ہمارے بے شمار معاشرتی مفاسد اور اخلاقی پستیوں کا ایک بڑا سبب موجودہ غیراسلامی اور غیرمنصفانہ معاشی نظام ہے۔ یہ روز افزوں طبقاتی تفاوت پیدا کر رہا ہے۔ یہ نظام امیر کو امیرتر اور غریب کو غریب تر بنانے والا ہے۔ اس کا یہ تباہ کن عمل آہستہ آہستہ ہمارے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیتا جارہا ہے۔ہماری اکثریت کا حال یہ ہے کہ اسے روٹی اور کپڑے اور رہنے کے مکان اور دوا دارو کے ابتدائی مسائل اتنی فرصت ہی نہیں دیتے کہ دین و اخلاق اور قوم و ملّت کے اعلیٰ تقاضوں کی طرف کچھ توجہ ہوسکے۔
اس گندے اور ناپاک معاشی نظام کو جوں کا توں رکھ کر اصلاح و ترقی کا کوئی معمولی سا کام بھی نہیں کیا جاسکتا، کجا یہ کہ اسلام کے اُونچے آئیڈیل کی طرف قدم بڑھایا جاسکے.... اس لیے وسیع تعمیری و اصلاحی منصوبوں کو سوچنے اور ہاتھ میں لینے سے قبل ملکی نظم و نسق کو صحت مندانہ اور مضبوط بنانا بہت بڑی ضرورت ہے۔ ہماری دفتری زندگی میں فرض ناشناسی عام ہے۔ ایک افسر اور ایک ملازم اس ذمہ داری کو سرے سے محسوس نہیں کرتا جو ریاست اور اس کے کروڑوں باشندوں کی طرف سے اس پر عائد ہوتی ہے، بلکہ وہ ذاتی مفاد اور ذاتی خواہشات پر اپنے بڑے سے بڑے فرض کو قربان کرسکتا ہے۔ وہ وقت کی پابندی نہیں کرتا، وہ کام چوری کرتا ہے، وہ دفتر میں تضیع اوقات کرتا ہے، وہ نیچے سے رشوت لیتا اور اُوپر رشوت دیتا ہے۔ وہ قومی مال پر ہاتھ صاف کرتا ہے، وہ سرکاری خرچ پر نجی سفر کرتا ہے، وہ قانون اور ضابطے کے ساتھ مذاق کرتا رہتا ہے، وہ دوستوں کی خوشنودی حاصل کرنے اور مخالفوں سے انتقام لینے کے لیے اپنے اختیارات کا بے جا استعمال کرتا ہے۔ ان ساری چیزوں کو ہم ایک لفظ ’خیانت‘ کے تحت جمع کرسکتے ہیں۔
’خیانت‘ نظم و نسق کے لیے ایک طرح کا گھُن ہے۔ اگر گھُن اندر ہی اندر اس سارے ڈھانچے کو چاٹ جائے جس پر مملکت کا اقتدار کھڑا ہے تو چاہے باہر کتنا ہی خوش نما رنگ و روغن موجود ہو، ہر آن تباہی کا خطرہ درپیش رہے گا۔ ایسے بودے نظم و نسق کے بل پر معاشرے کی کسی خرابی کے خلاف جدوجہد کرنا یا کسی تعمیری و اصلاحی کام کو سرانجام دینا سرے سے ناممکن ہے۔(’اشارات ‘ ، نعیم صدیقی ، ترجمان القرآن،جلد۴۶، عدد۱،رجب ۱۳۷۵ھ، مارچ ۱۹۵۶ئ، ص ۶-۷)
_______________