عالمِ اسلام میں یہودیوں کو زندگی کی ہرآسایش اور ترقی کا ہر موقع تاریخ کے ہر دور میں حاصل رہا اور جب عیسائی دنیا میں ان کے لیے عزت سے زندہ رہنے کا ہر موقع معدوم کردیا گیا اور ظلم اور تعصب نے نسل کشی کی شکل اختیار کرلی تو مسلم ممالک اور خصوصیت سے عرب دنیا نے ان ستم زدہ یہودیوں کے لیے اپنے دروازے ہی نہیں‘ اپنے سینے بھی کھول دیے۔ لیکن خالص سیکولر اور استعماری مقاصد کے لیے قائم ہونے والی صہیونی (Zionist) تحریک نے اس تاریخی احسان کا بدلہ اس طرح دیا کہ سرزمینِ فلسطین پر جبر اور تشدد‘ دھوکا اور دغا‘ استعماری طاقتوں سے سازباز اور بالآخر ننگی دہشت گردی کا ہر حربہ استعمال کر کے قبضہ جمانا شروع کر دیا اور خصوصیت سے پہلی عالمی جنگ کے فوراً بعد‘ اعلان بالفور کے سایے تلے ۳۰ سالہ عملی جنگ کے ذریعے اپنا تسلط قائم کرلیا جسے اقوام متحدہ کی ۱۹۴۸ء کی ایک غیرقانونی قرارداد کے ذریعے ریاست کا درجہ دے دیا گیا۔
اسرائیل نے اس پر بھی قناعت نہ کی اور بار بار کی فوج کشی کے ذریعے اپنے تسلط کے دائرے کو برابر وسیع کیا اور بالآخر ۱۹۶۷ء میں پوری ارض فلسطین اور شام کی گولان پہاڑیوں‘ لبنان کے چند جنوبی سرحدی علاقوں اور مصر کے وسیع و عریض صحراے سینا پر قبضہ کرلیا۔ ۱۹۷۳ء کی جنگِ رمضان کے بعد عرب ریاستوں نے مسئلہ فلسطین سے جان چھڑانے کی روش تیز کردی اور کیمپ ڈیوڈ اور اوسلو معاہدے کے ذریعے اپنے اپنے مفادات کے حصول کی جدوجہد میں لگ گئے۔ ان حالات سے دل برداشتہ ہوکر فلسطین کے عوام نے اسرائیلی سامراجی قبضے کے خلاف اپنی آزادی کی جدوجہد شروع کی اور الفتح کے جھنڈے تلے اسرائیل کے قبضے کو چیلنج کیا لیکن جب الفتح نے جنگِ آزادی کو مذاکرات کی میز پر تحلیل کرنے کا عمل شروع کردیا‘ نیز اپنے سیاسی رخ کو سیکولرزم اور امریکا سے مفاہمت کے سانچوں میں ڈھال لیا توالقدس کے غیور مسلمانوں نے حماس اور اسلامی جہاد کی شکل میں اسلام کے پرچم تلے آزادی کی جدوجہد کا آغاز کیا۔ عرب حکومتیں اپنی تمام مادی دولت اور عسکری وسائل کے باوجود جدوجہد میں شرکت ہی سے نہیں‘ اس کی تائید سے بھی عملاً دست کش ہوتی گئیں اور اسرائیل سے الگ الگ کھلے یا خفیہ معاہدات کرکے راہ و رسم استوار کرنے میں مشغول ہوگئیں لیکن حماس نے اپنی جدوجہد جاری رکھی اور بالآخر یہ ثابت کردیا کہ وسائل اور قوت کے شدید ترین عدمِ توازن کے باوجود اسرائیل اور اس کے پشتی بانوں کو نہ صرف چیلنج کیا جاسکتا ہے بلکہ پسپائی پر بھی مجبور کیاجاسکتا ہے۔
یہ ہے وہ پس منظر جس میں عسکری میدان میں اپنا لوہا منوانے کے بعد حماس نے سیاسی جمہوری عمل میں شرکت کر کے اپنی عوامی تائید اور اس تائید کی بنیاد پر سیاسی اقتدار حاصل کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ غزہ اور غرب اُردن کی ٹوٹی پھوٹی فلسطین اتھارٹی کے جنوری ۲۰۰۶ء کے انتخابات میں ان کی کامیابی نے سیاسی نقشے کو بدل کر رکھ دیا اور اسرائیل اور مغربی دنیا سے ان کی کش مکش ایک نئے دور میں داخل ہوگئی۔ امریکا اور یورپی اقوام نے جمہوریت کے احترام اور فروغ کے بارے میں اپنے تمام تر اعلانات کے باوجود فلسطینی عوام کے فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور سیاسی‘ معاشی‘ مالیاتی ہر حربہ استعمال کرڈالا کہ حماس مسندِاقتدار پر متمکن نہ ہوسکے اور جب اس میں کامیاب نہ ہوسکے تو پھر اس کی حکومت کو آغازِ کار (take off) کے ہرامکان سے محروم کرنے میں لگ گئے۔
اس پورے عرصے میں اسرائیل حماس‘ اسلامی جہاد‘ اور فلسطین کی ہر قابلِ ذکر قوت اور عام آبادی کو مسلسل فوج کشی‘ قتل و غارت گری‘ target killing ‘ اغوا‘ غیرقانونی اور غیرعدالتی گرفتاریوںکا نشانہ بناتا رہا۔ جو ٹیکس فلسطین کے باشندوں سے وصول کیا جاتا ہے‘ اس تک کی ادایگی کو روک دیا گیا۔ تمام بین الاقوامی امداد کو بند کردیا اور دنیابھر کے بنکوں حتیٰ کہ مسلمان اور عرب ممالک کے بنکوں تک پر پابندی لگادی کہ حماس اوراس کی حکومت کو کوئی مالی منتقلی (financial remittance) نہیں کرسکتے۔ اس طرح ایک پوری قوم کو صرف زیرحراست (under siege) ہی نہیں لایا گیا بلکہ عملاً اس کی نسل کشی (genocide) کا آغاز کردیا۔
حماس نے ان تمام حالات کا مردانہ وار مقابلہ کیا‘ طیش میں آکر جنگ کا راستہ اختیار نہیں کیا بلکہ تمام اسرائیلی دراندازیوں‘ حملوں‘ گرفتاریوں‘ میزائل کی بارشوں کے باوجود عملاً جنگ بندی کے ذریعے بہتر فضا پیدا کرنے کی کوشش کی اور دوسری جہادی قوتوں کو بھی صبر اور تحمل کی تلقین کی لیکن اسرائیل کی اشتعال انگیزیوں (provocations) میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی اور معصوم فلسطینیوں پر حملوں اور متعین افراد کے قتل ناحق کا سلسلہ جاری رہا۔ ان حالات میں ایک جہادی گروہ نے اسرائیلی فوج سے ایک جھڑپ میں دو اسرائیلیوں کو ہلاک اور ایک کو جنگی قیدی بنالیا۔ اس کو بہانہ بنا کر اسرائیل نے بڑے پیمانے پر فوج کشی اور تباہی پھیلانے کی کارروائیوں کا آغاز کردیا اور ۲۵ جون ۲۰۰۶ء سے ۲۰جولائی تک ۱۳۰ فلسطینیوں کو شہید کردیا جن میں عورتوں‘ بچوں کی تعداد ۷۰/۸۰ فی صد ہے۔ بجلی کے نظام‘ سڑکوں‘ پُلوں‘ اسکولوں‘ ہسپتالوں‘ اشیاے ضرورت کے ذخیروں‘ شہری علاقوں اور بازاروں کو تباہ کر کے غزہ کے پورے علاقے کے معاشی اور اجتماعی بنیادی ڈھانچے (infrastructure) کو تباہ کردیا۔
اہلِ فلسطین پر دبائو کو کم کرنے کے لیے لبنان کی حزب اللہ نے‘ جو ۱۹۸۲ء سے مختلف شکلوں میں اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بنی ہوئی ہے اور ۲۰۰۰ء میں جنوبی لبنان سے اسرائیلی فوج کے انخلا کے معاہدے کے باوجود مسلسل اشتعال انگیزی کا ہدف تھی‘ ایک فوجی کارروائی کے ذریعے چنداسرائیلی فوجیوں کو ہلاک کرنے کے ساتھ دو کو جنگی قیدی بنانے کا کارنامہ سرانجام دیا۔ یہ معرکہ ۱۲جولائی ۲۰۰۶ء کو پیش آیا اور اس کے بعد سے تادمِ تحریر ۹دن میں لبنان پر کھلی فوج کشی کے ذریعے ۳۰۰ سے زیادہ لبنانی سول شہریوں کو شہید کیاجاچکا ہے جن میں ایک تہائی تعداد معصوم بچوں کی ہے اور غزہ کی طرح لبنان کے بھی پورے سول ڈھانچے کو تاراج کردیا ہے جس سے اربوں ڈالر کا نقصان ہواہے اور ۲۰سال میں لبنان نے جوکچھ بنایا تھا اسے خاک میں ملا دیا گیا ہے۔
اسرائیل حماس کی جنوری ۲۰۰۶ء کی کامیابی سے اب تک چھے ماہ میں جن جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرچکا ہے اور کررہاہے اس پر پوری مغربی دنیا بشمول اقوام متحدہ خاموش ہے‘ جب کہ امریکا اور برطانیہ کھلے طور پر اور جرمنی ذرا ڈھکے چھپے انداز میں اسرائیل کی تائید اور حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ افسوس ناک معاملہ عرب دنیا اور مسلمان ممالک کا ہے کہ وہ ’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘ کی تصویر بنے ہوئے ہیں بلکہ مصر‘ سعودی عرب اور اُردن کی قیادتوں نے تو زخموں پر نمک پاشی سے بھی گریز نہیں کیا ہے اور مظلوم فلسطینی مجاہدین اور حزب اللہ کے جاں بازوں ہی کو مورد الزام ٹھیرانے سے بھی باز نہیں رہے ہیں۔ مسلمان عوام دل گرفتہ ہیں اور ان کے دل میں خوف نہیں وہ عملاً احتجاج کے لیے اُٹھ رہے ہیں لیکن حکمران بے حس اور امریکا اور اسرائیل سے اتنے خائف ہیں کہ اس ننگی جارحیت اور معصوم انسانوں کے خلاف ان کھلے کھلے جرائم پر زبان سے تنقیدکرنے کی بھی جرأت نہیں کر رہے اور اگر کسی نے کچھ کہا بھی ہے تو بھی بہت ہی دبے لفظوں میں اور ’اگر‘ اور ’مگر‘ کے ساتھ۔
وہ مغربی اقوام جو بالکل امریکا کی گود میں نہیں بیٹھی ہوئی ہیں یا جن کے مفادات مشرق وسطیٰ سے اس طرح وابستہ ہیں کہ ان ملکوں کے عوامی ردعمل کو خطرناک سمجھتی ہیں‘ وہ بھی بڑے معذرت خواہانہ انداز میں اسرائیل کو بڑے ادب کے ساتھ تحمل کا مشورہ دے رہی ہیں اور تنقید کا ہدف حماس اور حزب اللہ ہی کو بنا رہی ہیں۔ مغربی میڈیا پہلے ہی سے اسلام کے خلاف جنگ میں مصروف ہے اور ان کا رویہ بھی الا ماشا اللہ معاندانہ اور جارحانہ ہی ہے۔ طوطے کی طرح رٹ لگائی ہوئی ہے کہ تصادم کا آغاز حماس اور حزب اللہ کی طرف سے ہوا ہے اور اسرائیل اپنے دفاع میں ساری کارروائی کر رہا ہے گو یہ بات بھی کہی جا رہی ہے کہ اسرائیل کا ردعمل متناسب (proportionality) کی حدود سے بڑھ گیا ہے۔ ان حالات میں اس بات کی ضرورت ہے کہ دلیل کے ساتھ مسئلے کی تنقیح کی جائے اور ان خطوط کی نشان دہی کی جائے جن پر اُمت مسلمہ اور دنیا کے حق پسند اور امن دوست انسانوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
پہلی بات سمجھنے کی یہ ہے کہ فلسطین کے عوام اور کم از کم شام اور لبنان کے عوام (اور حکومتیں بھی اگر وہ اپنی ذمہ داری محسوس کریں) اسرائیل کے ساتھ اصلاً جنگ کے عمل میں ہیں۔ گو یہ سلسلہ ۱۹۴۸ء اور اس سے پہلے سے شروع ہوگیا تھا لیکن ۱۹۹۷ء کے بعد سے تو حالتِ جنگ کی اصل حقیقت میں کوئی فرق نہیں پڑا ہے جسے عملاً جنگ بندی کہا جاتاہے‘ وہ بھی واجبی سی ہے اور قانونی اور اخلاقی ہر دواعتبار سے خاصی مشتبہ ہے۔ نیز اسرائیل خود اس پورے عرصے میں یک طرفہ طور پر فوجی دراندازیاں‘ گرفتاریاں اور سول تنصیبات کی تباہیاں پورے تسلسل اور تحدی کے ساتھ کرتا رہا ہے اس لیے فریق ثانی کو بھی ردعمل کا مساوی حق حاصل ہے۔
فلسطین کی انتظامیہ کو یاسرعرفات کے دور سے لے کر آج تک‘ اور خصوصیت سے حماس کی کامیابی کے بعد‘ جس رعونت اور ڈھٹائی سے تباہ کیا گیا ہے‘ وہ مسلسل اشتعال انگیزی اور یک طرفہ اعلان شدہ جنگ (declared war) کی حیثیت رکھتا ہے۔ کئی ہزار فلسطینی شہید کیے جاچکے ہیں اور حماس کی قیادت کو تو نشانہ بنا کر مارا گیا ہے۔ لندن کے اخبار گارڈین کے مطابق ۱۹۶۷ء سے اب تک ۶ لاکھ ۵۰ ہزار بار ارض فلسطین کو نشانہ بنایا جا چکا ہے اور اس وقت بھی اسرائیل کے عقوبت خانوں اور جیلوں میں ۹ہزار فلسطینی حراست میں ہیں‘ حتیٰ کہ حماس کی کابینہ کے ارکان اور پارلیمنٹ کے نومنتخب ارکان کی ایک بڑی تعداد تک اغوا اور حراست کا شکار ہے۔ اگر یہ سب اشتعال انگیزی نہیں تو کیا ہے؟ حالتِ جنگ میں کسی بھی جنگی آپریشن میں جنیوا کنونشن میں جنگی قیدیوں کی ایک پوری category ہے اور مشہور تیسری اور چوتھی کنونشنز کا تعلق ان ہی سے ہے۔ پھر اسرائیل کے ساتھ اس سے پہلے بھی فلسطین اور لبنان دونوں کے ساتھ جنگی قیدیوں اور زیرحراست افراد کے تبادلے کا عمل ہوچکا ہے۔ ان سب کی موجودگی میں محض تین سپاہیوں کے جنگی قیدی بنائے جانے کو ارضِ فلسطین اور لبنان کو اس طرح تباہ و برباد کرکے اور سیکڑوں سول شہریوں‘ عورتوں اور بچوں کو فضائی‘ زمینی اور بحری فوج کشی کے ذریعے قتل کرنے کے لیے وجہ جواز کیسے بنایا جاسکتا ہے۔
لبنان کے ساتھ بھی ۲۰۰۰ء کے معاہدہ انخلا کے باوجود لبنان کے متعدد سرحدی علاقے اور کھیت اسرائیل کے قبضے میں ہیں اور حزب اللہ کے متعدد رکن اور جنوبی لبنان کے شہری اسرائیل کی حراست میں ہیں۔ حزب اللہ فلسطین کے زیرحراست افراد کو بھی اپنی عرب برادری کا حصہ قرار دیتی ہے۔ جنگی فضا کے ان حالات میں جہاں روزانہ اسرائیل کی طرف کوئی نہ کوئی کارروائی ہو رہی ہو‘ فلسطین کے کسی جہادی گروپ یا حزب اللہ کی طرف سے اسرائیلی فوجیوں کے خلاف متعین کارروائی کو اس طرح اور اس پیمانے پرفلسطین اور لبنان کو تباہ کرنے کے لیے بہانہ بنانا ایک صریح دھوکا اور مغالطہ دینے کی کوشش ہے اور اپنے جنگی جرائم پر پردہ ڈالنے کی ناکام سعی ہے۔
بات صرف اتنی نہیں‘ اصل مسئلہ ارض فلسطین اور دوسری عرب اراضی پر اسرائیلی قبضہ ہے جو علاقے کی خودمختار ریاستوں (sovereign states) کا حصہ ہیں۔ مرکزی ایشو اسرائیلی قبضہ ہے اور جہاں قبضہ ہوگا وہاں مزاحمت (resistance) فطری ردعمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی قانون‘ اقوام متحدہ کا چارٹر اور غیر جانب دار تحریک کا چارٹر سب محکوم قوم کے جدوجہد آزادی کے حق کو تسلیم کرتے ہیں اور اس نوعیت کی مسلح مزاحمت کو بھی دہشت گردی کے زمرے میں شامل نہیں کرتے۔
اسرائیل اور امریکا کا سارا کھیل ہی یہ ہے کہ وہ قبضے کو اصل ایشو کے طور پر سامنے نہیں آنے دیتے اور مزاحمت کو مسئلہ بنا کر پیش کرتے ہیں‘ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اصل مجرم اسرائیل ہے اور جب تک ارضِ فلسطین پر اس کا ناجائز قبضہ ختم نہیں ہوتا اور علاقے کے اصل باشندوں کو اپنی زمین پر حقِ حکمرانی حاصل نہیں ہوتا کش مکش‘تصادم اور خون خرابہ ختم نہیں ہوسکتا۔
اس مرکزی نکتے کی روشنی میں دوسرا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ کیا استعماری قبضے کے سلسلے میں محکوم انسانوں کے لیے صحیح رویہ یہ ہے کہ وہ اپنی آزادی‘ اپنے ایمان‘ اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کریں اور اس جدوجہد میں جس قربانی کی ضرورت ہو‘ وہ پیش کریں یا سامراجی اقتدار کے آگے سپرڈال دیں اور محکومی‘ غلامی اور استبداد کے سامنے سپردگی (surrender) کا راستہ اختیار کرلیں۔ ہر حق پرست انسان یہ گواہی دے گا اور تاریخ کا فیصلہ بھی یہی ہے کہ استبدادی اقتدار کچھ عرصے تو ضرور چل جاتا ہے لیکن بالآخر اس کے خلاف مزاحمت اُبھرتی ہے اور کامیاب ہو کر رہتی ہے۔ خود مغربی استعمار کی ۴۰۰ سالہ تاریخ اسی نشیب و فراز کی تاریخ ہے اور استعماری قوتوں کی بالآخر پسپائی کی تاریخ ہے۔ حال اور مستقبل کا نقشہ بھی اس سے مختلف نہیں ہو سکتا۔ ہر استعماری قوت نے اپنے کو ناقابلِ تسخیر سمجھا ہے اور اپنی سیاسی‘ معاشی اور عسکری قوت کے بل پر دوسروں کو محکوم رکھنے کی کوشش کی ہے مگر بالآخر اسے اپنے سامراج کو پسپا ہونا پڑا ہے اور سامراج کی یہ پسپائی صرف مزاحمت کے راستے ہی سے حاصل کی جا سکتی ہے‘ سپردگی کی حکمت عملی اختیار کرنے والے کبھی بھی آزادی اور عزت کا مقام حاصل نہیں کرسکتے۔
فلسطین اور لبنان میں جو جدوجہد آج حماس اور حزب اللہ کر رہے ہیں‘ اسے تاریخ کے اس منظر ہی میں سمجھاجا سکتاہے اور اس پہلو سے حماس کی گذشتہ ۲۰ سال پر پھیلی ہوئی جدوجہد اور خصوصیت سے جنوری کی انتخابی فتح کے بعد اس کی استقامت اور حکمت عملی اور حزب اللہ کی ۱۹۸۲ء سے اب تک کی جدوجہد اور خصوصیت سے ۲۰۰۰ء میں جنوبی لبنان سے اسرائیلی فوجوں کی واپسی میں ان کاکردار اس بات پر شاہد ہے کہ اسرائیل کے غرور اور اس کی عسکری بالادستی کو نہ صرف چیلنج کیا جاسکتا ہے بلکہ اسے پسپائی پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ مسئلہ قوت کی مساوات کا نہیں‘ موقف کی حقانیت اور صداقت اور ظلم اور سامراجیت کے خلاف مزاحمت کے لیے عزم‘ ہمت‘ استقامت اور ناقابلِ تسخیر ارادے کا ہے۔ وسائل بلاشبہہ ضروری ہیں لیکن ارادہ ہو تو وسائل بھی حاصل کیے جاتے ہیں لیکن ارادہ ہی کمزور ہو یا موجود نہ ہو تو پھر دولت کے انبار اور اسلحے کی بھرمار بھی کسی کام نہیں آتے۔ جیساکہ شرق اوسط کی عرب حکومتوں کی بے بضاعتی کی شکل میں دیکھا جاسکتا ہے۔ ایک طرف اسرائیل کی فوجی قوت اور امریکا کی سیاسی‘ مالی‘ فنی اور اسلحے کی بے دریغ فراہمی کا عالم ہے اور دوسری طرف حماس کے مفلوک الحال اور حزب اللہ کے چند ہزار جاں بازوں کی وسائل سے محرومی۔ لیکن ۲۵جون اور ۱۲ جولائی کے واقعات اور ان کے جِلو میں ہونے والے سارے معرکے اور تباہ کاریاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسرائیل کوئی ناقابلِ تسخیر قوت نہیں‘ بے یارومددگار مجاہد بھی اس کا ناطقہ بند کرسکتے ہیں۔
الحمدللہ حزب اللہ نے اسرائیل کے غرور کو خاک میں ملا دیا ہے۔ حیفہ پر میزائل داغ کر انھوں نے یہ پیغام دے دیا ہے کہ لڑائی اسرائیل کے گھر تک لے جائی جا سکتی ہے اور امریکا کے دیے ہوئے پیٹریٹ (patriot) جو اعلیٰ ترین میزائل شکن (anti-missile) اسلحہ سمجھے جاتے ہیں‘ دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ پھر اسرائیل کے ان ہوائی اور بحری جنگی جہازوں کی تباہی جو اعلیٰ ترین ٹکنالوجی سے لیس تھے اور جن پر امریکا اور اسرائیل دونوں کو فخر تھا اس بات کا ثبوت ہیں کہ دستی میزائل سے بھی ان اعلیٰ درجے کی جنگی مشینوں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ جنوبی لبنان میں تین دن سے زمینی جنگ جاری ہے مگر ۲۴گھنٹے میں علاقے کو فتح کرکے‘ تاراج کرکے‘ واپس آجانے کا دعویٰ کرنے والی فوج چند کلومیٹر بھی آگے نہیں بڑھ سکی ہے اور اسرائیلی فوجی ہلاک اور ٹینک تباہ ہونے کی اطلاعات آرہی ہیں۔ اسرائیل کی عسکری قوت کے ناقابلِ تسخیر ہونے کے غبارے سے ہوا نکل رہی ہے۔ یہ حماس اور حزب اللہ کا بہت بڑا کارنامہ ہے جس نے مجبور اور محکوم عوام کو مقابلے کا نیا جذبہ دیا ہے۔ لبنان کو تباہ کردیا گیا لیکن لبنان سے عام مسلمان ہی نہیں‘ عیسائی بھی حزب اللہ کی مزاحمت پر فخر کا اعلان کر رہے ہیں اور ایک عرب خاتون جس کا گھراسرائیل کی گولہ باری سے تباہ ہوگیا اور جسے گولوں کی بارش اور آگ کے شعلوں کی یورش میں درد زہ میں ہسپتال لایا گیا‘ اس نے ایک نئی جان کی ولادت کے بعد عرب قوم اور ملت اسلامیہ ہی کو نہیں اسرائیل کو بھی بڑا مؤثر پیغام دیا جب اس نے اپنے نومولود لڑکے کا نام حاتف رکھا جو اس میزائل کا نام ہے جس سے حزب اللہ نے حیفا کو نشانہ بنایا تھا۔ جس قوم میں یہ جذبہ اور عزم ہو‘ اسے صرف برتر ٹکنالوجی کی قوت سے محکوم نہیں رکھا جاسکتا۔ یہی حماس کا پیغام ہے‘ اور یہی پیغام عراق‘ افغانستان‘ کشمیر‘ شیشان کی تحریکاتِ مزاحمت کا بھی ہے۔
اسرائیل اور امریکا کا اصل کھیل یہ تھا کہ اسرائیل تیزرفتار اقدام (sharp action) کے ذریعے لبنان کو اتنا تباہ کردے کہ اہلِ لبنان تنگ آکر حزب اللہ سے جان چھڑانے کی کوشش کریں۔ حکومت کی تبدیلی اصل ہدف تھا۔ اس کے ساتھ یہ مقصد تھا کہ اس طرح اسرائیل کا شمالی محاذ خاموش کردیا جائے‘ جنوبی لبنان کو حزب اللہ سے پاک کرلیا جائے اور وہاں اقوام متحدہ کے مبصرین کو لاکھڑا کیا جائے اور پھر اسرائیل غزہ اور غرب اُردن کا جو تیاپانچا کرنا چاہتا ہے‘ وہ کسی بڑی مزاحمت کے خطرے کے بغیر کرڈالے۔ لیکن صاف نظر آرہا ہے کہ یہ منصوبہ پورا نہیں ہوگا۔ امریکا نے اسرائیل کو ایک سے دو ہفتے دیے تھے کہ جتنی تباہی چاہتے ہو مچا ڈالو‘ پھر ہم سفارتی عمل کے ذریعے تمھاری عسکری فتوحات کو مستقل سیاسی نقشہ کا حصہ بنا دیں گے لیکن ان شاء اللہ یہ مقاصد خاک میں مل کر رہیں گے۔
اب اسرائیل کے خلاف آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ عرب اور مسلم دنیا کے عوام اُٹھ رہے ہیں اور خود اپنے حکمرانوں کا احتساب کر رہے ہیں۔ ترکی میں‘ استنبول میں لاکھوں افراد کا احتجاجی جلوس نکلا ہے اور ایک ہزار ایک سو ۳۴ کلومیٹر کا جلوس ایک امریکی فوجی چھائونی سے لے کر استنبول تک زنجیر (chain rally) کی شکل میں ۱۷ جولائی ۲۰۰۶ء کو ہواہے جس نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ قاہرہ میں مظاہرے شروع ہوگئے ہیں اور لوگ کھلے عام کہہ رہے ہیں کہ ایک قائد حسن نصراللہ ہے جس نے ۱۹۹۳ء میں اپنے بیٹے کی اسرائیل کے خلاف جہاد میں شہادت کا تمغا سینے پر آویزاں کیا ہے اور آج بھی اسرائیل کو چیلنج کر رہا ہے اور ایک حکمران مصر کا ہے جواپنے بیٹے کو اپنا جانشین بنانے کے لیے ہاتھ پائوں ما ررہا ہے۔ (ملاحظہ ہو‘انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون‘ ۲۰جولائی ۲۰۰۶ء کی قاہرہ کی رپورٹ On the Streets, Prayer for Hezbullah)
اسرائیل کے مشہور اخبار Haaretz نے اپنے اداریے میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ اس طرح خون خرابا کر کے ہم کب تک اس علاقے میں رہ سکتے ہیں۔ آخر تو ہمیں ان لوگوں کے ساتھ ہی رہنا ہے۔ ہمیں اپنے رویے پر غور کرکے طویل عرصے کی حکمت عملی بنانی چاہیے۔ قیدیوں کے تبادلے کے مطالبے کو حقارت سے رد کرکے اسرائیلی وزیراعظم نے کہا تھا کہ ہم مخالف قوت کو نیست و نابود کردیں گے۔ اس کی کابینہ کے ایک وزیر نے کہا ہے کہ قیدیوں کے تبادلے پر بات چیت ہوسکتی ہے اور یروشلم سے انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون کے نمایندہ Steven Eslanger نے The Use of Force: Ruthless or Requiredکے عنوان سے اپنی رپورٹ کا خاتمہ اس جملے پر کیا ہے کہ:
Wars end with diplomacy, You can't win a war with F-16's alone. (July 19, 2006)
جنگوں کا اختتام سفارت کاری پر ہوتا ہے۔ آپ محض ایف-۱۶ سے کوئی جنگ نہیں جیت سکتے۔
ابھی اس جنگ کو اپنی موجودہ شکل میں ۹ دن ہی ہوئے ہیں اور اسرائیل کے ۳۰ افراد ہلاک اور ۱۵۰ زخمی ہوگئے ہیں۔ اگر عزم و ایمان ہو تو نامساوی قوت سے بھی بڑے بڑے معرکے سرکیے جاسکتے ہیں۔
اس معرکے کا ایک اور بڑا اہم اور غورطلب پہلو یہ ہے کہ اس وقت جب امریکا کی ساری عالمی سیاسی حکمت عملی اسلام کے خلاف جنگ میں سنی اور شیعہ فرقوں کو باہم دست و گریبان کرنا‘ تقسیم در تقسیم کرنا‘ ان کے درمیان سول وار کی کیفیت پیدا کرنا اور عالمِ اسلام میں شیعہ سنی محاذآرائی کو فروغ دے کر مبنی بر مسلک ریاستوں کو جنم دینا ہے‘ حماس کی سنی قوت اور حزب اللہ کی شیعہ جماعت القدس کی عصمت کی حفاظت کے لیے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ایک دوسرے کی تقویت کا ذریعہ اور مشترک دشمن پر ضرب کاری لگانے میں تعاون کا بہترین نمونہ پیش کر رہے ہیں۔ یہ وہی نمونہ ہے جو متحدہ مجلس عمل اور اس سے پہلے ملّی یک جہتی کونسل کی شکل میں پاکستان میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ فلسطین اور لبنان میں حماس اور حزب اللہ کا تعاون اور کامیابی ملت اسلامیہ کے اتحاد کا پیش خیمہ اور دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنانے کا ذریعہ بن کر ایک نئے دور کے آغاز کے امکان کو روشن کرسکتا ہے۔
ایک اور پیغام اس معرکے کا یہ بھی ہے کہ مسلم ممالک اور عرب ممالک کی موجودہ قیادتیں ہراعتبار سے اُمت کے اعتماد سے محروم ہوچکی ہیں اور اُمت مسلمہ کے سیاسی‘ معاشی‘ عسکری اور تہذیبی احیا کی راہ میں رکاوٹ بن چکی ہیں۔ مسئلہ ان کی بے بسی کا نہیں‘ بے حسی کا اور اللہ اور اُمت دونوں سے وفاداری کے رشتے کو منقطع کرلینے کا ہے۔ اگر یہ قیادتیں اب بھی اپنے کو نہیں بدل سکتیں تو پھر ان کو بدلنے کے سوا زندگی اور ترقی کا کوئی راستہ نہیں۔ اُمت کے سواداعظم کو اپنا اصل مقام حاصل کرنے کے لیے خود اپنے گھر کی اصلاح اور قیادت اور قوم کے درمیان بُعد بلکہ تضاد پیدا ہوگیا ہے‘ اسے جلد از جلد دُور کرنے کی ضرورت ہے۔ آج ہماری صلاحیتیں قوم اور قیادت میں تصادم میں ضائع ہو رہی ہیں۔ ہمیں ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو قوم کی اُمنگوں کی ترجمان ہو۔ عام مسلمان کے دل میں اب بھی ملّی جذبات موج زن ہیں‘ لیکن قوم کے دل اور قیادتوں کے دل ایک ساتھ حرکت نہیں کر رہے۔ اب ایک ایسی قیادت ہی حالات کو بدلنے کا ذریعہ بن سکتی ہے جو قوم کے دل کی ترجمان ہو اور اس رکاوٹ کو دُور کیے بغیر قومی اور عالمی سطح پر مسلم اُمت اپنا صحیح کردار ادا نہیں کرسکتی۔ فلسطین اور لبنان آج آگ کے شعلوں کی گرفت میں ہیں لیکن یہ آگ گلزار بن سکتی ہے اگر اسوۂ ابراہیمی ؑکو اختیار کیا جائے۔ القدس آج پوری اُمت مسلمہ کو اس جدوجہد کی طرف دعوت دے رہا ہے۔