مقالاتِ برکاتی، علّامہ حکیم محمود احمد برکاتی، مرتب: ڈاکٹر سہیل احمد برکاتی۔ ناشر: عکس پبلی کیشنز، داتا دربار مارکیٹ ، لاہور۔ فون: ۴۸۲۷۵۰۰-۰۳۰۰۔ صفحات:۵۵۰۔ قیمت: ۱۲۰۰روپے۔
ریاست ٹونک کو نواب امیرخان نے ۱۸۱۷ء میں قائم کیا تھا۔ تقسیم ہند کے بعد، بھارتی حکومت نے یکم مئی ۱۹۵۰ء کو اسے صوبہ راجستھان میں ضم کرلیا۔ برطانوی عہد میں برعظیم کی مسلم ریاستوں میں ٹونک کو کئی اعتبار سے ممتاز حیثیت حاصل تھی۔ امتیاز کا ایک سبب ٹونک کا خانوادۂ برکاتی ہے۔ علّامہ برکات احمد (م: ۱۹۲۸ء) فاضلِ اجل اورطبیب بے بدل تھے۔ اُن کے اخلاف نے علم و فضل اور طبابت کی روایت کو برقرار رکھا۔ زیرنظر کتاب کے مصنف حکیم محمود احمد برکاتی شہید (۱۹۲۶ء-۲۰۱۳ء) غالباً اِس کی آخری کڑی تھے۔ اُن کے فرزند ِ ارجمند ڈاکٹر سہیل احمد برکاتی نے اپنے والد ِ مرحوم کے نئے پرانے مقالات کا زیرنظر مجموعہ مرتب کر کے شائع کیا ہے۔قبل ازیں برکاتی شہید کی متعدد کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔
زیرنظر کتاب میں سیرت النبیؐکے علاوہ بعض بزرگوں (شاہ ولی اللہ، شاہ محمد اسحاق دہلوی، شاہ محمد محدث دہلوی، مولانا فضل حق خیرآبادی، مولانا عبدالحق خیرآبادی وغیرہ) اور بعض معاصرین (ماہرالقادری ، ظفر احمد انصاری ،ابوالخیر کشفی، پروفیسر سیّدمحمدسلیم اور محمد محسن ٹونکی وغیرہ) پر مصنّف کے مقالات شامل ہیں۔ تقریباً ایک درجن مضامین طب، ادویہ اور امراض پر ہیں۔ مزیدبرآں چند خطبات، ایک انٹرویو اور ایک خودنوشت بھی شاملِ اشاعت ہے۔ تاہم، ایک قیمتی مقالہ (حکیم احسن اللہ خان) شامل ہونے سے رہ گیا۔ یہ مقالہ مشفق خواجہ کے توسط سے ہمیں ملا تھا اور ارمغانِ شیرانی (شعبۂ اُردو اورینٹل کالج، لاہور، ۲۰۱۲ء) میں شامل ہے۔
مضمون: ’ٹونک کا ماضی اور حال‘ ریاست ٹونک کے متعلق ایک کشکول ہے جس میں ٹونک کے حکمرانوں، اکابر اہلِ قلم، ان کی تصانیف، وہاں کے پی ایچ ڈی مردو زن، صحافیوں، ٹونک پر کتب ِ تواریخ اور وہاں کے مطابع وغیرہ کے بارے میں معلومات مل جاتی ہیں۔ وہ ٹونک کی ہمہ پہلو تعریف میں رطب اللسان ہیں۔ وہ اسے ’دارالاسلام محمدآباد‘ عرف ٹونک کا نام دیتے ہیں ، شاید اس لیے کہ ان کے بقول: ’دین سے اتنا قریب معاشرہ میں نے کہیں نہیں دیکھا‘ (ص ۲۴۹)۔ ان کے خیال میں ٹونک ’غیرت شیراز و بغدادِ صغیر‘ تھا۔
ریاست ٹونک کے پانچویں حکمران نواب سعادت علی خاں (۱۹۳۰ء-۱۹۴۷ء)پر برکاتی مرحوم کا مضمون، البتہ کم زور ہے۔ بلاشبہہ تعمیراتی کام حکمرانوں کے فرائض میں شامل ہیں۔ یہ عوام پر، ان کی ’عنایات‘ نہیں ہوتیں۔ نواب صاحب شیروں کے شکاری تھے، مصنف نے ۱۱۰؍شیروں کے شکار کو بھی نواب صاحب کے ’کارناموں‘ میں شمار کیا ہے۔
کتاب کے دل چسپ ہونے میں کلام نہیں ، جس کا بڑا سبب موضوعات کا تنوع اور خوب صورت اسلوب ہے۔ بعض مضامین تو بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اُمید ہے کہ مرحوم کے لائق فرزند سہیل برکاتی، اپنے والد کے نام مشاہیر و اکابر کے خطوط بھی مرتب کر کے شائع کریں گے۔(رفیع الدین ہاشمی)
قرآن کی تاثیر ، مرتبہ :حافظ محمد عارف۔ ناشر: جامعہ عربیہ ،جی ٹی روڈ، گوجرانوالہ۔ فون: ۷۴۴۸۰۸۸-۰۳۲۱۔صفحات :۴۴۰۔قیمت: درج نہیں۔
فاضل مرتب نے کتاب کا آغاز اس فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ہے:’’ہر نبیؑ کو ایسا معجزہ عطاکیا گیا ہے، جس پر انسان ایمان لائے، اور جو معجزہ مجھے عطا کیا گیا ، وہ یہ وحی [قرآن ] ہے، جو اللہ نے میری طرف نازل کی ہے‘‘۔(بخاری )
اسی فرمانِ نبویؐ کی روشنی میں محترم مرتب نے مختلف دانش وروں ، عالموں اور نو مسلموں کے دلوں کو پھیرنے میں قرآن کریم کی تاثیر پر مبنی تحریروں کو جمع کیا ہے۔ جن میں مقامی بھی ہیں اور غیر ملکی بھی، مرد بھی ہیں اور خواتین بھی۔ بقول مرتب:’’صرف وہ واقعات ومشاہدات جمع کیے ہیں، جو مستند ہیں ،جہاں شک وشبہے کی گنجایش تھی، ان واقعات سے صرف نظر کیا ہے ‘‘۔(ص ۷)
اس طرح یہ واقعات قاری کو قرآن سے جوڑنے اور اس کی برکتیں حاصل کرنے کے لیے اُبھارتے ہیں۔ (ادارہ)