۲۰۱۶ مارچ

فہرست مضامین

کرپشن کے خلاف جہاد : وقت کی ضرورت

پروفیسر خورشید احمد | ۲۰۱۶ مارچ | اشارات

Responsive image Responsive image

۲۳مارچ ہر سال تحریک ِ پاکستان اور مقاصد ِ پاکستان کے شعور کو تازہ کرنے اور اپنی اصل منزل کی طرف پیش قدمی کے عزم کی تجدید کا دن ہے۔ اس سال یہ تاریخی دن ایسے حالات میں آرہا ہے، جب ملک ِ عزیز اپنی زندگی، بقا اور ترقی کی جدوجہد میں ایک بڑے ہی نازک اور فیصلہ کن مرحلے سے دوچار ہے۔

جمہوریت کا سفر باربار منقطع ہونے کے بعد، ۲۰۰۸ء سے پھر شروع ہوا۔ لیکن یہ آٹھ سال آزمایش اور ابتلا کی ایک دل خراش داستان سناتے ہیں۔ فوجی آمریت کی جو رات اکتوبر ۱۹۹۹ء میں شروع ہوئی تھی، وہ ۲۰۰۷ء کی اعلیٰ عدلیہ بحالی تحریک کے نتیجے میں ختم ہوئی۔ صدافسوس کہ پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں نے پانچ سال اور پھر موجودہ برسرِاقتدار مسلم لیگ (ن) اور اس کے حلیفوں کی حکمرانی کے ڈھائی پونے تین سال، حالات کو صحیح سمت میں بدلنے اور ملک کو ایک حقیقی اسلامی، جمہوری اور فلاحی ریاست بنانے میں ناکامی سے دوچار دکھائی دیتے ہیں۔

پیپلزپارٹی کے پانچ سال (۲۰۰۸ئ-۲۰۱۳ئ): نظریاتی اور فکری انتشار، بیرونی دبائو اور محتاجی، معاشی بگاڑ اور سیاسی خلفشار، اداراتی کش مکش اور عوامی مسائل سے پہلوتہی، توانائی، تعلیم اور صحت کے اُمور سے مجرمانہ غفلت، مفاد پرستی اور سب سے بڑھ کر بدعنوانی اور کرپشن کا عنوان بنے رہے۔ اس عبرت آموز دورِ حکمرانی کے بعد توقع تھی کہ ۲۰۱۳ء میں برسرِاقتدار آنے والی مسلم لیگ (ن) کی تیسری حکومت بہتر حکمرانی اور پاکستان کے اصل مقاصد کے حصول کے لیے نئی اور مؤثر پالیسیاں نافذ کرے گی جن کا اس پارٹی نے اپنے منشور میں وعدہ کیا تھا، مگر ان ڈھائی پونے تین برسوں میں، اس حکومت نے جس ہوش ربا خراب حکمرانی (Mega-Misgovernance) کا مظاہرہ کیا ہے، اس نے حالات کو خطرناک حد تک بگاڑ دیا ہے۔ عوام مایوس، مضطرب اور خوف زدہ ہیں۔

۲۰۰۱ء سے’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر امریکا اور اس کے اتحادیوں نے، افغانستان اور پاکستان پر جو جنگ مسلط کی تھی، اس کی آگ میں دونوں ملک آج تک جل رہے ہیں۔ غضب یہ ہے کہ جو جنگ، ہماری جنگ نہ تھی، وہ اب ہماری جنگ بن گئی ہے۔ قوم اور   افواجِ پاکستان کی بیش بہا قربانیوں، عوام کے جان، مال، عزت اور امن و امان کی نہ کم ہونے والی تباہ کاریوں اور بڑے پیمانے پر آبادیوں کی نقل مکانی کے باوجود یہ جنگ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی بلکہ اس جنگ میں کئی نئے کردار اور حکومتیں حصہ ادا کرتی دکھائی دے رہی ہیں۔

دوسری طرف پاکستانی معیشت جمود کا شکار ہے۔ ۱۱۵؍ارب ڈالر کے خطیر نقصانات اُٹھانے کے ساتھ قرض، غربت اور محرومی ہمارا مقدر بنے ہوئے ہیں۔ بجلی اور توانائی کا بحران جاری ہے۔ ایک طرف بے روزگاری، مہنگائی اور فقروفاقہ کا سیلاب ہے، تو دوسری جانب اشرافیہ کے خزانوں میں دولت کی ریل پیل ہے۔ ملک میں بااختیار افراد، اعلیٰ طبقات اور بیش تر علاقوں میں دولت اور وسائل کی ہولناک عدم مساوات، عفریت کا رُوپ دھار چکے ہیں۔ خودانحصاری کا فقدان اور بیرونی دنیا پر انحصار میں اضافہ ہماری قومی پہچان بن گئی ہے۔ اس سب پر امریکا اور مغربی ممالک: اپنے حلیف پاکستان کو دنیا کے ’خطرناک ترین‘ اور ’ناقابلِ اعتبار‘ ممالک میں شامل کرتے ہیں اور do more کے مطالبات کی بوچھاڑ جاری رکھے ہوئے ہیں۔

علاقائی اور عالمی پس منظر بھی کوئی اچھی خبر نہیں لارہا۔ عالمی معیشت میں ۲۰۰۸ء سے کساد بازاری کے جو منفی رجحانات شروع ہوئے تھے، ساری کوششوں کے باوجود جاری ہیں۔ بیش تر عالمی ادارے نئے خطرات کا بگل بجا رہے ہیں۔ سرمایہ دارانہ ممالک کی جو اعلیٰ سطحی کانفرنس، سویزرلینڈکے شہر ڈیوو میں ۴۵برس سے ہو رہی ہے، اس کے حالیہ اجلاس (جنوری ۲۰۱۶ئ) میں مشہور ارب پتی بدنامِ زمانہ یہودی ساہوکار جارج سوروس نے کہا ہے کہ: ’’۲۰۱۶ء ایک نئے نشیب کے سفر کا سال ہوسکتا ہے‘‘۔

ادھر پورا شرق اوسط جنگ کی لپیٹ میں ہے۔ جو ایک طرف عالمی طاقتوں کی باہمی زورآزمائی کی آماج گاہ بن گیا ہے اور دوسری طرف فرقہ وارانہ بنیادوں پر خانہ جنگی کا منظر بھی پیش کر رہا ہے۔ اور اس جنگ کی تپش پاکستان تک پہنچ چکی ہے۔

ان حالات میں ملک کی قیادت کو جس بالغ نظری، جس دیانت و امانت ، جس فہم و فراست اور جس قومی یک جہتی کے ساتھ ملک و ملّت کی خدمت کی مثال قائم کرنی چاہیے تھی، افسوس کہ اس کا دُور دُور نشان نہیں ملتا۔ مفادپرستی، شخصی حکمرانی، سیاسی جانب داری اور پنجہ آزمائی مالیاتی لُوٹ مار اور اداراتی کمزوری اور کش مکش کا دور دورہ ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکمرانوں اور عوام الناس کے درمیان ایک خلیج ہے، گویا کہ وہ دو مختلف دنیائوں میں بس رہے ہیں اور ان میں یہ دُوری روز بروز بڑھتی ہی جا رہی ہے۔

۲۳مارچ ۱۹۴۰ء ایک تاریخی لمحہ تھا، جب اُمت مسلمہ پاک و ہند نے ایک روشن اسلامی مستقبل کا خواب دیکھا تھا۔ پھر ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستانی قوم نے بڑی قربانیاں دے کر قائداعظمؒ کی قیادت میں جدوجہد کا ایک طویل اور کرب ناک سفر طے کیا تھا۔ اس طرح اپنے خواب کی تعبیر کی پہلی کرن بچشم سر دیکھی تھی اور نئی زندگی کا نیا سفر شروع کیا تھا۔ لیکن سات عشروں پر محیط یہ سفر بہت سے روشن سنگ ہاے میل کے باوجود ایک کرب ناک سفر رہا ہے ۔ قوم زبانِ حال سے اور دُکھ بھرے انداز میں سوچنے پر مجبور ہے کہ   ع

وہ انتظار تھا جس کا ، یہ وہ سحر تو نہیں

مایوسی کفر ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ زمانہ بدلتا رہتا ہے۔ ہر قوم پر اور خود ہم پر باربار بُرا وقت آیا ہے، لیکن ہر نشیب کے بعد فراز اور ہر رات کے بعد صبحِ نو طلوع ہوتی ہے۔ یہی اللہ کی سنت ہے اور وہ لوگوں کے درمیان زمانے کو اپنی حکمت کے مطابق گردش دیتا رہتا ہے۔پھر اس میں یہ بھی حکمت ہے کہ کبھی رات چھوٹی ہوتی ہے اور کبھی لمبی۔ لیکن بالآخر سپیدۂ صبح رُونما ہوتا ہے اور :

یوں اہلِ توکل کی بسر ہوتی ہے

ہر لمحہ بلندی پہ نظر ہوتی ہے

گھبرائیں نہ ظلمت سے گزرنے والے

آغوش میں ہر شب کے سحر ہوتی ہے

البتہ یہ بھی اللہ کی سنت ہے کہ تبدیلی خود بخود نہیں آتی، اس کے لیے کوشش اور جدوجہد کرنا ہوتی ہے۔ صحیح منزل کا تعین، حالات کا دیانت دارانہ اور حقیقت پسندانہ جائزہ لینا ہوتا ہے۔ ترقی اور بگاڑ کے اسباب کا تعین کرنا ہوتا ہے۔ حکمت عملی اور اہداف کا ادراک اور اس کے مطابق عمل کا نقشۂ کار مرتب کیا جاتا ہے۔ پھر ایمان اور احتساب کے ساتھ جدوجہد بھی کرنی ہوتی ہے۔ مثبت تبدیلی اور منزل کی طرف پیش قدمی کا یہی راستہ ہے۔ اس جدوجہد کا نام جہاد فی سبیل اللہ ہے۔

انتشار اور بدحالی کا بنیادی سبب

اس ابتدائی گزارش کے بعد ہم پوری قوم کو دعوت دینا چاہتے ہیں کہ وہ ایمان داری سے حالات کا تجزیہ کرکے متعین کرے کہ ہمارے موجودہ فکری انتشار، سیاسی خلفشار، معاشی بگاڑ،  تہذیبی تنزل، طبقاتی تصادم، صوبہ جاتی کش مکش، اداراتی ٹکرائو ، اشرافیہ سے نفرت اور عوام کی زبوں حالی کی بنیادی وجہ کیا ہے؟

جہاں تک ہم نے اس پر غور کیا ہے، اس کے تین پہلوہیں، جو ایک دوسرے سے مربوط اور جڑے ہوئے ہیں، یعنی:

  •   اللہ سے بے وفائی l نفس پرستی اور دنیا طلبیl اللہ کی مخلوق سے دُوری اور ان کے حقوق کے باب میں کوتاہی، غداری، بگاڑ ۔

اس پوری کیفیت کو ایک لفظ میں سمیٹنے کی کوشش کی جائے تو اسے ’کرپشن‘ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ کرپشن دراصل فساد فی الارض کی ایک شکل ہے۔ جو نام ہے حق، عدل اور انصاف کے برعکس صلاحیت، حیثیت، منصب اور وسیلے کے ناجائز استعمال کا، نیز ذاتی، گروہی یا باطل مقاصد کے لیے قوت کے جاہلانہ استعمال کا۔

عرفِ عام میں تو کرپشن کوبالعموم رشوت، مالی بے ضابطگی اور خردبرد کے مفہوم میں استعمال کیا جاتا ہے، لیکن اپنی اصل کے اعتبار سے یہ لفظ حق، انصاف ، وفاداری، دیانت و امانت اور حُسنِ اخلاق کی ضد ہے۔ اپنے وسیع تر مفہوم میں اس رویے اور اس شخصیت کے لیے استعمال ہوتا ہے، جو زندگی کے بارے میں غیراخلاقی رویہ اختیار کرے۔ جو حق وانصاف کا باغی ہو اور اپنی ذات اور خواہشات کو خدا بنانے والا ہو۔ جو اپنے خالق اور اخلاقی اقدار سے کٹا ہوا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ   یہ لفظ ایک منتشر شخصیت کے بارے میں استعمال ہوتا ہے، جس کا کوئی واضح اُجلارنگ رُوپ نہ ہو۔ جو اخلاق،اقدار اور پیمانۂ حق و باطل سے کچھ بھی تعلق نہ رکھتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے وسیع مفہوم میں کرپشن کی ایک شکل فکری اور اعتقادی بھی ہے۔ انفرادی سطح پر فرد کے اخلاق اور شخصیت و کردار  کے انتشار سے اس کا تعلق بنتا ہے۔ اجتماعی معاملات میں حق و انصاف کی پامالی اور ظلم ، دوسروں کی حق تلفی اور اکل بالباطل سے یہ عبارت ہے۔ رشوت، چوری، خردبرد، مالی لُوٹ مار تو اس کی صرف مختلف شکلوں میں سے چند ایک ہیں، اور بس انھی تک اسے محدود نہیں سمجھنا چاہیے، بلکہ اس کی وسعت کو ذہن میں لانا چاہیے۔ تخلیقِ آدم ؑکے وقت فرشتوں نے انسان کے وجود سے جس خوف کا اظہار فساد فی الارض کے الفاظ میں کیا تھا، غالباً کرپشن ہی وہ رویہ ہے کہ جس سے یہ بگاڑ، یعنی حق تلفی، باطل پرستی، ظلم و عدوان کا ارتکاب اور حدود کی پامالی واقع ہوتے ہیں۔

کرپشن کے باب میں لٹریچر کے جائزے سے اس کی کم از کم تین صورتیں سامنے آتی ہیں:

۱- عمومی بدعنوانیاں(Petty Corruptions): انفرادی سطح پر دوسروں سے بلااستحقاق مالی، مادی یا دوسری سہولتیں (favours ) حاصل کرنا اور اپنی بالاتر پوزیشن کا ناجائز استعمال۔

۲- وسیع بدعنوانیاں (Grand Corruptions): اہلِ اختیار کا اپنی حیثیت، مرتبے کا ایسا غلط استعمال، جو انفرادی اور اجتماعی ہرسطح پر معاملات کو متاثر کرے۔ اس کا محل: حکومت، سرکاری ادارے، کارپوریشن اور ملک کا مالیاتی، قانونی اور سیاسی نظام ہے، جسے صاحب ِ اختیار لوگ، قوم کے وسائل کو مفاد عام اور حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کریں۔ آج دنیا میں اس کرپشن کے تدارک کے لیے اختیار کیے جانے والے قوانین، ضابطوں اور سزائوںوغیرہ کا زیادہ تعلق اسی نوعیت سے ہے۔

۳- اداراتی اور اجتماعی بدعنوانی (Systematic & Collective Corruption): متعلقہ تجزیاتی لٹریچر میں اسے endemic(مخصوص)کرپشن کی اصطلاح میں بھی بیان کیا جاتا ہے۔ اس کا تعلق فرد کی ذاتی خواہشات و اختیارات کے غلط استعمال، خردبرد اور لُوٹ مار کے مقابلے میں نظام کی خرابی سے ہے، جس کی وجہ سے ایک گلاسڑا نظام، کرپشن کے لیے سازگار بن جائے۔ جس میں اس فساد کے لیے رخنے اور چوردروازے کھلے چھوڑ دیے گئے ہوں۔ جس سے خود نظام، کرپشن کو پروان چڑھانے کا ذریعہ اور وسیلہ بن جائے۔

صحیح تر الفاظ میں کرپشن کا ایک بازار تو افراد اور تنظیموں کے ہاتھوں سجتا ہے۔ دوسرا نتیجہ ہوتا ہے، اداروں، نظامِ کار کی کمزوریوں، قواعد و ضوابط کے داخلی جھول، اختیارات کے بے جا ارتکاز، ذاتی اور اداراتی مفادات میں عدم تفریق اور شفافیت کے فقدان کا۔

کرپشن اپنی ان تینوں صورتوں میں بدعنوانی، بداخلاقی اور ایک مجرمانہ فعل ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے یہ فرد اور معاشرے دونوں کے خلاف جرم ہے، جو دنیا اور آخرت دونوں میں سزاوارِ گرفت ہے۔ یہ حقوق العباد پر ڈاکازنی اور فرد کے خلاف جرم ہے کہ جس کا حق آپ نے لوٹا ہے، اسے واپس لینے کا حق ہے۔ قانون اور معاشرے کو یہ حق، حق دار کی طرف منتقلی کا انتظام کرنا چاہیے۔ لیکن دوسری طرف یہ فعل انسانی روح اور تہذیب و شرافت کے خلاف بھی جرم ہے۔ اس لیے پوری سوسائٹی اور ریاست کا کام ہے کہ کرپشن کے دروازوں کو بند کرے اور کرپشن کرنے والوں کو قانون کی گرفت میں لائے۔ ان سے مالِ ناحق وصول کرے۔معاشرے اور ریاست کے حقوق پر دست اندازی کرنے کے ذمہ داروں کو ان کے جرم کی سزا بھی دے۔

کرپشن : دینی نقطۂ نظر

سب سے بڑھ کر یہ اللہ کی میزان میں گناہ ہے۔ اللہ دنیا اور آخرت میں اس پر اپنی مشیت کے مطابق گرفت کرے گا۔ عوام کے حقوق پر ڈاکا زنی محض توبہ سے معاف نہیں ہوسکتی۔ جب تک حق تلفی کا شکار ہونے والوں کو ان کا حق نہ مل جائے یا وہ خود معاف نہ کردیں، اس وقت تک بدعنوانی کا مرتکب شخص گناہ گار اور مجرم رہے گا۔ پھر اس نوعیت کی حق تلفی اور ظلم کے عمل میں جو جتنا بھی شریک اور معاون ہوگا، اسی درجے میں وہ ذمے دار ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ رشوت کے باب میں اسلام کا حکم یہ ہے کہ: رشوت دینے اور رشوت لینے والا دونوں مجرم ہیں اور ان کا ٹھکانا جہنم کی آگ ہے۔

ناپ تول میں بددیانتی، امانت میں خیانت، سود، سٹہ، جوا، چوری، ڈاکا، مال و دولت میں خردبرد، غرض کسی بھی باطل ذریعے سے دولت، منافع یا کسی اور نوعیت کی طرف داری (favour) حاصل کرنے کے نتیجے میں معاشرے میں ظلم اور فساد فروغ پاتا ہے۔ نفرتیں اور محرومیاں جنم لیتی ہیں۔ دولت کی عدم مساوات کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ ملک کی معاشی سرگرمیوں اور ترقی میں بھی خلل واقع ہوتا ہے۔ پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے اور وسائل کے مناسب اور مفید ترین استعمال کا عمل مجروح ہوتا ہے، جو درحقیقت معاشی ترقی اور عوام کی خوش حالی کی ضمانت ہے۔

قرآن مجید نے اس صورتِ حال کو جامعیت کے ساتھ بیان کر دیاہے:

  • اے لوگو جو ایمان لائے ہو، آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھائو۔(النساء ۴:۲۹)

امانت اور دیانت ہر معاملے میں مسلمان مرد اور عورت کی امتیازی شان اور پہچان ہے:

  •  اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جانتے بوجھتے اللہ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ خیانت  نہ کرو، اپنی امانتوں میں غداری کے مرتکب نہ ہو اور جان رکھو کہ تمھارے مال اور تمھاری اولاد حقیقت میں سامان آزمایش ہیں اور اللہ کے پاس اجردینے کے لیے بہت کچھ ہے۔(انفال ۸:۲۷-۲۸)

حضرت شعیب علیہ السلام کی زبان میں ناپ تول میں کمی اور تجارت میں بدمعاشی کو زمین میں فساد جیسا جرم قرار دیا اور اللہ کے عذاب کا لازمی سزاوار:

  •  اے میری قوم کے لوگو، اللہ کی بندگی کرو، اس کے ساتھ تمھارا کوئی خدا نہیں ہے۔ اور ناپ تول میں کمی نہ کیا کرو۔ آج میں تم کو اچھے حال میں دیکھ رہا ہوں، مگر مجھے ڈر ہے کہ کل تم پر ایسا دن آئے گا، جس کا عذاب سب کو گھیرلے گا۔ اے برادرانِ قوم! ٹھیک ٹھیک انصاف کے ساتھ پورا ناپو اور تولو اور لوگوں کو ان کی چیزوں میں گھاٹا نہ دیا کرو اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو۔(ھود ۱۱:۸۴-۸۵)

اسی طرح قدرتِ حق نے جہاں معاشی تگ و دو اور رزقِ حلال کی تلاش کو فرض کیا، وہیں فضول خرچی سے منع فرمایا اور قناعت اور اعتدال کا حکم بھی دیا، تاکہ زندگی میں توازن رہے اور انسان ہوس اور نفس کا بندہ بن کر نہ رہ جائے۔ پھر اس سب کو ایک کُلی نظام کا حصہ بنا دیا، جو انسانوں کے تمام معاملات میں عدل و انصاف کا قیام،امانتوں اور ذمہ داریوں کو ان کے اہل افراد کے سپرد کرنا، اور زندگی کے تمام معاملات کو خیر، حق اور دیانت کے تابع کرنا اور شر، باطل اور خیانت کاری سے حتی المقدور بچنے کی کوشش کرنا ہے:

  •  ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا، اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔(الحدید ۵۷:۵۲)
  • مسلمانو، اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہلِ امانت کے سپرد کرو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔ اللہ تم کو نہایت عمدہ نصیحت کرتا ہے اور یقینا اللہ سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے۔(النسائ۴:۵۸)

حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمرفاروقؓ نے خلافت کا حلف لیتے ہی اپنے اپنے انداز میں اس امر کا اعلان کیا اور پورے دورِ خلافت میں اس پر عمل کیا کہ طاقت ور اور کمزور کے فرق کو معاشرے میں ختم کر دیں گے۔ جس کا بھی جو حق ہے، خواہ وہ کمزور ہی کیوں نہ ہو، اس کو پہنچا کر دم لیں گے۔ان کی نگاہ میں کوئی ایسا طاقت ور نہیں ہوگا، جو دوسروں کے حق پر ناجائز قابض ہوجائے اور خلیفۃ المسلمین اس غاصب سے حق لے کر کمزور کو نہ لوٹا دیں۔ یہ ہے دادرسی اور خوداختیاری (Empowerment ) کا وہ ہدف اور ذمہ داری، جو اسلام نے مسلمانوں کے حکمرانوں کو سونپی ہے۔ یہی وہ اعلیٰ نظام ہے، جس کے ذریعے زندگی میں ہرسطح پر کرپشن کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے، اور تمام انسانوں کے درمیان انصاف، ایک دوسرے کے حقوق کی مکمل پاس داری، امانت اور دیانت کے معاشی اور سرکاری اُمورکی ادایگی اور معاشرے کے تمام افراد کے لیے جان، مال، عزت، حقوق کا تحفظ اور بنیادی ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کا اہتمام ہوسکتا ہے۔

بانیانِ پاکستان کا طرزِعمل

بلاشبہہ قیامِ پاکستان کا مقصد ایک ایسے ہی معاشرے اور سیاسی و اجتماعی نظام کا قیام تھا اور علامہ محمد اقبال اور قائداعظم نے صاف لفظوں میں اس کا باربار اظہار کیا تھا۔ قائداعظم اور لیاقت علی خان نے قومی خزانے کو ایک امانت سمجھا اور عملاً ایسی مثال قائم کی جو روشنی کا مینار تھی۔ آخری برطانوی وائس راے مائونٹ بیٹن جو قائداعظم سے سخت ناخوش تھا اور پنڈت جواہر لال نہرو کا دوست اور ہم مشرب تھا، اس نے بھی ہندستانی مسلم قیادت کو ذہن میں رکھتے ہوئے برملا کہا کہ: 'Muslims will perhaps never get such an honest leader` (مسلمان غالباً کبھی ایسا دیانت دار لیڈر نہ پاسکیں گے)، جب کہ ان کے مدِمقابل گاندھی جی نے لوئی فشر کو انٹرویو دیتے ہوئے اعتراف کیا:Jinnah is incorruptible and brave` '(جناح ایک دیانت دار اور بہادر انسان ہیں)۔ اور علامہ محمد اقبال نے کہا:'He is incorruptible and unpurchasable`  (وہ ایک کھرے اور ناقابلِ خرید ہیں)۔

قائداعظم نے ریاست کے وسائل کو اپنی ذات کے لیے کبھی استعمال نہیں کیا اور جب ان کے رفقا نے اصرار کیا کہ علاج کے لیے وہ انگلستان یا امریکا تشریف لے جائیں، یا کم از کم وہاں سے ڈاکٹر بلانے کی اجازت دے دیں، تو انھوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میرا ملک اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

نواب زادہ لیاقت علی خان، مشرقی پنجاب کے بڑے زمین دار اور ایک نہایت متمول فرد تھے۔ دہلی میں ان کی شان دار کوٹھی دیکھنے کے لائق تھی۔ یہی کوٹھی، کُل ہند مسلم لیگ کی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز تھی۔ قیامِ پاکستان کے بعد انھوں نے اپنی یہ کوٹھی پاکستان کے سفارت خانے کے طور پر وقف کردی تھی اور اس کا کوئی متبادل پاکستان میں نہیں لیا تھا۔

پاکستان کے معروف سفارت کار جناب جمشید مارکر، لیاقت علی خان سے دوستانہ مراسم رکھتے تھے۔وہ اپنی خودنوشت میں لکھتے ہیں کہ: میں نے زندگی میں صرف ایک بار ان کو بہت زیادہ غصے میں دیکھا اور یہ وہ دن تھا، جب ایک سیکرٹری نے ان کے سامنے ایک فائل پیش کی کہ:  ’’مشرقی پنجاب میں ان کی جو جاگیر رہ گئی ہے، اس کے عوض کراچی اور سندھ میں زمینیں الاٹ کرالیں‘‘۔ لیاقت علی خان نے فائل ان صاحب کے منہ پر پھینک کر کہا:’’آئو میرے ساتھ کراچی کی ان آبادیوں کو دیکھو، جہاں پاکستان کے لیے اپنا سب کچھ چھوڑ کر ہجرت کرنے والے کھلے آسمان تلے زندگی گزار رہے ہیں‘‘___ جب پاکستان کے اِنھی پہلے وزیراعظم کو تقریباً چارسال بعد قتل کر دیا گیا، تو ان کے بنک اکائونٹ میں کُل ۴۷ہزار روپے تھے اور کوئی جایداد پاکستان میں نہیں تھی۔

موجودہ حکمرانوں کی روش

یہ تھا بانیانِ پاکستان کا طرزِعمل___ اور آج ہمارے حکمران طبقوں کا کیا حال ہے؟ ملک اور ملک سے باہر دولت کی فراوانی کے باوجود دولت کی مزید ہوس کا کیا عالم ہے؟ اس آئینے میں ملک کے عوام کی حالت زار کی اصل وجہ دیکھی جاسکتی ہے۔

قائداعظم مسلمانوں کے پڑھے لکھے طبقے کی نفس پرستی اور دیانت و امانت کے دیوالیہ پن کے بارے میں سخت فکرمند تھے۔۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر کو ہمارے حکمران اور لبرل عناصر    اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے نہیں تھکتے، مگر اُن کو تقریر کا وہ حصہ بالکل نظر نہیں آتا، جس میں شہریت کے مسئلے پر کلام کرنے سے پہلے قائداعظم نے جس خطرے پر متنبہ کیا تھا، وہ کرپشن اور اقرباپروری ہی تھا۔ بعد کے حکمرانوں نے، خصوصیت سے جنرل ایوب خان اور ان کے بعد آنے والے سبھی حکمرانوں نے اپنے اپنے انداز میں کرپشن کے باب میں کھلی چھوٹ اور معافیت (immunity) حاصل کی اور پھر رنگے ہاتھوں اس کے فروغ کا راستہ اختیار کیا۔ اسی کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ملک میں کالے دھن (black money) پر مبنی معیشت، اصل قومی معیشت سے کئی گنا زیادہ ہے۔ ملک سے لُوٹے ہوئے وسائل جو ملک سے باہر ہیں، وہ ملک کی دولت سے کہیں زیادہ ہیں۔ قومی معیشت ایک گلی سڑی لاش بن کر رہ گئی ہے، جس کا تعفن دُور دُور تک پھیلا ہوا ہے۔ ۱۰ فی صد اشرافیہ ۹۰فی صد سے زیادہ دولت پر قابض ہے اور یہ دولت انھی کے درمیان گردش کر رہی ہے، جب کہ ۹۰فی صد عوام محرومی اور بے چارگی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عام شہری تعلیم، صحت، روزگار، مکان، سواری ، ہر سہولت سے محروم ہے۔

کرپشن اپنی مختلف شکلوں میں موجود اور فراواں ہے۔ فکری اور نظریاتی کرپشن، اخلاقی اور معاشی کرپشن، مالی اور معاشی کرپشن، سیاسی اور قانونی کرپشن، اداراتی کرپشن، حتیٰ کہ ان ظالموں نے حج، اوقاف، تعلیم، صحت، عمررسیدہ انسانوں کے فنڈ اور غریبوں اور محتاجوں کے لیے بے نظیر انکم سپورٹ فنڈ تک میں بھی کرپشن کرنے میں شرم محسوس نہیں کی۔ پھر، کرپشن روکنے کے لیے جو ادارے بنائے گئے ہیں، الا ماشاء اللہ، وہ کرپشن ختم کرنے کے لیے نہیں بلکہ کرپشن کو تحفظ دینے اور فروغ دینے کا ذریعہ بن گئے ہیں یا سمجھے جارہے ہیں۔

اس کی بدترین مثال نیب آرڈی ننس ۱۹۹۹ء کی دفعہ ۲۵ ہے، جس کے تحت نیب (NAB: نیشنل اکائونٹی بلیٹی بیورو)  کے چیئرمین کو استحقاقی قوت (Discretionary power ) حاصل ہے کہ وہ ’بہانہ ساز سودے سازی‘ یا ’پلی بارگین‘ (Plea Bargain) کے نام پر کرپشن کے سارے ثبوتوں کے باوجود، اپنی مرضی سے کالے دَھن کا ایک حصہ وصول کرکے، باقی تمام لُوٹی ہوئی دولت، کرپشن کا ارتکاب کرنے والے فرد___ سیاست دان، تاجر ، صنعت کار، سول اور فوجی افسروں، بیوروکریٹس کو  مزے لینے کے لیے ہبہ کردے اور اس طرح وہ گنگا نہاکر پاک صاف ہوجائیں۔ عملاً ۱۰ سے ۲۰ فی صد رقم لے کر یہ قابلِ نفرت کام نیب ۱۸برسوں سے کر رہا ہے، جسے سپریم کورٹ کے ایک چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے 'Consitutional Corruption` (دستوری کرپشن) قرار دیا ہے اور جرم سے بڑے جرم، یعنی جرم کی سرپرستی اور اس کی توقیر قرار دیا ہے۔

 اس ادارے نے ۱۸برس میں غالباً ۱۸؍افراد کو بھی قرار واقعی سزا نہیں دی ہے، مگر اس کے باوجود اس ادارے پر ان ۱۸برسوں میں اربوں روپے قومی خزانے کے صرف ہوگئے ہیں۔ اقبال نے سیاسی غلامی کے باب میںکہا تھا کہ     ؎

تھا جو ’ناخوب‘ بتدریج وہی ’خوب‘ ہوا

کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر

ہمارا المیہ ہے کہ آزادی کے بعد یہ سانحہ ہم پر کچھ اور بھی سوا ہوکر گزر رہا ہے، جس کی وجہ ہوس کی غلامی، دنیا کی پرستش اور احتساب اور جواب دہی کے فقدان کا نظام ہے۔ جس ملک کو   اللہ تعالیٰ نے بہترین انسانی اور مادی وسائل سے فیض یاب کیا تھا، وہ فقروفاقہ، بے روزگاری اور جہالت، بیماری اور بے سروسامانی کا شکار ہے۔

قائداعظم کا انتباہ

ہم بڑے دُکھ سے یہ بات کہنے پر مجبور ہیں کہ وہ طبقہ جسے ’اشرافیہ‘ کہا جاتا ہے، جو جمہوریت، لبرل ازم اور ترقی پسندی کا دعوے دار ہے، جس کے ہاتھوں میں آج تک زمامِ اقتدار رہی ہے، اس نے قوم کو دونوں ہاتھوں سے، جھولی بھربھر کے لوٹا ہے۔ اگرچہ اچھے لوگ ان میں بھی ہیں، لیکن بحیثیت مجموعی اس حکمران طبقے نے اپنے مفادات ہی کی پوجا کی ہے اور اللہ اور اللہ کے بندوں کے حقوق سے مجرمانہ رُوگردانی کی ہے۔ قائداعظم محمدعلی جناح اس طبقے کے بارے میں اپنی بصیرت کی بنیاد پر شاکی تھے۔ اپنے دوست ایم ایچ اصفہانی کو ذاتی خط (۶مئی ۱۹۴۵ئ) میں لکھتے ہیں:

کرپشن ایک لعنت ہے ہندستان میں، مگر خاص طور پر نام نہاد پڑھے لکھے مسلمانوں اور دانش وروں میں۔ بلاشک و شبہہ یہ وہ طبقہ ہے جو مفادپرستی، اخلاقی اور فکری سطح پر بدعنوانی کا مرتکب ہے۔ اس میں بھی کچھ شک نہیں ہے کہ یہ بیماری عام ہے،مگر بالخصوص مسلمانوں میں فراواں ہے۔

قائداعظم کے یہی احساسات تھے، جنھیں ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کو خطابِ آزادی کے دوران، اسمبلی کی بالادستی کے بارے میں اپنے خیالات کے اظہار کے بعد سب سے پہلے بیان کیا:

چور بازاری دوسری لعنت ہے۔ مجھے علم ہے کہ چور بازاری کرنے والے اکثر پکڑے جاتے ہیں اور سزا بھی پاتے ہیں۔ عدالتیں ان کے لیے قید کی سزائیں تجویز کرتی ہیں یا بعض اوقات ان پر صرف جرمانے ہی کیے جاتے ہیں۔ اب آپ کو اس لعنت کا بھی خاتمہ کرنا ہوگا۔ موجودہ تکلیف دہ حالات میں، جب ہمیں مسلسل خوراک کی قلت یا دیگر ضروری اشیاے صرف کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

چور بازاری معاشرے کے خلاف ایک بہت بڑا جرم ہے۔ جب کوئی شہری چور بازاری کرتا ہے تو میرے خیال میں وہ بڑے سے بڑے جرم سے بھی زیادہ گھنائونے جرم کا ارتکاب کرتا ہے۔ یہ چوربازاری کرنے والے لوگ باخبر، ذہین اور عام طور سے ذمہ دار لوگ ہوتے ہیں، اور جب یہ چور بازاری کرتے ہیں تو میرے خیال میں انھیں بہت کڑی سزا ملنی چاہیے، کیونکہ یہ لوگ خوراک اور دیگر ضروری اشیاے صرف کی باقاعدہ تقسیم کے نظام کو تہہ و بالا کردیتے ہیں اور اس طرح فاقہ کشی، احتیاج اور موت تک کا باعث بن جاتے ہیں۔

ایک اور بات جو فوری طور پر میرے سامنے آتی ہے، وہ ہے اقرباپروری اور احباب نوازی۔ یہ بھی ہمیں ورثے میں ملی، اور بہت سی اچھی بُری چیزوں کے ساتھ یہ لعنت بھی ہمارے حصے میں آئی ہے۔ اس بُرائی کو بھی سختی سے کچل دینا ہوگا۔ میں یہ واضح کردوں کہ میں نہ احباب پروری اور اقربانوازی کو برداشت کروں گا اور نہ ایسے کسی اثرورسوخ کو قبول کروں گا، جو مجھ پر بالواسطہ، یابلاواسطہ ڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔ جہاں کہیں مجھے معلوم ہوا کہ یہ طریقۂ کار رائج ہے، خواہ یہ اعلیٰ سطح پر ہو یا ادنیٰ پر، یقینی طور پر میں اس کو گوارا نہیں کروں گا۔

قائداعظم نے جس طبقے اور اس کے جس مرض کی نشان دہی کی ہے، وہ مسئلے کی نوعیت کو سمجھنے اور اس کے علاج کو تلاش کرنے کے لیے کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔ ہم صاف لفظوں میں عرض کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارا مقصد کسی خاص طبقے یا کسی خاص فرد کو ہدفِ ملامت بنانا نہیں ہے۔ حالانکہ خود قائداعظم کا تعلق بھی برعظیم کے پڑھے لکھے مسلمان طبقے سے تھا۔ اس لیے قائد کی بات کو اور ہماری تنقید کو کسی عصبیت کا شاخسانہ قرار نہیں دیا جانا چاہیے۔

حقیقت یہ ہے کہ تحریکِ پاکستان کے مخلص قائدین کو چھوڑ کر، جس طبقے نے اقتدارکو اپنی گرفت میں لے لیا، ان میں: سیاست دان، بیوروکریٹ، صحافی، دانش ور، مقتدر فوجی جرنیل، سبھی شامل تھے اور ہیں۔ اس طبقے میں بھی جو جتنا لبرل اور سیکولر تھا، وہ اتنا ہی اس ملک کو مغربیت، مادہ پرستی، مفادات کی خدائی اور نفسانفسی کی سیاست ،معیشت اور تہذیب کو تباہ کرنے پر تلاہوا تھا  اور تلا بیٹھا ہے۔

اسی پڑھے لکھے طبقے میں اسلام کے شیدائی، مشرقیت کے دل دادہ اور شرافت کے پُتلے بھی ایک تعداد میں موجود تھے اور وہ اپنا کردار بھی ادا کرتے رہے ہیں۔ انھی کی خدمات اور مبارک کوششوں کے نتیجے میں ایک بڑا خیر ہمارے معاشرے میں موجود ہے، جو حق و باطل کی کش مکش میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ۱۹۵۴ء کے بعد سے بحیثیت مجموعی اختیار و اقتدار جس طبقے کے ہاتھوں میں رہا، وہ تحریک ِ پاکستان اور اس کے مقاصد کے باب میں وفادار نہیں پایا گیا، الاماشاء اللہ۔ یہ بات صرف ہم نہیں کہہ رہے ہیں۔جن حضرات نے پاکستان کے بارے میں معروف مستشرقین پروفیسر ولفریڈ کنٹول اسمتھ اور ڈاکٹر کیتھ کلارڈ کی کتب کا مطالعہ کیا ہے، وہ گواہی دیں گے کہ دونوں نے اپنے اپنے انداز میں اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ پاکستان کو پٹڑی سے اُتارنے اور پھر مفادپرست معاشرے، معیشت اور تہذیب کی راہ پر ڈالنے میں اصل کردار مغرب زدہ سیکولر قیادت ہی نے انجام دیا ہے۔

کرپشن کے دائرے

کرپشن کے دائرے میں اس طبقے نے جو کارنامہ انجام دیا ہے، ہم اس کے اثراتِ بد کو بھگت رہے ہیں:

  •  فکری اور نظریاتی کرپشن: بظاہر نام اسلام کا استعمال کیا گیا۔ دستور اور قانون میں اس کا ذکر کیا گیا، تاکہ عوام کو دھوکا دیا اور اسلام پسند قوتوں کا منہ بند کیا جاسکے، لیکن عملاً تمام ہی پالیسیاں ذاتی مفادات، علاقائی تعصبات، صوبائی لُوٹ مار اور مغربی ممالک کے اشارۂ چشم پر بنائی گئیں۔ وسائل اپنی گرفت میں رکھے گئے اور عوام ایک ایک نوالے اور بوندبوند کے لیے ترستے رہے۔   اس مقتدر گروہ نے اسلام ، مسلم تہذیب و ثقافت ، اقدارو اصول ، تاریخی روایات، قومی زبان اور علاقائی زبانوں کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا ہے، وہ نظریاتی، فکری اور تہذیبی میدان میں کرپشن کی بدترین مثال ہے۔
  •   ذاتی کرپشن: کرپشن بنیادی طور پر اخلاقی مسئلہ ہے۔ خود عمرانی علوم کے لٹریچر میں بھی بات فرد کی اندرونی کیفیت اور اس کے عملی اظہار کی جہتوں پر کی جاتی ہے اور الفاظ بھی integrity (کردار کی پختگی)، honesty (دیانت داری)اور loyalty (وفاداری) کے استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہ سب اخلاقی اقدار ہیں، جن کی بنیاد ہماری نگاہ میں دین ہے اور سیکولر نظام میں انھیں ’افادیت پسندی‘ کہا جاتا ہے۔ مختصر اً یہ کہ مسئلے کی بنیاد ذاتی اخلاقیات ہی میں ہے اور کرپشن کی جڑ انسان کے نفس میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا ہے کہ: فَاَلْہَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا o قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا o وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا o (الشمس ۹۱: ۸-۱۰)’’پھر اس کی بدی اور اس کی پرہیزگاری، اس پر الہام کر دی، یقینا فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو دبا دیا‘‘، یہ زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔

انسانوں کے معاملات میں جو بدعنوانی اور لُوٹ مار رُونما ہوتی ہے، اس کی جڑیں انسان کے ایمان، خیالات، تصورِ حیات میں پیوست ہیں۔ اصلاح کی جو بھی حکمت عملی بنائی جائے گی، اس میں تصورات کی اصلاح،اقدار پر ایمان اور ان کے ساتھ وفاداری اور فکر و عمل میں مطابقت ضروری پہلو ہیں۔

منظم اور بڑے پیمانے کی کرپشن کا تعلق کرپشن کی وسعت اور اس کی گہرائی سے ہے۔

  •  اداراتی کرپشن: اس کا تصور اداروں کے داخلی ڈھانچے اور نظامِ کار میں پائی جانے والی کمزوریوں سے جڑا ہوا ہے۔ یہ کرپشن کی راہیں کھولنے اور اس کے فروغ کا ذریعہ بنتا ہے۔  اس کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اس میں معاشرے کی چھوٹی سے چھوٹی اکائی سے لے کر ریاست    کے پورے نظام تک ملوث نظر آتے ہیں۔ خاندان، تعلیم، ابلاغ، قانون، تفریح، نظامِ انتخاب،  جملہ شعبہ ہاے زندگی، غرض سبھی ادارے کرپشن کی کمین گاہیں بن سکتی ہیں۔ کرپشن کے خلاف جو بھی حکمت عملی بنائی جائے ، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ یک رُخی نہ ہو، بلکہ ہرہرجہت اور حالات کی روشنی میں ایسے راستے اختیار کیے جائیں، جو وسائل کے ٹھیک ٹھیک استعمال کو یقینی بناسکیں۔

کرپشن کے مختلف مراحل

کرپشن کی ان تمام وسعتوں کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھا جائے، تو صاف نظر آتا ہے کہ آزادی کے جلو میں ہجرت اور انتقالِ آبادی کی وجہ سے املاک اور کاروبار پر قبضے کے باب میں جو طرزِعمل اختیار کیا گیا اور بدعنوانی کے جس کلچر کو فروغ دیا گیا، اس نے کرپشن کے لیے پہلا میدان کھولا۔ متروکہ جایدادیں اس کاپہلا امتحان بنیں، جنھوں نے اس قوم کو آزمایش میں ڈالا ۔ بلاشبہہ ہزاروں لاکھوں افراد نے ایمان داری کے ساتھ اپنے نقصانات کے ازالے کی کوشش کی، لیکن ایک بڑی اور بااثر تعداد جو پہلے سے یہیں آباد تھی،اس نے ناجائز قبضہ اور غلط کلیم کا راستہ اختیار کیا۔ یوں اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے، اپنے لیے مال اور املاک لوٹنے کا کالا کاروبار کیا۔ بیوروکریسی نے بھی ہاتھ رنگے اور اس طرح کرپشن کا ایک بڑا میدان کھل گیا، جو آج تک کھلا ہوا ہے۔

ٹرانسپورٹ اور روٹ پرمٹ اور بیرونی تجارتی کوٹے دوسرا بڑا میدان بنے۔ سرکاری اراضی پر قبضے اور سیاسی بندربانٹ کے کرتب بھلا کب چھپے رہ سکتے تھے۔ سرکاری خریداریاں پہلے بھی کرپشن کا ایک بڑا میدان تھیں اور ان میں روزبروز اضافہ ہی ہوتا گیا۔ پھر بیرونی امداد کے   جلو میں کرپشن کا ایک طوفان اُمڈنا شروع ہوا۔ اکتوبر ۱۹۵۸ء سے فوجی آمریت کے قدم رنجا فرمانے کے ساتھ حکومت کے فیصلہ سازی کے انداز میں تبدیلی آنے لگی اور اختیاراتی (arbitrery) اور استحقاقی (discretionary) اختیارات برابر بڑھنے لگے۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان، خود مغربی پاکستان کے صوبوں کے درمیان اور فوج اور سول محکموں میں وسائل کی تقسیم کے میدان بھی کرپشن، ناانصافی اور الطاف و عنایات کی آماج گاہ بن گئے۔

ذوالفقار علی بھٹوصاحب کے دورِ حکومت (۱۹۷۲ئ-۱۹۷۷ئ) میں قومی ملکیت میں لینے کی پالیسی نے معیشت پر سیاست کے غلبے اور فیصلوں میں سیاسی مداخلت اور سرپرستی کے بڑے بڑے گیٹ چوپٹ کھول دیے۔ پھر فوجی اور سول حکومتوں کی میوزیکل چیئر کے کھیل (۱۹۷۷ئ-۲۰۱۶ئ) نت نئی شکلوں میں رائج ہیں۔ جب ۸۰کے عشرے میں یہ فلسفہ گھڑا گیا کہ ’ریاست کا کام بزنس نہیں ہے‘، اس وقت سے پہلے جو کچھ قومی ملکیت کے نام پر کیا گیا، وہی کچھ  نج کاری کے جھنڈے تلے ہونے لگا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر ریاست کا کام بزنس نہیں تو تاجروں، ساہوکاروں، بنکاروں اور اندھی طاقت کے رکھوالوں کو بھی یہ مقام حاصل نہیں کہ وہ ریاست کو کاروبار کا اڈا بنا کر چلائیں۔

ریاست کا معیشت میں ایک مثبت کردار ہے، اور یہ بھی درست ہے کہ معیشت کا مجموعی نظام منڈی ہی کے ذریعے چلنا چاہیے۔ لیکن اس کے ساتھ حکومت کا عوام اور ملک کے     اسٹرے ٹیجک مفادات کے تحفظ کے لیے پیداواری اور ریگولیٹری (ضابطہ کاری) کردار بھی ضروری ہیں۔ یہ سب کام ضابطے اور قاعدے کے مطابق، اور شفاف انداز میں ہونے چاہییں۔ نجی شعبے کے لیے بھی ایسا قانونی اور ریگولیٹری نظام ہونا چاہیے، جو ایک طرف نجی سرمایے اور کاروبار کو تحفظ دے اور کام کے مواقع فراہم کرے۔ دوسری طرف صارفین، مزدوروں اور بحیثیت مجموعی معیشت کے مفادات اور ضروریات کے مناسب شفاف، مؤثر اور عادلانہ طریق کار کا انتظام و انصرام بھی کرے۔ اسی طرح ملک میں تقسیمِ دولت کے نظام کو منصفانہ بنیاد پر منظم کرے، تاکہ ترقی کے  ثمرات تمام شہروں اور تمام علاقوں میں پہنچ سکیں۔

کرپشن کی جن چار موٹی موٹی اقسام کی ہم نے نشان دہی کی ہے، بدقسمتی سے وہ تمام ہمارے ملک میں بڑے پیمانے پر نہ صرف بھرپور وجود رکھتی ہیں، بلکہ افسوس اور تشویش کا مقام ہے کہ ان میں برابر اضافہ ہو رہا ہے۔ کرپشن کو روکنے کی بظاہر جو بھی کوششیں ہوئی ہیں، قانون سازی ہوئی ہے، ادارے بنائے گئے ہیں، وہ بحیثیت مجموعی ناکام رہے ہیں۔

کرپشن کی گہناؤنی صورتِ حال

اس وقت عالم یہ ہے کہ زندگی کے جس شعبے پر نظر ڈالیں، کرپشن کی گرم بازاری کا سماں نظر آتا ہے۔ سیاست دان تنقید کا اولین ہدف ہیںاور اس باب میں ان کا دامن اتنا داغ دار پیش کیا جارہا ہے کہ سیاست گالی بنتی جارہی ہے۔ تاہم، ہر جماعت میں ایک تعداد اچھے اور صاف دامن افراد کی بھی ہے، لیکن یہ کہنا صریح زیادتی اور خلافِ واقعہ ہے کہ دوسرے طبقات اور گروہ اس بلا سے محفوظ ہیں۔ بیوروکریسی کا کردار کچھ کم گھنائونا اور تباہ کن نہیں ہے۔ پولیس، عدلیہ خصوصیت سے نچلی سطح پر  عدلیہ (جج اور وکیل)، پھر تعلیم، صحت، صحافت اور فوج کے کارپرداز___ بدقسمتی سے اس حمام میں بڑی تعداد لباس سے فارغ ہے۔

مسئلہ کتنا گمبھیر اور تباہ کن ہے، اس کا اندازہ لگانے کے لیے بین الاقوامی میڈیا میں شائع ہونے والے چند ہوش ربا حقائق پیش نظر رہنے چاہییں، تاکہ حل کے لیے مناسب حکمت عملی کے لیے کچھ گزارشات پیش کی جاسکیں۔

۲۰۱۲ء میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے اندازہ لگایا کہ کرپشن، ٹیکس چوری اور  بُری حکومت کے ضمن میں پیپلزپارٹی کی اتحادی حکومت ۲۰۰۸ء سے ۲۰۱۳ء تک ۵ئ۹ٹریلین روپے (۹۴؍ارب امریکی ڈالر)ضائع کرچکی تھی۔ ساڑھے نو ٹریلین (۹۵ کھرب روپے) پاکستانی معیشت کے پس منظر میں کتنی بڑی رقم ہے اس کا اندازہ صرف اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر انھی پانچ برسوں (یعنی ۲۰۰۸ء سے ۲۰۱۳ئ) کے پانچوں بجٹ جمع کرلیے جائیں اور ان میں انتظامی اور ترقیاتی دونوں حصوں کو شامل کرلیا جائے تو وہ ۵ئ۹ ٹرلین کے برابر ہوں گے۔ یہ رقم ان بیرونی قرضوں سے کئی گنا زیادہ ہے، جن کا بوجھ ہماری معیشت پر اس زمانے میں چڑھا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اگر صرف کرپشن پر ۴۰ فی صد قابو پالیا جائے تو بیرونی قرضوں کی ضرورت نہیں ہوگی اور اگر  اس پر ۸۰فی صد قابوپالیا جائے تو ملک کے ترقیاتی بجٹ کو بہ آسانی دگنا کیا جاسکتا ہے ،جس کے نتیجے میں ۷ سے ۸فی صد سالانہ ترقی کا ہدف حاصل کیا جاسکے گا___ یہ ہے ہمارا المیہ!

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے پچھلے ۱۸سال کے ’بدعنوانی کے اشاریے‘  مرتب کیے ہیں۔ تاہم ، پوزیشن میں جزوی تبدیلی کے ساتھ پاکستان کرپشن کی بدترین کیفیت میں مبتلا ۵۰ملکوں ہی میں رہا ہے۔ جن تقریباً۱۸۰ ممالک کے بارے میں سروے مرتب کیا گیا ہے، ان میں ۱۳۰ ممالک ہم سے بہتر ہیں۔ واضح رہے کہ ۱۰۰ میں سے ۵۰ سے کم نمبر لانے والے ممالک کا شمار زیادہ کرپٹ ملک میں ہوتا ہے اور ہم ۵۰ کے اس ہندسے سے بھی ۲۰نمبر نیچے ہیں۔ علاقے کے ممالک میں ہمارے ۳۰ اسکور کے مقابلے میں بھوٹان کا اسکور ۶۵، بھارت کا ۳۸ ، سری لنکا کا ۳۷ ہے۔ مصر(۳۶) اور انڈونیشیا (۳۶) بھی ہم سے آگے ہیں۔اسی طرح ملایشیا، کویت، ترکی اور جبوتی ہم سے بہتر پوزیشن میں ہیں۔

۱۹۹۰ء کے عشرے میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں کی حکومتیں بدعنوانی اور کرپشن کے الزامات پر برطرف کی گئی تھیں۔ آصف علی زرداری صاحب نے معمولی حیثیت سے معاشی سفر کا آغاز کیا اور آج وہ ارب پتی ہیں۔ ان کی آمدنی کے معلوم ذرائع سے ہرگز پتا نہیں چلتا کہ اتنی دولت کے مالک کیسے بنے۔ ’سرے محل‘ کے باب میں آنکھ مچولی کا کھیل سب کے سامنے ہے۔ اربوں روپے کی مالیت کا یہ محل ان کی ملکیت تھا۔ اس کے سامانِ زیبایش کے ۳۰ کنٹینر پاکستانی سفارت خانے کے ذریعے انگلستان بھیجے گئے۔ اسمبلی کے فلور پر بے نظیر بھٹوصاحبہ نے انکار کیا کہ ’سرے محل‘ سے میرا اور میرے شوہر کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ مگر جنرل پرویز مشرف صاحب کے دورِحکومت میں زرداری صاحب نے برطانوی انتظامیہ کو باقاعدہ تحریری حلف نامہ پیش کیا کہ یہ محل ان کا ہے۔ ایسا ہی کھیل سوئٹزرلینڈ کے بنکوں میں رقم اور ہیرے کے مشہور ہار کا رہا۔

مشہور صحافی اور محقق ریمنڈ ڈبلیو بیکر کی کتاب Capitalism's Achiless Heel کئی برس سے شائع ہورہی ہے۔ اس کے ص۷۶ سے ۸۵ تک زرداری صاحب، بے نظیر صاحبہ اور شریف برادران کے بیرونِ ملک اثاثوں کی تفصیل شائع کی گئی ہے۔ دونوں خاندانوں کے بیرونی اثاثے ایک ایک بلین ڈالر سے زیادہ بتائے گئے ہیں اور مصنف کے بقول یہ کمائی ۹۰کے عشرے کی فتوحات کا ثمرہ ہے۔ مصنف نے دونوں خاندانوں کو چیلنج کیا ہے کہ اگر معلومات غلط ہیں تو مجھ پر برطانیہ کی عدالت میں ہرجانے کا دعویٰ کریں، جو اَب تک کسی نے دائر نہیں کیا۔ بظاہر ان اعداد و شمار کے صحیح ہونے کا اشارہ ملتا ہے، جو اس میں دیے گئے ہیں اور جو پاکستان کی سیاسی قیادت اور ملک کے لیے شرم ناک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔یہ اثاثے اب دوگنا اور تین گنا سے زیادہ ہوچکے ہیں۔

عوامی نیشنل پارٹی (ANP)کی قیادت کے بارے میں اس کے اپنے گھر کے بھیدی اور بیگم نسیم ولی صاحبہ کے بھائی کے الزامات ریکارڈ پر ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ (MQM)کی قیادت کے بارے میں روز نئے انکشافات ہورہے ہیں۔ ہزاروں افراد کراچی، حیدرآباد اور سندھ کے دوسرے شہروں میں ان کے کارکنوں اور قائدین کے بھتے وصول کرنے اور قتل اور دہشت گردی میں ملوث ہونے کی گواہی دے رہے ہیں۔ بلدیہ ٹائون کراچی میں فیکٹری کو تقریباً ۳۰۰؍ انسانوں سمیت جلادینے کا معاملہ اب ’مشترکہ تفتیشی ٹیم‘ (JIT) کی رپورٹ کی شکل میں قوم کے سامنے آچکا ہے۔  یہاں بھی بھتہ ہی اس قتل کا محرک نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر عاصم حسین پر ۴۶۲؍ارب روپے کی کرپشن کا مقدمہ دائر کر دیا گیا ہے۔

پنجاب کے میگاپراجیکٹس کے سلسلے میں خاک اُ ڑ رہی ہے۔ ذرائع ابلاغ میں کھل کر  سوالات اُٹھائے جارہے ہیں۔ اورنج ٹرین کے بارے میں اخراجات کے اعدادوشمار چکرا دینے والے ہیں۔ یہی معاملہ گیس کی خرید کے معاہدوں اور بجلی پیدا کرنے والے منصوبوں کا ہے۔

ہم یہ چند نمونے اس لیے پیش کر رہے ہیں کہ ان اُمور کی تحقیق ہونی چاہیے۔ بات صرف سیاست دانوں تک محدود نہیں رہنی چاہیے۔ بیوروکریٹس کا ریکارڈ تو اور بھی بدتر صورت پیش کرتا ہے۔ سیاست دانوں اور بیوروکریٹوں کا’ غیرمقدس اتحاد‘ بھی ایک حقیقت ہے۔ کچھ ججوں، جرنیلوں اور ان کے اعزہ و اقارب کی داستانیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ ڈیفنس ہائوسنگ سوسائٹیوں کا معاملہ بہت ہی پُراسرار اور تہہ در تہہ ہے۔ اس کے لیے زمینوں کی خریدوفروخت بلکہ زمینوں پر زبردستی قبضے جمانے کے لیے دھن، دولت اور دھونس کے اتنے تذکرے ہیں کہ انھیں پیش کرتے ہوئے وقت کم پڑ جائے۔

مرکزی اور صوبائی آڈیٹر جنرل کی رپورٹیں بھی چشم کشا ہیں۔ سیکڑوں ارب روپے کی   بے قاعدگیاں ہرسال کی رپورٹ میں سامنے آرہی ہیں، مگر پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹیاں خاموشی سے انھیں دبائے بیٹھی ہیں۔ موجودہ وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار احمد جس زمانے میں وہ پبلک اکائونٹس کمیٹی کے سربراہ تھے، انھوں نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ لیکن اس اہم پارلیمانی ادارے نے نہ ان سے پہلے اور نہ ان کے بعد اپنی ذمہ داری ادا کی۔

یہی حال احتساب بیورو (NAB)کا ہے۔ ۱۹۹۹ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد جنرل پرویز مشرف نے آرڈی ننس کے ذریعے یہ ادارہ قائم کیا تھا۔ لیکن اس کے پہلے دو سربراہوں:  جنرل شعیب امجد اور جنرل شاہد یہ کہہ کر مستعفی ہوگئے کہ: ہمارے کام میں مداخلت کی جارہی ہے اور ہم کو اصل مجرموں پر ہاتھ نہیں ڈالنے دیا جارہا۔ جنرل شاہد نے تو اپنی یادداشتیں بھی سپردِقلم کردی ہیں، جن میں نام لے کر بتادیا ہے کہ کس طرح سیاسی مقاصد کے لیے ان کو کام سے روکا گیا اور سیاسی مفاہمت کے نام پر کس طرح قومی خزانے کو لوٹنے والوں کو پارسائی کا سرٹیفکیٹ دے کر شریکِ اقتدار کرلیا گیا۔

اسی طرح وہ حکمران جرنیل، جس نے ’سب سے پہلے پاکستان‘ کا نعرہ لگایا تھا،ا س نے   کس طرح ایم کیو ایم کے سربراہ کو ایک نہیں متعدد صحافیوں کے سامنے غدار کہا تھا اور پھر کس طرح انھیں اور ان کی پارٹی کو گلے سے لگالیا۔ اسی طرح ۱۲مئی ۲۰۰۷ء کو کراچی ایئرپورٹ اور شہر کی بڑی شاہراہوں پر ایم کیو ایم کے ہاتھوں خونیں واقعے کے بعد، اسی حکمران نے ایم کیو ایم کو اپنی قوت کا نشان قرار دیا۔ بے نظیر اور زرداری کو کرپٹ کہا اور پھر نام نہاد ’ضابطۂ مفاہمت‘ (NRO) کے ذریعے انھیں اور ایم کیو ایم کو، جس پر ۵ہزار سے زیادہ مقدمات تھے اور الطاف حسین صاحب کو،جو دسیوں قتل کے مقدمات میں مطلوب تھے، سب کی خشک شوئی (dry cleaning) کا سیاہ کارنامہ انجام دیا۔

اس امر کا سختی سے اہتمام ہونا چاہیے کہ کسی پر بھی الزام بلاثبوت نہیں لگنا چاہیے۔ جرم ثابت ہوئے بغیر کسی کو مجرم بھی قرار نہیں دیا جانا چاہیے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جو بھی پبلک لائف میں ہے، اس کی زندگی کھلی کتاب کے مانند ہوتی ہے۔ اگر تسلسل سے اس کے بارے میں الزامات آرہے ہوں، اور وہ اپنا دفاع نہیں کرتا یا نہیں کرسکتا، تو اسے پاک بازی کی سند دینا بھی حق و انصاف سے مطابقت نہیں رکھتا۔

ہم صبح شام حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ نمونہ پیش کرتے ہیں۔ آپؐ ایک موقعے پر    اُم المومنینؓ سے ہم کلام تھے کہ ایک صحابی آئے اور پیچھے ہٹ گئے۔ آپؐ نے صحابی کو بلایا اور وضاحت فرمائی کہ یہ فلاں اُم المومنینؓ ہیں۔ اور اس طرح قیامت تک کے لیے یہ سنت قائم فرمادی کہ جہاں شبہہ پیدا ہونا ممکن ہو، بروقت اس کا ازالہ کردیا جائے۔ اسی طرح حضرت عمر فاروقؓ سے لباس کے سلسلے میں سوال ہونا، اور پھر اس کا جواب اپنے بجاے، اپنے صاحبزادے کی زبان سے دلانا، وہ روشن مثالیں ہیں، جن کی تقلید مسلمان حکمرانوں اور بااثر شخصیات کو کرنی چاہیے۔

کرپشن کی ایک صورت وہ ہے، جو حکومت پالیسی کے طور پر اختیار کیے ہوئے ہے۔ اس میں پارلیمنٹ کے ارکان، بیوروکریسی، ججوں، جرنیلوں، صحافیوں اور نہ معلوم کس کس کو لائسنس، ترقیاتی کوٹے، زمین کے پلاٹ، ملک اور ملک سے باہر سفر، علاج کی مفت سہولتیں اور کیا کیا عنایات خسروانہ ہیں جن سے سرفراز کیا جا رہا ہے۔ یہ سلسلہ فی الفور ختم ہونا چاہیے۔

ہم نے ایسی تمام بے جا نوازشات کی ہمیشہ مخالفت کی ہے۔ الحمدللہ ، ہم نے اور جماعت اسلامی پاکستان کے ذمہ دار حضرات نے وزارت اور پارلیمنٹ کی رکنیت کے دور میں اس نوعیت کی سہولیات سے اجتناب کیا۔ بھٹوصاحب نے ارکانِ پارلیمنٹ کو ڈیوٹی فری کار اور اسلام آباد میں پلاٹ کی سوغات کا آغاز کیا تھا۔ الحمدللہ، جماعت اسلامی کے ارکانِ پارلیمنٹ نے اس سہولت سے فائدہ نہیں اُٹھایا۔ یہ بھی ہماری تاریخ کا حصہ ہے کہ سابق چیف جسٹس اے آر کارنیلیس کو جب بھٹوصاحب نے ایک پلاٹ کے الاٹ کرنے کا خط لکھا تو ان کا مختصر جواب یہ تھا کہ ’’شکریہ، میں نے تو کسی پلاٹ کے لیے درخواست نہیں دی اور نہ مجھے اس کی کوئی ضرورت ہے‘‘۔

بطور ممبر سینیٹ میں نے اور محترم قاضی حسین احمد مرحوم و مغفور نے اپنی تنخواہ نہیں لی اور اس رقم کے ذریعے سینیٹ میں لوئراسٹاف کے لیے فنڈ قائم کیا، جو دوسرے اراکین کے تعاون سے سینیٹ کے ملازمین کے لیے ایک بڑا سہارا بن چکا ہے۔ ایک کروڑ سے زیادہ کا یہ ’انڈومنٹ فنڈ‘ قائم ہوچکا ہے۔ پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے مجھے جو استحقاقی سہولیات میسر تھیں، الحمدللہ ان سے بھی استفادہ نہیں کیا اور نہ ۲۱سال کی ممبری کے دوران ایک بار بھی اپنے یا اپنے اہلِ خانہ کے علاج کے لیے ایک روپے کی دوا یا علاج کی سہولت حاصل کی۔ میں اس بات کا ذکر نہیں کرنا چاہتا تھا، لیکن اردگرد کا چلن دیکھ کر صرف تحدیث نعمت کے طور پر اس امر کا اظہار کررہا ہوں۔ حالانکہ اس کا تعلق بظاہر ایک قانونی استحقاق سے ہے۔

ہماری نگاہ میں ارکانِ پارلیمنٹ کی حقیقی ضرورتیں ضرور پوری ہونی چاہییں، لیکن جس فیاضی کے ساتھ سرکاری خزانے سے ان کو مراعات عطا کی جاتی ہیں ،خاص طور پر پلاٹس اور ڈویلپمنٹ فنڈ وغیرہ ( جن کا آغاز وزیراعظم جناب محمد خان جونیجو کے زمانے میں ہوا)ان پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔

ہماری معروضات کا حاصل یہ ہے کہ کرپشن صرف رشوت کا نام نہیں، بلکہ ہر اس معاملے میں، جس میں اجتماعی ذمہ داری کے کسی بھی نظام میں کسی بھی شخص کو کوئی اختیار دیا گیا ہے، خواہ وہ مالی ہے یا کسی انتظامی صورت میں: اس اختیار کا کسی پہلو سے بھی غلط استعمال کرپشن کی تعریف میں آتا ہے۔ مالی کرپشن سب سے بڑی لعنت ہے، لیکن یہ کرپشن کی واحد شکل نہیں۔ امانت، انصاف، حقوق کی پاس داری، ذاتی پسند و ناپسند کی روشنی میں سرکاری اختیارات کا استعمال___ یہ سب کرپشن کی بدترین شکلیں ہیں اور ایسی حکمت عملی اور نقشۂ کار وضع کرنے کی ضرورت ہے کہ کرپشن کی تمام صورتوں کو بڑی حد تک ختم کیا جائے اور ان چور دروازوں کو بند کیا جائے، جن سے یہ عفریت داخل ہوتا اور تباہی مچاتا ہے۔

کرپشن سے نجات: ناگزیر اقدامات

اس سلسلے میں سب سے پہلی ضرورت حلال اور حرام کا ادراک ہے۔ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں حق و انصاف، امانت و دیانت، قانون اور ضابطے کی پابندی ہے۔ تمام معاملات میں مکمل شفافیت، معلومات اور فیصلوں کو اخفا کے پردے سے نکالنا ہے۔ پورے نظام میں احتساب اور نگرانی کے نظام کو قانون اور ضابطے کا حصہ بنانا ہے۔

ایک طرف ہرہرفرد کی اخلاقی تربیت اور گناہ اور ثواب کے احساس اور آخرت کی جواب دہی کی زندگی کو مؤثر بنانا اور دوسری طرف قانون، ضابطے، فیصلے کے طریقوں اور کارکردگی کے جائزے کا ایسا واضح اور شفاف نظام بروے کار لانا کہ جس سے کرپشن اور اختیارات کے غلط استعمال کے امکانات کو کم سے کم کردیا جائے۔

  •  اس سلسلے میں سب سے اہم چیز تو اللہ کے سامنے جواب دہی کا احساس اور اجتماعی زندگی میں احتساب کا مؤثر بندوبست ہیں۔ افراد کی اجارہ داری اور خوداختیاری کو کم سے کم کرنا ضروری ہے۔ نگرانی کے نظام میں بھی انحصار ایک فرد کے مقابلے میں دو یا تین افراد کی ٹیم پر ہونا چاہیے۔ عام افراد کے لیے بالعموم اور متعلقہ افراد کے لیے بالخصوص معلومات کی فراہمی کا دروازہ کھلنا چاہیے۔

۱۹۹۵ء میں تو دنیا کے صرف ۱۹ممالک میں ’اطلاعات کے حصول کا قانونی حق‘ (Right to Freedom of Information) موجود تھا۔ اب ان ممالک کی تعداد ۱۰۷ ہوگئی ہے۔ پاکستان میں بھی یہ قانون ہے، مگر مرکزی قانون میں دو سال سے ترامیم زیرغور ہیں اور کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ اس ضمن میں خیبرپختونخوا کا قانون بہت بہتر ہے، لیکن انتظامیہ کی طرف سے  اس پر مکمل عمل میں کوتاہیاں سامنے آرہی ہیں۔ معلومات تک رسائی، کرپشن کو روکنے کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔ اس کی فکر کرنی چاہیے۔

  •  احتساب کے قانون میں بھی بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ سب نے اس کا وعدہ کیا ہے، لیکن اقتدار میں آکر کوئی بھی اس وعدے کو یاد نہیں رکھتا۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک کی روایت یہ ہے کہ احتساب کا قانون مخالفین کو تنگ کرنے یا بلیک میل کرکے اپنے مفیدمطلب نتائج حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ دوسروں کے لیے احتساب اور اپنے لیے احتساب سے استثنا اور کھلی چھٹی: یہ ہے ہمارا انفرادی اور اجتماعی کردار، جو کرپشن کو فروغ دینے کا ایک ذریعہ ہے، کرپشن پر قابو پانے کا نہیں۔ اس ذہن اور اس طریقے، دونوں کو بدلنا ضروری ہے۔

حال ہی میں جس طرح وزیراعظم محمد نواز شریف صاحب، بہاول پور میں غصے سے پھٹ پڑے۔ ان کا یہ انداز نظامِ احتساب کے لیے سمِ قاتل کا درجہ رکھتا ہے، اور شاید دل کے چور کی خبر بھی دے رہا ہے۔ یقینا، احتساب کے نظام اور قانون کو صاف شفاف، مختصر اور قابلِ عمل ہونا چاہیے۔ اس میں جھول، تضاد اور خامیوں کو دُور ہونا چاہیے، مگر یہ چیز جلسوں میں کہنے کی نہیں، بلکہ سنجیدگی سے، تمام پارلیمانی پارٹیوں کو اعتماد میں لے کر اور کھلے عوامی مباحثے کی صورت میں متعین کرنے کی ہے۔

ہرشخص کے دل میں احتساب کی ایک عدالت اگر قائم ہوجائے تو اس سے بہتر نقطۂ آغاز ممکن نہیں۔ اسلام کا تو اصول ہی یہ ہے کہ: ’’اپنا احتساب کرلو، قبل اس کے کہ تمھارا احتساب کیا جائے‘‘۔ اسی طرح اجتماعی نظام میں بھی احتساب ضروری ہے۔ البتہ اس کی کئی سطحیں ہیں اور ہرسطح پر اس کا انتظام ہونا چاہیے۔

قانون صرف ایک سطح کا عمل ہے۔ اس کا ہونا ضروری ہے، لیکن قانون کو انصاف کے اسلامی اور معروف اصولوں پر مبنی ہونا چاہیے اور اس کا اطلاق بلاامتیاز سب پر ہونا چاہیے۔ احتساب کے ادارے کا حکومت اور اس کے عام اداروں سے آزاد ہونا ضروری ہے۔ اس پر نظرثانی کا اہتمام ہونا چاہیے۔ اس ادارے کو تھکے ماندے، اور خوار و زبوں ادارے کا رُوپ نہیں دھارنا چاہیے، اس لیے کہ وقت پر انصاف کی فراہمی انصاف کا لازمی حصہ ہے۔ (انصاف میں تاخیر، انصاف کا قتل ہے)۔

ہمارے ملک میں مقدمات اور تحقیقات اتنا وقت لے لیتے ہیں کہ انصاف کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ نیب کے پاس ۱۸، ۱۸ برس سے مقدمات موجود ہیں۔ یہ صریح ظلم ہے۔     اسی طرح احتساب بیورو میں تحقیق و تفتیش اور مقدمہ پیش کرنے کے الگ الگ شعبے ہونے چاہییں، جن میں اعلیٰ صلاحیت، تربیت اور دیانت کی شہرت رکھنے والے افسر متعین کیے جانے چاہییں،  جن کی مناسب تربیت ہو اور جدید معلومات اور ٹکنالوجی سے ان کو باخبر رکھا جائے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ احتسابی ادارے پر شفاف نگرانی کا نظام تو ضرور قائم ہو ،لیکن اسے سیاست کے سایے سے پاک ہونا چاہیے، جس طرح فرانس میں دستوری عدالت ہے۔ ان خطوط پر نظرثانی کے کمیشن بنائے جاسکتے ہیں۔ ملک میں الحمدللہ، باضمیر اور باصلاحیت لوگ موجود ہیں، ان سے   پورا پورا فائدہ اُٹھانا چاہیے، تاہم پارلیمانی کمیٹی اس کام کے لیے موزوں نہیں ہے۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ احتساب کمیشن کی سالانہ رپورٹ صدر کو پیش کیے جانے کے بعد، پارلیمنٹ کی ایک خاص کمیٹی کے سامنے ضرور آنی چاہیے، تاکہ وہ اس کی روشنی میں مستقبل کی قانون سازی اور پالیسی سازی کے حصول کے لیے مشورے دے سکے ۔اگر پارلیمانی کمیٹی، احتساب بیورو کو کچھ چیزوں کی طرف متوجہ کرنا چاہتی ہو تو وہ اس ذمہ داری کو بھی ادا کرسکے۔

احتساب کے سلسلے میں یہ بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ صرف قانون کا کام نہیں، پارلیمنٹ کا اپنا بھی کردار ہے۔ اس کی کمیٹیاں اس عمل کا مؤثر ترین نظام ہیں۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی ایک مستقل حساس اور نگران ادارہ ہے، لیکن ہمارے یہاں وہ ایک مُردہ یا نیم جان ادارہ بن کر رہ گئی ہے۔ ایسی مثالیں بھی ہیں کہ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ پر برسوں تک بحث ہی نہیں ہوئی، جب کہ رپورٹیں الماریوں کی زینت بنی ہوئی ہیں۔

اسی طرح پارلیمنٹ میں وقفۂ سوالات حکومت اور ہرادارے کے احتساب کا ایک مؤثر فورم ہے۔ بدقسمتی سے پارلیمنٹ اور حکومت دونوں اس کا حق ادا نہیں کر رہے۔ کئی سال تو ایسے بھی گزرے ہیں کہ جتنے سوالات ارکان نے پوچھے ہیں، پورے سال میں ان میں ۲۰فی صد سے زیادہ کے جواب تک نہیں آئے اور جو جواب آئے وہ نامکمل تھے۔ پھر جس دن جواب پارلیمنٹ میں آتے ہیں، اس دن متعلقہ وزیر موجود نہیں ہوتے۔ یہ طرزِعمل پارلیمنٹ کی توہین اور اس کی کارکردگی پر کلنک کا ٹیکا ہے، جس کی اصلاح ضروری ہے۔ اگر پارلیمنٹ کے لوگ اپنے گھر کو درست کرلیں، تو انھیں دوسروں کی طرف دیکھنے کی زحمت نہیں کرنی پڑے گی۔

  •  ملک میں احتساب کا کلچر پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم، احتساب کا عمل دوسرے

[…باقی دیکھیے: ص ۱۰۵]

[اشارات : ص ۲۸ سے آگے]

کی ٹانگ کھینچنے کے مترادف نہیں ہونا چاہیے۔ احتساب اصلاحِ احوال کا ایک مؤثر نظام ہے اور مشاورت اور فیصلہ سازی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ بدقسمتی ہے کہ ہمارے ملک میں احتساب  ایک مثبت اور تعمیری عمل بننے کے بجاے، ایک منفی اور نیچا دکھانے کا عمل بن کر رہ گیا ہے۔ یا پھر اتنا غیرمؤثر ہوگیا ہے کہ اس کا ہونا اور نہ ہونا برابر ہے۔ اگر دیکھا جائے کہ پچھلے ۱۸برس میں    نیب کے سامنے کتنے معاملات آئے ہیں؟ اور کتنے افراد کو قانون پر عمل کے ذریعے قرار واقعی سزا  ملی ہے؟ تو کوئی بہت اچھی تصویر سامنے نہیں آتی۔

احتساب کے نظام میں ایک تباہ کن جھرنا ’بہانہ ساز سودے بازی‘ یا ’پلی بارگیننگ‘ (Plea Barganing ) کا نظام ہے، اسے فی الفور ختم ہونا چاہیے۔ جہاں جرم ثابت ہو، وہاں پوری لوٹی ہوئی رقم قومی خزانے میں جمع کرنی چاہیے اور مجرم کو قید، جرمانہ اور مستقبل کے لیے نااہلی کی شکل میں سزا ملنی چاہیے اور اس کی تشہیر ہونی چاہیے۔کرپشن کو جتنا مشکل بنایا جائے گا، اتنا ہی اس پر قابو پایا جاسکے گا، ورنہ کرپشن بھی ایک کھیل بنی رہے گی اور یہ کھیل دن رات ہمارے سامنے ہورہا ہے۔

  •  ایک اور اہم چیز عوام میں کرپشن سے نفرت، کرپٹ افراد کا سوشل بائیکاٹ اور معاشرے میں ان کے لیے منہ دکھانا مشکل بنایا جانا ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے بچپن میں محلے میں ایک سرکاری ملازم ایسا تھا، جس کے بارے میں محلے والوں کا احساس تھا کہ وہ رشوت خور ہے۔ ہمارے والدین کی ہدایت تھی کہ اس کے بچوں کے ساتھ آپ کھیل سکتے ہیں، لیکن ان کے گھر کا پانی بھی نہیں پی سکتے۔ جس معاشرے میں یہ احساس ہو، اس میں کرپشن کبھی حاکم نہیں بن سکتی۔ لیکن آج عالم یہ ہے کہ کرپٹ افراد دندناتے پھرتے ہیں، نہ انھیں کوئی شرم ہے اور نہ معاشرے کا ضمیر ان کو نکّو بناتا ہے۔

ہمارے دوست پروفیسر عنایت علی خاں نے کیا خوب کہا ہے     ؎

حادثہ سے بڑا سانحہ یہ ہوا

لوگ ٹھیرے نہیں حادثہ دیکھ کر

ہمیں معاشرے میں امانت اور دیانت، شرافت اور قناعت کی اقدار کو پروان چڑھانا ہے تاکہ کرپشن ایک ناقابلِ قبول شے بن جائے اور عدل و انصاف، حقوق کی پاس داری اور اکل حلال ہمارا شعار ہو۔

کرپشن کسی بھی معاشرے اور ریاست کے لیے ایک ناسور کی حیثیت رکھتی ہے، لیکن اگرجسم بھی بیمار ہو تو یہ جان لیوا سرطان کی شکل اختیار کرلیتی ہے ۔ ہر دوسری خرابی اور بگاڑ سے اس کا ایسا رشتہ قائم ہوجاتا ہے، جو بگاڑ کو ہمہ جہت وسعت دے دیتاہے۔ ہم بڑے دُکھ سے یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ اس وقت پاکستان میں کرپشن نے اُم الخبائث کی حیثیت اختیار کرلی ہے، اور زندگی کے ہرپہلو میں بگاڑ اور فساد کا ذریعہ بن گئی ہے۔ آہنی گرفت سے اسے قابو کیے بغیر زندگی کے کسی بھی شعبے میں اصلاح کے امکانات معدوم ہوتے جارہے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ وقت کی اہم ترین ضرورت، کرپشن کے خلاف ہمہ گیر جہاد ہے۔ اس جہاد کو برپا کرنے کی ذمہ داری ان تمام افراد اور عناصر پر ہے، جو مظلوم ہیں، جو اس کا نشانہ ہیں، جو انصاف سے محروم ہیں، جن کے حقوق کو شب و روز بے دردی سے پامال کیا جا رہا ہے اور قانون اور نظامِ عدل خاموش تماشائی بنے، ان کے زخموں پر نمک پاشی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

جماعت اسلامی پاکستان نے موجودہ حالات کے پیش نظر کرپشن کے خلاف ایک ملک گیر تحریک کا آغاز کیا ہے اور ملک کے تمام مظلوم بھائیوں اور بہنوں کو دعوت دی ہے کہ ظلم کے اس طوفان کا مقابلہ کرنے کے لیے اللہ کے بھروسے پر اُٹھ کھڑے ہوں اور اپنے حقوق کے حصول اور تمام مجبور انسانوں کو لُوٹ مار کے اس عذاب سے نجات دلانے کے لیے سرگرم ہوجائیں۔ ہماری یہ جدوجہد منظم اور ہمہ گیر ہوگی، لیکن ان شاء اللہ قانون اور اخلاق کے ضابطوں کے اندر ہوگی کہ فساد، بگاڑ اور بُرائی کا مقابلہ بھی خیر، فلاح اور حسن سے مطلوب ہے اور یہی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے:

وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّئَۃُ ط اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ (حم السجدہ ۴۱:۳۴) اور نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔

 

(کتابچہ دستیاب ہے، قیمت:۱۳روپے، منشورات، لاہور)