اگست۲۰۰۶

فہرست مضامین

کلام نبویؐ کی کرنیں

مولانا عبد المالک | اگست۲۰۰۶ | فہم حدیث

Responsive image Responsive image

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ ارشاد فرمایا:

اللہ تعالیٰ نے ہر حق دار کو اس کا حق دے دیا ہے۔ سنو! اللہ تعالیٰ نے فرائض مقرر‘ سنتیں جاری اور حدود متعین اور حلال کو حلال اور حرام کو حرام اور دین کو قانون بنا دیا۔ اس کو آسان اور   خوش گوار اور کشادہ بنادیا‘ اسے تنگ نہیں بنایا۔ سنو! جس آدمی میں امانت کاپاس نہیں‘ اس میں ایمان نہیں۔ جس میں وفاے عہد کی صفت نہیں‘ اس کا کوئی دین نہیں۔ جس نے اللہ تعالیٰ کے ذمے کو توڑا اس شخص کو نقصان پہنچایا جس کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے اٹھایا تھا‘ اللہ تعالیٰ اسے پکڑے گا‘ اور  جو میرے ذمے کو توڑے گا میں اس کے خلاف مقدمہ دائر کروں گا اور جس کے خلاف میں مقدمہ  دائر کروں گا میں اس مقدمے کو جیت لوںگا۔ وہ میری شفاعت سے محروم ہوگا اور میرے پاس  حوضِ کوثر پر نہیں آسکے گا۔ سنو! اللہ تعالیٰ نے تین آدمیوں (۱) ایمان کے بعد مرتد ہونے والے (توہینِ رسالتؐ کے مرتکب بھی اس میں شامل ہیں)‘ (۲) اسلام اور شادی شدہ ہونے کی حالت میں زنا کرنے والا‘ (۳) معصوم انسان کے قصداً و عمداً قاتل کے سوا‘ کسی کو قتل کرنے کی اجازت نہیں دی۔ سنو! میں نے بات پوری طرح پہنچا دی ہے۔ (مجمع الزوائد‘ جلد اوّل‘ ص ۱۷۲)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس ارشاد میں رہتی دنیا تک اُمتِ مسلمہ کے لیے جامع رہنمائی دی ہے۔ ہر زمانے کے مسائل کا حل دے دیا ہے۔ دین اسلام کے مختلف اجزا کے بارے میں پیدا ہونے والے اختلافات کا فیصلہ فرما دیا۔ فرائض میں کمی بیشی کا اختیار کسی کو نہیں ہے۔ جاری کردہ سنتوں کوجاری رکھا جائے گا‘ اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کو حلال اور حرام کردہ چیزوں کو حرام سمجھا جائے گا۔ دین محض چند مذہبی رسوم کا نام نہیں ہے بلکہ یہ نظامِ قانون بھی ہے۔ اس کے مطابق گھریلو‘ شہری‘ معاشرتی‘  معاشی‘ عدالتی اور حکومتی زندگی گزارنا ہوگی۔ امانت اور ذمہ داریوں‘ وفاے عہد‘ ذمیوں کی جان‘ مال اور عزت و آبرو کی حفاظت اور اس کی اہمیت کو کماحقہ اُجاگر فرما دیا‘ اور ذمیوں کے ساتھ بدسلوکی سے     یہ کہہ کر ڈراوا دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ظالم کو پکڑیں گے اور سزا دیں گے‘ اور اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو توڑا گیا تو آپؐ خود مقدمہ لڑیں گے۔

آج ہمارے معاشرے میں قتل کی وارداتیں عام ہیں‘ جب کہ مسلمان کے لیے مسلمان کا خون ماسواے مذکورہ تین حالتوں کے حرام ہے۔ دینی تعلیمات کا احترام ہو تو گیا گزرا مسلمان بھی قتل سے بچے گا۔

حضرت عبید اللہ بن عمیر لیثیؓ اپنے والد عمیرلیثیؓ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اللہ کے اولیا نمازی ہیں اور وہ لوگ ہیں جو ان پانچ نمازوں کو‘ جن کو اللہ تعالیٰ نے فرض کردیا ہے‘ قائم کرتے ہیں۔ رمضان کے روزے رکھتے اور اسے ثواب سمجھتے ہیں۔ زکوٰۃخوش دلی سے ثواب سمجھ کر دیتے ہیں اور کبائر سے جن سے  اللہ تعالیٰ نے روکا ہے‘ اجتناب کرتے ہیں۔ صحابہؓ میں سے ایک شخص نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! کبائر کتنے ہیں؟آپؐ نے فرمایا: نو ہیں۔ ان میں سب سے بڑا اللہ کے ساتھ شرک ہے۔ (پھر فرمایا) مومن کا ناحق قتل‘ میدانِ جنگ سے بھاگ جانا ‘بے گناہ پاک دامن عورت پر زنا کی تہمت لگانا‘ جادو کرنا‘ یتیم کا مال کھانا‘ سود کھانا‘ مسلمان والدین کی نافرمانی کرنا‘ مسلمانوں کے قبلہ بیت اللہ شریف‘ جو تمھاری زندگی اور موت دونوں حالتوں میں قبلہ ہے‘ کی حرمت کو پامال کرنا۔ اور جو آدمی اس حالت میں مرگیا کہ ان کبائر کا ارتکاب نہ کیا ہو اور نماز قائم کی ہو اور زکوٰۃ دی‘ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت سے جنت کے وسط میں سرفراز ہوگا۔ اس کے دروازوں کے کواڑ سونے کے ہوں گے۔ (مجمع الزوائد‘ جلد اوّل‘ ص ۴۸)

اللہ تعالیٰ کی ولایت اور جنت میں نبی کریمؐ کی رفاقت کا بہترین اور آسان نسخہ‘ فرائض کی ادایگی      اور محرمات سے اجتناب ہے۔ نماز‘ زکوٰۃ اور روزہ پورے دین کا عنوان ہیں۔ اس میں امر بالمعروف‘   نہی عن المنکر اور جہادو قتال فی سبیل اللہ شامل ہیں۔ ’ولایتِ الٰہی‘ مخصوص لباس‘ اور مخصوص رسوم کا نام نہیں ہے بلکہ دل سے اللہ تعالیٰ کے سامنے جھک جانا اور اللہ تعالیٰ کی بندگی کے رنگ میں اپنے آپ کو رنگ دینے کا نام ہے۔ ولایتِ الٰہی کے چند نمایاں اعمال وہ ہیں جن کا اس حدیث شریف میں ذکر ہے۔ ان اعمال سے عاری آدمی اگر ولایت کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ شیطان کا پجاری اور دھوکے باز ہے۔ آج کے دور میں افراد اور معاشرے کو اس حدیث کی روشنی میں جانچ پرکھ کر کے فیصلہ دیا جاسکتا ہے کہ کون سا شخص اور کون سا معاشرہ ولایتِ الٰہی کا معاشرہ ہے۔ وہ معاشرہ جس میں مسلمانوں کی خون ریزی کی جارہی ہو‘ جس میں مسلمانوں کی خون ریزی کرنے والے لوگ محبوب اور اُونچے ہوں‘ وہ معاشرہ ولایتِ الٰہی کے بجاے اللہ تعالیٰ کے غیظ و غضب کا شکار ہوگا۔

حضرت عبداللہ بن عمروؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: مومن کا تحفہ موت ہے۔ (مجمع الزوائد‘ بحوالہ طبرانی‘ص ۳۲۰ )

مومن اس دنیا میں تکلیفوں‘ آزمایشوں اور قرآن وسنت کے مقرر کردہ دائرے میں مقید ہوتا ہے۔ حیوانات اور کفار کی طرح آزادانہ چرتا چگتا اور عیاشیوں کی لذتوں کا اسیر نہیں ہوتا۔ موت اس کے لیے قیدخانے سے آزادی اور جنت کی وسعتوں‘ خوشیوں‘ راحتوں اور حقیقی لذتوں سے لطف اندوز ہونے کا ذریعہ ہے۔ اس لیے مومن کے لیے اس سے بڑا تحفہ کوئی نہیں ہے۔ اسی وجہ سے مومن موت کو سینے سے لگاتے ہوئے خوشی محسوس کرتا ہے۔ موت سے ڈرتا نہیں بلکہ اس کا استقبال کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مومن کو وفات کے بعد جلد غسل دے کر کفن پہنایا جاتا ہے اور جلدی نمازِ جنازہ پڑھ کر اسے لحد میں اُتارا جاتا ہے۔ صحیح بخاریمیں ہے: ’’جب مومن کی میت کو جنازے کے بعد قبر کی طرف لے جایا جاتا ہے تو میت پکار پکار کر کہتی ہے: قَدِّمُوْنِیْ قَدِّمُوْنِیْ ،مجھے آگے لے جائو‘ مجھے آگے لے جائو۔ اور کافر پکار پکار کر کہتا ہے: ہاہا! مجھے کہاں لے جا رہے ہو؟ مجھے کہاں لے جا رہے ہو؟ تب موت مومن کے لیے بہت بڑا تحفہ ہے۔

حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے‘ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے کسی اُمت پر رحمت فرماتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے نبی کی جان‘ اُمت کی موجودگی میں قبض کرلیتے ہیں اور نبی کو اُمت کے لیے پیش رو اور منتظم کے طور پر آگے بھیجتے ہیں۔ اور جب کسی اُمت کو‘ جس نے نبی کی تکذیب اوراس کے حکم کی نافرمانی کی ہو‘ ہلاک کرنا چاہتے ہیں تو اسے نبی کی زندگی میں عذاب دیتے ہیں کہ نبی ان کی ہلاکت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کرلے۔ (مسلم، کتاب الایمان)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعالمینؐ ہیں۔ آپؐ قیامت تک کے انسانوں کے لیے نبی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کو اُمت سے پہلے اس دنیا سے اٹھا لیا ہے۔ اس کے نتیجے میں اُمت ہلاکت سے محفوظ ہوگئی ہے۔  دنیا کے انسان جو آپؐ پر ایمان لاتے ہیں وہ بھی آپؐ کی اُمت ہیں اور جو ایمان نہیں لاتے وہ بھی آپؐ کی اُمت ہیں۔ ایمان والے اُمت اجابت کہلاتے ہیں اور جو ایمان نہیں لاتے وہ اُمت دعوت کہلاتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بدولت سب پر رحمت ہوگئی ہے۔ ساری دنیا کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سبب اللہ تعالیٰ کے اس احسان کی قدر کرنی چاہیے۔ آج پانچوں براعظموں میں کفارو مشرکین‘ یہود و ہنود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب اور آپؐ کی نافرمانی کرنے والے‘ دنیا میں تباہ کن عذاب سے اس طرح تباہ نہیں ہوئے جس طرح قومِ نوح، قومِ عاد، قوم ثمود، قومِ لوط اور قومِ فرعون تباہ ہوگئے بلکہ آپؐ کی بدولت محفوظ ہیں۔ اہلِ ایمان کو چاہیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس شان اور آپؐ کی بدولت      رب العالمین کے اس احسان سے دنیا کو روشناس کرکے انھیں شکرگزاری پر آمادہ کریں۔ وہ شکرگزاری    یہ ہے کہ لوگ آپؐ اور آپؐ کے دیے ہوئے اسلام کے نظامِ حیات پرایمان لے آئیں۔

حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

جو اِس حال میں صبح کرے کہ دنیا اس کا مقصدِ حیات ہو‘ اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں‘ اور  جو شخص بلاجبرواکراہ خوشی سے ذلت کو قبول کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ (طبرانی)

جس کا اللہ سے تعلق ہو‘ اس کی نظر اللہ کی رضا اور جنت پر ہوتی ہے۔ دنیا اس کا مقصدِ حیات نہیں‘ رضاے الٰہی کے حصول کا ذریعہ ہوتی ہے۔ جو مسلمان ہوتا ہے وہ معزز ہوتا ہے‘ کبھی خوشی سے ذلت قبول نہیں کرتا۔ جبرواکراہ کی بات دوسری ہے۔ جس کا مقصدِحیات دنیا ہو وہ پھر خوشی سے ذلت بھی قبول کرلیتا ہے‘ نہ اس کا اللہ سے تعلق ہوتا ہے‘ اور نہ وہ مسلمانوں میں سے ہوتا ہے۔