یہ مشترکہ مضمون ان احساسات پر مبنی ہے کہ میاں بیوی کی سوچ میں ہم آہنگی رمضان کی قدر و قیمت اور اس کے اثرات کو کس قدر بڑھا دیتی ہے۔
سب سے پہلے تو میں نے قرآن میں رمضان کے بارے میں اللہ کا فرمان پڑھا:
فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَہُوَخَيْرٌ لَّہٗ ۰ۭ (البقرہ۲: ۱۸۴) اور جو اپنی خوشی سے زیادہ بھلائی کرے، تو یہ اسی کے لیے بہتر ہے۔
اور حج کے حوالے سے بیان کردہ آیت پر غور کیا:
وَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا۰ۙ فَاِنَّ اللہَ شَاكِـرٌ عَلِــيْمٌ۱۵۸ (البقرہ۲: ۱۵۸) اور جو برضا و رغبت کوئی بھلائی کا کام کرے گا، اللہ کو اس کا علم ہے اور وہ اس کی قدر کرنے والا ہے۔
یہ ’تطوّع‘ کیا ہے؟ کیا یہ شریعت اور اس کے شعائر سے ہوتا ہوا زندگی اور اس کے اعمال تک پھیلا ہوا ہے؟
روزے کے ضمن میں حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں:’’اور جو کوئی خوشی سے نیکی کرنا چاہے اور ایک مسکین کے کھانے کا اضافہ کر لے، تو یہ اسی کے لیے بہتر ہے اور اللہ تعالیٰ نے خیر کے کوئی خاص معانی بیان نہیں کیے، جو کسی ایک نیکی پر مشتمل ہوں۔ پس روزے کے ساتھ مسکین کے کھانے کو جمع کر لینا بھی خوشی سے زیادہ کرنے والی بھلائی ہے،اور روزے کا فدیہ ادا کرتے ہوئے مساکین کی تعداد کو بڑھا لینا بھی ’تطوّع‘ ہی میں آتا ہے۔یہ سب بھلائیوں میں برضا و رغبت اضافہ اور نوافل میں آگے بڑھ جانا ہے۔(ابنِ کثیر)
یہ روزے کے بارے میں اسلام کا ابتدائی حکم ہے کہ مریض اور مسافر کو روزے کی چھوٹ ہے، رہا صحت مند مقیم شخص تو اس کے پاس اختیار ہے، وہ چاہے تو خود روزہ رکھے اور چاہے تو فدیہ ادا کرتے ہوئے کسی کو کھانا کھلا دے۔اور اگر وہ ایک سے زیادہ مساکین کو کھانا کھلا دے تو یہ اسی کے لیے بہتر ہے، اور اگر وہ روزہ رکھے تو یہ کھانا کھلانے سے بہتر ہے۔
حج کے بارے میں راجح قول ہے: اور جو کوئی فرض حج کی ادایگی کے بعدمزید حج اور عمرہ خوشی سے کرے، تو اللہ اس کی بہت قدر کرنے والا ہے، کیونکہ وہ اللہ کی خوشنودی کی طلب میں یہ عمل کرتا ہے۔ لہٰذا، وہ اس کی بہترین جزا دینے والا ہے، اور وہ اس کے ارادے اور مقصد کو جانتا ہے۔(الطبری)
علما کا اس بارے میں کہنا ہے: جو خوشی سے بھلائی کا ارادہ کرے اور عمرہ کرے تو اللہ اس کا قدر دان اور جاننے والا ہے، پس حج فریضہ ہے اور عمرہ ’تطوّع‘ (یعنی خوشی سے کی جانے والی نیکی)۔
ان دونوں آیات پر غور کرنے سے مجھے معلوم ہوا کہ اسلام تطوّع (خوشی سے نیکی کرنے کے جذبے) پر اُبھارتا ہے، کیونکہ اس نیکی کے محرک کا اجر اللہ کے ہاں محفوظ ہوتا ہے۔ پس، روزہ ، حج، عمرہ اور بھوکے کو کھلانا سب اللہ کے لیے اخلاص برتنا ہے، اور زیادہ سے زیادہ عمل کرنا ہے۔ اس کے لیے وقت نکالنا،مال خرچ کرنا اور جدو جہد کرنا، یہی حقیقت میں ’تطوّع‘ کے عناصر ہیں، خواہ یہ دنیا کا ’تطوّع‘ ہو، سوچ اور فکر کا یا مادی اشیا کا۔اور ہمارے نوجوانوں کو خواہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں اس تطوّعی عمل میں شریک ہونا چاہیے، خواہ وہ صلح کا کام ہو یا اصلاحِ نفس کا یا کوئی دوسری سرگرمی، یا وہ فرد اور معاشرے کی نمو اور افزایش کا کوئی کام ہو۔
اس حوالے سے ہمارے سامنے انبیا علیہم السلام کے تطوّع کی بہترین مثالیں اور نمونے موجود ہیں: کیا حضرت زکریا ؑنے حضرت مریمؑ کی کفالت کو خوشی سے قبول نہیں کیا تھا؟ کیا حضرت یوسفؑ نے آگے بڑھ کر وزارت ِ مال کی ذمہ داری اٹھانے کی پیش کش نہیں کی تھی؟کیا موسٰی نے اللہ کی رضا کی خاطر دو بہنوں کے جانوروں کو کنویں سے پانی نکال کر نہیں پلایا تھا؟ پھر ان کاموں کے انجام پر بھی نظر ڈالو۔حضرت زکریاؑ، حضرت مریم ؑ کی کفالت کرتے ہوئے ان کو اللہ کی جانب سے ملنے والے پھلوں کے مشاہدے تک پہنچے، اور وہیں اللہ سے بیٹا مانگ لیا، جو اللہ نے عطا فرما دیا۔ رہے یوسفؑ تو اللہ نے انھیں مصر کی سرزمین میں اقتدار بخشا اور ان کے گھر والوں اور والدین کو ان سے لا ملوایا۔اور موسٰی کاجانوروں کو پانی پلانا ان کی پناہ گاہ، شادی اور پختگی کے حصول کا سبب بن گیا!
اسلام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوئہ حسنہ ہمارے لیے ابدی نمونہ ہے۔ ان سے حضرت خدیجہؓ نے کیا فرمایا: ہرگز نہیں، اللہ آپؐ کو کبھی رُسوا نہ کرے گا؛ آپؐ تو صلہ رحمی کرتے ہیں، دوسروں کے بوجھ اٹھاتے ہیں، محتاجوں کی مدد کرتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں، اور حق کی راہ میں آنے والے مصائب پر دوسروں کی مدد کرتے ہیں۔(بخاری)
ان کے عمل کی مثالیں دیکھیں تو آپؐ کعبہ کی تعمیر میں بنفس ِ نفیس شریک ہوئے، خندق کھودنے میں اور مسجد کی تعمیر میں بھی حصّہ لیا! وہ مریضوں کی عیادت فرماتے اور یتیم کی کفالت اور اس کے مصائب کے حل پر ابھارتے اور بیواؤں کی مدد فرماتے اور انھیں کھانا کھلاتے۔
جیسا کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ اپنے محلہ داروں کی بکریاں دوہتے۔ جی ہاں! وہ خلیفہ بنے تو ان کے محلے کی ایک لڑکی نے کہا: ’’اب تو آپ ہماری بکریاں نہیں دوہیں گے‘‘۔ آپؓ نے اس کی بات سنی تو کہا:’’کیوں نہیں، اللہ کی قسم ! میں اب بھی ان کا دودھ دوہوں گا‘‘۔
آپ نے حضرت عمر ؓ بن خطاب اور ان کی زوجہ اُمِ کلثوم کی ایک زچہ کی مدد کا واقعہ بھی سنا ہوگا، جب ان کی زوجہ ضرورت کے سامان کے ساتھ نو مولود کے کپڑے ،دیگچی ، غلّہ اور گھی ساتھ لے کر پہنچی تھیں۔ وہ تو اندر خاتون کے پاس چلی گئیں اور حضرت عمرؓ اس کے شوہر کے پاس بیٹھ گئے اور دیگچی چولھے پر چڑھا دی،اور کھانا پکانا شروع کر دیا۔ اس کے شوہر کو علم بھی نہ ہوا کہ آپ کون ہیں۔
یہی وہ بھلائی اور نیکی ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کیا ہے:
نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف پھیرلیے یا مغرب کی طرف، بلکہ نیکی یہ ہے کہ اللہ کو اوریومِ آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دِل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور یتیموںپر، مسکینوں اور مسافروں پر، مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پراور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے، نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے۔ اور نیک وہ لوگ ہیں کہ جب عہد کریں تو اسے وفا کریں، اور تنگی و مصیبت کے وقت میں اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کریں۔ یہ ہیں راست باز لوگ اور یہی لوگ متقی ہیں۔(البقرہ۲: ۱۷۷)
ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’ہر مسلمان پر صدقہ لازم ہے‘۔ کہا گیا: اگر کسی کے پاس استطاعت نہ ہو تو کیا کرے؟ فرمایا: ’وہ معروف یا خیر کا حکم دے‘۔ کہا: اگر وہ یہ بھی نہ کرسکے۔ فرمایا: ’اپنے آپ کو شر سے روک لے، یہ بھی صدقہ ہے‘۔ (بخاری )
پس، خیر کے بہت سے دروازے ہیں اورخوشی سے نیکی کرنے والوں اور کرنے والیوں کے لیے کھلے ہوئے ہیں، خاص طور پر مشکل اوقات اور جنگی مقامات پر انسانیت کی خدمت کے مواقع بہت سے ہیں۔ مشکلات میں گھرے انسانوں کو طبی، سکونتی، تعلیمی اور مالی امداد کی ضرورت ہوتی ہے، اور رمضان میں ان تمام نیکیوں کا اجر بڑھ جاتا ہے اور ثواب دوچند ہو جاتا ہے۔
ہم نے رمضان المبارک میں اس اہم معاملے کا ذکر کیا ہے، جس جانب آپ نے اللہ کے فرمان کی طرف توجہ دلائی ہے:
فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَہُوَخَيْرٌ لَّہٗ ۰ۭ (البقرہ۲: ۱۸۴) اور جو اپنی خوشی سے زیادہ بھلائی کرے تو یہ اسی کے لیے بہتر ہے۔
آگاہ رہیں کہ یہ تطوّع بالخیر ہے۔اور اگرچہ یہ آیت اپنے سیاق میں روزے کے خیر کو بیان کر رہی ہے، جیسا کہ میں ذکر کر رہی ہوں، درحقیقت لفظ ’خیر‘ ہمارے سامنے بھلائی کی متعدد راہیں کھولتا ہے۔ ہمیں مطلقاً خوشی سے نیک اعمال کی جانب لپکنے پر ابھارتا ہے، اور ان اعمال کی فضیلت کو رمضان کے مہینے میں پانے کے لیے اورباقی مہینوں میں بھی اجر و ثواب کے حصول پر آمادہ کرتا ہے۔
’تطوّع‘ کی رغبت تو انسان کے اندر سے پھوٹتی ہے،اور وہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ استطاعت کے مطابق نفلی عبادات، مالی اخراجات (انفاق فی سبیل اللہ)، یا صحت، یا مال و متاع، یا علم یا نصیحت جیسی مختلف نیکیوں میں جت جاتا ہے، جو تزکیۂ نفس کے وسائل ہیں،اور ان اعمال کو کرتے ہوئے اللہ کے لیے خالص نیت کا ہونا ضروری ہے:
اِنَّمَا نُـطْعِمُكُمْ لِوَجْہِ اللہِ لَا نُرِيْدُ مِنْكُمْ جَزَاۗءً وَّلَا شُكُوْرًا۹ (الدھر۷۶:۹) ہم تمھیں صرف اللہ کی خاطر کھلا رہے ہیں، ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ۔
لہٰذا ، اجر صرف اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی طرف سے ہے، اور وہ ہر بھلائی کا قدردان ہے اور نیکی کرنے والے سے واقف ہے، اور اسی سے اس نے اپنے اس فرمان میں ہمیں متنبہ کیا ہے:
لَا خَيْرَ فِيْ كَثِيْرٍ مِّنْ نَّجْوٰىھُمْ اِلَّا مَنْ اَمَرَ بِصَدَقَۃٍ اَوْ مَعْرُوْفٍ اَوْ اِصْلَاحٍؚ بَيْنَ النَّاسِ۰ۭ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ ابْتِغَاۗءَ مَرْضَاتِ اللہِ فَسَوْفَ نُؤْتِيْہِ اَجْرًا عَظِيْمًا۱۱۴ (النساء۴: ۱۱۴) لوگوں کی خفیہ سرگوشیوں میں اکثر و بیش تر کوئی بھلائی نہیں ہوتی۔ ہاں، اگر کوئی پوشیدہ طور پر صدقہ و خیرات کی تلقین کرے یا کسی نیک کام کے لیے یا لوگوں کے معاملات میں اصلاح کرنے کے لیے کسی سے کچھ کہے تو یہ البتہ بھلی بات ہے اور جو کوئی اللہ کی رضا جوئی کے لیے ایسا کرے گا، اسے ہم بڑا اجر عطا کریں گے۔
جب میں خوشی سے کی گئی نیکیوں اور بھلائیاں کرنے والوں کا ذکر کرتی ہوں، تو میرے سامنے متطوّعین کے رہنما سرکردہ کویتی داعی ڈاکٹر عبد الرحمن السمیطؒ کا نام آتا ہے۔ جنھوں نے اپنی زندگی کا ایک حصّہ افریقی ممالک میں گزارا، جہاں انھوں نے اپنا وقت، مال اور صحت اور زندگی کی توانائیاں اس راہ میں لگا دیں اور لوگوں کو اللہ کے دین کی جانب دعوت دی۔ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کی مثال تھے:
أَيُّ النَّاسِ أَحَبُّ إلى اللهِ؟ وَأَيُّ الْأَعْمَالِ أَحَبُّ إلى اللهِ؟ فَقَالَ: أَحَبُّ النَّاسِ اِلَى اللهِ أَنْفَعُهُمْ لِلنَّاسِ يَكْشِفُ عَنْهُ كُرْبَةً ، أَوْ يَقْضِي عَنْهُ دَيْنًا ، أَوْ يَطْرُدُ عَنْهُ جُوعًا، وَلَأَنْ أَمْشِي مَعَ أَخٍ لِي فِي حَاجَةٍ ، أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَعْتَكِفَ فِي هٰذَا الْمَسْجِدِ ، مَسْجِدِ الْمَدِينَةِ ، شَهْرًا (الصَّحِيحَة:۹۰۶، الترغیب والترہیب: ۲۶۲۳) [ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا، اور عرض کی:] اے اللہ کے رسولؐ ! اللہ کے ہاں محبوب ترین کون ہے؟ اور کون سے اعمال اللہ کو زیادہ پسند ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: اللہ کے نزدیک محبوب ترین وہ ہے، جو لوگوں کو زیادہ فائدہ پہنچانے والا ہے، مشکل دُور کرتاہے ، قرض ادا کردیتاہے، بھوک مٹاتاہے۔ اور کسی شخص کی ضرورت پوری کرنے کے لیے اس کے ساتھ چلنا، مجھے مسجد نبویؐ میں ایک ماہ کے اعتکاف سے بھی زیادہ پسند ہے۔
اسی طرح مجھے ان کی وفا دار اور صابر بیوی ام صہیب یاد آتی ہیں،جنھوں نے ان سارے معاملات میں ان کی مدد کی اور ان کی اولاد کی تربیت کی ذمہ داری بھی ادا کی۔ ان کے ساتھ زاہدانہ زندگی بھی گزاری، اور ہر سرد و گرم سہا۔ان کے ساتھ گھر بار چھوڑ کر افریقہ منتقل ہوئیں اور تمام پریشانیوں کو برداشت کیا۔وہ مشکلات کو کسی خاطر میں نہ لاتیں، بلکہ اس ساری سعی و جہد میں وہ اللہ کے تقرب کی لذت کو محسوس کرتیں۔ انھوں نے بڑے مزے سے ایک روز اپنے شوہر سے کہا: ’’کیا جنت میں بھی ہم ایسی ہی لذت محسوس کریں گے، جیسی یہاں محسوس کرتے ہیں؟! ‘‘، کیا کہنے ایسی بیوی کے!
میرے ذہن میں اہمیت کے لحاظ سے عورت کے تطوّعی کردار کے کئی میدان آتے ہیں، جہاں ایک عورت آسانی سے بھلائیاں سمیٹ سکتی ہے، جیسے یتیموں کی کفالت اور بیواؤں اور بزرگوں کی نگہداشت، اور تنگ دست خاندانوں کی مدد،اور بھلائی اور خیر اور امدادکے کام کرنے والی انجمنوں کے کام میں حصّہ، خواتین کی مشکلات اور نوجوان لڑکیوں کے مسائل کا حل،اور معاشرے میں رائج غلط تصورات کی اصلاح، نوجوانوں کی تربیتی سرگرمیوں میں حصّہ۔ اسی طرح علم کی تدریس اور قرآن کی تحفیظ میں مدد اور معاشرے کی اصلاح میں ہمہ تن مدد۔ پس، عورت کے کردار سے انکار نہیں کیا جا سکتا،اور معاشرے کو ایک سرگرم عورت کی تلاش ہے، جو شرعی احکام کی پابندی کرتے ہوئے ان معاملات میں اپنا کردار ادا کرے۔
بلاشبہہ نیکی اور تقویٰ کے معاملے میں تعاون ایک مسلمان گھر کی صفات میں سے ہے۔ اسی طرح یہ ایک مسلم خاندان، ایک مسلم محلے اور ایک مسلم معاشرے کی صفات میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سب انسانوں کو اس کا حکم دیا ہے، وہ فرماتا ہے:
وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى ۰۠ (المائدہ۵:۲) اور نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرو۔
اگر معاشرہ بھی نیکی کے مختلف پہلوؤں میں معاونت کرتا ہے، وہ خیر کو پھیلانے، اور دوسروں کا احساس پیدا کرنے میں کردار ادا کرتا ہے، وہ اپنے افراد کے دلوں میں خوشی سے نیکی کرنے کے کلچر کو فروغ دیتا ہے، تو وہی معاشرہ، ترقی یافتہ اور باشعور کہلانے کا حق دار ہے۔ یہ بہت افسوس کا مقام ہے کہ بعض افراد ِ معاشرہ، یعنی میاں بیوی ایک دوسرے کی مخالفت میں خم ٹھونک کر کھڑے ہو جاتے ہیں،اور شوہر بیوی پر بے جا پابندیاں عائد کردیتا ہے اور وہ اس کے تطوّعی کاموں کی اجازت نہیں دیتا، جیسے دعوت الی اللہ کا کام، یا خیر کی کسی انجمن کے ساتھ مل کرتعلیم یا کسی عمل میں مدد دینا، حالاںکہ بیوی اپنی ازدواجی ذمہ داریوں کی ادایگی اور اولاد کی نگہداشت کے فرائض ادا کرتے ہوئے یہ کام کرنا چاہتی ہے۔
دوسری جانب ایسی خواتین بھی ہیں، جو خیر کے کاموں میں بڑی خوشی سے بڑھ چڑھ کر شریک ہوتی ہیں، اور دن رات کی مشغولیت کا بڑا حصّہ انھی کاموں میں لگا دیتی ہیں۔ وہ اپنے شوہروں سے غافل ہو جاتی ہیں اور اپنی اولاد کو ضائع کر دیتی ہیں اور ان کی تربیت کا حق ادا نہیں کرتیں! یہاں معاشرے میں خیر کے کاموں کو متوازن کرنے کی ضرورت ہے، اور کسی افراط و تفریط کے بغیر معاشرے کی خدمت میں کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
اگر کو ئی شخص رمضان میںخوشی سے نفل عبادات ادا کر تا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں، بلکہ اسے انسانوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی اسی خوشی سے حصّہ ڈالنا چاہیے۔ یقیناً اسے رمضان کے اجروثواب کو بڑھانے کی حرص رکھنی چاہیے۔ اس کی اللہ کے میزان میں بڑی قدروقیمت ہے، ثواب اسی کے ذمے ہے، اور وہ اجر عطا فرماتا ہے۔ پس، رمضان ہر خیر کے کام کا موقع ہے، اور کیا ہی اچھا ہو کہ خوشی سے ہونے والے نیک کاموں کی کثرت ہو جائے، اور یہ روزہ دار کے لیے نافع ہو جائیں۔ وہ رکوع، سجدے اور دیگر عبادات سے اس کی روح کا تزکیہ کر دیں، اور اس کے ساتھ ہی وہ اعمال بھی شامل ہو جائیں جو وہ معاشرے اور اس کے افراد میں خیر پھیلانے کے لیے انجام دے رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ارْكَعُوْا وَاسْجُدُوْا وَاعْبُدُوْا رَبَّكُمْ وَافْعَلُوا الْخَــيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ۷۷ۚ۞ (الحج۲۲: ۷۷) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، رکوع اور سجدہ کرو، اپنے رب کی بندگی کرو، اور نیک کام کرو، اسی سے توقع کی جا سکتی ہے کہ تم کو فلاح نصیب ہو۔
(المجتمع، شعبان،۱۴۳۹ھ،مئی۲۰۱۸ء)