زیرنظر مضمون میں جہاں تحریکِ اسلامی کے محترم اہلِ قلم کی کاوشوں اور خدمات کا اعتراف ہے، وہیں اس معرکۂ علم و فضل میں خود احتسابی اور خود توجہی کا دل آویز حوالہ بھی موجود ہے۔ ادارہ
تحریک ِ اسلامی کے لٹریچر کا ایک بڑا حصہ ’علمِ کلام‘ یعنی اسلامی عقائد و اصولوں کے حق میں عقلی دلائل پر مبنی ہے۔ یہ مولانا مودودی کے بڑے کارناموں میں سے ہے کہ ایک بڑے نازک موڑ پر انھوں نے اُمت کے جدید تعلیم یافتہ اور ذہین طبقے کو فکری ارتداد سے بچایا اور ان کے ذہن و قلب میں اسلام پر یقین و اعتماد کو بحال کیا اور اس کے لیے بڑی گہری اور پاے دار بنیادیں فراہم کیں۔
اسلامی عقائد و ایمانیات پر پختہ یقین پیدا کرنے میں مولانا مودودی کی شہرئہ آفاق کتابیں: دینیات ، خطبات اور اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر شامل ہیں۔ا ن کتابوں میں مولانا نے عام فہم اور سادہ طریقے سے اسلام کے بنیادی عقائد کو عقلی دلائل سے ثابت کیا ہے۔ اسی طرح اسلامی نظامِ زندگی اور اس کے بنیادی تصورات کے بعض مقالات اور تفہیم القرآن کے بہت سے مباحث میں انھی موضوعات کو اور زیادہ عالمانہ طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔
آج، اسلامی دعوت کی بڑی علمی ضرورت یہ ہے کہ علم و فضل کے اس سلسلے کو مزید آگے بڑھایا جائے۔ اسلامی علمِ کلام کو ترقی دی جائے اور اسلامی عقائد کو فلسفے کی اعلیٰ ترین سطح پر ثابت کیا جائے۔
مولانا مودودی کی کتابیں ایک عام تعلیم یافتہ فرد کو اللہ کے وجود پر قائل کرنے کے لیے کافی ہیں۔ ان کتابوں میں اُن دلائل سے بھی استفادہ کیا گیا ہے، جو عہدوسطیٰ کے متکلمین، بالخصوص امام غزالی [۱۰۵۸ئ-۱۱۱۱ئ]نے یونانی فلسفے کے توڑ کے لیے استعمال کیے تھے۔ مولانا مودودی نے ان کلاسیکل دلائل کو اپنے مخصوص طرزِ بیان اور جدید مثالوں سے نیا آہنگ اور پُرتاثیر خوب صورتی بخشی ہے اور جدید ذہن کے لیے انھیں قابلِ قبول بنا دیا ہے۔ بلاشبہہ مولانا مودودی کی یہ کتابیں ہمارے عہد کی محسن کتابیں ہیں۔ ان مباحث نے نجانے کتنے قلوب سے تشکیک کا غبار صاف کیا ہے اور بلامبالغہ لاکھوں دلوں کو ہدایت ِ الٰہی کی شمع سے روشن کیا ہے۔
جیسا کہ عرض کیا ہے ، یہ دلائل عام پڑھے لکھے لوگوں کے لیے تو کافی ہیں، لیکن جنھوں نے مغربی فلسفوں کا گہرا مطالعہ کیا ہے اور ان کا کم و بیش اثر قبول کیا ہے، ان کے لیے کام باقی ہے۔ اٹھارھویں اور انیسویں صدی میں ملحد مغربی فلسفیوں نے انھی دلائل کی کاٹ کی ہے۔ اللہ کے وجود کے اثبات میں مولانا مودودی نے گھڑی اور مشینوں کی جو مثال دی ہے، پہلے پہل یہ مثال برطانوی عیسائی فلسفی ولیم پیلے [۱۷۴۳ئ-۱۸۰۵ئ] نے پیش کی تھی۔ گذشتہ ۲۰۰ برسوں میں یہ مثال مختلف اہلِ علم کے ہاں مختلف حوالوں سے بہ کثرت زیربحث آچکی ہے۔
ڈیوڈ ہیوم [۱۷۱۱ئ-۱۷۷۶ئ]سے لے کر رچرڈ ڈاکنز [پ:۱۹۶۱ئ] تک درجنوں فلسفیوں نے اس پر جرح کی ہے اور رچرڈ ڈاکنز نے ایک مستقل کتاب صرف اس ایک دلیل کے رد میں لکھی ہے۔ برٹرنڈرسل [۱۸۷۲ئ-۱۹۷۰ئ] کے دلائل اچھے اچھے اہلِ ایمان کو متشکک کر دیتے ہیں۔ ہمارے زمانے میں رچرڈ ڈاکنز، کرسٹوفر ہیحنز [۱۹۴۹ئ-۲۰۱۱ئ] اور وکٹر جے استینجر [۱۹۳۵ئ-۲۰۱۴ئ] جیسے دسیوں بلندپایہ فلسفی ہیں، جنھوں نے الحاد کے حق میں دلائل کی وسیع عمارتیں کھڑی کی ہیں۔ یہ سب فلسفے، علمی دنیا میں الحاد، خدا بے زاری اور انتہاپسندانہ سیکولرزم کے لیے مضبوط بنیادیں فراہم کرتے ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ ان فلسفوں کے مقابلے کے لیے اور جدید اسلوبِ نگارش میں ہمارا موجودہ اسلامی تحریری سرمایہ کسی صورت کافی نہیں ہے۔ میں ایسے کئی صالح، دین دار نوجوانوں سے واقف ہوں جو عمانویل کانٹ [۱۷۲۴ئ-۱۸۰۴ئ] اور برٹرنڈرسل کو پڑھ کر کئی کئی سال تشکیک اور سخت پریشانی کے عالم میں رہے۔ اس پس منظر میں یہ اسلامی دعوت کی اہم ترین علمی ضرورتوں میں سے ہے کہ عالمانہ اور فلسفیانہ سطح پر الحاد کی کاٹ کی جائے اور بجاطور پر اللہ تعالیٰ کے وجود کو ثابت کیا جائے۔ یہ کام عہد وسطیٰ میں امام غزالی نے کیا تھا، جنھوں نے یونانی فلسفے کی بنیادیں ہلا دی تھیں۔
مسیحی دنیا میں اس محاذ پر بڑا قابلِ قدر کام ہوا ہے۔ اگر اس سے استفادہ کرتے ہوئے بھی کچھ کتابیں لکھ دی جاتیں تو مفید کام ہوتا۔ اس طرح کی کچھ کوششیں ہوئی بھی ہیں۔ مثال کے طور پر ترکی کے دانش ور، ہارون یحییٰ [پ:۱۹۵۶ئ] نے سائنسی دلائل کا سہارا لیتے ہوئے بہت قیمتی لٹریچر پیش کیا ہے۔ لیکن یہ دلائل بھی عام لوگوں کے لیے ہیں۔ ملحد فلاسفہ کی گتھیوں کو فلسفیانہ سطح پر حل کرنا ان کا مقصد بھی نہیں ہے۔ وحیدالدین خان صاحب [پ:۱۹۲۵ئ] نے بھی ایک زمانے میں اس ذیل میں اچھی کوششیں شروع کی تھیں۔ اگر وہ اس کام کو جاری رکھتے تو شاید بڑا اہم کام ہوتا۔ لیکن بعدازاں خودملامتی رنگ اپنانے کے نتیجے میں اس موضوع پر ان کا موجودہ لٹریچر بہت سطحی نوعیت کا ہے۔ اس سے اہلِ ایمان کے ایمان میں کہیں اطمینان اور کہیں تزلزل تو پیدا ہوسکتا ہے، لیکن کسی ملحد فلسفی کو قائل کرنے کا کام نہیں ہوسکتا۔
مولانا عبدالباری ندوی [۱۸۸۶ئ-۱۹۷۶ئ]کی کتب: برکلے اور اس کا فلسفہ، مذہب اور عقلیات، مذہب اور سائنس میں ان موضوعات پر گراں قدر مباحث ہیں۔ خاص طور پر کوانٹم میکانکس اور ’نظریۂ نسبیت‘ (Relativity)کے بعد کی فلسفیانہ صورتِ حال کے پیش نظر بعض اچھے نکات زیربحث آئے ہیں۔ لیکن ایک تو یہ بحث کافی نہیں ہے اور دوسرے کافی قدیم ہے۔
امریکی مسیحی فلسفی ولیم لین گریگ [پ: ۲۳؍اگست ۱۹۴۹ئ] نے اسلامی علمِ کلام ہی کو مسیحی نقطۂ نظر اور سائنس و فلسفے کی جدید ترقیوں کی روشنی میں کافی ترقی دی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے وجود کے اثبات میں ان کے کام کو بڑ ی اہمیت حاصل ہے اور ان کی ۳۰ سے زائد کتب، خاص طور پر ۱۹۷۹ء میں ان کی کتاب The Kalam Cosmological Argument(KCA) اللہ کے وجود کے اثبات پر بڑی گہری فلسفیانہ کتاب ہے اور ملحد فلسفیوں کے بیش تر دلائل کا پُرزور رد ہے۔
اسی طرح برطانوی فلسفی اینٹونی فلیو [۱۹۲۳ئ-۲۰۱۰ئ]زندگی بھر ملحد رہے اور الحاد کے حق میں اور اللہ کے وجود کے رد میں تین درجن سے زیادہ کتابیں لکھیں۔ یاد رہے انھیں ’دنیا کا بدنام ترین ملحد‘ کہا جاتا تھا، لیکن مرنے سے دو تین سال قبل انھوں نے اپنا ذہن بدلا اور مرتے مرتے، اللہ تعالیٰ کے وجود کے اثبات میں کتاب لکھ گئے۔ ان کی کتاب There is a God اس موضوع پر بہت گہری فلسفیانہ دستاویز ہے۔ عمانویل کانٹ اور ڈیوڈ ہیوم سے لے کر عصرحاضر کے معروف ملحدین تک کی ہردلیل کا مسکت جواب اس کتاب میں موجود ہے۔ یہ کتاب چونکہ ایک ایسے فرد کی لکھی ہوئی ہے، جو عصرِحاضر میں الحاد کا بڑا قدآور امام مانا جاتا تھا، اس لیے اس کی اہمیت دوچند ہوگئی ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ ولیم گریگ اور اینٹونی فلیو کے ’تصورِ خدا‘ میں اور اسلام کے ’تصورِالٰہ‘ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس لیے ان کتابوں سے استفادہ محدود پیمانے پر ہی ہوسکتا ہے۔ اس لیے ابتدا میں کم از کم یہ ہونا چاہیے کہ فلسفے کے کچھ ذہین طالب علم، ان عیسائی فلسفیوں کے افکار سے استفادہ کرتے ہوئے اسلام کے ’تصورِ الٰہ‘ کے حق میں کچھ گہری کتابیں لکھیں اور دھیرے دھیرے یہ کاوشیں جدید اسلامی فلسفے کی ایک مستقل شاخ بن جائیں۔
تھیوری ، تصورات کے منظم ڈھانچے کا نام ہے۔ ایک ذہین مفکر جب واقعات اور احوال پر غور کرتا ہے، تو ان کی توجیہات کا ایک ایسا منظم خاکہ اور ایک ایسی آفاقی اسکیم تیار کرتا ہے، جس کی بنیاد پر اس طرح کے بے شمار واقعات اور احوال کا تجزیہ کیا جاسکتا ہے۔ مستقبل سے متعلق پیش گوئی کی جاسکتی ہے اور آیندہ چند در چند واقعات کے متعلق کوئی راے قائم کی جاسکتی ہے۔
اکثر تھیوری میں تجریدی (abstract)تصورات پیش کیے جاتے ہیں اور انھیں مخصوص (اور اکثر منفرد اور نئی) اصطلاحات کے ذریعے بیان کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر مولانا مودودی نے خلافت راشدہ اور بنواُمیہ کی تاریخ اور اس زمانے میں پیش آئے واقعات کی بنیاد پر خلافت سے ملوکیت کی طرف سفر کی ایک پوری تھیوری تعمیر کی اور اس تھیوری کو خلافت، ملوکیت وغیرہ اصطلاحات کے استعمال سے واضح کیا۔ یا تحریکِ آزادیِ ہند کے زمانے کے احوال و واقعات کا تجزیہ کرتے ہوئے اسلامی ریاست و سیاست کی تھیوری تعمیر کی۔ ابن خلدون [۱۳۳۲ئ-۱۴۰۶ئ] نے ’عصبیہ‘ (Social Cohesion) کی تھیوری پیش کی، یا امام غزالی نے اخلاق کی تھیوری پیش کی تھی اور ’شہوت’، ’حکمت‘ اور’ غضب‘ کی اصطلاحات سے اس تھیوری کی وضاحت کی تھی۔
تھیوری کی تعمیر ایک بہت مشکل کام ہوتا ہے۔ تھیوری بن جائے تو تفصیلات کا تعین بھی آسان ہوجاتا ہے اور اثبات بھی۔ کارل مارکس کا ’ورلڈ ویو‘ [تصورِجہاں] ہم کو معلوم ہے۔ اسی ’تصورِجہاں‘ کی بنیاد پر اس نے تاریخ میں ’جدلیاتی مادیت‘ (Dialectical Materialism) کی تھیوری پیش کی۔ اب ایک مارکسی مفکر کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ وہ اس تھیوری کی بنیاد پر ہرتاریخی واقعے کی توجیہ کرے اور مستقبل کی پیش گوئی کرے۔ یوں سماجیات میں اس نے ’معاشی جبریت‘ (Economic Determinism) کی تھیوری پیش کی۔ نومارکسی مفکرین نے اس میں ترمیم کی اور فرانسیسی مفکر لوئی التھیوز [۱۹۱۸ئ-۱۹۹۰ئ] نے ’زائد جبریت‘ (Overdeterminism) اور ’نسبتی خودمختاری‘ (Relative Autonomy) جیسی نئی سماجی تھیوریاں تشکیل دیں۔
مولانا مودودی نے اسلامی نظامِ اجتماعیات میں سیاسی سطح پر تھیوری کی تعمیر کا مکمل کام کیا ہے۔ حاکمیت و شارعیت ِالٰہ، خلافت ِ جمہور، عالم گیر انسانی اخوت، حکومت ِالٰہیہ ، اقامت ِدین وغیرہ اس تھیوری کے کچھ مرکزی عنوانات ہیں۔ دیگر محاذوں پر بھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مولانا مودودی کے ذہن میں تھیوریوں کا مکمل خاکہ موجود تھا اور ان کی تصنیفات میں تعلیم، معیشت، تہذیب اور تاریخ کی تھیوریوں کے سلسلے میں واضح اشارات ملتے ہیں۔
تاہم، آج اسلامی فکر کے سامنے ایک بڑا اہم چیلنج یہ ہے کہ theory construction [تعمیر ژرف اندیشی] کے اس کام کو آگے بڑھایا جائے۔ اسلامی معاشیات کے باب میں مولانا مودودی، ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی، پروفیسر خورشیداحمد، ڈاکٹر محمدعمر چھاپرا، ڈاکٹر انس زرقا، محمداکرم خان، ابوالحسن بنی صدر، باقرالصدر وغیرہ کی خدمات قابلِ ذکر ہیں۔ لیکن اسلامی معاشیات کو ابھی بہت سے حل طلب مسائل اور چیلنج درپیش ہیں، جس کے لیے نئی نسل کو آگے بڑھنا ہے۔تعلیم میں فلسطینی نژاد اسکالر ڈاکٹر اسماعیل راجی الفاروقی شہید [۱۹۲۱ئ-۱۹۸۶ئ] اور دیگر بے شمار دانش وروں اور اداروں کی گراں قدر کوششوں اور سیّدمحمد نقیب العطاس [پ:۱۹۳۱ئ] کی چشم کشا تحریروں کے باوجود یہ امرواقعہ ہے کہ منظم تھیوری کی تشکیل کا کام ابھی باقی ہے۔ غالباً ابھی تک اس سطح کا کام نہیں ہے کہ ہم اسے Educational Essentialism [تدریسی ماہیت گری]، یا Criticial Pedagogy [تنقیدی فنِ تدریس] یا ۱۹۱۱ء سے رُوبہ عمل ’مونٹی سوری تدریسی طریقے‘ یا ۱۹۱۹ء سے متعارف ’والڈ روف تدریسی عمل‘ وغیرہ کے مقابلے میں پیش کرسکیں۔ تاریخ اور تہذیب میں بھی یہ کام نامکمل ہے۔ نفسیات میں سوڈان سے عالی مرتبت ڈاکٹر مالک بدری [پ:۱۹۳۲ئ] کی شان دار کوششوں کے باوجود، سگمنڈ فرائڈ [۱۸۵۶ئ-۱۹۳۹ئ] کے گمراہ کن نظریات کا متبادل پیش کیا جانا باقی ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ معاصر اسلامی لٹریچر میں ’سماج‘ یا ’معاشرہ‘ کی کوئی مبسوط تھیوری تشکیل نہیں پاسکی۔ حالیہ دنوں میں امریکی ایرانی مصنف سیّد حسین نصر [پ:۱۹۳۳ئ]، ترک مصنف فتح اللہ گولن [پ:۱۹۴۱ئ] اور عرب نژاد طارق رمضان [پ:۱۹۶۲ئ] نے اور ماضی قریب میں ایران سے استاذ مرتضیٰ مطہری [۱۹۱۹ئ-۱۹۷۹ئ] اور ڈاکٹر علی شریعتی [۱۹۳۳ئ-۱۹۷۹ئ] نے اس ذیل میں کچھ اچھی تھیوریاں ضرور پیش کی ہیں، لیکن اسلامی سماجی تشکیلِ نو کے لیے غالباً یہ نظریات تحریکِ اسلامی کے فکر کی اطمینان بخش نمایندگی نہیں کرتے۔
ظاہر ہے کہ تھیوری اور خاص طور پر مولانا مودودی، ابن خلدون، امام غزالی اور کارل مارکس وغیرہ کی متذکرہ طرز کی گرینڈ تھیوریوں (grand theories) کی تشکیل ایک عبقری کام ہے اور عبقری مفکرین روز روز نہیں پیدا ہوتے۔ لیکن اس طرح کے بڑے مفکرین کے دیے ہوئے اشارات کی بنیاد پر اجتماعی کوششوں اور اجتماعی دانش کے ذریعے اُس کام کی تکمیل بآسانی ہوسکتی ہے، جو انھوں نے چھوڑا ہے۔ ’نومارکسیت‘ میں ’فرینکفرٹ اسکول‘، ’نیولبرلزم‘ میں ’شکاگو اسکول‘ وغیرہ، درحقیقت افراد کے کارنامے نہیں ہیں بلکہ اجتماعی اداروں کے کارنامے ہیں، جن کی تھیوریوں نے دنیا پر بڑے گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ خود ہمارے حلقوں میں اسلامی معاشیات میں جو کام ہوا ہے وہ زیادہ تر اجتماعی سطح پر ادارہ جاتی کوششوں کے ذریعے ہوا ہے۔ اس لیے کوشش کی جائے تو اسلامی فکر میں بھی یہ کام ہوسکتا ہے۔
اسی طرح ہم دنیا کو بہت شرح و بسط کے ساتھ یہ نہیں بتا سکے کہ ہمارے خوابوں کی دنیا کیسی ہوگی؟ مراد یہ ہے کہ ہمارے بہت سے خواب ابھی بھی بہت غیرواضح ہیں۔ اس عدم وضاحت کی وجہ سے مزاحم اور متحارب گروہوں میں سے کوئی یہ سمجھتا ہے کہ: ’’شاید ہم دنیا کو محض ٹائم مشین میں بٹھاکر ۱۴۰۰برس پہلے کے تمدن میں لے جانا چاہتے ہیں‘‘۔ اور کسی کا خیال یہ ہے کہ: ’’ہماری منزل غالباً ساری دنیا کو اسامہ بن لادن اور طالبان کا افغانستان بنادینا چاہیے‘‘۔ کوئی ہمارے حق میں بہت کشادہ دل واقع ہوا تو یہ سمجھتا ہے کہ: ’’ہم آیت اللہ خمینی والا ایران چاہتے ہیں‘‘۔ حالانکہ ہمارے بارے میں یہ تینوں مفروضے ہرگز درست نہیں ہیں، اور منفی سوچ کے مظہر ہیں۔
گویا کہ نظریاتی تحریکوں کی ایک بڑی ضرورت یہ ہوتی ہے کہ وہ واضح خواب دیکھیں اور دنیا کو وہ واضح خواب دکھائیں۔ خواب دکھانے کا یہ کام بہت وسیع الاطراف اور ہمہ تخصصی (multi- disciplinary) معرکہ ہے۔ ۲۰ویں صدی کے نصف اوّل میں کمیونسٹوں نے یہ کام بہت مؤثر طریقے سے انجام دیا تھا۔ اس خواب کی پیش کاری کے لیے فکروفلسفے سے لے کر لوک گیتوں اور تھیٹر اور ناچ کی محفلوں تک کوئی ذریعہ انھوں نے نہیں چھوڑا تھا۔ فلسفہ، تاریخ، سماجیات، سیاسیات، معاشیات، نفسیات، ادبیات، حتیٰ کہ صنفیات وغیرہ میں ان کی اپنی مستقل تھیوریاں تھیں۔ پالیسیوں اور مسائل پر ان کے واضح موقف تھے اور اس کی تائید میں بھرپور لٹریچر تھا، فلمیں تھیں، ناول، افسانے، شاعری تھی اور ادب عالیہ و فنون لطیفہ کے ذریعے عام ناخواندہ اور خواندہ خواتین و حضرات کو بھی انھوں نے اپنی مطلوب دنیا کی جھلک دکھا دی تھی۔ اُردو شاعری ہی میں دیکھ لیجیے، فیض احمد فیض، اسرار الحق مجاز، ساحر لدھیانوی وغیرہ نے کس خوب صورتی سے ’پرولتاری آمریت‘ [نام نہاد جمہوری] پر مبنی دنیا کے مناظر دکھائے تھے:
مجبور بڑھاپا، جب سونی راہوں کی دھول نہ پھانکے گا
معصوم لڑکپن، جب گندی گلیوں میں بھیک نہ مانگے گا
حق مانگنے والوں کو جس دن ، سولی نہ دکھائی جائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
سنسار کے سارے محنت کش کھیتوں سے نکلیں گے
بے گھر ، بے دَر ، بے بس انساں ، تاریک بلوں سے نکلیں گے
دنیا امن اور خوش حالی کے پھولوں سے سجائی جائے گی
وہ صبح ہمیں سے آئے گی
تاہم، ہمیں کمیونسٹوں کی طرح ایسی سستی نعرے بازی کے بجاے متوازن اور مؤثر انداز سے: عدل، سچائی اور آخرت میں جواب دہی کے احساس کے زیرسایہ، اس میدان میں بہت زور و شور سے پیش رفت کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے تھیوریوں کی تعمیر کا کام ہو۔ ان کی روشنی میں پالیسیوں پر اُٹھنے والے سوالوں کا جواب (response) ہو اور متبادل آئیڈیاز کی تخلیق اور پیش کش کا کام ہو۔ ادب عالیہ کو بڑے پیمانے پر ہمارے خوابوں کی دنیا دکھانے کے لیے ادبی لطافتوں کی بھرپور رعایت اور تفہیم کے ساتھ استعمال کیا جائے۔ اس غرض کے لیے فلمیں بنیں۔ فائن آرٹ کا استعمال ہو۔ یہاں تک کہ لوگ ہمارے خوابوں کو اور ہمارے خوابوں کی دنیا کو سمجھ جائیں اور ان خوابوں میں عملی زندگی کو ڈھالنے کے لیے اُمنگ محسوس کریں۔ یہ کام عمومی طور پر عالمی سطح پر بھی ہونا چاہیے اور ہرملک کے مخصوص احوال کے پس منظر میں بھی۔
جائزے کا ایک زاویہ یہ بھی ہونا چاہیے کہ مستقبل قریب میں ہمارے اور باقی دنیا کے درمیان اصل بحث طلب موضوعات کیا ہیں اور کیا ہوسکتے ہیں؟ ان موضوعات پر بھرپور تیاری کی ضرورت ہے۔ یہ جائزہ ملک کی سطح پر بھی ہونا چاہیے اور عالمی سطح پر بھی۔
اب دنیا کا منظرنامہ بڑی حد تک بدلا ہوا ہے۔ سیکولرزم کے حق میں پہلے جیسا جوش و خروش باقی نہیں ہے۔ فرانس جیسے ملک کا سابق صدر فرانس نکولاس سرکوزی [پ:۱۹۵۵ئ] جیسا متشدد سیکولرسٹ بھی برسرِعام یہ کہہ رہا ہے کہ: ’’مذہب کی بنیاد کے بغیر وجود میں آنے والی اخلاقیات ناپاے دار ہیں اور سوسائٹی کے لیے خطرناک بھی‘‘۔ دوسری طرف مذہب سے بغاوت پر مبنی ، مادر پدر آزاد اجتماعی زندگی کا ۳۰۰ سالہ طویل تجربہ، اپنی تمام حشر سامانیوں کے ساتھ دنیا کے سامنے موجود ہے۔ ان تین چار سو برسوں میں خود مذہب کے صحیح و غلط اور اجتماعی زندگی پر اس کے اثرات کا ریکارڈ بھی موجود ہے۔ ان تجربات کی بنیاد پر بہت سے سیکولر دانش ور بھی مذہب اور ریاست کے درمیان تعلق کی ازسرِنوتعین کی ضرورت محسوس کر رہے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اس بحث کو تحریکی دانش ور نئے زاویے دیں، اور یہ ثابت کریں کہ اکیسویں صدی کے باشعور انسان کو مذہب کے تئیں خوف و احتیاط کے اس رویے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے، جو یورپ کی نشاتِ ثانیہ کے زمانے میں اختیار کیا گیا تھا، اور یہ کہ اجتماعی زندگی میں مذہب کا تعمیری اور مثبت کردار انسانیت کے بہت سے مسائل کو حل کرسکتا ہے اور اس کا عملی ماڈل صرف اسلام پیش کرسکتا ہے۔ اس سلسلے کی جو اُلجھنیں جدید سیکولر ذہن محسوس کرتا ہے، انھیں اور زیادہ تفصیل اور دلائل کے ساتھ رفع کرنے کی ضرورت ہے، اور اس بات کی ضرورت ہے کہ ان اُلجھنوں کا قابلِ عمل حل پیش کیا جائے۔
اسی سے ملتی جلتی ایک بحث، مختلف مذاہب کے ساتھ تعلق اور تکثیری معاشروں میں رویوں کی بحث بہت اہمیت کی حامل ہے۔ عام ذہن کسی ایک مذہب کی حقانیت پر اصرار اور باقی مذاہب کے ردّ و ابطال کو پسند نہیں کرتا۔ اپنے مذہبی عقیدے کو واحد سچائی سمجھنا مذہبی جنون (fanaticism) سمجھا جاتا ہے اور یہاں تکثیریت (Pluralism) کے اُس فلسفے کو قبولِ عام حاصل ہے، جس میں سماج یا معاشرے کو شربت کے ایک ایسے جار سے تشبیہہ دی جاتی ہے، جس میں مختلف مشروبات مل کر اور اپنا منفرد رنگ و مزا کھو دیتے ہیں اور پھر ایک نیا رنگ اور نیا مزا پیدا کرتے ہیں۔ اب نئے عالمی حالات میں اور خاص طور پر پوسٹ ماڈرن فلسفوں کے پس منظر میں یہ ذہن دنیا میں قبولِ عام اختیار کرتا جا رہا ہے۔دنیا کا یہ رویہ مذہب کے علاوہ کسی اور علمی محاذ پر نہیں ہے (پوسٹ ماڈرن فلسفوں کی استثنا کے ساتھ)۔
فلسفہ، مختلف سماجی علوم، حتیٰ کہ نظریاتی سائنس میں بھی مختلف متضاد تھیوریوں پر زوردار بحثیں جاری ہیں۔ لوگ اپنے موقف ہی کو صحیح سمجھتے ہیں اور متضاد موقف کو غلط سمجھتے ہیں، اور اسے تنقید و جرح کا موضوع بناتے ہیں۔ البتہ اس ’غلط‘ موقف کو اختیار کرنے کے اپنے مخالفین کے حق کو بھی تسلیم کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اگر یہ رویہ راست فکری سے اپنایا جائے تو اسی مجادلے سے سچائی نکھر کر سامنے آسکتی ہے، اور دیگر لوگوں کو اپنے موقف کے تعین میں مدد مل سکتی ہے۔
اسلام، دین و مذہب کے معاملے میں بھی اسی معقول علمی رویے کا قائل ہے۔اسے بجاطور پر اپنی سچائی پہ اصرار ہے اور وہ اپنے ماننے والوں سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اس کی حقانیت کو باقی دنیا پر واضح کریں۔ اسلام چاہتا ہے کہ جو لوگ اس سچائی کے قائل نہیں ہیں، ان کے ساتھ مکالمہ و مجادلہ ہوتا رہے۔ لیکن اگر کوئی ماننا ہی نہیں چاہتا تو اس دنیا میں، اسلام اسے نہ ماننے کا اختیار بھی دیتا ہے۔ دنیا کو دلائل کے ساتھ یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ مذہب سمیت تمام مختلف فیہ معاملات میں یہی معقول اور مطلوب رویہ ہے۔
تاہم، مخالف موقف کو بھی صحیح سمجھنے کا مطالبہ اور اس پر اصرار ایک غیرفطری اور نامعقول مطالبہ ہے جو بدترین نفاق کو جنم دیتا ہے۔ مذہب کے معاملے میں بحث و مجادلے سے گریز اور سبھی مذاہب کو بیک وقت صحیح سمجھنے پر اصرار کی روش کو ہمیں علمی سطح پر تنقید کا موضوع بنانا چاہیے۔ ڈاکٹر عبدالحق انصاری، مولانا فاروق خان اور مولانا سلطان احمد اصلاحی صاحبان نے اس تصور پر جرح کی ہے، لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ دیگر مذہبی فلسفیوں کے دلائل کا جائزہ لے کر اور زیادہ تفصیل اور گہرائی کے ساتھ اس مسئلے کا جائزہ لیا جائے۔
اس تھیوری کی وکالت میں سماجی سائنس دان ، ماہرین نفسیات، ماہرین حیاتیات، ماہرین طب و علم الابدان، ماہرین قانون اور علماے اخلاقیات و فلسفہ وغیرہ پر مشتمل اہلِ علم کا بڑا گروہ پوری دنیا میں کام کر رہا ہے۔ یہ بات اب تیزی سے مشرقی ممالک کے اشرافیہ میں بھی قبولِ عام اختیار کرتی جارہی ہے۔ مثال کے طور پر ہندستان میں ہم جنسی کے خلاف باقاعدہ قانون موجود ہونے کے باوجود، عدالتیں اس عمل کو نہ صرف یہ کہ جرم نہیں سمجھتیں، بلکہ اُلٹا اس عمل کی ہلکی سے ہلکی مخالفت یا قانون کے نفاذ کو ’سنگین اور خلافِ انسانیت جرم‘ سمجھتی ہیں۔ عیسائی مذہبی قیادت اس مسئلے پر تقریباً سر نگوں ہوچکی ہے اور مغربی دنیا میں مسلمان اہلِ علم کی ایک قابلِ لحاظ تعداد، انتہائی مدافعانہ اور معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے پر مجبور نظر آتی ہے۔ جان لینا چاہیے کہ آج یہ مغرب میں کھلے عام اور مشرق میں صرف بالائی سطح پر زیربحث اور زیرعمل رویہ دکھائی دے رہا ہے، تو ممکنہ پیش بندی نہ ہونے کی صورت میں، یہ آنے والے برسوں میں مسلم معاشروں کا ایک عمومی مسئلہ بن جائے گا۔
ان حالات میں یہ موضوع ایک وسیع اور ’ہمہ تخصصی منصوبے‘ (multi disciplinary project) کا تقاضا کرتا ہے۔ اس بات کو بطور ایک ’مفروضہ‘ (hypothesis) لینا چاہیے کہ ’’غیر محرمات کے درمیان نکاح کے ذریعے مرد و عورت کے درمیان جنسی تعلق کے سوا تمام جنسی رویے اور رجحانات غیرفطری اور انسانی جسم، معاشرے اور آخرکار تہذیب کے لیے نقصان دہ ہیں‘‘۔ میڈیکل سائنس، نفسیات اور میڈیکل نفسیات (Psychiatry)، سماجی سائنس وغیرہ کے مسلمہ اصولوں کی روشنی میں خالص علمی طریقے سے اس مفروضے اور موقف کو ثابت کیا جانا چاہیے۔
اس نظام کے متبادل کے طور پر کئی نظریات دنیا میں بہت شدومد کے ساتھ پیش ہورہے ہیں۔ ان میں سرفہرست ’مارکسیت‘ کی نئی تعبیر ’نومارکسیت‘ (Neo-Marxism) ہے۔ ’مارکسیت‘ کے جن عناصر پر ہم اب تک تنقید کرتے آئے ہیں، ان میں سے بہت سارے عناصر سے نومارکسی مفکرین نے اعلان برا ء ت کرلیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اب اس بدلے ہوئے رُوپ سے ہمارا کیا تعامل ہو؟ ان میں اور ہم میں مشترک اُمور کیا ہیں اور کیا اُمور مختلف فیہ ہیں؟ان پر کام کی ضرورت ہے۔
ایک اور متبادل جو پوری دنیا میں بہت پُرزور طریقے سے پیش ہو رہا ہے، وہ لبرٹیرین ازم (Libertarianism: شخصی آزاد خیالی) کی مختلف شاخیں اور مختلف نظریاتی دھارے ہیں۔ انارکزم، نیوانارکزم، میوچلزم وغیرہ جیسے خیالات نے اسلامی دنیا سمیت پوری دنیا میں پڑھے لکھے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو متاثر کر رکھا ہے۔ عالمی سطح پر نوم چومسکی [پ:۱۹۲۸ئ]جیسا دانش ور ان افکار کا پُرجوش مبلغ ہے۔ اسی طرح ارون دھتی راے [پ:۱۹۶۱ئ] جیسے بااثر مصنّفین اس فکری دھارے سے وابستہ ہیں۔ ان سیاسی و سماجی نظریات کے علاوہ، سماجی سطح پر ’اکولوجی موومنٹ‘ (جس نے کئی سیاسی و سماجی تنظیموں، حتیٰ کہ یورپ کی ’ارتھ لبریشن فرنٹ‘ جیسی دہشت گرد تنظیم کو بھی جنم دیا ہے)، طرزِ زندگی کی سطح پر ویجین موومنٹ، تعلیم کی سطح پر ’ڈی اسکولنگ‘ اور ’ان اسکولنگ‘ کی تحریک، ’طرف داریِ نسواں‘ (Feminism)کے مختلف روپ بشمول ’اسلامی طرف داریِ نسواں‘ (Islamic Feminism) وغیرہ دسیوں فلسفے ہیں، جن کا کوئی نوٹس نہیں لیا گیا ہے۔ ہوسکتا ہے ان میں سے ہرایک کا نوٹس لینے کی ضرورت نہ ہو، لیکن جو خیالات انسانی آبادی کے قابلِ لحاظ حصے کو متاثر کر رہے ہوں اور خود مسلم نوجوان بھی جن کا اثر قبول کر رہے ہوں، ان پر خاموشی ممکن نہیں ہے۔
ان حالات میں مستحکم خاندان اور خاندانی سکون، آنے والے زمانوں میں اسلام کی بہت بڑی قوت اور اسلام کی کشش کا ایک اہم سبب ثابت ہوگا، کیونکہ اس بکھری ہوئی صورتِ حال کو سنبھالنے کے لیے ویسا طاقت ور بیانیہ اور نظام دوسروں کے ہاں ناپید ہے۔ چنانچہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خاندان کے زبردست وکیل اور عالمی سطح پر تحفظ خاندان کے طاقت ور نگہبان کے طور پر سامنے آئیں۔ خاندان کی اہمیت پر مؤثر کتابیں لکھی جائیں اور اس بات کو مستحکم سائنسی دلائل سے ثابت کیا جائے کہ خاندان، انسانی معاشرے کی بنیادی ضرورت ہے اور یہ کہ خاندان کا بس ایک ہی مطلب ہے، اور وہ یہ ہے کہ مرد و عورت کے روایتی طور پر مخصوص صنفی اور سماجی کرداروں کو تسلیم کیا جائے اور اس بنیاد پر قانونی طور پر تسلیم شدہ مرد شوہر اور عورت بیوی مل کر اپنے بچوں کی پرورش کریں۔ نام نہاد غیرروایتی خاندان سے، خاندان کی تشکیل اور انسانی تہذیب کی تعمیر کا کوئی مقصد حاصل نہیں ہوسکتا، اور خاندان کی بقا کا کوئی راستہ اسلامی اخلاقیات کے سوا ممکن نہیں ہے۔
جائزے کا ایک زاویہ یہ بھی ہونا چاہیے کہ نئے حالات میں مسلم اُمت اور خصوصاً مسلم نوجوان کو کس قسم کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں چند گوشوں کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں:
ایک اہم موضوع خود مسلم خاندان کی تفصیلات کا موضوع ہے۔ نئے حالات میں مسلم خاندان کے خدوخال کے تعین کے لیے اسلامی فقہ اور اسلامی سماجیات ، دونوں سطحوں پر اجتہادی کام کی ضرورت ہے۔ عورت کا سماجی کردار کیا ہو؟ خواتین کی تعلیمی اور کیریر کی ترجیحات کیا ہوں؟ مسلم خاندان میں میاں بیوی اور بچوں کے علاوہ دیگر رشتہ داروں سے تعلق کی کیا نوعیت ہو؟ کیا خاندان نیوکلیائی ہو یا جائنٹ، یا دونوں کے امتزاج سے کوئی نئی صورت بنے؟ حتیٰ کہ مسلم خاندان میں ٹی وی اور انٹرنیٹ کو کیا مقام ملے؟ اس کے حدود و قیود کیا ہوں؟ (کہ میڈیا ہماری انفرادی اور خانگی زندگی میں بہت بڑا حصے دار بن کر انسانی زندگی کے بہترین اوقات کا مالک بن چکا ہے)۔ اس طرح کے دسیوں موضوعات ہیں، جن پر یا تو سرے سے کام نہیں ہوا ہے، یا صرف روایتی اور چلتی باتوں کی تکرار ہو رہی ہے اور نئے حالات کے لحاظ سے اجتہادی کوششیں نہیں ہوئی ہیں، یا تفصیلی وضاحت کا فقدان ہے، یا پھر محدود دائرے میں صرف فقہی بحث ہے۔ مسائل کے سماجیاتی (sociological) اور گہرے علمی تجزیے کا فقدان تو بہرحال پایا جاتا ہے۔
عورت کے رول اور کردار پر مولانا مودودی کی کتاب پردہ اور مولانا سیّد جلال الدین عمری کی کتابیں مسلمان عورت کے حقوق اور ان پر اعتراضات کا جائزہ، اور عورت اسلامی معاشرہ میں بڑی اہم تصنیفات ہیں۔ لیکن ان تصنیفات کے مخاطب زیادہ تر اسلام کے معترضین ہیں۔ دوسری بات یہ کہ ان کتابوں میں اکیسویں صدی کی مسلمان خاتون کے اُس فعال حرکیاتی، سماجی و تحریکی کردار کی نہ جھلک ملتی ہے اور نہ اس کی توجیہہ ہے، جو عملاً ہمیں ساری مسلم دنیا میں اور جماعت اسلامی کے بشمول دنیا بھر کی اسلامی تحریکات میں نظر آرہا ہے۔
اسی طرح جناب جلال الدین عمری کی کتاب اسلام کا عائلی نظام اسلامی خاندان کے متعدد پہلوئوں پر قیمتی رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ جسٹس ملک غلام علی نے ماہ نامہ ترجمان القرآن لاہور میں اور مولانا رضی الاسلام ندوی نے زندگی نو دہلی میں، ان اُمور سے متعلق بعض سوالات کے فقہی نقطۂ نظر سے جو جواب دیے ہیں، وہ بھی بہت اہم ہیں۔ اسلامی فقہ اکیڈمی دہلی کے سیمی نار میں پیش کردہ مقالات اور تجاویز بھی نہایت گراں قدر ہیں، لیکن یہ سب باتیں بہت اختصار کے ساتھ کہی گئی ہیں۔ ان متفرق باتوں میں جدید دور میں اسلامی خاندان سے متعلق کچھ اشارات ضرور ملتے ہیں، مگر ایک مفصل اور مربوط خاکہ اور تھیوری نہیں ملتی ہے۔ ضرورت ہے کہ ان اشارات پر کام آگے بڑھے اور جدید حالات کے تناظر میں اسلامی خاندان کی تفصیلی ہیئت نکھر کر سامنے آئے۔
اسلامی خاندان سے متعلق ہی ایک اہم مسئلہ مسلم خواتین کے بعض مسائل اور ان مسائل کے حل کی راہ میں، مختلف مقامات پر رواجی، قبائلی اور روایتی پرسنل لا کی جانب سے درپیش رکاوٹوں کا مسئلہ ہے، جن پر ہمارے ملک کے نام نہاد ’روشن خیال‘ طبقے مبالغے کے ساتھ متوجہ کرتے رہے ہیں۔ ان میں ایک اہم مسئلہ شوہر کی جانب سے بیوی پر ناروا ظلم اور اس ظلم کی صورت میں نجات کی کسی راہ کا نہ ہونا ہے۔ مولانا مودودی نے اس سلسلے میں حقوق الزوجین میں بہت جرأت مندانہ موقف اختیار کیا تھا۔ لیکن اس موقف پر کام آگے نہیں بڑھ سکا اور بات وہیں رُک کر رہ گئی ہے۔
اگرچہ ہمارے کئی زعما باوجود بے شمار مطالعات اور اعداد و شمار کے، اس مسئلے کے وجود سے ہی انکار کرتے ہیں، لیکن ہم سب کے عمومی مشاہدات بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ مسلم سوسائٹی میں یہ مسئلہ موجود ہے۔ اگر اس میں کوئی شک ہے، تو ہم خود سائنٹی فک مطالعہ اور سروے کرا سکتے ہیں۔ بہرحال، اس مسئلے کو نظرانداز نہیں کرسکتے، اور نہ اس مسئلے کا حل ثالثی عدالتوں سے ممکن ہے۔ نہ ان عدالتوں کی تعداد کافی ہے اور نہ پیشہ ورانہ تربیت کے بغیر قاضی ان مسائل کو حل کرسکتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس طرح کے مسائل کا قابلِ عمل حل ، شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے، لیکن اجتہادی بصیرت اور جرأت کے ساتھ تلاش کیا جائے اور اسلامی تحریک اس عمل میں قائدانہ کردار ادا کرے۔ ایسا کرتے ہوئے دارالعلوموں کے مراکز فتویٰ کے جبر سے آزاد مگر قرآن و سنت کی روح کے زیرسایہ، روحِ عصر کو جرأت سے جواب اور حل بھی پیش کریں۔
اسلامی خاندان کے تعلق سے مولانا سلطان احمد اصلاحی (علی گڑھ) نے بعض اہم نظریات پیش کیے تھے۔ خاص طور پر ’مشترکہ خاندان‘ اور ’پردیس کی زندگی‘ سے متعلق ان کے خیالات اہمیت کے حامل تھے، لیکن ان خیالات پر بحث و مباحثہ کے بعد کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے کی ضرورت ہے۔ ’خاندانی تشدد‘ کے مسئلے پر مولانا رضی الاسلام ندوی کی کاوش قابلِ ذکر ہے۔
۱- انتظامیات ، کاروباری مطالعات اور شخصیت کو بہتر بنانے کی کتابیں، ۲- بچوں کی معلوماتی کتابیں، ۳- خانہ داری، تربیت اطفال ، غذا اور صحت سے متعلق خواتین کی کتابیں۔
ہمارے یہاں پاپولر لٹریچر اور خاص طور پر ان تین اقسام (categories) پر کماحقہ کام نہیں ہوسکا۔ ان تینوں اقسام میں یہ زبردست صلاحیت موجود ہے کہ اقدار، اصول اور تصورات کو عوامی سطح پر ان کے ذریعے مقبول بنایا جاسکتا ہے۔ خواتین کے لٹریچر میں ایک زمانے میں ماہنامہ بتول لاہور نے اچھا کام کیا تھا۔ محترمہ حمیدہ بیگم، پروفیسر بنت الاسلام اور نیربانو نے اس ضمن میں شان دار کام کیا تھا۔ لیکن ایک عرصے سے یہ محاذخالی ہوتا جا رہا ہے اور سطحی افسانوی ادب کے علَم بردار رسالوں اور ان کے اشاعتی اداروں نے اس محاذ پر قبضہ جما رکھا ہے۔ ہمارے حلقہ ہاے خواتین کو بھی اس مسئلے پر توجہ دینی چاہیے اور تحریک کو بحیثیت مجموعی اس پر متوجہ ہونا چاہیے۔
اسی طرح بچوں کے لٹریچر کی تیاری بہت پتّا ماری کا کام ہے۔ اب بچوں کا ذوق بہت بلند ہوچکا ہے۔ وہ صرف کہانیوں کی کتابیں نہیں پڑھتے، بلکہ چھے سات سال کے بچے بھی اُونچی معلوماتی کتابیں پڑھنے لگے ہیں۔ ان کی کتابوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ کاغذ کی قسم اور طباعت کے معیار کے اعتبار سے بھی اعلیٰ درجے کی ہوں اور معنوی خصوصیات کے اعتبار سے بھی مثالی۔ یاد رہے کہ مارکیٹ میں بچوں کے لیے کتابوں کی بڑی وسیع دنیا موجود ہے۔ مغربی تہذیب کے ساتھ اب اس محاذ پر عیسائی اور ہندو ادارے بھی خاصے سرگرم ہیں۔ کتابوں کی دکانوں پر ان کی پُرکشش اور دیدہ زیب کتابیں بچوں کو للچاتی ہیں۔ ہندستان میں ثانی اثنین خان کے ادارہ گڈورڈ پبلی کیشنز نے اور عالمی سطح پر عبدالملک مجاہد [پ:۱۹۵۱ئ] کی سربراہی میں سائونڈ وژن، شکاگو نے اچھی ابتدا کی، لیکن یہ ازحد ضروری ہے کہ تحریکاتِ اسلامی بھی اس پر بھرپور توجہ دیں۔گذشتہ صدی کے پانچویں عشرے کے دوران مائل خیرآبادی، بنت الاسلام اور طالب الہاشمی وغیرہ نے اُردو میں، اور پھر ساتویں عشرے میں خرم مراد [۱۹۳۲ئ-۱۹۹۶ئ] نے انگریزی میں بچوں کے لیے لٹریچر تیار کرنے کی خاطر ’دی اسلامک فائونڈیشن‘، برطانیہ میں بامعنی قدم اُٹھایا تھا، مگر بعدازاں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوسکی۔ یاد رہے، بچوں کے لٹریچر میں تازگی کا احساس اور عصری حوالوں کا وجود ازحد ضروری ہے۔
مسابقت کی دوڑ، شہری زندگی کے تنائو اور روحانی پیاس نے آج دنیا بھر میں اُس لٹریچر کو بہت مقبول بنایا ہے، جسے ذاتی بہتری (self improvement) کا لٹریچر کہا جاتا ہے۔ دل نشیں زبان اور پُرکشش پیراے میں زندگی کی تنظیم کے اصول اور نظریات بیان کیے جاتے ہیں اور قصوں، تمثیلوں، لطائف وغیرہ کے ذریعے مشکل فلسفوں کو نہایت آسان کر دیا جاتا ہے۔ یہ کتابیں تھکے ماندے ذہنوں کے لیے تفریح بھی فراہم کرتی ہیں اور ان کی مصروف اور تنائو سے پُر زندگیوں کی اُلجھنوں کو دُور کرنے کا کام کرتی ہیں۔
اسلامی علمی تاریخ میں سعدی شیرازی [۱۲۱۰ئ-۱۲۹۲ئ]اور مولانا جلال الدین رومی [۱۲۰۷ئ- ۱۲۷۳ئ] نے اس فن کو انتہائی بلندی تک پہنچایا تھا۔ ماضی قریب میں گرو اوشور جنیش [۱۹۳۱ئ- ۱۹۹۰ئ] نے اسی طرزِ بیان کے ذریعے اپنے خیالات کو ساری دنیا میں پھیلا دیا۔ آج ساری دنیا میں اس طرح کا لٹریچر مقبول ترین لٹریچر بن چکا ہے اور ہوائی جہازوں سے لے کر پارکوں اور دفتروں تک، ہر جگہ لوگ اس طرح کی کتابیں پڑھتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اسلامی حلقوں میں عربی زبان میں اس طرح کی کتابوں کا رجحان شروع ہوا ہے، لیکن اُردو اور انگریزی میں اس پر توجہ ہونا ابھی بھی باقی ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ ایمان اور دعوت، انصاف اور تہذیب، شرفِ انسانی کو پروان چڑھانے اور قرآن و سنت سے دنیا کو جوڑنے کے لیے یہ اُمور مرکزیت رکھنے کے باوجود، غالباً ثانوی درجے ہی میں کہیں دُور دکھائی دیتے ہیں، یا پھر سرے سے نگاہوں سے اوجھل۔
کیا اس صورت میں غالب اور حاکم تہذیب و تمدن کا جواب دینا ممکن ہے؟