اگست۲۰۰۶

فہرست مضامین

محمد اسد: قیمتی ہیرا

پروفیسر خورشید احمد | اگست۲۰۰۶ | مطالعہ کتاب

Responsive image Responsive image

بیسویں صدی میں اُمتِ اسلامیہ کے علمی اُفق کو جن روشن ستاروں نے تابناک کیا‘ ان میں جرمن نومسلم محمد اسد (لیوپولڈ ویز) کو ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ اسد کی پیدایش ایک یہودی گھرانے میں ۱۹۰۰ء میں ہوئی۔ ۲۳ سال کی عمر میں ایک نوعمر صحافی کی حیثیت سے عرب دنیا میں تین سال گزارے اور اس تاریخی علاقے کے بدلتے ہوئے حالات کی عکاسی کے ذریعے بڑانام پایا لیکن اس سے بڑا انعام ایمان کی دولت کی بازیافت کی شکل میں اس کی زندگی کا حاصل بن گیا۔ ستمبر۱۹۲۶ء میں جرمنی میں مشہور خیری برادران میں سے بڑے بھائی عبدالجبار خیری کے دستِ شفقت پر قبولِ اسلام کی بیعت کی اور پھر آخری سانس تک اللہ سے وفا کا رشتہ نبھاتے ہوئے اسلامی فکر کی تشکیل اور دعوت میں ۶۶سال صرف کر کے بالآخر ۱۹۹۳ء میں رب حقیقی سے جاملے۔

محمداسد کی داستان محض ایک انسان کی داستان نہیں‘ ایک تاریخ ساز دور کی علامت اور عنوان ہے۔ ایک بے تاب روح‘ خطروں کو انگیز کرنے والا ایک نوجوان‘ ایک تہذیب سے ایک دوسری تہذیب کا مسافر‘ ایک محقق اور مفکر‘ ایک سیاسی تجزیہ نگار اور سفارت کار‘ اور سب سے بڑھ کر قرآن کا ایک مخلص خادم___ اسد کی چند آرا سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن فکری اور تہذیبی میدانوں میں ان کے مجتہدانہ اور مجاہدانہ کارناموں سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

اسد نے مسلمانوں کی نئی نسلوں کے افکار کو متاثر کیا اور اسلامی دنیا میں اپنا مقام بنایا۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ بیسویں صدی میں‘ مغربی دنیا سے دائرۂ اسلام میں داخل ہونے والے اشخاص میں سب سے نمایاں مقام محمداسد ہی کو حاصل ہے اور بجاطور پر زیرنظر کتاب میں اسے ’اسلام کے لیے یورپ کا تحفہ‘ قرار دیا گیا ہے۔ ان کے لیے یہ الفاظ ایک دوسرے جرمن نومسلم ولفریڈ ہوف مین (Wilfred Hoffman)نے استعمال کیے ہیں‘اور یہ بھی بڑا نادر توارد ہے کہ خود مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی نے بھی چودھری نیاز علی خاں صاحب کے نام اپنے ایک خط میں غالباً ۱۹۳۶ء میں محمداسد کے بارے میں یہ تاریخی جملہ لکھا تھا: ’’میرا خیال یہ ہے کہ دورِ جدید میں اسلام کو جتنے غنائم یورپ سے ملے ہیں‘ ان میں یہ سب سے زیادہ قیمتی ہیرا ہے‘‘۔

یہ تحقیقی کتاب اس ہیرے کی زندگی‘ خدمات اور نگارشات پرمشتمل ہے جسے محمد اکرام چغتائی صاحب نے بڑی محنت‘ محبت اور قابلیت سے مرتب کیا ہے اور اس سلسلے میں اُمتِ مسلمہ پر بالعموم اور ملتِ اسلامیہ پاکستان پر بالخصوص جو قرض تھا‘ اسے فراخ دلی سے اداکردیا ہے۔ یہ ایک     فرضِ کفایہ تھا جو انھوں نے اور ٹروتھ سوسائٹی نے ادا کیا ہے اور ہم اللہ تعالیٰ سے ان کے لیے بہترین اجر کی دعا کرتے ہیں۔

محمد اسد سے میرا بھی اولین تعارف‘ سیکڑوں بلکہ ہزاروں نوجوانوں اور طالبینِ حق کی طرح ان کی پہلی کتاب Islam at The Crossroadsکے ذریعے ہوا۔ میری اپنی زندگی میں قیامِ پاکستان کے بعد کے دو سال بڑے فیصلہ کن تھے اور ایک طرح میں بھی دوسرے نوجوانوں کی طرح ایک دوراہے پر کھڑا تھا___ ایک طرف مغربی تہذیب اور مغرب سے اٹھنے والی تحریکوں کی    چمک دمک تھی‘ اور دوسری طرف تحریکِ پاکستان کا نظریاتی آدرش اور اسلام کے ایک عالمی پیغام اور تحریکِ انقلاب ہونے کا احساس۔ دونوں کی اپنی اپنی کشش تھی اور میرے جیسے نوجوانوں کا      معمّا کہ ع

ادھر جاتا ہے دیکھیں یا ادھر پروانہ آتاہے

اقبال کے ایمان افروز کلام اور مولانا مودودی کے دل و دماغ کو مسخر کرنے والے   لٹریچر کے ساتھ جس کتاب نے خود مجھے اس دوراہے سے نجات دلائی اور شاہ راہِ اسلام کی طرف رواں دواں کردیا‘ وہ اسد کی یہی کتاب تھی۔ اس وقت سے اسد سے ایک گہرا ذہنی اور قلبی تعلق قائم ہوا اور پھر اس وارفتگی کے عالم میںتلاشِ بسیار کے بعد عرفات کے شمارے اور صحیح بخاری کے ترجمے کے پانچ ابواب حاصل کیے اور وردِجان کرلیے۔ اسٹوڈنٹس وائس (اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کا انگریزی ترجمان) کے دورِادارت میں محمد اسد سے بھرپور استفادہ کیا اور ان سے ملنے کے لیے بے چین رہا۔ یہ خواہش ۱۹۵۴ء میں پوری ہوئی جب محمد اسد چند دن کے لیے پاکستان آئے۔ کراچی میں سندھ کلب میں میری اور ظفراسحاق انصاری اور خرم مراد کی ان سے ملاقات ہوئی اور جو تصویر ذہن میں بنائی تھی‘ اس کے مطابق پایا۔

اس زمانے میں اسد پاکستان کے اقوام متحدہ کے مشن سے فارغ ہوچکے تھے اور وزارتِ خارجہ کے افسران سے خاصے بددل تھے۔ انھوں نے یہ ذکر بھی کیا کہ Road to Mecca       (شاہ راہِ مکہ)شائع ہو رہی ہے (بلکہ مجھے فخرہے کہ اس کا ایک نسخہ انھوں نے مجھے بھیجا جس پر اسٹوڈنٹس وائس میں تبصرہ میں نے ہی لکھا تھا)۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ اس کی دوسری جِلد لکھنا چاہتا ہوں جس میں پاکستان کی اس وقت کی قیادت پر تنقید بھی ہوگی۔ افسوس یہ جلد شائع نہ ہوسکی اور پتا نہیں اس کے نوٹس یا نامکمل مسودہ کہاں ہے۔ اس مجموعے میں بھی اس کاکوئی سراغ نہیں ملا۔ محمداسد نے میرے نام ایک خط میں بھی دو سال بعد اس کا ذکر کیا تھا۔

محمد اسد کی گم شدہ پونجی میں اس مذکورہ دوسری جِلدکا نامکمل مسودہ یا نوٹس‘ صحیح بخاری کے کچھ دوسرے ابواب کے بارے میں ان کے نوٹس‘ اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے نمایندے کی حیثیت سے ان کی تقاریر میری نگاہ میں قابلِ ذکر ہیں اور اب بھی ان کی تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ کم از کم اقوام متحدہ کے ریکارڈ سے ان کی تقاریر کی نقول حاصل کی جاسکتی ہیں۔ اسی طرح جو خطوط اور رپورٹیں انھوںنے وزارتِ خارجہ کو اس زمانے میں لکھی تھیں‘ انھیں بھی حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

محمد اسد سے میرے تعلق کی نوعیت ایک استاد اور شاگرد اور ایک ہیرو اور اس کے مشتاق (fan) کی ہے ‘اور جو تعلق ۱۹۴۹ء میں قائم ہوا تھا وہ ۱۹۹۲ء تک قائم رہا۔ پھران سے بارہا ملاقاتیں ہوئیں اور ان کی شفقت میں اضافہ ہی ہوا۔ ۱۹۷۶ء کی لندن کانفرنس میں برادرم سالم عزام کے ساتھ مجھے کانفرنس کے سیکرٹری جنرل کے فرائض انجام دینے کی سعادت حاصل ہے اور اس زمانے میں محمد اسد سے ہمہ وقت استفادے کا موقع ملا۔ فکری اعتبارسے میں نے ان کی اپروچ میں کوئی تبدیلی محسوس نہیں کی‘ البتہ اُمت کے حالات سے دل گرفتگی اور مسلمانوں کی قیادتوں سے مایوسی آخری ۳۰سال میں کچھ زیادہ ہی محسوس ہوئی۔

افکار وعلمی خدمات

محمد اسد کبھی بھی سرگرم کارکن (activist) نہ تھے لیکن فکری اعتبار سے ان کا کارنامہ    بڑا واضح ہے اور اس میں چار چیزیں بہت نمایاں ہیں:

پہلی چیز مغربی تہذیب اور یہود عیسائی روایت (Judo-Christian Tradition) کے بارے میں ان کا واضح اور مبنی برحق تبصرہ و تجزیہ ہے۔ مغرب کی قابلِ قدر چیزوں کے کھلے دل سے اعتراف کے ساتھ مغربی تہذیب اور عیسائی تہذیبی روایت کی جو بنیادی خامی اور کمزوری ہے‘ اس کا نہایت واضح ادراک اور دوٹوک اظہار ان کا بڑا علمی کارنامہ ہے۔ زندگی کی روحانی اور مادی خانوں میں تقسیم برائی کی اصل جڑ ہے اور اس سلسلے میں عیسائی روایت اور مغربی تہذیب کا اسے اس کی   انتہا تک پہنچا دینے کا انھیں مکمل ادراک تھا۔ اس حوالے سے اپنی زندگی کے کسی بھی دور میں وہ کسی شش و پنج یا الجھائو (confusion)کا شکار نہیں ہوئے۔ مغرب کے تصورِ کائنات‘ انسان‘ تاریخ اور معاشرے پر ان کی گہری نظر تھی اور اسلام سے اس کے تصادم کا انھیں پورا پورا شعور و ادراک تھا۔ وہ کسی تہذیبی تصادم کے قائل نہ تھے مگر تہذیبوں کے اساسی فرق کے بارے میں انھوں نے کبھی سمجھوتا نہ کیا۔ اسلام کے ایک مکمل دین ہونے اور اس دین کی بنیاد پر اس کی تہذیب کے منفرد اظہار کو یقینی بنانے اور دورِحاضر میں اسلام کی بنیاد پر صرف انفرادی کردار ہی نہیں‘ بلکہ اجتماعی نظام کی تشکیلِ نو کے وہ داعی تھے اور اپنے اس مؤقف کو دلیل اور یقین کے ساتھ پیش کرتے تھے۔ اسلام کا یہ جامع تصور ان کے فکر اور کارنامے کا دوسرا نمایاں پہلوہے۔

ان کا تیسرا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے اُمت کے زوال کے اسباب کا گہری نظر سے مطالعہ کیا اور اس سلسلے میں جن بنیادی کمزوریوںکی نشان دہی کی‘ ان میں تصورِدین کے غبارآلود ہوجانے کے ساتھ‘ سیرت و کردار کے فقدان‘ دین و دنیا کی عملی تقسیم‘ اجتہاد سے غفلت اور رسم و رواج کی محکومی اور سب سے بڑھ کر قرآن وسنت سے بلاواسطہ تعلق اور استفادے کی جگہ ثانوی مآ خذ پر ضرورت سے زیادہ انحصار بلکہ ان کی اندھی تقلید شامل ہیں۔ فقہی مسالک سے وابستگی کے بارے میں ان کی پوزیشن ظاہری مکتب ِفکر سے قریب تھی۔ ان کی دعوت کا خلاصہ قرآن و سنت سے    رجوع اور ان کی بنیاد پرمستقبل کی تعمیروتشکیل تھا۔ قرآن ان کی فکر کا محور رہا اورحدیث اور سنت کو وہ اسلامی نشاتِ ثانیہ کی اساس سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے تمام بڑے قیمتی مضامین کے باوصف جن کا موضوع اسلامی قانون‘ اسلامی ریاست اور مسلمانوں کی اصل ثقافتی شناخت تھا‘ ان کا اصل علمی کارنامہ قرآن پاک کا ترجمہ و تفسیر اور صحیح بخاری کے چند ابواب کا ترجمہ اور تشریح ہے   جن کی حیثیت میری نگاہ میں اس دور میں کلاسک کی ہے۔ پھر روڈ ٹو مکہ ان کی وہ کتاب ہے  جو علمی‘ ادبی‘ تہذیبی‘ ہر اعتبار سے ایک منفرد کارنامہ اور صدیوں زندہ رہنے والی سوغات ہے۔

محمد اسد کے کام کی اہمیت کا چوتھا پہلو‘ دورِ جدید میں اسلام کے اطلاق اور نفاذ کے سلسلے میں ان کی حکمت عملی‘ اور اسی سلسلے میں تحریکِ پاکستان سے ان کی وابستگی اور پاکستان کے بارے میں ان کا وِژن اور وہ عملی کوششیں ہیں جو عرفات‘ قومی تعمیرنو کے ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے ان کی نگارشات‘ ان کی تقاریر اور پھر ان کی دو کتابیں: Islam at The Crossroadsاور The Principles of State and Government in Islamہیں۔ عرفات کے زمانے کے یہ مضامین دورِحاضر میں نفاذِ اسلام کا وژن اور اس کے لیے واضح حکمت عملی پیش  کرتے ہیں۔ چند امور پر اختلاف کے باوجود اس باب میں محمد اسد کے وژن اور فکر اور دورِجدید کی اسلامی تحریکات کے وِژن میں بڑی مناسبت اور یکسانی ہے حالانکہ وہ کبھی بھی ان تحریکوں سے عملاً وابستہ نہیں رہے۔ اس سلسلے میں ایک جرمن مبصر کارل گنٹرسائمن (Karl Gunter Simon) کے مضمون سے ایک اقتباس دل چسپی کا باعث ہوگا جو محمد اسد سے ایک اہم انٹرویو پر مبنی ہے اور  جرمن پرچے‘ Frankfurter Allgemine Zeiting میں ۱۸ نومبر ۱۹۸۸ء کو ان کے انتقال سے چار سال قبل شائع ہواتھا:

لیوپولڈویز کو بھلایا جا چکا ہے لیکن کم سے کم اسلامی دنیا میں محمداسد مشہور ہیں۔وہ اس سال ۸۸ برس کے ہوجائیں گے:

’’احیاے اسلام کے لیے ہمیں باہر سے ماڈل تلاش نہیں کرنے چاہییں۔ ہمیں بس پرانے بھولے ہوئے اصولوں کو تازہ کرنے کی ضرورت ہے۔ بیرونی تہذیبیں ہمیں   نیا تحرک دے سکتی ہیں لیکن کوئی غیراسلامی چیز اسلام کے مکمل نمونے کا بدل نہیں بن سکتی‘ خواہ اس کا ماخذ مغرب ہو یا مشرق۔ اسلام کے روحانی اور اجتماعی ادارے (خود مکمل ہیں ان کو کسی بیرونی مدد سے) بہتر نہیں بنایا جاسکتا۔ اسلام کا زوال درحقیقت ہمارے قلوب کی موت یا دلوں کا خالی ہوجانا ہے…‘‘

کیا یہ اخوان المسلمون کا کوئی مناظرانہ موقف ہے؟ یا بنیاد پرستوں کا اعلان‘ خواہ وہ دنیا کے کسی بھی گوشے میں ہوں؟ نہیں‘ قطعی نہیں۔ یہ جدید بیانات ایک پرانی کتاب میں پائے جاتے ہیں جو ۱۹۳۳ء میں لکھی گئی‘ یعنی Islam at The Crossroads۔ یہ محمد اسد کی پہلی کتاب تھی (حوالہ مذکورہ کتاب‘ ص ۲۴)

اقبال اس فکر کو ۱۱-۱۹۱۰ء سے پیش کر رہے تھے۔ حسن البناء نے ۱۹۲۸ء میں    تحریک اخوان المسلمون کا آغاز اسی پیغام کے ساتھ کیا۔ سید مودودی نے ۱۹۳۳ء میں ترجمان القرآن اسی کلمے کی بنیاد پر اجتماعی زندگی میں انقلاب برپا کرنے کے لیے نکالا‘ اور محمداسد نے ۱۹۳۳ء میں یہی بات اپنے دل نشین انداز میں کہی۔ دو کا تعلق برعظیم پاک و ہند سے تھا‘ ایک مصر کے گلزار کا پھول تھا اور ایک یورپ کے روحانی قبرستان کی زندہ آواز___ لیکن سب  ایک ہی بات کہہ رہے تھے‘ اس لیے کہ ان سب کی رہنمائی کا سرچشمہ قرآن پاک اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھی۔ محمداسد بیسویں صدی میں اسلام کے نشاتِ ثانیہ کے معماروں میں سے   ایک تھے اور انھوں نے مغرب اور مشرق کے فرق کو ختم کر کے اسلام کے عالمی پیغام کی صداقت کو الم نشرح کیا۔

تحریکِ پاکستان اور پاکستان سے تعلّق

محمد اسد کے یہاں پاکستان اور تحریکِ پاکستان کے اصل مقاصد اور اہداف کا بڑا واضح اِدراک ہے اور آج کی پاکستان کی نام نہاد قیادتوں کے لیے اسد کی تحریروں میں بڑا سبق ہے اور پاکستانی قوم کے لیے عبرت کا پیغام بھی۔ دیکھیے محمد اسد فروری ۱۹۴۷ء میں اپنے پرچے عرفات میں کس وضاحت‘ فکری سلاست اور علمی دیانت کے ساتھ پاکستان کے تصور کو بیان کرتے ہیں۔ ماضی میں اُبھرنے والی بہت سی اصلاحی تحریکوں کا ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

تحریکِ پاکستان اس طرح کی تمام صوفیانہ تحریکوں سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔ یہ کسی روحانی رہنما پر لوگوں کے اعتقاد سے جذبہ و توانائی حاصل نہیں کرتی‘ بلکہ اس کا یہ ادراک___ جو بیش تر معاملات میں ہدایت دیتا ہے‘ اور علمی حلقوں میں صاف صاف سمجھا جاتا ہے___ کہ اسلام (پورے نظامِ زندگی کی تعمیرنو کی)ایک معقول تدبیر ہے‘ اور اس کی سماجی و اقتصادی اسکیم انسانیت کو درپیش تمام مسائل کا حل فراہم کرسکتی ہے‘ اور اس کا واضح تقاضا یہ ہے کہ اس کے اصولوں کی پیروی کی جائے۔ نظریۂ پاکستان کا  یہ علمی پہلو اس کا سب سے اہم پہلو ہے۔ اس کی تاریخ کا ہم کھلی آنکھوں سے مطالعہ کریں تو ہم یہ پائیں گے کہ اپنے اوّلین دور میں اسلام کی فتح کی وجہ اس کی انسان کی فہم‘ دانش اور عقل عام سے اپیل ہے۔

تحریکِ پاکستان‘ جس کی کوئی نظیر جدید مسلم تاریخ میں موجود نہیں ہے‘ ایک نئے اسلامی ارتقا کا نقطۂ آغاز ہوسکتی ہے‘ اگر مسلمان یہ محسوس کریں‘ اور جب پاکستان حاصل ہوجائے تب بھی محسوس کرتے رہیں کہ اس تحریک کا حقیقی تاریخی جواز اس بات میں نہیں ہے کہ ہم اس ملک کے دوسرے باشندوں سے لباس‘ گفتگو یا سلام کرنے کے طریقے میں مختلف ہیں‘ یا دوسری آبادیوں سے جو ہماری شکایات ہیں‘ اس میں‘ یا ان لوگوں کے لیے جو محض عادتاً اپنے کو مسلمان کہتے ہیں‘ زیادہ معاشی مواقع اور ترقی کے امکانات حاصل کریں‘ بلکہ ایک سچا اسلامی معاشرہ قائم کرنے میں ہے۔ دوسرے لفظوں میں اسلام کے احکامات کو عملی زندگی میں نافذ کرنا۔ (ص ۸۶۳- ۸۶۵)

پھر مئی ۱۹۴۷ء میں جب قیامِ پاکستان کے امکانات اُفق پر روشن ہوگئے تھے‘ قائداعظم اور لیاقت علی خاں کی تقریروں اور دعووں کا حوالہ دینے کے ساتھ کس دل سوزی سے پاکستان کی انفرادیت (uniqueness) کو بیان کرتے ہیں:

جہاں تک مسلمان عوام کا تعلق ہے‘ تحریکِ پاکستان ان کے اس وجدان کا حصہ ہے کہ وہ ایک نظریاتی برادری ہیں‘ اس لیے ایک خودمختار سیاسی وجود کا حق رکھتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں‘ وہ محسوس کرتے ہیں اورجانتے ہیں کہ ان کی برادری کا وجود دوسری برادریوں کی طرح کسی نسلی وابستگی یا کچھ ثقافتی روایات کے اشتراک پر مبنی نہیں ہے‘ بلکہ صرف اور صرف اس حقیقت پر مبنی ہے کہ وہ اسلام کے نظریۂ حیات سے مشترک وابستگی رکھتے ہیں۔ اور یہ کہ انھیں اپنی برادری کے وجود کے لیے جوازایک سماجی و سیاسی نظام قائم کرکے فراہم کرنا چاہیے جس میں اس نظریۂ حیات‘ یعنی شریعت کا عملی نمونہ دیکھا جاسکے گا۔ (ص ۹۱۲)

پھر دیکھیے کہ کس فکری دیانت اور جذبۂ ایمانی کے ساتھ اپنے دل کو چیر کر ملّتِ اسلامیہ پاکستان اور اس کی قیادت کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ پہلے ان کو مغرب کے تجربات سے متنبہ کرتے ہیں کہ تمھیں آزادی ملنے والی ہے‘ مگر دیکھو محض غیرمسلموں کے اعتراضات اور نفع عاجلہ کے چکر میں نہ پڑجانا بلکہ اپنے اصل مقصد پر قائم رہنا۔ اس غلط فہمی میں بھی نہ رہنا کہ اسلام تو طویل عرصے کا ہدف ہے اور فوری طور پر وہ کرنے کے چکر میں پڑ جائو جو وقتی مصلحت کا تقاضا ہو۔ کہتے ہیں:

ہم یہ نہیں چاہتے۔ ہم پاکستان کے ذریعے اسلام کو صرف اپنی زندگیوں میں ایک حقیقت بنانا چاہتے ہیں۔ ہم اس لیے پاکستان چاہتے ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک   اس قابل ہو کہ لفظ کے وسیع ترین مفہوم میں ایک سچی اسلامی زندگی بسر کرسکے۔ اور      یہ بالکل ناممکن ہے کہ کوئی شخص اللہ کے رسولؐ کی بتائی ہوئی اسکیم کے مطابق زندگی گزار سکے‘ جب تک کہ پورا معاشرہ شعوری طور پر اس کے مطابق نہ ہو اور اسلام کے قانون کو ملک کا قانون نہ بنائے۔ (ص ۹۱۸)

ایک جملے میں محمداسد نے پوری تحریکِ پاکستان کا جوہر اور ہدف یوں بیان کردیا جو مئی ۱۹۴۷ء میں ان کے اس مضمون کے آخری پیراگراف کا حصہ ہے:

مسلمان عوام وجدانی طور پر پاکستان کی اسلامی اہمیت کو محسوس کرتے ہیں اور واقعی ایسے حالات کی خواہش رکھتے ہیں جن میں معاشرے کے ارتقا کا نقطۂ آغاز لا الٰہ الا اللہ ہو۔ (ص ۹۲۵)

افسوس کہ پاکستان کی سیاسی قیادتوں نے اس اصل منزل کو مفاد پرستی اور وقتی مصلحتوں کی تلاش میں گم کردیا۔ محمداسد کو اس کا بے پناہ قلق تھا۔

دو منفرد پھلو

محمد اسد کی زندگی کے دو پہلو ایسے ہیں جن کا اعتراف نہ کرنا بڑا ظلم ہوگا اور ان میں سے کم از کم ایک میں‘ مجھے وہ دورِحاضر میں منفرد نظرآتے ہیں۔ میں نے سیکڑوں نومسلموں کے حالاتِ زندگی کا مطالعہ کیا ہے اور ایک بڑی تعداد سے ذاتی طور پر تعلقات رکھنے کی سعادت پائی ہے۔

نوجوانی میں ایک کتاب ابراہیم باوانی مرحوم کی دعوت پر Islam Our Choice کے عنوان سے مرتب بھی کی تھی اور اس کے لیے بھی بڑی تعداد میں قبولِ اسلام کی سچی داستانوں کو  پڑھا تھا۔ ستاروں کی اس کہکشاں میں ایک سے ایک دل نواز شخصیت کی تصویرِ حیات دیکھی جاسکتی ہے اور ہرہرفرد اسلام کی کسی نہ کسی خوبی کافریفتہ ہوکر حلقۂ بگوش اسلام ہوا۔ زیادہ کا تعلق اسلام کی تعلیمات اور قرآن کے دل فریب پیغام سے ہے۔ لیکن محمد اسد کی ایک ذات ایسی ہے جو مسلمانوں سے مسحور ہوکر اسلام کی متلاشی اور پھر اس کی گرویدہ ہوئی۔

دل پر پہلی ہی چوٹ اس وقت لگی جب ۲۳سالہ جرمن نوجوان عرب دنیا میں ٹرین میں  سفر کرتا ہے اور کھانے کے وقت اس کا عرب ہم سفر اس اجنبی کو جانے بغیر اسے کھانے میں   شریک ہونے کی دعوت دیتا ہے۔ خودپسند اور اپنی ذات کے خول میں گم مغربی دنیا کے اس نوجوان کے لیے یہ بڑا عجیب تجربہ تھا۔ پھر جس سے بھی وہ ملتا ہے‘ جس بستی میں جاتا ہے‘ جس جگہ قیام کرتا ہے‘ اسے ایک دوسری ہی قسم کی مخلوق ملتی ہے جن کے باہمی تعلقات‘ بھائی چارے‘ محبت اور دکھ درد میں شرکت پر مبنی ہیں۔ عجیب معاشرہ ہے جو مسافر کی قدر کرتا ہے اور مہمان داری کو سعادت سمجھتا ہے۔ جو کھانا کھلا کر بل پیش نہیں کرتا۔

لیوپولڈ ویز کو یہ تجربہ بڑا عجیب لگتا ہے مگر اس کی روح اس دنیا میں بڑا سکون اور بڑی اپنائیت پاتی ہے۔ روح کی پیاس کے لیے یہاں سیرابی کا بڑا سامان ہے۔ یہ کلچر اسے اپنی طرف کھینچتا ہے اور وہ اس جستجو میں لگ جاتا ہے کہ انسانی معاشرے کے اس ماڈل کو بنانے والے عناصر کیا ہیں___ یہ اسے اسلام اور اس کے حیات بخش پیغام تک لے آتے ہیں۔ تین سال کی صحرانوردی میں وہ اس تہذیب سے دُور ہوتا جاتا ہے جہاں اس نے آنکھ کھولی تھی‘ اور اب اس کی آنکھوں کو وہ دنیا بھا جاتی ہے جس میں اب وہ زندگی گزار رہا ہے۔ پھر اسلام‘ جیساکہ اس نے ایک جگہ لکھا ہے‘ اس کے دل میں بس ایک چور کی طرح خاموشی سے داخل ہوجاتا اور پھر اس دل کو    اپنا گھر بنالیتاہے۔ چورکی تمثیل یہاں ختم ہوجاتی ہے۔ چور چپکے چپکے داخل ہوتا ہے مگر کچھ لے کر چپکے چپکے نکل جاتا ہے۔ اسلام داخل تو چپکے چپکے ہی ہوتاہے لیکن کچھ لینے کے لیے نہیں‘ کچھ دینے کے لیے اورپھر ہمیشہ اسی گھر میں رہنے کے لیے۔

لیوپولڈ ویز ایک طلسمی عمل کے ذریعے اسی دنیا کا ہوجاتا ہے جس کی خبر دوسروں کو دینے کے لیے صحافی کے لباس میں وہ ان کے درمیان آیا تھا۔ اب یہاں اس نے نہ ختم ہونے والی دوستیاں استوار کرلی ہیں۔ اب یہاں اس نے اس معاشرے کی ان اقدار کو جو اس کے لیے پہلے بالکل نئی تھیں اپنی شخصیت کا حصہ بنالیا ہے۔ اب اس کے دل کی دنیا میں ایک انقلاب آگیا ہے اور بالآخر وہ چیز جو غیرشعوری طور پر اس کے روح و بدن میں داخل ہوگئی تھی‘ وہ اسے شعوری طور پر  قبول کرلیتا ہے اور کلمۂ شہادت ادا کرکے اس کا پوری دنیا کے سامنے اعلان کر ڈالتا ہے۔   ہزاروں لاکھوں انسان اسلام کے راستے مسلمانوں میں داخل ہوئے۔محمد اسد مسلم دنیا کے   بیسویں صدی کے گئے گزرے حال میں بھی مسلمانوں کے ذریعے اسلام تک پہنچا اور پھر اسلام کو اس نے اس طرح اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا کہ مسلمانوں ہی کی حالت کی اصلاح کے لیے دل گرفتہ اور سرگرم عمل ہوگیا۔ تبدیلی (conversion )یا رجوع (reversion) کی تاریخ کا یہ بڑا دل چسپ اور سبق آموز واقعہ ہے۔

محمد اسد کی زندگی کا دوسرا پہلو جس نے مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا‘ وہ یہ ہے کہ  اسد نے صرف اسلام ہی کو قبول نہیں کیا بلکہ عملاً اس نے اسلامی دنیا ہی کو اپنا مسکن بنا لیا۔ اس نے مغرب سے دین کاناتا ہی نہیں توڑا بلکہ جغرافیائی سفر کر کے وہ پھر اس دنیا کا حصہ ہی بن گیا جس نے اسے مقناطیس کی طرح اپنی طرف کھینچا۔ وہ امریکا اور یورپ میں بھی رہا لیکن اس کی روح کو      سکون بدوؤں (bedoein) کی دنیا ہی میں ملتا ہے۔ اس کی آخری شریکِ حیات پولااسد نے ایک جگہ لکھا ہے کہ اسد کی روح بدوی (bedoein) تھی اور صحرا کی دنیا میں وہ سب سے زیادہ اپنے گھر کی طرح ہوتا تھا۔ اس نے صحیح معنوں میں ہجرت کی اور اپنی اسلامی زندگی کے ۶۶سال عرب دنیا‘ ہندستان‘ پاکستان اور تیونس میں گزارے‘ اور آخری ایام میں اس کا قیام اسپین کے    اس علاقے میں رہا جواندلس اور عرب دنیا کا روحانی اور ثقافتی حصہ تھا بلکہ آج بھی اس کی فضائیں باقی اسپین سے مختلف اور عرب دنیا کے ہم ساز ہیں۔

محمد اسد: یورپ کا اسلام کے لیے تحفہ‘ محمد اسد کی زندگی‘ اس کے افکار و نظریات‘ اس کے اثرات اور تاریخی خدمات کا ایک جامع مرقع ہے۔ پہلی جِلد میں اسد کی شخصیت‘ افکار اور علمی اور ثقافتی خدمات کے بارے میں ۲۸مضامین ہیں جن میں علمی اور تحقیقی مقالات کے ساتھ شخصی تاثرات‘ اور اسد کی کتابوں پر تنقیدی نگارشات شامل ہیں جو ان کی زندگی اور ان کے افکار کے ہرہرپہلو کے بارے میں سیرحاصل معلومات فراہم کرتے ہیںاور ان ایشوز کو زیربحث لاتے ہیں جن پر اسد نے کلام کیا ہے۔ دوسری جِلد کا بیش تر حصہ محمد اسد کے قیمتی مضامین اور رشحاتِ قلم کا مجموعہ ہے اور اس سارے علمی خزانے کو ایک جگہ جمع کرکے مرتب محترم نے بڑی قیمتی خدمت انجام دی ہے۔ اس طرح ان دو جلدوں میں محمداسد کی شخصیت اور ان کے افکار اور علمی خدمات کا بھرپور احاطہ کرلیا گیا ہے۔ محترم اکرام چغتائی صاحب نے یہ خدمت بڑی محنت اور دقّتِ نظر سے انجام دی ہے اور تلاش و جستجو اور تحقیق و تسوید کا بڑا اعلیٰ معیار قائم کیا ہے۔ طباعت کامعیار بھی نہایت نفیس ہے اور سارا کام بڑی خوش ذوقی سے انجام دیا گیا ہے۔ جیساکہ میں نے عرض کیا پوری اُمت کی طرف سے دی ٹروتھ سوسائٹی اور صاحبِ کتاب نے یہ فرضِ کفایہ ادا کیا ہے ‘اور اسی کتاب کے ایک    مقالہ نگار مظفراقبال کا یہ گلہ کہ اسد ایک فراموش شدہ (forgotten)پاکستانی ہے‘ اب کسی نہ کسی حد تک دُور ہوگیا ہے۔ اس خدمت کے لیے چغتائی صاحب اور ان کے رفقاے کار مبارک باد کے مستحق ہیں۔