نظریاتی تحریکات کو اکثر ایسے مواقع پیش آتے ہیں، جب دعوتی میدان میں یا بعض اوقات سیاسی محاذ پر متوقع کامیابی حاصل نہیں ہوتی اور تحریک کے ہمدرد اور بہی خواہ ہی نہیں خود اس کے کارکن اور ذمہ دار افراد بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ کمی کمزوری کہاں ہے؟___ ہماری اپنی دعوت میں، ہمارے طریقِ دعوت میں ،ہماری شہرت اور عوامی تصویر میں ،عوام الناس کی عقل و فہم اور تعلیم میں، یا ہمارے اسلوب دعوت اور عوامی ذہن و مسائل کے صیحح طور پر سمجھنے میں۔
یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ انسان اپنی کامیابی کے نتیجے میں، اپنی قوت پر نازاں ہوتا ہے اور ناکامی سے اعصابی تناؤ اورمایوسی کا شکار ہوتا ہے۔تاہم، ایسے مواقع پر خود احتسابی اور رُک کر اپنا جائزہ لینا عملِ خیر ہے، جو مستقبل کی حکمت عملی وضع کرنے میں مددگار ہوتا ہے۔
پاکستان میں تحریک ِ اسلامی کی تاریخ کے دوران کئی بار ایسے مواقع آئے، جب اس نے رُک کر یہ غور کیا کہ: کیا وہ اپنے مقصد اور نصب العین پر قائم ہے یا کہیں انحراف کے کچھ پہلو رُونما تو نہیں ہورہے ہیں؟ پھر یہ سوال بھی زیربحث آیا کہ: کیا اس کا طریق کار درست خطوط پر جاری و ساری ہے یا اس میں کسی تبدیلی کی ضرورت ہے؟
جماعت اسلامی کو اس کے قیام کے تقریباً ۱۶سال بعد اس نوعیت کا ایک مرحلہ پیش آیا۔ چنانچہ ۱۹۵۷ء میں اس کے بعض ذمہ دار ارکان نے یہ محسوس کیا کہ: ملکی سیاست میں براہِ راست حصہ لینے سے شاید جماعت اپنے ہدف سے ہٹ گئی ہے۔اس صورت حال پر داعیِ جماعت اسلامی نے کُل پاکستان اجتماعِ ارکان میں تمام شرکا کے سامنے اپنا موقف پیش کیا، اور جو ارکان اس راے سے اختلاف رکھتے تھے، انھیں بھی اپنی پوری بات تفصیل سے بیان کرنے کا پورا موقع دیا۔ اس طرح غور و فکر اور تبادلۂ خیالات کے بعد استصواب راے ہوا تو داعیِ تحریک کی پیش کردہ قرارداد کے حق میں ۹۲۰؍ ارکان نے اور اس سے اختلاف کرتے ہوئے ۱۵؍ ارکان نے راے دی۔
جولائی ۲۰۱۸ء میں قومی انتخابات کے نتائج پر تحریکی قیادت نے اس صورت حال کی اصلاح کے لیے کارکنوں اور ہم خیال افراد سے اجتماعی ملاقاتیں کیں۔ مختلف مقامات پر اجتماعات میں سوال و جواب کی نشستوں کا اہتمام کیا، تو اس دوران میں یہ سوال کسی نہ کسی شکل میں سامنے آیا کہ: ’’ہمیں سیاست میں حصہ لینا چاہیے یا حصہ نہیں لینا چاہیے؟‘‘ مولانا مودودی نے سیاست اور غیرسیاست کا جواب ۹؍اپریل ۱۹۴۵ء کو اس طرح دیا تھا:
ہماری دعوت کے متعلق عام طور پر جو یہ بات کہی جاتی ہے، وہ یہ ہے کہ ہم حکومتِ الٰہیہ کے قیام کی دعوت دیتے ہیں۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حکومتِ الٰہیہ سے مراد محض ایک سیا سی نظام ہے اور ہماری غرض اس کے سوا کچھ نہیں کہ موجودہ نظام کی جگہ وہ مخصوص سیاسی نظام قائم ہو، پھر چوں کہ اس سیاسی نظام کے چلانے والے لا محالہ وہی مسلمان ہوں گے، جو اس کے قیام کی تحریک میں حصہ لے رہے ہوں۔ اس لیے خود بہ خود اس تصور میں سے یہ معنی نکل آتے ہیں یا ہوشیاری کے ساتھ نکال لیے جاتے ہیں کہ ہم محض حکومت چاہتے ہیں۔ اس کے بعد ایک دین دارانہ وعظ شروع ہو تا ہے اور ہم سے کہا جاتا ہے کہ: ’’تمھارے پیش نظر محض دنیا ہے ، حالاںکہ مسلمان کے پیش نظر دین اور آخرت ہونی چاہیے‘‘___ اگر کوئی شخص ہمارے لٹریچر کو کھلے دل کے ساتھ پڑھے، تو بہ آسانی یہ بات کھل سکتی ہے کہ ہمارے پیش نظر صرف ایک سیاسی نظام کا قیام نہیں ہے بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ پوری انسانی زندگی___ انفرادی اور اجتماعی___ میں وہ ہمہ گیر انقلاب رُونما ہو جو اسلام رُونما کرنا چاہتا ہے۔
اگر ہم اپنی دعوت کو مختصر طور پر صاف اور سیدھے الفاظ میں بیان کرنا چاہیں تو یہ تین نکات پر مشتمل ہوگی:
اسی بات کو ۱۹۵۷ء کے خصوصی اجتماعِ ارکان میں مولانا مودودی نے اپنی مفصل تقریر میں بیان فرمایا، اور بتایا کہ: جماعت اسلامی کی دعوت کے چار نکات: (۱) تطہیر افکار و تعمیر افکار (۲)صالح افراد کی تلاش و تنظیم و تربیت (۳)اجتماعی اور معاشرتی اصلاح کی سعی، اور (۴)نظام حکومت کی اصلاح کے لیے جمہوری ذرائع سے منظم کوشش___ یہ نکات کسی وقتی ضرورت کی بنا پر وجود میں نہیں آئے، بلکہ قرآن و سنت رسول ؐاور خلفاے راشدینؓ کے اسوہ کا تحقیقی مطالعہ کرنے کے بعد متعین کیے گئے ہیں۔ قیامِ پاکستان سے قبل حالات میں چوتھے مقصد کے لیے نکلنے کا موقع نہ تھا، لیکن قیامِ پاکستان اور ’قراردادِ مقاصد‘ کے منظور ہونے کے بعد جب یہ موقع ملا، تو بھرپور انداز میں دینی اور ملکی ترجیحات کی روشنی میں بروے کار لایا گیا۔
ایک نظریاتی، اصلاحی اور دعوتی جماعت جو ان چار بنیادی اجزا کو بنیادی اہمیت دیتی ہو، یعنی: تطہیر افکار اورتعمیرافکار، تعمیر سیرت وکر دار ، تنظیم افراد اور تبدیلی امامت___ اسے محض ایک سیاسی جماعت نہیں کہا جاسکتا، نہ اسے محض ایک دعوتی جماعت کہا جا سکتا ہے۔ اس کی ساخت اُن تمام سیاسی جماعتوں سے مختلف ہوتی ہے، جن کے بنیادی مقاصد، اہداف میں تعمیر کردار اور تعمیر افکار کو مرکزیت حاصل نہیں ہوتی، بلکہ وہاں پر جہاں مرکزیت شخصی اور گروہی مفادات کو حاصل ہوتی ہے ، نیز سیاسی جماعت کے قائد سے غیر مشروط وفاداری ہی کی بنیاد پر سیاسی جدوجہد ہوتی ہے، اور ان سب کا مفاد صرف اقتدار کا حصول ہوتا ہے۔
ایک اصلاحی دعوتی جماعت کی منزلِ مقصود محض سیاسی اقتدار نہیں ہوتا بلکہ یہ اس کے اصل مقصد کے حصول کا ایک ذریعہ ہوتا ہے۔ جن مقامات پر قیادت کا حصول حالات کی بنا پر ممکن نظر نہ آتا ہو، وہاں بھی اقامت دین کے یہ چار عناصر اس کا تشخص برقرار رکھتے ہیں ، البتہ چوتھے عنصر کے لیے کوشش کی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں تبدیلیِ قیادت کی عملی جدوجہد پروان چڑھ سکے۔اور جب اور جس حد تک حالات اس کی اجازت دیں، اس میدان میں سرگرم ہوا جاتا ہے۔ ان چاروں اجزا پر مناسب تناسب کے ساتھ بیک وقت عمل کی کوشش کی جاتی ہے، البتہ اس راہ میں توازن کا اہتمام ضروری ہے اور اگر توازن برقرار نہ رہے تو ترقی کا عمل متا ثر ہوتا ہے۔
یہ چار عناصر نہ تو زمانے کی پیداوار ہیں، اور نہ کسی ایک فرد کے ذہن کی تخلیق ہیں بلکہ جو متلاشیِ حق خلوصِ نیت کے ساتھ قرآن سے ہدایت طلب کرے گا اور سیرت پاکؐ پر غور کرے گا، وہ انھی چار عناصر تک پہنچے گا۔ یہی وجہ تھی کہ سیّد ابوالاعلیٰ مودودی مرحوم اور حسن البنا شہید، جو کبھی زندگی میں نہ ملے اور نہ خط کتابت کی اور نہ ایک دوسرے کی تحریروں کا مطالعہ کیا، لیکن دونوں نے انھی چار عناصر کو اپنی تحریکات کا ستون قرار دیا۔
انسانی ذہن جب بھی دعوت اسلامی کی کامیابی یا ناکامی کو، عددی پیمانے یا سیاسی کامیابی سے وابستہ کر دیتا ہے تو پھر اس کا اعتماد اپنی دعوت کے حق ہونے اور طریق کار کے اسوۂ حسنہ پر مبنی ہونے میں بھی متزلزل ہوناشروع ہوجاتا ہے۔ بلاشبہہ اگر تحریک اسلامی محض ایک سیاسی جماعت ہوتی تو نعروں کے بدلنے سے نتائج پر فرق پڑ سکتا تھا، لیکن جب تک وہ ایک ہمہ گیر دعوتی و اصلاحی جماعت ہے، اسے ایسی کسی نئی شناخت (Branding)کی ضرورت نہیں۔البتہ ، اسے انتہائی بے لاگ اور ناقدانہ خود احتسابی کی ہمیشہ ضرورت رہے گی اور اسی میں اس کے لیے خیر ہوگی۔
بلاشبہہ برقی ابلاغ عامہ آج عوام کی راے سازی میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ پھر ایک واضح ثقافتی یلغار: این جی اوز کے تعلیمی منصوبوں اور ابلاغ عامہ کے اشتہارات، ڈراموں اور موسیقی کے پروگراموں کے ذریعے ہو رہی ہے۔ ساتھ ہی سوشل میڈیا کے ذریعے بے راہ روی، فکری انتشار، مذہب سے دُوری، حتیٰ کہ دہریت کی طرف دھکیلا جا رہا ہے اور آزادیِ اظہار کے نام پر یہ سارا کام بغیر کسی روک ٹوک کے کیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا کی اس اثر انگیزی اور کثرتِ استعمال کی بنا پر بعض تحریکی ہمدرد بھی یہ سوچنے لگے ہیں کہ اگر اپنے فکری مخالفین کا دوبدو مقابلہ نہیں کیا جاتا تو سوشل میڈیا پر مخالفین ہی کا بیانیہ چھایا رہے گا۔
یہ بات بظاہر درست معلوم ہوتی ہے کہ موعظۂ حسنہ محض تلقین اور تحریر تک محدود نہیں ہونی چاہیے۔ اگر آج برقی ابلاغ عامہ کی سہولت ہم اپنا لیں گے تو ہماری بات لاکھوں افراد تک پہنچ جائے گی۔ یہ تمنا لازماًقابل احترام ہے، لیکن اس کے باوجود تجربہ بتاتا ہے کہ ذاتی ربط اور براہِ راست (face to face) تبادلۂ خیال کا کوئی متبادل نہیں ہو سکتا۔پھر یہ پہلو بھی قابلِ غور ہے کہ کیا دعوت کا مطلب بہت سے لوگوں تک تحریک یا لیڈر کے نام کا پہنچنا ہے یا دعوت کا مطلب تربیتِ اخلاق اور تعمیر سیرت و کردار کا نام ہے، اورکیا یہ نصب العین صرف سوشل میڈیا سے حاصل ہو سکتا ہے؟ سوشل میڈیا کا تیز رفتاری سے لاکھوں افراد تک پیغام پہنچانا اپنی جگہ اہم سہی، لیکن کیا اس کے ذریعے نفس مضمون کی وضاحت اور وہ تشریح ہو سکتی ہے جوفرد اور فرد کے براہِ راست رابطے میں پائی جاتی ہے؟
دعوت ایک ایسا ہمہ پہلو عمل ہے کہ اس کے علاوہ کوئی چیز ایک فرد سے ذاتی رابطے کا بدل نہیں ہوسکتی۔ ذاتی رابطہ ہی انسان کو دوسرے انسان کی فکر اور سیرت سے متاثر کرتا ہے۔ برقی ذرائع ابلاغ ایک فرد کی قوت فہم، تجزیہ و تحقیق کے بجاے جلد نتائج کی عادت کو پروان چڑھاتے ہیں اور فرد میں توجہ دینے کا پیمانہ انتہائی مختصر ہو جاتا ہے ۔
موجودہ ماحول میں اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ توجہ کے ساتھ کتب بینی کے رواج کو زندہ کیا جائے، سفری لائبریری اور مطالعہ گھر قائم کیے جائیں اور تحریکی لٹریچر کو جدید ابلاغی آلات کے ذریعے بھی سمجھایا جائے۔ مثال کے طور پر ممکن ہو تو کسی کتاب کے ایک باب یا ۲۰،۲۵صفحات کا مطالعہ کرنے کے بعد مطالعے کی بنیاد کو سامنے رکھ کر پانچ سے سات منٹ کا پاورپوائنٹ حاصلِ مطالعہ تیار کیا جائے۔ اگر اجتماعی مطالعے کی صورت ہے تو سامعین کو سوالات کی دعوت دی جائےاور پھر ان سوالوں کے جوابات اجتماعی طور پر تلاش کیے جائیں۔
بعض جگہ یہ کہا جاتا ہے کہ: ’’دعوت اور تنظیم کو مقبول بنانے کے لیے دعوتی اور سیاسی کاموں کو دو الگ الگ شعبوں میں بانٹ دیا جائے۔ایک شعبہ تطہیر افکار اور تعمیر سیرت و کردار میں مصروف ہو اور دوسرا شعبہ سیاسی مہم جوئی کے لیے وہ تمام حربے استعمال کرے جو سیاسی جماعتیں استعمال کرتی ہیں، تاکہ تبدیلیِ قیادت میں کامیابی جلد ازجلد حاصل کی جاسکے‘‘۔
ایسی تحریک کہ جو دین کے جامع تصور کی علَم بردار ہو،اسے دوسری سیاسی جماعتوں پر قیاس کرنا ہی بنیادی غلطی ہوگی۔دین کے جامع تصور کے بجاے دین و سیاست کی علیحدگی اختیار کرنا نہ صرف تحریک کی شناخت تبدیل کرنا ہوگا بلکہ اس کی بنیادی فکر سے بھی انحراف ہو گا۔البتہ، فرق اگر پیدا ہوسکتا ہے تو صرف اس بنیاد پر کہ دین کے ہمہ گیر تصور کے ساتھ عصری مسائل پر دلائل و نصوص پر مبنی موقف کو پیش کیا جائے، تا کہ عوام کو دوسری سیاسی جماعتوں کے موقف اور تحریک کے موقف میں واضح فرق نظر آئے۔
سوشل میڈیا کے ذریعے دعوت عام کرنا ایک مثبت تجویز ہے، لیکن دعوتِ اسلام میں ذاتی کردار اور شخصیت کا عنصر سب سے زیادہ اہم ہے۔ اسی لیے انبیا ؑ کو مجسمِ دعوت بنا کر بھیجا گیا کہ ان کا ہر عمل وہ مسکراہٹ ہو یا غصے پر قابو پانا، وہ اہل خانہ کے ساتھ نرمی و احترام ہو یا شرک اور کفر کے خلاف پوری قوت سے جہاد کرنا، وہ تجارتی معاملات میں ایمان داری اور شفافیت ہو یا عہد کی پابندی نبھانا، غرض شخصیت کا اعلیٰ معیار لوگوں کے سامنے موجود ہو۔ ان انبیاکرام ؑ کے پیروکاروں کو اسی طرح لوگوں کے سامنے دعوت کا نمونہ بننا ہے۔ یہ مقصد، برقی پیغام رسانی سے چاہے وہ کتنے دل فریب چارٹوں پر مشتمل کیوں نہ ہو کماحقہ‘ حاصل نہیں ہو سکتا۔ ویسے بھی اس وقت سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی اکثر معلومات کا غیرمصدقہ ہونا واضح ہے۔ ان خامیوں کے باوجود اس کا محدود استعمال تو ہونا ہی چاہیے، لیکن یہ استعمال کسی بھی نظریاتی اور اصلاحی جماعت کو لٹریچر سے بے نیاز نہیں کر سکتا۔ کتاب اور معلمِ کتاب دو ایسے قرآنی اصول ہیں، جو وقت اور مکان کی قید سے آزاد دعوت اسلامی کے بنیادی مقصد کو پورا کرتے ہیں اور جن کا تذکرہ قرآن کریم کے صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔ تذکیر بالقرآن اور تذکیر بالسیرۃ النبیؐ کا اسوہ اور الکتاب کی تعلیم ہی دین ہے۔ یہی دین کی عالم گیر دعوت اور دین کی مکمل شکل ہے۔
نئی رُوپ کاری (re-branding ) ان اداروں کے لیے ضروری ہوتی ہے، جن کا وجود منڈی کی معیشت کا محتاج ہوتا ہے۔ وہ عملاً خریدار یا صارف کو اپنا ’والی وارث‘ قرار دیتے ہوئے، وہی رنگ ڈھنگ اختیار کرتے ہیں، جو ان کے مَن کو بھاتا ہو۔ تاجر اور صنعت کار کے لیے صارف کی خواہش اور طلب ہی اصل ’حق‘ ہوتا ہے۔ اسی لیے بنک ہوں یا دواساز ادارے، کپڑے فروخت کرنے والے ہوں یا سامانِ آرایش بنانے والے، وہ اپنا تجارتی نشان (برانڈ) اور تعارفی نعرے ایسے رنگوں کے انتخاب سے پیش کرتے ہیں جو جاذبِ نگاہ ہو۔
جب کہ، دعوتِ قرآن و سنت ابدی اصولوںکی صورت میں ہمارے پاس اپنی مکمل ترین شکل میں آج بھی موجود ہے۔ اس میں کوئی تعلیم نہ پرانی ہوئی ہے نہ اس کی حقانیت میں کوئی کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کی کشش اور اثر آج بھی ایک طالبِ حق کے لیے ویسا ہی ہے، جیسا دورِ رسالتؐ میں مکّہ اور مدینہ کے ماحول میں تھا۔
کتاب اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم خود یہ بات سمجھاتے ہیں کہ اس دعوت کو کس موقعے پر ، کس طرح ، کن الفاظ میں اور کس فرد کےسامنے رکھا جائے۔ اگر موعظہ(communication ) ہو تو وہ احسن ہو ، اور اگر جدال (Dialogue ) ہو تو وہ بھی احسن ہو ۔ اگر حکمت کا استعمال ہو تو وہ بھی اعلیٰ ترین ہو۔ بات لازماً کھری اور دل نشین ہو، کھردری نہ ہو۔ بات کرنے والا تھانے دار بن کر بات نہ کرے ، نہ اس کے اظہارِ بیان اور طرزِعمل اور طرزِمعاشرت سے برتری کا اظہار ہو۔ وہ ہرلمحے شگفتہچہرے کے ساتھ (جو اسوہ نبویؐ ہے )مختصر اور ہمدردانہ (الدین النصیحہ) بات کرے۔ دعوت اور طریق دعوت کو دل سوزی سے پیش کرنے کے باوجود اگر کوئی بات نہ مانے تو اسے چھوڑ کراس سے کٹ نہ جائے، یعنی مایوسی کا شکار ہونے کے بجاے مسلسل اپنا کام جاری رکھے، حتیٰ کہ ربِّ کریم خود ان افراد کے دلوں کو حق کے لیے کھول دے۔ایسے موقعے پر بھی اپنی بندگی اور حلم اور خاکساری کو برقرار رکھتے ہوئے اللہ رب العالمین سے استغفار طلب کرتا رہے اور اسے اپنا کارنامہ یاقیادت کا کرشمہ، حکمت عملی کی برتری ، اپنے منصوبے کی کامیابی نہ سمجھے بلکہ اللہ تعالیٰ کی عنایت سمجھے۔
دعوت و فکر میں کامیابی کا پیمانہ ووٹ نہیں ہے بلکہ اپنی جانب سے مکمل کوششیں کرنا اور اللہ تعالیٰ سے مسلسل استعانت کی طلب اور ہمہ وقت امید پر قائم رہنا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت سے اقتدار مل جاتا ہے، جب بھی اسے کامیابی قرار نہیں دیا جا سکتا کہ اس راہ میں اصل کامیابی تو آخرت کی کامیابی ہے ، سیاسی نتائج کامیابی کا حتمی معیار نہیں ہیں۔ کارکردگی کے معیارات للہیت ، تعلق باللہ ، بندگیِ رب، احتسابِ نفس، عدل و انصاف کا قیام اور اپنے دائرۂ اختیار میں بے راہ روی کو دُور کرنا ہے۔ معروف کا قائم کرنا، اور منکر کا کم سے کم ہو جانا ہے۔ یہاں بھی یہ شرط نہیں ہے کہ ۱۰۰فی صد افراد اہل حق بن جائیں ، حتیٰ کہ ریاست ِمدینہ جیسے معاشرتی عدل کے باوجود منافقین اور فاسقین کی ایک تعداد موجود رہی۔ اس لیے کامیابی کا پیمانہ محض افراد کی گنتی یا انتخابات میں ووٹ کی تعداد نہیں ہے بلکہ ہماری اپنی مسلسل کوشش اور جدوجہد کا صحیح معنوں میں ایثار و قربانی ، درست سمت اور مستقل مزاجی پر مبنی ہونا ہے۔
جن اُمور پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے ان میں اوّلین چیز خود اس لٹریچر کا مطالعہ ہے، جو اس تحریک کو شروع کرتے وقت لکھا گیا تھا۔ یہ خیال بے بنیاد ہے کہ انقلابی اور اصولی تحریریں وقت گزرنے کے ساتھ ماضی کا قصہ بن جاتی ہیں۔ اگر آج بھی کوئی طالب علم یہ خواہش رکھے کہ وہ فقہ اسلامی میں کوئی نئی راہ نکالے تو اسے سب سے پہلے مقاصد ِ شریعت اور فقہ کے ان اصولوں کو سمجھنا ہوگا کہ جن کی بنیاد خلفاے راشدینؓ اور صحابہ کرامؓ نے رکھی، اور جن کی روشنی میں تمام عظیم المرتبت فقہا، مجدّدین اور صلحاے اُمت نے ہر دورمیں فکری اور عملی رہنمائی کی۔ اس سلسلے میں امام مالک، امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف، امام محمد، امام ابن حنبل، امام شافعی، امام غزالی، امام ابن تیمیہ، امام شاہ ولی اللہ وغیرہ کے قرآن و سنت پر مبنی روشن کردہ چراغ آج بھی مینارئہ نور ہیں۔
ایسے ہی تحریک اسلامی کی اخلاقی بنیادیں کیا ہیں ، اس کا مقصدِ تاسیس کیا ہے، اس کا طریق کار کیا ہونا چاہیے؟ یہ سب موضوعات سنجیدہ مطالعے اور غوروفکر کا مطالبہ کرتے ہیں، جن سے کوئی لیڈر اور کارکن بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ تحریک اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل اس لحاظ سے ایک انتہائی اہم دستاویز ہے، جو طے کرتی ہے کہ کس طرح ایک دعوتی و اصلاحی تحریک صبر و استقامت اور حکمت عملی کے ساتھ اپنا سفر رواں دواں رکھتی ہے اور اس کا یہ سفرکس طرح ان چار اجزا کے متناسب طور پر اختیار کرنے سے طے ہوسکتا ہے۔
قیامِ پاکستان کے بعد سیاسی سرگرمی میں حصہ لینا جماعت کی دعوت میں کوئی اضافہ نہ تھا اور نہ تحریف۔ یہ خیال ایک بے بنیاد مفروضہ ہے کہ قیامِ پاکستان سے پہلے تو جماعت اسلامی ایک دعوتی جماعت تھی، اسی لیے متعدد صاحبانِ علم اس میں شامل ہو گئے تھے، لیکن قیامِ پاکستان کے بعد جب جماعت نے اصلاحِ معاشرہ کا فریضہ ادا کرنا شروع کیا تو وہ سیاسی جماعت بن گئی، تو اس لیے وہ احباب اس سے الگ ہو گئے۔ یہ درست بات نہیںہے۔ جماعت پہلے ہی دن سے اسلام کے مکمل نظامِ زندگی ہونے پر یقین رکھتی ہے۔ اس کے نزدیک اقامت دین ہرمسلمان اور بحیثیت مجموعی پوری اُمت مسلمہ کا مقصد ِ زندگی اور مقصد ِ وجود ہے اور یہی اس کی امتیازی شان ہے۔
ان معروضات کا دوسرا پہلو بہت زیادہ غور طلب ہے کہ کیا دعوت کے چار اجزا پر گذشتہ عشروں میں واقعی صحیح تناسب کے ساتھ کام کیا جاتا رہا ہے، یا سب سے زیادہ سرگرمیاں چوتھے جز پر مرتکز رہیں اور تطہیر افکار اور تعمیر افکار اور تعمیر سیرت و کردار کے باب میں کمی آگئی؟کیا اس ربع صدی میں جماعت کے پاس ایک مناسب تعداد ایسے افراد کی پیدا ہوئی ہے، جو اس فکری کام کو اعلیٰ سطح پر آگے بڑھا سکے ہوں؟
کیا ساٹھ اور ستّر کے عشرے کے بعد ایسے کارکن پیدا ہو سکے جو چودھری غلام محمد، نعیم صدیقی، چودھری رحمت الٰہی، پروفیسر عبدالحمید صدیقی ، سیّد سیاح الدین کاکاخیل، مولانا معین الدین، ڈاکٹر نذیر احمد شہید ،مولانا جان محمد بھٹو، مولانا گوہر رحمان، مولانا عبدالعزیز، چودھری غلام جیلانی، ڈاکٹرسیّداسعد گیلانی ، پروفیسر غلام اعظم، قاضی حسین احمد، خرم مراد وغیرہ کے خلا کو پُر کر سکتے ہوں؟ کیا جماعت سے وابستہ افراد کی معتدبہ تعداد اپنے مالی اور معاشرتی معاملات میں وہ رویہ اختیار کرسکی، جو تحریک کی پہلی اور دوسری نسل کے افراد نے برقرار رکھا تھا؟
اس کا یہ مطلب نہیں کہ جماعت میں خرابیاں در آئی ہیں، تاہم اس جانب متوجہ کرنا مطلوب ہے کہ بڑے اجتماعات کی حاضری سے دعوتی نفوذ کو جانچنا درست پیمانہ نہیں ہے۔تحریک اسلامی کا اصل سرمایہ سیرت و کردار کے حامل وہ افراد ہیں جو چاہے تعداد میں بہت کم ہوں لیکن عبادات اور سماجی زندگی کے معاملات میں سب سے افضل ہوں۔ ان میں بے لوثی، تعلق باللہ اور علمی صلاحیت سب سے زیادہ ہو۔ وہ نہ صرف قرآن و سنت اور سیرت بلکہ عالمی سیاست، معیشت اور جدید رجحانات سے براہِ راست واقف ہوں یا واقفیت حاصل کرنے کا شوق رکھتے ہوں اور ایک تعداد تو اجتہادی صلاحیت رکھتی ہو۔
سوچنے کا مقام یہ ہے کہ کیا ہم ماضی قریب میں ایسے افراد پیدا کر سکے جو بیسیوں افراد پر علمی اورانتظامی صلاحیتوں کے لحاظ سے غالب آسکتے ہوں؟ اگر ایسا نہیں ہو سکا تو اصل مسئلہ لیبل، نعرے اور برانڈنگ کا نہیں ہے بلکہ ان چار اجزا پر خود احتسابی کا ہے، اور اس کے نتیجے میں مؤثر منصوبہ بندی اور مردانِ کار کی تیاری کا ہے۔
تحریک کے چوتھے جز کا حصول اسی وقت ممکن ہے، جب ہم اوّلین تین اجزا کو مطلوبہ حد تک حاصل کریں۔ تحریک سے وابستگی شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنے کے مترادف ہے۔ تحریک کی دعوت کو جسم و روح کا جزو بنائے بغیر یہ خواہش کرنا کہ دعوت کا استقبال ہر طرف سے ہو، ایک خام خیالی ہے۔یہ سفر لمبا اور صبر آزما ضرور ہے ،لیکن جب تک اس طویل مرحلے سے نہ گزرا جائے، کامیابی عملی شکل اختیارنہیں کرسکتی۔
کوئی بھی فکری اور نظریاتی تحریک اسی وقت تک زندہ رہتی ہے جب تک اس کے تربیت یافتہ افراد ، تعمیر افکار اور تربیت اور مقصد سے والہانہ لگن کو اوّلیت دیتے ہیں۔ سیاسی موضوعات پر ایک عظیم تعداد میں جلسہ کر لینا، نہ دعوت کی مقبولیت کی علامت ہے نہ قیادت یا نعرے کی اثر انگیزی کا ثبوت۔ اصل کامیابی یہ ہے کہ وہ فکر نہ صرف ہم خیال کے دل و دماغ کو متاثر کرے بلکہ جو ابھی تک مخالفت کر رہا ہے، اسے غوروفکر کرنے پر مجبور کرے۔ اسی طرح آج اصل چیلنج یہ نہیں ہے کہ کسی معجزاتی انداز میں اپنی دعوت بڑی تعداد میں لوگوں تک پہنچادی جائے۔ آج اصل چیلنج تعمیرِ افکار کا ہے۔ مستشرقین اسلام کی نئی نئی تعبیرات گھڑتے اور خود اسلام کو تاریخ کا ایک دور قراردیتے ہوئے، Post Islamism جیسی اصطلاحات استعمال کر رہے ہیں۔ یہ کیسی بدقسمتی ہے کہ غیر مسلم ہی نہیں خود مسلمان دانش وَر بھی مغربی تقلید میں اس اصطلاح کا استعمال کر رہے ہیں۔اس چیلنج کو سمجھنا تحریک ِ اسلامی کی ذمہ داری ہے۔
یہ کام ایسے افراد تیار کرنے سے ممکن ہے کہ جو اسلام کے منشا کو مکمل طور پر سمجھنے اور جذب کرنے کے بعد تحریکی فکراور قرآنی پیغام کو آگے بڑھانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ یہ مسئلہ افراد کی کثرت کا نہیں ہے بلکہ پیغام کی تاثیر کا ہے۔ آج کے معاشی ، سیاسی ، معاشرتی ، ثقافتی اور تعلیمی مسائل پر تحریک کے موقف کو قرآن و سنت کے نصوص اور جدید فکر کے تنقیدی جائزے کے ساتھ پیش کرنا ہے۔ اس بنیادی کام کے بغیر لاکھوں افراد تک جدید برقی ذرائع سے محض اپنا نام پہنچانا تو ممکن ہے، لیکن اس کا نتیجہ صرف یہ ہو گا کہ یہ بات ایک کان سے سنی جائے اور دوسرے کان سے نکال دی جائے۔ دعوت کی اثر انگیزی اسی وقت ہو گی جب فرد کا فرد سے رابطہ ، تبادلۂ خیالات اور داعی کی شخصیت خود اپنے ہر عمل سے دعوت کا مرقع ہو۔ یہ کام آج بھی اسی طرح ہو سکتا ہے جس طرح جماعت اسلامی کی تاسیس کے بعد تک ہوتا رہا، اور جس کے لیے بعض ادارے بھی قائم کیے گئے۔ گویا کہ مسئلہ ترجیحات کا ہے۔ اگر ترجیح محض سیاسی کامیابی ہو گی تو یہ کام کبھی عملی شکل اختیار نہیں کرے گا۔ اگر ترجیح دعوت کے چاروں اجزاہوں گے تو یہ کام نہ صرف آسان ہو گا بلکہ اس کے نتائج جماعت کے سیاسی اثر(Impact)کی شکل میں ظاہر ہوں گے اور جماعت کی اثر انگیزی وقتی طور پر نہیں بلکہ دیرپا اور طویل المیعاد سطح پر ہو سکے گی۔