بیسویں صدی عیسوی کے دوران‘ بھارت اور پاکستان میں اُردو زبان میں قرآن کی تفہیم و ترجمانی اورتفسیر میں غالباً دیگر مسلمان ممالک کی زبانوں کے مقابلے میں بہت ہی نمایاں کام ہوا ہے۔ اس کام کا تفصیلی جائزہ اس مختصر مضمون میں ممکن نہیں۔ یہاں صرف نمایاں اور مؤثر کوششوں کا مختصر جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔
تمام تفاسیر کا تعارف بہت طوالت کا باعث ہے۔ مکمل تفاسیر میں مولوی وحیدالزماں صاحب حیدرآبادی (م: ۱۹۲۰ئ)کی تفسیر وحیدی (سلفی مسلک) کی عکاس ہے۔ مولوی حافظ سید احمد حسن کی تفسیر احسن التفاسیر (اشاعت اول ۱۹۱۵ئ) میں حدیثی پہلو غالب ہے۔ خواجہ حسن نظامی کی عام فہم تفسیر تفسیر حسن کا پہلا اڈیشن ۱۹۲۴ء میں عمل آیا۔ یہ مختصر اورآسان تفسیر ہے۔ قاری محمدعلی کی خلاصۂ تفسیر (اشاعت اول ۱۹۲۹ئ) شیعہ حضرات کے لیے بہت مفید ہے۔ تفسیر ضیاء القرآن ‘ تفسیر انوار القرآن ‘ تفسیر مفتاح القرآن بالترتیب مولانا محمد کرم شاہ ازہری ‘ مولانا نعیم الدین مرادآبادی اورمولانا شبیر احمد میرٹھی کی تفاسیر ہیں۔ ان تفاسیر نے فہم قرآن کے لیے قابلِ ذکر خدمات انجام دی ہیں۔
بیسویں صدی میں فہم قرآن کا ہر اجتماعی اور انفرادی کام مسلمانوں میں دینی شعور بیدار کرنے اورمسلمانوں کو دین سے جوڑے رکھنے اور حتی المقدورروحِ قرآنی اور تعلیماتِ اسلامی کا پھیلائو رہاہے۔ اسلام کو بحیثیت مذہب پیش کرنے کی عمومی کوششیں بہت رہی ہیں جو نہایت قابلِ قدر ہیں مگربحیثیت نظامِ حیات اورقرآن کو بحیثیت دستور حیات پیش کرنے میں نمایاں خدمات بیسویں صدی میں دو جماعتوں نے انجام دی ہیں: جماعت اسلامی اور اخوان المسلمون۔ جو کام مولانا سید ابولاعلیٰ موددی کی تفہیم القرآن نے اُردو داں طبقے میں انجام دیاہے‘ وہی کام محمدقطب شہید کی فی ظلال القرآن نے عرب ممالک میں انجام دیاہے۔
فہم قرآن کی تحریکات کو جوکم و بیش مکمل تفاسیر کے روپ میں ۲۶ تفسیریں اور جزوی تفاسیر ۴۰ اورتفسیر ی حواشی کے روپ میں مکمل قرآن پر پانچ معروف ومشہور کام ہوئے ہیں۔ اس طرح بیسویں صدی عیسوی میں کم و بیش قرآن کے ۷۵ تفہیمی تفسیری کام فقط اُردو میں ہوئے ہیں۔ ان میں متعدد کا م قرآن کی تفہیمی خدمت کے لیے شروع ہوئے مگر مفسر ومترجم کے مخصوص مکتبہ فکر کی بدولت مسلکی روپ اختیار کرگئے۔
دیوبندی مکتبۂ فکر
بریلوی مکتبۂ فکر
اہلِ حدیث مکتبۂ فکر
منکرین حدیث مکتبۂ فکر
فراہی مکتبۂ فکر۔
دیـوبندی مکـتبہ فکر: ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں مسلمانانِ ہند کی ناکامی کے بعد مولانا محمدقاسم نانوتوی (م: ۱۸۸۰ئ) نے دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی‘ تاکہ کم از کم دینی محاذ پر دفاعی کام کیاجائے ۔ مولانا محمد قاسم نانوتوی نے سفراورحضر میں مولانا محمود حسن کو بھرپور تربیت سے سرفراز کیا‘ جو نہایت پاک باز‘ مصلحانہ صفات کی حامل ہجرت اورجہاد کے جذبے سے لبریز نہایت محرک شخصیت کے حامل تھے ۔برطانوی دور حکومت میں مسلمانوں کی ہر اجتماعی سعی وجہد پر کڑی نظر رکھی جاتی تھی۔جیسے آج کل فلسطینی مسلمان اسرائیل حکومت کے تحت عالمی سازشوں کا شکار ہیں۔
۱۹۱۴ء میں جب پہلی عالمی جنگ چھڑی تومولانا محمود حسن کو انگریزوں نے جنوری ۱۹۱۷ء میں مکہ مکرمہ میں گرفتار کرلیا‘ جہاں سے انھیں جزیرہ مالٹا بھیج دیا گیا۔ بعدازاں تین سال سات ماہ بعد ممبئی پہنچا کر رہا کیا گیا۔ تحریک فہم قرآن سے ان کی نسبت کا اندازہ آخری زمانے میں ان کی ایک تقریر سے کیا جاسکتاہے: ’’میں جیل کی تنہائیوں میں مسلمانوں کی دینی اوردنیوی تباہی کے اسباب پر غور کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اس کے دو سبب ہیں: ۱-مسلمانوں کا قرآن کو چھوڑ دینا ۲-ان کے آپسی اختلافات۔ اس لیے میں وہیں سے یہ عزم لے کر آیاہوں کہ اپنی باقی زندگی قرآن کو لفظاً اورمعناً عام کروں‘ بچوں کے لیے تعلیم کے مکاتب ہر ہر بستی میں قائم کرواؤں ۔ بڑوں کو عوامی درس قرآن کے ذریعے قرآنی تعلیمات پر عمل کے لیے آمادہ کروں۔ علما کے باہمی اختلاف کو سلجھاوں اور اتحاد کی سعی کروں۔ علمی اختلاف کو آپسی جدال اورتعصب میں تبدیل کرنے میں انگریز بہادر کی چالوں اورمکاریوں کا پردہ فاش کروں‘‘۔
مولانا محمود حسن کی غیر مکمل تفسیر کو ان کے شاگردِ رشید شبیراحمد عثمانی نے مکمل کیا۔ مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کی بیان القرآن اور مولانا مفتی محمد شفیع کی معارف القرآن دیوبندی مکتبۂ فکر کی نمایندہ تفاسیر ہیں۔ خود تبلیغی جماعت فی الحقیقت دیوبندی مکتبۂ فکر کی نمایندگی کرتی ہے۔
بریلوی مکتبۂ فکر: مولانا احمد رضا خاں بریلوی (م: ۱۹۲۱ئ) نے فہم قرآن کی تحریک ہی سے کام کا آغاز کیا۔ کنزالایمان فی ترجمہ القرآن آپ کی سعی کا نتیجہ ہے۔ تفسیری مباحث میں مقام محمدؐ اورمحبت رسول کو مرکزی مقام دیاگیا ہے۔ مولانا محمدنعیم الدین مرادآبادی نے اس کام کو آگے بڑھایا اورتفسیری حواشی کی خدمت انجام دی۔ مولانا ابوالحسنات سید احمد قادری کی تفسیر الحسنات بآیات بینات دو جلدوں میں شائع (۱۳۷۶ھ) ہوئی۔
شیعہ مکتبۂ فکر :گذشتہ صدی کے دوران جن شیعہ علماے کرام نے اُردو ترجمۂ قرآن کیا ان میں جناب علی نقی نقوی‘ سید فرمان علی‘ شیخ محسن علی نجفی‘ مولانا امداد حسین اور مولانا مقبول حسین کے نام معروف ہیں‘ جب کہ علامہ طالب جوہری نے ترجمہ و تفسیر کی۔
اھل حدیث مکتبۂ فکر: مولانا وحیدالزماں حیدر آباد (م:۱۹۲۰ئ) کی تفسیر وحیدی مسلکِ اہل حدیث کی ترجمان ہے۔ تفسیری مباحث میںتوحید کو مرکزی مقام حاصل ہے۔ اسی سلسلے کی دوسری تفسیر مولانا ثناء اللہ امرت سری(۱۸۶۸ئ-۱۹۴۸ئ) کی تفسیر ثنائی ہے۔ مولانا ثناء اللہ کاآبائی وطن کشمیر تھا۔ میاں نذیر حسین محدث دہلوی سے علوم دینیہ کی تحصیل کی۔ بہت جید ماہر مناظرہ عالم دین تھے۔ آریہ سماجیوں ‘ قادیانیوںسے معرکہ آرا رہے۔ دین اسلام اور ختم نبوت کی حقانیت ثابت کرتے رہے۔ تفسیر ثنائی میں اکثر بحثیں دراصل تفسیرکے نام پر سرسید احمد خاں کی تفسیر اور گمراہ کن فکر کے توڑ اورجواب میں ہیں۔
مرکزی جمعیت اہل حدیث کے احباب کی مشترکہ کوشش سے ایک عام فہم ترجمہ مختصر و مفید تشریح اور تفسیر احسن البیان کے نام سے اُردو میں مرتب ہوئی جس میں ترجمہ مولانا محمد جوناگڑھی کے قلم سے ہے‘ جب کہ تفسیر میں حواشی مولانا حافظ صلاح الدین یوسف کے تحریر کردہ ہیں۔ یہ کام فہم قرآن کی تحریک میں بہت زیادہ مفید اور مؤثر ہے۔
فراھی مکتبۂ فکر : تحریک فہم قرآن میں مولانا حمید الدین فراہی کا محققانہ کارنامہ ان کی عمر کے بیش تر حصے کا نچوڑ ہے۔ یہ کام عربی زبان میں ہے‘ جب کہ اردو میں ترجمہ اورتشریح کا کام شاگردوں میں بالخصوص امین احسن اصلاحی اور دائرہ حمیدیہ اورمدرسۃ الاصلاح کے محقق طلبہ واساتذہ نے انجام دیاہے۔
بیسویں صدی کے منکرین حدیث کا طبقہ بہت بڑی گمراہی کا باعث بنا۔ غلام احمدپر ویز نے نظام ربوبیت کے نام سے ایک فتنہ کھڑا کیا۔ مولانا مودودی کی کتاب سنت کی آئینی حیثیت میںاسلم جیراج پوری اوران کی پوری جمعیت کی اصلیت کی مکمل ومدلل وضاحت موجود ہے جس میں انھوں نے حدیث کے مقام ومرتبہ اوراساسِ دین کی تعمیر میں حدیث کے مرکزی رول کو نہایت مہارت سے ثابت کیا ہے۔ تفہیم القرآن میں اشتراکیت‘ سرمایہ دارانہ نظام اور استعماریت پر مناسب مقامات پر بھرپور تنقید کی گئی ہے اورقرآن کی تعلیمات کی آفاقیت وفوقیت کو مدلل انداز میں پیش کیا ہے۔ مولانا مودودی نے دوسری طرف غلام احمد قادیانی کے فتنے کی بھرپور اورمدلل ضلالت کو ثابت کیاہے۔
مولانا مودودی تمام علوم کو علوم القرآن میں رنگ دینا چاہتے تھے‘ چاہے وہ اقتصادی علوم ہوں کہ سائنسی علوم‘ جغرافیائی علوم ہوں کہ تاریخی علوم ‘ نفسیاتی علوم ہوں کہ طبی علوم‘ فلکیاتی علوم ہوں کہ طبقات الارضی علوم‘ معاشرتی علوم ہوں کہ سیاسی علوم‘ تعمیراتی علوم ہوں کہ تعلیماتی علوم‘ اخلاقی علوم ہوں کہ قانونی علوم‘انفرادی ‘ اجتماعی ‘ ملکی اور بین الاقوامی تمام معاملات اورمسائل کے حل کے لیے علوم القرآن سے رجوع ہونے کی پرزور اورمدلل دعوت دیتے ہیں۔ اس طرح تفہیم القرآن بیسویں صدی عیسوی میں تحریک فہم قرآن کی سرخیل ہے۔
تحقیقی مطالعہ قرآن کے جذبے سے علما حضرات وسعت قلبی سے کام لیتے ہوئے اگر اس تفسیر کو اپنے مدارس میں بطور درسی کتاب شامل کریں تو فہم قرآن کے میدان میں یہ ایک عظیم خدمت ہوگی اور دنیا میں قرآنی انقلاب برپا ہونے کی نئی راہیں پیدا ہوںگی۔ ان شاء اللہ!