سورئہ ذاریات منکرینِ آخرت کو خطاب کر کے ارشاد ہوئی ہے اور آخرت کے حق میں اس میں مسلسل دلائل دیے گئے ہیں۔ پہلی دلیل ہوائوں کے نظم اور بارش کی تقسیم کی دی گئی ہے کہ کائنات کا یہ نظام حکیمانہ ہے، الل ٹپ نہیں۔ دوسری دلیل یہ دی گئی ہے کہ آخرت کے بارے میں محض گمان پر فیصلہ کرنا صحیح نہیں بلکہ یہ فیصلہ علم اور حقیقت پر مبنی ہونا چاہیے جو انبیا ؑلے کر آئے ہیں۔ تیسری دلیل یہ دی گئی کہ فاسق و فاجر اور متقی کا انجام ایک جیسا نہیں ہونا چاہیے، یہ عقل کا تقاضا ہے ۔ پھر نفسِ انسانی کو بطورِ دلیل پیش کیا گیا کہ خود اس میں آخرت کی نشانیاں ہیں۔
اب اس کے بعد آخرت پر ایک اور استدلال اس قصے سے شروع کیا جارہا ہے اور وہ ہے انسانی تاریخ۔
اللہ تعالیٰ یہ بتاتا ہے کہ انسانی تاریخ میں تم مسلسل دیکھتے ہو کہ جزا اور سزا کا قانون اس زندگی کے اندر بھی نافذ ہے، اگرچہ اس زندگی میں پوری سزا نہیں ملتی۔ اس دنیا میں جو آدمی سزا کا مستحق ہو، بسااوقات اسے سزا مل جاتی ہے۔ اس وجہ سے کہ اس کے اُوپر انسانوں کو بھی اختیارات دیے گئے ہیں۔بحیثیت مجموعی اگر اس بات کو دیکھیں تو انسانی تاریخ اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ قانونِ مکافات اس زندگی میں بھی کارفرما ہے۔ جہاں تک انسانی غلطیوں کا تعلق ہے اور جہاں انسان کا اختیار چلتا ہے اس جگہ بُرائی کا نتیجہ بظاہر تھوڑی دیر کے لیے عارضی طور پر اچھا ہوتا نظر آتا ہے، او ر بھلائی کا نتیجہ عارضی طور پر بُرا ہوتا نظرآتا ہے۔لیکن جہاں تک بحیثیت مجموعی قدرتی عوامل کا تعلق ہے جو عالمِ بالا سے انسانی زندگی پر اثرانداز ہوتے ہیں، ان کے اندر تم دیکھو گے کہ جزا اور سزا کا قانون انسانی زندگی میں نافذ چلا آرہا ہے۔ یہ اس بات کا پتا دیتا ہے کہ کائنات کی سلطنت کا مزاج یہ نہیں ہے کہ بُرے اعمال کی کوئی سزا نہ ہو اور بھلے اعمال کی کوئی جزا نہ ہو۔ نظامِ کائنات کو جو طاقت چلا رہی ہے اس کا مزاج یہی ہے کہ پورے عدل کے ساتھ جزا اور سزا نافذ کی جائے۔ اس ضمن میں یہاں انسانی تاریخ سے کچھ مثالیں پیش کی جارہی ہیں:
ہَلْ اَتٰکَ حَدِیْثُ ضَیْفِ اِِبْرٰہِیْمَ الْمُکْرَمِیْنَ o اِِذْ دَخَلُوْا عَلَیْہِ فَقَالُوْا سَلٰمًا ط قَالَ سَلٰمٌ ج قَوْمٌ مُّنْکَرُوْنَ o فَرَاغَ اِِلٰٓی اَھْلِہٖ فَجَآئَ بِعِجْلٍ سَمِیْنٍo(الذٰریٰت۵۱ :۲۴-۲۶) اے نبیؐ، ابراہیم ؑ کے معزز مہمانوں کی حکایت بھی تمھیں پہنچی ہے؟ جب وہ اس کے ہاں آئے تو کہا: ’’آپ کو سلام ہے۔ اس نے کہا: آپ لوگوں کو بھی سلام ہے___ کچھ ناآشنا سے لوگ ہیں‘‘۔ پھر وہ چپکے سے اپنے گھر والوں کے پاس گیا، اور ایک (بھنا ہوا) موٹا تازہ بچھڑا لاکر مہمانوں کے آگے پیش کیا۔
یعنی ان کو دیکھ کر حضرت ابراہیم ؑ نے یہ محسوس کیا کہ ان سے کبھی پہلے ملاقات نہیں ہوئی۔ بالکل اجنبی سے لوگ ہیں۔ پھر حضرت ابراہیم ؑ چپکے سے اپنے گھر والوں کے پاس گئے اور ایک موٹا تازہ بھنا ہوا بچھڑاان کے لیے لے آئے۔
حضرت ابراہیم ؑ چونکہ بڑے مہمان نواز تھے اور ہر طرف سے ان کے پاس لوگ آتے رہتے تھے، ہوسکتا ہے کہ ان کے پاس کچھ ایسا انتظام ہو کہ ہروقت کچھ نہ کچھ کھانے کا سامان تیار رہتا ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہاں بیان اس طرح کیا گیاہے کہ وہ گئے اور لے آئے۔ درحقیقت وہاں صورت یہ ہوئی ہوگی کہ حضرت ابراہیم ؑ گھر والوں کے پاس گئے ہوں گے اور کہا ہوگا کہ کچھ مہمان آگئے ہیں، ان کے لیے کچھ جلدی سے تیار کیا جائے اور جس وقت تیار ہوگیا تو آپ ؑ لے کر آگئے۔ دونوں صورتیں ہوسکتی ہیں۔
قرآنِ مجید کا اندازِ بیان یہ ہے کہ تفصیلات کو چھوڑتا چلا جاتا ہے۔ تفصیلات کو ہر آدمی اپنے ذہن میں سوچ لیتا ہے۔ واقعات کے صرف اہم اور بنیادی اجزا کو بیان کرنے پر اکتفا کرتا ہے۔
فَقَرَّبَہٗٓ اِِلَیْھِمْ قَالَ اَلاَ تَاْکُلُوْنَ o (۵۱:۲۷) حضرت ابراہیم ؑ نے ان کے آگے وہ بچھڑا بڑھایا اور ان سے کہا کہ آپ کھاتے کیوں نہیں ہیں؟
اس سے خود بخود یہ بات نکلی کہ جب انھوں نے بچھڑے کو آگے بڑھایا تو وہ کھانے کے لیے ہاتھ نہیں بڑھارہے تھے۔ اس پر حضرت ابراہیم ؑ نے ان سے کہا کہ آپ لوگ کھاتے کیوں نہیں؟
فَاَوْجَسَ مِنْھُمْ خِیْفَۃً ط(۵۱:۲۸) پھر وہ اپنے دل میں ان سے ڈرا۔
بدوی اور صحرائی علاقوں میں ہمیشہ یہ قاعدہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی مہمان کسی کے گھر آئے اور وہ اس کے آگے کھانا بڑھائے اور وہ کھانا کھالے، تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ دوستانہ طریقے سے اور اچھی نیت سے آیا ہے اور اس کے دل میں بُرائی نہیں ہے۔ لیکن اگر آپ ان کے آگے کھانا بڑھائیں اور وہ نہ کھائیں تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ یہ کسی بُرے ارادے اور دشمنی کے ارادے سے آئے ہیں۔ بدوی اور صحرائی قوموں کے اندر اتنے بنیادی اخلاق موجود ہوتے ہیں کہ وہ کسی کا کھانا کھانے کے بعد پھر اس پر ہاتھ نہیں ڈالتے۔ جہاں ابتدائی انسانی شرافت بھی باقی نہیں رہی ہے وہاں اس بات کا امکان ہے کہ مہمان کھانا بھی کھائے اور لُوٹ کر بھی لے جائے، بلکہ آپ کے ہاں مہینوں مہمان بھی رہے اور پھر آپ کے گھر پر ہاتھ صاف کرجائے۔
چنانچہ حضرت ابراہیم ؑ یہ دیکھ کر کہ یہ کھانے کے لیے ہاتھ نہیں بڑھا رہے، ان سے ڈر گئے۔ ان کے دل میں اندیشہ پیدا ہوا۔ اس سے پہلے انھوں نے یہ فرمایا تھا کہ آپ اجنبی معلوم ہوتے ہیں۔ اس سے پہلے کبھی آپ سے ملاقات نہیں ہوئی اور میں آپ کو جانتا نہیں ہوں۔ اب، جب کہ وہ کھانا نہیں کھا رہے تھے تو ان کے دل میں خوف پیدا ہوگیا۔
قَالُوْا لاَ تَخَفْ ط وَبَشَّرُوْہُ بِغُلٰمٍ عَلِیْمٍo(۵۱:۲۸) انھوں نے کہا: ڈریے نہیں، اور اسے ایک ذی علم لڑکے کی پیدایش کا مژدہ سنایا۔
اب یہاں اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی کہ وہ فرشتے تھے اور انھوں نے اپنا تعارف کرایا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے گئے ہیں۔ یہ بات کہ انھوں نے ان کو ایک ذی علم لڑکے کی پیدایش کی بشارت دی، یہ خود بخود اس بات کا پتا دے دیتی ہے کہ درمیان میں کیا بات ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ آپ ڈریں نہیں، ہم اس وجہ سے آئے ہیں ۔ ہم فرشتے ہیں اور ہمارا کام کھانا کھانا نہیں ہے، اور خدا کی طرف سے بھیجے گئے ہیں۔ اس کے بعد انھوں نے حضرت ابراہیم ؑ کو ایک ذی علم لڑکے کی بشارت دی۔ اس سے مراد حضرت اسحاق ؑ ہیں اور ان کی بشارت دی گئی تھی۔ اس سے پہلے حضرت اسماعیل ؑ پیدا ہوچکے تھے۔ حضرت اسماعیل ؑ کی تعریف میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: غلام حلیم، یعنی بُردبار لڑکا اور حضرت اسحاق ؑ کی تعریف میں فرمایا: غلام علیم، یعنی علم والا۔ اس کے بعد فرشتوں نے جس دوسری بات کی بشارت دی اس کا ذکر آگے آ رہا ہے۔
فَاَقْبَلَتِ امْرَاَتُہٗ فِیْ صَرَّۃٍ فَصَکَّتْ وَجْہَھَا وَقَالَتْ عَجُوْزٌ عَقِیْمٌo (۵۱:۲۹) یہ سن کر اس کی بیوی چیختی ہوئی آگے بڑھی اور اس نے اپنا منہ پیٹ لیا اور کہنے لگی: بوڑھی، بانجھ!
یہ بوڑھی اور بانجھ اہلیہ، حضرت سارہؑ تھیں، حضرت ہاجرہ ؑ نہیں تھیں۔ حضرت ہاجرہ ؑ کے بانجھ ہونے کا کوئی ذکر کہیں نہیں آیا۔ ان کے ہاں اس سے پہلے اولاد پیدا ہوچکی تھی اور حضرت اسماعیل ؑ ان سے بڑے تھے، لہٰذا بانجھ ہونے کا خیال اگر ہوسکتا تھا تو حضرت سارہ ؑ کو ہوسکتا تھا۔ اس لیے کہ اس وقت حضرت ابراہیم ؑ کی عمر تقریباً ۱۰۰ سال تھی او ر حضرت سارہؑ کی عمر تقریباً ۹۶سال تھی۔ توریت میں اس کی تصریح ہے کہ اس وقت ان کی کتنی عمر تھی۔انھوں نے کہا کہ اتنی بڑی عمر میں جس کی آج تک اولاد نہیں ہوئی، جوانی گزر گئی، بڑھاپا آگیا اور بڑھاپے کا بھی آخری زمانہ آگیا۔ اب اسے خبر دی جارہی ہے کہ اس کے ہاں اولاد ہوگی۔
قَالُوْا کَذٰلِکِ لا قَالَ رَبُّکِ ط اِِنَّہٗ ھُوَ الْحَکِیْمُ الْعَلِیْمُo (۵۱:۳۰) انھوں نے کہا: یہی کچھ فرمایا ہے تیرے رب نے، وہ حکیم ہے اور سب کچھ جانتا ہے۔
فرشتوں نے ان کی یہ بات سن کر جواب دیا:تیرے رب نے اسی طرح فرمایا ہے: وہ حکیم اور علیم ہے۔ وہ سب کچھ جانتا اور دانا ہے۔ اس کی حکمت اس چیز میں مانع نہیں ہے کہ وہ کسی کو اولاد دیناچاہے اور نہ دے سکے، اور علیم ہے، اس لیے اسے معلوم ہے کہ تیرے ہاں اولاد ہوگی۔
ان کا کہنا کہ تیرے رب نے یہی فرمایا ہے اور وہ علیم اور حکیم ہے، لہٰذا تمھارے بوڑھے ہونے اور بیوی کے بانجھ ہونے کے باوجود تمھارے ہاں اولاد ہوگی۔ اللہ نے یہی فرمایا ہے اور وہ حکمت رکھنے والا اور علم والا ہے۔یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جن لوگوں پر مہربان ہوتا ہے اور جو لوگ اللہ کی راہ میں خدمت کرتے ہیں، جان لڑاتے ہیں، ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ اپنے خاص قانون پر عمل کرتا ہے۔ دنیا میں جو عام قانون اور فطری قانون (natural law) چل رہا ہے اس کے اندر اتنی تبدیلی کردیتا ہے کہ بعض اوقات ان کو ایسی حالت میں اولاد کا انعام دیا جاتا ہے کہ جب ان کی بیوی بوڑھی اور بانجھ ہوچکی تھی اور وہ خود بوڑھے ہوچکے تھے۔ اس حالت میں بھی اللہ تعالیٰ نے انھیں اولاد کی بشارت دی اور اولاد سے نوازا۔
اس کے بعد وہی فرشتے جو حضرت ابراہیم ؑ کے پاس یہ خوش خبری لے کر آئے تھے اور جن کے ذریعے انھیں یہ انعام دیا گیا تھا، انھی فرشتوں کو آگے ایک اور مہم پر بھیجا جا رہا ہے۔
قَالَ فَمَا خَطْبُکُمْ اَیُّھَا الْمُرْسَلُوْنَo(۵۱:۳۱) ابراہیم ؑ نے کہا: ’’اے فرستادگانِ الٰہی، کیا مہم آپ کو درپیش ہے؟‘‘
حضرت ابراہیم ؑ نے اس مہم کا فرشتوں سے سوال اس لیے کیا کہ فرشتے انسانی شکل میں آئے تھے اور یہ اسی وقت انسانی شکل میں آتے ہیںجب کوئی غیرمعمولی واقعہ پیش آنے والا ہو۔ ورنہ فرشتے غیرمحسوس طور پر کام کرتے ہیں لیکن جب وہ علانیہ آئیں اور انسانی شکل میں آئیں اور دوسرے مقامات پر اشاروں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آئے بھی ایک غیرمعمولی شان کے ساتھ تھے، یعنی بہت ہی خوب صورت لڑکوں کی شکل میں آئے تھے۔ اس ساری صورت حال کو دیکھ کر حضرت ابراہیم ؑ نے بھانپ لیا کہ کوئی بہت بڑا معاملہ ہے جس کے لیے یہ آئے ہیں۔ اس لیے انھوں نے پوچھا کہ وہ مہم کیا ہے جس کے لیے آپ تشریف لائے ہیں؟ یعنی لڑکے کی بشارت دینا کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کے لیے لڑکوں کی صورت میں آنا ضروری ہو۔ وہ تو وحی کے ذریعے بھی حضرت ابراہیم ؑ کو بتایا جاسکتا تھا لیکن جب وہ مسافر بن کر اور خوب صورت لڑکوں کی صورت میں صحرا میں چلتے ہوئے آپ ؑ کے مکان تک پہنچے، تب حضرت ابراہیم ؑ کو محسوس ہوا کہ یہ کوئی بڑا معاملہ ہے۔
قَالُوْٓا اِِنَّآ اُرْسِلْنَـآ اِِلٰی قَوْمٍ مُّجْرِمِیْنَ o لِنُرْسِلَ عَلَیْھِمْ حِجَارَۃً مِّنْ طِیْنٍ o مُّسَوَّمَۃً عِنْدَ رَبِّکَ لِلْمُسْرِفِیْنَo (۵۱:۳۲-۳۴) انھوں نے کہا: ’’ہم ایک مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں تاکہ اس پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر برسادیں جو آپ ؑ کے رب کے ہاں حد سے گزر جانے والوں کے لیے نشان زدہ ہیں‘‘۔
مجرمین سے یہاں حضرت لوط علیہ السلام کی قوم مراد ہے۔ یہاں ان کے نام کی تصریح نہیں ہے لیکن قصہ وہی ہے جو قرآن میں کئی مقامات پر آیا ہے۔ یہاں اس قوم کا نام نہیں لیا گیا صرف قَوْمٍ مُّجْرِمِیْنَ کہہ کر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اس وقت گردونواح میں اس سے بُری قوم اور کوئی نہیں تھی۔ اس کے لیے لفظ قَوْمٍ مُّجْرِمِیْنَ کہہ دینا بالکل کافی تھا کہ اس سے مراد قومِ لوط ؑ ہے۔ ان فرشتوں نے کہا کہ ہمیں قَوْمٍ مُّجْرِمِیْنَ،یعنی حضرت لوطؑ کی قوم کی طرف بھیجا گیا ہے۔ ان کے جرائم کا حال آپ سب جانتے ہیں اور قرآنِ مجید میں اس کا حال مختلف مقامات پر بیان کیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں اس لیے بھیجا گیا ہے کہ ہم ان پر ایسے پتھروں کی بارش برسا دیں جو پکی ہوئی مٹی کے ہیں۔ اس پکی ہوئی مٹی کے پتھر ان کے مقدر کیے ہیں کہ ان پر برسائے جائیں۔ اس علاقے میں آتش فشانی کے پتھر بہت کثرت سے ہیں۔
مسومۃ، یعنی ان لوگوں کے لیے نشان زدہ پتھر تھے جیسے اُردو زبان میں کہتے ہیں کہ دانے دانے پر مہر ہے۔ اسی طرح ایک ایک پتھر پر یہ نشان لگا دیا گیا تھا کہ یہ فلاں بدمعاش پر گرے، اور یہ فلاں ظالم پر ۔ گویا ایک ایک پتھر نشان زدہ تھا، یعنی جس جس کے حصے میں جو پتھر تھا وہ اسے لگے۔
فَاَخْرَجْنَا مَنْ کَانَ فِیْھَا مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ o فَمَا وَجَدْنَا فِیْھَا غَیْرَ بَیْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَ o(۵۱:۳۵-۳۶) پھر ہم نے ان سب لوگوں کو نکال لیا جو اس بستی میں مومن تھے، اور وہاں ہم نے ایک گھر کے سوا مسلمانوں کا کوئی گھر نہ پایا۔
وہ بستی چونکہ خیر سے خالی ہوچکی تھی۔ اس پورے علاقے میں جس میں قومِ لوط ؑ آباد تھی، اس میں ایک گھر کے سوا کوئی گھر مسلم نہیں تھا۔ اس گھر کا بھی جو حال تھا، قرآنِ مجید میں دوسرے مقامات پر آیا ہے کہ خود حضرت لوطؑ کی بیوی اپنی قوم سے ملی ہوئی تھی۔ گویا کہ وہ گھر بھی پورے کا پورا مومن نہیں تھا۔ اس عورت کو بھی الگ کر دیا گیا،اس لیے کہ وہ بھی عذاب پانے والوں میں شامل تھی۔ صرف اہلِ ایمان کو بچایا گیا جو حضرت لوطؑ کے گھر میں تھے اور باقی پوری قوم کو تباہ کر دیا گیا۔
وَتَرَکْنَا فِیْھَآ اٰیَۃً لِّلَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ o(۵۱:۳۷) اس کے بعد ہم نے وہاں بس ایک نشانی ان لوگوں کے لیے چھوڑ دی جو دردناک عذاب سے ڈرتے ہوں۔
اس نشانی سے مراد بحیرہ مُردار(Dead Sea)ہے جو آج بھی اُردن کے قریب موجود ہے۔ دنیا میں اگر کوئی سمندر سب سے زیادہ گہرائی میں ہے، تقریباً سطح سمندر سے ۱۴۰۰ فٹ نیچے تو وہ بحیرہ مُردار ہے اور دنیا میں سب سے زیادہ بھاری پانی اگر کسی سمندر کا ہے تو وہ بھی یہی ہے۔ اس کا پانی اتنا زیادہ نمکین ہے کہ اس کے اندر کوئی چیز زندہ نہیں رہ سکتی۔ اتنا بھاری پانی ہے کہ آدمی گرجائے تو ڈوب نہیں سکتا۔ قومِ لوطؑ کے بڑے بڑے شہر آج بھی اسی کے اندر ڈوبے ہوئے ہیں۔ اس سمندر میں اب بھی کچھ مہمات بھیجی جارہی ہیں تاکہ یہ جان سکیں کہ کیا ان شہروں کے کچھ آثار باقی ہیں؟ ان کے علاوہ ان کے جو شہر اُردن کی ریاست میں واقع ہوں گے، ان کا بھی پتا چلایا جاسکے۔
اب وہاں آتش فشانی پہاڑوں کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ میں خود بھی اس علاقے میں گیا ہوں اور جن دوسرے لوگوں نے اس علاقے کو دیکھا ہے ان کا بھی کہنا ہے کہ اس سے زیادہ ویران علاقہ شاید ہی دنیا میں کہیں ہو۔ ہرطرف تباہی ہی تباہی کے آثار نظر آتے ہیں۔ آج تک وہ علاقہ بسا نہیں۔
اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ انسانی تاریخ میں یہ دو چیزیں نمایاں ہیں ۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جنھوں نے اللہ کے راستے میں خدمات انجام دی ہیں، ان کے اُوپر اللہ کی طرف سے کس طرح کے انعام ہوئے ہیں۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جو فسق و فجور اور نافرمانیوں میں حد سے گزر گئے تو ان کے اُوپر تباہی نازل کی گئی اور آج تک ان کے آثارِ قدیمہ تاریخ میں محفوظ ہیں۔ گویا زمین کے اُوپر مستقل نشانیاں موجود ہیں۔ ایسا نہیں ہوتا اور جزا و سزا کا قانون جو اس دنیا میں نافذ ہے وہ یہ نہیں ہے کہ آج آپ گناہ کریں اور کل آپ کو سزا مل جائے، یا جس وقت آپ گناہ کریں اور اسی وقت آپ کو سزا مل جائے، یا ایک قوم جس وقت گناہ کرے اسی وقت وہ پوری کی پوری تباہ کردی جائے۔ ہر ایک انسان کو اللہ تعالیٰ مہلت دیتا ہے، ہر قوم کو مہلت دیتا ہے۔ افراد کی مہلت کچھ اور ہے اور قوموں کی مہلت کچھ اور۔ لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کوئی قوم اللہ کی مقرر کردہ حدود سے مسلسل تجاوز کرتی چلی جائے اور کسی بھی مرحلے پر جاکر وہ تباہ نہ کردی جائے۔ پوری انسانی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی ہے کہ اللہ کی حدود سے تجاوز کرنے والی قومیں کسی نہ کسی مرحلے پر تباہ نہ کردی گئی ہوں۔
قومِ لوط ؑ کے ذکر میں یہاں یہ بات بتائی گئی ہے کہ جو فیصلے کا وقت ہوتا ہے، جب اللہ تعالیٰ کسی ظالم کے اُوپر فیصلہ کن حملہ کرتا ہے تو پھر وہاں اخلاق کے اعتبار سے فیصلہ کیا جاتا ہے۔ قومِ لوطؑ کے اندر جو ایمان رکھنے والے تھے ان کو اللہ تعالیٰ نے غیرمعمولی طور پر بچالیا۔ اس فیصلے کے وقت تباہ صرف ان لوگوں کو کیا گیا جو حق کو جھٹلانے والے تھے۔
وَفِیْ مُوْسٰٓی اِِذْ اَرْسَلْنٰہُ اِِلٰی فِرْعَوْنَ بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ o فَتَوَلّٰی بِرُکْنِہٖ وَقَالَ سٰحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ o فَاَخَذْنٰہُ وَجُنُوْدَہٗ فَنَبَذْنٰھُمْ فِیْ الْیَمِّ وَھُوَ مُلِیْمٌo(۵۱:۳۸-۴۰) اور (تمھارے لیے نشانی ہے) موسٰی ؑ کے قصے میں۔ جب ہم نے اُسے صریح سند کے ساتھ فرعون کے پاس بھیجا تو وہ اپنے بل بوتے پر اکڑ گیا اور بولا: یہ جادوگر ہے یا مجنون ہے۔ آخرکار ہم نے اُسے اور اس کے لشکر کو پکڑا اور سب کو سمندر میں پھینک دیا اور وہ ملامت زدہ ہوکر رہ گیا۔
تاریخ سے یہ دوسری دلیل حضرت موسٰی علیہ السلام کی دی گئی ہے۔ یہاں چونکہ تاریخی واقعات کی طرف مسلسل اشارہ کرنا مقصود ہے، لہٰذا تفصیل بیان نہیں کی جارہی، صرف اشارے کر کے چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہ قصہ قرآنِ مجید میں پوری تفصیل سے آچکا ہے۔ یہاں یہ بتایا جا رہا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ اور قومِ لوط ؑ کے واقعے میں تمھارے لیے نشانی تھی، اسی طرح حضرت موسٰی ؑ کے واقعے میں بھی تمھارے لیے نشانی ہے۔
اِِذْ اَرْسَلْنٰہُ اِِلٰی فِرْعَوْنَ بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ o (۵۱:۳۸)ہم نے اس کو سلطانِ مبین کے ساتھ فرعون کے پاس بھیجا۔
سلطان کا لفظ قرآنِ مجید میں مختلف معنوں میں استعمال کیا گیا ہے۔ یہاں سند، کھلی دلیل (open authority) کے معنوں میں آیا ہے۔ یہ ایسی صریح دلیل تھی کہ جسے دیکھ کر ہر دیکھنے والا یہ محسوس کرلیتا کہ یہ مامور من اللہ ہیں اور اللہ کے سوا کسی کی طرف سے نہیں ہے۔
حضرت موسٰی علیہ السلام جب فرعون کے دربار میں پہنچے ہیں تو قرآنِ مجید خود بتاتا ہے کہ اس سے پہلے وہ فرعون کے گھر میں پرورش پاچکے تھے اور ایک آدمی کو قتل کر کے فرار ہوگئے تھے۔ اگرچہ انھوں نے جان بوجھ کر قتل نہیں کیا تھا ان کے ہاتھوں سے قتل ہوگیا تھا۔ لیکن فرعون کو معلوم ہوچکا تھا کہ یہ بنی اسرائیل میں سے ہیں اور انھوں نے فرعون کی اپنی قوم کے آدمی کو قتل کیا تھا اور اس کے بعد وہ فرار ہوگئے تھے۔ ۱۰ سال تک مدین کے علاقے میں رہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے انھیں حکم دیا کہ فرعون کے پاس جائو۔ ایک ایسا آدمی جس کے اُوپر قتل کا الزام ہو، پولیس جس کی تلاش میں ہو، اللہ تعالیٰ اسے حکم دیتا ہے کہ فرعون کے پاس چلے جائو، اور اسے اللہ تعالیٰ صرف ایک لاٹھی دیتا ہے اور کہتا ہے کہ سیدھے فرعون کے پاس چلے جائو۔
اس حالت میں وہ لاٹھی لیے ہوئے فرعون کے دربار میں پہنچ جاتے ہیں اور اپنا تعارف کراتے ہیں کہ میں موسٰی ؑ ہوں اور بھرے دربار میں فرعون کو ہمت نہیں پڑتی اور نہ کسی سپاہی یا درباری کو ہمت پڑتی ہے کہ ان پر ہاتھ ڈال سکے۔ یہ سلطان مبین یا کھلی ہوئی علامت نہیں تھی تو اور کیا تھی۔ یہی چیز تھی جس نے فرعون کے دل میں یہ خیال ڈال دیا اور اس کو ایسا مرعوب کیا کہ وہ ان کو گرفتار کرنے کا حکم نہ دے سکا کہ تم تو قتل کر کے فرار ہوئے تھے۔ پھر انھوں نے اس لاٹھی سے اژدھا بنا کر دکھایا، اور یدِبیضا دکھایا، جس کو دیکھ کر معلوم ہوتا تھا کہ جیسے سورج زمین پر اُتر آیا ہو۔
اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں مسلسل معجزات ظاہر ہونا شروع ہوئے۔ وہ پہلے مطلع کر دیتے ہیں کہ تمھارے ملک میں قحط آئے گا اور پھر ان کے ایک اشارے پر قحط آگیا۔ وہ کہتے ہیں کہ تمھارے ملک کے اندر ٹڈی دَل آئیں گے اور ایک اشارے پر ٹڈ ی دَل پورے ملک میں نکل آتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تمھارے ملک میں مینڈکوں کا طوفان آئے گا اور ایک اشارے پر سارے ملک میں مینڈک نکلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس طرح سے وہ مسلسل معجزات دکھاتے چلے گئے اور اس کے بعد کوئی گنجایش یہ ماننے میں نہیں رہی کہ یہ مامور من اللہ کے سوا کوئی اور ہیں۔ خود قرآنِ مجید میں یہ فرمایا گیا کہ جب پوری قوم پر مینڈکوں، خون اور ٹڈی دَل کا عذاب آتا تھا تو خود فرعون اور اس کے دربار کے لوگ حضرت موسٰی ؑسے درخواست کرتے تھے کہ اس عذاب کو ہمارے اُوپر سے ٹلوائو، یہ ٹل جائے گا تو ہم ایمان لے آئیں گے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ وہ یہ یقین رکھتے تھے کہ یہ مامور من اللہ ہیں جن کی بدولت اور جن کے کہنے سے یہ عذاب آرہا ہے۔ قرآن میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ انھوں نے حضرت موسٰی ؑ کا انکارکیا درآں حالیکہ دل ان کے قائل ہوچکے تھے۔ وہ لوگ یہ جان چکے تھے کہ یہ شخص یقینا مامور من اللہ ہے اور یہ کام اللہ کی قدرت کے بغیر نہیں ہوسکتا، مگر باوجود اس کے چونکہ انھیں اس بات کا اندیشہ تھا کہ اگر ہم ان کی بات مان لیں گے تو پھر ہماری بادشاہی نہیں رہ سکتی۔ خدا کی بادشاہی ماننا پڑے گی اور رسول ؑ کو خدا کا نمایندہ ماننا پڑے گا۔ چونکہ بادشاہی کا انھیں چسکا لگا ہوا تھا، اس لیے وہ اس کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے ۔ اس طرح حضرت موسٰی ؑ سلطان مبین لے کر پہنچے۔
فَتَوَلّٰی بِرُکْنِہٖ وَقَالَ سٰحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ o (۵۱:۳۹) تو وہ اپنے بل بوتے پر اکڑ گیا اور بولا یہ جادوگر ہے یا مجنون ہے۔
رکن کہتے ہیں سہارے کو، یعنی جس چیز کو وہ اپنا سہارا سمجھتا تھا۔ اس کا لشکر، سلطنت، درباری، اعلی موالی، یہ سب سروسامان جو اسے حاصل تھا، یہی اس کے بھروسے کی طاقت تھی جس پر اس کا ایمان تھا۔ چنانچہ وہ اپنے اس رکن ، اپنے اس سہارے اور اپنے بل بوتے پر اَڑ بیٹھا، اور منہ موڑ لیا۔ اس نے اطاعت کی روش اختیار کرنے کے بجاے انحراف کی روش اختیار کی اور کہا کہ یا تم تائب ہوجائو یا پھر مرنے کے لیے تیار ہوجائو۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ تم جو کرشمے دکھا رہے ہو، یہ تو سحر کی بنا پر ہے، اس سے تائب ہو۔ اور تمھاری یہ ہمت کہ مجھ جیسے فرماں روا کے مقابلے میں کھڑے ہو۔ یہ ہمت ایک مجنون کے سوا اور کون کرسکتا ہے۔ اگر کسی شخص کا دماغ ٹھیک ہو اور وہ ’اعلیٰ حضرت‘ کے سامنے کھڑا ہوجائے اور ان کو دعوت دے کہ تم میری اطاعت کرو، یہ کسی مجنون اور پاگل کے سوا کسی دوسرے کی بات نہیں ہوسکتی۔
فَاَخَذْنٰہُ وَجُنُوْدَہٗ فَنَبَذْنٰھُمْ فِیْ الْیَمِّ وَھُوَ مُلِیْمٌo(۵۱:۴۰)آخرکار ہم نے اسے اور اس کے لشکروں کو پکڑا اور سب کو سمندر میں پھینک دیا اور وہ ملامت زدہ ہوکر رہ گیا۔
قرآنِ مجید میں اس سے پہلے بھی یہ بات اس قصے میں گزر چکی ہے۔ سب اس بات کو جانتے ہیں اور یہ تاریخ کا مشہور واقعہ ہے۔ اس فیصلہ کن گھڑی میں بھی جو لوگ حضرت موسٰی ؑ پر ایمان لائے ہوئے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان سب کو سمندر کے اسی راستے سے گزار دیا۔ پھر وہی سمندر پھٹا، اس میں سے راستہ بنا اور اس راستے میں سے بنی اسرائیل کی اور ان کے ساتھ جو مصری مسلمان فوج تھی وہ ساری کی ساری اس سے گزری اور پانی دونوں طرف ٹھیرا رہا جب تک کہ یہ اس میں سے گزر نہ گئے۔ جب وہ گزر گئے اور فرعون اپنے پورے لشکروں کے ساتھ اسی راستے پر اُتر آیا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا اور یک لخت وہ پانی جڑ گیا اور وہ پورے کا پورا لشکر اس میں غرق ہوگیا۔ یہ تاریخ کا مشہور واقعہ ہے اور بنی اسرائیل کی بدولت اس زمانے میں بھی عرب کا بچہ بچہ اسے جانتا تھا اور ساری دنیا اس واقعے سے واقف تھی۔
اللہ تعالیٰ یہ بتا رہا ہے کہ جب فرعون اور اس کی سلطنت کے اکابر نے مسلسل یہ روش اختیار کی۔قرآنِ مجید کے اشارات سے بھی معلوم ہوتا ہے اور بائبل اور بنی اسرائیل کی تاریخ سے بھی کہ حضرت موسٰی ؑنے مسلسل ۳۰ سال مصر میں تبلیغ کی ہے۔ فرعون مسلسل ۳۰سال تک مزاحمت کرتا رہا۔ گویا اللہ تعالیٰ نے حجت پوری کر دی۔ تمام نشانیاں اسے دکھا دیں جن کے دیکھنے کے بعد اس امر میں کسی شک کی گنجایش نہیں رہی کہ یہ اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے ہیں۔ اس امر میں کسی شک کی گنجایش نہیں رہی کہ فرعون جان بوجھ کر خدا کے مقابلے میں شرارت کر رہا ہے۔ اس کے بعد جب فیصلہ کیا گیا تو اس طرح کیا گیا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ کر دیا گیا۔ جو ایمان لانے والے تھے ان سب کو بچاکر الگ نکال دیا، اور جو ایمان سے خالی تھے انھیں اسی جگہ غرق کر دیا جہاں سے اہلِ ایمان کو نکالا گیا تھا۔ یہ انسانی تاریخ کا دوسرا اہم واقعہ ہے جسے یہاں پیش کیا گیا ہے۔
وَفِی عَادٍ اِِذْ اَرْسَلْنَا عَلَیْہِمُ الرِّیْحَ الْعَقِیْمَo مَا تَذَرُ مِنْ شَیْئٍ اَتَتْ عَلَیْہِ اِِلَّا جَعَلَتْہُ کَالرَّمِیْمِ o(۵۱:۴۱-۴۲) اور (تمھارے لیے نشانی ہے) عاد میں، جب کہ ہم نے ان پر ایک ایسی بے خیر ہوا بھیج دی کہ جس چیز پر بھی وہ گزر گئی اسے بوسیدہ کرکے رکھ دیا۔
اب تیسری قوم، قومِ عاد کا ذکر کیا جا رہا ہے۔یہاں مختصراً اشارے کیے گئے ہیں، تفصیل نہیں بیان کی گئی ۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ یہ بات یاد دلانا ہے کہ یہ واقعات ہوئے ہیں یا نہیں۔ عاد کی قوم سے متعلق تفصیلات قرآنِ مجید میں دوسرے مقامات پر بیان ہوئی ہیں اور ان کی تاریخ بیان ہوئی ہے ۔ یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ ان پر عذاب کس طرح آیا؟
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے ان کے اُوپر ایک ہوا بھیجی جو عَقِیْم تھی۔ اس کے لفظی معنی ہیں جو بانجھ تھی۔ یہ ایسی ہوا تھی جس میں کوئی خیر نہیں تھی۔ یہ بارش لانے والی ہوا نہیں تھی۔ کسی آدمی کی تندرستی کے لیے ہوا نہیں تھی۔ زراعت کے لیے کوئی مفید ہوا نہیں تھی۔ گویا یہ کسی بھی طرح سے مفید ہوا نہیں تھی۔یہ بے فیض ہوا تھی جو کوئی مفید نتیجہ پیدا کرنے والی نہ تھی۔
مزیدبرآں اس ہوا کی حالت یہ تھی کہ جس چیز پر سے وہ گزر گئی، اس کو بوسیدہ کرگئی۔ جن لوگوں کو صحرائی علاقوں میں جانے کا اتفاق ہوا ہو، ان کو معلوم ہوگا کہ بعض اوقات صحرا میں ایسی لُو چلتی ہے کہ صرف اتنا ہی نہیں کہ آدمی لُو سے مر جاتا ہے بلکہ مرنے کے بعد اس کا جسم دیکھتے ہی دیکھتے گل سڑ جاتا ہے۔ اس طرح کی لُو راجستھان کے صحرائوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ وہ ایسی خوف ناک ہوا تھی کہ جس چیز کے اُوپر سے بھی گزری نباتات و حیوانات اور انسانوں کو اس نے نہ صرف ہلاک کر دیا بلکہ ان کے جسم بوسیدہ ہوگئے۔ قرآنِ مجید میں دوسرے مقامات پر بیان ہوا ہے کہ سات راتیں اور آٹھ دن تک مسلسل یہ ہوا چلتی رہی اور اس میں لوگ اس طرح سے گر کر مرے کہ جیسے کھجور کے تنے گرے پڑے ہوں۔
وَفِیْ ثَمُوْدَ اِِذْ قِیْلَ لَھُمْ تَمَتَّعُوْا حَتّٰی حِیْنٍ o فَعَتَوْا عَنْ اَمْرِ رَبِّھِمْ فَاَخَذَتْھُمُ الصّٰعِقَۃُ وَھُمْ یَنْظُرُوْنَ o فَمَا اسْتَطَاعُوْا مِنْ قِیَامٍ وَّمَا کَانُوْا مُنْتَصِرِیْنَo (۵۱:۴۳-۴۵) اور (تمھارے لیے نشانی ہے) ثمود میں جب ان سے کہا گیا تھا کہ ایک خاص وقت تک مزے کرلو۔ مگر اس تنبیہ پر بھی انھوں نے اپنے رب کے حکم سے سرتابی کی۔ آخرکار ان کے دیکھتے دیکھتے ایک اچانک ٹوٹ پڑنے والے عذاب نے ان کو آلیا، پھر نہ اُن میں اُٹھنے کی سکت تھی اور نہ وہ اپنا بچائو کرسکتے تھے۔
ان کا قصہ بھی قرآنِ مجید میں دوسری جگہ تفصیل سے آیا ہے۔ یہاں صرف اشارہ کیا گیا ہے کہ یہ بھی تمھاری تاریخ کا حصہ ہے۔ ثمود کا علاقہ حجاز کے شمالی حصے میں واقع ہے۔ مدینہ منورہ سے تقریباً دو اڑھائی سو میل کے فاصلے پر ہے۔ اس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ انھیں نبی ؑ کے ذریعے سے متنبہ کیا گیا تھا کہ تمھارے لیے ایک وقت مقرر کیا جاتا ہے۔ اگر اس وقت تک تم سنبھل گئے تو بچ جائو گے اور اگر اس وقت تک نہ سنبھلے تو تمھارے اُوپر عذاب نازل ہوجائے گا۔ ان کے لیے دن مقرر کر دیے گئے تھے کہ ان کے اندر درست ہوجائو اور اگر مزے کرنے ہیں تو مزے کرلو۔ اس کے بعد تمھارا خاتمہ ہوجائے گا۔ چنانچہ وہ وقت ختم ہوتے ہی، ان کے اُوپر عظیم الشان خطرناک زلزلہ آگیا۔ میں خود اس علاقے میں گیا ہوں اور وہاں واضح واضح نشانیاں اور علامات ملتی ہیں کہ اس پورے علاقے کو زلزلے نے تباہ کیا ہے۔ پورے پورے پہاڑ کھِیلکھِیل ہوکر رہ گئے۔ ان پر یک لخت وہ زلزلہ آیا۔ یہاں صاعقہ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس سے مراد بجلی کا کڑکا نہیں ہے بلکہ ایسے عذاب کو کہتے ہیں جو اچانک کسی پر آجائے۔ ان پر عذاب اچانک اس حالت میں آپڑا کہ وہ اسے دیکھ رہے تھے۔ ان کے دیکھتے ہی دیکھتے عذاب نے انھیں آلیا۔
فَمَا اسْتَطَاعُوْا مِنْ قِیَامٍ وَّمَا کَانُوْا مُنْتَصِرِیْنَo(۵۱:۴۵)پھر نہ اُن میں اُٹھنے کی سکت تھی اور نہ وہ اپنا بچائو کرسکتے تھے۔
یعنی جو جہاں گرا تھا وہ گر کر رہ گیا اور پھر اُٹھنے کی مہلت نہ ملی اور ان میں یہ طاقت نہ تھی کہ اپنا بچائو کرلیتے۔ جب خدا کا عذاب آتا ہے تو انسانی ذرائع ناکام ہوجاتے ہیں۔ خدا کی طرف سے جب کسی کو مارپڑے تو اس کی ساری تدبیریں ناکام رہ جاتی ہیں اور اس کا کوئی زور باقی نہیں رہتاکہ وہ اپنے بچائو کے لیے کچھ کرسکے۔مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنی مدافعت کے لیے کچھ کرسکے۔ قومِ عاد کی تباہی میں یہ بیان کیا گیا کہ وہ کھڑے نہ رہ سکے اور یہاں یہ بیان کیا گیا کہ ان میں کوئی یارا یا بل بوتا نہیں تھا کہ وہ اپنے آپ کو اس عذاب سے بچاسکیں۔
وَقَوْمَ نُوْحٍ مِّنْ قَبْلُ ط اِِنَّھُمْ کَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِیْنَ o(۵۱:۴۶) اور ان سب سے پہلے ہم نے نوح ؑ کی قوم کو ہلاک کیا کیوںکہ وہ فاسق لوگ تھے۔
یہ بیان کرنے کی حاجت نہیں کہ ان پر کیا گزری اس لیے کہ ہر ایک جانتا ہے۔ ساری دنیا اس سے واقف ہے۔ دنیا میں بچہ بچہ اس قصے کو جانتا ہے۔ فرمایا گیا کہ نوح کی قوم کی صورت میں تمھارے لیے مثال موجود ہے۔ وہ ایک فاسق قوم تھی اور اللہ تعالیٰ نے انھیں عذاب سے دوچار کر دیا تھا۔ اس کی تباہی کی وجہ اس کا فسق تھا۔ فسق عربی زبان میں نافرمانی کو کہتے ہیں۔ اطاعت سے نکل جانا فسق ہے۔ یہ وہ لوگ تھے جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے دائرے سے نکل چکے تھے۔ انھوں نے نافرمانی اختیار کی اور آخرکار تباہ و برباد ہوگئے۔(ریکارڈنگ: حفیظ الرحمٰن احسن، مرتب: امجد عباسی)