انسانی تاریخ کے ہر دور میں علوم و فنون کا، مذہب اور اخلاقیات کے ساتھ گہرا تعلق رہا ہے۔عصرِحاضر کے مسائل کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ اس دور میں یہ رشتہ بے وقعت ہوکر رہ گیا ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ جدید مغربی زندگی کی پوری عمارت سیکولر طرزِ فکر کی بنیادوں پر کھڑی کی گئی ہے۔ جدیدیت کے نظریہ سازوں کے نزدیک: ’’مذہبی اور اخلاقی تصورات کا نہ صرف سائنس اور علوم و فنون سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ یہ تصورات علمی ترقی اور سماجی زندگی کی راہ میں رکاوٹ تھے‘‘۔ چنانچہ اس بات کی سنجیدہ کوشش کی گئی کہ خاص طور پر سائنسی اور ٹکنالوجیکل تحقیقات ہرطرح کے اخلاقی اثر سے آزاد ہوکر کی جائیں۔ جس کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ جدید ٹکنالوجی نے جب اپنے سفر کا آغاز کیا تو اس وقت اس کے سامنے کوئی اخلاقی نصب العین نہیں تھا۔ پھر جدید مغربی تہذیب کے سامنے ایک اہم ہدف ’فطرت سے جنگ‘، یا ’فطرت پر فتح‘ کا حصول تھا۔ وہ انسان کی کامیابی کا کمال یہ سمجھتے رہے کہ فطرت کی تمام طاقتوں پر انسان کو مکمل کنٹرول حاصل ہوجائے۔ اس کا فطری نتیجہ یہ نکلا کہ ٹکنالوجی فطرت سے ہم آہنگ نہیں رہ سکی۔ پھر دوسرا بڑا سانحہ یہ ہوا کہ اخلاقی تصورات سے آزاد ہوجانے کے بعد سائنس و ٹکنالوجی عملاً ’غیرجانب دار‘ (neutral) نہیں رہ سکی بلکہ تجارتی، سیاسی اور فوجی مفادات کے تابع ہوگئی۔
جدید ٹکنالوجی کے پیدا کردہ مسائل
اس صورتِ حال نے درج ذیل شدید نقصانات سے عالمِ انسانیت کو دوچار کر دیا:
فطرت پر ’فتح‘ کے جذبے کے سبب فطرت کو بُری طرح پامال کیا گیا۔ جس کے نتیجے میں خوف ناک ماحولیاتی بحران پیدا ہوا، اور آج صورتِ حال یہ ہے کہ ہوا، پانی سب کچھ زہرآلود ہوچکا ہے اور بنی نوع انسان کے وجود پر خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں۔
مادہ پرست تہذیب نے عیاشی اور اسراف کا جو مزاج پیدا کیا، اس کی وجہ سے قدرتی وسائل کی بے پناہ لوٹ مچی۔ دولت مند افراد اور دولت مند ممالک نے باقی دنیا کی پروا کیے بغیر، ٹکنالوجی کے ذریعے اپنے آرام اور تعیش کا سامان پیدا کیا اور انجام یہ ہے کہ آج ہوا، پانی، توانائی جیسی بنیادی ضروریات کا شدید بحران پیدا ہوگیا ہے۔
جدید ٹکنالوجی کا، جب جدید قوم پرستانہ نظریات اور توسیع پسندانہ سامراجی عزائم کے ساتھ ملاپ ہوا تو انسانی تاریخ کے بھیانک ترین ہتھیار وجود میں آئے۔ آج پوری دنیا ان ہتھیاروں کی وجہ سے چند بڑی طاقتوں کی یرغمال بنی ہوئی ہے۔ اور ایسی صورتِ حال پیدا ہوچکی ہے کہ کسی بھی وقت چند وحشی قوم پرست درندے، اپنے بھیانک ہتھیاروں کے ذریعے، پلک جھپکنے میں پوری دنیا کو تباہی سے دوچار کرسکتے ہیں۔
جن اخلاقی تصورات کے زیرسایہ، یہ جدید ٹکنالوجی پروان چڑھی،اس کا نتیجہ ہے کہ آج فحاشی و بے راہ روی کو فروغ دینے والی انٹرٹینمنٹ ٹکنالوجی جدید دنیا کی ایک اہم ترین ٹکنالوجی ہے۔ تولیدی ٹکنالوجیز، کلوننگ، جینیاتی ٹکنالوجی کی کئی قسموں نے جنسی اخلاقیات کی بنیادوں ہی کو منہدم کردیا ہے اور خاندانی نظام دنیابھر میں شدید بحران کا شکار ہوگیا ہے۔
سب سے اہم بحران وہ ہے، جسے آپ ’ترجیحات کا بحران‘ کہہ سکتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ مغربی تہذیب کی غلامی میں، اس ٹکنالوجی کی ترجیح صرف بڑی بڑی تجارتوں اور سرمایہ داروں کا مفاد ہے۔ اس ضمن میں دفاعی ٹکنالوجیز میں اندھا دھند ترقی کے لیے دنیا کے بہترین دماغ لگے ہوئے ہیں کہ یہ سب سے زیادہ نفع بخش صنعت ہے۔ گذشتہ چند برسوں میں دنیا کی بہترین صلاحیتیں انفارمیشن ٹکنالوجی میں صرف ہوئیں۔ اس لیے کہ اس سے بڑے تجارتی مفادات وابستہ ہیں، حتیٰ کہ میڈیکل اور صحت عامہ سے متعلق تحقیقات میں بھی اُن امراض کے علاج پر پوری توجہ ہے، جنھیں امیرانسانوں اور امیر ملکوں کے امراض سمجھاجاتا ہے۔ تیسری دنیا کے غریب عوام کے مسائلِ صحت پر بہت کم توجہ ہے۔
اس پس منظر نے ساری دنیا میں ’ٹکنالوجی کی اخلاقیات‘ (Techno-ethics) کا سوال پوری شدت کے ساتھ کھڑا کیا ہے۔ دو تین صدیوں کے تجربات کے بعد دنیا یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئی ہے کہ: ’’ٹکنالوجی اور سائنس و اطلاقی سائنس پر بھی کچھ اخلاقی بندشیں عائد ہونی چاہییں‘‘۔ یہ سوال کہ ’’کس ٹکنالوجی کی ایجاد ہونی چاہیے یا نہیں؟‘‘ یہ بھی اخلاقی اصولوں کی بنیاد پر ہی طے ہونا چاہیے، اور: ’’جب کوئی ٹکنالوجی ایجاد ہوجائے، تو اس کا استعمال کن مقاصد کے لیے ہونا چاہیے اور کن مقاصد کے لیے نہیں؟‘‘، اس کا مناسب جواب بھی اخلاقی ضابطوں میں موجود رہنا چاہیے۔
دیر سے سہی، لیکن اب ’ٹکنالوجی کی اخلاقیات‘ ساری دنیا میں ایک اہم ڈسپلن کے طور پر اُبھر رہا ہے۔ ٹکنالوجی سے متعلق کانفرنسوں اور علمی مباحث میں یہ مسئلہ اب اہم موضوع بنتا جارہا ہے۔ حکومتیں اس کی بنیاد پر ضابطہ بندیاں کر رہی ہیں اور تعلیم گاہوں میں ٹکنالوجی کے ہرکورس کا یہ لازمی حصہ بن رہا ہے۔
اسلام کے رہنما اصول
ٹکنالوجی کی اخلاقیات کا تعین کرتے ہوئے ، اسلام کے درج ذیل اہم تصورات کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ یہی تصورات ، ٹکنالوجی کے بارے میں اسلامی اخلاقیات کی تشکیل کے لیے بنیاد کا کام کرتے ہیں اور دنیا بھر کو رہنمائی دیتے ہیں:
نظریۂ توحید: خداے واحد پر یقین کامل، اس کی صفات کو تسلیم کرنا، اُسے کائنات کا حقیقی مالک اور حاکم ماننا، خود کو اس کا بندہ اور غلام سمجھنا، اپنے آپ کو اس کے سامنے جواب دہ سمجھنا، اسے علم و حکمت کا سرچشمہ ماننا، اور اس کے لیے حمدوثنا، شکرواحسان مندی اور محبت و اطاعت کے جذبات سے اپنے دل کو ہردم آباد رکھنا___ یہ اسلامی عقیدۂ توحید کے بنیادی اجزا اور تقاضے ہیں اور یہی اسلامی اخلاقیات بلکہ زیادہ بہتر لفظوں میں انسانی اخلاقیات کی اصل بنیاد ہیں۔
نظریۂ خلافت : اس دنیا میں انسان، اللہ کا خلیفہ (vicegerent)ہے: وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَۃِ اِنِّىْ جَاعِلٌ فِى الْاَرْضِ خَلِيْفَۃً ط (البقرہ۲:۲۹)(پھر ذرا اس وقت کا تصور کرو، جب تمھارے ربّ نے فرشتوں سے کہا تھا کہ ’’مَیں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں‘‘)۔ خلیفہ ہونے کی حیثیت سے اس کی اصل ذمہ داری یہ ہے کہ اللہ کے دین کو اس زمین میں غالب کرے اور اللہ کی مرضی کے مطابق، جاہلیت سے پاک ایک نئی تہذیب اور ایک نئے تمدن کی تعمیر کا فریضہ انجام دے۔ زندگی کے ہرشعبے کو اللہ کی بغاوت اور نافرمانی کی آلودگیوں سے پاک کرے۔ یہی وہ مقصد ہے جس کے حصول کی خاطر انسان اس دنیا میں پیدا کیا گیا ہے۔
نظریۂ تسخیر اور نظریۂ امانت : اس دنیا کی ساری چیزیں انسان کے لیے مسخر کی گئی ہیں: وَسَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا مِّنْہُ ۰ۭ (الجاثیہ ۴۵:۱۳) (اس نے زمین اور آسمانوں کی ساری ہی چیزوں کو تمھارے لیے مسخر کر دیا، سب کچھ اپنے پاس سے)۔ یہ سب اللہ کی امانت ہیں اور ان امانتوں کے سلسلے میں انسان جواب دہ ہے: ثُمَّ لَتُسْـَٔــلُنَّ يَوْمَىِٕذٍ عَنِ النَّعِيْمِ۸ۧ (التکاثر۱۰۲:۸)(پھر ضرور اُس روز تم سے اِن نعمتوں کے بارے میں جواب طلبی کی جائے گی)۔ ان میں اللہ کی مرضی کے مطابق اور اس کے دیے ہوئے حدود کے اندر ہی تصرف جائز ہے۔
توازن اور میزان : اللہ کی تخلیق کردہ کائنات میں حیرت انگیز توازن پایا جاتا ہے۔ خدا کے خلیفہ کی حیثیت سے اس توازن کو قائم رکھنا ہماری ذمہ داری ہے۔ اس میں خلل اور فساد، خدا کے غضب کا موجب ہوسکتا ہے: وَالسَّمَاۗءَ رَفَعَہَا وَوَضَعَ الْمِيْزَانَ۷ۙ اَلَّا تَطْغَوْا فِي الْمِيْزَانِ۸ (رحمن۵۵: ۷-۸)(آسمان کو اُس نے بلند کیا اور میزان قائم کردی۔اس کا تقاضا یہ ہے کہ تم میزان میں خلل نہ ڈالو)۔
انسانی تکریم : ہرانسان محترم و مکرم ہے: وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيْٓ اٰدَمَ (بنی اسرائیل ۱۷:۷۰) (ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی)۔ اس کی جان، اس کی آبرو، اس کا جسم سب کچھ محترم ہے۔ مرنے کے بعد بھی اس کا یہ حق ہے کہ اسے احترام کے ساتھ آخرت کے سفر پر رخصت کیا جائے۔
فلاحِ انسانیت : ہماری ذمہ داری ساری انسانیت کی فلاح و بہبود ہے۔ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو انسان کی فلاح اور دیگر انسانوں کے ساتھ احسان کے لیے استعمال کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ سورئہ قصص میں اللہ تعالیٰ نے قارون کے ذکر میں فرمایا ہے: وَابْتَغِ فِــيْمَآ اٰتٰىكَ اللہُ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ وَلَا تَنْسَ نَصِيْبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَاَحْسِنْ كَـمَآ اَحْسَنَ اللہُ اِلَيْكَ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْاَرْضِ ۰ۭ (القصص۲۸:۷۷)(جو مال اللہ نے تجھے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر بنانے کی فکر کر اور دنیا میں سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر، احسان کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے، اور زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش نہ کر، اللہ مفسدوں کو پسند نہیں کرتا)۔ اس آیت کا حکم ہے کہ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو آخرت کا گھر بنانے کے لیے استعمال کرنا چاہیے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ ان نعمتوں کے ذریعے انسانوں کے ساتھ احسان کیا جائے اور فساد بپا نہ کیا جائے۔
انسانی آزادی اور حقوق : ہرانسان کو اللہ نے آزاد پیدا کیا ہے، اور ہرانسان کو بنیادی انسانی حقوق حاصل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن میں اس بات کا تذکرہ فرمایا ہے کہ: وَيَضَعُ عَنْہُمْ اِصْرَہُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِيْ كَانَتْ عَلَيْہِمْ ط (اعراف ۷:۱۵۷) (اور ان پر سے وہ بوجھ اُتارتا ہے جو اُن پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے)۔ دین کے معاملے تک میں جبرکے ذریعے لوگوں کی آزادی سلب کرنا اسلام کے نزدیک جائز نہیں۔ چنانچہ کسی کے لیے یہ جائز نہیں کہ انسان کی آزادی سلب کرے۔ اس کی نجی زندگی (privacy)میں مخل ہو اور اس کی سوچ پر پہرے لگائے یا اس کا استحصال کرے۔
مخلوقات کا حق : انسان کے ساتھ ساتھ چرند پرند، نباتات کے بھی حقوق ہیں۔ اور انسان ان حقوق کے سلسلے میں بھی اللہ کے سامنے جواب دہ ہے: وَمَا مِنْ دَاۗبَّۃٍ فِي الْاَرْضِ وَلَا طٰۗىِٕرٍ يَّطِيْرُ بِجَنَاحَيْہِ اِلَّآ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ۰ۭ مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتٰبِ مِنْ شَيْءٍ ثُمَّ اِلٰى رَبِّہِمْ يُحْشَرُوْنَ۳۸ (الانعام۶:۳۸) (زمین میں چلنے والے کسی جانور اور ہوا میں پَروں سے اُڑنے والے کسی پرندے کو دیکھ لو، یہ سب تمھاری ہی طرح کی اَنواع ہیں، ہم نے ان کی تقدیر کے نوشتے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے، پھر یہ سب اپنے ربّ کی طرف سمیٹے جاتے ہیں)۔
میانہ روی : اللہ نے جو وسائل مہیا کیے ہیں، ان کے استعمال میں میانہ روی ہونی چاہیے،نہ کنجوسی جائز ہے اور نہ فضول خرچی: وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيْرًا۲۶ اِنَّ الْمُبَذِّرِيْنَ كَانُوْٓا اِخْوَانَ الشَّيٰطِيْنِ۰ۭ وَكَانَ الشَّيْطٰنُ لِرَبِّہٖ كَفُوْرًا۲۷ …… وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُوْلَۃً اِلٰى عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْہَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَـقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا۲۹ (بنی اسرائیل ۱۷: ۲۶-۲۷ ، ۲۹) (فضول خرچی نہ کرو۔ فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے… نہ تو اپنا ہاتھ گردن سے باندھ رکھو اور نہ اسے بالکل ہی کھلا چھوڑ دو کہ ملامت زدہ اور عاجز بن کر رہ جائو)۔
مقاصدِ شریعت : دین، جان، مال، عقل اور نسب و آبرو کی حفاظت ہونی چاہیے۔
ترجیحات کا شعور : انسانی ضرورتوں میں وہ ضرورتیں مقدم ہیں، جن کا تعلق جان کی حفاظت سے ہے، یعنی ضروریات۔ اس کے بعد حاجات کا نمبر آتا ہے، یعنی وہ تقاضے جن کے بغیر زندگی پُرمشقت بن جاتی ہے، اور پھر تحسینیات کا نمبر آتا ہے، یعنی وہ جن سے زندگی میں حُسن اور سلیقہ پیدا ہوتا ہے۔ تقاضوں کو اسی ترتیب کے ساتھ ملحوظ رکھا جائے گا۔
ٹکنالوجی کی اخلاقیات
ان اصولوں کے اطلاق سے ٹکنالوجی کے لیے جو رہنما اصول وضع ہوتے ہیں، انھیں درج ذیل نکات کے تحت بیان کیا جاسکتا ہے:
عام تباہی کے ایسے ہتھیار، جو ساری زمین کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں، وہ مذکورہ بالا تمام اصولوں سے متصادم ہیں۔ اسلامی اخلاقیات ایسی ٹکنالوجی کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ اہلِ اسلام کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ ایسے ہتھیاروں کے خلاف عالمی راے عامہ ہموار ہو اور ان کے اتلاف پر اور اس سے متعلق ریسرچ کی ممانعت پر ساری دنیا متفق ہوجائے۔ ہمارے اہلِ علم میں اس امر پر تو اختلاف راے ہے کہ کیا عام تباہی کے ہتھیار مکمل طور پر ممنوع قرار دیے جائیں یا اس وقت تک جائز ہوں جب تک ظالم طاقتوں کے پاس یہ ہتھیار موجود ہیں؟ لیکن اس بات پر بڑی حد تک اتفاق ہے کہ یہ کوشش کی جائے کہ پوری دنیا سے یہ جوہری، جراثیمی اور کیمیاوی ہتھیار ختم ہوجائیں۔
صنعت و حرفت کی ایسی ترقی اور ایسی ٹکنالوجیز جو ماحولیاتی توازن کو درہم برہم کرنے کا سبب بنتی ہوں، حیاتیاتی تنوع کو نقصان پہنچاتی ہوں، فطری ماحول کو آلودہ کرتی ہوں یا انسانوں اور اللہ کی دیگر مخلوق کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالتی ہوں، وہ بھی ممنوع قرار پائیں گی۔ تجارتی اور مالیاتی مفادات کی تابع داری کرنے والی مادہ پرست ٹکنالوجی نے آج چند لوگوں کے تعیش اور آرام کے لیے کروڑوں انسانوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ ایسی ٹکنالوجی پالیسی کی اسلامی اخلاقیات متحمل نہیں ہوسکتی۔ اسلامی اخلاقیات نہایت سختی کے ساتھ گرین اور ماحول دوست ٹکنالوجی کو فروغ دے گی۔
انسانوں میں ایسی ’جراثیمی و جینیاتی دخل کاری‘ (Germ Line Genetic Manipulation) اور تبدیلی جو آیندہ انسان کے فطری وجود کو مسخ کرنے کا باعث بن سکے، اسلامی لحاظ سے سخت ناپسندیدہ ہوگی۔ اب ایسے نیم انسانوں کی افزایش کے منصوبے بن رہے ہیں جو انسانی جذبات سے محروم ہوں گے اور کارخانوں میں بے تکان کام کرسکیں گے۔ انسانی اعضا کی تشکیل و فروخت کے لیے بے جان انسانی جسم پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ سب کوششیں، اللہ کی بنائی ہوئی ساخت میں تبدیلی، فطرت سے کھلواڑ اور انسانی تکریم کے اصول سے متصادم ہیں: وَلَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللہِ ۰ۭ وَمَنْ يَّتَّخِذِ الشَّيْطٰنَ وَلِيًّا مِّنْ دُوْنِ اللہِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِيْنًا۱۱۹ۭ (النساء۴:۱۱۹)(مَیں [شیطان] انھیں ضرور حکم دیتا رہوں گا اور وہ یقینا اللہ کی بنائی ہوئی خلقت کو بدلا کریں گے، اور جو کوئی اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو دوست بنا لے تو وہ واقعی صریح نقصان میں رہا)۔
علماے اسلام نے انسانی کلوننگ کو بجاطور پر ممنوع قرار دیا ہے۔ مصنوعی تولید کے وہ تمام طریقے جن میں عورت کے رحم میں اس کے شوہر کے سوا کسی اور نطفے کو استعمال کرتے ہوئے حمل ٹھیرایا جائے، یہ بھی شرعاً ناجائز ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی شریعت میں نسب کا تحفظ خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔ اس لیے یہ سب ٹکنالوجی اسلامی اخلاقیات کے لحاظ سے نامناسب قرار پائے گی۔
اسلامی اخلاقیات، ٹرانس ہیومنزم کی اس موومنٹ کی بھی روادار نہیں ہوسکتی، جس کے ذریعے یہ کوشش کی جارہی ہے کہ انسانی جسم اور ذہن کی صلاحیتوں:نینوٹکنالوجی، بایوٹکنالوجی، انفارمیشن ٹکنالوجی اور کوگنیٹو(Cognitive) سائنس یعنی NBIC کے امتزاج سے انسان کے اندر جینیاتی تبدیلیوں کے ذریعے لاکر اس کی صلاحیتوں میں غیرفطری طور پر بے پناہ اضافے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ اسے HET یا انسانی صلاحیت میں اضافے کی ٹکنالوجی (Human Enhancement Tecnology )کہا جاتا ہے۔ بعض اوقات انسانی جسم، دماغ یا اعصابی نظام کے اندر مصنوعی آلات اور اضافی مشینیں لگاکر بھی انسان کی بعض صلاحیتوں میں اضافے کی کوشش کی جارہی ہے، مثلاً یہ کہ انسان کی آنکھ اندھیرے میں بھی دیکھنے کے لائق ہوجائے، اس کا دماغ انٹرنیٹ سے جڑکر دنیا کی معلومات کا سمندر بن جائے، یا اس کے عضلات کبھی تھکنے نہ پائیں وغیرہ۔ کارکردگی میں اضافہ، یا شوق کی خاطر جسم کی فطری ساخت میں ایسی تبدیلیاں، اللہ کی ساخت میں تبدیلی اور فطرت سے کھلواڑ کی کوشش ہے۔
علما نے بجاطور پر غیرضروری جسمانی تبدیلیوں ( Body Modification) کو بھی ناجائز قرار دیا ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصنوعی بال لگانے تک سے منع کیا ہے: لَعَنَ اللہُ الْوَاصِلَۃَ وَالْمُسْتَوْصِلَۃَ [بخاری، حدیث:۵۵۹۶]’’اللہ نے بالوں میں مصنوعی بال لگانے والیوں پر اور لگوانے والیوں پر لعنت بھیجی ہے‘‘۔ تو اس شکل میں اسلام کیسے اجازت دے سکتا ہے کہ جوان نظر آنے کے لیے پلاسٹک سرجری کی جائے اور شکل و شباہت بدلی جائے۔ جنس کی تبدیلی وغیرہ کے آپریشن تو فطرت سے کھلی بغاوت ہیں۔
انسانی جان بچانے کے لیے اعضا کی منتقلی ( organ transplant) کی اسلام اجازت دیتا ہے، اس لیے کہ انسانی جان کا تحفظ شریعت کا اہم مقصد ہے۔ لیکن اعضا کی خریدو فروخت اسی بنیاد پر ممنوع قرار دی گئی ہے کہ اس سے انسانی تکریم کا اسلامی اصول مجروح ہوتا ہے۔
جدید انفارمیشن ٹکنالوجی کا ایک تاریک پہلو یہ ہے کہ اس نے عام انسانوں کی نگرانی یا نظارت (surveillance) کے نتیجے میں حکمرانوں کے ظلم و استحصال کی صلاحیت بڑھا دی ہے۔ ڈاٹا مائننگ، جی پی ایس ، وغیرہ ٹکنالوجیز کے بہت سے فائدے بھی ہیں لیکن ان ٹکنالوجیز کا آج ساری دنیا میں انسانوں کے استحصال کے لیے بڑے پیمانے پر استعمال ہو رہا ہے۔ اسلامی اخلاقیات، انسانوں کی آزادی میں ایسی مداخلت کی اجازت نہیں دے سکتی۔ ان ٹکنالوجیز کے لیے ایسے رہنما اصول ضروری ہیں، جن کے نتیجے میں ان کے غلط استعمال پر سخت بندشیں عائد ہوسکیں۔
جنسی کھلونوں اور جنسی ڈمیوں جیسی ٹکنالوجیز، اسلام کے حیا و عفت کے تصورات سے براہِ راست متصادم ہیں۔ اسلام کے نزدیک جنسی خواہش کی تکمیل کی پشت پر بھی پاکیزہ تمدنی مقاصد پوشیدہ ہیں اور اس خواہش کی ایسی تکمیل ہی جائز ہے جو ان مقاصد کے حصول کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ کھلے عام نکاح کے علاوہ جنسی تلذذ کے تمام طریقوں کا اسلام نے دُور تک جاکر سدباب کیا ہے: وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ ج(الانعام۶:۱۵۱)(بے شرمی کی باتوں کے قریب بھی نہ جائو، خواہ وہ کھلی ہوں یا چھپی)۔ اسلامی اخلاقیات مذکورہ ٹکنالوجیز کے بھی تمام دروازے سختی سے بند کرے گی۔
تفریح یا انٹرٹینمنٹ کے نام سے جو بے شمار ٹکنالوجیاں وجود میں آئی ہیں، وہ اسلام کے اخلاقی نقطۂ نظر سے بہت سی پابندیوں (regulation)کا تقاضا کرتی ہیں۔ فلم، ٹی وی اور انٹرنیٹ جیسی ٹکنالوجیز جہاں بہت سے فائدے رکھتی ہیں، وہیں یہ عصرِحاضر میں فحاشی، بے حیائی اور بے مقصدیت جیسی بُرائیوں کے فروغ کا بہت بڑا سبب اور ذریعہ ہیں۔ اسلامی اخلاقیات ان ٹکنالوجیز پر مکمل پابندی کا تقاضا تو نہیں کرے گی، لیکن ان کو ایسے اصولوں اور ضابطوں کا پابند ضرور بنانا چاہے گی، جن سے ان کے غلط استعمال کی روک تھام ہوسکے۔ اس کے لیے قانونی راستوں کے علاوہ خود ٹکنالوجی کا راستہ بھی اختیار کرنا ہوگا۔ جدید دور میں کمپیوٹر گیمز کی ٹکنالوجی بھی اسی صف میں داخل ہے۔ اس کے فائدے بہت کم ہیں اور نقصانات بہت زیادہ اور ہمہ جہت ہیں۔
ایسی ٹکنالوجیز جو انسانی آبادی کے لیے طرح طرح کے خطرات پیدا کریں، مثلاً خودکاری (Automation)کی وہ سطح کہ جس کے نتیجے میں بڑی انسانی آبادی، بے روزگار ہوجائے یا مصنوعی ذہانت (Artifical Intelligence) یا روبوٹکس (Robotics) کی ایسی انتہائی شکل، کہ جس کے نتیجے میں خود انسان، مشینوں کے آگے بے بس ہوجائے، یہ بھی بلاشبہہ بنی نوع انسان کے اجتماعی مفاد سے متصادم ہے۔ ٹکنالوجی کی اسلامی اخلاقیات، اس کی بھی اجازت نہیں دیتی۔
دفع مضرت کے فقہی اصول کے دائرے میں وہ ٹکنالوجیز بھی آتی ہیں، جو انسانی صحت کے لیے طرح طرح کے مسائل پیدا کر رہی ہیں اور بھیانک بیماریوں کا سبب بن رہی ہیں۔ زرعی ٹکنالوجی کی عالمی کمپنیاں، اپنے تجارتی مفادات کے لیے، جینیاتی تبدیلی کے ذریعے ایسے پھل، اناج اور دیگر غذائی اشیا پیدا کر رہی ہیں، جن کا انسانوں کے لیے نقصان دہ ہونا اب بہت واضح ہوچکا ہے۔ فارم ہائوسوں میں مرغیوں کی تیزرفتار افزایش کے مصنوعی طریقے، مصنوعی یا کیمیائی دودھ، تباہ کن کھاد اور جراثیم کش ادویات کا بے تحاشا استعمال وغیرہ ان سب جدید طریقوں نے لاکھوں انسانوں کی جانیں لی ہیں اور آبادی کے بڑے حصےکی صحت پر بُرا اثر ڈالا ہے۔ بعض ٹکنالوجیز انسانوں کی بڑھتی ضرورتوں کے پیش نظر غذائی اجناس کی پیداوار بڑھانے کے اچھے مقصد سے شروع ہوئیں، لیکن اب ان کے پیش نظر زیادہ تر منافع خوری کا مقصد ہی ہے۔ اسلامی اخلاقیات، ایسی بے رحم مادہ پرستی کی قطعی روادار نہیں ہوسکتی۔
درپیش چیلنج اور تقاضے
یہاں گنتی کی چند مثالیں دی گئی ہیں۔ ان مثالوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کئی معاملات میں اسلامی اخلاقیات، ٹکنالوجی کی اخلاقیات سے متعلق ان تصورات سے ہم آہنگ ہے، جو اس وقت دنیا میں رائج ہیں یا جن پر بڑی حد تک اتفاق راے پایا جاتا ہے۔ لیکن ان کے علاوہ اسلام کے اپنے اخلاقی تصورات بھی ہیں۔ بہت سی ٹکنالوجیز ایسی ہیں جن میں موجودہ غالب قوتیں کوئی اخلاقی خرابی محسوس نہیں کرتیں لیکن اسلام کے نزدیک وہ سخت معیوب ہیں۔
اہلِ اسلام کی یہ ذمے داری ہے کہ اس وقت، جب کہ ساری دنیا میں ٹکنالوجی کی اخلاقیات (ٹیکنوایتھکس) کا موضوع زیربحث ہے، وہ اس بحث میں آگے بڑھ کر حصہ لیں۔ اسلامی فکرونظر کے حامل ماہرین ٹکنالوجی کی جہاں یہ ذمے داری ہے کہ وہ اخلاقی لحاظ سے نامناسب یا نقصان دہ ٹکنالوجیز کی روک تھام کریں، وہیں اسلام کے ان اخلاقی اصولوں کا تقاضا یہ بھی ہے کہ بہتر اور مفید تر ٹکنالوجیز فروغ دی جائیں۔
یہ اہلِ اسلام کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی ٹکنالوجیز کو فروغ دیں، جو اسلام کے مقاصد کے مطابق، مثلاً ظلم و استحصال کو کم کرنے والی اور مساوات کو فروغ دینے والی ہوں۔ غریبوں کے صحت کے مسائل کو آج بھی وہ اہمیت نہیں مل سکی ہے کہ جس کے وہ مستحق ہیں۔ ایسی ٹکنالوجیز جن کے ذریعے حکومتوں کا کام زیادہ شفاف ہوجائے یا ظالم کے لیے ظلم کرنا مشکل ہوجائے، ابھی صرف ناولوں ہی میں پائی جاتی ہیں۔ وہ ٹکنالوجیز جو کم قیمت پر غریبوں کی دیہی زندگی کو آسان بنائیں اور دیہی معیشت کے لیے سہولتیں پیدا کریں یا کم قیمت پر صاف پانی، اور آسان اور ارزاں توانائی فراہم کریں، یا جو اُن حادثوں اور آفات سے حفاظت کی ضمانت دے سکیں، جو عام غریب انسانوں کی بڑے پیمانے پر ہلاکت کا سبب بنتے ہیں، یہ سب خواب ہنوز تکمیل طلب ہیں اور اہلِ اسلام کی فکرمندی اور اقدام کے منتظر ہیں۔
گذشتہ صدی کے آخری حصے میں جرمن فلسفی ارنسٹ فریڈرک شومیکر [۱۹۱۱ء-۱۹۷۷ء]نے ’موزوں طرزیات‘ (Appropriate Technologies) کی تحریک شروع کی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ: ’’اگر ٹکنالوجی کے ماہرین صرف بڑے سرمایہ دار آقائوں کی خدمت کرنے کے بجاے عام آدمی کی ضرورتوں کے بارے میں سوچیں، تو دنیا کے اربوں غریب عوام کی زندگیوں کو نہایت آسان اور سہولت بخش بنایا جاسکتا ہے، اور اُن سب مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے، جن کی وجہ سے تیسری دنیا کے غریب لوگ سخت مصیبتیں جھیل رہے ہیں‘‘۔ یہ تصورات بلاشبہہ اسلام کی پیش کردہ اخلاقیات سے ہم آہنگ ہیں۔
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے ذوالقرنین کا جو کردار پیش کیا ہے، اس کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ انھوں نے ایک پریشان حال قوم کا ایک پیچیدہ مسئلہ حل کیا تھا اور ایسی دیوار تعمیر کر دی تھی جس سے قوم، یاجوج ماجوج کے شر سے محفوظ ہوگئی۔ اس واقعے کا اہم پہلو یہ ہے کہ ذوالقرنین نے افرادی قوت اسی قوم کی استعمال کی تھی: فَاَعِیْنُونِی بِقُوَّۃِ اجْعَلْ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَھُمْ رَدْمًا [الکہف ۱۸:۹۵] ’’تم بس محنت سے میری مدد کرو، میں تمھارے اور ان کے درمیان بند بنائے دیتا ہوں‘‘۔ اس قوم نے وسائل بھی بہم پہنچانے کی پیش کش کی تھی، لیکن ذوالقرنین نے اسے قبول نہیں کیا۔ اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قوم کے پاس وسائل اور افرادی قوت موجود تھی لیکن وہ اِس فن سے واقف نہ تھی اور ذوالقرنین کے پاس آئیڈیا اور ٹکنالوجی تھی جس کا استعمال کرتے ہوئے انھوں نے اس قوم کا مسئلہ حل کر دیا۔ ٹکنالوجی کی اسلامی اخلاقیات پر بحث، صرف ممنوعات کی فہرست تک محدود نہیں ہونی چاہیے بلکہ مطلوب اور مفید ٹکنالوجیز کے فروغ اور ان کے ذریعے انسانی مسائل کے حل کا یہ ذوالقرنینی کردار، اس بحث کا اہم حصہ بننا چاہیے۔
ہرتہذیب اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اختراع و ایجاد کی ضرورت مند ہوتی ہے۔ کسی بھی تہذیب کا محل صرف مانگے کے چراغوں سے روشن نہیں ہوسکتا۔ اسلامی حدود میں فلم سازی، ٹی وی اور انٹرنیٹ کا استعمال، آج ہم کرنا چاہیں تو ضرور کریں، لیکن یہ نہ بھولیں کہ یہ سب اُس مخصوص تہذیب کی پیداوار ہیں، جو بے مقصد تفریح پر حد سے زیادہ اصرار کرتی ہے۔ جدید مغربی تہذیب کو ناچ گانے اور بے مقصد تفریحات سے جو دل چسپی ہے، اسی کے نتیجے میں آج دسیوں ٹکنالوجیز وجود میں آئی ہیں۔ شاید یہ ٹکنالوجی اسلامی تہذیب کے زیرسایہ وجود میں نہیں آتیں۔
لیکن دوسرا پہلو یہ ہے کہ ایسی بہت سی ٹکنالوجیز ہوسکتی ہیں، جو اسلامی تہذیب کی ضرورت ہوتیں اور چوںکہ مسلمان کئی صدیوں سے ٹکنالوجی میں پیچھے ہیں، اس لیے وہ وجود میں ہی نہیں آئیں۔ اسلام کے تہذیبی مقاصد اس کے اپنے تہذیبی ذرائع چاہتے ہیں، اور ان ذرائع کی کھوج، ذہانت اور اُپج اور اختراعی صلاحیتوں کا مطالبہ کرتی ہے۔ یہ کام وہی لوگ کرسکتے ہیں، جو اسلام کے بھی مزاج شناس ہوں اور ٹکنالوجی بھی جانتے ہوں۔ ایسے لوگ تقلید جامد کی فضا سے نکل کر اپنی ذہنی صلاحیتوں کو بروے کار لائیں تو ایسی سیکڑوں نئی چیزیں، نئے فنون اور نئی ٹکنالوجیز ایجاد ہوسکتی ہیں، جو اسلام کے تہذیبی مقاصد کی تکمیل بھی کریں اور اس کے مزاج سے ہم آہنگ بھی ہوں۔ بلاشبہہ یہ ٹکنالوجی کی اسلامی اخلاقیات کا اہم تقاضا ہے۔