مئی ۲۰۱۹

فہرست مضامین

سوڈان اور الجزائر میں فوجی انقلاب

عبد الغفار عزیز | مئی ۲۰۱۹ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

زندگی بہت ناپایدار ہے، اگلے لمحے پر بھی بھروسا نہیں ہوسکتا۔ جنرل عمر حسن البشیر ۱۰؍اپریل ۲۰۱۹ء کو سوڈان کے صدر تھے۔ ۱۱ ؍اپریل کو ان کے دست راست جنرل عوض بن عوف صدر بن گئے اور ۱۲؍اپریل کو ان کے ایک اور ساتھی عبدالفتاح برہان ملک کے سربراہ بن گئے۔ ایک روز قبل انھوں نے ہی اپنے پانچ جرنیل ساتھیوں کے ہمراہ جاکر صدر عمر بشیر سے کہا تھا کہ  ملک میں چار ماہ سے جاری مظاہرے اب خطرناک صورت اختیار کرچکے ہیں، اس لیے ہماری راے ہے کہ آپ اقتدار چھوڑ دیں۔ کئی گھنٹے انتظار کے بعد جب جواب نہ ملا تو جنرل عوض بن عوف قوم سے خطاب میں کہہ رہے تھے: ’’ملک میں ایک عرصے سے بدانتظامی، کرپشن، بے انصافی اور وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم میں اضافہ ہوتا چلا جارہا تھا۔ ہم حالات کا جائزہ لے رہے تھے، لیکن کچھ کر نہیں سکتے تھے۔ اب ہم نے اس حکومت کو اکھاڑ پھینکا ہے اور اس کے سربراہ کو اپنی حفاظت میں لے کر محفوظ مقام پر پہنچا دیا ہے‘‘۔ اپنے مختصر خطاب میں ملک میں دو سال کے لیے عبوری حکومت، ۳ ماہ کے لیے ایمر جنسی اور ایک ماہ کے لیے رات ۱۰ بجے سے صبح چار بجے تک کرفیو کا اعلان کردیا۔
انقلاب کا یہ پہلا دن خرطوم کے قلب میں واقع مسلح افواج کے ہیڈ کوارٹر کے باہر جمع ہزاروں مظاہرین کا کڑا امتحان تھا۔ تازہ فوجی انقلاب اور بالخصوص رات کے کرفیو کا اعلان اعصاب شکن تھا۔ لگتا تھا کہ مظاہرین منتشر ہوجائیں گے اور یوں ملک میں ایک نئے عسکری دور کا آغاز ہوجائے گا۔ لیکن گذشتہ پانچ دن سے مسلسل مسلح افواج کے ہیڈ کوارٹر کے سامنے بیٹھے ان مظاہرین نے اٹھنے سے انکار کردیا۔ حیرت انگیز طور پر انقلابی کونسل کمزور اور مظاہرین مزید مضبوط ثابت ہوئے۔ اگلے روز جمعہ تھا، مزید عوام مظاہرین میں شامل ہوگئے۔ ۳۶ گھنٹے گزرنے سے بھی پہلے جنرل عوض کو بھی اقتدار سے دست بردار ہونا پڑا۔ وہ ایک بار پھر اسی وردی کے ساتھ اسی کرسی اور اسی سرکاری ٹی وی کی اسکرین پر نمودار ہو کر کہہ رہے تھے: ’’میرے عزیز ہم وطنو! میں مختصر وقت میں دوسری بار آپ سے مخاطب ہونے پر معذرت خواہ ہوں، لیکن آج میں بلند مقاصد کے لیے ملک میں ایک نئی روایت متعارف کروانے جارہاہوں۔ یہ روایت ہے جاذبِ نظر مناصب سے بے رغبتی اور عہدوںکی چمک دمک میں عدم دلچسپی کی روایت۔ میں ملک میں تشکیل دی جانے والی عسکری سپریم کونسل کی سربراہی سے ایک ایسے شخص کے حق میں دست بردار ہورہا ہوں کہ جس کے تجربے، صلاحیت اور اس منصب کے لیے استحقاق پر ہمیں کامل یقین ہے۔ مجھے کامل یقین ہے کہ جنرل عبدالفتاح برہان عبدالرحمان حال ہی میں سفر کا آغاز کرنے والے سفینے کو کامیابی سے ساحل نجات تک لے جائیں گے‘‘۔
پانچ منٹ کے اس خطاب کے بعد سوڈان میں اب ایک نئے دور کا آغاز ہورہاہے۔ جنرل عبدالفتاح برہان، جنرل عمر البشیر کے ابتدائی ساتھیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ایک وقت میں بری افواج کے سربراہ رہے اور اب افواج میں انسپکٹر جنرل کے علاوہ یمن میں لڑنے والی سوڈانی فوج کی نگرانی کررہے تھے۔ اس دوران سعودی اور اماراتی قیادت سے بھی قریبی تعلقات استوار ہوگئے۔ کسی نظریاتی شناخت کے بجاے فقط پیشہ ورانہ شہرت رکھتے ہیں۔ ان کے سربراہ بنتے ہی سعودی عرب اور امارات کی طرف سے اس تبدیلی کا خیر مقدم کیا گیا۔ دونوں ملکوں نے فوری طور پر سوڈان کو ۳؍ ارب ڈالر کی امداد کے علاوہ پٹرول اور غذائی مواد کی فراہمی کا بھی اعلان کردیا۔   عوام میں بھی نئے جنرل صاحب کے لیے نسبتاً قبولیت کا تأثر ہے، لیکن حالات اب بھی مکمل پُرسکون نہیں ہوئے۔ مظاہرین فوجی اقتدار کا مکمل خاتمہ چاہتے ہیں۔
۹ دسمبر ۲۰۱۸ء سے جاری ان مظاہروں میں زیادہ شدت اس وقت آئی تھی، جب الجزائری عوام نے گذشتہ ۲۰ سال سے برسراقتدار ۸۲ سالہ مفلوج و معذور عبدالعزیز بوتفلیقہ کو اپنے بھرپور قومی دھرنوں کے ذریعے اتار پھینکا۔ انتہائی ضعیف، بیمار اور ناکارہ ہوجانے کے باوجود بوتفلیقہ نے ۱۸؍اپریل کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں پانچویں بار صدارتی اُمیدوار بننے کا اعلان کیا تھا۔ بس یہی اعلان، ان کی سیاسی وفات کا اعلان ثابت ہوا۔ الجزائری عوام کی یک جہتی اور ایک قومی تحریک کی صورت میں سڑکوں پر نکل آنے سے، بہ امر مجبوری فوج کے سربراہ نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے، بوتفلیقہ کے جانے اور دستور کے مطابق سپیکر کو عبوری صدر کی حیثیت سے ملکی انتظام سنبھال لینے کا اعلان کیا۔ الجزائری عوام کی جدوجہد کا پہلا مرحلہ مکمل ہوا، لیکن تحریک ہنوز جاری ہے۔ان کا مطالبہ ہے کہ صرف بوتفلیقہ نہیں، پورے سابقہ نظام سے نجات چاہیے۔ عوامی نعروں، تقریرروں اور تحریروں میں الجزائر کی حالیہ تاریخ کا خلاصہ دہرایا جارہاہے کہ ۱۹۹۱ءمیں ہونے والے انتخابات میں اسلامک سالویشن فرنٹ (FIS) نے ۸۰ فی صد نشستیں جیتی تھیں، لیکن فوج نے انقلاب کے ذریعے عوامی راے کا خون کردیا۔ اس کے بعد پورا عشرہ الجزائر میں بدترین خوں ریزی برپا رہی۔ یہ فرانس کے خلاف جنگ آزادی کے بعد ملک کی بدترین خوں ریزی تھی۔ پھر مختلف افراد کو مسند اقتدار پر بٹھانے کے بعد، اپریل ۱۹۹۹ء میں بوتفلیقہ کو صدر بنوادیا گیا۔ اب بوتفلیقہ کے بعد قومی اسمبلی کے سپیکر عبدالقادر بن صالح کو ۹۰ دن کے لیے عبوری صدر بنایا گیا ہے، جس نے ۴ جولائی کو قومی انتخابات کا اعلان کیا ہے۔تاہم، الجزائری عوام کے مظاہرے مسلسل جاری ہیں۔ وہ عبوری صدر کو بھی براے نام صدر قرار دیتے ہوئے، اصل مقتدر اداروں کی حکومت اور پہلے سے طے شدہ نتائج والے کسی انتخاب کو مسترد کررہے ہیں۔
سوڈانی عوام کی تحریک گذشتہ دسمبر سے جاری تھی۔ ان مظاہروں کا آغاز صدر عمر البشیر کے اچانک اور ناقابل فہم دورہء شام سے ہوا تھا۔ چند گھنٹوں کے اس دورے کے دوران وہ شامی صدر بشار الاسد سے ملاقات کرکے آئے۔ بشار الاسد گذشتہ آٹھ برس سے پوری قوم تباہ اور پورا ملک کھنڈر بنا چکا ہے، عالم عرب میں نفرت و وحشت کی علامت بن چکا ہے۔ اس سے یہ ملاقات صدربشیر پر عوامی و تنقید و احتجاج کا نقطہء آغاز بنی۔ سوڈانی حکومت کا کہنا تھا کہ بشار سے یہ ملاقات سوڈان پر عائد پابندیوں سے نکلنے کی ایک کوشش تھی اور یہ ملاقات کسی علاقائی طاقت کے کہنے پر نہیں ہم نے خود اپنی ترجیحات کے مطابق کی۔ اتفاق تھا یاکوئی اور’غیبی‘ انتظام کہ بشار سے ملاقات پر احتجاج کے انھی دنوں میں، ملک میں روٹی اور تیل کا بحران کھڑا ہوگیا۔ اس کے ساتھ ہی یہ بشار مخالف مظاہرے، بشیر مخالف مظاہروں میں بدل گئے۔ فوراً ہی ان مظاہروں نے خونی تصادم کی صورت اختیار کرلی، جس دوران ۵۷ افراد کے جاں بحق ہونے کی خبریں عالمی سرخیاں بن گئیں۔ یہ مظاہرے قریب الاختتام تھے کہ بوتفلیقہ کے خلاف الجزائری عوام کی تحریک کامیاب ہوئی اور سوڈان میں بھی اس کے بھرپور اثرات پہنچے۔ سوڈانی عوام نے ۶؍ اپریل کو جی ایچ کیو کے باہر دھرنے کا اعلان کردیا۔ یہی مظاہرے ۱۱؍اپریل کو صدر عمر البشیر کی رخصتی کا ’ذریعہ‘ بنے۔
جنرل عمر حسن البشیر (پیدایش: یکم جنوری ۱۹۴۴ء) ۳۰ جون ۱۹۸۹ء کو وزیراعظم صادق المہدی کا تختہ اُلٹ کر برسرِ اقتدار آئے تھے۔ آغاز میں تمام سیاسی پارٹیوں کی قیادت جیل میں بند کردی گئی۔ تقریباً چھے ماہ بعد سیاسی قیادت کی رہائی ہوئی اور ڈاکٹر حسن الترابی جنرل عمر البشیر کے فکری و سیاسی رہنما کے طور پر سامنے آئے۔ ساتھ ہی سوڈان کے خلاف چاروں اطراف سے دباؤ اور سازشوں کا طویل دور شروع ہوگیا۔ امریکا و یورپ نے پابندیاں عائد کردیں۔ بلا استثناء تمام مسلم ممالک نے سوڈان کا علانیہ یا خفیہ بائیکاٹ کردیا۔ یہ بائیکاٹ اور محاصرہ اتنا شدید تھا کہ سوڈان نے سڑکوں کی تعمیر کے لیے تارکول کا تقاضا کیا تو براد رمسلم ممالک نے وہ تک نہ دیا۔ خود پاکستان کا یہ عالم تھا کہ ۹۰ کے عشرے میں صدر فاروق لغاری سوڈان کے پڑوسی ملک یوگنڈا کے دورے پر گئے۔    صدر لغاری کو اس موقعے پر دورۂ سوڈان کی دعوت بھی دی گئی، لیکن پاکستان نے معذرت کرلی۔ سوڈان نے تجویز دی کہ چلیے دورہ نہ کیجیے، یوگنڈا جاتے ہوئے صرف کچھ دیر کے لیے خرطوم ایئرپورٹ پر رُک جائیے۔ سوڈانی عوام پاکستان سے ایک فطری محبت رکھتے ہیں، ان کی حوصلہ افزائی ہوجائے گی۔ لیکن صدر لغاری نے خود محترم قاضی حسین احمد صاحب کو ایک ملاقات میں بتایا کہ امریکی ناراضی کے خدشے کے پیش نظر مجھے خرطوم رکنے سے منع کردیا گیا تھا۔
صدر بشیر کے اقتدار سنبھالتے ہیں جنوبی سوڈان میں ۱۹۵۵ء سے جاری بغاوت کے لیے عالمی امداد کے دھانے کھول دیے گئے۔ ۹ ممالک کے ساتھ مشترکہ سرحدیں رکھنے والے سوڈان کے خلاف مختلف پڑوسی ممالک کی طرف سے کئی بار باقاعدہ مسلح جنگیں اورحملے کروائے گئے۔  کئی بار اندرونی بغاوتوں کی کوشش کی گئی۔سوڈان میں تیل کے وسیع ذخائر موجود ہونے کی اطلاعات تھیں۔ حکومت نے چین کی مدد سے تیل دریافت بھی کرلیا، ملک کا اقتصادی و معاشرتی نظام قدرے سنبھلنے لگا تو پورے جنوبی سوڈان کو الگ کروادیا گیا۔ سوڈان کو دو لخت کرنے میں کامیابی حاصل ہوگئی تو مغربی سوڈان کے علاقے دارفور میں بغاوت کروادی گئی۔ چاڈ اور لیبیا کی سرحدوں کے راستے باغیوں کو کھلم کھلا اسلحے کے ڈھیر فراہم کیے گئے۔ اس مسلح بغاوت کو کچلنے کے لیے   فوجی آپریشن کیے گئے، تو عالمی عدالت سے صدر عمر البشیر کو جنگی مجرم قرار دے دیا گیا۔ 
نائن الیون سے پہلے القاعدہ کی پشتیبانی کا الزام لگاتے ہوئے سوڈان کے ادویات بنانے کے کارخانے امریکی میزائلوں کے ذریعے تباہ کردیے گئے۔ صدر البشیر ہی نہیں جنرل عوض بن عوف اور جنرل عبد الفتاح برہان کے نام بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ سوڈان پر دہشت گردی کی مدد کا الزام لگا کر ذمہ داران حکومت سمیت عام شہریوں پر بھی سفری پابندیاں عائد کردی گئیں۔ اقتصادی جکڑ بندیوں میں کستے ہوئے دنیا کے کسی بنک اور کسی بھی ملک کو سوڈان سے ہرطرح کے مالی معاملات پر پابندیاں لگا دی گئیں۔ کسی بنک نے ہمت کرنے کی کوشش بھی کی تو بھاری جرمانوں کی دھمکی دے کر روک دیا گیا۔ قارئین کے لیے شاید باعث حیرت ہو کہ اس وقت صرف دو خلیجی بنکوں کے علاوہ دنیا کا کوئی بنک سوڈان کے ساتھ کوئی کاروبار یا رقوم کی ترسیل نہیں کرسکتا۔ سوڈان دنیا میں اپنے سفارت خانوں تک کو کسی بنک کے بجاے براہِ راست کیش رقوم ارسال کرنے پر مجبور ہے۔
ان تمام بیرونی چیلنجوں کے علاوہ اندرونی خلفشار بھی عروج پر رہا۔ چین اور ملائیشیا کے تعاون سے تیل اور تجارت کے میدان میں قدرے کامیابیاں ملیں تو ڈاکٹر حسن الترابی نے مشورہ بلکہ منصوبہ پیش کیا کہ ملک میں فوجی حکومت کے بجاے حقیقی جمہوری نظام نافذ کرتے ہوئے، فوج کو اقتدار سے نکال لیا جائے۔ ترابی صاحب خود اس وقت اسمبلی کے سپیکر تھے۔ پارلیمانی اور صدارتی انتخابات کا ایک نظام وجود میں آچکا تھا۔ پارلیمنٹ میں دیگر سیاسی پارٹیاں بھی تھیں، لیکن آخری اختیارات و کنٹرول فوج اور استخباراتی ادارے کے ہاتھ میں تھے۔ ترابی صاحب کی ان تجاویز پر صدر بشیر اور دیگر ذمہ داران سخت نالاں ہوگئے۔ اس وقت دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں نے بھی وہاں جمع ہوکر مصالحت کی بھرپور کاوشیں کیں۔ پاکستان سے محترم قاضی حسین احمد صاحب اور پروفیسر خورشید احمد صاحب بھی ان میں شامل تھے۔ تقریباً دو ہفتے جاری رہنے والی وہ تمام کاوشیں کئی نازک مراحل سے گزریں۔ گاہے ایسا بھی ہوا کہ نماز تراویح کے بعد بیٹھے تو سحری تناول کرکے اُٹھے۔ بالآخر فریقین ایک درمیانی حل پر متفق ہوگئے، لیکن اختلاف پھر غالب آگیا۔ ڈاکٹر حسن الترابی جنھیں صدر عمر البشیر سمیت اکثر ذمہ داران اپنا مرشد و فکری رہنما تسلیم کرتے تھے، کئی وزرا جنھیں باپ کا درجہ دیتے تھے، گرفتار کرکے قدیم ’کوبر جیل‘ بھیج دیے گئے (اب صدر بشیر اور ان کے ساتھی بھی اسی جیل میں رکھے گئے ہیں)۔ طویل قید کے بعد رہائی ہوئی تو ترابی صاحب نے ’المؤتمر الشعبی‘ کے نام سے اپنی نئی جماعت تشکیل دے لی۔ طویل عرصہ ان کا جیل آنا جانا لگا رہا، یہاں تک کہ ترابی صاحب کی وفات سے کچھ عرصہ قبل افہام و تفہیم کی فضا تو قائم ہوگئی، لیکن اصولی اختلافات اپنی جگہ باقی رہے۔ اسی اثنا میں اخوان کی تنظیم سے بھی حکومت کے اختلافات ہوگئے۔ ان کا  ایک دھڑا حکومت کے ساتھ اور دوسرا اپوزیشن کا حصہ بن گیا۔ اس طرح سوڈان میں اسلامی تحریک حکومت، اپوزیشن اور غیر جانب دار تین حصوں میں تقسیم ہوگئی۔
نومبر ۲۰۱۸ء میں خرطو م جانا ہوا تو اقتصادی مشکلات اپنے عروج پر تھیں۔ حکمران جماعت کے کئی ذمہ داران بھی صورت احوال سے غیر مطمئن دکھائی دیے۔ مرحوم ڈاکٹر حسن الترابی کے بعد اب صدر عمر البشیر کے کئی دیگر قریبی ساتھی حکومت اور حکمران جماعت میں نظر انداز کردیے جانے کا شکوہ کررہے تھے۔ حکومت اور پارٹی کے اہم ذمہ داران جو کبھی صدر بشیر سے اظہار محبت و ہمدردی کرتے ہوئے ان کے شرمیلے مزاج ہونے کا ذکر کرتے تھے، اب تنہا فیصلے کرنے کی روش پر شکوہ کناں تھے۔ دونوں نائب صدور سمیت کئی اہم ذمہ داریوں پر سیاسی کارکنان کے بجاے حاضر سروس یا ریٹائرڈ فوجی سربراہان، تعینات کردیے گئے تھے۔ یہ حقائق سب کے لیے باعث تشویش تھے۔
ان ساری اندرونی و بیرونی مشکلات کے باوجود سوڈان نے صدر بشیر کے عہدِ اقتدار میں کئی اہم کامیابیاں بھی حاصل کیں۔ سب سے اہم کامیابی تو خود ان مہیب عالمی سازشوں کے باوجود ملک اور اس کے نظام کا باقی اور ثابت قدم رہنا تھا۔ وسیع و عریض زرخیز زمین اور دریاے نیل کے خزانے رکھنے کے باوجود حکومت ملنے پر ملک غذائی بدحالی کا شکار تھا۔ صدر بشیر نے قوم کو نعرہ دیا کہ مَن لَا یَملِکُ قُوتَہُ لَایَملِکُ قَرَارَہُ (جس کی غذا اپنے ہاتھ میں نہیں، اس کے فیصلے بھی اپنے ہاتھ میں نہیں)۔غذائی خود کفالت پر خصوصی توجہ دی گئی۔ تعلیم کے لیے نئے اعلیٰ ادارے قائم کیے گئے۔ پہلے ملک میں صرف پانچ یونی ورسٹیاں تھیں، اب ملک میں ۱۲۶ یونی ورسٹیوں اور اعلیٰ تعلیم کے اداروں کا ایک جال ہے۔ پورا نصاب تعلیم عربی زبان میں منتقل کیا جاچکا ہے۔ حتیٰ کہ میڈیکل، انجینیرنگ اور دیگر پیشہ ورانہ تعلیم بھی قومی زبان عربی میں دی جاتی ہے۔ علاج کی سہولت جتنی ہے، سب شہریوں کو مفت حاصل ہے۔ بجلی پیدا کرنے کے لیے نئے اور بڑے ڈیم قائم کیے گئے جو عموماً ملکی ضرورت پوری کررہے ہیں۔۲ء ۹ کلومیٹر طویل اور ۸۲ میٹر چوڑے مروی ڈیم میں ۱۲۵۰ میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی دس ٹربائینیں کام کررہی ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کئی ڈیم اور آئل ریفائنری مسلسل پیداوار دے رہی ہیں۔ تیل کے کنویں تو جنوبی سوڈان کی علیحدگی کے ساتھ ہی اس کے حصے میں چلے گئے، لیکن وہ خام تیل کی ترسیل کے لیے سوڈان ہی کا محتاج ہے۔ ملک میں بنیادی انفراسٹرکچر کے دیگر پیمانوں میں بھی بہتری آئی ہے۔لیکن رقبے کے اعتبار سے افریقا اور عالم عرب کے تیسرے بڑے اور غربت کے ساتھ ساتھ تقریباً ۵ کروڑ کی آبادی والے ملک کو، مشکلات سے  نجات پانے کے لیے، بیرونی سازشوں اور جکڑ بندیوں سے نجات کے علاوہ، اندرونی استحکام کا طویل سفر ابھی طے کرنا ہے۔

عالم اسلام اور رحمۃ للعالمین کی اُمت کو قرآن و سنت کے آئینے میں دیکھیں تو ہلاکت و تباہی کے سب اسباب سامنے آجاتے ہیں۔ قرآن کریم بار بار اتحاد و اخوت کی تعلیم دیتے ہوئے خبردار کرتا ہے کہ باہم جھگڑوں اور گروہ بندیوں میں پڑو گے تو ناکام ہوجاؤگے۔ تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ مسلم اقوام و افراد ایک کے بعد دوسری جنگ اور عارضی مفاد و منصب کی خاطر برپا اختلافات میں کود پڑنے پر ہر دم آمادہ رہتے ہیں۔ سوڈان اور الجزائر ہی نہیں گزشتہ چند ہفتوں کے دوران لیبیا میں بھی خانہ جنگی کا ایک نیا اور سنگین دور شروع ہوگیا ہے۔
کرنل قذافی کے ۴۰ سالہ دور حکومت کے بعد مصر اور تیونس کی طرح لیبیا میں بھی عوام کی مرضی سے منتخب حکومت اور انتخاب و شورائیت کی بنیاد پر ایک آزادانہ معاشرتی نظام وجود میں آنا شروع ہوگیا تھا۔ لیبیا جاکر دیکھا اور وہاں سے آنے والوں نے بھی بتایا کہ بے پناہ قدرتی وسائل سے مالامال یہ اہم ملک دنیا کے ساتھ نئے معاشی، سیاسی اور ترقیاتی تعلقات کا متمنی و منتظر ہے۔ اچانک معلوم ہوا کہ مصر میں ملکی تاریخ کی پہلی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے اور ہزاروں بے گناہ انسانوں کا خون کرنے والے جلادوں کے پشتیبان، اب لیبیا میں بھی خون کی یہی ہولی کھیلنے پر مصر ہیں۔ انھوں نے معمر قذافی کے ایک سابق رفیق کار خلیفہ حفتر کا مہرہ آگے بڑھایا ہے۔
خلیفہ حفتر (پیدایش ۱۹۴۳ء) ۱۹۶۹ء میں لیبیا کے شاہ ادریس السنوسی کے خلاف کرنل قذافی کے انقلاب کا حصہ تھے۔ بعد ازاں قذافی نے انھیں بری افواج کا سربراہ بنادیا۔ ۱۹۷۸ء میں لیبیا اور پڑوسی ملک چاڈ کے درمیان جنگ شروع ہوگئی جو وقفوں وقفوں سے تقریباً دس سال جاری رہی۔ ۱۹۸۷ء کی جنگ میں خلیفہ حفتر خود شریک تھا۔ آغاز میں اسے کچھ کامیابی ملی، لیکن اسے فوری کمک کی ضرورت تھی۔ لیبیا کے تاریخ دان بتاتے ہیں کہ قذافی نے اس خدشے سے کمک نہ بھیجی کہ حفتر اس لڑائی میں ایک کامیاب ہیرو کے طور پر متعارف ہورہا ہے، اگر واقعی جیت کر واپس لوٹا تو کہیں میرا تختہ نہ الٹ دے۔ حفتر اور اس کی فوج شکست کھاگئی۔ ۱۲۶۹ لیبین فوجی مارے گئے اور خلیفہ حفتر سمیت ۴۳۸ گرفتار ہوگئے۔ دوران اسیری حفتر نے قذافی سے بغاوت و علیحدگی کا اعلان کردیا۔ امریکی مداخلت پر اسے رہائی ملی اور وہ وہیں سے امریکا چلا گیا، جہاں ۲۰سال تک مقیم رہا۔ امریکی شہریت حاصل کرلی اور CIA کے ساتھ قریبی تعلق و تعاون رہا۔
سقوط قذافی کے بعد لیبیا میں ایک عبوری حکومت تشکیل پائی۔ قذافی کے خلاف تحریک چلانے والے تقریباً سب گروہ اس میں شریک تھے۔ ملک میں امن و استحکام کا سفر شروع ہوا چاہتا تھا کہ خلیفہ حفتر نے لیبیا کے دوسرے بڑے شہر ’بنغازی‘ میں اعلان بغاوت کردیا۔ مصر کے جنرل سیسی اور اس کے حلیف حفتر کی بھرپور عسکری و مالی مدد کررہے تھے۔ کوئی فریق دوسرے کو شکست تو نہ دے سکا، البتہ ملک میں دو متوازی حکومتیں قائم ہوگئیں۔ ایک دار الحکومت طرابلس (Tripoli) میں اور دوسری بنغازی میں۔ وقت اسی طرح آگے بڑھ رہا تھا کہ الجزائر و سوڈان میں عوامی تحریک کے ساتھ ہی خلیفہ حفتر نے طرابلس پر پھر سے چڑھائی کردی۔ اب تک طرفین کے سیکڑوں افراد اور طرابلس کا سارا گردونواح جنگ کی نذر ہوچکا ہے۔ خلیفہ حفتر کی افواج کو ایک بار پھر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے، لیکن اسے شہ دینے والے جنگ کے شعلے بھڑکائے رکھنے پر مصر ہیں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبردار کرتے ہوئے مطلع کیا تھا کہ: ’’آپ لوگ اپنے سے پہلے والوں کے ایک ایک قدم اور ایک ایک عمل کی پیروی کرو گے۔ یہاں تک کہ وہ اگر گوہ کے بل میں گھسے ہوں گے تو تم بھی اس میں جاگھسو گے‘‘ ( بخاری)۔ قرآن کریم اس روش سے باز رہنے کا حکم دیتا اور خبردار کرتا ہے کہ: وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللہِ تَبْدِيْلًا۝۶۲ (احزاب۳۳: ۶۲) رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم اُمتیوں کو دُعا سکھائی تھی: لطیف و خبیر پروردگار اپنے بندوں پر رحم فرما۔ ہمارے گناہوں کے باعث ہم پر ایسے حکمران مسلط نہ فرما جو ہمارے معاملے میں آپ کا خوف نہ رکھتے ہوں اور ہم پر رحم نہ کھاتے ہوں۔