پروفیسر محمد سلیم (وفات: یکم جنوری ۲۰۱۶ئ) عالمی شہرت یافتہ ماہر طبیعیات (Physics) تھے۔ پنجاب یونی ورسٹی کے پروفیسر ایمریطس تھے۔ فزکس پر بلندپایہ تصانیف کے علاوہ ان کی زیادہ تقریباً ۱۰ کتب اُردو شعر و ادب اور تاریخ کے موضوعات پر ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد سارے عرصے میں انھوں نے لکھنے پڑھنے کا کام باقاعدگی کے ساتھ جاری رکھا۔ اردو میں ان کی پہلی کتاب داراشکوہ، احوال وافکار تھی اور آخری زیرنظر مولانا شبلی نعمانی پر۔
شبلی صدی کے موقعے پر مولانا شبلی پرجتنی کتابیں چھپیں،یہ ان میں ایک اچھا اضافہ ہے۔ ’ابتدائیہ‘اور،’سوانح‘کے مختصر ابواب کے بعد پروفیسر صاحب نے شبلی کی جملہ تصانیف پر ایک ایک باب باندھا ہے، مثلاً پہلا باب ہے:المامون،جس کی اشاعت (۱۸۸۷ئ) سے بقول پروفیسر موصوف:’’شبلی اردو کے صفِ اوّل کے مصنفین میں شمار ہونے لگے‘‘ (ص۳۷)۔ سلیم صاحب نے پہلے کتاب کا، پھر مامون الرشید کی شخصیت کا تعارف کرایا ہے،بعدہٗ جیسا شبلی نے مامون کی شخصیت کو پیش کیا ہے، اس کی جھلکیاں ہیں، جن سے مامو ن کی ذہانت ،علم و فضل، دریا دلی،فہم شعر وادب کے ساتھ اس کے اسراف و تبذیر،عیش وطرب ،مذہبی جنون،اور علما ے کرام پر اس کے ظلم و ستم کا اندازہ ہوتاہے۔ جہاں شبلی نے مامون الرشید کے ساتھ کچھ رعایت کی ہے یا اس کی کسی بے اعتدالی سے صرفِ نظر کیا ہے یا اس کی تاویل کرنے کی کوشش کی ہے، وہاں پروفیسر محمد سلیم نے شبلی پر گرفت بھی کی ہے،مثلاً: مامون نے اپنے سپہ سالار طاہر سے کسی بات پر ناراض ہو کر اسے زہر دلوا دیا۔ شبلی لکھتے ہیں:’’اگر مامون کی جگہ کوئی اور بادشاہ ہوتا تو کیا کرتا؟‘‘(یعنی وہ بھی یہی کچھ کرتا، اسے مروا دیتا)۔اس پر پروفیسر سلیم لکھتے ہیں: ’’یہ سوچ سراسر غیر اسلامی ہے اور اس کا کوئی جواز نہیں۔ بادشاہوں کے دفاع کی قبا،شبلی کے قدوقامت پر موزوں نہیں آتی‘‘۔اسی طرح مامون کی عیش و طرب کی محفلوں کی سنگینی کو کم کرنے کے لیے (جن میں عیسائی کنیزوں کا رقص وسُرود،ان کی مخمور آنکھیںاور جام و شراب کا دور، بقول شبلی: ’’مامون کو بد مست کردیتا تھا‘‘) مولانا شبلی لکھتے ہیں: ’’مامون کے عیش و طرب کے جلسوںمیں تو عیاشانہ رنگینی پائی جاتی ہے مگر انصاف یہ ہے کہ یہ جلسے علمی مذاق سے بالکل خالی بھی نہ تھے۔اس قسم کے جلسے جو شاعرانہ جذبات کو پورے جوش کے ساتھ اُبھار دیتے ہیں، اگر متانت و تہذیب کے ساتھ ہوں تو لٹریچر پر نہایت وسیع اور عمدہ اثر پیدا کرتے ہیں‘‘۔اس پر پروفیسر سلیم صاحب کا نقد ہے:’’یہ لکھتے وقت مولانا [شبلی]کو غالباً مذہبی نقطۂ نظر سے ایسی محفلوں پر تبصرہ کرنے کا خیال نہ آیا‘‘۔
پروفیسر محمد سلیم مجموعی راے دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ شبلی نے’’المامون لکھ کر اُردو میں سوانح نگاری کی بنیاد رکھی‘‘۔پروفیسر صاحب نے شبلی کی دیگر تصانیف پر بھی ایک ایک باب رقم کیا ہے۔ مزیدبرآں انھوں نے حسبِ ذیل موضوعات پر بھی ایک ایک باب رقم کیا ہے: شبلی کی شاعری، ندوۃ العلمائ، شبلی اور ان کے نقاد،شبلی اور سر سید۔انھوں نے شبلی کی شخصیت، تصانیف اور افکار کا پورا احاطہ کیا ہے، شبلی فہمی کے لیے یہ ایک مفید کتاب ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)
۲۰ویں صدی کا چھٹا عشرہ اُردو صحافت میں کئی تجربات کے حوالے سے یادگار ہے، اور انھی میں ایک حوالہ ماہ نامہ اُردو ڈائجسٹ کا لاہور سے اجرا تھا۔یہ پرچہ جہاں شائستہ اسلوبِ نگارش، تعمیری ادب، دیدہ زیب پیش کاری اور متنوع موضوعات کا گل دستہ تھا، وہیں الطاف حسن قریشی کے منفرد مصاحبوں (انٹرویوز) کی وجہ سے بھی ایک خاص مقام رکھتا تھا۔ یہ انٹرویو محض شخصی احوال و عادات کی کتھا نہیں ہوتے تھے، بلکہ مہمان سے ہونے والی عالمانہ گفتگو اور ٹھوس موضوعات کو عام فہم انداز میں قارئین تک پہنچانے کا ذریعہ بھی تھے۔
زیرتبصرہ کتاب ایسے ہی مصاحبوں کا ایک قابلِ قدر انتخاب ہے۔ ان مصاحبوں کو سوالات کی خوب صورتی، جوابات کی عالمانہ وسعت اور تخلیقی تحریر نے مکالماتی شہ پارے بنادیا ہے۔ یہ کتاب درحقیقت ۲۰ویں صدی میں مسلم تہذیبی فکر کا مرقع ہے۔دوسرا یہ کہ چند غیرملکی مہمانوں کو چھوڑ کر سبھی شخصیات صبحِ آزادی کی شخصیات میں شمار ہوتی ہیں۔ یہ رجالِ کار اپنی گفتگوئوں میں بتاتے ہیں کہ آزادی کا نور، کس طرح آزادیِ موہوم میں تبدیل ہوا۔
یوں تو ہر مصاحبہ ایک مثال ہے، تاہم یہاں چیف جسٹس اے آر کارنیلیس کی گفتگو سے چند سطور پیش کی جاتی ہیں:’’قانون کی اطاعت کا جذبہ اس وقت اُبھرتا ہے، جب دل میں قانون کے لیے احترام پایا جاتا ہو۔ اگر ہم پاکستان میں قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں تو پھر ہمیں اسلامی قانون نافذ کرنا چاہیے۔ میرا یقین ہے کہ اسلامی قانون کے نفاذ سے اس ملک کی قانونی زندگی میں خوش گوار انقلاب جنم لے گا۔ اسلامی قانون کسی دور میں بھی زندگی سے کٹا نہیں رہا اور یہ تسلسل کی تمام کڑیاں اپنے اندر رکھتا ہے‘‘۔ (ص ۱۹۱، ۱۹۲)
واقعہ یہ ہے کہ ان مصاحبوں میں اجتہاد کی ضرورت اور اجتہاد کے آداب، تعلیم اور تہذیب، تاریخ اور کلچر، سیاست اور مسئلہ زبان، مستقبل بینی اور خود احتسابی کے ایسے ایسے جواہر پارے ملتے ہیں کہ ہمارے بہت سے مسائل کی نشان دہی اور ان کا شافی حل مل جاتا ہے۔ اس بزمِ دانش میں مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی ، ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاء الحق، شاہ فیصل، خان آف قلات، جسٹس اے آر کارنیلیس، اے کے بروہی، چودھری محمد علی، جسٹس حمودالرحمن، ایس ایم ظفر، ظفراحمد انصاری، غلام رسول مہر اور اصغرخان سمیت ۲۳ شخصیات کے مصاحبے شامل ہیں۔
کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے ہم ۲۱ویں صدی میں، ۲۰ویں صدی کی مسلم فکری رہنمائی سے اس طرح مستفید ہوتے ہیں کہ ماضی اور حال ہمارے مستقبل کو تابناک بنانے کا چراغِ راہ بن جاتا ہے۔(سلیم منصور خالد)
جماعت اسلامی سے وابستہ لاکھوں افراد نے اپنی پوری زندگیاں دعوتِ دین کی جدوجہد میں لگا دی ہیں۔ مشیت ِ حق کے تحت ہر فرد کی زندگی کا پیمانہ لبریز ہوتا ہے تو وہ انتقال کی منزل طے کرتا ہے۔ حافظ محمد ادریس صاحب اس قافلۂ حق کے ایسے متعدد رفقا کی زندگیوں پر معلومات افزا مضامین پر مشتمل چار کتب تالیف اور شائع کرچکے ہیں، اب اس سلسلے کی یہ پانچویں کتاب چھپی ہے۔
اس کتاب میں پروفیسر غلام اعظم کی مجاہدانہ زندگی پر پانچ مضامین ہیں، دیگر رفقا میں: مولانا ابوالکلام محمد یوسف، عبدالقادر مُلّا شہید، محمد قمرالزمان شہید، ملک غلام یاسین، سردار الطاف حسین، شمیم احمد، مسعود جاوید، خدا بخش خان، حاجی محمد لقمان، احمدقاسم پاریکھ، چودھری ثناء اللہ، عبدالرحمن بن اجمل، خواجہ علاء الدین ، ڈاکٹر سیّدمنصورعلی، مولانا عبدالمالک شہید، محمد یوسف خان، نصراللہ شجیع، ڈاکٹر خان محمد صابری، سیّد رفیق حسین جعفری، ڈاکٹر ظہوراحمد، میاں نذیراحمد، ملک مسعود الحسن، ڈاکٹر سیّد احسان اللہ شاہ، مہرچاکرفتیانہ، مولانا محمد نافع اور حافظ محبوب الٰہی حلیم شامل ہیں۔ یہ تذکرے قارئین کے دل میں عزم و ہمت کی جوت جگا تے اور دنیاے فانی سے گزر جانے سے قبل کچھ کر جانے کی اُمنگ پیدا کرتے ہیں۔ (س-م-خ)
کیپٹن سراج الحق، جماعت اسلامی کراچی کے رکن تھے۔ ان کے انتقال پر ان کے اعزہ نے یہ کتاب یادگار کے طور پر شائع کی ہے، جس میں ۴۶ تحریریں ہیں۔ لکھنے والوں میں ان کی اہلیہ، بیٹے، بہوئیں، داماد، پوتے، بھانجے، نواسے اور مرحوم سراج صاحب کے دوست شامل ہیں۔ ہرایک نے جیسا ان کو پایا، لکھ دیا۔ سب نے سراج صاحب کی شخصیت پر اپنے اپنے زاویے سے روشنی ڈالی۔عجب ایمان افروز تصویر بنی ہے۔ایک جگمگاتا ہوا تحریکی کردار۔ تحریکِ اسلامی نے ایسے ہیرے تراش کرکے پیش کر دیے۔ (مسلم سجاد)
o معارف مجلہ تحقیق، (شمارہ ۱۰،جولائی-دسمبر ۲۰۱۵ئ)، مدیر:پروفیسر ڈاکٹر محمداسحاق منصوری۔ ناشر:ادارہ معارف اسلامی، کراچی۔ ۳۶۸۰۹۲۰۱-۰۲۱۔ فون:۰۲۱۔صفحات:۲۹۸+۱۰۰۔ قیمت: ۴۵۰روپے۔ [زیرنظر شمارے میں عالمِ اسلام، فقہ الاقلیات، دین اور تہذیب، مناصب اور ذرائع کے استعمال کے ساتھ ساتھ پاکستان کی مالیاتی پالیسی، ذرائع ابلاغ میں رپورٹنگ کا معیار، سیرت نبویؐ اور مستشرقین کا اندازِ فکر، قتل رحم خصوصی طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ مقالہ خصوصی میں اوکسفرڈ یونی ورسٹی، آفاق اور سرکاری نصابی کتب کا تقابلی مطالعہ کیا گیا ہے۔]