اَخلاق اِسلام کے شعبوں میں سے ایک شعبہ نہیں، بلکہ اسلام مکمل طور پر ایک اخلاقی پیغام ہے۔ محققین عموماً پیغامِ اسلام کو چار حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: ۱-عقائد ، ۲-عبادات، ۳-معاملات اور ۴-اَخلاق۔ اس تقسیم میں اَخلاق کو آخری نمبر پر رکھنے سے یہ شبہہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلام نے بھی اسے آخری چیز کے طور پر ہی بیان کیا ہے اور اس کی حیثیت دیگر شعبوں جیسی نہیں ہے۔
قرآن و سنت کی روشنی میں جو بھی اسلام پر غور و فکر کرے، اس کی روح اور نصوص پر نظر رکھتا ہو، اور اس کے الفاظ اور مقاصد کو سمجھتا ہو، اُس پر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام اپنے جوہر اور اصلیت میں ایک اخلاقی پیغام ہے۔ اسلام لفظِ اخلاقیت کے تمام معانی اور مفاہیم کا حامل ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ اخلاقیت اسلام کی عمومی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت ہے۔
اِسلام صرف اس لیے اخلاقی پیغام نہیں ہے کہ اس نے فضائل کی ترغیب پر بہت زور دیا ہے اور رذائل سے بچنے کا حکم بھی اسی شدت کے ساتھ دیا ہے۔ اور ان دونوں معاملات میں اسلام نہایت بلند سطح پر دکھائی دیتا ہے۔ اس سلسلے میں اسلام نے دنیا و آخرت میں جزا و سزا کا اہتمام بھی اعلیٰ سطح پر کیا ہے۔
اسلام کو سراسر اخلاقی پیغام ہونے کا یہ امتیاز اس لیے بھی حاصل نہیں ہے کہ اس میں اَخلاق پر بہت زیادہ توجہ دی گئی ہے۔ یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ثناو توصیف کے لیے ان الفاظ سے ارفع اور بلیغ جملہ کوئی نہیں پایا جاتا:وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍo (القلم۶۸:۴) ’’اور بے شک آپؐ اخلاق کے بڑے مرتبے پر ہیں‘‘۔ خود زبانِ رسالتؐ نے اپنی رسالت کے مقصد کا خلاصہ اسی چیز کو قرار دیا ہے: ’’بلاشبہہ، مجھے اَخلاقِ کریمہ کی تکمیل کے لیے نبی بنایا گیا ہے‘‘۔
صرف دوچار معاملات میں اَخلاقیت اسلام کی خصوصیت نہیں ہے بلکہ اسلام کے پورے ڈھانچے میں اخلاقیت خون کی طرح گردش کرتی ہے۔ یہ تمام اسلامی تعلیمات، حتیٰ کہ عقائد، عبادات، معاملات، سیاست و معیشت اور امن و جنگ کے شعبوں میں بھی موجود ہے۔
اسلامی عقائد کی اساس توحید ہے اور اس کی ضد شرک ہے۔ اسلام توحید کو ایک اَخلاقی رنگ قرار دیتا ہے۔ وہ اُسے عدل و انصاف میں شمار کرتا ہے اور عدل و انصاف ایک اَخلاقی فضیلت اور خوبی ہے۔ اسی طرح اسلام نے شرک کو ظلم شمار کیا ہے اور ظلم ایک بداَخلاقی ہے۔ اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌo(لقمان۳۱:۱۳)’’حق یہ ہے کہ شرک بہت بڑاظلم ہے‘‘۔
شرک کو اس لیے ظلم کہا گیا ہے کہ اس کا مرتکب عبادت کو اُس کی جگہ سے ہٹا کر ایک غیرموزوں جگہ رکھ دیتا ہے اور اُس چیز کو عبادت کا مستحق قرار دیتا ہے جو عبادت کی مستحق نہیں ہوتی۔ قرآنِ مجید نے تو کفر کو اس کی تمام انواع و اقسام سمیت ظلم قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور ظالم اصل میں وہی ہیں جو کفر کی روش اختیار کرتے ہیں‘‘۔(البقرہ۲:۲۵۴)
اسلام کا عقیدہ، یعنی ایمان جب کامل ہو جاتا ہے اور پھل دینے لگتا ہے تو وہ اَخلاقی فضائل کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ قرآنی آیات اور احادیثِ رسولؐ اس امر کی بہترین وضاحت کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے صاحبِ ایمان لوگوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا:
یقینا فلاح پائی ہے ایمان لانے والوں نے جو: اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں، لغویات سے دور رہتے ہیں، زکوٰۃ کے طریقے پر عامِل ہوتے ہیں، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، سواے اپنی بیویوں کے اور اُن عورتوں کے جو اُن کی مِلکِ یمین میں ہوں کہ اُن پر محفوظ نہ رکھنے میں وہ قابل ملامت نہیں ہیں، البتہ جو اُس کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہی زیادتی کرنے والے ہیں، اپنی امانتوں اپنے عہدوپیمان کا پاس رکھتے ہیں۔(المومنون۲۳:۱-۸)
سچے اہل ایمان تو وہ لوگ ہیںجن کے دل اللہ کا ذکر سن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے، اور وہ اپنے رب پر اعتماد رکھتے ہیں۔ جو نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے (ہماری راہ میں) خرچ کرتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ حقیقی مومن ہیں۔(الانفال ۸:۲-۴)
حقیقت میں تو مومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لائے پھر انھوں نے کوئی شک نہ کیا اور اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ وہی سچے لوگ ہیں۔(الحجرات ۴۹:۱۵)
اسی طرح احادیث رسولؐ بھی اَخلاقی فضائل کو ایمان کے ساتھ مربوط کرتی ہیں۔ ان فضائل کو ایمان کے لوازم اور ثمرات قرار دیتی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جو شخص اللہ اور یومِ آخر پر ایمان رکھتا ہو اُسے رشتے داریوں کو قائم رکھنا چاہیے، اور جو شخص اللہ اور یومِ آخر پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے ہمسایے کو اذیت نہ دے، اور جو شخص اللہ اور یومِ آخر پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات کرے یا پھر خاموش رہے‘‘۔ دوسری حدیث ہے:’’ایمان کے ۶۹شعبے ہیں، سب سے اعلیٰ لا الٰہ الا اللہ ہے، اور سب سے کم تر کسی تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹا دینا ہے‘‘۔ ایک اور حدیث ہے: ’’زانی زِنا نہیں کر سکتا کہ وہ زِنا کرتے وقت بھی مومن ہو اور چور چوری نہیں کر سکتا کہ وہ چوری کے وقت بھی مومن ہو، شرابی شراب نہیں پی سکتا کہ وہ شراب پیتے وقت بھی مومن ہو‘‘۔
بڑی بڑی اسلامی عبادات واضح اَخلاقی اہداف اور مقاصد رکھتی ہیں۔ نماز مسلمان کی زندگی میں پہلی یومیہ عبادت ہے۔ یہ فرد کی ذاتی زندگی کی تشکیل اور دینی غیرت و حمیت کی تربیت کا شان دار فریضہ انجام دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’ یقینا نمازفحش اور برے کاموں سے روکتی ہے‘‘۔(العنکبوت۲۹:۴۵)
نماز مسلمان کے لیے اَخلاقی سہارا بھی ہے جس کے ذریعے وہ مشکلات و مصائبِ زندگی کے مقابلے میں مدد حاصل کرتا ہے۔ فرمایا:’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، صبر اور نماز سے مدد لو‘‘۔(البقرہ۲:۱۵۳)
زکوٰۃ وہ عبادت ہے جسے قرآنِ کریم نے نماز کے ساتھ متصل (التوبہ۹:۱۰۳)بیان کیا ہے۔ یہ کوئی مالیاتی ٹیکس نہیں ہے جس کو امیروں سے وصول کرکے فقیروں پر تقسیم کر دیا جاتا ہے، بلکہ یہ جہانِ اَخلاق میں فرد کی تطہیر اور تزکیے کا وسیلہ بھی ہے۔ بالکل اُسی طرح جس طرح یہ مال و دولت کی ترقی اور افزایش کا ذریعہ ہے۔ فرمایا:’’اے نبیؐ!تم ان کے اموال میں سے صدقہ لے کر انھیں پاک کرو‘‘۔(التوبہ۹:۱۰۳)
اسلام میں روزے کا مقصد نفس کو شہواتِ نفسانی اور مرغوباتِ حیوانی کی تکمیل سے رُکنے کا ضابطہ سکھانا اور اس ضابطے کی عملی مشق کرانا ہے۔ بالفاظِ دیگر یہ نفس کو تقویٰ کی خاصیت کے لیے تیار کرتا ہے۔ وہ تقویٰ جو اسلامی اَخلاق کا سنگم ہے۔ اسلامی عبادات کا نقطۂ اتصال اور احکامِ اسلامی کا مرکزی خیال ہے۔ فرمایا گیا:
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کر دیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیا ؑ کے پیرووں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔(البقرہ۲:۱۸۳)
حج کا مقصود اور مطلوب مسلمان کی روحانی و جسمانی تطہیر بھی ہے۔ اللہ کی عبادت کے لیے دنیا سے الگ تھلگ ہونا بھی۔ زندگی کی خوشنمائیوں اور رعنائیوں، کشمکشوں اور تصادمات سے اوپر اٹھ کر اللہ کی طرف متوجہ ہونا بھی۔ یہی وجہ ہے کہ حج کے اعمال شروع کرنے سے پہلے احرام پہننا فرض کیا گیا تاکہ بندہ ایک ایسی کیفیت میں داخل ہو جائے جس کی بنیاد اور اساس سادگی و انکساری، امن و سلامتی اور سنجیدگی و پاکیزگی ہے۔ یہ خوبیاں معمول کی دنیاوی زندگی کی رعنائیوں میں عموماً ابھر کر اس طرح سامنے نہیں آتیں جیسے دورانِ حج ممکن ہو جاتی ہیں۔ فرمایا:
حج کے مہینے سب کو معلوم ہیں۔ جو شخص ان مقرر مہینوں میں حج کی نیت کرے، اُسے خبردار رہنا چاہیے کہ حج کے دوران میں اُس سے کوئی شہوانی فعل، کوئی بدعملی، کوئی لڑائی جھگڑے کی بات سرزد نہ ہو۔(البقرہ۲:۱۹۷)
اسلامی عبادات اگریہ مفاہیم و معانی کھو جائیں اور اپنے مطالب و مقاصد کو پورا نہ کریں تو وہ اپنا جوہر اور اصل کھو بیٹھتی ہیں۔ وہ ایک بے روح جسم کی حیثیت اختیار کر جاتی ہیں۔ احادیث نبویؐ میں اسی چیز کو بلیغ انداز میں تاکید کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ نماز سے متعلق فرمایا گیا:’’جس شخص کی نماز اُسے بے حیائی سے نہ روکے، اُس کی نماز بے مقصد ہے‘‘۔
تہجد گزار کے بارے میں آیا ہے:’’کتنے تہجد گزار ایسے ہیں جن کو جاگنے کے سوا قیام سے کچھ ہاتھ نہیں آتا‘‘۔
روزے کے بارے میں فرمایا:’’جو شخص جھوٹ اور جھوٹ پر مبنی فعل نہ چھوڑے، اللہ کو اُس کے کھانا پینا چھوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں‘‘۔
بعض لوگ عبادات کو محض خاص قسم کی تعبدی حرکات کی ادایگی سمجھتے ہیں۔ جیسا کہ نماز، روزہ، اور حج وغیرہ کے اعمال کی خاص شکلیں ہیں۔ افسوس ہے کہ عبادات سے متعلق عمومی تصور یہی پایا جاتا ہے، اور یہ تصور غلط ہے۔ اسلام میں عبادت پوری زندگی پر محیط ہے۔ پورا دین عبادت ہے۔ عبادات کے خاص طریقوں اور معروف ارکان کی ادایگی کے ساتھ اَخلاقی قواعد اور نصیحتوں کا اہتمام اس سلسلے میں سرفہرست ہے۔ اور یہ سب کچھ تقربِ الٰہی کے حصول کی غرض سے کیا گیا ہے۔
جب ایک مسلمان سچ بولتا ہے، بھلائی کے کام کرتا ہے، وعدہ پورا کرتا ہے، عہد کو نباہتا ہے، امانت ادا کرتا ہے، عدل کے ساتھ فیصلے کرتا ہے، مقدمات کا تصفیہ انصاف سے کرتا ہے، ناپ تول میں پورا پورا دیتا ہے، نگاہیں نیچی رکھتا ہے، شرم گاہ کی حفاظت کرتا ہے، دوسروں کے جان، مال اور عزت و آبرو پر دست درازی سے باز رہتا ہے، والدین سے اچھا برتائو کرتا ہے، رشتے داریاں ٹوٹنے نہیں دیتا، ہمسایے سے حسن سلوک رکھتا ہے، اپنے مہمان کی عزت و توقیر اور خاطر تواضع کرتا ہے، کمزوروں پر ترس کھاتا ہے، مسکینوں کو کھانا کھلاتا ہے، یتیموں کو دھتکارتا نہیں، خیر کی دعوت عام کرتا ہے، معروف کی تلقین اور منکر کی ممانعت کا فریضہ انجام دیتا ہے، جابر حکمران کے سامنے حق کہتا ہے، زندگی کی تلخیوں پر صبر اور آسانیوں پر شکر کرتا ہے___تو وہ یہ سب کچھ انجام دیتے ہوئے دراصل اپنے رب اللہ سبحانہ کی عبادت ہی کرتا ہے۔ وہ کتاب و سنت کے احکام کی تنفیذ اور تعمیل ہی تو کرتا ہے، اور اس تمام تر جدوجہد کے ذریعے وہ رب کی رضا اور خوش نودی چاہتا ہے۔
جو شخص بھی قرآنِ مجید کو غور سے پڑھے گا وہ اَخلاقی حدود کو ایمانی عقائد اور تعبدی شعائر کے پہلو بہ پہلو پائے گا، ان میں کہیں بھی کوئی دُوری اور جدائی نہیں دیکھے گا۔
نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کر لیے یا مغرب کی طرف، بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یومِ آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دِل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور یتیموں پر، مسکینوں اور مسافروں پر، مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے، نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے۔ اور نیک وہ لوگ ہیں کہ جب عہد کریں تو اُسے وفا کریں، اور تنگی و مصیبت کے وقت میں اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کریں۔ یہ ہیں راست باز لوگ اور یہی لوگ متقی ہیں۔(البقرہ۲:۱۷۷)
اس جامع آیت میں اُن یہودیوں کے رویے اور تصور کی تردید کی گئی ہے جو عبادات کی محض شکلوں (طرزِ ادایگی)اور مراسم ہی کو سب کچھ سمجھتے تھے۔ قرآنِ مجید نے ان کے تصورِ عقیدہ و شعائر دونوں کی اصلاح کرتے ہوئے فرمایا کہ نیکی بس یہی نہیں ہے کہ تم مشرق و مغرب کی طرف رخ کر لو، بلکہ (عقیدہ میں) نیکی یہ ہے کہ اللہ پر ایمان لایا جائے، آخرت پر ایمان رکھا جائے، (شعائر میں) نیکی یہ ہے کہ نماز قائم کی جائے اور زکوٰۃ ادا کی جائے، (اعمال میں) نیکی یہ ہے کہ اللہ کی محبت میں قریبی اور دور کے رشتے داروں اور ہمسائیوں وغیرہ پر مال خرچ کیا جائے، وعدے پورے کیے جائیں، تنگی تکلیف اور جنگ کے وقت صبر سے کام لیا جائے۔
نصیحت تو دانش مند لوگ ہی قبول کیا کرتے ہیں۔ اور اُن کا طرزِ عمل یہ ہوتا ہے کہ اللہ کے ساتھ اپنے عہد کو پوراکرتے ہیں، اُسے مضبوط باندھنے کے بعدتوڑ نہیں ڈالتے۔ اُن کی رَوِش یہ ہوتی ہے کہ اللہ نے جن جن روابط کو برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے انھیں برقرار رکھتے ہیں، اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور اس بات کا خوف رکھتے ہیں کہ کہیں اُن سے بری طرح حساب نہ لیا جائے۔ اُن کا حال یہ ہوتا ہے کہ اپنے رب کی رضا کے لیے صبر سے کام لیتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے عَلانیہ اور پوشیدہ خرچ کرتے ہیں، اور برائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں۔ آخرت کا گھر انھی لوگوں کے لیے ہے۔(الرعد۱۳:۱۹-۲۲)
ان آیات میں ایفاے عہد، صلہ رحمی، صبر، انفاق اور حلم کے اَخلاق کو خشیت الٰہی اور انجامِ بد کے خوف اور قیامِ نماز کے ساتھ بغیر کسی تفریق کے مربوط کیا گیا ہے۔ یہاں انسانی اَخلاق کے روحانی پہلو کو بھی پیش نظر رکھا گیا ہے۔ ’ایفا‘ دراصل اللہ کے عہد کا ہے، ’صلہ‘ اس ربط و تعلق کا ہے جس کے وصل کا حکم اللہ نے دیا ہے، اور صبر کا مقصود رضاے الٰہی ہے۔ یہ محض تہذیبی و ثقافتی اور معاشرتی و عمرانی اخلاق نہیں ہیں جو روحانیت سے بالکل خالی ہوں۔
اس سے آگے بڑھیے اور سورۂ فرقان کی آیات ۶۳ تا ۷۶ کا مطالعہ کیجیے۔یہاں دیکھیے کہ روحانی مفاہیم کس طرح انسانی مفاہیم سے بغل گیر ہوتے ہیں۔ یہ ایک شان دار اخلاقی چارٹ ہے جس میں تواضع (انکسار)، حِلم (برداشت و بردباری)کو قیام اللیل اور خوفِ خدا کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ شرک باللہ کو قتل و زِنا کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ یہ تمام خوبیاں اور صفات دراصل بندگانِ خدا کی خوبیاں ہیں۔ جب وہ ان اچھے اخلاق سے آراستہ ہو جاتے اور بداخلاقیوں سے اجتناب کرتے ہیں تو وہ رب رحمن کی عبودیت کے مفہوم و مقصد کو پا لیتے ہیں۔
اسلامی اَخلاق کے اثرات مالی اور معاشی امور پر بھی ہیں خواہ وہ پیداوار کا میدان ہو یا پیداوار کی تقسیم کا، یا دولت اور اس کے استعمال کا۔ اسلامی معاشیات بے مہار نہیں ہے کہ حدود و قیود کے بغیر اور قواعد و ضوابط سے بالا جیسے چاہے چلتی رہے۔ اعلیٰ مثالوں اور نمونوں کا کوئی لحاظ نہ رکھے۔ جیسا کہ بعض ماہرین معاشیات دعوے دار ہیں کہ اخلاق اور معاشیات کے درمیان کوئی ربط و تعلق قائم نہ کیا جائے۔
کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ جو چاہے تیار کرتا رہے، خواہ وہ مادی اور معنوی اعتبار سے انسانیت کے لیے ضرررساں ہی ہو۔ وہ ایسا نہیں کر سکتا، خواہ اس پیداوار سے بہت بڑی کاروباری کامیابی اور بہت بڑے مالی منافع کیوں نہ حاصل کر سکتا ہو۔ تمباکو (سگریٹ اور افیون کا تمباکو) اور ضرررساں نشہ آور چیزوں کی زراعت میں بہت بڑا مادی فائدہ ہی کیوں نہ ہو، اس کے عوض ملین اور بلین ہی کیوں نہ کمائے جا سکتے ہوں، اِسلام اس بات سے روکتا ہے کہ انسان کی کمائی اور نفع دوسروں کے نقصان اور خسارے کی قیمت پر حاصل ہو۔
شراب کی تیاری کے لیے فراہمی کی غرض سے انگور کی پیداوار بہت بڑا مالی فائدہ دے سکتی ہے مگر اسلام اس منافع کوکالعدم قرار دیتا ہے۔ اس لیے کہ ان کے مقابل نقصانات بہت بڑے ہیں۔ شراب کے استعمال سے عقل و دماغ اور بدن و اخلاق سب تباہ ہو جاتے ہیں۔ ان نقصانات کا عملی مشاہدہ جماعتوں، خاندانوں اور افراد کی تخریب، ٹوٹ پھوٹ اور فساد کی صورت میں کیا جا سکتا ہے۔ قرآن کہتا ہے:
پوچھتے ہیں:شراب اور جوئے کاکیا حکم ہے؟ کہو: اِن دونوں چیزوں میں بڑی خرابی ہے۔ اگرچہ اِن میں لوگوں کے لیے کچھ منافع بھی ہیں، مگر ان کا گناہ اُن کے فائدے سے بہت زیادہ ہے۔(البقرہ۲:۲۱۹)
کوئی شخص فحش سیاحت (ٹورازم) سے بڑے بڑے منافع کما سکتا ہے۔لُچر، فحش اور نشہ آور چیزوںکی تجارت کرکے بڑے بڑے بنک بیلنس قائم کر سکتا ہے، مگر اسلام مسلمان کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلام نے تو مشرکین کو حج کی نیت سے عازمِ مکہ ہونے سے روک دیا تھا حالانکہ اس میں اہل مکہ کے لیے بڑے فوائد تھے۔ فرمایا:
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، مشرکین ناپاک ہیں، لہٰذا اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب نہ پھٹکنے پائیں۔ اور اگر تمھیں تنگ دستی کا خوف ہے تو بعید نہیں کہ اللہ چاہے تو تمھیں اپنے فضل سے غنی کر دے، اللہ علیم و حکیم ہے۔(التوبہ۹:۲۸)
مسلمان تجارتی تبادلے کے میدان میں شراب، خنزیر، مُردار اور بُتوں کی تیاری، فراہمی جیسی تجارت نہیں کر سکتا۔ وہ کوئی ایسی شے ایسے کسی شخص کے ہاتھ فروخت نہیں کر سکتا جس کے بارے میں اُسے علم ہو کہ وہ اس چیز کو کسی شر، فساد، اور دوسروں کو نقصان پہنچانے میں استعمال کرے گا، مثلاً کوئی شخص انگور کا جوس، یا انگور ایسے شخص کے ہاتھ فروخت کرے جس کو وہ جانتا ہوکہ یہ اس سے شراب تیار کرے گا۔ اسی طرح کوئی شخص کسی ایسے شخص کو اسلحہ فروخت کرے جس کے بارے میں اُسے علم ہو کہ وہ کسی بے گناہ اور معصوم کو قتل کرے گا یا اسے ظلم و زیادتی کے موقع پر کام میں لائے گا۔
حدیث رسولؐ میں ہے:جب اللہ نے کسی شے کو حرام کر دیا ہے تو اس کی قیمت بھی حرام کردی ہے۔ حدیث ہی میں ہے: انگوروں کی چنائی کے وقت جو شخص اس لیے انگور روک رکھے کہ (وہ بعد میں)کسی یہودی یا نصرانی یا کسی ایسے شخص کے ہاتھ فروخت کرے گا جو اس کو شراب کے لیے استعمال کرتا ہے تو اُس (مالک)کی آنکھوں پر آگ پھینکی جائے گی۔
اناج (کھانے پینے کی اشیا ) اور انسانی ضروریات کی دیگر اشیا محض اس لیے ذخیرہ کیے رکھنا مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ مارکیٹ میں ان کی قلت رونما ہو گی تو کئی گنا زیادہ قیمت پر فروخت کرے گا۔ صحیح حدیث میں ہے کہ کوئی ذخیرہ نہیںکرتا، مگر صرف گناہ کار۔ قرآنِ مجید میں انھی معنوں میں فرعون، ہامان اور اُن کے لشکروں کو بھی گناہ گار کہا گیا ہے۔
مسلمان تاجر کے لیے یہ بھی جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے سامان کے عیوب و نقائص چھپائے اور خوبیاں اُجاگر کرکے بیان کرے۔ جیسا کہ عصری ذرائع ابلاغ میں اشتہارات کا طریقہ ہے۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ فریب خوردہ خریدار اصل سے زیادہ قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ یہ دھوکا اور فریب ہے جس سے اسلام اور رسولِؐ اِسلام نے اظہارِبراء ت کیا ہے۔ فرمایا: جس نے ہمیں فریب دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
غیرمتوازن تقسیمِ وراثت اور عارضی ملکیت کے میدان میں مسلمان کے لیے روا نہیں ہے کہ وہ غلط اور ناجائز طریقے سے سامان کا مالک بن جائے۔ اپنی ذاتی ملکیت کو بھی کسی غلط طریقے سے نشوونما دینا حلال نہیں۔ اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے سُود، جوا، باطل طریقے سے لوگوں کا مال کھانا، اور ظلم اور ضرر کی ہر قسم اور ہر رنگ کو حرام کیا ہے۔
کسی چیز کے صَرف، خرچ اور استعمال میں بھی اسلام نے انسان کو بے مہار نہیں چھوڑ رکھا کہ وہ جیسے چاہے خرچ کرے خواہ اِس سے اُس کی اپنی ذات، اپنے خاندان، یا اپنی قوم ہی کو نقصان پہنچتا ہو، بلکہ اسلام نے اس معاملے میں انسان کو اعتدال و توسّط کا پابند کیا ہے۔ فرمایا:
نہ تو اپنا ہاتھ گردن سے باندھ رکھو اور نہ اسے بالکل ہی کھلا چھوڑ دو کہ ملامت زدہ اور عاجز بن کر رہ جائو۔(بنی اسرائیل۱۷:۲۹)
اور کھائو پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو، اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (اعراف۷:۳۱)
بے قید خرچ و صَرف کو اسلام نے شاہانہ انداز میں شمار کیا ہے اور ایسے لوگوں کو شاہ خرچ کہا گیا ہے۔ اسلام نے شاہانہ طرز کے ہر مظہر کو حرام ٹھیرایا ہے، مثلاً سونے اور چاندی کے برتن مردوں اور عورتوں سب کے لیے حرام ہیں۔ اسی طرح ریشم اور سونے کا استعمال مردوں پر حرام قرار دیا گیا ہے۔
جس طرح اسلامی عقائد، عبادات اور معاملات کے مقاصد کو بطور اَخلاق بیان کیا گیا ہے، اسی طرح اسلامی اَخلاق کے بھی کچھ مقاصد اور اہداف بیان کیے گئے ہیں۔ یہاں اختصار کے ساتھ ان کا ذکر کیا جا رہا ہے:
۱- اسلامی اَخلاق کا ایک مقصد اور ہدف انسان کی ذات کے لیے رفعت اور فضیلت کا حصول ممکن بنانا ہے، یعنی انسان ایک اچھی اور نفیس شخصیت بن جائے۔
۲- دیگر اخلاقیات کے مقابل اسلامی اَخلاق کو جو چیز ممتاز اور منفرد بناتی ہے وہ اللہ وحدہ کی عبودیت کا حصول ہے۔ اس کا مقصد اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا اور اُس کے حقِ ربوبیت سے وفاداری نباہنا ہے۔ اللہ ہی نے انسان کو پیدا کیا اور اسے ہدایت سے نوازا، انسان کو بہترین ساخت پر نہ صرف پیدا کیا بلکہ اس کو انتہا درجے کی تکریم سے سرفراز کیا۔ اسے سوچنے کی صلاحیت اور بولنے کا ملکہ عطا کیا۔ اسے بہترین صورت عطا کرکے اس میں اپنی روح پھونکی۔ اسے آنکھ، کان اور دل عنایت کیے۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اس کے لیے مطیع کر دی، اس کے اوپر اپنی ظاہری اور مخفی نعمتوں کا نزول فرمایا۔ ان سب چیزوں کو بعثت ِرسولؐ اور نزولِ قرآن پر مکمل فرمایا۔
اسی رب کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ حکم بھی دے اور منع بھی کرے۔ وہی حرام و حلال کا اختیار بھی رکھے۔ انسان کا فرض ہے کہ وہ اس کی بات سنے اور اُس کا حکم مانے۔ کیوںکہ اللہ تبارک و تعالیٰ خیر کے سوا کوئی حکم نہیں دیتا، شر کے علاوہ کسی چیز سے نہیں روکتا، طیب کے علاوہ کچھ حلال نہیں ٹھیراتا اور ناپاک کے علاوہ کوئی چیز حرام نہیں کرتا۔(qaradawi.net)