اگست۲۰۰۶

فہرست مضامین

صہیونی جارحیت __ فیصلہ کن معرکہ؟

عبد الغفار عزیز | اگست۲۰۰۶ | عالم اسلام

Responsive image Responsive image

عرب ممالک میں ایک نعرہ بہت مقبول ہو رہا ہے: یانصراللّٰہ یاحبیب ، اضرب اضرب تل ابیب، اے پیارے نصراللہ! تل ابیب پر ضرب لگائو۔ حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ عرب عوام میں وہ مقبولیت پا رہے ہیں کہ موریتانیا کے بعض مظاہرین ان کی تصویر تلے  سورئہ نصر کی آیت اِذَا جَآئَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ… لکھے انھیں اُمت مسلمہ کا نجات دہندہ قرار دے رہے ہیں۔ حسن نصراللہ نے بھی اسرائیلی حملہ شروع ہونے کے بعد اپنی ریکارڈ شدہ تقریر میں اسی بات پر اصرار کیا کہ وہ کسی فرقے‘ مذہب‘ ملک یا علاقے کا نہیں‘ اُمت مسلمہ کا معرکہ لڑ رہے ہیں۔

سرزمین فلسطین پر صہیونی قبضے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ اس میں صرف ایک فریق کو  نہیں اسرائیل کو بھی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ صہیونی ذمہ داروں کا اعتراف ہے کہ گذشتہ ۱۰ روز کی لڑائی میں اسرائیلی شہروں پر حزب اللہ کی طرف سے ایک ہزار سے زائد میزائلوں کی بارش ہوچکی ہے۔ اسرائیل اپنے تمام تر اسلحے اور دنیا کی سب سے خطرناک عسکری اور جاسوسی صلاحیتوں کے باوجود‘ حزب اللہ کے مجاہدین کو یہ جدید ترین میزائل فائر کرنے سے نہیں روک سکا۔ اس نے دعوے تو کیے کہ ہم نے حزب اللہ کے کئی ٹھکانے اور میزائل لانچنگ پیڈ تباہ کردیے ہیں لیکن حزب کے اس چیلنج کا کوئی جواب نہیں دے سکا کہ اگر دعوے میں واقعی سچے ہو تو لائو کوئی ثبوت۔ یہ درست ہے کہ دونوں طرف ہونے والے نقصانات میں کوئی نسبت نہیں ہے۔ لبنان کے بیروت‘ صیدا اور صور سمیت کئی شہروں میں بہت مہیب و خوف ناک تباہی ہو رہی ہے۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہوچکے ہیں‘ ہزاروں زخمی و شہید ہوچکے ہیں اور ادھر مرنے والے یہودیوں کی تعداددسیوں میں ہے۔ تباہ ہونے والی عمارتوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے لیکن یہودی قوم کی ’بہادری‘ کا یہ عالم ہے کہ حیفا اور نہاریا سمیت ان کے متعدد شہر اس وقت بھوتوں کے شہر قرار دیے جا رہے ہیں۔ ہر طرف سناٹا‘ چہارسو خوف‘ دن رات سائرنوں کی آوازیں اور زیرزمین پناہ گاہوں میں چھپ جانے کی صدائیں‘ ان شہری آبادیوں کا عنوان بن چکی ہیں۔ یہ موسم مقبوضہ فلسطین میں سیاحت کے عروج کا موسم ہوتا تھا۔ جنگ سے ایک روز پہلے تمام شہروں کے تمام ہوٹل بھرے ہوئے تھے۔ اب ان میں ایک بھی مسافر ڈھونڈنے سے نہیں ملتا۔

اپنی حکومت سے ہمیشہ یہ مطالبہ کرنے والے اور اپنے تعلیمی اداروں میں ہر بچے کے  ذہن میں یہ زہر گھولنے والے کہ ’’عرب اور مسلمان کیڑے مکوڑے ہیں‘ ان کے ناپاک وجود سے روے زمین کو پاک کرنا انسانیت کی اعلیٰ معراج ہے‘‘، جنگ کے ایک ہفتے کے بعد ہی دہائی دینا شروع ہوگئے کہ اس آگ میں کود تو گئے ہیں اب نکلیں گے کیسے؟

۱۹ جولائی کے عبرانی روزنامے ہآرٹس میں اخبارکے بڑے کالم نگار عوزی بن زیمان کے کالم کا عنوان ہے ’’اولمرٹ اور بیرٹس نے جنگ تو چھیڑ دی لیکن کیا انھیں معلوم ہے کہ اس میں سے نکلنا کیسے ہے؟‘‘ وہ مزید لکھتا ہے: ’’جنگ ختم کرنے کے کئی راستے ہیں‘ جیسے حزب اللہ کی قیادت خاص طور پر حسن نصراللہ کو قتل کردیا جائے‘ یا حزب کی سیاسی قوت کا خاتمہ کردیا جائے‘ یا اس کی عسکری صلاحیت سلب کرلی جائے اور اس طرح لبنانی حکومت کے اختیارات میں اضافہ کردیا جائے لیکن یہ سب نظری باتیں ہیں۔ یہ کسی صورت حقیقت میں نہیں بدلی جاسکتیں‘‘۔

اسی بات کا ذکر حسن نصراللہ نے ۲۱ جولائی کو الجزیرہ کو دیے گئے اپنے تفصیلی انٹرویو میں کیا۔ انھوں نے کہا کہ ہم ’’گذشتہ ۲۳ سال سے اپنی قوم کو صہیونیوں سے جہاد کے لیے تیار کر رہے ہیں تو کیا اب ہم موت یا شہادت سے ڈر جائیں گے؟ نہیں ، ہم ایک طویل جنگ لڑنے کے لیے میدان میں اُترے ہیں۔ اس جنگ میں وقت اصل اہمیت کا حامل ہے۔ دشمن نے اب تک صرف شہری آبادی کا قتلِ عام کرنے‘ پُلوں‘ کارخانوں‘ سڑکوں اور عمارتوں کو تباہ کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے اور اپنے پورے جبروت اور سفاکی کے باوجود وہ اپنے کسی عسکری ہدف کو حاصل نہیں کرسکا۔ ہم اپنی لڑائی مکمل بصیرت‘ صبر‘ حوصلے اور سوچ بچار کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔ ہم کسی جلدبازی کا شکار نہیں ہوں گے‘‘۔

واضح رہے کہ ڈیڑھ گھنٹے کے اس انٹرویو میں وہ بھرپور تحمل‘ کامل صبراور وقار کے ساتھ‘  گویا ایک ایک لفظ تول کر بول رہے تھے۔ انھوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ دشمن اپنے بے پناہ ہتھیاروں اور دنیا کی جدید ترین عسکری صلاحیتوں کی وجہ سے ہمیں زیادہ نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا: ’’میں یہ دعویٰ بھی نہیں کرتا کہ وہ لبنان کی سرزمین کے کسی حصے پر قبضہ نہیں کرسکے گا‘ ہوسکتاہے کہ وہ کچھ علاقوں پر قابض بھی ہوجائے لیکن ایک منظم اور جدید فوج کو ایک عوامی اسلامی تحریک مزاحمت کے ہاتھوں جو خسارہ برداشت کرنا پڑے گا اسے بھی پوری دنیا دیکھے گی‘‘۔     حسن نصراللہ اس انٹرویو میں مسلمان ممالک کے حکمرانوں سے بھی مخاطب ہوئے اور کہا کہ ’’ہم    یہ نہیں چاہتے کہ تمھاری تلواریں ہمارے ساتھ ہوں بلکہ ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ تمھارے دل ہمارے ساتھ ہوں ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ تم ہمیں چھوڑ دو‘ ہمارا راستہ نہ روکو‘ ہمارے دشمن کا ساتھ نہ دو‘‘۔ وہ اس تجزیے یا الزام پر بھی بے حد کبیدہ خاطر تھے کہ حزب اللہ کی کارروائی ایران یا شام کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہے۔ انھوں نے تلخی سے کہا کہ ’’یہ نری بکواس اور اپنی جانوں پر کھیلنے والے مجاہدین کی توہین ہے۔ ہم ایک اعلیٰ مقصد کی خاطر اپنے بچوں اور اہلِ خانہ سمیت یہودیوں سے قتال کر رہے ہیں۔ اسے کسی ایک یا دوسرے ملک سے مربوط کر دینا ذلت کی انتہا ہے‘‘۔

جس روز حسن نصراللہ کا یہ انٹرویو بیروت سے آرہا تھا‘ اسی روز فلسطینی وزیراعظم    اسماعیل ھنیہّ غزہ کی جامع مسجد میں خطبۂ جمعہ دیتے ہوئے کہہ رہے تھے: ’’اسرائیل کی اس جنگ اور ریاستی دہشت گردی کا ہدف تحریکِ مزاحمت کا خاتمہ ہے۔ وہ فلسطین میں بھی مزاحمت کی کمر توڑنا چاہتا ہے اور لبنان میں بھی عوام کی ہمت اور ارادے کا خاتمہ چاہتا ہے۔ وہ پورے خطے میں   ہنگامہ برپا کرنا چاہتا ہے اور اس کی آڑ میں ایسا سیاسی نقشہ تشکیل دینا چاہتا ہے جس میں اسرائیل پورے خطے پر حاوی اور مسلط ہو‘‘۔ اسماعیل ھنیہّ نے مشرق وسطیٰ کی پوری جنگ کو تین اسرائیلی قیدیوں کی گرفتاری سے منسلک کرنے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’صہیونی جارحیت اس واقعے سے پہلے بھی جاری تھی اور وسیع تر صہیونی جارحیت کا منصوبہ بھی پہلے سے تیار تھا‘ اور اس پورے منصوبے کو امریکی انتظامیہ کی براہ راست سرپرستی اور مدد حاصل ہے‘‘۔

اسرائیلی منصوبہ سازوں کا خیال تھا کہ اپنے قیدیوں کی گرفتاری کو بہانہ بناتے ہوئے    وہ فلسطین اور لبنان ہی نہیں شام میں بھی اپنے مقاصد حاصل کرلیں گے‘ اور اگر ۱۹۶۷ء کی جنگ میں وہ آج سے کم ہتھیار رکھتے ہوئے بھی چھے دنوں میں فتح یاب ہوگئے تھے اور عربوں کی منظم افواج کی قوت خاک میں ملا دی تھی تو لبنان جیسے کمزور ملک اور وہاں بھی صرف ایک عوامی تحریک مزاحمت کی اس کے سامنے کیا حیثیت ہے۔ اس نے تباہی کی آگ بھڑکا دی‘ لیکن ان ۱۰ دنوں کے ایک ایک دن میں سات سات دفعہ زمینی پیش قدمی کی کوششیں کرنے کے باوجود وہ ابھی تک     نہ صرف ناکامی کے زخم چاٹ رہا ہے بلکہ اس کے سنسان اور مسلسل میزائلوں کی زد میں آئے ہوئے شہر ماضی سے بہت مختلف مستقبل کی خبر دیتے ہیں۔

فی الحال یہ کہنا کہ اس جنگ سے اسرائیل نام کی ناجائز ریاست نیست و نابود ہوجائے گی‘ شاید ایک جذباتی بات ہوگی۔ لیکن اس میں کسی کو شک نہیں کہ اپنی تمام تر سطوت کے باوجود اسرائیل اس وقت ایک کمزور پوزیشن میں ہے۔ اس کی سب سے واضح دلیل اسرائیلی عوام کی طرف سے   بڑھتے ہوئے یہ مطالبات ہیں کہ غزہ اور دیگر گنجان فلسطینی آبادیوں سے صہیونی فوجیں نکال لی جائیں۔ ہمیں یک طرفہ طور پر ہی فلسطینیوں سے حتمی معاہدہ کرتے ہوئے اور ان کے کچھ علاقے خالی کرتے ہوئے اپنی اُونچی اُونچی فصیلوں میں گھرے علاقوں میں محصور ہوجانا چاہیے۔ اگرچہ   یہ صہیونی عفریت پر مبنی فصیل بذاتِ خود ان کی کمزوری‘ خوف اور ناکامی کی علامت ہے‘ لیکن شامت کے ماروں کو یہی آخری پناہ نظر آرہی ہے۔ چند روز کے فرق سے ایک نہیں تین فوجیوں کی گرفتاری بھی یقینا ممکن نہ ہوتی اگر صہیونی فوجوں کی ذلت کے دنوں کا آغاز نہ ہوتا۔

صہیونی روزنامے یدیعوت احرونوت کا عسکری تجزیہ نگار الیکس فیشمان ۲۱جولائی ۲۰۰۶ء کے شمارے میں لکھتا ہے: ’’اسرائیل کے سامنے صرف دو سے تین ہفتے ہیں کہ وہ کوئی   سیاسی مقاصد حاصل کرسکے۔ اس کے بعد عسکری حقائق سیاسی مقاصد کی تکمیل نہیں کرنے دیں گے… ہمارے پالیسی سازوں کے سامنے یہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ لبنانی ہمارے حملے کا اوّلین صدمہ برداشت کرچکے ہیں… اب ایک ہفتہ باقی ہے اگر ہم اس میں کاری ضربیں لگانے اور  زمینی پیش قدمی میں کامیاب ہوگئے تو پھر دشمن سے مفید سودے بازی ہوسکے گی‘‘۔

صہیونی حکومت جن نکات پر بات چیت اور مذاکرات کرنے کے لیے تباہی کے نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہے ۱۹ جولائی کے اخبار الشرق الاوسط کے نمایندے نظیر مجلی نے تل ابیب سے اپنی رپورٹ میں ان کی تفصیل بتائی ہے۔ مجلی کا کہنا ہے کہ صہیونی حکومت کے پیش نظر‘ چھے مطالبات ہیں: ۱- تین اسرائیلی فوجیوں کی رہائی‘ ۲- حزب اللہ کی طرف سے میزائل حملوں کی بندش‘ ۳- لبنان اور غزہ میں اسرائیلی حملوں کا اختتام‘ ۴- گرفتار شدہ فلسطینی ارکان پارلیمنٹ اور وزرا کی رہائی (ان میں وہ ارکان پارلیمنٹ شامل نہیں جو ان واقعات سے پہلے گرفتار ہوئے تھے)‘ ۵-جنوبی لبنان سے حزب اللہ کے دستوں کا مکمل انخلا اور ان کی جگہ لبنانی فوج کی تعیناتی‘ ۶-اسرائیل اور لبنان میں سیاسی مذاکرات۔ اس پورے عمل میں اس بات کا التزام کیا جائے گا کہ حسن نصراللہ یا حزب اللہ فاتح کی حیثیت سے سامنے نہ آسکیں۔

اسرائیلی سیکورٹی کونسل کے سابق سربراہ گیورایلانڈ نے ایک بڑے عبرانی اخبار       یدیعوت احرونوتکو ۱۸ مئی کو انٹرویو دیتے ہوئے اسرائیلی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ    لبنانی حکومت کے ساتھ ایسی سختی نہ دکھائے کہ وہ کسی ذلت آمیز معاہدے پر مجبور ہوجائے کیونکہ  اس صورت میں پھر ساری عوامی حمایت و تائید حزب اللہ جیسے مسلح دھڑوں کے ہاتھ ہی میں رہے گی۔ انھوں نے مذاکرات و معاہدے کی جو شرائط تجویز کی ہیں ان میں اقوام متحدہ کی قرارداد ۱۵۵۹ کے تحت حزب اللہ اور دیگر مسلح تنظیموں کو غیرمسلح کرنا‘ انھیں جنوبی لبنان سے بے دخل کرنا‘ لبنان اور اسرائیل کے درمیان تمام تر سرحدی تنازعوں کا خاتمہ کرنا اور لبنان و اسرائیل کے قیدیوں کا تبادلہ کرنا جیسے نکات شامل ہیں۔ گویا صہیونی ریاست میں عوام سے لے کر خواص تک ۱۰ روزہ لڑائی کے بعد‘ ایک ہی بات پر سوچنا شروع ہوگئے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح جان چھڑائی جائے‘ مذاکرات کیے جائیں۔

المیہ یہ ہے کہ ان مجوزہ شرائط اور مذاکراتی نکات میں وہ کہیں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کی بات نہیں کرتے۔ لبنان پر تباہ کن بم باری کے دوران نابلس‘ غزہ اور دیگر فلسطینی آبادیوں میں جس وحشی پن کا مظاہرہ کیا گیا ہے دنیا کو اس کی خبر بھی نہیں ہونے دی گئی۔ تین صہیونی قیدیوں کی بات کو جنگ کابہانہ ثابت کرتے ہوئے صہیونی وزیرخارجہ لیفنی کہتی ہیں: ’’حزب اللہ کو مارنے کے لیے اسرائیلی فوج ہر طرح کی کارروائی کے لیے آزاد ہے‘‘ لیکن وہ یہ نہیں بتاتیں کہ صہیونی جیلوں میں اب بھی ۹۸۵۰ فلسطینی قید ہیں جن میں ۳۵۹ بچے اور ۱۰۵ خواتین ہیں۔ خواتین قیدیوں میں سے تین کو حمل کی حالت میں گرفتار کیا گیا اور وہ قید ہی میں بچے جنم دینے پر مجبور ہوئیں۔ صہیونی وزیرخارجہ نہیں بتاتیں کہ ان میں سات قیدی ایسے ہیں جو جیل میں ۲۵برس سے زائد عرصہ گزار چکے ہیں‘ جب کہ ایک قیدی سعید العتبہ ۲۹ سال سے جیل میں سڑ رہا ہے۔ وہ نہیں بتاتیں کہ صہیونی جیلوں میں ۱۸۳ فلسطینی قیدی موت کے گھاٹ اُتار دیے گئے ہیں‘ ۷۲ کو بغیر سزا سنائے‘ ۶۹ کو   تشدد کرکر کے اور ۴۲ کو بیماری کے بعد کوئی طبی امداد فراہم نہ کرکے۔ وہ نہیں بتاتیں کہ گرفتار شدگان میں ۴۰ ارکانِ پارلیمنٹ ہیں جن میں سے ۲۷ کو ایک اسرائیلی فوجی کی گرفتاری کے بعد گرفتار کیا گیا‘ جب کہ ۱۳ نے جیل ہی سے انتخاب لڑا اور کامیاب ہوئے۔ وہ نہیں بتاتیں کہ صرف تحریکِ انتفاضہ کے دوران فلسطینیوں میں سے ۵۰ہزار افراد کو مختلف اوقات میں جیلوں کی یاترا کروائی گئی لیکن شاید   یہ ۵۰ہزار انسان نہیں‘ اسرائیلی نصابی کتابوں کے مطابق کیڑے مکوڑے ہیں۔

مشرق وسطیٰ کی جنگ کیا نتائج دکھائے گی؟ یہ غیب پر مشتمل مستقبل ہے۔ لیکن جو نتائج اب تک سامنے آچکے ہیں‘ امریکا اسرائیل اور ان کے مسلم حکمران حواریوں کی آنکھیں کھول دینے   کے لیے کافی ہیں۔ انھوں نے دیکھ لیا کہ وہ مسلم اُمت کو شیعہ سنی‘ عربی عجمی‘ یا کسی بھی علاقائی و لسانی عصبیت کی بھینٹ چڑھانے کی لاکھ کوشش کرلیں‘ وقت اسے ہر بار یک جا و متحد کردیتا ہے۔ اب موریتانیا سے ملائیشیا تک ایک عرب شیعہ لیڈر سید حسن نصراللہ مسلم عوام کے ہیرو کے طور پر اُبھر رہا ہے۔ انھوں نے دیکھ لیا کہ جس لیڈر نے بھی جہاد کا علَم تھاما‘ جہاد کے خلاف تمام تر پروپیگنڈے کے باوجود اُمت مسلمہ نے اس رہنما کو محبت اور احترام سے دیکھا‘ خواہ وہ اس کے طریق عمل سے ناواقف یا متفق نہ بھی ہوں۔ انھوں نے دیکھا کہ دنیا میں دولت‘ دھونس‘ دھمکیوں اور دہشت گردی ہی سے معرکے جیتے نہیں جاتے‘ جذبۂ ایمانی‘ اخلاص اور قربانی بعض اوقات خود سے کئی گنا بڑے اژدہے کوبے بس و ہلاک کردیتی ہے۔ حسن نصراللہ انٹرویو میں کہہ رہے تھے: ’’ہمارے ساتھی اس معرکے کو یہودیوں کے ساتھ اُمت کا آخری معرکہ سمجھتے ہیں بلکہ ان میں سے کئی لوگ اس پر ملول ہیں کہ انھیں ابھی تک شہادت نصیب نہیں ہوئی۔ وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں یہ نہ ہو کہ یہ فیصلہ کن معرکہ ختم ہوجائے اور پھر ہم کبھی بھی شہادت کی منزل نہ پاسکیں‘‘۔ کیا یہ عزم و احساس امریکا‘ اسرائیل اور ان کے حواری حکمرانوں کو آج سے مختلف مستقبل کی خبر دیتا ہے!