ایمان مغازی الشرقاوی


یہ حقیقی خوشی کا مقام ہے، ایسی خوشی جس کے سرور سے سینہ کھل جاتا ہے، اور نفس راحت پاتا ہے۔ یہ ایسی طویل اور وسیع و عریض دنیا و آخرت میں باقی رہنے والی فرحت ہے، جو ہمیشہ مومنوں کے ساتھ رہتی ہے، اور وہ کیوں اس کو محسوس نہ کریں، جب کہ انھوں نے اپنے دلوں کو   اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی اطاعت سے روشن کر لیا ہے، اور اپنے نفوس کو اس کی ہدایت کے فیض سے زینت دے دی ہے،اور اس کے احسان نے انھیں خوب صورت بنا دیا ہے۔
ایک بندئہ مومن خوش ہوتا ہے مگر، یہ قارون جیسی خوشی نہیں ہوتی کہ جسے خوش ہونے سے منع کرتے ہوئے کہا گیا تھا:

لَا تَفْرَحْ اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِيْنَ۝۷۶ (القصص۲۸: ۷۶) پھول نہ جا، اللہ پھولنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

اور نہ یہ اہلِ دنیا کی سی خوشی ہے، جو دنیا کی زینت پا کر خوش ہو جاتے ہیں:

وَفَرِحُوْا بِالْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۝۰ۭ وَمَا الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَا فِي الْاٰخِرَۃِ اِلَّا مَتَاعٌ۝۲۶ۧ (الرعد۱۳:۲۶) یہ لوگ دنیوی زندگی میں مگن ہیں، حالانکہ دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلے میں ایک متاعِ قلیل کے سِوا کچھ بھی نہیں۔

اور نہ یہ منافقین کی خوشی کی مانند ہے، جو بیٹھے رہ گئے اور اللہ اور اس کے رسولؐ سے بھاگ کر مسلمانوں کے لشکر سے پیچھے رہے، تو اللہ نے قیامت تک ان کے لیے مذمت لکھ دی اور فرمایا:

فَرِحَ الْمُخَلَّفُوْنَ بِمَقْعَدِہِمْ خِلٰفَ رَسُوْلِ اللہِ (التوبۃ۹:۸۱) جن لوگوں کو پیچھے رہ جانے کی اجازت دے دی گئی تھی وہ اللہ کے رسولؐ کا ساتھ نہ دینے اور گھر بیٹھے رہنے پر خوش ہوئے۔

اور نہ یہ اہلِ باطل کی باطل روی پر خوشی ہے جو تھوڑی دیر کو بلند ہوتے ہیں اور پھر بکھر کر زائل ہوجاتے ہیں:

ذٰلِكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَفْرَحُوْنَ فِي الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَبِمَا كُنْتُمْ تَمْـرَحُوْنَ۝۷۵ (المومن۴۰: ۷۵) یہ تمھارا انجام اس لیے ہوا ہے کہ تم زمین میں غیرِ حق پر مگن تھے، اور پھر اُس پر اِتراتے تھے۔

اور نہ یہ فرح (خوشی) اللہ کی نعمتوں کو پا کر پھول جانے والوں کی ہے، جو اس پر فخر کرتے ہیں،اور اللہ کے بندوں پر اپنی بڑائی قائم کرتے ہیں،اس کے شکر اور اپنے نفس کے تزکیے سے غافل ہوتے ہیں:

وَلَىِٕنْ اَذَقْنٰہُ نَعْمَاۗءَ بَعْدَ ضَرَّاۗءَ مَسَّـتْہُ لَيَقُوْلَنَّ ذَہَبَ السَّـيِّاٰتُ عَنِّيْ۝۰ۭ اِنَّہٗ لَفَرِحٌ فَخُــوْرٌ۝۱۰(ھود۱۱: ۱۰) اور اگر اس مصیبت کے بعد جو اس پر آئی تھی، ہم اسے نعمت کا مزا چکھاتے ہیں تو کہتا ہے میرے تو سارے دلدّر پار ہو گئے، پھر وہ پھولا نہیں سماتا اور اکڑنے لگتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ مومنوں کی فرحت کو کیا چیز ممتاز کرتی ہے، یہاں تک کہ اس فعل پر ان کی تعریف کی جاتی ہے اور وہ اس پر اجر پاتے ہیں؟
یہی وہ حقیقی فرحت ہے جس پر اللہ تعالیٰ بھی اپنے بندوں سے خوش ہوتا ہے، اور انھیں ثواب عطا کرتا ہے اور انھیں اس کی دعوت بھی دیتا ہے:

قُلْ بِفَضْلِ اللہِ وَبِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوْا۝۰ۭ ھُوَخَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُوْنَ۝۵۸ (یونس۱۰: ۵۸) اے نبیؐ، کہو کہ ’’یہ اللہ کا فضل اور اس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز اس نے بھیجی، اس پر تو لوگوں کو خوشی منانی چاہیے، یہ ان سب چیزوں سے بہتر ہے جنھیں لوگ سمیٹ رہے ہیں‘‘۔

ابن عباسؓ نے فرمایا: قرآن اللہ تعالیٰ کا فضل ہے، اور اس کی رحمت اسلام ہے۔ اور ان سے مروی ہے: قرآن اللہ کا فضل ہے، اور اس کی رحمت ہے کہ اس نے تمھیں اس کے حاملین میں بنایا(القرطبی)۔ پس، اللہ کی اس عظیم نعمت پر اس کی حمد ہے، اس نے اسلام کی ہدایت دی، اور قرآن سے رہنمائی عطا فرمائی،اور یہی بات اس کی حق دار ہے کہ مومن اس پر خوشیاں منائیں۔ اور قرآن کریم کی ایک آیت سیکھنا بھی مومنوں کو سرخ اونٹ پانے سے بڑھ کر خوشی عطا فرماتا ہے (سرخ اونٹ ملنا عربی ضرب المثل کے مطابق انتہائی قیمتی نعمت کا ملنا ہے)،یا جیسے انھیں سونے چاندی کے ڈھیر مل جائیں۔
ابنِ عاشور کہتے ہیں: اس سے اُخروی و دنیوی فضل مراد ہے۔ اُخروی فضل تو ظاہر ہے،  اور دنیوی فضل سے مراد کمال نفس، درست اعتقاد، اور دل کا کمال پانے کی کوشش کرنا، اور نیک اعمال کی جانب متوجہ ہونا ہے۔ یہ دنیا میں بھی راحت اور مسرور زندگی کا ذریعہ بنتاہے۔

مسلمان کی زندگی میں اطاعت کی فرحت

اطاعت کی خوشی مسلمان کی زندگی پر اچھے اثرات مرتب کرتی ہے، خواہ وہ عمر کے کسی بھی حصّے میں ہو۔یہ ہر روز دل کوتروتازہ رکھتی ہے،بلکہ ہر گھنٹے اور ہر منٹ، اور یہ بھی مبالغہ نہ ہو گا کہ اللہ کے ذکر کی فرحت ایسی ہے کہ بندے کو ہر سانس خوش رکھتی ہے۔ اور اس فرحت کا کیا کہنا جو خیر کے موسم میں فرحتوں سے ملاقات کرے، اور خیر پر خیر جمع ہو جائے، اطاعت پر اطاعت اور فضل پر فضل! جیسا کہ رمضان کے مبارک مہینے میں ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:

روزہ دار کے لیے دو فرحتیں ہیں، جو اسے خوش رکھتی ہیں: ایک افطار کی خوشی، جب وہ افطار کرے، اور دوسری رب سے ملاقات کے وقت خوشی!

مسلمان کو اسلام کا ہر رکن ادا کرتے ہوئے فرحت کا احساس ہوتا ہے۔ اسلام میں داخل ہونے کا دروازہ کلمۂ شہادت کی ادایگی ہے۔ اس سے زیادہ خوشی اور کس بات کی ہو گی کہ انسان عبودیت اور نجات کے دروازے میں داخل ہو گیا ہے، تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے مومن و مسلم بندوں میں شامل ہو جائے۔ وہ اللہ ،الملک، الحق، القوی کی بندگی کا شرف پاتا ہے۔ وہ بندے کو ذلت سے ہٹاکر بندگی کی عزت عطا کرتا ہے، اور کمزوری کے بعد اسے طاقت عطا فرماتا ہے۔ وہ اسے انسیت اور رضا کے دامن میں پناہ دیتا ہے، اور اس دروازے سے اس کے لیے خیر کے کئی دروازے کھول دیتا ہے، جس کی خوشی میں روح تک جھوم اٹھتی ہے۔
جیسا کہ ابن القیم فرماتے ہیں: ’’دل میں ایک غبار ہوتا ہے، جو اللہ کے دل میں آنے ہی سے دھلتا ہے، اور دل میں ایک وحشت ہوتی ہے، اور وہ تنہائی میں اللہ سے انسیت ہی سے ختم ہوتی ہے۔ اس میں غم بھی ہوتا ہے جو اس کی معرفت کے سرو ر اور صدقِ معاملہ ہی سے زائل ہوتا ہے۔ اس میں قلق بھی ہوتا ہے جو اس کے ملنے سے باقی نہیں رہتا اور بھاگ جاتا ہے۔ اس (دل)میں حسرتوں کے الاؤ بھی ہوتے ہیں، جنھیں اس کے احکام پر عمل کرنے اور اس کے نواہی سے باز رہنے سے بجھایا جا سکتا ہے۔ اس سے ملاقات کے وقت صبر کے احساس کو گلے لگانے سے، اور اس میں شدید طلب کا احساس بھی پایا جاتا ہے۔ اسے اسی صورت روکا جا سکتا ہے کہ وہ اور صرف وہی اس کا مقصود بن جائے۔ اس میں فاقہ بھی ہے، جسے اس کی محبت میں برداشت کیا جا سکتا ہے۔ اس کی جانب انابت اور رجوع اور ہمیشہ اس کا ذکر کرتے رہنا،اور اس سے اخلاص کی سچائی،اسے دنیا بھر کی دولت بھی دی جائے تو وہ اس فاقے کو اس پر ترجیح دے! (مدارج السالکین)

ادایگی نماز کے ساتھ فرحت

اسی طرح فرحتوں کا سلسلہ تسبیح کے دانوں کی طرح بقیہ ارکانِ اسلام میں بھی نظر آتا ہے۔ کلمۂ شہادت کے ساتھ روزانہ پانچ وقت کی نماز خوشیوں اور سرور کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ جب مسلمان اپنے رب سے سرگوشیاں کرتا ہے، اور نمازمیں اس کے سامنے خشوع سے کھڑا ہوجاتا ہے، پس اس کی روح پُر سکون ہو جاتی ہے، اس کا نفس ڈھیلا پڑ جاتا ہے، اور رب کی معیت کی نعمت پر سرشار ہوتا ہے۔ اور اس کے دل کی فرحتوں کا کیا کہنا ، جب ہر نماز اس کے گناہ اس سے دُور کر تی ہے اور انھیں جھاڑ دیتی ہے، جیسا کہ ہمارے ربّ نے اس کی تاکید فرمائی ہے:

وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَيِ النَّہَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّيْلِ۝۰ۭ اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْہِبْنَ السَّـيِّاٰتِ۝۰ۭ ذٰلِكَ ذِكْرٰي لِلذّٰكِرِيْنَ۝۱۱۴ (ھود۱۱:۱۱۴)اور نماز قائم کرو، دن کے دونوں سروں پر اور کچھ رات گزرنے پر۔ درحقیقت نیکیاں برائیوں کو دُور کر دیتی ہیں، یہ ایک یاد دہانی ہے ان لوگوں کے لیے جو خدا کو یاد رکھنے والے ہیں۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خوشخبری دی ہے:’’جب کوئی مسلمان فرض نماز کے لیے حاضر ہوتا ہے، اور اس کے لیے اچھی طرح وضو کرتا ہے، اور خشوع اختیار کرتا ہے اور اس کے آگے جھک جاتا ہے، تو وہ نماز اس کے پچھلے گناہوں کا کفّارہ بن جاتی ہے،جب تک وہ کسی کبیرہ گناہ کا مرتکب نہ ہو، اور یہ تمام زمانے کے لیے ہے‘‘(مسلم )۔ اور نماز بذات ِ خود بلند ہو کر اسے پاکیزہ کرتی ہے:

 اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْہٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ ۝۰ۭ (العنکبوت۲۹:۴۵) یقیناً نماز فحش اور برے کاموں سے روکتی ہے۔

اور یہ نماز اس کی پریشانیوں کے ازالے اور غموں کے چھٹ جانے کا ذریعہ بنتی ہے:

وَاسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ۝۰ۭ وَاِنَّہَا لَكَبِيْرَۃٌ اِلَّا عَلَي الْخٰشِعِيْنَ۝۴۵ۙ الَّذِيْنَ يَظُنُّوْنَ اَنَّھُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّہِمْ وَاَنَّھُمْ اِلَيْہِ رٰجِعُوْنَ۝۴۶ (البقرۃ۲:۴۵-۴۶) صبر اور نماز سے مدد لو، بے شک نماز ایک سخت مشکل کام ہے، مگر ان فرماں بردار بندوں کے لیے مشکل نہیں ہے جو سمجھتے ہیں کہ آخر کار انھیں اپنے رب سے ملنا اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔

پھر یہ قیامت کے روز اس کے لیے نجات کا قلعہ بنے گی: ’’جس نے اس کی محافظت کی وہ اس کے لیے نُور اور بُرھان بنے گی اور اور قیامت کے دن نجات کا ذریعہ بنے گی‘‘۔ (احمد)

زکوٰۃ کے ذریعے پاک ہونے کی فرحت

رہا مال میں سے زکوٰۃ کا اخراج تو وہ بھی فرحت سے خالی نہیں ہے، کیوںکہ اس میں نفس کی زکوٰۃ اور اس کی طہارت ہوتی ہے:

خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَـۃً تُطَہِّرُھُمْ وَتُزَكِّيْہِمْ بِہَا (التوبۃ۹: ۱۰۳) اے نبیؐ، تم ان کے اموال میں سے صدقہ لے کر انھیں پاک کرو اور (نیکی کی راہ میں) انھیں بڑھاؤ۔

مومن زکوٰۃ کی ادایگی کرتے ہوئے رب کی اطاعت پر فرحت محسوس کرتا ہے۔ وہ اللہ کی نعمت کے حاصل ہونے پر خوشی محسوس کرتا ہے، کہ اس نے اسے اتنا مال دیا کہ صاحبِ نصاب بنادیا، اور اسے غریب اور مفلوک الحال بھائیوں کو مال ادا کرنے کا ذریعہ بنایا، اور اس کے ذریعے ان کی حاجت کو پورا کروایا۔وہ جب صدقہ دیتا ہے اور مسکین کو کھانا کھلاتا ہے، بوسیدہ لباس والے کو پوشاک پہناتا ہے، بے گھر کو ٹھکانا دیتا ہے تو اسے خوشی کا احساس ہوتا ہے۔ وہ یتیم کی کفالت کرتا ہے، اور فقیر کو مال عطا کرتا ہے، بے روزگار کے لیے روز گار کا اہتمام کرتا ہے، تو اپنے بھائی کی مدد کرتے ہوئے اور اس کی تکلیف کو دُور کرتے ہوئے اسے عجیب فرحت کا احساس گھیر لیتا ہے، رہا آخرت کا اجر تو وہ اسے اور بھی راحت پہنچائے گا، اور شدید فرحت کا احساس دلائے گا۔
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’صدقہ، ربّ کے غصّے کو بجھاتا ہے، اور بُری موت سے بچاتا ہے‘‘ (صحیح ابنِ حبان)۔مزید فرمایا: ’’صدقہ اپنے دینے والے کی قبر کو گرمی سے بچاتا ہے، اور قیامت کے روز مومن اپنے صدقہ کے سایے میں ہو گا‘‘۔(السلسلۃ الصحیحۃ)

رمضان فرحتوں کا مہینہ

ہر سال رمضان المبارک کا مہینہ آتے ہی دل فرحتوں سے بھر جاتے ہیں، اور ہر جانب اس کی خوشبو پھیل جاتی ہے، پس مومن اللہ کے فضل اور روزے میں اس کی مدد پر خوشی اور مسرت محسوس کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس پر اپنی عطا کی تکمیل کر دیتا ہے۔ وہ قرآن کے نزول کے مہینے اور روزے کے خوب بڑھے ہوئے اجر پر خوش ہو جاتا ہے۔
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’ابنِ آدم کی ہر نیکی کے عمل کو دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک بڑھایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، روزے کے علاوہ، کہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔ بندے نے میری خاطر شہوت اور کھانا پینا چھوڑ دیا‘‘۔ (متفق علیہ)
جب وہ روزہ رکھتا ہے تو اللہ کی مغفرت پر فرحت محسوس کرتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے، اس کے گذشتہ گناہ معاف کر دیے گئے‘‘ (بخاری )۔ وہ قیام اللیل کی فرحت محسوس کرتا ہے : ’’جو رمضان کے مہینے میں قیام کے لیے کھڑا ہوا، ایمان اور احتساب کے ساتھ، اس کے گذشتہ گناہ معاف کر دیے گئے‘‘ (صحیح النسائی)۔اور لیلۃ القدر میں خوشی محسوس کرتا ہے،اور اس کا اجر بھی کتنا زیادہ ہے:  لَيْلَۃُ الْقَدْرِ۝۰ۥۙ  خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَہْرٍ۝۳ۭؔ (القدر۹۷:۳)’’شب قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے‘‘۔ اور رمضان کے مہینے کے اختتام تک اس کا اجر کس قدر بڑھ چکا ہوتا ہے، اور وہ اللہ کا قرب پالیتا ہے۔
پھر اس کی مسرت و شادمانی کا کیا کہنا کہ روزہ اور قرآن اس کے سفارشی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’روزہ اور قرآن قیامت کے روز بندے کی شفاعت کریں گے۔ روزہ کہے گا: اے رب، میں نے اسے سارا دن شہوت اور کھانے پینے سے روکے رکھا،پس اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرمائیں۔اور قرآن کہے گا: میں نے اسے راتوں کو سونے سے محروم رکھا، پس میری شفاعت قبول کریں۔ فرمایا: ان دونوں کی شفاعت قبول کی جائے گی‘‘۔ (احمد)
اور جب بندہ پورے مہینے کے روزے مکمل کر لیتا ہے، اور وہ عید کے دن ان نعمتوں کو حلال کرتا ہے، تو وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس کا بدلہ اور انعام پاتا ہے۔
رہا حج بیت اللہ ،تو وہ اسلامی عبادات میں پانچواں رکن ہے۔ اس میں تلبیہ کی پکار کی اپنی ہی فرحت ہے؛ لبیک اللھم لبیک … حجِ بیت اللہ کا فریضہ ادا کرتے ہوئے وہاں داخل ہوتے ہی حاجی عجب فرحت محسوس کرتا ہے۔ وہ اللہ کے گھر حاضر ہے اور اس کا مہمان ہے، اور وہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو ایک جگہ پا کر اخوتِ اسلامی کے مظہر سے فرحت و سرور محسوس کرتا ہے۔ حج کے مناسک میں ایک ایک منسک کی ادایگی اور اطاعت ِ خداوندی میں عجب سرشاری کا احساس ہوتا ہے۔ وقوفِ عرفہ اور دعا کی قبولیت میں،اور اس احساس میں کتنی فرحت ہے کہ اس کے گناہوں کا بوجھ اس کے سر سے اتر گیا ہے، اور اب وہ کسی نو مولود کی مانند گناہوں سے پاک ہے: ’’جو اس گھر کی جانب آیا پھر اس نے نہ کوئی شہوانی فعل کیا نہ فسق کا کوئی کام، تو وہ اس طرح واپس لوٹا جیسے اسی کی ماں نے اسے ابھی جنا ہے‘‘(مسلم )۔پس وہ نیکی اور پاکیزگی کی حالت میں لوٹا،اور اس کی پوری پوری جزااور بڑا بدلہ اس کے رب کے پاس ہے: ’’اور حجِ مبرور کی جزا تو بس جنت کے سوا کچھ نہیں‘‘۔(بخاری)

اللہ تعالٰی کے تقرب کی فرحت

جی ہاں! اے مسلمان بھائی، خود پر اللہ کے فضل پر خوش ہو جائیے! جب بھی’خیر‘ آپ کی جانب آیا، تو آپ کے ایمان اور اصلاحِ نفس میں اضافہ ہوا، آپ اس کے حضور سجدہ ریز ہوئے اور اس کا قرب حاصل کر لیا۔ اللہ تعالیٰ کے اس فضل پر فرحت محسوس کیجیے کہ جب اس نے آپ کو خیر کے کاموں کی ہدایت کی، اور منکرات کو چھوڑ دینے کی تاکید کی، اور مسلسل عمل کرنے اور نہ رُکنے کی تلقین کی، تو آپ نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کو مسلسل نگاہ میں رکھا: ’’جب تمھاری نیکی تمھیں خوش کرے، اور تمھاری برائی تمھیں غمگین کرے، تو تم مومن ہو‘‘(السلسلۃ الصحیحۃ)۔ لہٰذا اے مسلمان بھائی، مومن بن جائیے! (المجتمع، رمضان ۱۴۳۹ھ، جون ۲۰۱۸ء)

یہ مشترکہ مضمون ان احساسات پر مبنی ہے کہ میاں بیوی کی سوچ میں ہم آہنگی رمضان کی قدر و قیمت اور اس کے اثرات کو کس قدر بڑھا دیتی ہے۔

میں، یعنی شوہر

سب سے پہلے تو میں نے قرآن میں رمضان کے بارے میں اللہ کا فرمان پڑھا:

فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَہُوَخَيْرٌ لَّہٗ ۝۰ۭ (البقرہ۲: ۱۸۴) اور جو اپنی خوشی سے زیادہ بھلائی کرے، تو یہ اسی کے لیے بہتر ہے۔

اور حج کے حوالے سے بیان کردہ آیت پر غور کیا:

وَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا۝۰ۙ فَاِنَّ اللہَ شَاكِـرٌ عَلِــيْمٌ۝۱۵۸ (البقرہ۲: ۱۵۸) اور جو برضا و رغبت کوئی بھلائی کا کام کرے گا، اللہ کو اس کا علم ہے اور وہ اس کی قدر کرنے والا ہے۔

یہ ’تطوّع‘ کیا ہے؟ کیا یہ شریعت اور اس کے شعائر سے ہوتا ہوا زندگی اور اس کے اعمال تک پھیلا ہوا ہے؟
روزے کے ضمن میں حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں:’’اور جو کوئی خوشی سے نیکی کرنا چاہے اور ایک مسکین کے کھانے کا اضافہ کر لے، تو یہ اسی کے لیے بہتر ہے اور اللہ تعالیٰ نے خیر کے کوئی خاص معانی بیان نہیں کیے، جو کسی ایک نیکی پر مشتمل ہوں۔ پس روزے کے ساتھ مسکین کے کھانے کو جمع کر لینا بھی خوشی سے زیادہ کرنے والی بھلائی ہے،اور روزے کا فدیہ ادا کرتے ہوئے مساکین کی تعداد کو بڑھا لینا بھی ’تطوّع‘ ہی میں آتا ہے۔یہ سب بھلائیوں میں برضا و رغبت اضافہ اور نوافل میں آگے بڑھ جانا ہے۔(ابنِ  کثیر)
یہ روزے کے بارے میں اسلام کا ابتدائی حکم ہے کہ مریض اور مسافر کو روزے کی چھوٹ ہے، رہا صحت مند مقیم شخص تو اس کے پاس اختیار ہے، وہ چاہے تو خود روزہ رکھے اور چاہے تو فدیہ ادا کرتے ہوئے کسی کو کھانا کھلا دے۔اور اگر وہ ایک سے زیادہ مساکین کو کھانا کھلا دے تو یہ اسی کے لیے بہتر ہے، اور اگر وہ روزہ رکھے تو یہ کھانا کھلانے سے بہتر ہے۔ 
حج کے بارے میں راجح قول ہے: اور جو کوئی فرض حج کی ادایگی کے بعدمزید حج اور عمرہ خوشی سے کرے، تو اللہ اس کی بہت قدر کرنے والا ہے، کیونکہ وہ اللہ کی خوشنودی کی طلب میں یہ عمل کرتا ہے۔ لہٰذا، وہ اس کی بہترین جزا دینے والا ہے، اور وہ اس کے ارادے اور مقصد کو جانتا ہے۔(الطبری)
علما کا اس بارے میں کہنا ہے: جو خوشی سے بھلائی کا ارادہ کرے اور عمرہ کرے تو اللہ اس کا قدر دان اور جاننے والا ہے، پس حج فریضہ ہے اور عمرہ ’تطوّع‘ (یعنی خوشی سے کی جانے والی نیکی)۔
ان دونوں آیات پر غور کرنے سے مجھے معلوم ہوا کہ اسلام تطوّع (خوشی سے نیکی کرنے کے جذبے) پر اُبھارتا ہے، کیونکہ اس نیکی کے محرک کا اجر اللہ کے ہاں محفوظ ہوتا ہے۔ پس، روزہ ، حج، عمرہ اور بھوکے کو کھلانا سب اللہ کے لیے اخلاص برتنا ہے، اور زیادہ سے زیادہ عمل کرنا ہے۔ اس  کے لیے وقت نکالنا،مال خرچ کرنا اور جدو جہد کرنا، یہی حقیقت میں ’تطوّع‘ کے عناصر ہیں، خواہ یہ دنیا کا ’تطوّع‘ ہو، سوچ اور فکر کا یا مادی اشیا کا۔اور ہمارے نوجوانوں کو خواہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں اس تطوّعی عمل میں شریک ہونا چاہیے، خواہ وہ صلح کا کام ہو یا اصلاحِ نفس کا یا کوئی دوسری سرگرمی، یا وہ فرد اور معاشرے کی نمو اور افزایش کا کوئی کام ہو۔
اس حوالے سے ہمارے سامنے انبیا علیہم السلام کے تطوّع کی بہترین مثالیں اور نمونے موجود ہیں: کیا حضرت زکریا ؑنے حضرت مریمؑ کی کفالت کو خوشی سے قبول نہیں کیا تھا؟ کیا حضرت یوسفؑ نے آگے بڑھ کر وزارت ِ مال کی ذمہ داری اٹھانے کی پیش کش نہیں کی تھی؟کیا موسٰی نے اللہ کی رضا کی خاطر دو بہنوں کے جانوروں کو کنویں سے پانی نکال کر نہیں پلایا تھا؟ پھر ان کاموں کے انجام پر بھی نظر ڈالو۔حضرت زکریاؑ، حضرت مریم ؑ کی کفالت کرتے ہوئے ان کو اللہ کی جانب سے ملنے والے پھلوں کے مشاہدے تک پہنچے، اور وہیں اللہ سے بیٹا مانگ لیا، جو اللہ نے عطا فرما دیا۔ رہے یوسفؑ تو اللہ نے انھیں مصر کی سرزمین میں اقتدار بخشا اور ان کے گھر والوں اور والدین کو ان سے لا ملوایا۔اور موسٰی کاجانوروں کو پانی پلانا ان کی پناہ گاہ، شادی اور پختگی کے حصول کا سبب بن گیا!
اسلام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوئہ حسنہ ہمارے لیے ابدی نمونہ ہے۔ ان سے حضرت خدیجہؓ نے کیا فرمایا: ہرگز نہیں، اللہ آپؐ کو کبھی رُسوا نہ کرے گا؛ آپؐ تو صلہ رحمی کرتے ہیں، دوسروں کے بوجھ اٹھاتے ہیں، محتاجوں کی مدد کرتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں، اور حق کی راہ میں آنے والے مصائب پر دوسروں کی مدد کرتے ہیں۔(بخاری)
ان کے عمل کی مثالیں دیکھیں تو آپؐ کعبہ کی تعمیر میں بنفس ِ نفیس شریک ہوئے، خندق کھودنے میں اور مسجد کی تعمیر میں بھی حصّہ لیا! وہ مریضوں کی عیادت فرماتے اور یتیم کی کفالت اور اس کے مصائب کے حل پر ابھارتے اور بیواؤں کی مدد فرماتے اور انھیں کھانا کھلاتے۔
جیسا کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ اپنے محلہ داروں کی بکریاں دوہتے۔ جی ہاں! وہ خلیفہ بنے تو ان کے محلے کی ایک لڑکی نے کہا: ’’اب تو آپ ہماری بکریاں نہیں دوہیں گے‘‘۔ آپؓ نے اس کی بات سنی تو کہا:’’کیوں نہیں، اللہ کی قسم ! میں اب بھی ان کا دودھ دوہوں گا‘‘۔
آپ نے حضرت عمر ؓ بن خطاب اور ان کی زوجہ اُمِ کلثوم کی ایک زچہ کی مدد کا واقعہ بھی سنا ہوگا، جب ان کی زوجہ ضرورت کے سامان کے ساتھ نو مولود کے کپڑے ،دیگچی ، غلّہ اور گھی ساتھ لے کر پہنچی تھیں۔ وہ تو اندر خاتون کے پاس چلی گئیں اور حضرت عمرؓ اس کے شوہر کے پاس بیٹھ گئے اور دیگچی چولھے پر چڑھا دی،اور کھانا پکانا شروع کر دیا۔ اس کے شوہر کو علم بھی نہ ہوا کہ آپ کون ہیں۔
یہی وہ بھلائی اور نیکی ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کیا ہے:

نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف پھیرلیے یا مغرب کی طرف، بلکہ نیکی یہ ہے کہ اللہ کو اوریومِ آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دِل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور یتیموںپر، مسکینوں اور مسافروں پر، مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پراور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے، نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے۔ اور نیک وہ لوگ ہیں کہ جب عہد کریں تو اسے وفا کریں، اور تنگی و مصیبت کے وقت میں اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کریں۔ یہ ہیں راست باز لوگ اور یہی لوگ متقی ہیں۔(البقرہ۲: ۱۷۷)

ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’ہر مسلمان پر صدقہ لازم ہے‘۔ کہا گیا: اگر کسی کے پاس استطاعت نہ ہو تو کیا کرے؟  فرمایا: ’وہ معروف یا خیر کا حکم دے‘۔ کہا: اگر وہ یہ بھی نہ کرسکے۔ فرمایا: ’اپنے آپ کو شر سے روک لے، یہ بھی صدقہ ہے‘۔ (بخاری )
پس، خیر کے بہت سے دروازے ہیں اورخوشی سے نیکی کرنے والوں اور کرنے والیوں کے لیے کھلے ہوئے ہیں، خاص طور پر مشکل اوقات اور جنگی مقامات پر انسانیت کی خدمت کے مواقع بہت سے ہیں۔ مشکلات میں گھرے انسانوں کو طبی، سکونتی، تعلیمی اور مالی امداد کی ضرورت ہوتی ہے، اور رمضان میں ان تمام نیکیوں کا اجر بڑھ جاتا ہے اور ثواب دوچند ہو جاتا ہے۔

وہ ، یعنی بیوی

ہم نے رمضان المبارک میں اس اہم معاملے کا ذکر کیا ہے، جس جانب آپ نے اللہ کے فرمان کی طرف توجہ دلائی ہے:

فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَہُوَخَيْرٌ لَّہٗ ۝۰ۭ (البقرہ۲: ۱۸۴) اور جو اپنی خوشی سے زیادہ بھلائی کرے تو یہ اسی کے لیے بہتر ہے۔

 آگاہ رہیں کہ یہ تطوّع بالخیر ہے۔اور اگرچہ یہ آیت اپنے سیاق میں روزے کے خیر کو بیان کر رہی ہے، جیسا کہ میں ذکر کر رہی ہوں، درحقیقت لفظ ’خیر‘ ہمارے سامنے بھلائی کی متعدد راہیں کھولتا ہے۔ ہمیں مطلقاً خوشی سے نیک اعمال کی جانب لپکنے پر ابھارتا ہے، اور ان اعمال کی فضیلت کو رمضان کے مہینے میں پانے کے لیے اورباقی مہینوں میں بھی اجر و ثواب کے حصول پر آمادہ کرتا ہے۔
’تطوّع‘ کی رغبت تو انسان کے اندر سے پھوٹتی ہے،اور وہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ استطاعت کے مطابق نفلی عبادات، مالی اخراجات (انفاق فی سبیل اللہ)، یا صحت، یا مال و متاع، یا علم یا نصیحت جیسی مختلف نیکیوں میں جت جاتا ہے، جو تزکیۂ نفس کے وسائل ہیں،اور ان اعمال کو کرتے ہوئے اللہ کے لیے خالص نیت کا ہونا ضروری ہے:

اِنَّمَا نُـطْعِمُكُمْ لِوَجْہِ اللہِ لَا نُرِيْدُ مِنْكُمْ جَزَاۗءً وَّلَا شُكُوْرًا۝۹ (الدھر۷۶:۹) ہم تمھیں صرف اللہ کی خاطر کھلا رہے ہیں، ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ۔

لہٰذا ، اجر صرف اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی طرف سے ہے، اور وہ ہر بھلائی کا قدردان ہے اور نیکی کرنے والے سے واقف ہے، اور اسی سے اس نے اپنے اس فرمان میں ہمیں متنبہ کیا ہے:

 لَا خَيْرَ فِيْ كَثِيْرٍ مِّنْ نَّجْوٰىھُمْ اِلَّا مَنْ اَمَرَ بِصَدَقَۃٍ اَوْ مَعْرُوْفٍ اَوْ اِصْلَاحٍؚ بَيْنَ النَّاسِ۝۰ۭ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ ابْتِغَاۗءَ مَرْضَاتِ اللہِ فَسَوْفَ نُؤْتِيْہِ اَجْرًا عَظِيْمًا۝۱۱۴ (النساء۴: ۱۱۴) لوگوں کی خفیہ سرگوشیوں میں اکثر و بیش تر کوئی بھلائی نہیں ہوتی۔ ہاں، اگر کوئی پوشیدہ طور پر صدقہ و خیرات کی تلقین کرے یا کسی نیک کام کے لیے یا لوگوں کے معاملات میں اصلاح کرنے کے لیے کسی سے کچھ کہے تو یہ البتہ بھلی بات ہے اور جو کوئی اللہ کی رضا جوئی کے لیے ایسا کرے گا، اسے ہم بڑا اجر عطا کریں گے۔

جب میں خوشی سے کی گئی نیکیوں اور بھلائیاں کرنے والوں کا ذکر کرتی ہوں، تو میرے سامنے متطوّعین کے رہنما سرکردہ کویتی داعی ڈاکٹر عبد الرحمن السمیطؒ کا نام آتا ہے۔ جنھوں نے اپنی زندگی کا ایک حصّہ افریقی ممالک میں گزارا، جہاں انھوں نے اپنا وقت، مال اور صحت اور زندگی کی توانائیاں اس راہ میں لگا دیں اور لوگوں کو اللہ کے دین کی جانب دعوت دی۔ وہ نبی اکرم صلی اللہ  علیہ وسلم کے اس قول کی مثال تھے:

أَيُّ النَّاسِ أَحَبُّ إلى اللهِ؟  وَأَيُّ الْأَعْمَالِ أَحَبُّ إلى اللهِ؟ فَقَالَ:  أَحَبُّ النَّاسِ اِلَى اللهِ  أَنْفَعُهُمْ لِلنَّاسِ يَكْشِفُ عَنْهُ كُرْبَةً ، أَوْ يَقْضِي عَنْهُ دَيْنًا ، أَوْ يَطْرُدُ عَنْهُ جُوعًا، وَلَأَنْ أَمْشِي مَعَ أَخٍ لِي فِي حَاجَةٍ ، أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَعْتَكِفَ فِي هٰذَا الْمَسْجِدِ ، مَسْجِدِ الْمَدِينَةِ ، شَهْرًا (الصَّحِيحَة:۹۰۶، الترغیب والترہیب: ۲۶۲۳) [ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا، اور عرض کی:] اے اللہ کے رسولؐ ! اللہ کے ہاں محبوب ترین کون ہے؟ اور کون سے اعمال اللہ کو زیادہ پسند ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: اللہ کے نزدیک محبوب ترین وہ ہے، جو لوگوں کو زیادہ فائدہ پہنچانے والا ہے، مشکل دُور کرتاہے ، قرض ادا کردیتاہے، بھوک مٹاتاہے۔ اور کسی شخص کی ضرورت پوری کرنے کے لیے اس کے ساتھ چلنا، مجھے مسجد نبویؐ میں ایک ماہ کے اعتکاف سے بھی زیادہ پسند ہے۔

اسی طرح مجھے ان کی وفا دار اور صابر بیوی ام صہیب یاد آتی ہیں،جنھوں نے ان سارے معاملات میں ان کی مدد کی اور ان کی اولاد کی تربیت کی ذمہ داری بھی ادا کی۔ ان کے ساتھ زاہدانہ زندگی بھی گزاری، اور ہر سرد و گرم سہا۔ان کے ساتھ گھر بار چھوڑ کر افریقہ منتقل ہوئیں اور تمام پریشانیوں کو برداشت کیا۔وہ مشکلات کو کسی خاطر میں نہ لاتیں، بلکہ اس ساری سعی و جہد میں وہ اللہ کے تقرب کی لذت کو محسوس کرتیں۔ انھوں نے بڑے مزے سے ایک روز اپنے شوہر سے کہا: ’’کیا جنت میں بھی ہم ایسی ہی لذت محسوس کریں گے، جیسی یہاں محسوس کرتے ہیں؟! ‘‘، کیا کہنے ایسی بیوی کے!
میرے ذہن میں اہمیت کے لحاظ سے عورت کے تطوّعی کردار کے کئی میدان آتے ہیں، جہاں ایک عورت آسانی سے بھلائیاں سمیٹ سکتی ہے، جیسے یتیموں کی کفالت اور بیواؤں اور بزرگوں کی نگہداشت، اور تنگ دست خاندانوں کی مدد،اور بھلائی اور خیر اور امدادکے کام کرنے والی انجمنوں کے کام میں حصّہ، خواتین کی مشکلات اور نوجوان لڑکیوں کے مسائل کا حل،اور معاشرے میں رائج غلط تصورات کی اصلاح، نوجوانوں کی تربیتی سرگرمیوں میں حصّہ۔ اسی طرح علم کی تدریس اور قرآن کی تحفیظ میں مدد اور معاشرے کی اصلاح میں ہمہ تن مدد۔ پس، عورت کے کردار سے انکار نہیں کیا جا سکتا،اور معاشرے کو ایک سرگرم عورت کی تلاش ہے، جو شرعی احکام کی پابندی کرتے ہوئے ان معاملات میں اپنا کردار ادا کرے۔
بلاشبہہ نیکی اور تقویٰ کے معاملے میں تعاون ایک مسلمان گھر کی صفات میں سے ہے۔ اسی طرح یہ ایک مسلم خاندان، ایک مسلم محلے اور ایک مسلم معاشرے کی صفات میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سب انسانوں کو اس کا حکم دیا ہے، وہ فرماتا ہے:

وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى ۝۰۠ (المائدہ۵:۲) اور نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرو۔

 اگر معاشرہ بھی نیکی کے مختلف پہلوؤں میں معاونت کرتا ہے، وہ خیر کو پھیلانے، اور دوسروں کا احساس پیدا کرنے میں کردار ادا کرتا ہے، وہ اپنے افراد کے دلوں میں خوشی سے نیکی کرنے کے کلچر کو فروغ دیتا ہے، تو وہی معاشرہ، ترقی یافتہ اور باشعور کہلانے کا حق دار ہے۔ یہ بہت افسوس کا مقام ہے کہ بعض افراد ِ معاشرہ، یعنی میاں بیوی ایک دوسرے کی مخالفت میں خم ٹھونک کر کھڑے ہو جاتے ہیں،اور شوہر بیوی پر بے جا پابندیاں عائد کردیتا ہے اور وہ اس کے تطوّعی کاموں کی اجازت نہیں دیتا، جیسے دعوت الی اللہ کا کام، یا خیر کی کسی انجمن کے ساتھ مل کرتعلیم یا کسی عمل میں مدد دینا، حالاںکہ بیوی اپنی ازدواجی ذمہ داریوں کی ادایگی اور اولاد کی نگہداشت کے فرائض ادا کرتے ہوئے یہ کام کرنا چاہتی ہے۔
دوسری جانب ایسی خواتین بھی ہیں، جو خیر کے کاموں میں بڑی خوشی سے بڑھ چڑھ کر شریک ہوتی ہیں، اور دن رات کی مشغولیت کا بڑا حصّہ انھی کاموں میں لگا دیتی ہیں۔ وہ اپنے شوہروں سے غافل ہو جاتی ہیں اور اپنی اولاد کو ضائع کر دیتی ہیں اور ان کی تربیت کا حق ادا نہیں کرتیں! یہاں معاشرے میں خیر کے کاموں کو متوازن کرنے کی ضرورت ہے، اور کسی افراط و تفریط کے بغیر معاشرے کی خدمت میں کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
اگر کو ئی شخص رمضان میںخوشی سے نفل عبادات ادا کر تا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں، بلکہ اسے انسانوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی اسی خوشی سے حصّہ ڈالنا چاہیے۔ یقیناً اسے رمضان کے اجروثواب کو بڑھانے کی حرص رکھنی چاہیے۔ اس کی اللہ کے میزان میں بڑی قدروقیمت ہے، ثواب اسی کے ذمے ہے، اور وہ اجر عطا فرماتا ہے۔ پس، رمضان ہر خیر کے کام کا موقع ہے، اور کیا ہی اچھا ہو کہ خوشی سے ہونے والے نیک کاموں کی کثرت ہو جائے، اور یہ روزہ دار کے لیے نافع ہو جائیں۔ وہ رکوع، سجدے اور دیگر عبادات سے اس کی روح کا تزکیہ کر دیں، اور اس کے ساتھ ہی وہ اعمال بھی شامل ہو جائیں جو وہ معاشرے اور اس کے افراد میں خیر پھیلانے کے لیے انجام دے رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ارْكَعُوْا وَاسْجُدُوْا وَاعْبُدُوْا رَبَّكُمْ وَافْعَلُوا الْخَــيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ۝۷۷ۚ۞  (الحج۲۲: ۷۷) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، رکوع اور سجدہ کرو، اپنے رب کی بندگی کرو، اور نیک کام کرو، اسی سے توقع کی جا سکتی ہے کہ تم کو فلاح نصیب ہو۔

(المجتمع، شعبان،۱۴۳۹ھ،مئی۲۰۱۸ء)

ترجمہ: گل زادہ شیرپائو

میزان یا ترازو سے ہم سب آشنا ہیں۔ ہر روز اس کا استعمال دیکھنے میں آتا ہے مگر   اسلام نے میزان کو ایک نیا مفہوم دیا ہے جو اس کے عقیدہ و ایمان اور تصورِ آخرت کے حوالے سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔

میزان کا لفظ قرآن اور حدیث میں کئی بار استعمال ہوا ہے جس سے اس کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اُس قوم کو ہلاکت سے دوچار کیا جو ناپ تول میں کمی کرتی تھی اور اس میں ڈنڈی مارتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ایک پوری سورۃ المطفّفین کے نام سے نازل فرمائی (جس کے معنی ہیں: کمی کرنے والے) اور اس سورہ کا آغاز ان کمی کرنے والوں کے لیے تباہی اور ہلاکت کے بیان کے ساتھ کیا(۸۳:۱)۔ اسی وجہ سے لفظ میزان میں انصاف کرنے والوں کے لیے یہ خوش خبری ہے کہ اُن کے ساتھ عدل کیا جائے گا اور وہ آخرت میں آرام و راحت کے ساتھ ہوں گے اور ظالموں کے لیے یہ وعید ہے کہ وہ آخرت میں ہلاک اور تباہ و برباد ہوں گے۔

اس لفظ پر آدمی کو خوب غوروفکر کرنا چاہیے‘ اور اس پر غافلوں کی طرح خاموشی سے نہیں گزرنا چاہیے۔

اللہ تعالیٰ نے قسط کا حکم دیا۔ ارشاد ہے:

وَاَقِیْمُوْا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِیْزَانَ o (الرحمٰن ۵۵:۹)   انصاف کے ساتھ ٹھیک ٹھیک تولو اور ترازو میں ڈنڈی نہ مارو۔

جب ہم میزان پر غوروفکر کرتے ہیں تو ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان یاد آتا ہے کہ: اِنَّہٗ لَیَأتِی الرَّجُلُ الْعَظِیْمُ والسَّمِیْنُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، لَا یَزِنُ عِنْدَ اللّٰہِ جَنَاحَ بَعُوْضَۃٍ (بخاری)‘ قیامت کے دن ایک بڑا موٹا آدمی آئے گا لیکن اللہ کے ہاں اس کا وزن مچھر کے پَر کے برابر بھی نہیں ہوگا۔ پھر آپؐ نے فرمایا: اگر چاہو تو یہ آیت پڑھو: فَلَا نُقِیْمُ لَھُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَزْنًا (الکہف ۱۸:۱۰۵) ’’قیامت کے روز ہم انھیں کوئی وزن نہ دیں گے‘‘۔

قیامت کے دن آدمی کے اعمال تولے جائیں گے۔ اس دن خوش قسمت وہ ہوگا جس کی میزان حسنات سے بھاری ہوجائے لیکن یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دنیا و آخرت کی میزان ایک جیسی ہوگی؟ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دوسروں کو مال و دولت‘ جاہ و جلال اور شان و شوکت کے پیمانوں سے ناپتے ہیں لیکن آخرت کی میزان اس سے مختلف ہوگی۔ اس کی وضاحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر یوں فرمائی ہے کہ لوگ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی پتلی پتلی ٹانگیں دیکھ کر ہنس رہے تھے۔ آپؐ نے فرمایا: وَالَّذِی نَفْسِیْ بِیَدِہٖ ، لَھُمَا اَثْقَلُ فِی الْمِیْزَانِ مِنْ جَبَل اُحُدٍ، ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے‘ یہ دونوں قیامت کے دن میزان میں اُحد کے پہاڑ سے بھی زیادہ بھاری ہوں گی‘‘۔ گویا میزانِ اعمال کے بھی اسی طرح  دو پلڑے ہوں گے جس طرح رائج الوقت ترازو کے ہوتے ہیں‘ جسے محسوس بھی کیا جا سکتا ہے اور اس کا مشاہدہ بھی کیا جا سکتا ہے۔

اس میزان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہ‘ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہ‘ فَاُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَھُمْ فِیْ جَھَنَّمَ خٰلِدِوُنْ o (المومنون ۲۳:۱۰۲-۱۰۳)اُس وقت جن کے پلڑے بھاری ہوں گے وہی فلاح پائیں گے اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے وہی لوگ ہوں گے جنھوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈال لیا۔ وہ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔

علامہ قرطبی فرماتے ہیں: علماے کرام کا کہنا ہے کہ روزِ قیامت جب حساب کتاب ختم ہوجائے گا تو اس کے بعد اعمال کا وزن ہوگا‘ کیونکہ وزن بدلہ دینے کے لیے ہوتا ہے‘ اس لیے مناسب یہی تھا کہ وزن حساب کتاب کے بعد ہو۔ حساب کتاب‘ اعمال کا کھرا کھوٹا جاننے کے لیے ہوتا ہے اور ناپنا اس لیے ہوتا ہے کہ اس کے مطابق بدلہ دیا جائے۔

جس کی میزان بھاری ہوجائے خواہ ایک ہی نیکی کے ساتھ کیوں نہ ہو تو وہ کامیاب و کامران ٹھیرا ‘اور جس کی میزان ہلکی نکلی تو وہ خائب و خاسر ہوا‘ خواہ اس کا صرف ایک گناہ زیادہ ہو‘ اور جن کے گناہ اور نیکیاں برابر برابر نکلیں وہ اعراف والے ہوں گے۔ وہ جنت اور جہنم کے درمیان ایک پہاڑ پر قیام کریں گے اور پھر اللہ اُن کو اپنی رحمت سے نوازے گا۔

میزان کس چیز سے بہاری ھـوتی ہے؟

میزان اُن اعمال سے بھاری ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ ہوں۔ ان میں سب سے پہلا عمل لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی گواہی اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے نام سے کوئی چیز بھی زیادہ بھاری نہیں ہے۔(ترمذی)

حمد: پاکیزگی ایمان کا حصہ ہے اور الحمدللہ میزان کو بھر دیتا ہے۔ (مسلم)

تسبیح: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو کلمے ایسے ہیں جو زبان پر بڑے آسان‘ میزان میں بہت بھاری اور رحمن کو بہت زیادہ محبوب ہیں اور وہ ہیں: سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ(بخاری)

بچے کی وفات پر صبر: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے اپنی اُمت کا ایک آدمی دیکھا کہ اس کی میزان ہلکی ہوگئی تھی۔ پھراس کے وہ بچے آئے جو بچپن میں وفات پاگئے تھے‘ اس سے اس کی میزان بھاری ہوگئی۔(حافظ ہیثمی)

اچہے اخلاق: قیامت کے دن بندئہ مومن کی میزان میں اچھے اخلاق سے زیادہ بھاری کوئی چیز نہیں ہوگی۔(ترمذی)

والدین کے ساتھ حسنِ سلوک: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَصَاحِبْھُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا (لقمان: ۳۱:۱۵) ’’اور دنیا میں ان کے ساتھ نیک برتائو کرتا رہ‘‘۔

بچوں میں عدل: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور بچوں کے درمیان عدل قائم کرو۔ (بخاری ‘ مسلم)

بیویوں میں عدل:  ارشاد نبویؐ ہے کہ جس شخص کی دو بیویاں ہوں اوروہ ان میں سے ایک کی طرف جھک گیا تو وہ روزِ قیامت اس طرح آئے گا کہ اس کا ایک پہلوجھکا ہوا ہوگا۔ (ابوداؤد)

لوگوں کے درمیان عدل: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ (النحل ۱۶:۸۹) ’’اللہ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے‘‘۔

دشمن سے انصاف: ارشاد ربانی ہے: وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰی اَنْ لَّا تَعْدِلُوْا (المائدہ ۵:۸)’’کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جائو‘‘۔

وارثوں کے ساتھ عدل: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے بالشت برابر زمین میں کسی پر ظلم کیا‘ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سات زمینوں کا طوق اس کے گلے میں لٹکا دے گا۔ (بخاری ، مسلم)

کمزوروں کے ساتھ عدل: فرمان نبویؐ ہے کہ اپنی اضافی قوت کے ساتھ کمزور کی مدد کرنا تیرے لیے صدقہ ہے۔(مسنداحمد)

یتیموں کے ساتھ انصاف: قرآن متنبہ کرتا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰی ظُلْمًا اِنَّمَا َیاْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِھِمْ نَارًا وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا o (النساء ۴:۱۰) ’’جو لوگ ظلم کے ساتھ یتیموں کے مال کھاتے ہیں درحقیقت وہ اپنے پیٹ آگ سے بھرتے ہیں اور وہ ضرور جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونکے جائیں گے‘‘۔

خرید و فروخت میں انصاف: اللہ کا حکم ہے: فَاَوْفُوا الْکَیْلَ وَالْمِیْزَانَ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَائَ ھُمْ (اعراف ۷:۸۵) ’’وزن اور پیمانے پورے کرو‘ لوگوں کو اُن کی چیزوں میں گھاٹا نہ دو‘‘۔

وصیت میں عدل: نبی کریمؐ کے ایک فرمان کے مطابق کہ ایک مرد اور (بعض اوقات) ایک عورت ۶۰ سال تک اطاعتِ الٰہی پر عمل کرتے رہیں‘ پھر جب انھیں موت آجائے اوروہ وصیت میں کسی رشتہ دار کو نقصان پہنچائیں‘ تو ان کے لیے جہنم واجب ہوجاتی ہے۔(ترمذی)

حیوانوں کے ساتھ عدل: ایک عورت اس وجہ سے آگ میں ڈال دی گئی کہ اس نے ایک بلی کو باندھ رکھا تھا‘ وہ نہ تو اُسے کھانے کو کچھ دیتی تھی اور نہ اُسے آزاد ہی کرتی تھی کہ وہ زمین میں اپنا رزق تلاش کر کے کھاتی۔ (بخاری ، مسلم)

آیئے‘ ہم توبہ اور خود احتسابی کی طرف متوجہ ہوں جس طرح حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ:

حَاسِبُوْا قَبْلَ اَنْ تُحَاسَبُوْا، وَزِنُوْا اَعْمَالَکُمْ قَبْلَ اَنْ تُوْزَنُوْا ، وَتَھَیَّئُوْا لِلْعَرْضِ الْاَکْبَرِ، اپنا احتساب کرو‘ قبل اس کے کہ تمھارا احتساب کیا جائے‘ اپنے اعمال کا وزن کرو قبل اس کے کہ تمھارے اعمال کا وزن کیا جائے اور بڑی پیشی (یعنی قیامت کے دن) کے لیے تیاری کرو۔

(المجتمع‘ کویت‘ شمارہ ۱۶۵۵‘ ۱۱ جون ۲۰۰۵ئ)