قائداعظم پاکستان کے رہنے والوں کے عظیم ترین محسن ہیں کہ انھوں نے اپنی صحت، نجی زندگی، گھربار سب کچھ تیاگ کر ہمیں ایک آزاد خطۂ زمین لے کر دیا اور انتقال سے قبل اپنی محنت سے کمائی گئی دولت بھی قوم میں تقسیم کرگئے۔ لیکن یہ عجیب اتفاق ہے کہ قائداعظم ہماری تاریخ کے ایک مظلوم کردار بنتے نظر آتے ہیں۔
قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک ان کے نظریات،افکار، سیاسی و ذاتی زندگی پر بحث جاری ہے اور یہ کشتی کنارے لگتی نظر نہیں آتی۔ اصول تو یہ ہے کہ کسی بھی عظیم سیاسی رہنما کو اس کی تقریروں، فرمودات، تحریروں اور سیاسی زندگی کے حوالے سے جانچا پرکھا جاتا ہے اور اپنے ذاتی ایجنڈے ، ذاتی فلسفے اور ذاتی مفاد سے بلند ہوکر اس کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ مگر افسوس کہ یہاں صورت مختلف ہے۔
قائداعظم کا نقطۂ نظر، تصور، جدوجہد اور وژن ان کی تقریروں سے روزِ روشن کے مانند واضح ہے، لیکن ہمارے ہاں خاص کر گذشتہ چار عشروں سے رسم چل نکلی ہے کہ ایجنڈا بردار حضرات ان کو پورے تناظر میں سمجھنے اور ان کی سیکڑوں تقاریر و بیانات پڑھنے کے بجاے، سیاق و سباق سے کاٹ کر اپنے اپنے مطلب کے فقرے ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ پھر انھی جملوں پر اپنے فلسفے اور اپنی خواہشات کا خول چڑھا کر مخصوص فکری ڈھول پیٹنا شروع کر دیتے ہیں۔ ایسی تحریف نگاری کا یہ موضوع ایک کتاب کا تقاضا کرتا ہے۔ مجھے قائداعظم کے سیکڑوں حوالے اور تقاریر یاد ہیں۔ یہاں پر صرف مثال کی خاطر عرض کر رہا ہوں کہ روزنامہ جنگ (۹فروری ۲۰۱۶ئ) نے ایک صاحب کا کالم شائع کیا، جس میں انھوں نے قائداعظم کی چند تقاریر سے من پسند اور وضع کردہ جملوں کو اپنے سیاق و سباق سے کاٹ کر من پسند نتائج اخذ کیے۔ اس سے مجھے حیرت بھی ہوئی اور افسوس بھی۔
مثال کے طور پر موصوف نے لکھا کہ یکم فروری ۱۹۴۸ء کو قائداعظم نے امریکی عوام سے ریڈیو خطاب میں فرمایا: ’’پاکستان ایک ایسی مذہبی ریاست نہیں بنے گا، جس میں مُلّائوں کو مذہبی نصب العین کی روشنی میں حکومت کرنے کا اختیار ہو‘‘ ۔ چونکہ موصوف نے اس جملے کو خاص طور پر اپنے مقصد کے لیے منتخب کیا ہے، اس لیے قائد کے اصل الفاظ اور پورا سیاق و سباق ملاحظہ فرمایئے اور پھر ان کا اُردو ترجمہ:
The constitution of Pakistan has yet to be framed by the Pakistan Constituent Assembly. I do not know what the ultimate shape of this constitution is going to be. But, I am sure that it will be of a democratic type, embodying the essential principles of Islam. Today, they [means `Principles of Islam`] are as applicable in actual life, as they were 1,300 years ago. Islam and its idealism have taught us democracy. It has taught equality of men, justice and fairplay to everybody. We are the inheritors of these glorious traditions and are fully alive to our responsibilities and obligations as framers of the future constitution of Pakistan. In any case Pakistan is not going to be a theocratic state __ to be ruled by priests with a divine mission. (Speeches, Statements & Messages of the Quaid-e-Azam, Vol: 4, ed: Khurshid A. Yusufi,(بزمِ اقبال، لاہور، ص ۲۶۹۴
مجلس دستورِ پاکستان کو ابھی پاکستان کا دستور مرتب کرنا ہے۔ مجھے اس بات کا تو علم نہیں کہ دستور کی حتمی شکل کیا ہوگی، لیکن مجھے اس امر کا یقین ہے کہ یہ جمہوری نوعیت کا ہوگا، جس میں اسلام کے لازمی اصول شامل ہوں گے۔ آج بھی ان اصولوں کا اطلاق عملی زندگی میں ویسے ہی ہوسکتا ہے، جیسے کہ ۱۳۰۰ برس قبل ہوسکتا تھا۔ اسلام نے ہرشخص کے ساتھ عدل اور انصاف کی تعلیم دی ہے۔ ہم ان شان دار روایات کے وارث ہیں اور پاکستان کے آیندہ دستورکے مرتبین کی حیثیت سے ہم انھی ذمہ داریوں اور فرائض سے باخبر ہیں۔ بہرنوع، پاکستان ایک ایسی مذہبی مملکت نہیں ہوگی، جس پر آسمانی مقصد کے ساتھ پاپائوں کی حکومت ہو‘‘۔
کالم نگار موصوف نے حضرت قائداعظم کی تقریر کے اس مکمل پیراگراف سے اپنی مرضی کا ایک چھوٹا ٹکڑا نکال کر، قارئین کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی ہے۔ اب آپ پورا اقتباس دیکھ لیجیے، یعنی قیامِ پاکستان کے پانچ ماہ بعد بھی قائداعظم بیان فرماتے ہیں:پہلے یہ کہ ’’دستور، دستور ساز اسمبلی نے بنانا ہے‘‘، مراد یہ ہے کہ ’’دستور میری ذات نے شاہانہ اختیار کے ساتھ تشکیل نہیں دینا‘‘۔ دوسرا یہ کہ’’ وہ جمہوری ہوگا اور اسلام کے لازمی اصولوں پر مبنی ہوگا‘‘۔ سوال یہ ہے کہ اسلام کے لازمی اصول رُوبہ عمل ہوں گے تو پھر پاکستان سیکولر کیسے ہوگا۔ تیسرا یہ کہ ’’اسلام کے اصول ۱۳۰۰سال بعد بھی ویسے ہی قابلِ اطلاق ہیں اور ہم اہلِ پاکستان قطعاً معذرت خواہ نہیں ہیں کہ ۲۰ویں صدی میں آٹھویں صدی ہجری کے عطا کردہ ضابطوں کو رُوبہ عمل لانے سے کسی طور پر شرمائیں‘‘۔ چوتھا یہ کہ’’ اسلام ہرشخص کے ساتھ (یعنی غیرمسلموں کے ساتھ بھی) عدل اور انصاف کی تعلیم دیتا ہے اور دستورسازی انھی اصولوں پر ہوگی‘‘۔ پانچواں یہ کہ ’’یہاں پر حکمرانی پاپائوں کی نہیں ہوگی، جو کسی کے سامنے جواب دہ نہ ہوں اور اپنے ہر بُرے بھلے فعل کو تقدس کی مُہر سے نافذ کرنے کی دھونس جمائیں‘‘۔ (ایسا اختیار یا استثنا اسلام میں سرے سے ہے ہی نہیں، جب کہ ایسا مذہبی اقتدار صرف عیسائیوں میں تھا،جس سے مسلمانوں کی تاریخ کا کوئی تعلق نہیں)۔ اب آپ جناب دانش ور کی دیانت اور قائد کی بصیرت کا موازنہ کرکے دیکھیے، کیا واقعی قائدکے بیان کردہ اصولی موقف سے کاٹ کر، استعمال کردہ ٹکڑے کا وہی مطلب ہے، یا اس کا مقصد ایک بڑی جچی تلی اور مبنی برصداقت راے کا اظہار ہے؟
قائداعظم کے یکم فروری ۱۹۴۸ء کو امریکی عوام کے نام ریڈیو خطاب کا ذکر پڑھ کر مجھے اس لیے حیرت ہوئی کہ اسی خطاب میں قائداعظم کے ان الفاظ کو کیوں درخور اعتنا نہ سمجھا گیا، جو بنیادی اصول اور قائداعظم کے تصورِ پاکستان کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ذرا ان الفاظ کو پڑھ لیجیے جو امریکی عوام نے اپنے کانوں سے سنے: Pakistan is the premier Islamic state [پاکستان سب سے بڑی اسلامی مملکت ہے]۔ مجھے اس پر ہرگز حیرت نہیں ہوتی کہ ایک مخصوص مکتب فکر سے وابستہ یہ لوگ قائداعظم کی تقاریر کو پڑھتے ہوئے ایسے تمام الفاظ کو نظرانداز کر دیتے ہیں اور اُن کا جی چاہتا ہے کہ ان الفاظ کو قائداعظم کی تقاریر سے حذف کر دیا جائے۔
اسی مضمون میںیہ کالم نگار مزید لکھتے ہیں: ’’۱۹فروری ۱۹۴۸ء کو آسٹریلیا کے عوام کے نام تقریر میں قائداعظم نے اعلان کیا کہ ’’پاکستانی ریاست میں مُلّائوں کی حکومت (Theocracy) کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوگی‘‘۔ یہاں پر مَیں مجبور ہوں کہ ایک مرتبہ پھر مظلوم قائداعظم سے رجوع کروں۔ وہ ۱۹فروری ۱۹۴۸ء کو آسٹریلوی عوام کے نام ریڈیائی خطاب میں فرماتے ہیں:
West Pakistan is separated from East Pakistan by about a thousand miles of the territory of India....How can there be unity of government between areas so widely separated? I can answer this question in one word. It is 'Faith': Faith in Almighty God, in ourselves and in our destiny. But, I can see that people, who do not know us well might have difficulty in grasping the implications of so short an answer. Let me, for a moment, build up the background for you.
The great majority of us [means Pakistanis] are Muslims. We follow the teachings of the Prophet Muhammad (peace be on him). We are members of the brotherhood of Islam in which all are equal in right, dignity and self-respect. Consequently, we have a special and a very deep sense of unity. But, make no mistake: Pakistan is not a theocracy or anything like it. Islam demands from us the tolerance of other creeds and we wellcome in closest association with us all those who, of whatever creed, are themselves willing and ready to play their part as true and loyal citizens of Pakistan. Not only are most of us Muslims, but we have our own history, customs and traditions, and those ways of thought, outlook and instinct, which go to make up a sense of nationality. (حوالہ مذکور، جلد۴، ص ۸۸-۲۶۸۷
مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان ہزار میل کے قریب بھارتی علاقہ ہے۔ اس قدر طویل فاصلہ ہو تو اتحاد عمل کیسے ہوسکتا ہے؟ میں اس سوال کا ایک لفظ میں جواب دے سکتا ہوں، اور وہ ہے ’ایمان‘۔ ایمان اللہ تعالیٰ کی ذات پر، اپنے اُوپر اعتماد اور اپنے مقدر پر بھروسا۔ لیکن میں سمجھ سکتا ہوں کہ جو لوگ ہم سے واقف نہیں ہیں، انھیں اس مختصر سے جواب کے مضمرات کو سمجھنے میں شاید کچھ مشکل محسوس ہو۔ لیجیے، میں آپ کے سامنے تھوڑ ا سا پس منظر بیان کیے دیتا ہوں:
ہماری عظیم اکثریت مسلمان ہے۔ ہم رسولِ خدا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں۔ ہم اسلامی ملّت و برادری کے رکن ہیں، جس میں حق، وقار اور خودداری کے تعلق سے سب برابر ہیں۔ نتیجہ یہ کہ ہم میں اتحاد کا ایک خصوصی اور گہرا شعور موجود ہے۔ لیکن غلط نہ سمجھیں، پاکستان میں کوئی پاپائی نظام رائج نہیں ہے۔ اس طرح کی کوئی چیز نہیں ہے۔ اسلام ہم سے دیگر عقائد کو گوارا کرنے کا تقاضا کرتا ہے اور ہم اپنے ساتھ ان لوگوں کے گہرے اشتراک کا پُرتپاک خیرمقدم کرتے ہیں، جو خود پاکستان کے سچّے اور وفادار شہریوں کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے آمادہ اور رضامند ہوں۔ نہ صرف یہ کہ ہم میں سے بیش تر لوگ مسلمان ہیں، بلکہ ہماری اپنی تاریخ ہے، رسوم و روایات ہیں اور وہ تصوراتِ فکر ہیں ، وہ نظریہ اور جبلّت ہے جس سے قومیت کا شعور اُبھرتا ہے۔
آسٹریلیا کے عوام کے نام قائداعظم کے اس خطاب کا یہ حصہ ملاحظہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلی بات وہ یہ فرما رہے ہیں کہ: ’’پاکستان کے قومی اتحاد کی بنیاد ’ایمان‘ ہے‘‘۔ پھر لفظ ’ایمان‘ کی وہ تشریح فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ پر ایمان‘‘۔ قائد اسی بات پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ ابہام کو دُور کرنے کے لیے یہ بھی بتاتے ہیں کہ ’’یہ ملک عظیم مسلم اکثریت رکھتا ہے‘‘۔ یہاں وہ یہ نہیں کہتے کہ: ’’مسلم، ہندو ، سکھ، عیسائی، پارسی کیا ہوتا ہے؟ ہم بس پاکستانی ہیں‘‘۔ نہیں، بلکہ وہ قیامِ پاکستان کی بنیاد ’مسلم اکثریت‘ کی نشان دہی کرتے ہیں۔ دوسرا وہ یہ بھی نہیں کہتے کہ ’’پاکستان بن گیا ہے، اب ہمارا کیا تعلق اسلام اور غیراسلام کے سوال سے۔ اس لیے اب رہنمائی کے لیے ارسطو، روسو، والٹیر اور ابراہام لنکن کی طرف دیکھو‘‘۔ اس کے بجاے وہ بڑے واضح لفظوں میں فرماتے ہیں: ’’ہم رسولِ خدا محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں‘‘۔ اور رسولؐ اللہ کی تعلیمات کا مطلب محض ’محمدعلی‘ نام رکھنا نہیں ہوتا بلکہ قرآن، سنت اور حدیث محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات ہوتی ہیں۔ پھر وہ یہ نہیں کہتے کہ: ’’سرحد اور قومیت کی بنیاد کیا ہوتی ہے‘‘ بلکہ اس کے بجاے کہتے ہیں: ’’ہم اسلامی ملّت و برادری کے رکن ہیں‘‘۔ اسی کے ساتھ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’مسلمان اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہیں‘‘ اور پھر واضح کرتے ہیں کہ: ’’یہاں کوئی پاپائی نظام رائج نہیں ہے؟‘‘ اور آگے چل کر غیرمسلم شہریوں کا پورا احترام ملحوظ رکھنے کی بات کو وہ محض پاکستانی ہونے کے ناتے سے نہیں بلکہ پاکستان سے وفاداری سے مشروط کرتے ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ کالم نگار صاحب نے جو الفاظ قائداعظم سے منسوب کیے ہیں، وہ اپنے سیاق و سباق میں بالکل دوسرا منظرنامہ پیش کرتے ہیں، جو عین اسلامی فکریات سے مطابقت رکھتا ہے۔
قائداعظم نے یہ بات ۱۲،۱۳ مرتبہ کہی کہ پاکستان مذہبی ریاست نہیں ہوگی اور کئی بار وضاحت کی، جو ان کے فہم اسلام کا ثبوت ہے کہ اسلام میں مذہبی ریاست کا تصور موجود نہیں۔ ظاہر ہے کہ مذہبی ریاست عوام پرمذہب مسلّط کرتی ہے اور اقلیتوں کو برابر کے حقوق نہیں دیتی، جب کہ اسلامی ریاست میں اقلیتوں کو برابر کے شہری تصور کیا جاتا ہے اور ان پر ریاستی مذہب مسلّط نہیں کیا جاتا۔ ایک واضح اور روشن مثال ریاست مدینہ ہے۔ ڈاکٹر محمد حمیداللہ مرحوم نے میثاقِ مدینہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس کے تحت غیرمسلموں کو برابر کے حقوق دیے گئے تھے۔ غیرمسلموں کے حوالے سے حُسنِ سلوک، احترام، برابری اور برداشت کی مثالیں سیرتِ نبویؐ میں موجود ہیں، جس پر بہت لکھا جاچکا ہے۔ گویا اسلام یا اسلامی ریاست میں اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے جھگڑا نہیں بلکہ اس ساری بحث اور جدوجہد کا مقصد کچھ اور ہے۔ پاکستان ہرگز مذہبی ریاست نہیں، بلکہ یہ اصول ہمیشہ کے لیے طے ہوکر آئین کا حصہ بن چکا کہ پاکستان ایک اسلامی جمہوری ریاست ہے جس کے قوانین، آئین، ڈھانچے وغیرہ کی بنیاد اسلامی اصولوں پر استوار ہوگی۔
یہی بات قائداعظم نے قیامِ پاکستان سے قبل ۱۰۱ بار اور قیامِ پاکستان کے بعد ۱۴بار برملا اور واشگاف الفاظ میں بیان فرمائی کہ پاکستان کا آئین، نظام، قانون، انتظامی ڈھانچے وغیرہ کی بنیاد اسلامی اصولوں پر رکھی جائے گی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ جو حضرات پاکستان کو مذہبی ریاست بنانے کا ایجنڈا رکھتے ہیں وہ بھی ناکام ہوں گے اور جو اسے اسلامی کے بجاے محض جمہوری ریاست بنانے کا خواب دیکھتے ہیں اور اس پر سیکولرزم کا غلاف چڑھانا چاہتے ہیں، وہ بھی ناکامی کے مقدر سے ہم کنار ہوں گے۔ قائداعظم نے بارہا ’مسلمان ریاست‘ کا لفظ استعمال کیا، لیکن ہربار ’مسلمان ریاست‘ کے بعد ان الفاظ کا اضافہ کیا کہ ’’جس کی بنیاد اسلامی اصولوں پر استوار ہوگی‘‘۔
اب ظاہر ہے کہ جس ریاست کی بنیاد اسلام ہو، اسے اسلامی ریاست یا اسلامی ملک ہی کہتے اور سمجھتے ہیں، اسے مذہبی ریاست نہیں کہتے۔ لیکن سیکولرزم کے پردے میں خود دو قومی نظریے کی نفی کرنے کے درپے ان حضرات کے لیے اصل وبالِ جان یہ تصور ہے کہ ’’اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات‘‘ ہے، جو ذاتی زندگی، سیاسی زندگی، ریاستی زندگی، حتیٰ کہ ہر شعبے پر محیط ہے۔ اس لیے اسلامی ریاست کی سیاست، طرزِحکمرانی، قانون کی تشکیل، تنفیذ اور تعبیر وغیرہ کو اسلام سے آزاد نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح مسلمان ریاست میں غیراسلامی رسومات و عادات، مثلاً: شراب، زنا، سود، جوا، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، استحصال، چوری وغیرہ وغیرہ کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ گھر کی چار دیواری کے اندر آپ کیا کرتے ہیں، یہ بندے اور اللہ کا معاملہ ہے۔ مگر ریاست کا تعلق اجتماعی معاشرت سے ہے، اور اس کے بارے میں ریاست کو ایک واضح تصور اختیار کرنا ہوتا ہے۔ ریاست ِ پاکستان کے اس تصور کی تشکیل ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو نہیں بلکہ طویل، جاں گسل اور صبرآزما جدوجہد کے دوران میں ہوئی تھی۔ اسی کمٹ منٹ نے پاکستان کی صورت گری کی ہے۔
تاریخی پس منظر اور قائداعظمؒ کی ۱۹۴۰ء سے ۱۹۴۸ء تک ساری تقاریر کے تناظر میں دیکھیں تو ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر کا مدعا فقط یہ تھا کہ اقلیتوں کو برابر کے حقوق حاصل ہوں گے اور مذہب ان کی ترقی، تمدن اور اندازِ زندگی میں حائل ہوگا، نہ رکاوٹ بنے گا اور غیرمسلم اپنے مذہب کے مطابق آزادانہ زندگی گزار سکیں گے۔ مختصر یہ کہ ریاست ان پر مذہب مسلّط نہیں کرے گی۔
کراچی بار ایسوسی ایشن سے عیدمیلاد النبیؐ کے موقعے پر ۲۵ جنوری ۱۹۴۸ء کو قائداعظم نے بڑے بلندآہنگ الفاظ میں اعلان فرمایا کہ: ’’وہ شرارتی عناصر ہیں جو کہہ رہے ہیں کہ آئین پاکستان کی بنیاد شریعت پر نہیں ہوگی۔ اسلامی اصول آج بھی ہماری زندگی پر اسی طرح لاگو (applicable) ہیں جس طرح تیرہ سو سال قبل تھے‘‘ (قائداعظم کے بیانات، تقاریر، جلد چہارم، ص ۲۶۶۹)۔ ظاہر ہے کہ اسلامی شریعت کا نفاذ غیرمسلموں پر تو نہیں ہونا تھا۔ جو مذہبی عناصر شریعت کے نام پر تشدد پھیلاتے، خدائی فوج دار بنتے اور اقلیتوں کے حقوق پر ضرب لگاتے ہیں، وہ زیادتی بلکہ کھلم کھلا قرآن و سنت اور اسلامی شریعت کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اسی طرح جو حضرات اسلام کے نام پر’ لبرل ازم‘ یا ’سیکولرزم‘ کی آڑ میں مادرپدر آزادی و اخلاق باختگی پھیلاتے ہیں، وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قانون و ضابطے کو توڑتے اور اسلامی حدود کو پامال کرتے ہیں۔
ذہنی ارتقا انسانی زندگی کا حصہ ہے۔قائداعظم کی جانب سے تحریک خلافت کی مخالفت کی کئی وجوہ تھیں۔ برطانیہ سے ۱۹۳۴ء میں واپسی کے بعد اور خاص طور پر آٹھ صوبوں میں کانگریسی حکومت (Congress Rule) کی مسلم دشمنی پر مبنی کارروائیوں کو دیکھنے کے بعد قائداعظم کے خیالات میں بے پناہ تبدیلی نظر آتی ہے، جس کی بہترین جھلک مسلم لیگ کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے اراکین اسمبلی کے ۱۹۴۶ء میں دہلی کنونشن [۷-۹؍اپریل]کے خطاب اور قرارداد میں ملتی ہے۔ دہلی کنونشن میں منظور کردہ قرارداد کو پڑھیے تو تصورِ پاکستان سمجھ میں آئے گا۔ اس قرارداد کے متن کے مطابق مستقبل میں تشکیل پانے والی مملکت پاکستان کے اسلامی، تہذیبی، سماجی اور آئینی دائرئہ کار کی بھرپور وضاحت ہوتی ہے۔ ازاں بعد جو حلف نامہ شرکاے اجلاس نے متفقہ طور پر پڑھا، جس کا ایک ایک جملہ نواب زادہ لیاقت علی خان بلندآواز میں پڑھتے تھے اور قائداعظم سمیت تمام منتخب ارکان اُن جملوں کو باآواز بلند دہراتے تھے۔ اس حلف نامے کے الفاظ بھی واضح کرتے ہیں کہ کُل ہند مسلم لیگ کے ارکان کس پاکستان کو بنارہے تھے۔ اس حلف نامے کا آغاز اس طرح ہوتا ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ کہہ دو کہ میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔
رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ ثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَ انْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ
اے پروردگار، ہمیں صبرواستقامت دے۔ ہمیں ثابت قدم رکھ اور قومِ کفار پر ہمیں فتح و نصرت عطا فرما۔(سیّد شریف الدین پیرزادہFoundation of Pakistan،جلددوم، ناشر: سینٹر آف ایکسی لینس، قائداعظم یونی ورسٹی، اسلام آباد، ۲۰۰۷ئ، ص ۴۷۷- ۴۷۹ اور ۴۸۷-۴۸۸)
ہندستانی سفیر سری پرکاش کی کتاب بہت سے جھوٹوں کا مجموعہ ہے۔ قائداعظم کی شخصیت کے وقار کے پیش نظر ہندستانی سفیر گورنر جنرل کو سوالات کے کٹہرے میں کھڑا کر لے، ناقابلِ فہم ہے۔ پھر قائداعظم جیسا کھرا انسان کیسے کہہ سکتا تھا کہ: ’’میں نے کبھی ’اسلامی‘ کا لفظ استعمال نہیں کیا‘‘۔ قائداعظم کو معذرت خواہانہ رویے اختیار کرنے کی کیا ضرورت تھی اور نہ اُن کا یہ مزاج تھا، جب کہ وہ اسلامی نسبت کا لفظ کئی بار ادا کرچکے تھے۔ سری پرکاش نے یہ واقعہ ستمبر ۱۹۴۷ء کا لکھا ہے، صرف ایک ماہ بعد قائداعظم نے پنجاب یونی ورسٹی اسٹیڈیم لاہور میں ایک جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے ۳۰؍اکتوبر ۱۹۴۷ء کو اعلان کیا تھا: Be prepared to sacrifice his all, if necessary, in building up Pakistan as a Bulwark of Islam [اس امر کے لیے تیار رہیے کہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے کے لیے اگر ضروری ہو تو اپنا سب کچھ قربان کر دیں گے]۔ (ایضاً، جلد چہارم، ص ۲۶۴۳)
یہ اعلان اہلِ پنجاب نے براہِ راست اور اہلِ پاکستان نے بذریعہ ریڈیو سنا کہ: ’’پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے کے لیے ہر قربانی کے لیے تیار ہوجائو‘‘۔کیا یہ قلعہ ہوا میں تعمیر ہونا تھا؟ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے کا عزم رکھنے والے قائداعظم یہ کیسے کہہ سکتے تھے کہ پاکستان اسلامی ریاست نہیں ہوگی۔ میں سیکڑوں حوالے دے سکتا ہوں لیکن جنھوں نے نہیں ماننا، انھوں نے بہرحال نہیں ماننا۔
اسی طرح یہ اصولی بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ تحقیق اور تحریر کا ایک طے شدہ اصول ہے۔ کسی بھی شخصیت کے بارے میں لکھتے ہوئے اس کی پوری شخصیت، انداز و اَطوار، کردار وغیرہ کو ذہن میں رکھا جاتا ہے اور ایسے من گھڑت واقعات کو نظرانداز کیا جاتا ہے، جو اس شخص کی شخصیت سے مطابقت نہ رکھتے ہوں، لگانہ کھاتے ہوں۔ اللہ پاک نے عقلِ عام (common sense) اسی لیے دی ہے کہ اسے استعمال کیا جائے اور اس کی کسوٹی پر سچ جھوٹ کو پرکھا جائے۔ قائداعظم کی زندگی ایک کھلی کتاب ہے، خاص طور پر ۱۹۳۵ء سے لے کر ستمبر ۱۹۴۸ء تک ان کی شخصیت کا ہرشعبہ بے نقاب ہے۔ ان برسوں میں قائداعظم نے باربار سارے ہندستان کے دورے کیے، بہت سی جگہوں پہ قیام کیا۔ ان کی ہمشیرہ فاطمہ جناح اکثر ساتھ ہوتی تھیں۔ قائداعظم درجن بار سے زیادہ لاہور آئے ، ممدوٹ ولا، فلیٹیز ہوٹل اور پھر گورنر ہائوس میں قیام کرتے رہے، لاکھوں لوگوں سے ملتے رہے، لیکن آج تک کسی شخص نے وہ بات نہیں کہی، جو روزنامہ جنگ کے ایک کالم نگار نے لکھی۔ مَیں تحریکِ پاکستان اور قائداعظم سے بار بار ملنے والے سیکڑوں کارکنوں سے ملا ہوں۔ بانیِ پاکستان کے بارے میں کسی بھی واقعے کو ہوا دینے سے پہلے یہ جانچنا ضروری ہے کہ کیا اس میں سچائی ہوسکتی ہے؟ اور کیا یہ کامن سنس کو اپیل کرتا ہے؟
یاد رہے کہ قائداعظم سیکڑوں بار اعلان کرچکے تھے کہ پاکستان کی بنیاد اسلامی اصولوں پر استوار ہوگی۔ قائداعظم اصول پرست، سچے اور کھرے انسان تھے۔ مصلحت یا منافقت کے الفاظ اُن کی ڈکشنری میں موجود ہی نہیں تھے۔ اُن کی سیاسی زندگی میں بہت سے ایسے مقامات آئے، جب اُن کو مصلحت کی بنیاد پر ایسا مشورہ دیا گیا، جو اُن کے کھرے اصولوں کے خلاف تھا۔ اُنھوں نے نقصان برداشت کرلیا، لیکن اصولوں پر سمجھوتا نہ کیا۔ وہ جن اصولوں، تصورات اور وژن کا پرچار کرتے تھے، اُن پر خود بھی سختی سے عمل کرتے تھے۔ اس حوالے سے اُن کی سوانح عمری سیکڑوں واقعات سے بھری پڑی ہے۔ یہ بات واضح رہے کہ قائداعظم پاکستان کو ایک اسلامی ریاست کہتے تھے، اور اسلامی جمہوری فلاحی ریاست بنانے کے عزم کا اظہار کرتے تھے۔ ۱۵؍اگست ۱۹۴۷ء کے دن پہلے یومِ آزادی کے موقعے پر پاکستان کے پرچم کشائی کی تقریب میں قائداعظم، مولانا شبیراحمد عثمانی کو خاص طور پر اپنے ساتھ لے کر گئے اور اُن سے پرچم کشائی کروائی۔ ڈھاکہ میں قائداعظم کے حکم پر ہی مولانا اشرف علی تھانوی کے خواہرزادے مولانا ظفراحمد عثمانی سے پرچم کشائی کروائی گئی۔ دیکھنے اور سمجھنے والوں کے لیے اس میں اُس وقت بھی ایک واضح پیغام تھا اور آج بھی موجود ہے۔ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد صوبوں میں اسلامک ری کنسٹرکشن بورڈ یا اسلامی تعلیمات بورڈ تشکیل دیے گئے، جن کا فرضِ منصبی یہی تھا کہ وہ پاکستان میں شہریوں کی زندگی کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے سفارشات دیں۔ ان بورڈوں کی سفارش پر ۳۰ستمبر ۱۹۴۸ء میں پنجاب اور سرحد میں شراب پر پابندی لگادی گئی۔ اس پابندی کے سرکاری حکم نامے، یعنی نوٹیفیکیشن کی خبر پاکستان کرونیکل از عقیل عباس جعفری کے صفحہ ۲۶ پر موجود ہے اور پڑھی جاسکتی ہے۔
قائداعظم پاکستان کو ایک اسلامی جمہوری جدید ریاست بنانا چاہتے تھے۔ اسی لیے انھوں نے ایک طرف عید میلادالنبیؐ کی تقریب منعقدہ کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب میں شریعت کے نفاذ کی بات کی، تو دوسری طرف یکم جولائی ۱۹۴۸ء کو اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی افتتاحی تقریب میں ماہرین معیشت و مالیات سے پاکستانی نظام کو اسلامی اصولوں پر استوار کرنے کی نصیحت کی۔
اسٹیٹ بنک کی افتتاحی تقریب سے یہ خطاب، قائداعظم کی آخری عوامی تقریر تھی، جس کے بعد بیماری نے اُنھیں آرام پہ مجبور کر دیا۔ ذرا قائداعظم کے الفاظ کے باطن میں جھانکیے اور اُن کا مدعا اور وژن سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ انھوں نے کہا:
I shall watch with keeness the work of your Research Orgnanization in evolving practices compatible with Islamic ideals of social and economic life.... The adoption of Western economics theory and practice will not help us in achieving our goal of creating a happy and contented people. We must work our destiny in our own way and present to the world an economic system based on true Islamic concept of equality of manhood and social justice.
میں دل چسپی سے اس امر کا انتظار کروں گا کہ آپ کا شعبۂ تحقیق ، بنکاری کے طور طریقوں کو معاشرتی اور اقتصادی زندگی کے اسلامی تصورات سے ہم آہنگ کرے… مغربی معاشیات اور عمل، خوش و خرم اور مطمئن قوم کی تشکیل کی منزل کے حصول میں ہماری مدد نہیں کرسکیں گے۔ ہمیں اپنے مقدر کو سنوارنے کے لیے اپنے ہی انداز میں کام کرنا ہوگا، اور دنیا کے سامنے ایک ایسا اقتصادی نظام پیش کرنا ہوگا، جس کی اساس انسانی مساوات اورمعاشرتی عدل کے سچّے اسلامی تصور پر استوار ہو۔(ایضاً،جلد چہارم، ص ۲۷۸۷)
اس سے ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ جب قائداعظم نے پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانے کا اعلان کیا تھا تو اُن کا کیا مدعا تھا۔ وہ مغرب کے نظامِ معیشت کے مقابلے میں اسلامی نظامِ معیشت پر مبنی معاشی و معاشرتی ڈھانچا وضع کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔قائداعظم عہد اور عزم کے پکّے تھے۔ وہ زندہ رہتے تو اپنے وژن کو عملی شکل دے کر دم لیتے، لیکن موت کا ایک دن مقرر ہے اور وہ مشن کی تکمیل کا انتظار نہیں کرتی۔ اس طرح وہ مشن اگلی نسل کو منتقل ہوجاتا ہے۔
قائد ملت لیاقت علی خان، قائداعظم کے معتمد ترین ساتھی اور پاکستان کے پہلے وزیراعظم تھے۔ وہ قائداعظم کی سوچ اور وژن کا مکمل ادراک رکھتے تھے۔ قائداعظم کی وفات کے سات ماہ بعد دستورساز اسمبلی میں ’قراردادِ مقاصد‘ پیش کرتے ہوئے، وزیراعظم لیاقت علی خان نے یقینا قائداعظم کے وژن کو ذہن میں رکھا۔ جو دانش ور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ:’ ’قراردادِ مقاصد کا مسودہ قائداعظم کو دکھایا گیا تھا، لیکن اُنھوں نے اس کی منظوری نہ دی‘‘، وہ جھوٹ بولتے ہیں، کیونکہ تاریخ میں ایسے کسی انکار کا کوئی نام و نشان نہیں ملتا۔ ہمارے سیکولر دوستوں کو قائداعظم کے حوالے سے ’ہوائیاں‘ اُڑانے، بے بنیاد دعوے کرنے ، اُن کی تقاریر کو سیاق و سباق سے الگ کرکے اور بعض اوقات الفاظ میں تحریف کرکے من پسند نتائج اخذ کرنے کا دائمی عارضہ لاحق ہے۔
جسٹس محمد منیر نے اپنی کتاب From Jinnah to Zia میں قائداعظم کی ایک تقریر کے الفاظ میں اپنی طرف سے تبدیلیاں کرکے سیکولرزم کے لیے بنیاد فراہم کی ہے۔ پاکستانی نژاد محترمہ سلینہ کریم نے اپنی کتاب Secular Jinnah - Munir's Big Hoax Exposed میں تقریر کے اصل الفاظ دے کر جسٹس منیرکی دیانت کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ جسٹس منیر کی کتاب سے یہی الفاظ لے کر سیکولرزم کے علَم بردار، قائداعظم کو سیکولر ثابت کرنے کے لیے اپنی ذہنی توانائیاں صرف کرتے رہے لیکن محترمہ سلینہ کریم نے ان الفاظ کوغلط اور من گھڑت ثابت کرکے ان کی دانش وَری کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ مصنفہ کا بجاطور پر کہنا ہے کہ: جب میں نے جسٹس منیر کی کتاب اور اس میں قائداعظم کی تقریر کا حوالہ پڑھا تو میں پریشان ہوگئی کہ ان الفاظ کی انگریزی غلط تھی، جب کہ قائداعظم غلط انگریزی نہیں بول سکتے تھے۔ میں نے تحقیق کی تو رازکھلا کہ جسٹس منیر نے یہ الفاظ اپنے پاس سے لکھے تھے‘‘___ دیانت دارانہ تحقیق کی بنیاد پر قائداعظم کو کسی صورت بھی سیکولر ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ اسی لیے میں سیکولر دانش وروں سے گزارش کرتا ہوں کہ خدارا! قائداعظم کو معاف کردو۔ اپنے ایجنڈے کا جواز قائداعظم کی تقریروں یا شخصیت میں مت تلاش کرو۔ پاکستان ایک اسلامی جمہوری ریاست ہے اور ان شاء اللہ اسی سمت میں سفر جاری رکھے گا۔