یہ حقیقی خوشی کا مقام ہے، ایسی خوشی جس کے سرور سے سینہ کھل جاتا ہے، اور نفس راحت پاتا ہے۔ یہ ایسی طویل اور وسیع و عریض دنیا و آخرت میں باقی رہنے والی فرحت ہے، جو ہمیشہ مومنوں کے ساتھ رہتی ہے، اور وہ کیوں اس کو محسوس نہ کریں، جب کہ انھوں نے اپنے دلوں کو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی اطاعت سے روشن کر لیا ہے، اور اپنے نفوس کو اس کی ہدایت کے فیض سے زینت دے دی ہے،اور اس کے احسان نے انھیں خوب صورت بنا دیا ہے۔
ایک بندئہ مومن خوش ہوتا ہے مگر، یہ قارون جیسی خوشی نہیں ہوتی کہ جسے خوش ہونے سے منع کرتے ہوئے کہا گیا تھا:
لَا تَفْرَحْ اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِيْنَ۷۶ (القصص۲۸: ۷۶) پھول نہ جا، اللہ پھولنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
اور نہ یہ اہلِ دنیا کی سی خوشی ہے، جو دنیا کی زینت پا کر خوش ہو جاتے ہیں:
وَفَرِحُوْا بِالْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۰ۭ وَمَا الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَا فِي الْاٰخِرَۃِ اِلَّا مَتَاعٌ۲۶ۧ (الرعد۱۳:۲۶) یہ لوگ دنیوی زندگی میں مگن ہیں، حالانکہ دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلے میں ایک متاعِ قلیل کے سِوا کچھ بھی نہیں۔
اور نہ یہ منافقین کی خوشی کی مانند ہے، جو بیٹھے رہ گئے اور اللہ اور اس کے رسولؐ سے بھاگ کر مسلمانوں کے لشکر سے پیچھے رہے، تو اللہ نے قیامت تک ان کے لیے مذمت لکھ دی اور فرمایا:
فَرِحَ الْمُخَلَّفُوْنَ بِمَقْعَدِہِمْ خِلٰفَ رَسُوْلِ اللہِ (التوبۃ۹:۸۱) جن لوگوں کو پیچھے رہ جانے کی اجازت دے دی گئی تھی وہ اللہ کے رسولؐ کا ساتھ نہ دینے اور گھر بیٹھے رہنے پر خوش ہوئے۔
اور نہ یہ اہلِ باطل کی باطل روی پر خوشی ہے جو تھوڑی دیر کو بلند ہوتے ہیں اور پھر بکھر کر زائل ہوجاتے ہیں:
ذٰلِكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَفْرَحُوْنَ فِي الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَبِمَا كُنْتُمْ تَمْـرَحُوْنَ۷۵ (المومن۴۰: ۷۵) یہ تمھارا انجام اس لیے ہوا ہے کہ تم زمین میں غیرِ حق پر مگن تھے، اور پھر اُس پر اِتراتے تھے۔
اور نہ یہ فرح (خوشی) اللہ کی نعمتوں کو پا کر پھول جانے والوں کی ہے، جو اس پر فخر کرتے ہیں،اور اللہ کے بندوں پر اپنی بڑائی قائم کرتے ہیں،اس کے شکر اور اپنے نفس کے تزکیے سے غافل ہوتے ہیں:
وَلَىِٕنْ اَذَقْنٰہُ نَعْمَاۗءَ بَعْدَ ضَرَّاۗءَ مَسَّـتْہُ لَيَقُوْلَنَّ ذَہَبَ السَّـيِّاٰتُ عَنِّيْ۰ۭ اِنَّہٗ لَفَرِحٌ فَخُــوْرٌ۱۰(ھود۱۱: ۱۰) اور اگر اس مصیبت کے بعد جو اس پر آئی تھی، ہم اسے نعمت کا مزا چکھاتے ہیں تو کہتا ہے میرے تو سارے دلدّر پار ہو گئے، پھر وہ پھولا نہیں سماتا اور اکڑنے لگتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ مومنوں کی فرحت کو کیا چیز ممتاز کرتی ہے، یہاں تک کہ اس فعل پر ان کی تعریف کی جاتی ہے اور وہ اس پر اجر پاتے ہیں؟
یہی وہ حقیقی فرحت ہے جس پر اللہ تعالیٰ بھی اپنے بندوں سے خوش ہوتا ہے، اور انھیں ثواب عطا کرتا ہے اور انھیں اس کی دعوت بھی دیتا ہے:
قُلْ بِفَضْلِ اللہِ وَبِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوْا۰ۭ ھُوَخَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُوْنَ۵۸ (یونس۱۰: ۵۸) اے نبیؐ، کہو کہ ’’یہ اللہ کا فضل اور اس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز اس نے بھیجی، اس پر تو لوگوں کو خوشی منانی چاہیے، یہ ان سب چیزوں سے بہتر ہے جنھیں لوگ سمیٹ رہے ہیں‘‘۔
ابن عباسؓ نے فرمایا: قرآن اللہ تعالیٰ کا فضل ہے، اور اس کی رحمت اسلام ہے۔ اور ان سے مروی ہے: قرآن اللہ کا فضل ہے، اور اس کی رحمت ہے کہ اس نے تمھیں اس کے حاملین میں بنایا(القرطبی)۔ پس، اللہ کی اس عظیم نعمت پر اس کی حمد ہے، اس نے اسلام کی ہدایت دی، اور قرآن سے رہنمائی عطا فرمائی،اور یہی بات اس کی حق دار ہے کہ مومن اس پر خوشیاں منائیں۔ اور قرآن کریم کی ایک آیت سیکھنا بھی مومنوں کو سرخ اونٹ پانے سے بڑھ کر خوشی عطا فرماتا ہے (سرخ اونٹ ملنا عربی ضرب المثل کے مطابق انتہائی قیمتی نعمت کا ملنا ہے)،یا جیسے انھیں سونے چاندی کے ڈھیر مل جائیں۔
ابنِ عاشور کہتے ہیں: اس سے اُخروی و دنیوی فضل مراد ہے۔ اُخروی فضل تو ظاہر ہے، اور دنیوی فضل سے مراد کمال نفس، درست اعتقاد، اور دل کا کمال پانے کی کوشش کرنا، اور نیک اعمال کی جانب متوجہ ہونا ہے۔ یہ دنیا میں بھی راحت اور مسرور زندگی کا ذریعہ بنتاہے۔
اطاعت کی خوشی مسلمان کی زندگی پر اچھے اثرات مرتب کرتی ہے، خواہ وہ عمر کے کسی بھی حصّے میں ہو۔یہ ہر روز دل کوتروتازہ رکھتی ہے،بلکہ ہر گھنٹے اور ہر منٹ، اور یہ بھی مبالغہ نہ ہو گا کہ اللہ کے ذکر کی فرحت ایسی ہے کہ بندے کو ہر سانس خوش رکھتی ہے۔ اور اس فرحت کا کیا کہنا جو خیر کے موسم میں فرحتوں سے ملاقات کرے، اور خیر پر خیر جمع ہو جائے، اطاعت پر اطاعت اور فضل پر فضل! جیسا کہ رمضان کے مبارک مہینے میں ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
روزہ دار کے لیے دو فرحتیں ہیں، جو اسے خوش رکھتی ہیں: ایک افطار کی خوشی، جب وہ افطار کرے، اور دوسری رب سے ملاقات کے وقت خوشی!
مسلمان کو اسلام کا ہر رکن ادا کرتے ہوئے فرحت کا احساس ہوتا ہے۔ اسلام میں داخل ہونے کا دروازہ کلمۂ شہادت کی ادایگی ہے۔ اس سے زیادہ خوشی اور کس بات کی ہو گی کہ انسان عبودیت اور نجات کے دروازے میں داخل ہو گیا ہے، تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے مومن و مسلم بندوں میں شامل ہو جائے۔ وہ اللہ ،الملک، الحق، القوی کی بندگی کا شرف پاتا ہے۔ وہ بندے کو ذلت سے ہٹاکر بندگی کی عزت عطا کرتا ہے، اور کمزوری کے بعد اسے طاقت عطا فرماتا ہے۔ وہ اسے انسیت اور رضا کے دامن میں پناہ دیتا ہے، اور اس دروازے سے اس کے لیے خیر کے کئی دروازے کھول دیتا ہے، جس کی خوشی میں روح تک جھوم اٹھتی ہے۔
جیسا کہ ابن القیم فرماتے ہیں: ’’دل میں ایک غبار ہوتا ہے، جو اللہ کے دل میں آنے ہی سے دھلتا ہے، اور دل میں ایک وحشت ہوتی ہے، اور وہ تنہائی میں اللہ سے انسیت ہی سے ختم ہوتی ہے۔ اس میں غم بھی ہوتا ہے جو اس کی معرفت کے سرو ر اور صدقِ معاملہ ہی سے زائل ہوتا ہے۔ اس میں قلق بھی ہوتا ہے جو اس کے ملنے سے باقی نہیں رہتا اور بھاگ جاتا ہے۔ اس (دل)میں حسرتوں کے الاؤ بھی ہوتے ہیں، جنھیں اس کے احکام پر عمل کرنے اور اس کے نواہی سے باز رہنے سے بجھایا جا سکتا ہے۔ اس سے ملاقات کے وقت صبر کے احساس کو گلے لگانے سے، اور اس میں شدید طلب کا احساس بھی پایا جاتا ہے۔ اسے اسی صورت روکا جا سکتا ہے کہ وہ اور صرف وہی اس کا مقصود بن جائے۔ اس میں فاقہ بھی ہے، جسے اس کی محبت میں برداشت کیا جا سکتا ہے۔ اس کی جانب انابت اور رجوع اور ہمیشہ اس کا ذکر کرتے رہنا،اور اس سے اخلاص کی سچائی،اسے دنیا بھر کی دولت بھی دی جائے تو وہ اس فاقے کو اس پر ترجیح دے! (مدارج السالکین)
اسی طرح فرحتوں کا سلسلہ تسبیح کے دانوں کی طرح بقیہ ارکانِ اسلام میں بھی نظر آتا ہے۔ کلمۂ شہادت کے ساتھ روزانہ پانچ وقت کی نماز خوشیوں اور سرور کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ جب مسلمان اپنے رب سے سرگوشیاں کرتا ہے، اور نمازمیں اس کے سامنے خشوع سے کھڑا ہوجاتا ہے، پس اس کی روح پُر سکون ہو جاتی ہے، اس کا نفس ڈھیلا پڑ جاتا ہے، اور رب کی معیت کی نعمت پر سرشار ہوتا ہے۔ اور اس کے دل کی فرحتوں کا کیا کہنا ، جب ہر نماز اس کے گناہ اس سے دُور کر تی ہے اور انھیں جھاڑ دیتی ہے، جیسا کہ ہمارے ربّ نے اس کی تاکید فرمائی ہے:
وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَيِ النَّہَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّيْلِ۰ۭ اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْہِبْنَ السَّـيِّاٰتِ۰ۭ ذٰلِكَ ذِكْرٰي لِلذّٰكِرِيْنَ۱۱۴ (ھود۱۱:۱۱۴)اور نماز قائم کرو، دن کے دونوں سروں پر اور کچھ رات گزرنے پر۔ درحقیقت نیکیاں برائیوں کو دُور کر دیتی ہیں، یہ ایک یاد دہانی ہے ان لوگوں کے لیے جو خدا کو یاد رکھنے والے ہیں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خوشخبری دی ہے:’’جب کوئی مسلمان فرض نماز کے لیے حاضر ہوتا ہے، اور اس کے لیے اچھی طرح وضو کرتا ہے، اور خشوع اختیار کرتا ہے اور اس کے آگے جھک جاتا ہے، تو وہ نماز اس کے پچھلے گناہوں کا کفّارہ بن جاتی ہے،جب تک وہ کسی کبیرہ گناہ کا مرتکب نہ ہو، اور یہ تمام زمانے کے لیے ہے‘‘(مسلم )۔ اور نماز بذات ِ خود بلند ہو کر اسے پاکیزہ کرتی ہے:
اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْہٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ ۰ۭ (العنکبوت۲۹:۴۵) یقیناً نماز فحش اور برے کاموں سے روکتی ہے۔
اور یہ نماز اس کی پریشانیوں کے ازالے اور غموں کے چھٹ جانے کا ذریعہ بنتی ہے:
وَاسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ۰ۭ وَاِنَّہَا لَكَبِيْرَۃٌ اِلَّا عَلَي الْخٰشِعِيْنَ۴۵ۙ الَّذِيْنَ يَظُنُّوْنَ اَنَّھُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّہِمْ وَاَنَّھُمْ اِلَيْہِ رٰجِعُوْنَ۴۶ (البقرۃ۲:۴۵-۴۶) صبر اور نماز سے مدد لو، بے شک نماز ایک سخت مشکل کام ہے، مگر ان فرماں بردار بندوں کے لیے مشکل نہیں ہے جو سمجھتے ہیں کہ آخر کار انھیں اپنے رب سے ملنا اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔
پھر یہ قیامت کے روز اس کے لیے نجات کا قلعہ بنے گی: ’’جس نے اس کی محافظت کی وہ اس کے لیے نُور اور بُرھان بنے گی اور اور قیامت کے دن نجات کا ذریعہ بنے گی‘‘۔ (احمد)
رہا مال میں سے زکوٰۃ کا اخراج تو وہ بھی فرحت سے خالی نہیں ہے، کیوںکہ اس میں نفس کی زکوٰۃ اور اس کی طہارت ہوتی ہے:
خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَـۃً تُطَہِّرُھُمْ وَتُزَكِّيْہِمْ بِہَا (التوبۃ۹: ۱۰۳) اے نبیؐ، تم ان کے اموال میں سے صدقہ لے کر انھیں پاک کرو اور (نیکی کی راہ میں) انھیں بڑھاؤ۔
مومن زکوٰۃ کی ادایگی کرتے ہوئے رب کی اطاعت پر فرحت محسوس کرتا ہے۔ وہ اللہ کی نعمت کے حاصل ہونے پر خوشی محسوس کرتا ہے، کہ اس نے اسے اتنا مال دیا کہ صاحبِ نصاب بنادیا، اور اسے غریب اور مفلوک الحال بھائیوں کو مال ادا کرنے کا ذریعہ بنایا، اور اس کے ذریعے ان کی حاجت کو پورا کروایا۔وہ جب صدقہ دیتا ہے اور مسکین کو کھانا کھلاتا ہے، بوسیدہ لباس والے کو پوشاک پہناتا ہے، بے گھر کو ٹھکانا دیتا ہے تو اسے خوشی کا احساس ہوتا ہے۔ وہ یتیم کی کفالت کرتا ہے، اور فقیر کو مال عطا کرتا ہے، بے روزگار کے لیے روز گار کا اہتمام کرتا ہے، تو اپنے بھائی کی مدد کرتے ہوئے اور اس کی تکلیف کو دُور کرتے ہوئے اسے عجیب فرحت کا احساس گھیر لیتا ہے، رہا آخرت کا اجر تو وہ اسے اور بھی راحت پہنچائے گا، اور شدید فرحت کا احساس دلائے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’صدقہ، ربّ کے غصّے کو بجھاتا ہے، اور بُری موت سے بچاتا ہے‘‘ (صحیح ابنِ حبان)۔مزید فرمایا: ’’صدقہ اپنے دینے والے کی قبر کو گرمی سے بچاتا ہے، اور قیامت کے روز مومن اپنے صدقہ کے سایے میں ہو گا‘‘۔(السلسلۃ الصحیحۃ)
ہر سال رمضان المبارک کا مہینہ آتے ہی دل فرحتوں سے بھر جاتے ہیں، اور ہر جانب اس کی خوشبو پھیل جاتی ہے، پس مومن اللہ کے فضل اور روزے میں اس کی مدد پر خوشی اور مسرت محسوس کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس پر اپنی عطا کی تکمیل کر دیتا ہے۔ وہ قرآن کے نزول کے مہینے اور روزے کے خوب بڑھے ہوئے اجر پر خوش ہو جاتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’ابنِ آدم کی ہر نیکی کے عمل کو دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک بڑھایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، روزے کے علاوہ، کہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔ بندے نے میری خاطر شہوت اور کھانا پینا چھوڑ دیا‘‘۔ (متفق علیہ)
جب وہ روزہ رکھتا ہے تو اللہ کی مغفرت پر فرحت محسوس کرتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے، اس کے گذشتہ گناہ معاف کر دیے گئے‘‘ (بخاری )۔ وہ قیام اللیل کی فرحت محسوس کرتا ہے : ’’جو رمضان کے مہینے میں قیام کے لیے کھڑا ہوا، ایمان اور احتساب کے ساتھ، اس کے گذشتہ گناہ معاف کر دیے گئے‘‘ (صحیح النسائی)۔اور لیلۃ القدر میں خوشی محسوس کرتا ہے،اور اس کا اجر بھی کتنا زیادہ ہے: لَيْلَۃُ الْقَدْرِ۰ۥۙ خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَہْرٍ۳ۭؔ (القدر۹۷:۳)’’شب قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے‘‘۔ اور رمضان کے مہینے کے اختتام تک اس کا اجر کس قدر بڑھ چکا ہوتا ہے، اور وہ اللہ کا قرب پالیتا ہے۔
پھر اس کی مسرت و شادمانی کا کیا کہنا کہ روزہ اور قرآن اس کے سفارشی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’روزہ اور قرآن قیامت کے روز بندے کی شفاعت کریں گے۔ روزہ کہے گا: اے رب، میں نے اسے سارا دن شہوت اور کھانے پینے سے روکے رکھا،پس اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرمائیں۔اور قرآن کہے گا: میں نے اسے راتوں کو سونے سے محروم رکھا، پس میری شفاعت قبول کریں۔ فرمایا: ان دونوں کی شفاعت قبول کی جائے گی‘‘۔ (احمد)
اور جب بندہ پورے مہینے کے روزے مکمل کر لیتا ہے، اور وہ عید کے دن ان نعمتوں کو حلال کرتا ہے، تو وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس کا بدلہ اور انعام پاتا ہے۔
رہا حج بیت اللہ ،تو وہ اسلامی عبادات میں پانچواں رکن ہے۔ اس میں تلبیہ کی پکار کی اپنی ہی فرحت ہے؛ لبیک اللھم لبیک … حجِ بیت اللہ کا فریضہ ادا کرتے ہوئے وہاں داخل ہوتے ہی حاجی عجب فرحت محسوس کرتا ہے۔ وہ اللہ کے گھر حاضر ہے اور اس کا مہمان ہے، اور وہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو ایک جگہ پا کر اخوتِ اسلامی کے مظہر سے فرحت و سرور محسوس کرتا ہے۔ حج کے مناسک میں ایک ایک منسک کی ادایگی اور اطاعت ِ خداوندی میں عجب سرشاری کا احساس ہوتا ہے۔ وقوفِ عرفہ اور دعا کی قبولیت میں،اور اس احساس میں کتنی فرحت ہے کہ اس کے گناہوں کا بوجھ اس کے سر سے اتر گیا ہے، اور اب وہ کسی نو مولود کی مانند گناہوں سے پاک ہے: ’’جو اس گھر کی جانب آیا پھر اس نے نہ کوئی شہوانی فعل کیا نہ فسق کا کوئی کام، تو وہ اس طرح واپس لوٹا جیسے اسی کی ماں نے اسے ابھی جنا ہے‘‘(مسلم )۔پس وہ نیکی اور پاکیزگی کی حالت میں لوٹا،اور اس کی پوری پوری جزااور بڑا بدلہ اس کے رب کے پاس ہے: ’’اور حجِ مبرور کی جزا تو بس جنت کے سوا کچھ نہیں‘‘۔(بخاری)
جی ہاں! اے مسلمان بھائی، خود پر اللہ کے فضل پر خوش ہو جائیے! جب بھی’خیر‘ آپ کی جانب آیا، تو آپ کے ایمان اور اصلاحِ نفس میں اضافہ ہوا، آپ اس کے حضور سجدہ ریز ہوئے اور اس کا قرب حاصل کر لیا۔ اللہ تعالیٰ کے اس فضل پر فرحت محسوس کیجیے کہ جب اس نے آپ کو خیر کے کاموں کی ہدایت کی، اور منکرات کو چھوڑ دینے کی تاکید کی، اور مسلسل عمل کرنے اور نہ رُکنے کی تلقین کی، تو آپ نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کو مسلسل نگاہ میں رکھا: ’’جب تمھاری نیکی تمھیں خوش کرے، اور تمھاری برائی تمھیں غمگین کرے، تو تم مومن ہو‘‘(السلسلۃ الصحیحۃ)۔ لہٰذا اے مسلمان بھائی، مومن بن جائیے! (المجتمع، رمضان ۱۴۳۹ھ، جون ۲۰۱۸ء)