تجدّد کا دروازہ
مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا کام دین و اخلاق اور تمدن و تہذیب کے ان اصولوں کی علم برداری کرنا ہے جنھیں خدا کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی سنت میں حق کہا گیا ہے‘ اور دنیا سے ان خیالات اور طریقوں کو مٹانے کی کوشش کرنا ہے جنھیں قرآن اور سنت نے باطل ٹھیرایا ہے۔ جس سرزمین میں باطل کا غلبہ ہو اور احکامِ کفر جاری ہو رہے ہوں وہاں ہمارا کام باطل کے طریقوں کو اختیار کرلینا نہیں ہے‘ بلکہ ہمارا اصلی منصب یہ ہے کہ ہم وہاں رہ کر قرآن کے قانونِ حیات کی تبلیغ کریں اور نظامِ کفر کی جگہ نظامِ اسلامی قائم کرنے کے لیے ساعی ہوں۔
اب غور کیجیے کہ اگر ہم خود سود کھائیں گے تو کفار کی سود خوری کے خلاف آواز کس منہ سے اُٹھائیں گے؟ اس طرح تو سود خوری کے ساتھ شراب فروشی‘ مزامیر سازی‘ فحش فلم بنانا‘ عصمت فروشی‘ کاروبارِ رقص و سرود‘ بت تراشی‘ فحش نگاری‘سٹہ بازی‘ جوے بازی اور سارے ہی حرام کاموں کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ پھر یہ فرمایئے کہ ہم میں اور کفار میں وہ کون سا اخلاقی فرق باقی رہ جاتا ہے جس کے بل پر ہم دارالکفر کو دارالاسلام میں تبدیل کرنے کی جدوجہد کرسکیں؟
اگر آپ شریعتِ اسلام کے پیرو ہیں تو آپ حکومتِ کفر کے آئین کی ڈھیل سے فائدہ اٹھانے کا حق نہیں رکھتے۔ اور اگر آپ ایک طرف دنیا کو شریعتِ اسلام کی دعوت دیتے ہیں اور دوسری طرف کچھ فائدوں کے لیے یا کچھ نقصانات سے بچنے کے لیے حرام خوری کی اُن گنجایشوں سے بھی فائدہ اٹھاتے ہیں جو آئینِ کفر نے دی ہیں مگر آئینِ اسلام نے جن کی سخت مذمت کی ہے‘ تو چاہے فقیہہ شہر آپ کے اس طرزِعمل کے جواز کا فتویٰ دے دے‘ لیکن عام انسانی راے اتنی بے وقوف نہیں ہے کہ پھر بھی وہ آپ کی تبلیغ کا کوئی اخلاقی اثر قبول کرے گی۔
حقیقتاً اس طرزِ فکر کو فقہِ اسلامی میں استعمال کرنا ہی غلط ہے کہ مسلمانوں کو فلاں تکلیف اور فلاں نقصان جو حکومتِ کفر کے تحت رہتے ہوئے پہنچ رہا ہے‘ اسے روکنے کے لیے نظامِ باطل ہی کے اندر کچھ ’’شرعی‘‘ وسائل پیدا کیے جائیں۔ یہ طریق فکر مسلمانوں کو بدلنے کے بجاے اسلام کو بدلتا ہے‘ یعنی تجدیدِ دین کی جگہ تجدد کا دروازہ کھولتا ہے جو نظامِ دینی کے لیے حد درجہ تباہ کن ہے‘ اور افسوس یہ ہے کہ غلبۂ کفر کے زمانے میں فتویٰ نویسی کچھ اسی راہ پر چلتی رہی ہے جس نے مسلمانوں کو نظامِ باطل کے تحت رضا و اطمینان سے زندگی بسر کرنے کا خوگر بنا دیا ہے۔ (رسائل و مسائل، دَارالکفر میں سود خوری، ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن‘ جلد ۲۹‘ عدد ۳‘ رمضان ۱۳۶۵ھ‘ اگست ۱۹۴۶ئ‘ ص ۵۴-۵۵)