اگست۲۰۰۶

فہرست مضامین

میزان کا بھاری ہونا کامیابی ہے

ایمان مغازی الشرقاوی | اگست۲۰۰۶ | تذکیر

Responsive image Responsive image

ترجمہ: گل زادہ شیرپائو

میزان یا ترازو سے ہم سب آشنا ہیں۔ ہر روز اس کا استعمال دیکھنے میں آتا ہے مگر   اسلام نے میزان کو ایک نیا مفہوم دیا ہے جو اس کے عقیدہ و ایمان اور تصورِ آخرت کے حوالے سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔

میزان کا لفظ قرآن اور حدیث میں کئی بار استعمال ہوا ہے جس سے اس کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اُس قوم کو ہلاکت سے دوچار کیا جو ناپ تول میں کمی کرتی تھی اور اس میں ڈنڈی مارتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ایک پوری سورۃ المطفّفین کے نام سے نازل فرمائی (جس کے معنی ہیں: کمی کرنے والے) اور اس سورہ کا آغاز ان کمی کرنے والوں کے لیے تباہی اور ہلاکت کے بیان کے ساتھ کیا(۸۳:۱)۔ اسی وجہ سے لفظ میزان میں انصاف کرنے والوں کے لیے یہ خوش خبری ہے کہ اُن کے ساتھ عدل کیا جائے گا اور وہ آخرت میں آرام و راحت کے ساتھ ہوں گے اور ظالموں کے لیے یہ وعید ہے کہ وہ آخرت میں ہلاک اور تباہ و برباد ہوں گے۔

اس لفظ پر آدمی کو خوب غوروفکر کرنا چاہیے‘ اور اس پر غافلوں کی طرح خاموشی سے نہیں گزرنا چاہیے۔

اللہ تعالیٰ نے قسط کا حکم دیا۔ ارشاد ہے:

وَاَقِیْمُوْا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِیْزَانَ o (الرحمٰن ۵۵:۹)   انصاف کے ساتھ ٹھیک ٹھیک تولو اور ترازو میں ڈنڈی نہ مارو۔

جب ہم میزان پر غوروفکر کرتے ہیں تو ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان یاد آتا ہے کہ: اِنَّہٗ لَیَأتِی الرَّجُلُ الْعَظِیْمُ والسَّمِیْنُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، لَا یَزِنُ عِنْدَ اللّٰہِ جَنَاحَ بَعُوْضَۃٍ (بخاری)‘ قیامت کے دن ایک بڑا موٹا آدمی آئے گا لیکن اللہ کے ہاں اس کا وزن مچھر کے پَر کے برابر بھی نہیں ہوگا۔ پھر آپؐ نے فرمایا: اگر چاہو تو یہ آیت پڑھو: فَلَا نُقِیْمُ لَھُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَزْنًا (الکہف ۱۸:۱۰۵) ’’قیامت کے روز ہم انھیں کوئی وزن نہ دیں گے‘‘۔

قیامت کے دن آدمی کے اعمال تولے جائیں گے۔ اس دن خوش قسمت وہ ہوگا جس کی میزان حسنات سے بھاری ہوجائے لیکن یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دنیا و آخرت کی میزان ایک جیسی ہوگی؟ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دوسروں کو مال و دولت‘ جاہ و جلال اور شان و شوکت کے پیمانوں سے ناپتے ہیں لیکن آخرت کی میزان اس سے مختلف ہوگی۔ اس کی وضاحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر یوں فرمائی ہے کہ لوگ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی پتلی پتلی ٹانگیں دیکھ کر ہنس رہے تھے۔ آپؐ نے فرمایا: وَالَّذِی نَفْسِیْ بِیَدِہٖ ، لَھُمَا اَثْقَلُ فِی الْمِیْزَانِ مِنْ جَبَل اُحُدٍ، ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے‘ یہ دونوں قیامت کے دن میزان میں اُحد کے پہاڑ سے بھی زیادہ بھاری ہوں گی‘‘۔ گویا میزانِ اعمال کے بھی اسی طرح  دو پلڑے ہوں گے جس طرح رائج الوقت ترازو کے ہوتے ہیں‘ جسے محسوس بھی کیا جا سکتا ہے اور اس کا مشاہدہ بھی کیا جا سکتا ہے۔

اس میزان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہ‘ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہ‘ فَاُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَھُمْ فِیْ جَھَنَّمَ خٰلِدِوُنْ o (المومنون ۲۳:۱۰۲-۱۰۳)اُس وقت جن کے پلڑے بھاری ہوں گے وہی فلاح پائیں گے اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے وہی لوگ ہوں گے جنھوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈال لیا۔ وہ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔

علامہ قرطبی فرماتے ہیں: علماے کرام کا کہنا ہے کہ روزِ قیامت جب حساب کتاب ختم ہوجائے گا تو اس کے بعد اعمال کا وزن ہوگا‘ کیونکہ وزن بدلہ دینے کے لیے ہوتا ہے‘ اس لیے مناسب یہی تھا کہ وزن حساب کتاب کے بعد ہو۔ حساب کتاب‘ اعمال کا کھرا کھوٹا جاننے کے لیے ہوتا ہے اور ناپنا اس لیے ہوتا ہے کہ اس کے مطابق بدلہ دیا جائے۔

جس کی میزان بھاری ہوجائے خواہ ایک ہی نیکی کے ساتھ کیوں نہ ہو تو وہ کامیاب و کامران ٹھیرا ‘اور جس کی میزان ہلکی نکلی تو وہ خائب و خاسر ہوا‘ خواہ اس کا صرف ایک گناہ زیادہ ہو‘ اور جن کے گناہ اور نیکیاں برابر برابر نکلیں وہ اعراف والے ہوں گے۔ وہ جنت اور جہنم کے درمیان ایک پہاڑ پر قیام کریں گے اور پھر اللہ اُن کو اپنی رحمت سے نوازے گا۔

میزان کس چیز سے بہاری ھـوتی ہے؟

میزان اُن اعمال سے بھاری ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ ہوں۔ ان میں سب سے پہلا عمل لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی گواہی اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے نام سے کوئی چیز بھی زیادہ بھاری نہیں ہے۔(ترمذی)

حمد: پاکیزگی ایمان کا حصہ ہے اور الحمدللہ میزان کو بھر دیتا ہے۔ (مسلم)

تسبیح: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو کلمے ایسے ہیں جو زبان پر بڑے آسان‘ میزان میں بہت بھاری اور رحمن کو بہت زیادہ محبوب ہیں اور وہ ہیں: سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ(بخاری)

بچے کی وفات پر صبر: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے اپنی اُمت کا ایک آدمی دیکھا کہ اس کی میزان ہلکی ہوگئی تھی۔ پھراس کے وہ بچے آئے جو بچپن میں وفات پاگئے تھے‘ اس سے اس کی میزان بھاری ہوگئی۔(حافظ ہیثمی)

اچہے اخلاق: قیامت کے دن بندئہ مومن کی میزان میں اچھے اخلاق سے زیادہ بھاری کوئی چیز نہیں ہوگی۔(ترمذی)

والدین کے ساتھ حسنِ سلوک: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَصَاحِبْھُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا (لقمان: ۳۱:۱۵) ’’اور دنیا میں ان کے ساتھ نیک برتائو کرتا رہ‘‘۔

بچوں میں عدل: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور بچوں کے درمیان عدل قائم کرو۔ (بخاری ‘ مسلم)

بیویوں میں عدل:  ارشاد نبویؐ ہے کہ جس شخص کی دو بیویاں ہوں اوروہ ان میں سے ایک کی طرف جھک گیا تو وہ روزِ قیامت اس طرح آئے گا کہ اس کا ایک پہلوجھکا ہوا ہوگا۔ (ابوداؤد)

لوگوں کے درمیان عدل: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ (النحل ۱۶:۸۹) ’’اللہ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے‘‘۔

دشمن سے انصاف: ارشاد ربانی ہے: وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰی اَنْ لَّا تَعْدِلُوْا (المائدہ ۵:۸)’’کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جائو‘‘۔

وارثوں کے ساتھ عدل: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے بالشت برابر زمین میں کسی پر ظلم کیا‘ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سات زمینوں کا طوق اس کے گلے میں لٹکا دے گا۔ (بخاری ، مسلم)

کمزوروں کے ساتھ عدل: فرمان نبویؐ ہے کہ اپنی اضافی قوت کے ساتھ کمزور کی مدد کرنا تیرے لیے صدقہ ہے۔(مسنداحمد)

یتیموں کے ساتھ انصاف: قرآن متنبہ کرتا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰی ظُلْمًا اِنَّمَا َیاْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِھِمْ نَارًا وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا o (النساء ۴:۱۰) ’’جو لوگ ظلم کے ساتھ یتیموں کے مال کھاتے ہیں درحقیقت وہ اپنے پیٹ آگ سے بھرتے ہیں اور وہ ضرور جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونکے جائیں گے‘‘۔

خرید و فروخت میں انصاف: اللہ کا حکم ہے: فَاَوْفُوا الْکَیْلَ وَالْمِیْزَانَ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَائَ ھُمْ (اعراف ۷:۸۵) ’’وزن اور پیمانے پورے کرو‘ لوگوں کو اُن کی چیزوں میں گھاٹا نہ دو‘‘۔

وصیت میں عدل: نبی کریمؐ کے ایک فرمان کے مطابق کہ ایک مرد اور (بعض اوقات) ایک عورت ۶۰ سال تک اطاعتِ الٰہی پر عمل کرتے رہیں‘ پھر جب انھیں موت آجائے اوروہ وصیت میں کسی رشتہ دار کو نقصان پہنچائیں‘ تو ان کے لیے جہنم واجب ہوجاتی ہے۔(ترمذی)

حیوانوں کے ساتھ عدل: ایک عورت اس وجہ سے آگ میں ڈال دی گئی کہ اس نے ایک بلی کو باندھ رکھا تھا‘ وہ نہ تو اُسے کھانے کو کچھ دیتی تھی اور نہ اُسے آزاد ہی کرتی تھی کہ وہ زمین میں اپنا رزق تلاش کر کے کھاتی۔ (بخاری ، مسلم)

آیئے‘ ہم توبہ اور خود احتسابی کی طرف متوجہ ہوں جس طرح حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ:

حَاسِبُوْا قَبْلَ اَنْ تُحَاسَبُوْا، وَزِنُوْا اَعْمَالَکُمْ قَبْلَ اَنْ تُوْزَنُوْا ، وَتَھَیَّئُوْا لِلْعَرْضِ الْاَکْبَرِ، اپنا احتساب کرو‘ قبل اس کے کہ تمھارا احتساب کیا جائے‘ اپنے اعمال کا وزن کرو قبل اس کے کہ تمھارے اعمال کا وزن کیا جائے اور بڑی پیشی (یعنی قیامت کے دن) کے لیے تیاری کرو۔

(المجتمع‘ کویت‘ شمارہ ۱۶۵۵‘ ۱۱ جون ۲۰۰۵ئ)