کئی تجزیہ کار بھارت کی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو یورپ کی قدامت مگر غیر فرقہ پرست جماعتوں، یعنی جرمنی کی ’کرسچن ڈیموکریٹ‘ یا برطانیہ کی ’ٹوری پارٹی‘ سے تشبیہہ دے کر دھوکا کھا جاتے ہیں۔ ان یورپی سیاسی جماعتوں کے برعکس بی جے پی کی کمان اس کے اپنے ہاتھوں میں نہیں ہے۔ اس کی طاقت کا اصل سرچشمہ اور نکیل ہندو نسل پرستوں کی تنظیم راشٹریہ سیویم سنگھ (آرایس ایس)کے پاس ہے، جو بلاشبہہ فی الوقت دنیا کی سب سے بڑی خفیہ تنظیم ہے۔ جس کے مالی وانتظامی معاملات کے بارے میں بہت ہی کم معلومات ابھی تک منظر عام پر آئی ہیں۔ اگرچہ آر ایس ایس اپنے آپ کو ایک ’ثقافتی تنظیم ‘کے طور پر متعارف کرواتی ہے، مگر حال ہی میں اس کے سربراہ موہن بھاگوت نے یہ کہہ کر چونکا دیا کہ: ’ہنگامی صورت حا ل میں ہماری تنظیم صرف تین دن سے بھی کم وقفے میں ۲۰لاکھ سیوم سیوکوں (کارکنوں) کو اکٹھا کر کے میدان جنگ میں لا سکتی ہے، جب کہ فوج کو ’لام بندی‘ (اپنے سپاہیوں کی تیاری) میں کئی ما ہ درکار ہوتے ہیں‘‘۔ دراصل وہ یہ بتا رہے تھے، کہ آرایس ایس کی تنظیمی صلاحیت اور نظم و ضبط فوج سے بدرجہا بہتر ہے۔
معروف مصنف اور قانون دان اے جی نورانی نے حال ہی میں اپنی ۵۰۰صفحات پر مشتمل جامع، تحقیقی اور گہری تصنیف A Menace to India The RSS:میں اس تنظیم کے حوالے سے کئی انکشافات کیے ہیں۔ اس کتاب کو لیفٹ ورڈبکس نے مارچ ۲۰۱۹ء میں شائع کیا ہے۔اگرچہ بی جے پی کے لیڈر روز مرہ کے فیصلے کرنے میں آزاد ہوتے ہیں، مگر اہم فیصلوں کے لیے ان کوآرایس ایس سے اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔ بی جے پی میں سب سے طاقت ور آرگنائزنگ جنرل سیکرٹری آر ایس ایس ہی کا نمایندہ ہوتا ہے۔ آر ایس ایس کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ ایک خاص پوزیشن کے بعد صرف غیر شادی شدہ کارکنان کو ہی اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی اہلیہ جسودھا بن کو شادی کے چند سا ل بعد ہی چھوڑ دیاتھا، یعنی آر ایس ایس کی پوری لیڈرشپ ’کنواروں‘ پر مشتمل ہے۔
آر ایس ایس کے سب سے نچلے یونٹ کو ’شاکھا‘ کہتے ہیں۔ ایک شہر یا قصبے میں کئی ’شاکھائیں‘ ہوسکتی ہیں۔ ہفتہ میں کئی روز دہلی کے پارکوں میں یہ ’شاکھائیں‘ دفاعی اور جارحانہ مشقوں کے ساتھ ساتھ لاٹھی ، جوڈو، کراٹے اور یوگا کا اہتمام کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ورزش کے ساتھ ساتھ یونٹ کا انچارج ذہن سازی کا کام بھی کرتا ہے۔آر ایس ایس کے سربراہ کو ’سرسنگھ چالک‘ کہتے ہیں اور اس کی مدد کے لیے چار ’راشٹریہ سہکرواہ‘ یعنی سیکرٹری ہوتے ہیں۔ اس کے بعد یہ چھے تنظیمی ڈھانچوں پر مشتمل ہے۔ جن میں: کیندریہ کاریہ کاری منڈل، اکھل بھارتیہ پرتیندی سبھا، پرانت یا ضلع سنگھ چالک، پرچارک، پرانت یا ضلع کاری کاری منڈل اور پرانت پرتیندی سبھا شامل ہیں۔ پرانت پرچارک علاقے یا ضلع کا منتظم ہوتا ہے، اس کا غیرشادی شدہ یا گھریلو مصروفیات سے آزاد ہونا لازم ہوتا ہے۔ بی جے پی کی اعلیٰ لیڈرشپ میں فی الوقت وزیراعظم مودی اور صدر امیت شاہ آرایس ایس کے کارکنان رہے ہیں۔
اے جی نورانی کے بقول: ’’اس تنظیم کی فلاسفی ہی فرقہ واریت، جمہوریت مخالف اور فاشزم پر استوار ہے ۔ سیاست میں چونکہ کئی بار سمجھوتوں اور مصالحت سے کام لینا پڑتا ہے، اس لیے اس میدان میں براہ راست کودنے کے بجاے، آر ایس ایس نے ۱۹۵۱ء میں جَن سنگھ اور پھر ۱۹۸۰ء میں بی جے پی تشکیل دی‘‘۔ بی جے پی پر اس کی گرفت کے حوالے سے نورانی کا کہنا ہے کہ: ’’آر ایس ایس کے ایما پر اس کے تین نہایت طاقت ور صدور ماولی چندر ا شرما، بلراج مدھوک اور ایل کے ایڈوانی کو برخاست کیا گیا۔ ایڈوانی کا قصور تھا کہ ۲۰۰۵ء میں کراچی میں اس نے بانیِ پاکستان محمد علی جناح کو ایک عظیم شخصیت قرار دیا تھا‘‘۔
نورانی صاحب کے بقول: ’’آر ایس ایس کے تقریباً ۱۰۰سے زائد شعبہ جات الگ الگ میدانوں میں سرگرمِ عمل ہیں۔ جیسا کہ سیاسی میدان میں بی جے پی، حفاظت یا سکیورٹی کے لیے (بالفاظ دیگر غنڈا گردی کے لیے) بجرنگ دل، مزدورں یا ورکروں کے لیے بھارتیہ مزدور سنگھ، دانش وروں کے لیے وچار منچ، غرض یہ کہ سوسائٹی کے ہر طبقے کی رہنمائی کے لیے کوئی نہ کوئی تنظیم ہے۔ حتی ٰکہ پچھلے کچھ عرصے سے آر ایس ایس نے ’مسلم راشٹریہ منچ‘ اور جماعت علما نامی دو تنظیمیں قائم کرکے انھیں مسلمانوں میں کام کرنے کے لیے مختص کیا ہے۔ گذشتہ انتخابات کے دوران یہ تنظیمیں کشمیر میں خاصی سرگرم تھیں۔ان سبھی تنظیموں کے لیے آر ایس ایس کیڈر بنانے کا کام کرتی ہے، اور ان کے لیے اسکولوں اور کالجوں ہی سے طالب علموں کی مقامی شاخوں کے ذریعے ذہن سازی کی جاتی ہے۔ اس وقت کُل شاخوں کی تعداد کم وبیش۸۷۷ ۸۴, ہے۔ گذشتہ برس ۲۰سے ۳۵سال کی عمر کے ایک لاکھ افراد تنظیم میں شامل ہوئے۔ بھارت کے ۸۸ فی صد بلاک میں یہ تنظیمیں پھیل چکی ہیں، جو ملک اور بیرون ملک کے مختلف مقامات پر ہندوؤں کو انتہاپسندانہ نظریاتی بنیاد پر جوڑنے کا کام کررہی ہیں۔
’’بھارت سے باہر کے ممالک میں ان کی ۳۹ممالک میں شاخیں ہیں۔ یہ شاخیں ’ہندو سوئم سیوک سنگھ‘ (HSS)کے نام سے کام رہی ہیں۔بھارت سے باہر آر ایس ایس کی سب سے زیادہ شاخیں نیپال میں ہیں۔ پھر امریکا میں اس کی شاخوں کی تعداد۱۴۶ ہے اور برطانیہ میں ۸۴شاخیں ہیں۔ یہ کینیا کے اندر بھی کافی مضبوط پوزیشن میں ہے اور ان کا دائرۂ کار پڑوسی ممالک تنزانیہ، یوگنڈا، موریشس اور جنوبی افریقا تک پھیلا ہوا ہے۔دل چسپ بات یہ ہے کہ ان کی پانچ شاخیں مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک میں بھی ہیں۔ چوں کہ عرب ممالک میں جماعتی اور گروہی سرگرمیوں کی کھلی اجازت نہیں ہے، اس لیے وہاں کی شاخیں خفیہ طریقے سے گھروں تک محدود ہیں۔ بتایا جاتا ہے، کہ بابری مسجد کی مسماری اور رام مندر کی تعمیر کے لیے سب سے زیادہ چندا خودعرب ممالک ہی سے آیا تھا۔ فن لینڈ میں ایک الیکٹرانک شاخ ہے، جہاں ویڈیو کیمرے کے ذریعے ۲۰ممالک کے افراد جمع ہوتے ہیں، حالاں کہ ان ممالک میں آر ایس ایس کی باضابطہ شاخ موجود نہیں ہے۔ بیرون ملک آر ایس ایس کی سرگرمیوں کے انچارج رام مادھو اس وقت بی جے پی کے قومی جنرل سیکریٹری بھی ہیں۔ وہی کشمیر امور کو بھی دیکھتے ہیں، اور وزیراعظم مودی کے بیرونی دوروں کے دوران بیرون ملک مقیم بھارتیوں کی تقاریب منعقد کراتے ہیں‘‘۔
آر ایس ایس کے ایک مرکزی لیڈر سے گفتگو کے دوران مَیں نے پوچھا کہ: ’مسلمان، جو بھارت کے صدیوں سے رہنے والے شہری ہیں، ان کے بارے میں آپ کی کیا راے ہے‘؟ تو ان کا کہنا تھا کہ: ’مسلمانوں سے ان کو کوئی شکایت نہیں ہے، اگر وہ ہندو جذبات کا خیال رکھیں‘۔ میں نے پوچھا کہ: ’ہندو جذبات سے آپ کی کیا مراد ہے؟‘ توان کا کہنا تھاکہ: ’ہندو کم و بیش ۳۲کروڑدیو ی دیوتائوں پر یقین رکھتے ہیں۔ ہمارے لیے یہ کوئی ناک کا مسئلہ نہیں کہ ہم پیغمبرؐاسلام کی بھی اسی طرح عزت افزائی کرنا چاہتے ہیں، مگر مسلمان اس کی اجازت نہیں دیتے، اور نہ اپنے یہاں کسی ہندو دیوی دیوتا کی تصویر یا مورتی رکھتے ہیں‘۔ اپنے دفتر کی دیوار پربابا گورو نانک اور گورو گوبند سنگھ کی لٹکتی تصویر اور کونے میں مہاتما بدھ اور مہاویر کی مورتیوںکی طرف اشارہ کرتے ہوئے، انھوںنے کہا کہ: ’دیگر مذاہب، یعنی سکھوں، بدھوں اور جینیوں نے ہندوئوں کے ساتھ رہنے کا سلیقہ سیکھا ہے، جو مسلمانوں کو بھی سیکھنا پڑے گا‘۔
’گجرات فسادات کے بعد ۲۰۰۲ء میں ایک مسلم وفد آر ایس ایس کے اُس وقت کے سربراہ کے سدرشن جی سے ملنے ان کے صدر دفتر ناگ پور چلا گیا جس میں اعلیٰ پایہ کے مسلم دانش ور شامل تھے۔ ملاقات کا مقصد ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی کو کم کرنے کے لیے انھیں قائل کرنا تھا۔ اس وفد کے ایک رکن نے بتایا: ’’جب ہم نے سدرشن جی سے پوچھا کہ کیا مسلمانوں اور ہندوؤں میں مفاہمت نہیں ہوسکتی ہے؟ کیا دوستانہ ماحول میں نہیں رہا جاسکتا ہے؟‘‘ جواب میں سدرشن نے مسلم وفد کو بتایا کہ: ’آر ایس ایس جیسی شدت پسند تنظیم، مسلمانوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرسکتی ہے، لیکن اس کے لیے شرط ہے۔ آپ لوگ(مسلمان)کہتے ہیں کہ اسلام ہی برحق اور سچا دین ہے، آپ یہ بات کہنا چھوڑ دیجیے اور کہیے کہ اسلام بھی سچا دین ہے تو ہماری آپ کے ساتھ مفاہمت ہوسکتی ہے‘۔ ’اسلام ہی حق‘ ہے، کے بجاے ’اسلام بھی حق‘ ہے، کا مطالبہ کرنا بظاہر ایک معمولی بات ہے اور یہ مطالبہ اب فرقہ پرست ہی نہیں ، بلکہ خود ساختہ لبرل مسلمانوں کی طرف سے بھی کیا جاتاہے۔ تاہم، آرایس ایس اُس وفد کواس بات پر قائل نہیں کرسکی کہ وفد کے تمام لوگ دینی علوم سے واقفیت رکھتے اور یہ جانتے تھے کہ ا س مطالبے کو ماننے سے ان کے ایمان کا کیا حشر ہوگا۔