پاکستان میں جماعت اسلامی کا پہلا اجتماعِ کارکنان ۱۰ ستمبر ۱۹۴۷ء کو سوہن لعل کالج لاہور (موجودہ مدرسۃ البنات) میں منعقد ہوا۔ حاضرین کی تعداد ۱۵۰ کے قریب تھی۔ اِس اجتماع میں تقسیمِ ملک کے وقت سفّاکانہ طرزِعمل اور انسانیت کی تذلیل و تحقیر کے شرم ناک اور افسوس ناک اقدامات پر شدید اضطراب کا اظہار کیا گیا اور طے ہوا کہ اس عظیم مصیبت میں جس میں ہم سب مبتلا ہیں‘ انسانی خدمت کو اوّلین اہمیت دی جائے۔ چنانچہ محترم امیرجماعت اور قیم جماعت نے اوّلین اہمیت کے کاموں میں مہاجر کیمپ میں کام‘ لاہور شہر کی صفائی اور اصلاحی و طبی خدمات کو شامل کیا۔
لاہور شہر میں مسلمانوں کی آبادی زیادہ تھی‘ لیکن اس آبادی کا ۸۰ فی صد حصہ مزدور پیشہ تھا۔ تمام تجارتی مراکز ہندوئوں کے ہاتھ میں تھے۔ اکبری منڈی‘ چوک رنگ محل‘ سوہا بازار‘ صرافہ بازار اور اندرون شاہ عالمی دروازہ جلا دیے گئے تھے یا مسمار ہوگئے تھے۔ اس لیے ان مقامات پر بہت زیادہ کام کرنا پڑا۔ باقی شہر میں اہم مقامات پر خدمات سرانجام دی گئیں۔
مہاجر کیمپوں میں جماعت اسلامی کی طرف سے یہ کام کن جذبات کے ساتھ کیا جا رہا تھا اور اپنی ساری تنظیمی طاقت کے ساتھ یہ کام کرتے ہوئے تحریکِ اسلامی کی قیادت اوراس کے کارکنوں کے پیش نظر کیا تھا‘ اسے سمجھنے کے لیے آج بھی اس اپیل کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے جو محترم امیرجماعت اسلامی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اس موقع پر جاری کی۔
’’مشرقی پنجاب اور دہلی سے لاکھوں مسلمان اس وقت جس حالت میں پاکستان پہنچ رہے ہیں اور یہاں پہنچ کر جن مصائب سے دوچار ہو رہے ہیں ان کا نظارہ اس قدر دردناک ہے کہ اسے دیکھ کر کوئی سنگ دل سے سنگ دل انسان بھی___ بشرطیکہ سنگ دل کے باوجود وہ انسان ہو___ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ جس سرزمین پر یہ لوگ صدیوں سے آباد تھے‘ وہاں سے ان کے ہمسایوں نے انھیں حکومت کی طاقت اور فوج اور پولیس کی کھلی امداد سے نکالا ہے اور اس طرح نکالا ہے کہ یہ اپنا سب کچھ چھوڑ کر نکل جانے پر مجبور ہوئے ہیں۔ ان میں سے جو لوگ کچھ روپیہ پیسہ‘ زیور اور کپڑے لے کر چلے ان کی تلاشیاں لی گئیں اور ہر چیز سے انھیں محروم کر دیا گیا۔ حتیٰ کہ بعض قافلے اس حالت میں بھی پاکستان پہنچے کہ ان کے کسی مرد اور عورت کے جسم پر کپڑے نام کا ایک تار بھی نہ تھا۔ جن کیمپوں میں ان غریبوں نے پناہ لی وہاں یہ خوراک‘ پانی اور سایے سے محروم رکھے گئے اور ان کے زخمیوں اور بیماروں کو اکثر حالات میں کوئی طبی امداد میسر نہ ہوئی۔ پاکستان کی طرف ہجرت کے دوران میں صرف یہی نہیں کہ جگہ جگہ ان پر حملے کیے گئے بلکہ پوری کوشش کی گئی کہ راستہ بھر انھیں نہ پانی مل سکے اور نہ کھانا۔
ہزاروں لاکھوں مسلمانوں کے قافلے اس حالت میں پاکستان پہنچ رہے ہیں کہ تکان سے چور‘ کئی کئی دن کے فاقوں سے نڈھال‘ پیاس سے بدحال اور زخموں اور بیماریوں سے جاں بلب ہیں۔ بہت سے بوڑھے‘ بچے اور مریض یہاں پہنچتے ہی دم توڑ دیتے ہیں۔ بہت سے لوگ بھوک پیاس اور تکان کی شدت سے جگہ جگہ گرے پڑے ہوتے ہیں اور انھیں اگر فوراً مدد نہیں پہنچتی تو ان کی زندگی بھی ختم ہوجاتی ہے۔ بکثرت بیمار اور زخمی کراہ رہے ہیں اور انھیں فوراً طبی امداد بہم پہنچانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بے شمار لاشیں راستوں پر اور میدانوں میں پڑی ہوتی ہیں جنھیں دفن کرنے کا اگر جلدی انتظام نہ کیا جائے تو انھیں کتے کھانے لگتے ہیں اور ان کے سڑنے سے بیماریوں کے پھیلنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ ایسی ہی بلکہ اس سے کچھ زیادہ دردناک حالت پناہ گزینوں کے ان کیمپوں میں دیکھی جارہی ہے جو والٹن ٹریننگ اسکول اور ہوائی اڈے پر بنائے گئے ہیں۔ وہاں روزانہ بکثرت آدمی مر رہے ہیں اور ان کی لاشیں کئی کئی دن پڑی رہتی ہیں‘ صرف اس وجہ سے کہ اتنے مرنے والوں کو روز دفن کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ سیکڑوں‘ ہزاروں مریض طبی امداد کے محتاج ہیں اوران کے لیے نہ دوائیں کافی بہم پہنچ رہی ہیں اور نہ معالج۔ بکثرت بوڑھے اور بیمار لاوارث بچے ایسے ہیں جو اپنی مدد آپ نہیں کرسکتے اور اس کے سخت حاجت مند ہیں کہ کوئی ان کی خبرگیری کرے اور ایسے لوگوں کی تعداد تو بہت ہی زیادہ ہے جن کے پاس کپڑے‘ بستر‘ برتن کچھ بھی نہیں ہے۔
یہ ایک بہت ہی زیادہ مختصر روداد ہے ان لاکھوں مظلوموں کی جو انڈین یونین کے مختلف علاقوں سے پاکستان آرہے ہیں۔ انسانی مصائب کا ایسا دردناک منظر اتنے وسیع پیمانے پر شاید تاتاری وحشت کے طوفان کے بعدکبھی نہ دیکھا گیا ہوگا۔ میں اس وقت اس سوال سے بحث نہیں کرنا چاہتا کہ اس مصیبت کے اسباب کیا ہیں۔ میں پاکستان کے لوگوں سے صرف یہ اپیل کرنا چاہتا ہوں کہ اپنے ان بھائیوں پر رحم کھائیں اور اجتماعی طور پر ان کی مدد کے لیے کھڑے ہوجائیں۔ یہ لوگ انسان ہیں اور انسانیت کا تقاضا ہے کہ آپ ان کی مدد کریں۔ یہ اس لیے بھی آپ کی امداد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے پاکستان کا مطالبہ خود آپ سے پہلے اور آپ سے بڑھ کر زور شور سے کیا تھا۔ انھی کی مدد سے آپ اپنی الگ حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوئے اور یہ اسی جرم کی سزاہے‘ جو وہ آج ان ہولناک مصائب کی صورت میںبھگت رہے ہیں۔
مغربی پنجاب کی حکومت اور پاکستان کی مرکزی حکومت اس عظیم الشان آفت کا مقابلہ کرنے کے لیے جو کچھ کر رہی ہے وہ بالکل ناکافی ہے۔ شاید کوئی بڑی سے بڑی منظم حکومت بھی محض سرکاری ذرائع سے ان آفات کا مقابلہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتی جو اتنے بڑے پیمانے پر رونما ہوئے ہیں۔ یہ دراصل ایک قومی مصیبت ہے اور اس کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا جب تک پوری قوم بحیثیت مجموعی اپنے تمام ذرائع سے اس کاسامنا کرنے کے لیے کھڑی نہ ہوجائے۔ اس لیے میں پاکستان کے لوگوں سے عام اپیل کرتا ہوں کہ وہ ہندستان سے آنے والے مہاجرین کی مدد کے لیے اجتماعی کوشش پر آمادہ ہوں۔
اس وقت ہزاروں ایسے رضاکار خادموں کی ضرورت ہے جو اپنا پورا یا تھوڑا وقت اس کام کے لیے وقف کریں۔ ایسے ڈاکٹروں اور حکیموں کی ضرورت ہے جو کیمپوں میں رہ کر یا جاکر زخمیوں اور بیماروں کا علاج کریں۔ دوائوں‘ کپڑوں اور بستروں کی ضرورت ہے جن سے ان لوگوں کو موت‘ بیماری اور تکالیف کے چنگل سے بچایا جائے۔ روپے کی ضرورت ہے جس سے مہاجرین کی مدد کے مختلف کاموں کا سروسامان کیا جائے اور سب سے بڑھ کر جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان کی راے عام اُن بے درد اور شقی القلب پاکستانیوں کے خلاف بھڑک اُٹھے جو اپنے لاکھوں مسلمان بھائیوں کی اس مصیبت سے طرح طرح کے ناجائز فائدے اُٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہندستان کے مسلمانوں کی بربادی پر پاکستان کے لوگوں کی سردمہری ہی کچھ کم افسوس ناک نہیںہے کجا کہ نوبت اب یہاں تک پہنچ جائے کہ ان کی خانہ بربادی کو یہ اپنی خانہ آبادی کا ذریعہ بنائیں۔ پاکستان میں ایک ایسی عام راے تیار ہونی چاہیے جو اس قسم کی بدترین خود غرضیوں کو جہاں بھی دیکھے‘ اس پر برسرِعام لعنت کرے۔
اعانتِ مہاجرین کے سلسلے میں جو اصحاب رضاکارانہ خدمات انجام دینا چاہیں یا روپے اور سامان سے مدد کرنا چاہیں وہ ان پبلک جماعتوں کی طرف جلدی سے جلدی رجوع فرمائیں جن پر انھیں اعتماد ہو۔ پبلک جماعتوں کے لیڈروں اور کارکنوں سے بھی میں درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس نازک موقع پر کام کے لیے اُٹھیں اور اپنی قوتوں کومجتمع کرکے جلدی سے جلدی مہاجرین کی مدد کو پہنچیں۔ ہر لمحہ جو گزر رہا ہے ان کے مصائب اور مشکلات کو بڑھاتا جا رہا ہے۔
’جماعت اسلامی‘ بھی اس سلسلے میں کچھ خدمت کر رہی ہے۔ جن لوگوں کو ہمارے اوپر اعتماد ہو وہ ہمارے ساتھ تعاون فرمائیں۔ ہمیں اس کام کے لیے ایسے رضاکاروں کی ضرورت ہے جو دل سوزی‘ جاں فشانی اور اخلاص و دیانت کے ساتھ مظلوموں کی خدمت میں وقت صرف کرنے پر آمادہ ہوں۔ جن کے پیشِ نظر خدا کی خوشنودی کے سوا کوئی دوسرا مقصد نہ ہو‘ اور جو کم از کم خدمت کے اوقات میں جماعت اسلامی کے ڈسپلن کی پابندی کریں۔ ایسے حضرات اگر ہمارے ساتھ کام کرنا چاہیں تو براہِ کرم جماعت اسلامی کے کیمپ واقع اسلامیہ پارک‘ پونچھ روڈ پر مجھ سے ملیں یا مراسلت فرمائیں۔ نیز جولوگ ہم پر اعتماد رکھتے ہوں وہ روپے‘ کپڑے اور دوائوں سے بھی ہمارا ہاتھ بٹائیں۔ اس مدد کے لیے اللہ ان کو اجر عطا فرمائے گا اور اسی کا اجر کافی ہے۔
ڈاک کا نظام درست نہ ہونے کی وجہ سے غالباً جماعت اسلامی کی ان شاخوں تک میری ہدایات نہیں پہنچ سکی ہیں جن کو اس خدمت کے لیے لاہور طلب کیا گیا تھا۔ لہٰذا میں اخبار کے ذریعے سے جماعت کی ان تمام شاخوں کوجو پاکستان میں واقع ہیں‘ یہ ہدایت کرتا ہوں کہ اپنے ارکان اور حلقۂ ہمدرد ان کی نصف تعداد جلدی سے لاہور بھیجیں اور ایسا انتظام کریں کہ ایک پارٹی کے واپس جانے سے پہلے دوسری پارٹی اس کی جگہ کام کرنے کے لیے پہنچتی رہے‘‘۔
اس مرحلے پر محترم میاں طفیل محمد صاحب قیم جماعت اسلامی پاکستان کی طرف سے ایک تفصیلی خط جماعت اسلامی کے ارکان اور ہمدردوں کے نام جاری کیا گیا۔ ۲۵اکتوبر ۱۹۴۷ء کو امیرجماعت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے کیمپ جماعت اسلامی مبارک پارک‘ پونچھ روڈ لاہور سے ایک اپیل شائع کی جس میں کہا گیا تھا کہ جماعت اسلامی نے ہوائی اڈے (والٹن کیمپ) میں اپنا ایک ہسپتال قائم کیا ہے جس میں یونانی‘ ایلوپیتھک اور ہومیوپیتھک علاج کا انتظام ہے۔ لیکن مریضوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ہماری طرف سے جو حکیم اور ڈاکٹر مقرر ہیں‘ وہ شب و روز کی محنت کے باوجود سب کی خدمت نہیں کرسکتے۔ ہمیں ایسے طبیبوں اور ڈاکٹروں کی سخت ضرورت ہے جو اس کام میں فی سبیل اللہ ہمارا ہاتھ بٹانے پر تیار ہوں۔ خصوصیت کے ساتھ میں جماعت اسلامی کے جملہ ہمدردوں سے اپیل کرتا ہوں کہ ان میں جو حکیم‘ ڈاکٹر یا ہومیوپیتھ موجود ہوں۔ وہ اس خدمت کے لیے آگے بڑھیں۔
کارکنان کی آمد کے ساتھ ہی جماعت اسلامی نے پہلا کیمپ والٹن (ہوائی اڈا) میں وسط ستمبر میں قائم کر دیا۔ اگرچہ پہلے کیمپ کا نظام سرکاری طور پر ایک فوجی میجر کی کمان میں تھا اور کچھ انتظامیہ کے لوگ بھی وہاں مقرر تھے اور رضاکار کے طور پر بھی وہاں کچھ رنگارنگ قسم کے نوجوان کام کر رہے تھے۔ لیکن ہزارہا مہاجرین وہاں روزانہ آرہے تھے جن میں شدید مریض‘ ضعیف‘ بچے‘ زخمی اور معذور کیے گئے افراد کی بہت بڑی تعداد ہوتی تھی۔ اکثر لوگ بھوک اور فاقوں سے نڈھال تھے۔ بے سہارا افراد تو شمار نہیں ہوسکتے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جن کے اکثر اعزہ یا شہید کردیے گئے تھے یا راستوں کے حملوں میں ایک دوسرے سے الگ ہوگئے تھے۔ ان محروم اور مصیبتوں میں مبتلا حضرات کو سنبھالنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ پھر بدانتظامی کے باعث سخت افراتفری کی فضا تھی۔
محترم امیر جماعت نے خود ان سب حالات کا جائزہ لیا۔ کیمپ کے کمانڈر سے رابطہ قائم کرکے انھیں جماعت کی خدمات پیش کی گئیں۔ رانا اللہ داد خان صاحب نے کافی محنت اور توجہ سے کام سنبھالا۔ کیمپ کمانڈر نے جماعت کے کارکنان کی دیانت‘ امانت‘ محنت اور لگن سے متاثر ہوکر جلد ہی مکمل نظام جماعت کے حوالے کر دیا اور سرکاری کارکنان کو بھی ہدایت کی گئی کہ وہ جماعت کے زیرہدایت کام کریں۔ اب والٹن کیمپ کی مکمل ذمہ داری چودھری علی احمد خاں صاحب کے سپرد کر دی گئی۔ چودھری علی احمد خاں صاحب بطور سب انسپکٹر پولیس قلعہ پھلور ضلع جالندھر میں ملازم تھے لیکن جماعت کے اصول اور ہدایت کے مطابق انھوں نے انگریز کے کافرانہ نظام سے قطع تعلقی کرتے ہوئے اس ملازمت سے استعفا دے دیا اور جماعت اسلامی کے رکن بن گئے۔ انھوں نے پھلور ہی میں عین پولیس قلعہ کے سامنے جہاں وہ بطور انسٹرکٹر آفیسر تھے معمولی درجے کا ہوٹل کھول کر دعوتِ اسلامی کا کام شروع کردیا۔ بے حد محنتی تھے۔ پھر جماعت نے انھیں کمشنری جالندھر کا قیم مقرر کیا‘ نظم و ضبط اور محنت ان کی گھٹی میں رچی بسی تھی۔
والٹن کیمپ کا نظم سنبھالتے ہی انھوں نے کیمپ کے کارکنان اور نظام کو اس طرح منضبط کیا کہ لاپروا اور خودغرض سرکاری عملہ اور نام نہاد مسلم لیگی رضاکاروں کو یا تو سیدھا ہونا پڑا یا پھر وہ کیمپ چھوڑ کر بھاگ گئے۔ چودھری صاحب کے ہمراہ اس دور کے سیکڑوں جماعتی کارکن‘ جو کہ اکثر بالکل نوعمر تھے‘ مہاجرین کی خدمات میں ہمہ تن مصروف تھے۔ لاہور کے مکتبہ تعمیرانسانیت کے مالک شیخ قمرالدین صاحب‘ چودھری صاحب کی نیابت کر رہے تھے۔ سرگودھا‘ راول پنڈی‘ سیال کوٹ‘ ملتان اور گوجرانوالہ کے اکثر حضرات اسی کیمپ میں کام کرتے رہے۔ جناب مولانا محمد علی مظفری صاحب‘ جناب شیخ عبدالمالک صاحب ملتان‘ ان کے بھائی شیخ عبدالواحد صاحب اور بھتیجے شیخ محمد ایوب صاحب‘ صوبہ سرحد کے رفقا اور دیگر اضلاع کے حضرات غذا اور اشیاے ضرورت بھی مہیا کرتے رہے اور خدمات بھی سرانجام دیتے رہے۔ مرکز کے تمام رفقا بھی جن میں شیخ فقیرحسین صاحب مرحوم‘ جناب چودھری رحمت الٰہی صاحب اور دیگر حضرات شامل تھے‘ باہر سے آنے والے رفقا کے انتظام اور اشیاے ضروریہ پہنچانے میں ہمہ وقت مصروف تھے۔ وہ ہرآنے والے رفیق سے پوچھتے تھے کہ کیا کام کرسکتے ہو؟ اور ہر رفیق کا یہی جواب ہوتا تھا کہ جو کام بھی سپرد کردیا جائے۔
والٹن کیمپ میں کھانے کی تقسیم‘ بچوں کے لیے دودھ کی تقسیم‘ لوگوں کو ایسی ترکیب اور ترتیب کے ساتھ ٹھیرانا کہ ’مخلوط سوسائٹی‘ کا منظر دیکھنے میں نہ آئے‘ مختلف صورتوں میں کیمپوں میں آنے والے بدقماش اور بدنیت لوگوں کو روکنے کی کوشش‘ لوگوں کے اندر دین اور اخلاق کی رغبت پیدا کرنے کی سعی‘ صبر کی تلقین‘ مریضوں کا علاج اور ان کی ہر تکلیف اور ضرورت کے وقت تعاون‘ رات کے وقت حفاظت اور پہرے کا نظام جیسے امور پر خصوصی توجہ دی جا رہی تھی۔ اس میں نوجوان مہاجرین کی ایک معقول تعداد کا تعاون بھی حاصل تھا۔ اگرچہ مہاجرین کی آمدورفت کا سلسلہ رکنے میںنہیں آرہا تھا لیکن تنظیم اس طرح قائم کر دی گئی تھی کہ کسی کام میں رکاوٹ بہت کم پیش آتی تھی۔
جماعت کے ہسپتال کا قیام اور معذور افراد کے پاس موقع پر جاکر طبی تعاون کا بھی بہت بڑا اثر تھا۔ اس دور کے اساتذہ‘ محکمہ زراعت کے افسران اور بعض دوسرے سرکاری ملازمین‘ جو کہ مولانا مودودی کے لٹریچر سے متاثر تھے‘ اس خدمت کے لیے لمبی چھٹیاں لے کر آئے۔ چودھری محمد ابراہیم صاحب ایم اے‘ چودھری محمد اکبر صاحب بی اے‘ بی ایڈ‘ چودھری محمد اشرف صاحب ایم اے‘ چودھری عزت علی خاں صاحب‘ ڈپٹی ڈائرکٹر زراعت‘ محمد باقر خان صاحب کے حلقہ اثر کے کئی ملتان کے حضرات اور دوسرے کئی حضرات نے مہینوں خدمات سرانجام دیں۔ خان لیاقت علی خاں صاحب وزیراعظم پاکستان والٹن کیمپ میں آئے تو وہاں کے نظم و نسق سے بے حد متاثر ہوئے اور جماعت کے ناظمین سے مل کر ان کے کام کی تعریف کی۔
والٹن کیمپ میں عیدالاضحی کی نماز محترم مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے پڑھائی۔ حاضری کم از کم ۵۰ ہزار افراد پر مشتمل تھی۔ مولانا رحمۃ اللہ علیہ کے خطاب کو جو کہ قرآن و سنت کی روشنی میں صبر اور توکل علی اللہ کی تلقین پرمشتمل تھا‘ بہت توجہ سے سنا گیا۔ اپنے اس خطبے میں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی نے فرمایا: ’’جو شخص خدا پر ایمان رکھتا ہے‘ وہ اس حالت میں کہ وہ نعمتوں میں گھرا ہوا ہو‘ اس بات کو نہیں بھولتا کہ وہ خدا کا بندہ ہے اور اس کو جو کچھ بھی ملا ہے وہ پروردگار کی امانت ہے۔ وہ نہ بپھرتا ہے‘ نہ اکڑتا ہے‘ نہ اپنے آپ کو اور اپنے پروردگار کو بھول جاتا ہے بلکہ شکرگزار رہتاہے۔ انسانوں کی دوسری قسم جو خدا پر سچا ایمان نہیں رکھتی ہے‘ نعمتیں پاکر آپے سے باہر ہوجاتی ہے۔ انھیں دولت ملتی ہے تو ان کی خود غرضی بڑھ جاتی ہے۔ اقتدار میں حصہ ملتا ہے تو مقامِ بندگی کو بھول جاتے ہیں۔
ایمان رکھنے والوں کی نعمتوں میں کمی آجاتی ہے تو وہ ایک ایک لقمے کے لیے اپنے آپ کو ذلیل نہیں کرتے‘ نہ اپنی تنگ حالی کا رونا روتے ہیں اور خدا کے سامنے شکوہ و شکایت کے دفتر کھول دیتے ہیں‘ جب کہ اس دوسری مخلوق کو ایسی صورت سے سابقہ پیش آتا ہے تو اپنی خودداری کو بیچ دیتے ہیں۔ اور ان کی حرکتوں سے ایسا معلوم ہونے لگتا ہے جیسے انھیں اللہ نے کبھی کوئی نعمت دی ہی نہیں تھی۔
میرے بھائیو اور بہنو! خدا پر ایمان رکھنے والوں کی طرح‘ مصیبت زدہ ہونے کے باوجود آپ کا مقام یہ ہے کہ اپنی سیرت کو نہ گرنے دیں‘ اپنے مالک‘ خالق اور رازق کو نہ بھولیں اور بھروسا رکھیں کہ اگر اس نے پہلے نعمتوں سے نوازا تھا تو آیندہ بھی انعامات عطافرما سکتا ہے۔
آزمایش کا دوسرا پہلو اہلِ پاکستان کو درپیش ہے۔ ان پر اللہ کا فضل ہوا کہ وہ ان آفات سے محفوظ رہے جن کا نشانہ مشرقی پنجاب میں ان کے بھائی اوران کی بہنیں بنیں۔ لیکن محفوظ رہنے کی یہ حالت بجاے خود ایک بہت بڑی آزمایش ہے کہ آپ اس کا شکر کس طرح ادا کرتے ہیں۔ اپنے مظلوم بھائیوں اور بہنوں کے کام آکر‘ یا خود غرضیوں‘ پستیوں اور بدعنوانیوں کا مظاہرہ کرکے‘‘۔
والٹن میں جماعت اسلامی کے رفقا کی خدمات میری آنکھوں دیکھی ہیں۔ جماعت اسلامی کے چند سو افراد کا ادل بدل ہوکر اتنا عظیم کام کرنا‘ صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے جذبے کا نتیجہ تھا۔ دوسری طرف آباد کاری (عملاً برباد کاری) کے کام کا نظام‘ حکومت نے اس طرح تشکیل دیا کہ لوگوں کے ایمان و یقین کے دھجیاں بکھر گئیں۔ میرے خیال میں سرکاری اور بااثر ملازمین اور بڑے جاگیرداروں کے سوا کوئی شخص رشوت کے بغیر کچھ حاصل نہ کرسکا۔ بعض لوگ درختوں کے پتوں پر گزارہ کر رہے تھے لیکن سرکاری ملازمین ان پر بھی رحم نہیں کرتے تھے۔ اس ہجرت کا سارا دینی اور اخلاقی پھل سرکاری حکام اور اہل کاران کی بدعملی نے جھلسا کر رکھ دیا اور بدنصیبی یہ بھی رہی کہ خود مہاجرین میں سے بھی جو لوگ یہاں سرکاری ملازمتوں میں آئے‘ ان کی ایک بڑی تعداد بھی سمیٹنے سمٹانے میں لگ گئی اور ایمان دار لوگوں کی تعداد کم ہوتی چلی گئی۔
بہرحال والٹن کیمپ میں جماعت اسلامی کی خدمات رفقاے جماعت کو کندن بنا گئیں۔ خدمتِ خلق اور رضاے الٰہی کے لیے اپنی ہر چیز کو قربان کرنے اور اپنے آپ کو اللہ کی راہ میں کھپادینے کا ایک عظیم تجربہ تھا۔ لیکن ہمیں اور ہمارے کام کو دسمبر کے آخری ایام تک بمشکل برداشت کیا گیا۔ رشوت خور سرکاری ملازمین نے اور ان کی زیرسرپرستی خیانت کار کارندوں اور ان کے سرپرست اعلیٰ حکام نے ہر بھلائی کا کام ناممکن بنا دیا۔ جنوری ۱۹۴۸ء میں مہاجرین کی آمد بھی کم ہوگئی تھی۔ اس لیے جماعت نے بھی دوسرے کاموں کی طرف توجہ دینے کا فیصلہ کیا۔
جماعت اسلامی نے ۱۴ ستمبر ۱۹۴۷ء سے ہی پناہ گزین کیمپوں میں کام شروع کردیا تھا۔ کیمپ کی خدمات کے علاوہ لاوارث بچوں اور لاوارث عورتوں کی کفالت و حفاظت کی ذمہ داری بھی کارکنانِ جماعت کے سپرد کی گئی جو بہت ہی اہم ذمہ داری تھی۔ الحمدللہ اس بارے میں بھی جماعت کے کسی کارکن کے متعلق کسی ادنیٰ شکایت کا موقع پیدا نہیں ہوا۔ جماعت کے کارکنوں کی محنت اور اخلاص کی یہ ساکھ تھی کہ ۱۵دسمبر ۱۹۴۷ء کو ایک نئے سرکاری کیمپ کمانڈر کی بدمعاملگی اور بددیانتی سے تنگ آکر مولانا محترم کے ارشاد کے مطابق والٹن کیمپ میں کام بند کردیا گیا تو واہگہ کیمپ‘ شاہدرہ کیمپ اور دوسرے کیمپوں کے افسران کی درخواست پر والٹن کیمپ سے فارغ ہونے والے کارکنان کو ان کے کیمپوں میں بھیج دیا گیا۔
یہ خدمات جماعت اسلامی کی للہیت‘ انسان دوستی اور خداترسی کا وہ لازوال کارنامہ ہیں جن کا اجر اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں دے سکتا۔ اللہ تعالیٰ اِن خدمات میں حصہ لینے والے سب حضرات کو اجرِعظیم عطا فرمائے‘ خواہ وہ زندہ ہیں یا اپنے مالک کے حضور حاضر ہوگئے ہیں۔