وہ آزادی جو اس خطے کے مسلمانوں نے اللہ سے یہ عہد کر کے حاصل کی تھی کہ ہم اس سرزمین پر اللہ کا قانون نافذ کریں گے‘ اسے آج ۵۹ برس ہو رہے ہیں۔ اگر یہ عہد پورا کیا جاتا تو آج یہاں کے عوام سکون اور چین کی زندگی گزارتے اور ایک باعزت اورباوقار قوم ہوتے۔ اللہ تعالیٰ سے اسی عہدشکنی کا انجام ہے کہ آج ملک بھر میں سکون میسر نہیں ہے۔ کرپشن کا دور دورہ ہے۔ جرائم کی خبروں سے اخبارات بھرے ہوئے ہیں۔ مہنگائی کے عذاب نے ایک عام آدمی کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ دوسری جانب حکومت کے ترجمان یہ کہتے ہیں کہ اگست میں ہم قوم کو حدود قوانین کے خاتمے کی خوش خبری دیں گے (اور پھر لوگ پوچھتے ہیں کہ زلزلے کیوں آتے ہیں؟)۔
حدود قوانین ۱۹۷۹ء میں نافذ کرنے کا اعلان کیا گیا۔ اگر انتظامی مشینری نے اسے نیک نیتی سے نافذ کیا ہوتا اور حکومت کی دوسری تمام پالیسیوں میں اس کے تقاضوں کا لحاظ رکھا جاتا تو آج اس کی برکات ہم بچشم سر دیکھتے۔ لیکن ہوا یہ کہ اس کے نفاذ میں ایک طرف بدعنوان پولیس نے اور معاشرے کے بدکردار عناصر نے اپنا کھیل کھیلا اور دوسری طرف ملک کے ان سیکولر عناصر نے جو روزِ اوّل سے اس کے نفاذ سے خوش نہ تھے‘ اس کے خلاف مستقل مہم جاری رکھی۔ بیرونی قوتوں اور ان کے مقامی غلام حکمرانوں پر بھی یہ بہت گراں تھا کہ ہم اپنے ملک میں شریعت کے مطابق قوانین بنائیں اور انھیں نافذ کریں۔ چنانچہ اسی تذبذب کے نتیجے میں حدود قوانین کے ثمرات نہ ملے اور وہ الٹا موضوع بحث بنا دیے گئے۔
یہ بھی عجب منطق ہے کہ کسی قانون سے مطلوبہ فائدہ حاصل نہ ہو تو اسے سرے سے منسوخ کرنے کا اقدام کیا جائے۔ اگر اس منطق کو دانش مندی کہا جائے تو پھر مطالبہ کرنا چاہیے‘ چونکہ عدالتیں انصاف دینے میں ناکام ہیں‘ اس لیے پورے عدالتی نظام کوختم کیا جائے‘ تعلیمی ادارے مطلوبہ معیار پر تعلیم فراہم نہیں کر رہے‘ اس لیے انھیں لپیٹ دیا جائے‘ یا چونکہ حکومت عوام کی جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ میں ناکام ہے‘ اس لیے حکومت کا ادارہ ہی توڑ دیا جائے۔
حدود قوانین کسی کا ذاتی قانون نہیں ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی قرآن و سنت سے ثابت شدہ حدود کو نافذ کرنے کے لیے اختیار کردہ قانون ہے۔ اس قانون کے نفاذ سے پہلے اس کے بارے میں نہ صرف پاکستان‘ بلکہ دوسرے مسلم ممالک کے علما و فقہا سے اور ماہرین قانون سے مشورے کیے گئے۔ حدود قوانین پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس میں خواتین سے امتیازی سلوک کیا گیا ہے۔ اس کے جائزے کے لیے جو کمیشن بنایا گیا تھا اور اس میں سے اکثر افراد نے اس کی منسوخی کی سفارش کی ہے‘ اس کے اعتراض مضحکہ خیز ہیں۔ مثال کے طور پر دفعہ ۵ (۱) (ا) میں جہاں زنا کے جرم کا ذکر کیا گیا ہے وہاں مرد کے ساتھ بالغ کا لفظ لکھا گیا ہے‘ عورت کے ساتھ نہیں۔ کمیشن کا موقف ہے کہ یہ امتیازی سلوک ہے‘ حالانکہ عورت کے ساتھ بالغ کا ذکر کیا جائے تو نابالغ بچیوں کے ساتھ زیادتی کا مداوا کیسے ہو۔ ایک اور اعتراض یہ کیا گیا کہ قذف کے سلسلے میں مقدمہ دائر کرنے کا اختیار صرف مرد کو دیا گیا ہے۔ چنانچہ کمیشن کا اعتراض یہ ہے: ’’اس دفعہ میں جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں ان سے یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ اس قانون کے بنانے والوں نے عورت کو نظرانداز کیا ہے۔ اس دفعہ سے مونث کے صیغے her کو نکالنے کا مطلب یہ ہے کہ صرف مرد ہی ہے جو اپنے خلاف جھوٹی تہمت کی سزا دلوانے کے لیے درخواست دائر کرسکتا ہے‘‘۔ اس اعتراض کو ایک لطیفے کے علاوہ کیا کہاجا سکتا ہے۔ یہ قانون کا اصول ہے کہ صیغہ مذکر میں صیغہ مونث شامل ہوتا ہے۔ لہٰذا دفعہ کے مفہوم میں مرد و عورت دونوں داخل ہیں اوردونوں درخواست دائر کرسکتے ہیں۔ ایک مبتدی وکیل بھی اس بات کو بخوبی جانتا ہے۔ تعزیرات پاکستان کی دفعہ ۸ میں یہ صراحت موجود ہے کہ مذکر کے صیغے اور اس کے تمام مشتقات ہرشخص کے لیے استعمال ہوتے ہیں‘ خواہ وہ مذکر ہوں یا مونث‘ اور اس قانون کی دفعہ ۲(بی) کی رو سے اس پر تعزیرات پاکستان کی تمام تعریفات کا اطلاق ہوتا ہے۔
اسی طرح پروپیگنڈے کے ذریعے مشہور کردیا گیا ہے کہ جیلوں میں مقید ۸۰ سے ۹۰ فی صد خواتین حدود قوانین میں گرفتار ہیں‘ جب کہ مصدقہ جائزوں کے مطابق یہ تعداد ۳۰‘ ۳۲ فی صد سے زیادہ نہیں۔ یہ بات بھی بے بنیاد ہے کہ ان خواتین کے تحت زیادہ تعداد میں عورتوں کو سزائیں
مل رہی ہیں۔ جسٹس محمد تقی عثمانی نے‘ جنھوں نے خود اس طرح کے مقدمات کی ۱۷‘ ۱۸ سال سماعت کی ہے‘ مصدقہ طور پر بتایا کہ زیرجائزہ پانچ برسوں میں نیچے کی عدالتوں میں ۱۴۵ مردوں کو سزا ہوئی اور ۱۴۴ عورتوں کولیکن جب ان کی اپیلیں وفاقی شرعی عدالت میں پہنچیں تو ۱۴۵ مردوں میں سے صرف ۷۱ مردوں کی سزا بحال رہی‘ اور عورتوں میں سے صرف ۳۰ خواتین کی پانچ سال میں صرف ۳۰خواتین کی سزا پر کہا جا رہا ہے کہ اس دفعہ کے تحت جیلیں عورتوں سے بھری ہوئی ہیں۔
مسئلہ حدود قوانین کے حدود اللہ کے مطابق ہونے یا نہ ہونے کا نہیں‘ صرف یہ ہے کہ ہمارے ملک کے وہ عناصر جنھیں ملک میں اختیار و اقتدارحاصل ہے‘ اسلامی تہذیب اور اقدار کے بارے میں شکست خوردہ ذہنیت رکھتے ہیں‘ اور مغربی اقدار کے بارے میں مرعوبانہ نقطۂ نظرکے حامل ہیں۔ وہ اس ملک کو ایک اسلامی معاشرے کے بجاے ایک مغربی انداز کا سیکولر معاشرہ بنانا چاہتے ہیں۔ چونکہ اس ملک کا اجتماعی ضمیر اور یہاں کے عوام یہ نہیں چاہتے‘ اس لیے مستقل کش مکش جاری ہے۔
بدقسمتی سے گذشتہ چند برسوں سے ہمارا ملک بیرونی ملکوں کی توجہات کا مرکز بن گیا ہے اور وہ یہاں سے اسلامی اثرات کو کھرچ کر پھینک دینا چاہتے ہیں۔ موجودہ صاحبِ اقتدار گروہ کے مکمل تعاون سے وہ ایک ایسے منصوبے پر عمل پیرا ہیں کہ یہاں کی تہذیب و معاشرت سے اسلامی اثرات مٹ جائیں اور آیندہ آنے والی نسلیں مغربی اقدار کی حامل ہوں۔
حدود قوانین کو منسوخ کرنے کا ایجنڈا کوئی علیحدہ مسئلہ نہیں‘ مغرب کی سیاسی اور تہذیبی یلغار کا ایک حصہ ہے۔ ہمارے حکمران ملّی اور قومی مفادات کو نظرانداز کر کے ہر بات مانتے اور نافذ کرتے چلے جارہے ہیں۔ پاکستانی قوم کے لیے یہ ایک آزمایش کا مرحلہ ہے۔ حدود قوانین کی منسوخی کے لیے کیا جانے والا ہراقدام‘ محض قوانین کے رد و بدل کا عمل نہیں ہوگا بلکہ دراصل یہ قدم علامتی سطح پر بڑے دُور رس اثرات کا حامل ہوگا۔ اس ملک کے عوام کو‘ ہر سوچنے سمجھنے والے شخص کو‘ خصوصاً دین کا درد رکھنے والے ہرمرد اور عورت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اس کی منسوخی یا تبدیلی کے نام پر منسوخی کی جانب پیش قدمی ایک علیحدہ اقدام نہیں رہے گا‘ بلکہ اس کے ساتھ ہی ہماری معاشرتی اقدار کو تبدیل کرنے کا عمل بھی مزید زور شور سے آگے بڑھایا جائے گا۔ اس لیے ملک کی تمام خیرخواہ قوتوں کو یک جا ہونا چاہیے۔ ہر ممبر اسمبلی پر یہ واضح ہونا چاہیے کہ اس کی منسوخی کے حق میں ووٹ دے کر وہ اپنے حلقۂ انتخاب میں منہ دکھانے کے لائق نہ رہے گا اور اللہ کو ناراض کرے گا۔ قوم کو چاہیے کہ آزمایش کے اس مرحلے پر‘ ماضی کی طرح ایک بار پھر سچے ایمان اور تحریکِ پاکستان کے سے جذبے کا مظاہرہ کرتے ہوئے خدا کے ہاں سرخ رو ٹھیرے اور حدود قوانین کی منسوخی کی جسارت کرنے والوں کو نشانِ عبرت بنا کر رکھ دے۔