’معذور افراد کے حقوق‘(فروری ۲۰۱۶ئ) میں مضمون نگار کی محنت قابلِ داد ہے، لیکن اس مضمون کے دوسرے پیرے میں انھوں نے حضرت موسٰی ؑ اور حضرت عیسٰی ؑ پر نازل ہونے والی کتابوں کا ذکر کرتے ہوئے زبور اور انجیل لکھ دی ہیں جو درست نہیں۔ حضرت موسٰی ؑ پر زبور نہیں، تورات نازل ہوئی تھی۔ زبور تو حضرت دائود ؑ پر نازل ہوئی تھی۔ اس طرح کی فاش غلطی مؤقر جریدے میں شائع نہیں ہونی چاہیے تھی۔
’۶۰ سال پہلے‘ (فروری ۲۰۱۶ئ) میں نام نہاد مسلمانوں کے بارے میں سیّدمودودیؒ کا یہ کہنا کہ اس سیرت و اخلاق کے لوگوں سے کوئی جعل سازی، کوئی فریب، کوئی دغابازی اور کوئی خیانت بھی خلاف توقع نہیں ہے، بالکل بجا ہے۔ ایسے ہی لوگ ہماری قیادت پر فائز رہے، اور ہیں، ان سے نجات کے لیے بھرپور جدوجہد کی ضرورت ہے۔
’امریکا کا سامراجی کردار اور اُمت مسلمہ‘ (جنوری ۲۰۱۶ئ) نظر سے گزرا۔ چند صفحات میں موضوع کا ہمہ پہلو احاطہ کیا گیا ہے۔ اشارے اور کنایے میں بھی بہت کچھ کہا ہے، تاہم واقعاتی اور تجزیاتی پیرایہ بھی ذہن پر دستک دیتا ہے۔ یہ صورت حال تو کسی سے مخفی نہیں ہے کہ جابجا مسلمانوں کو مسلمانوں کے خلاف صف آرا کیا جارہا ہے۔ یوں چھری خربوزے پہ گرے یا خربوزہ چھری پہ، ہر طرح سے یہ حکمت عملی نتائج دکھا رہی ہے۔
اسلامی تحریکیں ’امریکی فیکٹر‘ کو متن سے نکال کر حاشیے میں دھکیلتی نظر آتی ہیں، شاید حالات کی ’سنگینی‘ اس کا سبب قرار پائے۔ ایسے میں برادرم عبدالرشید صدیقی صاحب کا مضمون اسلامی تحریک کے کارکنوں کے لیے ایک یاد دہانی ہے اور بین الاقوامی منظر نامے کی نقاب کشائی بھی، اللھم زد فزد! اس موضوع پر ترجمان میں، دہشت گردی کے نام پر مسلط کی جانے والی ’عالمی اور لیگل‘ دہشت گردی کے ابطال اور تجزیے پر مبنی اگر ہرماہ ایک تحریر شامل ہوسکے تو ترجیحات کا تعین کرنے میں مدد ملے گی۔
’تخفیف ِ آبادی یا مغرب کا غلبہ؟‘ (فروری ۲۰۱۶ئ)کے ضمن میں چند اعداد و شمار پیش ہیں۔ ایک سروے کے مطابق یورپی ممالک میں یورپین کی آبادی ۶۵ئ۱ فی صد کے حساب سے بڑھ رہی ہے، جب کہ انھی ممالک میں مسلمانوں کی آبادی میں ۱ئ۸ فی صد کے حساب سے اضافہ ہورہا ہے۔ برطانیہ میں گذشتہ تین دہائیوں میں مسلمانوں کی تعداد ۸۲ہزار سے بڑھ کر ۲۵لاکھ ہوچکی ہے۔ سب سے دل چسپ رپورٹ جرمنی کے بارے میں ہے۔ ۲۰۵۰ء تک جرمنی ایک مسلم ریاست بن جائے گا۔ فرانس میں ٹین ایج (teen age) کے بچوں میں ۳۰ فی صد بچے مسلمان ہیں۔ ہالینڈ میں مسلمانوں کی آبادی ۵فی صدکے حساب سے بڑھ رہی ہے۔ ایک دہائی کے بعد یہاں کی نصف آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہوگی۔ گوگل تحقیقی رپورٹ کے مطابق یورپی ممالک میں بسنے والے ۵۲ ملین مسلمان آیندہ دو دہائیوں میں ۱۰۴ملین ہوجائیں گے۔
’رسائل و مسائل‘ (جنوری ۲۰۱۶ئ) میں غائبانہ نمازِ جنازہ کے بارے میں مدلل جواب پڑھ کر اطمینان ہوا۔ اگر سِرّی اور جہری نمازِ جنازہ کے بارے میں بھی وضاحت شائع کریں تو مناسب ہوگا۔
شمارۂ فروری ’احمد ابوسعید کی علمی خدمات‘ ( ص ۸۸)کے عنوان والا اشتہار شائع نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اس کی متعدد وجوہ ہیں۔ ان کی تحریروں میں حددرجہ اِدّعا پایا جاتا ہے۔ انھوں نے ازخود محقق، مفسر اور صاحب ِ اسلوب مصنف بن کر مولانا مودودی کی عبارات کی اصلاح فرمائی ہے اور ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ یہ کام ’مولانا مودودی کی ہدایات کے مطابق‘ کیا ہے۔ کوئی پوچھے: جو کچھ آپ مولانا کی تحریروں اور تصانیف کے ساتھ کر ر ہے ہیں،کیا یہ ہدایات آپ کو عالمِ برزخ سے موصول ہوئی ہیں؟ پھر ان کی تصانیف میں غیر متعلق لوازمہ بھی شامل ہوتا ہے ۔ وہ دوسروں کی تحقیق کو اپنی کتابوں میں اکثر بلاحوالہ شامل کرتے ہیں، اور اپنی ان قلمی مداخلتوں کو ’احمدابوسعید کی علمی خدمات‘ قرار دیتے ہیں (بصورتِ اشتہار یہ بھی اِدّعا ہے)۔یہی وجہ ہے کہ بھارت میں نظم جماعت ان چیزوں پر تحفظات کا اظہار کرتا ہے۔
دسمبر کے شمارے میں شیخ عبدالقادر جیلانی پر جو مضمون شائع ہوا ہے، اس میں ایک جگہ (ص۹۱پر) لکھا ہے:’’…انھوں نے مختلف مسالک و طریقہ ہاے ارادت کو جمع کیا۔ قطب، ابدال اور اولیا جیسی اصطلاحات اسی پورے کام کو منظم کرنے کا عنوان تھیں…‘‘۔ کیا ان اصطلاحات کا واقعی اسلام سے کوئی تعلق ہے؟ کیا قرآن و حدیث کی اصطلاحیں ناکافی تھیں ،جو یہ خودساختہ نظامِ تصوف رائج کیا گیا؟ کیا تصوف بابِ تفعل کا مصدر نہیں ہے، جس کی خاصیت میں تصنع شامل ہے۔ یہ لفظ خود اپنے پورے نظام کے مصنوعی ہونے کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ ’اولیا‘ کی اصطلاح تو قرآن میں موجود ہے، مگر باقی سب مفروضات و مجہولات ہیں ، جن سے بہت سے علما بھی صدیوں سے دھوکا کھا رہے ہیں۔
’لبرل ازم کیا ہے اور کیا نہیں؟‘ (جنوری ۲۰۱۶ئ)کے بارے میں عرض ہے کہ ’لبرل مسلمان‘ ایک گمراہ کن اصطلاح ہے۔ حقیقت میں دنیا میں کوئی بھی انسان لبرل نہیں ہے۔ ایک سچا مسلمان، اللہ کا بندہ اور غلام ہوتا ہے، جب کہ لبرل بہت سارے معبودوں بشمول نفس کا بندہ اور غلام ہوتا ہے۔ قرآن نے بہت احسن طریقے سے ایک مثال سے اس حقیقت کو واضح کیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:’’اللہ ایک مثال دیتا ہے۔ ایک شخص تو وہ ہے جس کے مالک ہونے میں بہت سے کج خلق آقا شریک ہیں، جو اسے اپنی اپنی طرف سے لکھتے ہیں اور دوسرا شخص پورے کا پورا ایک ہی آقا کا غلام ہے۔ کیا ان دونوں کا حال یکساں ہوسکتا ہے؟ الحمدللہ مگر اکثر لوگ نادانی میں پڑے ہوئے ہیں‘‘۔(الزمر ۳۹:۲۹)۔ اقبالؒ نے بھی اس کی وضاحت کی ہے کہ وہ ایک سجدہ (اللہ کی بندگی) جس کو تو مشکل سمجھتا ہے۔ انسان کو ہزار سجدے (مختلف آقائوں کی بندگیوں) سے نجات دیتا ہے۔ لہٰذا ایک مسلمان جب آپ کو لبرل کہتا ہے تو وہ منافقت کرتا ہے اس لیے کہ انسان ایک وقت میں اللہ کا بندہ ہوگا یا خواہشاتِ نفس اور دوسرے آقائوں کا بندہ۔
’اُمت مسلمہ، ابتلا اور اُمید ِ بہار‘ (فروری ۲۰۱۶ئ) میں اُمت مسلمہ کے دگرگوں حالات پڑھ کر دلی صدمہ ہوا۔لاکھوں کی تعداد میں شامی مسلمانوں کا قتل عام اور کروڑوں کی تعداد میں ان کا بے گھر ہو جانا قابلِ رنج و افسوس ہی نہیں بلکہ قابلِ عبرت بھی ہے۔ اُمت کے خلاف ہونے والی سازشوں کا بھی اندازہ ہوا۔ تخفیف ِ آبادی کے موضوع پر افشاں نوید صاحبہ کا تحقیقی مطالعہ قابلِ غور وفکر ہے۔ ’تحریکِ اسلامی اور فکری چیلنج: چند گزارشات‘ (فروری ۲۰۱۶ئ) میں عبدالرشید صدیقی صاحب نے بڑے اہم فکری چیلنج کی طرف توجہ مبذول کروائی ہے۔ دہریت کا بڑھتا ہوا فتنہ اُمت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔