انجینیرنگ میں امریکا سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
گذشتہ صدی کے ربع آخر میں عالمی سطح پر بعض مسلم دانش وروں نے جدید علوم کی اسلامی تشکیل (Islamization of Knowledge) کا نعرہ بلند کیا تھا۔ ان حضرات کی علمی و فکری کاوشیں اگر اپنی صحیح حدود میں رہتیں تو ان کی کوششیں قابلِ قدر، موجب ِ تشکر اور باعث فخر ہوتیں، لیکن محسوس ہوتا ہے کہ اچھے آغاز کے بعد رفتہ رفتہ ان میں غلو دَر آیا۔ جھنجھلاہٹ میں مبالغہ آمیزی کی جانے لگی، قرآنی آیات سے بہ تکلف جدید علوم کے اصول و قواعد، بلکہ جزئیات تک اخذ کی جانے لگیں اور اسے ’قرآن کے سائنسی اعجاز‘ کا نام دیا گیا۔
قرآن حکیم کتابِ ہدایت ہے۔ اس میں اسلام کے بنیادی عقائد، بالخصوص توحید اور آخرت پر استدلال کے لیے مظاہر کائنات، مثلاً آسمان، زمین، سورج، چاند، ستارے، پہاڑ، سمندر، صحرا، دریا، کشتی، پانی، بادل، برق و باراں، ہوا، آندھی، طوفان، پھول، پھل، پودے، درخت، باغ، کھیتی، غلہ، دھوپ، سایہ، تاریکی، روشنی وغیرہ کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ وجہ استدلال کو اتنا عام رکھا گیا ہے کہ ہرذہنی سطح کا شخص بہ آسانی اسے سمجھ سکتا ہے۔ یہ کوئی سائنس کی کتاب تو نہیں ہے کہ اس سے جدید علوم کی کلیات و جزئیات اخذ کی جائیں، لیکن ’علوم کو اسلامیانے‘ کے علَم برداروں نے شعوری یا غیرشعوری طور پر قرآن کو سائنس کی درسی کتاب بنا دیا ہے۔ مولانا مودودیؒ نے سورئہ یوسف کی آخری آیت میں تَفْصِیْلَ کُلَّ شَیٔیٍ کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’بعض لوگ ’ہرچیز کی تفصیل‘ سے مراد خواہ مخواہ دنیا بھر کی چیزوں کی تفصیل لے لیتے ہیں اور پھر ان کو یہ پریشانی پیش آتی ہے کہ قرآن پاک میں جنگلات، طب، ریاضی، اور دوسرے علوم و فنون سے متعلق کوئی تفصیل نہیں ملتی‘‘ (تفہیم القرآن، ج۲، ص ۴۳۸)۔ اب ’علوم کو اسلامیانے‘ کے علَم برداروں نے یہ پریشانی بھی دُور کر دی ہے اور تمام طبیعیاتی علوم کی تفصیلات قرآن کریم سے اخذ کرلی ہیں۔
جناب مصنف کا شمار بھی ’علوم کواسلامیانے‘ کی فکر پیش کرنے والوں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے اپنے ڈھنگ سے تعلیم، آبی وسائل کی انجینیرنگ، آبی قوانین، ماحولیات، معاشیات، معاشی انجینیرنگ اور فلسفہ تاریخ و سائنس جیسے علوم کو ’اسلامیانے‘ کی کوشش کی ہے۔ آبی وسائل کے علوم کو انھوں نے کس طرح ’اسلامایا‘ ہے اور اس کے لیے انھیں کتنی دُور کی کوڑی لانی پڑی ہے، اس کے نمونے زیرمطالعہ کتاب میں ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔
مصنف موصوف کے نزدیک آبی وسائل کا علم اور انجینیرنگ ’قرآن کا سب سے اہم موضوع‘ ہے۔ یہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر ’فرض‘ ہے۔ اس کا شمار ’اعمالِ صالحہ‘ میں ہوتا ہے۔ اس سے پہلوتہی ’کفر‘ ہے۔ حقیقت میں یہی ’فقہ‘ ہے اور اس میدان میں عقل پر مبنی جدید فکر اور سوچ ہی ’اجتہاد‘ ہے، وغیرہ وغیرہ۔ لکھتے ہیں: ’’اسلامی علوم اور ٹکنالوجی اپنے علوم کے لحاظ سے اور تخصیصی طور پر آبی وسائل اور دیگر علوم سے بحث کرنے والے اور اس کے دیگر شعبہ جات قرآن کے سب سے اہم امور ہیں‘‘ (ص ۵۷)۔ ’’علوم آبی وسائل اور انجینیرنگ فی الاصل قرآنی، اسلامی، مذہبی، اور الہامی علوم ہیں۔ اسلامی اخلاقیات اور قانون کی اصطلاح میں بحیثیت معلوماتِ عامہ اس علم کا حصول ’فرضِ عین‘ یعنی ہرشخص کی اپنی ذمے داری ہے، جب کہ ان علوم میں تخصص حاصل کرنا ’فرضِ کفایہ‘ ہے‘‘ (ص ۵۰)۔ ’’آبی وسائل کے علوم کو سیکھنا اور ان کو عملی جامہ پہنانا ’اعمالِ صالحہ‘ کی تعریف میں آتا ہے، جن پر اللہ تعالیٰ نے اس دنیا اور آخرت میں اپنے انعامات کا وعدہ کیا ہے‘‘ (ص ۶۳)۔ ’’پانی یا اس جیسے دیگر قدرتی وسائل کے فروغ کے ذریعے زندگی کے لیے معاون نظام فراہم کرنا ’جہاد‘ ہے‘‘ (ص ۸۶)۔ ’’آبی وسائل و ذرائع کی بدانتظامی اور غلط استعمال ’کفر‘ ہے‘‘ (ص ۱۹۳)۔ ’’پانی میں شامل نقصان دہ عناصر کی تحقیق کے لیے آبی وسائل کے اسلامی سائنس اور آبی سائنس کے خدائی قانون کا خصوصی علم ’فقہ‘ ہے‘‘(ص ۱۹۹)۔وہ اعداد و شمار سے بھی کام لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’علوم آبی وسائل سے متعلق قرآن میں ۹۴۱ آیات وارد ہوئی ہیں، جب کہ نماز کا ذکر ۸۱بار، زکوٰۃ ۳۲ بار، حج کا ۸بار اور روزے کاچھے بار ہوا ہے‘‘۔ (ص ۵۹)
یہ اعداد و شمار صحیح نہیں ہیں۔ قرآنی انڈیکس پر سرسری نظر ڈالنے سے ان کی غلطی واضح ہوجاتی ہے۔ پھر آبی وسائل سے متعلق قرآنی آیات کی کثرت کی حقیقت یہ ہے کہ، مثلاً قرآن میں زمین (الارض) اور آسمان (السمائ/السماوات) کے الفاظ ۵۶۰ آیتوں میں آئے ہیں۔ فنی طور سے یہ آیات علوم آبی وسائل سے کیوں کر متعلق ہوسکتی ہیں؟ اس طرح تو دنیا کے ہرعلم اور اس کی ہرشاخ سے ان کو مربوط کیا جاسکتا ہے۔ یہ آیات اصلاً اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی وحدانیت کے اثبات کے لیے آئی ہیں۔ فی الحقیقت ان کا آبی وسائل کے استعمال کی کسی بحث سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
مصنف نے بزعم خود ’آبی وسائل کے علم اور انجینیری‘ سے متعلق قرآنی آیات کے اقتباسات نقل کر کے ان کی تشریح کی ہے۔ ان میں سے بہت سی آیات عمومی توجہ دلاتی ہیں، لیکن مصنف نے انھیں بھی خوب کھینچ تان کر علوم آبی وسائل سے متعلق کر دیا ہے۔ مثلاً سورئہ فاتحہ کی پہلی ہی آیت اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ کی یہ تشریح کی ہے: ’’تمام عالموں کا پرورش کرنے والا، آبی طبیعیات ارضی کے جہانوں کی تمام قوتوں اور مظاہر کا حاکم، منتظم، پالنے والا اور تکمیل کرنے والا‘‘ (ص ۱۰۳) lسورئہ بقرہ کی آیت ۱۰۷: ’’آسمانوں اور زمین کی فرماں روائی اللہ ہی کے لیے ہے‘‘ سے یہ اخذ کیا ہے: ’’پانی اور اس سے متعلقہ زمینی وسائل اور فضائی مظاہر کا اللہ تعالیٰ تنہا مالک اور مختارِکل ہے‘‘ (ص ۱۵۸)l سورئہ بقرہ کی آیت ۲۰۸: ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً، نقل کرکے اس کی یہ تشریح کی ہے: ’’اس کا مطلب طبیعیات و کیمیا، معاشیات و نفسیات اور دیگر اشیا کو خدا نے جس طریقے پر بنایا، واضح کیا اور حکم دیا ہے اس کو اسی طرح سمجھنا اور اس کا عملی اطلاق کرنا ہے‘‘ (ص۸۳) l’’اسلام کی مکمل اتباع اور اس میں پورے کے پورے داخل ہوجانے میں یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ پانی اور اس سے متعلقہ دیگر قدرتی وسائل اور ذرائع کو ترقی دی جائے اور اس کا بہتر استعمال کیا جائے‘‘۔ (ص ۱۷۱)
کئی مقامات پر مشہور نومسلم دانش ور علامہ محمد اسد کے ترجمۂ قرآن The Message of The Quranکی تعریف و تحسین کی گئی ہے، اور اس سے استفادے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ اس ترجمۂ قرآن کی جس خاص بات کی طرف مصنف نے بھی اشارہ کیا ہے، یہ ہے کہ اس میں آیات کی جدید سائنسی تشریح کی گئی ہے (ص ۳۷، ۹۲) آیات کو سائنسی اصولوں کے تابع بنانے اور انھیں نام نہاد عقلی چوکھٹوں میں فٹ کرنے کے معاملے میں خود مصنف، محمداسد کے ہم فکر ہیں۔
مثال کے طور پر فرعون کی غرقابی اور بنی اسرائیل کی نجات کا تذکرہ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر آیا ہے۔ مصنف نے سورئہ بقرہ (۴۷، ۵۰) اور سورئہ طٰہٰ (۷۷-۷۹) کی آیات کی تشریح میں لکھا ہے: ’’بنی اسرائیل بے خوف ہوکر دریا کو پار کرگئے۔ ان کی اس بے خوفی کی وجہ وہ یقینی معلومات تھیں جو انھیں ایک متعینہ مقام پر مدوجزر کی کیفیات سے متعلق حاصل تھیں۔ موسیٰ علیہ السلام اور ان کے پیروان ’صحیح سائنسی معلومات‘ کا اطلاق کر رہے تھے، جو یا تو ان کے تجربے اور مشاہدے سے انھیں حاصل ہوئی تھیں یا پھر یہ معلومات انھیں کسی اور ذریعے سے فراہم کی گئی تھیں‘‘ (ص ۱۱۶-۱۱۷)۔ جوار بھاٹے والی توجیہ تو اور متجددین بھی کرتے ہیں، البتہ مصنف ان سے بھی دوقدم آگے ہیں۔ وہ یہ عقلی توجیہ کرنے کے ساتھ مسلمانوں کو نصیحت کرتے ہیں: ’’اللہ اور اسلام پر ایقان رکھنے والے مسلمانوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ سمندری جوار بھاٹے (مدوجزر) کی ان گھٹتی بڑھتی کیفیات سے متعلق علم حاصل کریں، تاکہ اس کے فوائد حاصل کرسکیں اور ان سے ہونے والے نقصانات سے بچا جاسکے، جیساکہ اس قصے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے‘‘۔ (ص ۱۱۶)
تاہم، مشکل یہ ہے کہ قرآنی الفاظ ان کی اس توجیہ کا ساتھ نہیں دیتے۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل مدوجزر کی یقینی معلومات کے سبب بے خوف نہیں تھے، بلکہ انھیں تو آخر تک لشکرِ فرعون کے ذریعے اپنی گرفتاری کا اندیشہ ستا رہا تھا، چنانچہ انھوں نے اپنے پیچھے لشکر کو آتے دیکھا تو گھبرا کر پکار اُٹھے: ’’ہم تو پکڑے گئے‘‘ (الشعر۲۶:۶۱)۔ اس موقعے پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰی ؑ کو وحی کی کہ سمندر پر اپنا عصا مارو، اس سے سمندر پھٹ گیا اور درمیان میں خشک راستہ نکل آیا: ’’ان کے لیے سمندر میں سے سوکھی سڑک بنا لے‘‘ (طٰہٰ ۲۰:۷۷) لیکن مصنف اس موقع پر بھی آیت کے ساتھ زورآزمائی سے نہیں چوکتے۔ وہ اس کی تشریح ان الفاظ میں کرتے ہیں: ’’حضرت موسٰی ؑ کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا کہ بحراحمر کو پار کرنے کے لیے وقت اور مقام کا انتخاب (اضرب، ضرب لگائو) کریں اور اس کو پار کرنے کے لیے طریقہ (طریقاً) اختیار کریں (ص۱۱۶)۔ افسوس کہ قرآن کے الفاظ اور اس کا پورا اندازِ بیان اس درفطنی کی تائید نہیں کرتا۔
کتاب کے مترجم نے آیاتِ قرآنی کا ترجمہ بلاصراحت مولانا مودودیؒ کی تفہیم القرآن سے لیا ہے۔ اس بنا پر کئی مقامات پر تضاد کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ مصنف کچھ کہنا چاہتے ہیں اور مولانا مودودیؒ کے ترجمے سے کچھ اور مفہوم نکلتا ہے، مثلاً سورئہ بقرہ (۱۶۴) میں اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّھَارِکو اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں شمار کیا گیا ہے۔ مولانا مودودیؒ نے اس کا ترجمہ ’رات اور دن کا پیہم ایک دوسرے کے بعد آنا‘ کیا ہے، جب کہ مصنف ’اختلاف‘ سے عدم اتفاق، ناموافقت، حالت، کیفیت یا مرتبہ میں فرق، غیریکساں، مختلف، ناموزوں، بے جوڑ یا غیرمتفق ہونا‘ مراد لیتے ہیں اور رات اور دن کے درمیان اختلاف کو ’سائنسی حقیقت‘ قرار دیتے ہیں (ص۱۱۲-۱۱۳)۔ لِاِِیْلٰفِ قُرَیْشٍ کا ترجمہ مولانا مودودیؒ نے یہ کیا ہے: ’’چونکہ قریش مانوس ہوئے‘‘، جب کہ مصنف ایلاف کے معنی: ’اقرارنامہ، ضمانت اور امان‘ بتاتے ہیں۔ (ص ۲۰۰)
عصری دانش وری کے اظہار کے لیے ضروری ہے کہ دین کے دوسرے بنیادی ماخذ ’سنت‘ پر ہاتھ صاف کیا جائے، چنانچہ اس معاملے میں بھی مصنف نے بڑی بے باکی سے اپنے خیالات کا اظہار ان لفظوں میں کیا ہے: ’’آج سنت سے متعلق وہی کتابیں باقی بچی ہیں جو صرف مشہور و معروف ہیں اور جو نماز کے طریقوں، اسلام کے دیگر ستونوں اور عبادتی رسوم و رواج سے متعلق روایات پر مبنی ہیں۔ ان میں خدا اور رسولؐ سے منسوب وہ غلط روایات بھی شامل ہیں جو غلامی، بلانکاح باندیوں سے تعلقات اور عموماً عورتوں سے متعلق ہیں‘‘ (ص ۶۷)۔ ’’سنت کی جو سب سے مشہور اور زیراستعمال کتب ہیں وہ ’صحاح ستہ‘ ہیں۔ ان میں بہت سی ایسی روایات اور احادیث بھی وارد ہوئی ہیں جو قرآن، عقل اور طبعی علوم (فطرت کائنات میں اللہ تعالیٰ کی آیات اور خدا کی سنت) سے ٹکراتی ہیں، اس لیے انھیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کرنا نہایت غلط اور اہانت آمیز ہے۔ مثال کے طور پر بخاری اور دیگر کتب احادیث میں بعض ایسی روایات ملتی ہیں جن میں عورتوں کو مردوں سے کم تر قرار دیا گیا ہے۔ یہ تمام غلط ’روایات‘ ہیں جو حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کردی گئی ہیں۔ یہ قرآن میں بتائے گئے معیارِ تقویٰ کے اصولوں سے ٹکراتی ہیں، لہٰذا یہ صحیح کہلائے جانے کی مستحق نہیں ہیں۔ ان روایات کو جو ’اخلاقی‘ اور عقلی لحاظ سے ناقابلِ یقین اور سائنسی لحاظ سے غیرصحیح معلوم ہوں، انھیں جھوٹی اور خدا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت پر مبنی قرار دے کر چھانٹ دینا چاہیے‘‘۔ (ص ۶۶)
اس طرح کی نامعقول باتیں بہت سے ’دانش ور‘ قرآن کریم سے متعلق بھی کہتے ہیں۔ مصنف بار بار یہ تاکید کرتے ہیں کہ ’ان نام نہاد مذہبی کتابوں‘ کی جگہ مسلمانوں کو کتاب الخراج اور کتاب الاموال نامی کتابوں کی طرف رجوع کرنا چاہیے، جو ’حقیقی سنت‘ کی ترجمان اور صحیح حدیث کی کتابیں ہیں (ص ۱۲، ۴۳، ۶۳ وغیرہ)، حالانکہ ان کتابوں کا استناد بخاری اور مسلم جیسی کتابوں سے کم تر ہے۔ اُمت کے نزدیک ’صحاح ستہ‘ کو قبولِ عام حاصل ہے، ان میں زندگی کے جملہ پہلوئوں پر معتبر اور مستند حدیثوں کو جمع کر دیا گیا ہے۔ اس کے مقابلے میں کتاب الخراج اور کتاب الاموال نامی کتابیں زندگی کے صرف ایک خاص پہلو سے بحث کرتی ہیں۔ اس لیے ان کا درجہ اُمت کے نزدیک ’صحاحِ ستہ‘ سے فروتر ہے۔ سنت کو بے اعتبار کرنے، احادیث کا درجہ گھٹانے اور معتبر کتب حدیث کو مشکوک بنانے کی کوششیں پہلے دشمنانِ اسلام انجام دیا کرتے تھے، افسوس کہ اب اس کی کمان ’روشن خیال‘ مسلم دانش وروں نے سنبھال لی ہے۔
مصنف کی بے خبری کا شاہکار ان کی یہ تحقیق ہے: ’’آبی و زرعی قوانین سے متعلق بخاری میں صرف چند روایات ملتی ہیں، جب کہ امام مالک کے مجموعے میں ایک بھی روایت اس سلسلے کی نہیں پائی جاتی‘‘ (ص ۶۷)۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ موصوف نے ان کتابوں کو ہرگز نہیں دیکھا ہے۔ بخاری میں کتاب الوضو، کتاب الغسل، کتاب البیوع، کتاب الاشربۃ، کتاب الاطعمۃ، کتاب الحرث، کتاب المزارعۃ اور کتاب المسافاۃ وغیرہ کے تحت اس موضوع کی سیکڑوں احادیث ہیں اور موطا امام مالک میں کتاب الطہارۃ، کتاب البیوع، کتاب المسافاۃ، کتاب الطعام والشراب وغیرہ میں ایسی احادیث خاصی تعداد میں ہیں۔
مصنف کو شکوہ ہے کہ مسلمانوں نے ان میں تحریفات کردی ہیں۔ ان کے نزدیک: ’’یہ عبادات مقصود بالذات نہیں ہیں، بلکہ ان کے ذریعے دیگر اہم مقاصد کا حصول مطلوب ہے‘‘ (۸۹)۔ ’’انحراف اور کج فکری کے حامل مسلمانوں نے ان کو اپنے آپ میں مقصد ٹھیرا لیا ہے اور خود کو ظاہری رسوم کا پابند بنا لیا ہے‘‘ (ص ۷۵)۔ پھر انھوں نے ان مقاصد کی بھی وضاحت کر دی ہے مثلاً: ’’حج کا ایک مقصد روے زمین کی سیاحت ہے‘‘ (ص ۷۷)۔ ’’حج کے ذریعے ساری دنیا کے مسلمانوں میں ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کرنا مقصود ہے، جہاں لوگ ایک مشترکہ زبان عربی میں آپسی تبادلہ خیال و گفتگو کرسکیں۔ اس کے نتیجے میں تجارت و تعلقات میں وسعت کے ساتھ ٹکنالوجی کی منتقلی عمل میں آسکتی ہے‘‘ (ص ۱۹۱)۔ پھر یہ کہ مسلمانوں نے حج کے ادارے کو مسخ کرکے رکھ دیا اور خود کو اس فریب میں مبتلا کرلیا کہ صرف چند دعائوں کے پڑھ لینے اور میکانکی انداز سے چند رسوم کے ادا کرلینے سے ان کے تمام گناہ دھل جائیں گے۔ خدا نے کبھی اس بات کا وعدہ نہیں کیا کہ حج یا عمرہ کے ادا کرنے سے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے‘‘ (ص ۷۷)۔ زکوٰۃ کی مدات قرآن کریم میں متعین ہیں، لیکن مصنف کے نزدیک: ’’اس میں وہ پروجیکٹ بھی شامل ہیں جو آبی وسائل و ذرائع اور انجینیرنگ کی ترقی سے متعلق ہیں، جیسے سربراہی آب، آب پاشی، زراعت، جہازرانی اور آبی قدرت کے نظام وغیرہ‘‘۔ (ص ۷۳)
مصنف نے بہت سی باتیں غلط اور گمراہ کن بھی لکھی ہیں۔ مثال کے طور پر: ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دورِ نبوت کے پہلے تیرہ سالہ دور میں، جو مکی دور کہلاتا ہے، اس میں شراب کا کہیں ذکر نہیں کیا گیا۔ اس لیے کہ اس وقت اس سے کہیں زیادہ اہم مسائل درپیش تھے‘‘ (ص ۸۵)۔ اس سلسلے میں پہلی بات یہ عرض کرنی ہے کہ سورئہ نحل میں، جو مکّی ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور کھجور کے درختوں اور انگور کی بیلوں سے بھی ہم ایک چیز تمھیں پلاتے ہیں، جسے تم نشہ آور بھی بنالیتے ہو اور پاک رزق بھی‘‘ (آیت ۶۷)۔ مصنف یہاں کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ یہ کہ حرمت ِ شراب کے بارے میں سکوت اختیار کرلینا چاہیے؟ بعض مقامات پر بڑی بے باکی سے دینی قدروں پر تیشہ چلایا گیا ہے، مثلاً اللہ تعالیٰ نے جانوروں کا گوشت حلال اور قربانی کو مشروع کیا ہے، لیکن موصوف فرماتے ہیں: ’’مویشیوں کو بطور غذا، یہاں تک کہ قربانی کے مقاصد کے لیے بھی استعمال کرنا مناسب نہیں ہے۔ ان کا استعمال زمین کی بہتری اور آبپاشی کے لیے کیا جاناچاہیے‘‘۔ (ص ۱۵۶)
یہ کتاب ’قرآن میں آبی وسائل‘ کے موضوع پر مصنف کے مجوزہ سلسلۂ کتب کی پہلی جلد ہے۔ ابھی پانچ جلدیں اور آنی ہیں۔ خدا خیر کرے، نہیں معلوم ان میں مصنف کے کیسے کیسے ’اجتہادات‘ سامنے آئیں گے۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مغرب میں جا بسنے والے بعض نام نہاد مسلم دانش وروں کی ذہنی ساخت کس قدر تبدیل ہوکر رہ گئی ہے اور وہ اسلامائزیشن آف نالج کے نام پر کیسے کیسے گل کھلا رہے ہیں؟
گذشتہ ماہ سید جلال الدین عمری کی تصنیف : تحقیقاتِ اسلامی کے فقہی مباحث پر تبصرہ شائع کیا تھا۔ اس پر کتاب کے فاضل مصنف کی طرف سے موصولہ چند توضیحات افادئہ قارئین کے لیے ذیل میں پیش کی جارہی ہیں۔(ادارہ)
’’آج کے دور میں اجتہاد کی کیا اہمیت ہے؟‘‘___ تبصرے کے آغاز میں اس طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ اس مجموعے کے پہلے ہی مضمون ’اسلامی شریعت میں اجتہاد کا عمل‘ میں تفصیل سے یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اجتہاد کی کیا اہمیت ہے اور احکامِ شریعت میں اجتہاد کی کتنی اور کہاں گنجایش ہے؟ اجتہاد کی مختصر سی تاریخ، تقلید اور اس کی مخالفت، دورِ جدید کے تقاضوں اور اجتماعی غوروفکر کی ضرورت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ مگر اس تبصرے میں اس کا حوالہ نہیں دیا گیا ہے، حالانکہ یہ تبصرے کی تمہید کا تقاضا تھا۔
مبصر نے ایک مقام پر توجہ دلائی ہے کہ: ’’مولانا عمری اصولی مباحث میں ائمہ اور اکابر علما کی آرا اور قدیم علوم سے نظائر تو بڑی خوبی سے پیش کردیتے ہیں لیکن موجودہ (خصوصاً بھارت کی) صورت حال میں ان اصول و نظائر کا عملی اطلاق کیسے ہوگا، اس سلسلے میں وہ کوئی واضح اور دوٹوک فیصلہ نہیں دیتے‘‘۔ اس کی مثال یہ دی گئی ہے کہ ’’غیرمسلموں سے ازدواجی تعلقات کے ضمن میں بھارت میں ہندو مسلم شادیوں کا مسئلہ سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ عمری صاحب نے اہلِ کتاب سے شادی پر تو اظہارِ خیال کیا ہے مگر ہندو مسلم شادیوں کا تذکرہ نہیں چھیڑا ہے۔ غالباً اس لیے کہ بہت سی پیچیدگیاں ہونے کا احتمال تھا‘‘۔ یہ بات صحیح نہیں ہے۔ اس مضمون کا ابتدائی حصہ ہندستان (یا جہاں کہیں یہ صورت حال ہو) ہی کے پس منظر میں لکھا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ’’اس طرح کے تعلقات مسلم نوجوانوں میں بھی شاذونادر نہیں رہے بلکہ کثرت سے دیکھے جا رہے ہیں۔ مسلمان لڑکے اور لڑکیاں غیرمسلم لڑکے اور لڑکیوں سے ازدواجی رشتے میں منسلک ہوجاتے ہیں۔ کورٹ میرج کے ذریعے اسے قانونی تحفظ بھی حاصل ہوجاتا ہے‘‘۔ (ص ۱۰۷)
اس کے بعد کہا گیا ہے: ’’اسلام نے ازدواجی رشتوں کے سلسلے میں عقیدے کو بنیادی اہمیت دی ہے وہ توحید کا علَم بردار ہے، اس لیے اس نے اہلِ شرک سے ازدواجی رشتے کو حرام قرار دیا ہے، اس لیے کہ دونوں عقیدوں کے درمیان جوہری اور اساسی فرق ہے‘‘ (ص ۱۰۸)۔ اس کے ثبوت میں قرآن کا حوالہ دیا گیا ہے اور یہ بتایاگیا ہے کہ عہدِرسالتؐ میں مشرکین سے جورشتے قائم تھے وہ ختم کردیے گئے۔ اسی مضمون میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اہلِ کتاب کی عورتوں سے نکاح کا جواز ہے لیکن پسندیدہ نہیں ہے اور آخر میں عرض کیا گیا ہے کہ ’’جہاں تک بت پرست و آفتاب پرست، ستارہ پرست، آتش پرست اور اس طرح کی مشرک قوموں کا تعلق ہے، ان کی عورتیں مسلمانوں کے لیے حلال نہیں ہیں۔ یہ نص قرآن اور اجماع سے ثابت ہے‘‘ (ص ۱۳۵)۔ کیا اس کے بعد بھی مزید کسی وضاحت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور کیا یہ بات کہی جائے گی کہ ہندستان کے پس منظر میں اس پر گفتگو سے احتراز کیا گیا ہے۔ غالباً یہ پوری بحث کسی وجہ سے تبصرہ نگار کو اپنی طرف متوجہ نہیں کرسکی ہے۔
اس کے علاوہ میں نے اپنی کتاب غیرمسلموں سے تعلقات اور ان کے حقوق کا حوالہ دیا ہے۔ اس میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ جو لوگ اس طرح کے رشتوں کی حمایت کرتے ہیں ان کے کیا دلائل ہیں اور ان دلائل کی کیا کمزوریاں ہیں؟اس طرح کے رشتوں کی قانونی حیثیت کو واضح کرتے ہوئے کہا گیا ہے : ’’اسلام جس ازدواجی تعلق کو صحیح نہیں تسلیم کرتا، اس کی بنیاد پر حقوق اور ذمہ داریوں کا سوال بھی اس کے نزدیک بے معنی ہے۔ جب کوئی عورت اسلامی قانون کی رُو سے کسی کی بیوی اور وہ اس کا شوہر نہیں ہے تو دونوں کے حقوق اور ذمہ داریاں ازخود ختم ہوجاتی ہیں۔ عورت نہ تو اپنے حقوق کا مطالبہ کرسکتی ہے اور نہ مرد کے مطالبات کی تعمیل اس کے لیے لازمی ہوگی۔ اس تعلق کے نتیجے میں جو اولاد ہوگی وہ بھی اپنے نان و نفقہ، تعلیم و تربیت جیسے قانونی حقوق سے محروم ہوگی۔ ان کے درمیان قانونِ وراثت نافذ نہیں ہوگا۔ اس سے آگے کی بات یہ ہے کہ اس ناجائز تعلق پر عورت اور مرددونوں پر اسلامی ریاست میں حدِ شرعی نافذ ہوگی‘‘۔(ص ۹۷-۹۸)
اس مجموعے کا دوسرا مضمون ہے: ’ہندستان کی شرعی و قانونی حیثیت‘۔ تبصرے کی روشنی میں یہ خیال ہوسکتا ہے کہ معاملہ ہندستان کا ہے، اس لیے اس سلسلے میں کوئی واضح بات نہیں کہی گئی ہوگی۔ چونکہ یہ ایک اہم موضوع اور ایک بڑے ملک اور اس کی سب سے بڑی اقلیت سے متعلق ہے، اس لیے اس بارے میں بھی اس مضمون کے حوالے سے کچھ باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔
اس مضمون میں پہلے تو یہ بتایا گیا ہے کہ فقہاے کرام نے ’دار‘ کی تین قسمیں بیان کی ہیں: دارالاسلام، دارالحرب اور دارالبغی۔ پھر اِس بات کا بھی امکان ہے کہ دارالاسلام اور دارالحرب کے درمیان معاہدئہ صلح ہو۔ جب تک صلح ہے دونوں کے درمیان جنگ نہیں ہوسکتی۔ اس اصولی بحث کے بعد ہندستان میں مسلمانوں کے دورِ اقتدار، انگریزوں کے دورِ حکومت، ملک کی آزادی اور بعد کی صورت حال کا ذکر ہے۔ اسی ذیل میں اس کے سیکولر دستور اور اس کے تسلیم کردہ حقوق بیان ہوئے ہیں۔ اس کی بنیاد پر کہا گیا ہے کہ ہندستان گو دارالاسلام نہیں ہے، لیکن فقہا کی اصطلاح میں دارالحرب بھی نہیں ہے۔ فقہا کے نزدیک دارالہجرت سے ہجرت لازم ہے لیکن ساتھ ہی انھوں نے لکھا ہے کہ دارالحرب میں اگر ’’آدمی کو دین پر عمل اور دعوتِ دین کی آزادی حاصل ہو، وہ ظلم و زیادتی سے محفوظ ہو، ظلم ہو تو اسے دفاع کا حق حاصل ہو، اس کا قیام وہاں اُمت مسلمہ کے لیے مفید ہو تو اس کے لیے ہجرت صحیح نہیں ہے، وہاں قیام واجب ہے۔ یا کم از کم وہاں سے ہجرت کو فرض نہیں قرار دیا جاسکتا ہے۔ بہ ظاہر ہندستان کا شمار اسی دوسری قسم میں ہوتا ہے‘‘۔ (ص ۴۹)
مسلمانانِ ہند کی دستوری حیثیت اور یہاں مسلمانوں (اقلیتوں) کو جو دستوری حقوق حاصل ہیں ان کی بنیاد پر کہا گیا ہے کہ ’’مسلمانوں کا اس ملک کو اپنا وطن بنانے اور یہاں رہنے، بسنے کا فیصلہ محض قانونی یا سیاسی مجبوری نہیں ہے بلکہ شرعی حکم اور دین کا تقاضا ہے‘‘ (ص ۵۱)۔ آگے عرض کیا گیا ہے کہ ’’جب ہندستان شرعاً و قانوناً مسلمانوں کا وطن ہے اور وہ یہاں اپنے مسلمہ حقوق کے ساتھ رہ رہے ہیں تو انھیں ممکنہ حد تک شرعی زندگی گزارنی لازم ہے۔ وہ شریعت کے ان تمام احکام کے مکلف ہیں جن کو وہ انجام دے سکتے اور جن کو وہ انجام نہیں دے سکتے، ان کے سلسلے میں کوئی کوشش کرنی ہوگی تاکہ اس کے مواقع انھیں حاصل ہوسکیں۔(ص ۵۱)
اس سلسلے میں یہ بات بھی واضح کی گئی ہے کہ آج کے جمہوری ممالک یا ہندستان جیسے جمہوری ملک کی صورت حال ماضی میں نہیں تھی، اس لیے قدیم فقہا کے ہاں اس پر بحث نہیں ملتی، البتہ انھوں نے دارالاسلام اور دارالحرب پر جو بحثیں کی ہیں، ان سے اس سلسلے میں مدد اور رہنمائی ضرور ملتی ہے۔ پھر اس کی کچھ تفصیل فراہم کی گئی ہے۔ بہرحال یہ ایک نازک بحث ہے۔ میں نے اس میں اپنی راے وضاحت سے پیش کی ہے۔ امید ہے اصحابِ علم اس پر غور کریں گے۔
اس مجموعے کے دوسرے مضامین ہیں: دارالاسلام اور دارالحرب کا تصور، اسلامی ریاست میں غیرمسلموں پر اسلامی قانون کا نفاذ، اسلامی ریاست میں غیرمسلموں پر حدود کا نفاذ، اسلام کا قانونِ قصاص، قذف اور لعان کے احکام۔ یہ عنوانات آج کے دور میں اسلامیات کے طالب علم کے لیے دل چسپی اور غوروفکر کا موضوع بن سکتے ہیں۔ ان موضوعات کی طرف کوئی توجہ نہیں کی گئی ہے۔ اگر مختصراً ہی اظہارِ خیال فرماتے تو استفادہ کیا جاسکتا تھا۔