برعظیم جنوبی ایشیا کی سیاسی تاریخ میں ۹فروری ۲۰۱۶ء ایک یادگار دن کی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا۔ اس روز بھارت کی ممتاز ترین دانش گاہ جواہر لال نہرو یونی ورسٹی، دہلی میں نوجوان نسل نے پرانی اور خوار سیاست گری کو مسترد کرنے کا اعلان کیا۔ یاد رہے، اس یونی ورسٹی میں کمیونسٹ پارٹی کی حلیف آل انڈیا اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن (AISA)، اسٹوڈنٹس یونین کے انتخابات میں ۲۰۰۵ء سے اب تک مسلسل کامیابی حاصل کر رہی ہے۔ اس کے ووٹروں میں ہندو انتہاپسندی اور مریضانہ برہمنی قوم پرستی کو مسترد کرنے والوں میں مسلم، ہندو، سکھ اور عیسائی طلبہ و طالبات کی اکثریت شامل ہے۔
۹فروری کو جواہر لال نہرو یونی ورسٹی کی اسٹوڈنٹس یونین کے پلیٹ فارم سے مظلوم کشمیری مسلمان، افضل گرو کا یومِ شہادت منایا گیا۔ جس میں برملا کہا گیا کہ:’’ افضل گرو دہشت گرد نہیں تھا، اسے عدالتی اور ریاستی سطح پر قتل کیا گیا تھا‘‘۔ جب یہ بات ہو رہی تھی تو ہزاروں طلبہ و طالبات فلک شگاف نعروں میں ظلم کے خاتمے کے ترانے گا رہے تھے۔ اسی دوران میں حکمران بی جے پی کے حامیوں نے ان پر حملہ کر دیا اور اس تصادم میں متعدد طالب علم زخمی ہوگئے۔
اسٹوڈنٹس یونین کے صدر کنہیاکمار نے ظلم اور دہشت، معاشی استحصال اور زبان بندی کے کلچر کی غلامی سے آزادی کے حصول کا اعلان کیا، مگر حکومتی عناصر نے اس لفظِ ’آزادی‘ کو خودبخود بھارت سے آزادی کا جامہ پہنا کر صدر یونین کو غداری کے مقدمے میں گرفتار کرلیا۔
یہ ایک غیرمعمولی واقعہ ہے، جس پر آسام سے لے کر سری نگر تک اساتذہ، طلبہ، صحافیوں، دانش وروں اور وکلا کی بڑی تعداد نے حکومتی اقدامات اور فسطائیت کی کھلے لفظوں میں مذمت کی۔ بھارت کی ۴۰۰ یونی ورسٹیوں کے طالب علموں نے احتجاجی جلسے منعقد کیے۔ یہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے قابلِ احترام اور مسلّمہ۶۴دانش وروں نے مظلوم طلبہ سے یک جہتی کے لیے دستخطی مہم چلائی۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ روے سخن مختلف ہونے کے باوجود یہ واقعہ ہراعتبار سے مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کے ساتھ یک جہتی یا ان کے ساتھ روا ظلم پر ردعمل کا حوالہ رکھتا ہے۔ جس کے لیے بھارت کی نئی نسل: کانگریسی اور جن سنگھی سوچ کو مسترد کرکے حقیقت پسندانہ راستہ اختیار کرنے کا پیغام دیتی ہے۔ اس پس منظر میں اس واقعے کو Game Changer کی حیثیت سے دیکھا جانا چاہیے، جس کے دامن میں ایک نئی سوچ کی کونپل پھوٹتی دکھائی دیتی ہے۔
اس واقعے کو جموں اور کشمیر کے ہائی کورٹ کے ان فیصلوں سے ملا کر دیکھا جائے، جن میں اب سے دو سال قبل فاضل ججوں نے فیصلہ دیا تھا کہ:
بھارت کی جانب سے جموں کشمیر کو اٹوٹ انگ کہنا ایک غلط دعویٰ ہے کیونکہ جس اسمبلی نے بھارت کے ساتھ اسے جوڑنے کی بات کی تھی، وہ محض معاہداتی تھی، دائمی نہیں تھی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے عوام کی مرضی اور کیے گئے معاہداتی عہدنامے کے تحت اس کے مستقبل کا تعین باقی ہے۔
یہ واقعات بھارتی حکمرانوں اور عالمی حکمرانوں کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہیں، بایں ہمہ اُمید کم ہے کہ ان کی بند آنکھیں کھلیں۔ وجہ یہ ہے کہ تنگ نظر ذہن ہمدردی، رواداری، فیاضی، آزادی، مروت جیسے لفظوں ہی سے ناآشنا ہوتا ہے، چہ جائیکہ وہ ان کے مفہوم کو سمجھے اور اُسے عملی زندگی میں اختیار کرنے کی طرف مائل ہو۔ مودی حکمرانی جس رُخ پر چل رہی ہے اس کے لیے جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے فیصلے، یا نہرو یونی ورسٹی، یا کُل ہند یونی ورسٹیوں کے طلبہ کا احتجاج کوئی معنی نہیں رکھتا۔ وہ اس تازیانے کو کوئی اہمیت نہیں دیتی، جب تک وہ اتنا زوردار نہ ہو کہ مودی کے پائوں اُکھاڑ دے۔ چونکہ فوری طور پر یہ مشکل ہے، اس لیے بھارتی مقتدرہ ٹس سے مس نہیں ہورہی۔ دوسری طرف ۹فروری کے مذکورہ بالا واقعے کے حوالے سے پاکستان کے حکمرانوں، دانش وروں، صحافیوں اور بہ زعمِ خویش عالمی ضمیر کے رکھوالوں کو بھی اپنا فرض ادا کرنا چاہیے۔ دوستی کی رٹ لگانے والوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ کن سے دوستی کے لیے بے تاب ہیں۔ وہ ان سے وفا کی توقع رکھتے ہیں ’’جو نہیں جانتے وفا کیا ہے‘‘۔ وہ تو اپنوں سے بھی وفا کے روادار نہیں!