اگست۲۰۰۶

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| اگست۲۰۰۶ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

تعلیم و تربیت میں خاکوں اور کارٹون کا استعمال

سوال: احادیث میں جان دار اشیا کی مصوری کے بارے میں سخت وعید وارد ہوئی ہے‘ مگر تصویر‘ فوٹوگرافی‘ وڈیو کیمرے آج کل کے دور کا لوازمہ بن گئے ہیں۔ بالغ حضرات کی بات تو ایک طرف‘ بچوں کو لغویات اور فضولیات سے بچانے کے لیے اور ان کی شخصیت میں مثبت عادات کو فروغ دینے کے لیے مطالعے کی عادت ڈالنے اور کہانیوں اور واقعات کے ذریعے سے انھیں مختلف باتیں سمجھانے پر زور دیا جاتا ہے۔ رنگ و روشنی سے بھری یہ دنیا‘ جس میں ہم رہتے ہیں‘ بچہ سفید اور کالی کتابوں کو اٹھانا تک نہیں چاہتا۔ اس پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے کچھ سوالات اُبھرتے ہیں۔

۴ - ۱۰ سال کی عمر کے بچوں کے لیے مندرجہ ذیل صورتوں میں سے کون سی درست ہے: کتاب میں کوئی تصویر نہ ہو‘ بچوں کو باور کرایا جائے کہ مسلمان بچہ بس یہی کتابیں پڑھ سکتا ہے؟ تصویریں تو دی جائیں مگر چہرے کو پوری طرح نہ دکھایا جائے اور حتی المقدور انسانی شکل دینے سے گریز کیا جائے‘ یعنی اطراف سے یا پشت سے تصویر دی جائے یا تصاویر بنانے کی پوری پوری آزادی حاصل ہو؟

سوال یہ ہے کہ اگر کتاب میں کوئی تصویر بھی نہ ہو اور نصیحت بھی ہو‘ ساتھ میں بہت سے دینی‘ اخلاقی اور نفسیاتی پہلوئوں کو نظر میں رکھ کر کتاب لکھی جائے‘ توکیا وہ خشک اور سادہ ہونے کی وجہ سے بچوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کروا سکے گی؟ اگر دوسری شکل کو اختیار کیا جائے تو برابر دل میں کھٹک رہتی ہے کہ مصور کے لیے سخت ترین عذاب والی وعید کو سامنے رکھا جائے یا پھر حضرت عائشہؓ کے گھوڑے کے پروں والی حدیث اور گڑیوں کے ساتھ کھیلنے والی احادیث کو اختیار کیا جائے؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا کارٹونوں کے کردار جو اب بچوں میں بہت مقبول ہو رہے ہیں‘ وہ کلیتاً غلط ہیں یا پھر ان میں سرے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے؟ غلط کہنے والے اس کی  یہ دلیل لاتے ہیں کہ کیا آپ اللہ کی تخلیق کے مقابلے میں اپنی تخلیق پیش کر رہے ہیں؟ درست کہنے والے یہ حجت قائم کرتے ہیں کہ اس میں اللہ کی تخلیق سے مماثلت کا کوئی دعویٰ نہیں ہے۔ہمارے لیے اس تناظر میں کیاہدایت ہے؟ مثلاً اگر بچوں کو گندی اور غلیظ چیزوں سے بچانے کے لیے جرثومے کی کارٹون شکل بنائی جائے تو کیسا ہے؟ عہدحاضر کے تقاضوں کی روشنی میں رہنمائی فرمایئے۔

جواب: مصوری‘ فوٹوگرافی‘وڈیو کیمرے سے تصویر محفوظ کرنا یا موبائل فون پر متحرک یا ساکن شبیہہ کا محفوظ کرنا کہاں تک مباح ہے‘ عصری مسائل میں سے یہ ایک اہم اختلافی مسئلہ ہے جس کا تعلق براہِ راست ان اصلاحات کی عام فہم اور فنی تعریف سے ہے۔ عام فہم انداز میں   مندرجہ بالا تمام صورتوں کو فوٹوگرافی کہا جا سکتا ہے لیکن فنی طور پر ان میں سے ہر ایک اپنی جگہ    ایک الگ حیثیت کی حامل ہے۔ سورۂ سبا میں جس مقام پر حضرت سلیمان علیہ السلام کے حوالے سے تماثیل کاذکر آیا ہے اس کی جو تشریح مفسرین اور فقہا نے کی ہے‘ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جان دار   اشیا کی تصویرکشی حرام ہے خواہ مصوری کے ذریعے ہو یا مجسمہ سازی کے ذریعے‘ لیکن غیر جان دار اشیا کی تصویر بنانا حرام نہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تعلیم و تربیت کے لیے رنگوں اور خاکوں (sketch یا caricatures) کا استعمال کیا تصویر کی تعریف میں آئے گا‘ یا تدریسی و تعلیمی ذرائع کی حیثیت سے اس پر غور کیا جائے گا؟ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ چوں کہ نبی کریمؐ نے لڑکیوں کی تعلیم کے لیے گڑیوں کے استعمال کی اجازت دی‘ اس لیے اسی پر قیاس کرتے ہوئے مسلم سائنس دانوں اور طلبہ نے تشریح الابدان کے زیرعنوان اپنی تحقیقات کو جابجا ایسے خاکوں سے مزین کیا ہے جو اعضاے انسانی کے عمل کو سمجھنے کے لیے ضروری ہیں‘ مثلاً شمس الدین العناقی اور دیگر اطّباکی تصنیفات۔

تعلیم و تدریس کے حوالے سے ایک بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی شے یا تصور کو متعارف کرانے کے لیے اس کو طلبہ کے سامنے لاکھڑا کرنا ضروری ہوگا‘ یا اس شے کی شبیہہ سے بھی یہ کام لیا جا سکتا ہے؟ مثال کے طور پر شعبۂ طب کی تعلیم کے حوالے سے اگر قلب و دماغ کی شناخت اور عمل کو سمجھانے کے لیے یا ہاتھ اور ٹانگ کے جوڑ کے حرکت کرنے کو سمجھانا ہو تو کسی انسان کو    طلبہ کے سامنے لاکر اس کے جسم پر نشتر چلا کر جسم کے عضلات اور جوڑوں کو دکھایا جائے‘ یا کمپیوٹر کی مدد سے متحرک تصویر کشی (animation )کرکے نہ صرف ظاہری شکل بلکہ اس کے اندر کے ریشے اور جوڑ دکھا کر اعضا سے آگاہ کیا جائے‘ یا محض نظری طور پر بغیر کسی خاکے اور شبیہہ کے صرف الفاظ کی مدد سے یہ سمجھا دیا جائے کہ قلب اس طرح حرکت کرتا ہے۔ اس میں اتنے خانے ہوتے ہیں‘ اتنے والو (valve) ہوتے ہیں‘ اور پٹھے بٹی ہوئی رسی کی طرح ہوتے ہیں وغیرہ۔

شریعت اسلامی کے بنیادی مقاصد میں سے ایک مقصد جان کا تحفظ و بقا ہے اور اگر     اس مقصد کے لیے قلب ودماغ کی شبیہہ بناکر‘ یا متحرک تصویر کشی کے لیے سہ ابعادہ (three dimensional) شکل دکھا کر تعلیم دینے سے شریعت کا منشا پورا ہوتا ہو اور انسانی جان کے تحفظ میں زیادہ کامیابی کا امکان ہو‘ تو شریعت اس اعلیٰ تر مقصد کے لیے اس عمل کو مباح ہی قرار دے گی۔

اگر ۳-۴ سال کے بچوں کو رنگوں میں فرق کرنا اور اشیا کی ساخت کے بارے میں پہچان پیدا کرنے کے لیے گول اور چوکور کے تصور کو سمجھانا ہو تو زیادہ بہتر یہ ہوگا کہ تربوز‘ خربوزہ یا      موسمی مالٹے یا فٹ بال کی شبیہہ دکھا کر سمجھا دیا جائے‘ اور سرخ‘ عنابی اور گلابی رنگ کی پہچان فلسفیانہ طور پر نظری گفتگو کے بجاے ان رنگوں کی اشیا یا ان کی شبیہہ دکھا کر سمجھا دیا جائے کہ سیب سرخ ہوتا ہے اور گلاب گلابی یا عناب عنابی اور جامن جامنی رنگ کی ہوتی ہے۔

اگر تاریخی حوالے سے یہ بتانا مقصود ہو کہ عاد و ثمود نے کتنی ترقی کی تھی اور ان کے  اخلاقی زوال کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انھیں کس طرح عذاب دے کر تباہ کر دیا‘ تو قوموں کے عروج وزوال پر ایک فلسفیانہ گفتگو جو کام کرسکتی ہے اس سے کہیں بہتر یہ ہوگا کہ ان کے محلات کے کھنڈرات کی شبیہہ دکھا کر تحریری یا زبانی طور پر یہ بات کہی جائے کہ وہ پہاڑوں کو کس طرح تراش کر گھر بناتے تھے۔ اس کا ایک حل یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دنیا کے تمام بچوں کو جسمانی طور پر عاد و ثمود کے علاقے میں لے جا کر کھنڈرات دکھائے جائیں۔ یہ الگ بات ہے کہ عملاً ایسا کرنا کہاں تک ممکن ہوگا۔

اس بات کو ایک مثال سے یوں سمجھیے کہ کوئی بھی ذی فہم شخص یہ نہیں کہے گا کہ اگر دو کوہان والے اُونٹ کا ذکر کسی قصے میں آ رہا ہو تو قصے کو روک کر بچوں کو چڑیا گھر لے جائیں اور وہاں دو کوہان والے اُونٹ دکھائیں پھر سبق کی تکمیل کریں۔ اس کے مقابلے میں اس کی شبیہہ دکھانا نہ صرف اس کی شکل کی وضاحت کر دے گا بلکہ وقت اور مال کے بے جا استعمال سے بھی بچائے گا۔

غالباً یہی وجہ ہے کہ محترم مولانا مودودیؒ مرحوم نے تفہیم القرآن میں نہ صرف نقشے بلکہ ان مقامات کی تصاویر بھی تفسیر میں شامل کی ہیں جو عاد و ثمود اور دیگر اقوام کے حوالے سے قرآن کے قانون اور عروج و زوال کے تصورات کی وضاحت اور تفہیم کے لیے ضروری تھے۔

آپ کے سوالات کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ خاکوں میں کس حد تک وضاحت کی جاسکتی ہے؟ میرے خیال میں اس کا تعلق بھی اس چیزسے ہے کہ خاکوں کے ذریعے کن تصورات کو واضح کرنا مقصود ہے۔ اگر ایک گول دائرہ بناکر جس پر دو نقطے بطور آنکھوں کے لگے ہوں اور ایک لکیر منہ یا دہانے کی جگہ بنی ہو تو آپ اسے مسکراتا ہواچہرہ قرار دیں‘ اور اسی دائرے میں اگر دو نقطوں کا اضافہ کردیا جائے تو اس طرح آنسوئوں اور رونے کو ظاہر کیا جائے تو مکمل گول چہرے کی مماثلت     اللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ کسی انسانی شکل کے ساتھ نہیں ہوگی۔ میری دانست میں کوئی انسانی چہرہ    فٹ بال کی طرح گول یا ایک مربع کی طرح چوکور نہیں ہوتا کہ اسے خالق کی مخلوق سے مماثل کیا جاسکے۔ گویا خاکہ نہ تصویر کی تعریف میں آئے گا اور نہ اسے خالق کی مصوری یا خلاقیت کے ساتھ  کسی بھی نوعیت کا مقابلہ کہا جاسکے گا۔

جہاں تک وڈیو یا مائیکروچپ پرکسی شبیہہ کو محفوظ کرنا ہے وہ دراصل اشاروں (signals) کی شکل میں ہوتا ہے اور اس میں کوئی تصویر لکیر سے کھینچے ہوئے اپنے خدوخال کی شکل میں وجود میں نہیں آتی‘ اور نہ اس شکل میں محفوظ ہوتی ہے۔ وڈیو میں مقناطیسی طور پر ذرات اور اشاروں میں ترتیب پیدا ہونے سے ناظرین ٹیوب کی مدد سے تین زاویوں سے شبیہہ دیکھتے ہیں جس کا کوئی مستقل وجود نہیںہوتا۔ اس لیے یہ بھی تصویرکشی کی تعریف میں نہیں آتا۔

دوسری جانب میں یہ سمجھتا ہوں کہ بہت سے تصورات کوسمجھانے کے لیے خاکوں اور شبیہہ کا استعمال بعض اوقات ضروری ہوجاتا ہے خصوصاً بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے اس کا استعمال   تعلیمی حکمت عملی کا ایک لازمی حصہ ہے۔ یہ بات کہنے کی ضرورت نہیں کہ ایسے خاکے جوذہن کو عریانیت یا فحاشی کی طرف لے جانے والے ہوں‘ خاکے ہونے کے باوجود حرام قرار پائیں گے۔ اس پوری گفتگو میں ہم نے اس بات سے بحث نہیں کی کہ شبیہہ والے پردے یا پایدان کا استعمال کرنا درست ہے یا غلط‘ بلکہ تعلیمی و تدریسی ضرورت کے حوالے سے اسلام کے موقف کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔

عملی طور پر دیکھا جائے تو بعض معروف اسلامی ادارے اس تصور تدریس پرعمل پیرا ہیں‘ مثلاً اسلامک فائونڈیشن لسٹر‘ برطانیہ نے بچوں کے لیے جو نصابی اور تدریسی کتب طبع کی ہیں‘ وہ خاکوں سے مزین ہیں۔ ہمارا موقف اس سلسلے میں یہ ہے کہ جب تک ایک تدریسی عمل خاکوں   کے ذریعے صحت مند ذہن‘ اللہ کا خوف رکھنے والا دل اور نگاہ پیدا کرتا ہے اور بچوں کے ذہن سے   شرک و بت پرستی کے تصورات کو رفع کرتا ہے تو اسے استعمال کرنا چاہیے۔ ہمیں انفرادیت قائم  رکھتے ہوئے ایسی کتب طبع کرنا چاہییں جو دوسروں کے لیے مثال بنیں۔ وہ رجحان ساز    (trend setter) ہوں اور یہ ثابت کرسکیں کہ بغیر کسی عریانیت یا فحاشی کے خاکوں کا اصلاحی و تعمیری استعمال کیا جا سکتا ہے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)


جانوروں یا تخیلاتی کردار پر مبنی کہانیاں

س: ہم بیٹھک اسکول پروگرام کے تحت غریب بچوں کے لیے پس ماندہ آبادیوں میں اسکول کھول کر ان کی تعلیم و تربیت کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی تربیت کے حوالے سے ہی صحت و صفائی کا پروگرام بھی ترتیب دیا ہے۔ اس سلسلے کا ایک حصہ چھوٹی چھوٹی کہانیوں کی کتابیں ہیں جو دل چسپ انداز سے صحت و صفائی کی تربیت کرتی ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ براہ راست خشک طریقے سے نصیحت کا انداز اختیار کرنے کے بجاے مومو (بھالو) کے دل چسپ کردار کے ذریعے کچھ باتیں بچوں کو سکھا دی جائیں۔ ہمارے ہاں یہ ادبی روایت بھی رہی ہے کہ بزرگوں کے کردار کے ساتھ ساتھ بکری، بلی، ریچھ اور دیگر کرداروں پر کہانیاں لکھی جائیں۔ اب‘ جب کہ ہم ان کہانیوں کو دوبارہ شائع کر رہے ہیں تو مناسب محسوس ہو اکہ بھالو کے اس کردار پر راے لے لیں کہ اس طرح کے کردار یا تخیلاتی کہانی بنانا دینی نقطئہ نظر سے نامناسب تو نہیں ہے؟

ج: بچوں کی تعلیم و تربیت ہو یا بڑوں کی‘ اس میں اسکیچ یا خاکے کا استعمال میری معلومات کی حد تک طب اور کیمیا کی کتب میں ہمارے علما و فقہا نے کیاہے۔ اگر بچوں کو اسلامی آداب و تعلیمات سے آگاہ کرنے کے لیے گھریلو جان داروں یا پرندوں کے خاکے بنا کر کہانیوں کی شکل میں بات ذہن نشین کرنا زیادہ آسان ہو تو اسے ضرور استعمال کرنا چاہیے۔

عام مشاہدہ ہے کہ تعلیمی حکمت عملی میں جدت اور دل چسپی کے لیے جدید ذرائع استعمال کیے جاتے ہیں۔ اگر ان میں عریانی و فحاشی کا کوئی عنصر نہ ہواور وہ خاکے اخلاقی تعلیمات کو بہتر طور پر سمجھانے میں مدد گار ہوں تو ان کا استعمال کرنا چاہیے۔ گھریلو جان داروں خصوصاً بلی کے حوالے سے انتہائی دل چسپ‘ سبق آموز اور بچوں کی عادتوں کو درست کرنے والی کہانیاں بنائی جاسکتی ہیں۔ بچے چونکہ بلی یا چڑیا‘ کبوتر‘ طوطے‘ گھوڑے کو زیادہ تواتر سے دیکھتے ہیں‘ اس لیے اس حوالے سے کہانی بھی زیادہ توجہ سے پڑھیں گے۔ مومو اچھا کردار ہے لیکن اس سے واقف ہونے کے لیے یا تو چڑیا گھر جانا ہوگا یا بھالو والے کے گلی میں آکر تماشا کرنے کا انتظار۔

بچوں کے لیے کردار بنانے میں یہ بات پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ جو کردار بھی پیش کیا جا رہا ہو وہ حقائق سے قریب تر ہو۔ اگر صفائی بنیادی مضمون ہے تو شاید بلی کے حوالے سے یہ بات زیادہ حقیقت سے قریب ہوگی۔ ممکن ہے بعض بھالو بھی ایسی عادت رکھتے ہوں۔ اسی طرح کہانی میں لڑکی کے لباس اور وضع قطع پر بھی غور کی ضرورت ہے۔ میرے خیال میں بچپن  ہی سے جو خاکے بچے دیکھتے رہتے ہیں‘ وہ ان کی یادداشت کا حصہ بنتے ہیں۔ دو چوٹیاں بنانا بہت اچھی بات ہے بلکہ ان میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے‘ لیکن تعلیمی نقطۂ نظر سے بچی کے خاکے میں اسکارف ہونا چاہیے تھا تاکہ اس کے بال چھپے ہوں۔ (۱- ۱)