اسلام کی تعلیمات زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہیں۔ ان کا تعلق عقائد کے باب سے ہو یا عبادات سے،یا معاملات، اخلاقیات اورمعاشرت سے، اسلام کا اپنے ماننے والوں سے یہ تقاضا ہے کہ دوسروں کے جو حقوق تم پر عائد ہو تے ہیں، انھیں حتی الامکان پورا کرنے کی کوشش کرو۔ چاہے وہ حقوق چھوٹے چھوٹے مسائل سے متعلق ہوں یا بڑے بڑے مسائل سے ان کا تعلق ہو۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم بڑے مسائل کے حل کے لیے کوششیں تو ضرور کرتے ہیں مگر چھوٹے چھوٹے معاملات ہماری نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔
انھی میں ایک اہم مسئلہ ’راستے کے حقوق‘ کا ہے ۔کوئی شخص راستے میں مستقل ٹھکانا نہیں بناتا مگرراستے سے گزرتے ہوئے اس سے اگر کسی کو تکلیف پہنچے تو اس کا اثر کافی دیر تک محسوس کیا جاسکتا ہے ۔راستے کے حقوق کیاہیں؟ شریعت نے کن امور کی نشان دہی کی ہے؟ کن امور کا خیال رکھنا اور کن کاموں سے بازرہنے کی اس نے تلقین کی ہے تاکہ ہر کسی کی زندگی اچھے طریقے سے گزرے؟ ان سوالوں کا جواب اس تحریر میں پیش ہے۔
راستے سے مراد صرف گلی یا سڑک کاراستہ نہیں، بلکہ اس کے مختلف مفاہیم ہیں، مثلاً: lکسی محلے/سوسائٹی میں جانے والا راستہ lکسی تعلیمی/کاروباری ادارے میں مختلف کلاسوں یا دفاتر میں جانے والا راستہ l شاہراہیں (موٹر ویز اور عمومی پگڈنڈیاں بھی)۔
ان راستوںکے کچھ حقوق ایک جیسے ہیں اور کچھ متفرق ہیں۔ ان تمام میں مشترک بات یہ ہے کہ یہ تمام لوگوں کی مشترکہ گزرگاہ ہو، اس پر کسی کی خاص ملکیت نہ ہو۔
راستے کے حقوق کے حوالے سے متعدد احادیث مروی ہیں جن میں مختلف احکامات ملتے ہیں۔ ایک حدیث میں حضرت ابو سعید خدری ؓ روایت کرتے ہیں، رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا: ’’راستوں پر بیٹھنے سے پر ہیز کرو‘‘۔ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا: ’’ہماری مجبوری ہے کہ ہم محفل جماتے ہیں اور آپس میں گپ شپ کر تے ہیں‘‘۔رسولؐ اللہ نے فرمایا:’’اگر اتنی ہی مجبوری ہے تو راستے کا حق ادا کرو‘‘۔صحابہؓ نے پوچھا: ’’راستے کا حق کیا ہے ؟‘‘فرمایا:’’نظروں کو جھکا کر رکھو،تکلیف دہ چیز کو دُور کرو،سلام کا جواب دو اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرو‘‘۔(بخاری، ۲۴۶۵)
اس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ نبی کریمؐ نے راستوں میں بیٹھنے کی ممانعت فرمائی ہے، لیکن اگر اتنی ہی مجبوری ہے تو پھر چند امور کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے۔واضح رہے کہ راستوں پر بیٹھنے سے مراد دکانوں ،ہوٹلوں ،مساجد کے باہر،گلی کے کونے میں کھڑے ہو نا اور اسی طرح بیچ راستے میں گاڑی روک کر بات چیت کرنا یا کسی کا انتظار کرنا بھی، اس میں شامل ہے ۔
آج کل ہم پریشان ہوتے ہیں کہ ہمارے گھروں میں تو اخلاق کا خیال رکھ کر گفتگو کی جاتی ہے مگر یہ چھوٹے بچے کہاں سے گالیاں اور اخلاق سے گری ہوئی باتیں سیکھ کر آتے ہیں ؟اگر اس کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ بچے باہر سے یہ سب کچھ سیکھ کر آتے ہیں ۔ اس سلسلے میں سب سے اہم بات بازار میں موجود دکان داروں کا رویہ ہے۔ اکثر ان کی گفتگو اخلاقیات سے عاری ہوتی ہے۔ وہ اس چیز کا خیال نہیں رکھتے، حتیٰ کہ بازاری گفتگوکا محاورہ عام ہوگیا ہے۔لہٰذا جو شخص بھی راستے میں بیٹھا ہے یا دکانوں کے آگے کرسیاں لگا کر بیٹھا ہے تو اسے چاہیے کہ اپنی گفتگو میں اخلاقیات کا خیال رکھے، تاکہ غیر اخلاقی گفتگو نہ ہو، اور بچوں کی اخلاقیات پر بھی اس کا اثر نہ پڑے۔
اس میں صرف وہ لوگ شامل نہیں ہیں جو باہر راستے پر جارہے ہوں بلکہ اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں، جو کسی کاروباری ادارے میں کام کرتے ہیں یا کسی کام کے سلسلے میں ان کا وہاں جانا ہوتا ہے۔ اور اسی طرح وہ لوگ بھی اس حکم میں شامل ہیں جو کسی مخلوط تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، ان کا واسطہ نامحرم سے پڑتا ہے۔
یعنی ’ایمان‘ دراصل اعمال اور معاملات تک کا نام ہے۔ کسی ایک جز کو ’ایمان‘ نہیں کہتے، بلکہ تمام اجزا مل کر ایمان کی تکمیل کرتے ہیں ۔اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ راستے سے کسی تکلیف دہ چیز کو ہٹانا اجر کا کام ہے اور اس میں ضروری نہیں کہ کوئی بہت بڑی چیز آپ دُور کریں، حتیٰ کہ تکلیف دینے والا ایک کانٹا ،کوئی اینٹ کا ٹکڑا بھی اگر کسی نے ہٹایا تو اس پر بھی اس کو اجر ملے گا۔
رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا:’’ ایک شخص راستے سے گزر رہا تھا کہ اس نے ایک کانٹا دیکھا اور اسے راستے سے ہٹا دیا، پس اس فعل پر اللہ نے اس کی قدر دانی کی اور اسے بخش دیا‘‘۔(بخاری، ۲۴۷۲)
اس شخص کواللہ تعالیٰ نے اس لیے معاف کر دیا کہ اس کے فعل کا فائدہ دوسروں کو پہنچ رہا تھا اور اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اسے جنت میں داخل کردیا ۔ اسی طرح حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں: رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا: ’’انسان کے ہر جوڑ پر صدقہ ہے‘‘۔پھر فرمایا:اور راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانابھی صدقہ ہے ۔ (بخاری، ۲۹۸۹)
’تکلیف دینے والی‘ وہ تمام چیزیں ہیں، جو وہاں سے گزر نے والوں کے لیے تکلیف دینے کا سبب بنیں۔ان میں بے سبب بیریئر لگانا بھی شامل ہے۔ جو شخص اس طرح کے بیرئیر ہٹانے کی کوشش کرتا ہے تو اس کو اجر ملے گا اور وہ جنت کا مستحق بھی ہوگا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’ایک شخص نے راستے سے کانٹا ہٹایا جس نے کبھی نیک کام نہیں کیا تھا ،یا راستے میں [رکاوٹ بننے والا] درخت تھا جسے اس نے کاٹ کراکھاڑ دیا،یا وہ درخت راستے میں گرا ہوا تھا، اس نے ایک طرف کر دیا، پس اس کے اس عمل کی اللہ نے قدر دانی کی اور اسے جنت میں داخل کر دیا‘‘۔(سنن ابوداؤد، ۵۲۴۵)
حدیث کے الفاظ کَفُّ الْاَذَیٰ ایک جامع کلمہ ہے۔ اس میں ہر طرح کی تکلیف دیناشامل ہے، چاہے وہ اپنے عمل کی وجہ سے ہو یا اپنے قول یا اشارے سے، حتیٰ کہ صرف نظروں سے بھی کسی کو تکلیف دینا شامل ہے ۔جو چیزیں راستے میں تکلیف کا باعث بنتی ہیں وہ درج ذیل ہیں :
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ایک شخص راستے سے گزر رہا تھا کہ اس دوران اسے پیاس لگی تو وہاں اس نے ایک کنواں پایا۔ پس وہ اس میں اُترا اور سیراب ہو کر باہر نکلا تو اس نے وہاں ایک کتا دیکھا جو پیاس کی شدت سے مٹی چاٹ رہا تھا۔ اس نے سوچا کہ اسے بھی اتنی ہی پیاس لگی ہے جتنی تھوڑی دیر قبل مجھے لگی تھی۔ پس وہ کنویں میں اترا اور اپنا موزہ پانی سے بھرا اور کتے کو پلا دیا۔ اللہ نے اس کی قدر دانی کی اور اس کی بخشش فرما دی‘‘۔ صحابہ ؓ نے پوچھا: یارسولؐ اللہ! کیا جانوروں میں بھی ہمارے لیے اجر ہے ؟آپؐ نے فرمایا: ہرذی روح جگر والے میں اجر ہے ۔(بخاری، ۲۴۶۶)
امام بخاری ؒ نے اس حدیث کا عنوان بَابٌ فِی الْآبَارِ عَلَی الطُّرُقِ اِذَا لَمْ یَتَأَذَّ بِہَا باندھا ہے،یعنی راستے میں کنواں بنانے کاحکم، جب اس سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے ۔اس کامطلب یہ ہے کہ پانی پلانابڑے اجر وثواب کا کام ہے اور ایک ایسا کام ہے کہ اگر کسی جانور کی بھی پیاس بجھائی جائے تو اللہ تعالیٰ اس کی بھی قدر کرتے ہیں۔ تاہم، اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اس سے کسی کو تکلیف نہ ہو ۔نہ اس کی وجہ سے راستہ تنگ ہو اور نہ راستے میں کیچڑ اور گندگی وغیرہ پیدا ہو ۔
یہ امر بھی ملحوظِ خاطر رہے کہ اس میں صرف لہو و لعب کی موسیقی منع نہیں ہے بلکہ تیز آواز میں تلاوت یا نعت وغیرہ بھی سننا منع ہے۔ کیوںکہ اس سے بھی لوگ ذہنی طور پر متاثر ہوتے ہیں کہ کوئی کسی کام میں مصروف ہو ،کوئی بیمار ہو یا کوئی نماز پڑھ رہا ہو توان کے ان کاموں میں خلل پیدا ہوتا ہے۔
یہ تمام چیزیں صرف اس وجہ سے ممنوع ہیں کہ اس سے راستہ تنگ ہوجاتا ہے اور لوگوں کو آمدورفت میں تکلیف ہوتی ہے۔غرض یہ کہ راستے میں کسی کوآپ کے کسی بھی عمل سے تکلیف نہ پہنچے یہ شریعت کا مطالبہ ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’لوگوں میں بہترین وہ ہے جو انھیں فائدہ پہنچا نے والا ہو‘‘(مسندالشہاب، ۱۲۳۴)۔لوگوں کو آپ کی ذات سے فائدہ پہنچے۔ کسی کو آپ کی وجہ سے نقصان یا پریشانی نہ اٹھانی پڑے۔ اسی بات کو لے کر حضرت ابوذر ؓ نے نبی کریمؐ سے سوال کیا تھا: یارسولؐ اللہ! آپؐ کا کیا خیال ہے اگر میں کوئی بھلائی کا کام کرنے سے عاجز آجا ؤں؟آپؐ نے فرمایا: اپنے شر سے لوگوں کو بچائے رکھو، پس یہ تمھاری طرف سے تمھارے نفس پر صدقہ ہے۔(مسلم، ۱۱۹)
وہ شخص جو لوگوں کے لیے مصیبت کا باعث بنتا ہے اور اس کے شر کی وجہ سے لوگ اس سے ملنا جلنا چھوڑ دیں تو قیامت کے دن اللہ کے نزدیک اس کا سب سے بد ترین درجہ ہو گا ۔ اس میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ آپ کے رویے کی وجہ سے لوگ آپ کی گلی سے گزرنا چھوڑ دیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’بے شک اللہ کے نزدیک قیامت کے دن سب سے بد ترین شخص وہ ہوگا جس کے شر سے بچنے کے لیے لوگ اس سے ملنا چھوڑ دیں‘‘۔(سنن ابوداؤد، ۴۷۹۱)
اسلام کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ آپ کے قول وفعل یا کسی بھی عمل سے کسی کو کوئی تکلیف نہ پہنچے، چاہے وہ جسمانی تکلیف ہو یا روحانی،وقتی ہو یا دائمی،بالواسطہ ہو یا بلا واسطہ۔ ہمیشہ آپ کی ذات سے دوسروں کو نفع پہنچے۔
ایک موقعے پرکچھ لوگ مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس کھڑے ہوگئے اور ان سے فرمایا :کیا میں تم میں سے بد ترین اور بہترین شخص کا نام بتاؤں؟ راوی کہتے ہیں کہ یہ سن کر وہ لوگ خاموش رہے۔آپؐ نے تین مرتبہ یہ بات پوچھی تو ایک شخص نے کہا: کیوں نہیں یارسولؐ اللہ! ہم میں سے بد ترین لوگوں میں سے بہترین اشخاص کی نشان دہی فرمائیں۔ آپؐ نے فرمایا:تم میں سے بہترین وہ ہے، جس سے بھلائی کی امید ہو اور جس کے شر سے لوگ محفوظ ہوں ،اور تم میں سے بد ترین وہ ہے جس سے خیر کی ذرا بھی امید نہ ہو اور اس کے شر سے بھی حفاظت نہ ہو۔ (بخاری، ۲۲۶۳)
سلام کرنے کی وجہ سے سامنے والے کوایک طرح کا اطمینان ہو جاتا ہے کہ اس شخص سے مجھے کوئی خطرہ نہیں ہے۔سلام کا جواب دینا بھی راستے کے حقوق میں سے ایک حق ہے ۔نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا :اور جس سے ملاقات ہو اسے سلام کرنا صدقہ ہے (سنن ابوداؤد، ۵۲۴۵)۔ خود قرآنِ مجید میں حکم دیا گیا ہے کہ سلام کا اس سے اچھے طریقے سے یااسی طرح جواب دو:’’اور جب تمھیں سلام کیا جائے تو اس سے احسن انداز میں اس کا جواب دو یا اسی طرح لو ٹا دو۔ بے شک اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے‘‘(النساء ۴:۸۶)۔ حدیث میں آتا ہے کہ جو جتنے اچھے طریقے سے سلام کرتا ہے اسے اتنا ہی اجر ملتا ہے ۔
حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے السلام علیکم کہا۔ آپؐ نے اس کے سلام کا جواب دیا اور وہ شخص بیٹھ گیا۔ اس کے بعد آپؐ نے فرمایا: ۱۰۔پھر ایک اور شخص آیا اور اس نے السلام علیکم و رحمۃ اللہ کہا اور بیٹھ گیا۔ آپؐ نے اس کے بھی سلام کا جواب دیا اورفرمایا: ۲۰۔ پھر ایک تیسرا شخص آیا اور اس نے السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہا اور بیٹھ گیا۔اس کے بھی سلام کا جواب دینے کے بعد آپؐ نے فرمایا:۳۰۔(سنن ابوداؤد، ۵۱۹۵)
راستے میں مختلف طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ کوئی پیدل ہوتا ہے تو کوئی گاڑی میں سوار، کوئی بیٹھا ہوتا ہے تو کوئی گزرنے والا۔ اب اس میں مختلف احکامات ہیں کہ کون کسے سلام کرے۔ اس کے احکامات بھی ہمیں اسلام کی تعلیمات میں ملتے ہیں۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا: سوار، پیدل چلنے والے کو سلام کرے، پیدل گزرنے والا بیٹھے ہوئے کو،اورکم لوگ زیادہ لوگوں کو سلام کریں۔ (بخاری، ۶۲۳۳)
آج کل سلام نہ کرنے کا اتنا رواج ہو چلا ہے کہ اگر راہ چلتے کو ئی کسی کو سلام کر ے تو وہ شخص پریشان ہو جا تا ہے کہ مجھے کس نے سلام کر دیا؟ اس لیے سلام کوعام کرنے کی ضرورت ہے۔نبی کریمؐکی حدیث کی رو سے جنت میں لے جانے والے اعمال میں سے ایک اہم عمل آپس میں سلام کوپھیلانابھی ہے۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :تم جنت میں ہرگز داخل نہیں ہو سکتے، حتی ٰ کہ ایمان نہ لے آؤ۔اور تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک ایک دوسرے سے محبت نہ کرو۔کیا میں تمھیں ایک ایسی چیز کے بارے میں نہ بتاؤںکہ تم اسے اختیار کرو تو ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو گے؟آپس میں سلام کو پھیلاؤ۔ (مسلم، ۱۹۴)
خیال رہے کہ کچھ لوگ ہاتھ ملانا درست نہیں سمجھتے۔ ہاتھ ملانا ضروری نہیں ہے، لیکن اگر کوئی شخص سلام کرنے کے ساتھ ہاتھ بھی ملاتا ہے تو کوئی مضائقہ نہیں اور ہاتھ ملانے یا نہ ملانے کے حوالے سے شدت اختیار نہیں کرنی چاہیے۔کیوںکہ یہ کوئی لازمی حکم نہیں ہے کہ اس کو اختیار نہ کرنے سے گناہ ہوگا۔ یہ کوئی ایسا کام بھی نہیں ہے کہ اس کو اختیار کرنے سے بدعت کا ارتکاب ہوگا کیوںکہ حدیث مبارکہ میں اس کے جواز کا پہلو ملتا ہے ۔حضرت براء ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی بھی دو مسلمان آپس میں ملتے ہیں اور مصافحہ کرتے ہیں تو ان کے جدا ہونے سے پہلے ان کی بخشش کر دی جاتی ہے۔(سنن ابوداؤد، ۵۲۱۲)
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو تم میں سے منکر ہوتے ہوئے دیکھے پس اسے چاہیے کہ اس کو ہاتھ سے روکے۔اگر اس کی استطاعت نہ ہوتو اپنی زبان سے۔اگر اس کی استطاعت نہ ہوتو اپنے دل میں اسے براکہے اور یہ ایمان کا سب سے ادنیٰ درجہ ہے ۔ (مسلم، ۷۸)
اس حدیث کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فریضہ ہر مسلمان پر لازم ہے۔ یہ صرف حکومتی ذمہ داران کی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اسی طرح اس فریضے کی ادایگی کا طریقۂ کار بھی مختلف ہے۔ صرف ایک ہی طریقۂ کار وضع نہیں کیا گیا ۔البتہ فضیلت کی بنیاد پر مختلف درجات ہیں۔ سب سے اعلیٰ درجہ برائی کو ہاتھ سے روکنا ہے ،اس کے بعد زبان سے اس کے خلاف جہاد کرنے کا درجہ ہے، اور آخر میں دل میں اسے بُراکہنے کا درجہ ہے ۔اسی طرح منکر کے حوالے سے ذہن نشین رہے کہ اس سے مراد کسی انسان کی طبیعت جس کی طرف مائل نہیں ہوتی وہ،یا کوئی فقہی اختلافی مسئلہ مراد نہیں ہے بلکہ شریعت کی نگاہ میں جو کام ناجائز ہے وہ مراد ہے۔اگر کوئی راستے میں دیکھتا ہے کہ ایک شخص دوسرے پر زیادتی کر رہا ہے تو وہ کان لپیٹ کر وہاں سے گزر نہ جائے بلکہ زیادتی کرنے والے کو اس سے روکے، یہ راستے کے حقوق میں سے ہے۔
یاد رہے کہ راستوں کو آلودہ کرنے کے حوالے سے یہ چیز بھی شامل ہے کہ راستے میں کوڑا کرکٹ ،گندگی اور اسی طرح کی دیگر اشیاڈالی جائیں۔اسی طرح انتظار گاہ میں تھوکنایا ادارے کے اندرونی راستوں پر تھوکنا یہ چیز بھی گندگی پھیلانے کے زمرے میں آتی ہے ۔
راستوںکوصاف ستھرارکھنے میں انفرادی اور اداراتی سطح پر کام کرنے والے لوگ بھی شامل ہیں،مثلاً: بلدیہ کا کام ہے کہ سڑکوں اور گلیوں کی صفائی رکھے اورنکاسی آب (سیوریج) کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے نالوں کی صفائی کرے۔ الا ماشاء اللہ اگر کہیں یہ نظام ٹھیک ہو تو ہو بحیثیت مجموعی جہاں یہ صفائی کرتے ہیں تو ساری گندگی باہر سڑک پر ڈال دیتے ہیں اور اس کو وہاں سے اٹھانے کا کوئی مؤثر انتظام نہیں ہوتا۔ لہٰذا اداروں کو بھی اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ اگر ان سے کوئی راستہ پوچھے تو اسے صحیح راستہ نہیں بتلاتے۔ یہ انتہائی نا مناسب عمل ہے ۔ایک حدیث میں تو اللہ کے رسولؐ نے راستہ بتلانے کو صدقات میں شمار کیا ہے۔حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے، رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا: راستہ بتلانا بھی صدقہ ہے ۔ (بخاری، ۲۸۹۱)
ہمیں دیکھنا چاہیے اور اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ ہم کہاں تک راستے کے حقوق ادا کرتے ہیں۔ اگر راستے میں جاتے ہوئے کوئی ان چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھ کر اس پر عمل کرے، تو یقینا اس کی اپنی زندگی بھی خوش گوار ہوگی اور وہ لوگ بھی خوش و خرم ہوں گے جن کواس شخص کی نیکی کی وجہ سے پریشانی سے نجات مل جائے گی۔ اس طرح ایک دوسرے کا خیال رکھنے کا جذبہ پیدا ہوگااور معاشرے میں سکون و اطمینان اورمحبت و اخوت کی فضا قائم ہوگی ۔