صہیونیت، عیسائیت ، اشتراکیت اور اباحیت پسند وغیرہ، جس قدر حسن البنا [شہادت: ۱۲فروری ۱۹۴۹ء] اور اخوان المسلمون سے دشمنی رکھتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ حسن البنا اور اخوان اس علاقے میں اشتراکیت کی یلغار کو روکنے کی صلاحیت رکھتے، عیسائی اور صہیونی سامراجیت کے لیے بھی خطرہ تصور کیے جاتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ دینی تعلیمات کو محض علم کی حد تک نہیں پڑھتے بلکہ ان پر عمل کرنے کا بھی درس دیتے ہیں۔ وہ ہرفوجی اور فکری حملے کے زہریلے اثرات و نتائج سے قوم کو نجات دلانا چاہتے ہیں۔ ان کی حد درجہ کوشش ہے کہ اُمت مسلمہ کے افراد ایمان اور عمل سے سرشار ہوں، حُریت و آزادی سے مستفید ہوں اور انسانیت بحیثیت مجموعی اپنے بنیادی حقوق حاصل کرسکے۔ اخوان اس بات کو ہرگز پسند نہیں کرتے کہ مسلمان صدقات و خیرات کے سہارے اور بیرونی امداد کی آس پر زندہ رہیں، حالاں کہ مسلم ممالک میں ہرچیز اتنی وافر مقدار میں میسر ہے کہ اگر منصفانہ تقسیم کی جائے تو سب لوگوں کی ضروریات بطریق احسن پوری ہوسکتی ہیں۔ اخوان کی یہ خواہش ہے کہ ان کے اور ان کے حکمرانوں کے درمیان تعلقات باہمی محبت، عدل و انصاف اور احترام کی بنیادوں پر استوار ہوں۔
امام حسن البنا شہیدؒ نے ہمیں یہ تعلیم دی تھی کہ حکمرانوں کے رعایا پر حقوق ہیں، مثلاً ان کی بات سننا اور اگر وہ اللہ کی معصیت پر مبنی نہ ہو، تو اطاعت کرنا۔ اسی طرح اُنھوں نے ہمیں یہ بھی سکھایا تھا کہ حکمرانوں کا یہ فرض ہے کہ وہ عدل وا نصاف سے حکومت کریں اور ظلم و تشدد کی پالیسی اختیار نہ کریں۔
سیّدنا عمرؓ بن خطاب کو اپنے بھائی زید بن خطاب کا قاتل دیکھ کر دُکھ ہوتا تھا۔ قاتل جب مسلمان ہوگیا، تو اس نے حضرت عمرؓ سے پوچھا: ’’امیرالمومنین! میرے بارے میں آپ کی قلبی کیفیت اور احساسات مجھے میرے کسی حق سے محروم تو نہ کردیں گے؟‘‘
آپ نے جواب دیا: ’’ہرگز نہیں‘‘۔
اسی واقعے کی روشنی میں مُرشد عام نے ہمیں بتایا تھا کہ حکمرانوں کے جذبات، محبت و کراہت، کسی شخص کو اس کے شرعی حقوق سے کسی صورت میں بھی محروم نہیں کرسکتے۔ میری نظر سے ایک حدیث گزری ہے ،جس کی ثقاہت کی تحقیق تو میں نہیں کرسکا، مگر اس کا مفہوم یہ ہے: ’’جس شخص نے سلطانِ عادل کی تذلیل کی اس کی توبہ بھی قبول نہیں ہوتی‘‘۔
اس طرح حسن البنا ؒنہ تو دہشت پسند تھے اور نہ نام نہاد انقلابی، بلکہ وہ بنیادی طور پر داعیِ حق اور مصلح تھے۔ وہ جہاں کہیں جاتے اور جس کسی سے بھی ملتے، محبت اور امن و آشتی کی تلقین کرتے، مگر مصیبت یہ ہے کہ مسلم دنیا کے بعض ذمہ داران اس حقیقت سے آنکھیں بند کرلیتے ہیں اور اخوان المسلمون سے لڑائی اور دشمنی پر اُتر آتے ہیں۔ ان کو یہ بدظنی لاحق ہے کہ حکومت و سلطنت میں اخوان ان کے مدمقابل ہیں اور ان کا تختہ اُلٹ کر ان سے زمامِ اقتدار چھین لیںگے۔ حالاں کہ امرواقعہ یہ ہے کہ اخوان کا مطمح نظر اصلاح اور حالات کی بہتری ہے:
اَیُّھَا الْمُنْکِحُ الثُّـرَیَّـا سُھَیْلًا
حَسْبُکَ اللہُ کَیْفَ یَلْتَقِیَانِ
ھِیَ اِذَا مَا اسْتَھَلَّتْ شَامِیَۃْ
وَھُوَ اِذَا مَا اسْتَھَلَّ یَمَانِ
[اے ثریا ستارے اور سہیل ستارے کے درمیان ملاپ کرانے والے، تجھے اللہ عقل دے، یہ کیسے ممکن ہے؟ ثریا کے طلوع کو لوگ نحوست کی علامت قرار دیتے ہیں اور سہیل کا طلوع ہونابرکت کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔]
کیمپ ڈیوڈ کا سمجھوتہ [۱۷؍ستمبر ۱۹۷۸ء] اگرچہ امام البناؒ کی شہادت کے تقریباً ۳۰سال بعد عمل میں آیا، مگر امام کے تذکرے کے دوران مناسب سمجھتا ہوں کہ اس سمجھوتے کے بارے میں کچھ کہا جائے۔ اس سمجھوتے کے بارے میں اخوان کا مؤقف اور اسے رد کرنے کی پالیسی اس سیاسی تربیت کی وجہ سے ہے، جو اسلامی عقیدے کی بنیاد پر امام نے ہمیں دی کہ: اسلام دین بھی ہے اور حکومت بھی۔
ارضِ فلسطین پر ناجائز اسرائیلی ریاست کے قیام [۱۴مئی ۱۹۴۸ء]کی منازل سے جو شخص باخبر ہے، اُسے یہ بات اچھی طرح سے معلوم ہونی چاہیے کہ اس ریاست کا قیام فی الحقیقت عالمِ اسلام کی محکومی کے لیے عمل میں لایا گیا۔ جو شخص اسرائیلی ریاست کے بارے میں اس سے کچھ بھی مختلف گمان رکھتاہے، گویا وہ اس فرد کی مانند ہے، جو آگ کو اس وقت تک محسوس نہیں کرسکتا جب تک کہ یہ اس کے لباس کو جلاکر اس کے جسم تک نہ آپہنچے۔ اگر محض یہودیوں کے لیے ریاست قائم کرنا ہی مقصود ہوتاتو افریقا، ایشیا اور لاطینی امریکا میں کئی وسیع علاقے موجود تھے،جہاں اس غیرفطری ریاست کی پیدایش کے لیے مناسب ماحول میسر آسکتا تھا۔ تاہم جس سازش اور گہری منصوبہ بندی سے اس ریاست کی تخلیق کے لیے یہ خطہ چُنا گیا، اس کا ایک خاص مقصد ہے۔ چنانچہ اس علاقے میں جہاں اسلام کا وجود بہت قدیم ہے۔ اس ریاست کے ذریعے گھنائونے اور اسلام سے دشمنی پر مبنی مقاصد پورے کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ انگلستان نے اپنے سامراجی قبضے کے دوران میں یہودیوں کو مختلف ممالک سے فلسطین منتقل کرنا شروع کیا، اور ان کو مسلح کر کے یہاں مقیم بنا دیا۔ دوسری طرف سخت قوانین جاری کرکے فلسطینی آبادی کو اسلحے سے بالکل محروم کر دیا گیا، یہاں تک کہ سبزی کاٹنے کی چھری رکھنا بھی فلسطینیوں کے لیے جرم قرار پایا۔
یہودیوں نے ایک بڑی سامراجی سلطنت انگلستان کی سرپرستی میں پر پُرزے نکالنے شروع کیے اور فلسطینیوں کی دفاعی تحریک کے مقابلے میں سلطنت برطانیہ کی حمایت کا سہارالیا۔ فلسطینی تحریک آزادی بھی اخوان مجاہدین کی مدد اور تعاون سے اپنے حقوق کے لیے سرگرمِ عمل رہی۔ اے کاش! کہ ہم اس حقیقت کو سمجھ سکیں اور اے کاش! کہ مسلم اور عرب ممالک کے اربابِ حل و عقد آنکھیں کھول کر دیکھ سکیں ،کہ عیسائی، کمیونسٹ اور صہیونی طاقتوں نے ان کے قدموں کے نیچے اپنی سازشوں کے جال پھیلائے ہوئے ہیں اور مہلک گڑھے کھود رکھے ہیں۔ اے کاش! کہ وہ ان گہرے گڑھوں کو دیکھ سکیں، جو خود ان کے لیے اور ان کی اقوام کے لیے دشمنوں نے تیار کیے ہیں۔ مسلم دنیا کے حکمران طبقے اپنی سادہ لوحی بلکہ حماقت سے انھیں اپنا دوست سمجھتے ہیں، حالاں کہ وہ حقیقت میں بدترین دشمن ہیں۔
مجھے اس بات میں ذرّہ برابر شک نہیں ہے کہ عالمِ اسلام اور عرب دنیا کے تمام حکمران اُوپر بیان کردہ تلخ اور خطرناک حقائق سے باخبر ہیں، بلکہ شاید وہ ہم سے بھی زیادہ ان چیزوں کا علم رکھتے ہیں۔ لیکن ان کا عمل دیکھ کر مَیں حیرت اور تلخی میں ڈوب جاتا ہوں کہ ان حقائق سے اُنھوں نے کیوں آنکھیں بند کر رکھی ہیں؟
صہیونی طریق کار یہ ہے کہ ہم سب کو قائل کرلیںکہ: ’’اب ریاست اسرائیل تو اس خطے میں قائم ہوچکی ہے اور اس کا خاتمہ نہیں ہوسکتا‘‘۔ پھر جوں ہی ہم مسلمان اس جال میں پھنس کر اسرائیل کا وجود بطورِ حقیقت تسلیم کرلیں گے تو انجامِ کار کبھی نہ ختم ہونے والے مصائب اور دائمی تباہی ہمارا مقدر ہوگا۔
بذاتِ خود یہود سے تعلقات قائم کرنا ایک ایسا معاملہ ہے، جس میں خصوصاً مسلمانوں کے لیے کامیابی ممکن ہی نہیں، کیوںکہ انسانی طبیعت اور تجربہ اس کی نفی کرتا ہے۔ کیا کوئی شخص یہ تصور کرسکتا ہے کہ یہودی قوم کسی غیریہودی سے نارمل تعلقات قائم کرلے گی؟ اللہ کی سنت ِتخلیق کو کون تبدیل کرسکتا ہے؟ اس بنا پر یہودیوں سے تعلقات اور دوستی قائم کرنا ایک ایسی سعیِ لاحاصل ہے جس کاانجام سواے اس کے کچھ نہیں ہوسکتا کہ تمام مسلم ممالک اور اُمت مسلمہ تباہی و بربادی کا شکار ہوجائیں۔ ہم مسلمان ہیں اور جس وحدہٗ لاشریک اللہ پر ہمارا ایمان ہے، اس نے واضح الفاظ میں فرما دیا ہے:
لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا الْيَھُوْدَ (المائدہ ۵:۸۲) بے شک انسانوں میں سے اہلِ ایمان سے بدترین دشمنی رکھنے والے لوگ آپ یہودیوں ہی کو پائیں گے۔
یہ اللہ کا فیصلہ ہے، اس میں کوئی لاگ لپیٹ اور راز کی بات نہیں ہے۔ دشمنی ان کی جانب سے ہے، ہماری طرف سے نہیں، جیساکہ آیت ِ مذکورہ واضح نص ہے۔ پھر کیا ہم یہودیوں کی حقیقت اور اہلِ اسلام سے ان کی دشمنی کی بنیادوں کو اللہ سے زیادہ جانتے ہیں؟
اخوان المسلمون جن کے دل اسلام کی رحمت اور آشتی سے سرشار ہیں، کبھی یہ نہیں کہتے کہ: ’’اسرائیل کو سمندر میں غرق کر دیا جائے‘‘ اور نہ وہ یہ نعرہ ہی لگاتے ہیں کہ: ’’آخری یہودی تک کو پھانسی پر لٹکایا جائے‘‘۔ خوں ریزی اسلام کے مزاج کے منافی ہے۔ ہمارا کہنا یہ ہے کہ یہودی، ارض فلسطین پر عام شہریوں کی حیثیت سے رہ سکتے ہیں۔ رہا یہ معاملہ کہ ہم انھیں علاقے پر حکمرانی اور خوف و ہراس کے ذریعے تسلط کی اجازت دے دیں، تو یہ کبھی نہیں ہوگا۔
اقلیت دنیا بھر میں اکثریت کے ساتھ اطمینان و سکون سے زندگی گزارتی ہے، مگر یہ کیسے ممکن ہے کہ اہلِ ایمان کے بدترین اور کھلے دشمن، مسلم رعایا پر عدل و انصاف سے حکومت کریں گے؟ اور پھر اقلیت میں ہوتے ہوئے انھیں حکمرانی کا کیا حق حاصل ہے؟ ان سے انصاف کی توقع رکھنا غیرممکن ہے:
وَمُکَلِّفُ الْاَیَّامِ ضِدَّ طِبَاعِھَا
مُتَطَلِّبٌ فِی الْمَاءِ جَذْوَۃَ نَـارٍ
[جو شخص قوانین طبعی کو ان کے نظام کے خلاف چلانا چاہتا ہے، وہ گویا پانی کے اندر آگ کا انگارا دیکھنے کا خواہش مند ہے۔]
پس، لازم ہے کہ خطے کے عوام اور حکمران مل کر اس زہریلے تیندوے سے نجات حاصل کریں۔ یہ تیندوا آہستہ آہستہ ان کا خون چُوس رہا ہے اور ایک دن انھیں بالکل مُردہ بناڈالے گا۔ اس سرطان سے خلاصی پانا انتہائی ضروری ہے کہ جس نے پورے ماحول کو خوف زدہ کررکھا ہے۔ غیرت مند آزاد انسان عزت کی زندگی جیتا ہے اور یا پھر عزت کی موت مرجاتا ہے۔ ایک انسان جو عزت کی موت مرتا ہے، اسے آنے والی نسلیں عزت و احترام کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھتی ہیں۔ اس میں اور ذلّت و رُسوائی کے ساتھ زندہ رہنے والے انسان میں بنیادی فرق یہ ہے کہ ایک نے رُسوائی کو ٹھکرا دیا اور دوسرا اس ذلت پر راضی ہوگیا۔ کیا امن کا قیام یوں عمل میں آتا ہے کہ غاصب نے جو مال زبردستی چھین لیا ہے،وہ اسی کے تصرف اور ملکیت میں رہے اور مظلوم اس کے ساتھ صلح کرلے؟ آخر، یہ امن کا کون سا نمونہ ہے؟ ایسی صلح سے تو مہلک خطرات کا سامنا کرنا زیادہ بہتر اور آسان ہے۔ ہمارے حالات جیسے بھی ہوں، ہمیں ایسا ظلم پر مبنی امن اور ایسی صلح منظور نہیں۔
ہمارے نوجوانوں میں یہ صلاحیت ہے کہ اگر ان کی تربیت کی جائے، تو وہ مردانگی کا مظاہرہ کرسکتے ہیں اور زندۂ جاوید کارنامے سرانجام دے سکتے ہیں۔ تاہم، نشرواشاعت کا موجودہ نظام اور شاید بوجہ صہیونی تسلط کے، ایسی نسل ہرگز پیدا نہیں کرسکتا، جو اپنے عقیدے پر غیرت کا مظاہرہ کرنے والی ہو اور اپنے ملک اور اس کی حُریت پر فخر کرسکے یا اپنے کھوئے ہوئے حقوق کی واپسی کے بارے میں سوچ سکے۔ یہ کتنے دُکھ کی بات ہے کہ اپنی ذاتی عزت و حمیت کی بناپر جب کبھی مسلم نوجوانوں نے اسرائیل کے خلاف اپنے آپ کو تیار کیا ہے، تو پورے شرق اوسط میں ہرجگہ ایسے نوجوانوں کو اپنے ہی حکمرانوں کے ہاتھوں بدترین آزمایش اور جیل کی پُراذیت زندگی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ معاملہ صرف شرق اوسط تک ہی محدود نہیں بلکہ انڈونیشیا اور دُور دراز ممالک میں بھی یہی صورتِ حال دیکھنے میں آتی ہے۔
نام نہاد اسرائیل سے تعلقات کی استواری ایک بڑا مہنگا سودا ہے۔ اس سے یہ صلح نامے کی منظور شدہ شرائط ، دراصل اسرائیل ہی کو نہایت اطمینان اور آرام سے اپنے مکروہ عزائم پورے کرنے میں ممدومعاون ثابت ہوں گی۔
آج دُنیا بھر میں جو دعوتِ دین کے حوالے سے اسلامی کانفرنسیں منعقد ہورہی ہیں، یہ اتحاد اسلامی کے لیے امام حسن البنا شہیدؒ کی کوششوں کے ثمرات میں سے ہیں۔ اگرچہ ان کے انعقاد میں ابھی کئی کمیاں موجود ہیں، مگر ان کے نتائج ایک دن ضرور نکلیں گے۔ ان میں خیرکا پہلو یہ ہے کہ دعوتِ اسلامی کے کارکن آپس میں وقتاً فوقتاً مل بیٹھتے، اور ایک دوسرے سے متعارف ہوتے ہیں، اور ایک دوسرے کے لیے تقویت کا باعث بنتے ہیں۔ یہ بڑا ہی نیک شگون ہے کہ بارش شروع تو ایک قطرے ہی سے ہوتی ہے، مگر پھر موسلادھار بارانِ رحمت کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ جب بندہ، اللہ کی راہ میں جدوجہد شروع کر دے، تو اللہ اس بندے کی مدد ضرور کرتاہے۔ یہاں تک کہ جب بندہ اپنے تمام مادی وسائل اور کوششیں صرف کردیتا ہے، اور اللہ اس کا خلوص اور صدق دیکھ لیتا ہے، تو وہ اپنی مدد بھیج دیتا ہے۔ کون ہے جو مضطرب کی پکار سنتا ہے اور دُکھ دُور کرتا ہے اور تمھیں زمین کی خلافت عطا کرتا ہے؟ کوئی نہیں سواے قادرمطلق اور حاکمِ حقیقی کے۔ ہم اس کے وعدے کی صداقت پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اپنے فیصلے اس عجلت کے ساتھ صادر نہیں کرتا، جس عجلت کی بندہ خواہش رکھتا ہے۔
عصرحاضر میں مصر کی تاریخ کا ہر طالب علم اس دردناک حقیقت سے واقف ہے کہ ۱۹۴۸ء میں اخوان المسلمون کے جن قائدین نے فلسطین کے محاذ پر اسرائیلیوں کے دانت کھٹے کیے، وہ سب اپنی حکومتوں کی نظروں میں گردن زدنی قرار پائے۔ امام حسن البنا کو ابراہیم عبدالہادی کی حکومت نے شہید کردیا، جسٹس عبدالقادر عودہ، شیخ محمد فرغلی، ابراہیم الطیب، یوسف طلعت کو جمال عبدالناصر کی حکومت نے تختۂ دار پر لٹکا دیا۔ کیا یہ کوئی اتفاقی حادثہ تھا؟ حالات و واقعات جاننے والے خوب باخبر ہیں کہ یہ سوچی سمجھی سازشیں تھیں، نہ کہ کوئی اتفاقی حادثہ تھا۔
جون ۱۹۶۷ء کی جنگ جمال عبدالناصر نے شروع کی، جو پوری اُمت مسلمہ کی پیشانی پر کلنک کا ٹیکہ بن گئی۔ اس جنگ کے بارے میں بہت سارے اُمور توجہ طلب ہیں۔ مستقبل کا مؤرخ جنگ کی بہت سی کڑیوں کا جائزہ لے کر فیصلہ کرے گا کہ اس جنگ میں کس نے کیا کردار ادا کیا؟ بہت سی باتیں کہی جاتی ہیں لیکن میں قطعی دلیل کے بغیر کوئی بیان دینے کا عادی نہیں ہوں۔ تاہم، ایک بات تو ثابت ہوچکی ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو جو اسلحہ دیا گیا تھا، وہ ناکارہ اور ناقابلِ استعمال تھا۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ ہمارے نوجوانوں کو جان بوجھ کر موت کے منہ میں جھونک دیا گیا تھا۔ تاریخی طور پر بھی یہ ثابت ہوگیاہے کہ اس جنگ سے قبل ناصر اور بعض یہودی ذمہ داران کے درمیان شرم الشیخ اور دیگر مقامات پر خفیہ ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ وہ لوگ جو کبریٰ اور صغریٰ کا استنباط کرکے نتائج نکالنے میں ماہر ہیں، ان واقعات کا تجزیہ کیوں نہیں کرتے؟ کیا مندرجہ بالا واقعات اور اخوان المسلمون کے رہنمائوں کے قتل میں کوئی ربط نہیں ڈھونڈا جاسکتا؟اخوان کے وہ رہنما جنھوں نے یہودیوں کے چھکے چھڑا دیے تھے کس کے اشارے پر ان حکمرانوں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اُتار دیے گئے؟
میں اس بات کو کبھی نہیں بھول سکتا کہ نقراشی پاشا نے اخوان کے رہنمائوں کو عین معرکۂ کارزار کے اندر گرفتار کرایا۔ فلسطین کے محاذ سے ان مجاہدین کو سیدھا مصر کے جیل خانوں میں بھیج دیا گیا۔ تواریخ کا تجزیہ کرنے والے اس واقعے کی کیا توجیہہ پیش کریں گے؟ میں اگر اخوان المسلمون میں سے نہ ہوتا تو اس موضوع پر بہت کچھ کہتا۔ اب میں کچھ کہوں گا تو ممکن ہے اسے جانب داری کا طعنہ دیا جائے۔ میں ایسے حقائق بیان کرسکتا ہوں جو عمالقہ کے بڑے بڑے مضبوط قلعوں کو زمین بوس کر دیں اور سچ یہ ہے کہ ان عمالقہ کا مصنوعی قدکاٹھ سب کو معلوم ہے۔ ہم اللہ پر بھروسا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے لیے کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے۔
برطانوی آلۂ کار شاہ فاروق کے خلاف ۱۹۵۲ء کا انقلاب بدقسمتی سے کرنل جمال ناصر۱ کے ہاتھوں اس راستے سے بالکل منحرف ہوگیا، جو قوم کی نجات کا ضامن ہوسکتا تھا۔ تاریخ کا کام حقائق کو بے کم و کاست پیش کرنا ہے، مگر تاریخ کبھی کبھار اپنے اس فرضِ منصبی سے عاجز ہے۔ اخبارات میں اب آئے دن مضامین چھپ رہے ہیں کہ ان حکمرانوں کے ہاتھوں قارون کے خزانوں کے تذکرے تازہ ہوگئے ؟ لُوٹ مار کی دوڑ میں کروڑوں پاؤنڈ کی دولت اور جایدادوں کے تذکرے پڑھ پڑھ کر گھن آنے لگتی ہے، کہاں سے یہ دولت نازل ہوئی؟ پھر یہ دولت کیسے مصر سے باہر منتقل ہوگئی؟ یورپ میں بڑے بڑے محلات اور اخبارات و رسائل ان لوگوں نے کیسے خرید لیے؟ یہ لوگ اسلحے کے عالمی تاجر کیسے بن گئے؟ کہاں چلی گئی ان کی شرم و حیا؟
۱- ’’مصر میں ۱۹۵۲ءکا فوجی انقلاب امریکا کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے اکسانے اور اس کے عملی تعاون سے برپا ہوا تھا۔مصری بادشاہت کو ختم کرکے فوج کو مصر کا نظم و نسق سنبھالنے کے لیے جمال عبدالناصر(فوج میں لیفٹیننٹ کرنل) اور ان کے ساتھی فوجی افسروں کو سی آئی اے کی آشیرباداور پوری مدد حاصل تھی۔ فوجی انقلاب کے ترجمان ریڈیواسٹیشن ’وائس آف عرب‘ ' کا قیام بھی سی آئی اے ہی کی مدد سے ممکن ہوا تھا‘‘۔ سی آئی اے اور کرنل جمال ناصر کے ساتھیوں کی ملی بھگت کا انکشاف برطانوی مصنف جیمز بار (James Barr) کی تازہ ترین کتاب Lords of the Desert میں کیا گیا ہے۔اگرچہ اس فوجی انقلاب کے سربراہ جنرل نجیب تھے، لیکن ملٹری کی طرف سے نظم و نسق سنبھالنے کی ساری پلاننگ لیفٹیننٹ کرنل جمال عبدالناصر اور ان کے ساتھی فوجی افسروں نے کی تھی جو سی آئی اے کے ساتھ رابطے میں تھے۔ مصنف کے مطابق: ’’مصر میں اس فوجی انقلاب کی وجہ امریکا اور برطانیہ کے درمیان مشرق وسطیٰ میں اپنا اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کش مکش تھی۔ برطانیہ مصری بادشاہ ، فاروق کی حمایت کررہا تھا، جسے امریکی ناپسند کرتے تھے۔ –مصری فوج کے اندر ۱۹۴۸ء میں اسرائیل کے ہاتھوں غیر متوقع شکست کی وجہ سے بہت بے چینی تھی۔ کرنل جمال عبدالناصر اور ان کے ساتھی فوجی افسروں نے اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سی آئی اے کی مدد سے بادشاہت کو ختم کرکے جنرل نجیب کی سر براہی میں فوجی حکومت قائم کردی‘‘۔
برطانوی مصنف نے برطانوی فارن آفس کی دستاویزات اور دیگر تاریخی ریکارڈ کی مدد سے اپنی کتاب میں مشرق وسطیٰ کے بارے میں برطانیہ اور امریکا کے درمیان مسابقت اور تعاون پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے ۔ جیمز بار نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ: ’’انقلاب سے دو دن قبل کرنل ناصر نے برطانیہ اور امریکا کو فوج کی طرف سے ٹیک اور کرنے کے پلان کے بارے میں اعتماد میں لیا تھا ۔اگرچہ انقلاب کی تمام تر منصوبہ بندی لیفٹیننٹ کرنل جمال عبدالناصر نے کی تھی، لیکن فوج میں جونیئر رینک آفیسر ہونےکے باعث انھیں مجبوراً جنرل نجیب کو انقلاب کا سربراہ بنانا پڑا۔ تاہم، کچھ ہی عرصے بعد ناصر نے جنرل نجیب کو ہٹا کر خود سارا اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا اور ۱۹۵۶ء میں باقاعدہ مصر کے صدر کا عہدہ سنبھال لیا۔
’’ اسی سال[۱۹۵۶ء ] جب جمال عبدالناصر نے نہر سوئز کو قومی ملکیت میں لینے کا اعلان کیا تو برطانیہ اور فرانس نے اسرائیل کے ساتھ مل کر نہر پر قبضہ کرنے کےلیے مصر کے خلاف جنگ شروع کردی۔ اس وقت کے امریکی صدر آئزن ہاورنے فرانس، برطانیہ اور اسرائیل کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا ۔ اس پسپائی پربرطانیہ کو فوجی، سیاسی اور سفارتی محاذ پر انتہائی خفت کا سامنا کرنا پڑا اور اس واقعے کے بعد مشرقی وسطیٰ میں اس کا اثرورسوخ کم ہوتا چلا گیا اور پورا خطہ امریکی حلقۂ اثر میں آ گیا ۔امریکا کے پیش نظر مشرق وسطیٰ پر اپنا تسلط قائم کرنے کی بنیادی وجہ اس علاقے میں اسرائیل کی حفاظت اور مشرق وسطیٰ کے تیل کے ذخائر تک رسائی اور اجارہ داری تھی۔
’’امریکی مدد سے اسرائیل کو فوجی لحاظ سے تمام عربوں کے مقابلے میں اتنا طاقت ور بنا دیا گیاکہ ۱۹۶۷ء کی جنگ میں مصر ، شام اور اردن تین ممالک کی مشترکہ افواج کو چھے روز کے اندراسرائیلی فوج نےشکست دے کر بیت المقدس ،غزہ ، باقی ماندہ فلسطین ، اردن کے مغربی کنارے ،گولان کی پہاڑیوں اورمصر کے جزیرہ نما سینائی پر قبضہ کرلیا ۔ نصف صدی سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی اسرائیل کا ان علاقوں پر[سواے مصر کے جزیرہ نما سینائی]قبضہ برقرار ہے۔
’’ فوج کے ذریعے حکومتوں کو گرانے اور تبدیل کرنے کی سی آئی اے کی یہ سرگرمیاں صرف مصر تک محدود نہیں رہیں۔ مصر میں فوج کے ذریعے حکومت کا تختہ الٹنے کا جو سلسلہ۱۹۵۲ء میں شروع ہوا تھا، وہ ۱۹۵۳ء میں ایران میں محمد مصدق کی حکومت کو ختم کر کےآگے بڑھایا گیا، اور اس کے دس سال بعد عراقی بادشاہت کو بعث پارٹی کے ذریعے فوجی انقلاب برپا کرکے ختم کردیا گیا،جس کے نتیجے میں آخرکار صدام حسین اقتدار میں آئے۔ ۲۰۰۳ء میں صدام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا اور برطانیہ نے عراق پر براہِ راست حملہ کرکے قبضہ کرلیا۔ اس طرح حکومتوں کو گرانے اور تختہ اُلٹنے کا جو سلسلہ ۱۹۵۲ء میں مصر سے شروع ہوا تھا، وہ آج بھی مسلم ممالک میں کسی نہ کسی صورت میں جاری ہے۔ سب سے زیادہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ جن طالع آزمائوں نے اقتدار میں آنے کے لیے سی آئی اے کے پلان پر عمل کیا، اسی سی آئی اے نے ان کو شکست سے دو چار اور ان کے ممالک کو تباہ کرکے انھیں اقتدار سے الگ کیا۔ جمال عبدالناصر، معمر قذافی اور صدام حسین اس کی عبرت ناک مثال ہیں‘‘۔[مرسلہ: جاوید اقبال خواجہ مرحوم]