’پاکستان کا روشن مستقبل اور عوامی تحریک‘ (جولائی ۲۰۰۶ئ) میں آپ نے متبادل اسلامی اقتصادی نظام پر ٹھنڈے دل سے غوروفکر کی دعوت دی ہے۔ یقینا ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے اس دور میں پہلی ترجیح اسلامی مالیاتی نظام ہونا چاہیے اور کسی بھی کش مکش میں اسے ہراول دستے کا کردار ادا کرنا چاہیے۔
’غریب ملک کے حکمرانوں کی شاہ خرچیاں‘ (جولائی ۲۰۰۶ئ) پڑھ کر دل خون کے آنسو رویا اور جی چاہتا ہے کہ زمین پھٹ جائے اور ہم مفلوک الحال پاکستانی عوام اس میں سما جائیں۔ حکمرانوں کی ان تمام تر شاہ خرچیوں اور اللّوں تللّوں سے یہ بات عیاں ہے کہ اب یہ ملک عوام الناس کے لیے نہیں بلکہ صرف اشرافیہ‘ طبقۂ امرا اور حکمرانوں کے لیے باقی رہ گیا ہے۔ شاید پاکستانی قوم کے اجتماعی و انفرادی گناہوں اور بداعمالیوں کی سزا کے طور پر موجودہ حکمران ایک عذاب کے طور پر مسلط کردیے گئے ہیں۔
’غریب ملک کے حکمرانوں کی شاہ خرچیاں‘ نے موجودہ حکمرانوں کے بھیانک چہرے کو بے نقاب کردیا ہے۔ یاد رہے کہ برا وقت ہمیشہ دبے پائوں آتا ہے اور کھلی آنکھوں کو پتا ہی نہیں چلتا۔ اس سے پہلے کہ وہ وقت آئے ’روشن خیال‘ اور ’اعتدال پسند‘ حکمرانوں کو اپنا محاسبہ کرنا چاہیے۔ ’مولانا مودودی کا تصورِ اجتہاد‘ (جولائی ۲۰۰۶ئ) اجتہاد کے موضوع پر جامع تحریر ہے۔ آج جس طرح سے مغرب زدہ دانش ور اسلام کی تعبیرجدید کے نام پر اسلام کو مسخ کرنے کی مذموم کوششیں کررہے ہیں‘ اس پر صحیح گرفت کی گئی ہے۔
’غریب ملک کے حکمرانوں کی شاہ خرچیاں‘ پڑھ کر محسوس ہوا کہ ہمارا مسئلہ اقتصادی ہی نہیں بلکہ ہمیں اخلاقی بحران کا بھی سامنا ہے۔ بحیثیت مجموعی قوم کی اخلاقی تربیت کا کوئی بندوبست نہیں۔ اقتصادی بحران سے نکلنے کے لیے بھی عوام کو بلند اخلاقی کردار سے لیس کرنا ناگزیر ہے۔
’نومسلم کی سرگزشت‘ (جولائی ۲۰۰۶ئ)‘ محترم حسن علی کی نہایت ایمان افروز داستان ہے اور اس میں ایک موروثی مسلمان کے لیے عبرت کے بہت سے پہلو پنہاں ہیں۔ ’امریکی معاشرہ: ایک سابق صدر کی گواہی‘ گویا گھرکے فرد کی گواہی ہے۔ اس سے امریکی معاشرے کی حقیقی صورت حال کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ ’رسائل و مسائل‘ کی کمی محسوس ہوئی۔
’نومسلم کی سرگزشت‘ ایمان افروز بھی ہے اور ایمان پرور بھی۔ یہ روداد راوی کے حق میں یقینا حجت ثابت ہوگی اور عوام الناس کے حق میں اسلام کی حقانیت کو اجاگر کرنے‘ ایمان جیسی بیش قیمت متاع کی حقیقی قدر پیدا کرنے اور اسے عام کرنے کا ذریعہ بنے گی۔
نومسلم کی ایمان افروز سرگزشت پڑھ کر یہ سوال بھی ذہن میں اُبھرا ہے کہ جب نومسلم خاندان ۱۲برس کی طویل جاںگسل آزمایش سے گزر رہا تھا تو امرت سر کے مسلمانوں کا کیا کردار رہا؟ کیا ان کا کام قبولِ اسلام پر محض پرجوش نعرے بلند کرنا اور تحفظ کے لیے ڈی سی کو درخواست کرنا تھا‘ یا آگے بڑھ کر اپنے نومسلم بھائیوں کی ہرطرح سے مدد کرنا اور ان کے تالیفِ قلب کا سامان کرنا تھا!
’نومسلم کی سرگزشت‘ (جولائی ۲۰۰۶ئ) کی اشاعت کے بعد بہت سے لوگوں نے مجھ سے رابطہ کیا۔ خدا تعالیٰ میرے اس جذبے کو شرفِ قبولیت بخشے اور لوگوں کے لیے باعث تحریک ہو۔
سابق امریکی صدر جمی کارٹر کا مضمون (ملخص) نظر سے گزرا (جولائی ۲۰۰۶ئ)‘ جنھوں نے اپنے معاشرے یا امریکی حکومت کے خلاف گواہی دینے کی بے معنی کوشش کی ہے۔ ان صاحب نے اپنے دورِ حکومت میں ظلم کی جن راہوں کو کشادہ کیا‘ وہ تاریخ کا حصہ ہیں۔ بظاہر یہ ناصحانہ تحریر عام لوگوں اور بالخصوص مسلمانوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ کارٹر بنیادی طور پر ویسا ہی قدامت پرست پادری ہے‘ جیسا تشددپسند پادری جارج بش ہے۔ یہ صاحب گذشتہ ۲۵ برس سے انڈونیشیا کے مسلمانوں کو عیسائی بنانے کے لیے وہاں ڈیرا جمائے بیٹھے ہیں۔ مغرب کے قول و فعل کے تضادات اور انسانیت کُش پالیسیاں خود بے حجاب ہیں۔ ایسے ظالموں کی گواہی کچھ وزن نہیں رکھتی بلکہ اس طرح پیش کرنے سے خود ان کا داغ دار چہرہ کچھ صاف ہونے لگتا ہے‘ جس سے بچنا چاہیے۔
ماہ جولائی کا شمارہ اتنا بھرپور اور متاثر کن ہے کہ ع کرشمہ دامنِ دل می کشد کہ جا اینجا است (ہر خوبی دامن دل کھینچتی ہے کہ یہی مقام بہترین مقام ہے)۔ ملکی احوال‘ عصری مسائل‘ فکری رہنمائی‘ تزکیہ و تربیت اور اُمت کے حالات کے حوالے سے مضامین کا تنوع بھی ہے اور وقیع مواد پر مبنی ہے۔ اللّٰھم زد فزد۔
دل آزار خاکے شائع کرنے والے ڈنمارک کے ناپاک اخبار Posten Jyllands کا ایڈیٹر Elliot Beck اپنے بیڈروم میں جل کر واصل جہنم ہوا۔ قومی اسمبلی میں بھی اس کا ذکر آیا‘ مگر افسوس کہ یہ خبر عام نہ ہوسکی۔
ماہنامہ ترجمان القرآن میں بڑے اہم مسائل پر مضامین شائع ہوتے ہیں‘ لیکن وہ مسائل جو عوام کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں ان پر بھی بھرپور تحریریں ہونی چاہییں۔ کم تولنا‘ کم ناپنا اور کم گننا‘ تیل کی قیمت میں بار بار اضافہ‘ کرایوں میںاضافہ اور نہ ہونے کے برابر سہولتیں‘ مہنگائی‘ سفارش اور رشوت کا دور دورہ‘ لاقانونیت اور سرکاری ملازمین کو درپیش مسائل‘ زکوٰۃ کی غیرمنصفانہ تقسیم‘ ہسپتالوں کی ناگفتہ بہ صورت حال‘ ڈاکٹروں کی لوٹ مار اور ادویہ ساز کمپنیوں کی اندھیرنگری جیسے موضوعات پر مقالات لکھوانے کی ضرورت ہے۔