احمد ابو سعید


بیسویں صدی عیسوی کے دوران‘ بھارت اور پاکستان میں اُردو زبان میں قرآن کی تفہیم و ترجمانی اورتفسیر میں غالباً دیگر مسلمان ممالک کی زبانوں کے مقابلے میں بہت ہی نمایاں کام ہوا ہے۔ اس کام کا تفصیلی جائزہ اس مختصر مضمون میں ممکن نہیں۔ یہاں صرف نمایاں اور مؤثر کوششوں کا مختصر جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔

تراجم و مختصر تفاسیر

  • ترجمہ شاہ عبدالقادر : اُردو کا سب سے پہلا بامحاورہ مستند اورمقبول ترجمہ ہے۔ مختصر حواشی کے ساتھ ۱۸۲۹ء میں شائع ہوا۔
  • ترجمہ شاہ رفیع الدین: بہت محتاط‘ بہت مؤثر‘ بہت مقبول لفظی ترجمہ جو ۱۸۴۰ء میں ان کے انتقال کے ۲۳سال بعد شائع ہوا۔
  • ترجمہ عاشق الٰھی میرٹہی: بامحاورہ ترجمانی نما ترجمہ‘اشاعت اول ۱۹۰۲ئ۔
  • ترجمہ فتح محمد جالندہری: آسان اورعام فہم ترجمہ‘ اشاعت اول ۱۹۰۸ئ۔
  • ترجمہ مولانا اشرف علی تہانوی :تحت لفظ مگر بامحاورہ اور عام فہم ترجمہ۔   یہ ترجمہ تفسیر بیان القرآن کے ضمن میں کیاگیا ہے۔ اشاعت اول ۱۹۰۸ئ۔
  • ترجمہ ڈپٹی نذیر احمد دھلوی: بامحاورہ سلیس ترجمہ‘ اشاعت اول ۱۹۰۹ئ۔
  • ترجمہ مولانا احمد رضا خاں بریلوی : عام فہم ترجمہ‘ اشاعت اول ۱۹۱۱ئ۔
  • ترجمہ شیخ الھند مولانا محمود حسن: معروف ومقبول ترجمہ‘ ۱۹۱۹ئ۔
  • ترجمہ مولانا ابوالکلام آزاد: مؤثر‘بامحاورہ ‘ عام فہم ترجمانی۔ اس کی دو جلدیں شائع ہوسکیں۔ ترجمان القرآن‘ جلد اول (سورئہ فاتحہ تا سورئہ انعام) ۱۹۳۱ئ‘جلد دوم (سورۂ اعراف تا سورۂ مومنون) ۱۹۳۶ئ۔
  • ترجمہ عبدالماجد دریابادی : بیش تر ترجمہ مولانا اشرف علی تھانویؒ سے نقل کیا ہے۔ عام فہم ہے۔ ان کی تفسیر تفسیر ماجدی ۱۹۵۲ء میں مکمل ہوئی۔
  • مولانا قاری عبدالباری حیدرآبادی: آسان اورعام فہم ترجمہ اورمختصر مگر متوازن تفسیر۔ عام آدمی کے لیے یہ مکمل قرآن کا مختصر تفسیری کام بہت مفید ہے۔
  • مولانا محمد سلیمان قاسمی: آسان‘ رکوع بہ رکوع ترجمانی اورتفسیر‘ حالات حاضرہ کا جائزہ اور مدبرانہ مختصر نکاتی مطالعہ۔ سات جلدوں پر مشتمل عام فہم تحریکی و دعوتی تفسیر ہے۔ جلد اول ۱۹۹۶ء میں اورجلد ہفتم ۲۰۰۲ء میں شائع ہوئی۔
  • مولانا محمد فاروق خاں : آپ نے اُردو میں قرآن مجید کا آیت بہ آیت آسان ترجمہ کیا ہے۔ عام فہم ہندی میں بھی دستیاب ہے۔ یہ غیرمسلموں اورمسلمانوں کے غیر اُردو داں حضرات کے لیے مفید خدمت ہے۔
  • مولانا عبدالکریم پارکھ : آسان اُردو ترجمہ۔ مختصر تشریحات پر مشتمل دعوتی و تبلیغی تفسیر۔ آسان لغات القرآن بھی ان کا ایک کارنامہ ہے۔
  • مولانا سید شبیراحمد‘ لاہور: انھوں نے دو رنگوں میں اس انداز سے متن اور ترجمے کو پیش کیا ہے کہ طالب علم محض ذاتی شوق سے ترجمہ سیکھ لینے میں خاصی سہولت پاتاہے۔   ان سے پیش تر حافظ نذر احمد اور پھر صابر قرنی کے لفظی ترجمۂ قرآن نے فہمِ قرآن کی تحریک کو وسعت دی۔
  • ڈاکٹر محمد حمید اللّٰہ: قرآن مجید اور سیرت محمدرسولؐ پر انھوں نے اُردو کے علاوہ انگریزی اور فرانسیسی زبانوں میں قرآن کی دعوت کا کام انجام دیا۔

جامع و مفصل تفاسیر

  • تفسیر ثنائی: مولانا ثناء اللہ خاں امرت سری کی اس تفسیر کا انداز مناظرانہ ہے اور   اہلِ حدیث مکتب فکر کی ترجمانی کی گئی ہے۔ ۱۹۰۷ء میں سات جلدوں میں شائع ہوئی۔
  • تفسیر فراھی: مولانا حمید الدین فراہی کی تفسیر بدعات ‘ تصوف ‘ پیری مریدی ‘ منکرین حدیث کی تردید اوردیگر مذاہب کے عقائد پر سیر حاصل بحث پر مبنی ہے۔ مولانا کا اکثر تحریری کام عربی زبان ہی میں ہے۔ اُردو میں منتقلی کاکام شاگردوں نے کیا ہے۔
  • تفھیم القرآن: مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی یہ تفسیرقرآن کا نہایت آسان ‘ مؤثر‘ اوربامحاورہ ترجمانی نما ترجمہ اور عام فہم تشریحات پر مشتمل تفسیر ہے‘ جو ہر لحاظ سے فہم قرآن میں   اپنا ایک اعلیٰ اورنمایاں مقام رکھتی ہے۔ ایک متعین مفہوم کو رسول اکرمؐ کی سیرت کے آئینے میں پیش کیا ہے۔ تفہیم القرآن میں تحریک [اسلامی] ‘ تحقیق ‘ تعلیم [سے متعلق] ہروہ مواد موجود ہے‘ جو قاری کو مطلوب ہے۔تفہیم القرآن دنیا کی غالباً وہ واحد تفسیر ہے جو کتابی شکل میں اشاعت سے قبل ماہ نامہ ترجمان القرآن میں پورے تسلسل کے ساتھ چھپتی رہی ہے‘ تاکہ ہر صاحب نظر عالم اور زبان عربی اور اُردو ادب کے ماہرین اس تفسیر پر مدلل تنقید کریں۔ جون ۱۹۷۲ء کو مکمل ہوئی۔  فہم قرآن کے لیے یہ ایک انمول نعمت ہے۔
  • تدبر قرآن: مولانا امین احسن اصلاحی کی تفسیر تدبر قرآن ایک علمی تفسیر ہے‘ نیز اپنے استاد مولانا حمید الدین فراہی کے افکار کی بہترین عکاسی کرتی ہے۔ عام قاری کے لیے اگرچہ بوجھل ہے مگرخاص مکتبہ فکر کے درس گاہی طالب علم کے لیے بہت موزوں و مفید ہے۔ تحریک اسلامی کے ساتھ ایک عرصہ گزارنے کی وجہ سے سید مودودی کی فکر کے عمیق  اثرات تحریر میں موجود ہیں۔  قرآن کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے موضوع و مضمون کی مناسبت سے پیراگرافنگ میں تقسیم کرتے ہوئے ترجمہ اورتفسیر کاکام نوجلدوں پر محیط ہے۔ ۱۹۸۷ء میں مکمل ہوئی۔
  • معارف القرآن: مفتی محمد شفیع کی یہ تفسیر آٹھ جلدوں پر مشتمل ہے۔ مولانا اشرف علی تھانوی اورمولانا محمود حسن کے تراجم کو روانی و تسلسل سے بیان کرنے کے لیے قوسین کا استعمال کیاگیاہے۔ تفسیر کے اہم خلاصے کے نیچے لکیر کھینچ کر نمایاں کیاگیاہے۔ معارف ومسائل کے تحت سورہ کی خوبیاں‘ حکمتیں ‘ فضائل ‘ زمانہ نزول وشان نزول اور فقہی مسائل وغیرہ بیان ہوئی ہیں۔ اپنے استاد مولانا اشرف علی ؒ تھانوی کی فکر کو نئے قالب میں پیش کرنے کی ایک سعی مزید ہے۔ ریڈیو پاکستان پر دیے ہوئے دروس کو بعدمیں تحریر ی شکل دی گئی ہے۔ ۱۹۸۲ء میں  اشاعت اول عمل میں آئی۔
  • دعوۃ القرآن: مولانا شمس پیرزادہ (ممبئی) نے تفسیر دعوۃ القرآن ۱۸ سالوں میں مکمل کی۔ تین جلدوں پر مشتمل ہے۔ خالص توحید کی تعلیم ‘ بدعات اور روایات پرستی ‘ شرک کی ہرقسم سے اجتناب ‘ وحدت ادیان‘ عقیدۂ تناسخ اور تمام غیراسلامی نظریات پر تنقید اس تفسیر کا امتیاز ہے۔ ترجمہ بامحاورہ‘ تفسیر عام فہم ہے۔ صحیح احادیث لی گئی ہیں۔ جدید مسائل پر بحث بھی کی گئی ہے۔

تمام تفاسیر کا تعارف بہت طوالت کا باعث ہے۔ مکمل تفاسیر میں مولوی وحیدالزماں صاحب حیدرآبادی (م: ۱۹۲۰ئ)کی تفسیر وحیدی (سلفی مسلک) کی عکاس ہے۔    مولوی حافظ سید احمد حسن کی تفسیر احسن التفاسیر (اشاعت اول ۱۹۱۵ئ) میں حدیثی پہلو غالب ہے۔ خواجہ حسن نظامی کی عام فہم تفسیر تفسیر حسن کا پہلا اڈیشن ۱۹۲۴ء میں عمل آیا۔   یہ مختصر اورآسان تفسیر ہے۔ قاری محمدعلی کی خلاصۂ تفسیر (اشاعت اول ۱۹۲۹ئ) شیعہ حضرات کے لیے بہت مفید ہے۔ تفسیر ضیاء القرآن ‘ تفسیر انوار القرآن ‘ تفسیر مفتاح القرآن بالترتیب مولانا محمد کرم شاہ ازہری ‘ مولانا نعیم الدین مرادآبادی اورمولانا شبیر احمد میرٹھی کی تفاسیر ہیں۔ ان تفاسیر نے فہم قرآن کے لیے قابلِ ذکر خدمات انجام دی ہیں۔

بیسویں صدی میں فہم قرآن کا ہر اجتماعی اور انفرادی کام مسلمانوں میں دینی شعور بیدار کرنے اورمسلمانوں کو دین سے جوڑے رکھنے اور حتی المقدورروحِ قرآنی اور تعلیماتِ اسلامی کا پھیلائو رہاہے۔ اسلام کو بحیثیت مذہب پیش کرنے کی عمومی کوششیں بہت رہی ہیں جو نہایت   قابلِ قدر ہیں مگربحیثیت نظامِ حیات اورقرآن کو بحیثیت دستور حیات پیش کرنے میں نمایاں خدمات بیسویں صدی میں دو جماعتوں نے انجام دی ہیں: جماعت اسلامی اور اخوان المسلمون۔ جو کام مولانا سید ابولاعلیٰ موددی کی تفہیم القرآن نے اُردو داں طبقے میں انجام دیاہے‘ وہی کام محمدقطب شہید کی فی ظلال القرآن نے عرب ممالک میں انجام دیاہے۔

فہم قرآن کی تحریکات کو جوکم و بیش مکمل تفاسیر کے روپ میں ۲۶ تفسیریں اور جزوی تفاسیر ۴۰ اورتفسیر ی حواشی کے روپ میں مکمل قرآن پر پانچ معروف ومشہور کام ہوئے ہیں۔ اس طرح بیسویں صدی عیسوی میں کم و بیش قرآن کے ۷۵ تفہیمی تفسیری کام فقط اُردو میں ہوئے ہیں۔ ان میں متعدد کا م قرآن کی تفہیمی خدمت کے لیے شروع ہوئے مگر مفسر ومترجم کے مخصوص مکتبہ فکر کی بدولت مسلکی روپ اختیار کرگئے۔

مختلف مکاتب فکر کا کردار

اُردو خواں طبقے میں فہم قرآن کے فروغ کی اس جدوجہد کو حسب ذیل عنوانات کے  تحت تقسیم کیا جاسکتا ہے

دیوبندی مکتبۂ فکر

بریلوی مکتبۂ فکر

اہلِ حدیث مکتبۂ فکر

 منکرین حدیث مکتبۂ فکر

فراہی مکتبۂ فکر۔

دیـوبندی مکـتبہ فکر: ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں مسلمانانِ ہند کی ناکامی کے بعد مولانا محمدقاسم نانوتوی (م: ۱۸۸۰ئ) نے دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی‘ تاکہ کم از کم دینی محاذ پر دفاعی کام کیاجائے ۔ مولانا محمد قاسم نانوتوی نے سفراورحضر میں مولانا محمود حسن کو بھرپور تربیت سے سرفراز کیا‘ جو نہایت پاک باز‘ مصلحانہ صفات کی حامل ہجرت اورجہاد کے جذبے سے لبریز نہایت محرک شخصیت کے حامل تھے ۔برطانوی دور حکومت میں مسلمانوں کی ہر اجتماعی سعی وجہد پر کڑی نظر رکھی جاتی تھی۔جیسے آج کل فلسطینی مسلمان اسرائیل حکومت کے تحت عالمی سازشوں کا شکار ہیں۔

۱۹۱۴ء میں جب پہلی عالمی جنگ چھڑی تومولانا محمود حسن کو انگریزوں نے جنوری ۱۹۱۷ء میں مکہ مکرمہ میں گرفتار کرلیا‘ جہاں سے انھیں جزیرہ مالٹا بھیج دیا گیا۔ بعدازاں تین سال سات ماہ بعد ممبئی پہنچا کر رہا کیا گیا۔ تحریک فہم قرآن سے ان کی نسبت کا اندازہ آخری زمانے میں ان کی ایک تقریر سے کیا جاسکتاہے: ’’میں جیل کی تنہائیوں میں مسلمانوں کی دینی اوردنیوی تباہی کے اسباب پر غور کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اس کے دو سبب ہیں: ۱-مسلمانوں کا قرآن کو چھوڑ دینا ۲-ان کے آپسی اختلافات۔ اس لیے میں وہیں سے یہ عزم لے کر آیاہوں کہ اپنی باقی زندگی قرآن کو لفظاً اورمعناً عام کروں‘ بچوں کے لیے تعلیم کے مکاتب ہر ہر بستی میں قائم کرواؤں ۔ بڑوں کو عوامی درس قرآن کے ذریعے قرآنی تعلیمات پر عمل کے لیے آمادہ کروں۔ علما کے باہمی اختلاف کو سلجھاوں اور اتحاد کی سعی کروں۔ علمی اختلاف کو آپسی جدال اورتعصب میں تبدیل کرنے میں انگریز بہادر کی چالوں اورمکاریوں کا پردہ فاش کروں‘‘۔

مولانا محمود حسن کی غیر مکمل تفسیر کو ان کے شاگردِ رشید شبیراحمد عثمانی نے مکمل کیا۔ مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کی بیان القرآن اور مولانا مفتی محمد شفیع کی معارف القرآن دیوبندی    مکتبۂ فکر کی نمایندہ تفاسیر ہیں۔ خود تبلیغی جماعت فی الحقیقت دیوبندی مکتبۂ فکر کی نمایندگی کرتی ہے۔

بریلوی مکتبۂ فکر: مولانا احمد رضا خاں بریلوی (م: ۱۹۲۱ئ) نے فہم قرآن کی تحریک ہی سے کام کا آغاز کیا۔ کنزالایمان فی ترجمہ القرآن آپ کی سعی کا نتیجہ ہے۔  تفسیری مباحث میں مقام محمدؐ اورمحبت رسول کو مرکزی مقام دیاگیا ہے۔ مولانا محمدنعیم الدین مرادآبادی نے اس کام کو آگے بڑھایا اورتفسیری حواشی کی خدمت انجام دی۔ مولانا ابوالحسنات  سید احمد قادری کی تفسیر الحسنات بآیات بینات دو جلدوں میں شائع (۱۳۷۶ھ) ہوئی۔

شیعہ مکتبۂ فکر :گذشتہ صدی کے دوران جن شیعہ علماے کرام نے اُردو ترجمۂ قرآن کیا ان میں جناب علی نقی نقوی‘ سید فرمان علی‘ شیخ محسن علی نجفی‘ مولانا امداد حسین اور مولانا مقبول حسین کے نام معروف ہیں‘ جب کہ علامہ طالب جوہری نے ترجمہ و تفسیر کی۔

اھل حدیث مکتبۂ فکر: مولانا وحیدالزماں حیدر آباد (م:۱۹۲۰ئ) کی تفسیر وحیدی مسلکِ اہل حدیث کی ترجمان ہے۔ تفسیری مباحث میںتوحید کو مرکزی مقام حاصل ہے۔ اسی سلسلے کی دوسری تفسیر مولانا ثناء اللہ امرت سری(۱۸۶۸ئ-۱۹۴۸ئ) کی تفسیر ثنائی ہے۔ مولانا ثناء اللہ کاآبائی وطن کشمیر تھا۔ میاں نذیر حسین محدث دہلوی سے علوم دینیہ کی تحصیل کی۔ بہت جید ماہر مناظرہ عالم دین تھے۔ آریہ سماجیوں ‘ قادیانیوںسے معرکہ آرا رہے۔ دین اسلام اور ختم نبوت کی حقانیت ثابت کرتے رہے۔ تفسیر ثنائی میں اکثر بحثیں دراصل تفسیرکے نام پر سرسید احمد خاں کی تفسیر اور گمراہ کن فکر کے توڑ اورجواب میں ہیں۔

مرکزی جمعیت اہل حدیث کے احباب کی مشترکہ کوشش سے ایک عام فہم ترجمہ   مختصر و مفید تشریح اور تفسیر احسن البیان کے نام سے اُردو میں مرتب ہوئی جس میں ترجمہ   مولانا محمد جوناگڑھی کے قلم سے ہے‘ جب کہ تفسیر میں حواشی مولانا حافظ صلاح الدین یوسف کے تحریر کردہ ہیں۔ یہ کام فہم قرآن کی تحریک میں بہت زیادہ مفید اور مؤثر ہے۔

فراھی مکتبۂ فکر : تحریک فہم قرآن میں مولانا حمید الدین فراہی کا محققانہ کارنامہ ان کی عمر کے بیش تر حصے کا نچوڑ ہے۔ یہ کام عربی زبان میں ہے‘ جب کہ اردو میں ترجمہ اورتشریح کا کام شاگردوں میں بالخصوص امین احسن اصلاحی اور دائرہ حمیدیہ اورمدرسۃ الاصلاح کے محقق     طلبہ واساتذہ نے انجام دیاہے۔

  • سید ابوالاعلیٰ مودودی کے الفاظ میں مولانا حمید الدین فراہی کا تفسیر قرآن میں ایک خاص محققانہ اسلوب ہے۔ وہ روایات اوراسرائیلیات سے الگ ہوکر غور کرتے ہیں‘ جس میں نظمِ کلام پر خاص توجہ رہتی ہے۔
  • مولانا ابوالکلام آزاد کی خدمات:مولانا ابوالکلام آزاد نے ترجمان القرآن کے نام سے تفہیم قرآن کا کام سورہ نور تک کیا ہے۔ مگر قرآن فہمی کی جو تحریک آپ نے شروع کی    وہ الہلال اور البلاغ کے انقلاب انگیز مضامین میں محفوظ ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی  سحرانگیز تحریروں اورپُراثر تقریروں کے ذریعے امت مسلمہ کے عوام اورخواص اورامت کے اندر موجود درد مند علما کو یاد دلایاتھا کہ اس امت کا حقیقی نصب العین بندگیِ رب کی دعوت اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ اورمحمد رسولؐ اللہ کی اطاعت کے علاوہ دوسری تمام اطاعتوں کا انکار ہے۔ مولانا نے قرآن وسنت سے دین کا ایک جامع اورانقلابی تصور اخذ کیاتھا۔ آپ کی دعوت کا بنیادی نقطۂ نظر طاغوت اور غیراللہ کی اطاعت سے انکار ہے‘ نیز یہ کہ تمام فسادات اورفتنوں کا سر چشمہ طاغوت کی اطاعت ہے۔ مولانا آزاد نے تفسیر نویسی کی جگہ قرآن فہمی اوردعوت قرآن کے پہلو کو پیش نظر رکھ کر فہم قرآن کے میدان میں ہی عظیم خدمت انجام دی۔
  • مولانا مودودی کی خدمات: تفہیم القرآن دراصل علوم القرآن کا ایک انسائی کلوپیڈیا ہے۔ یہ چھے جلدوں پر مشتمل ہے۔ ہر سورہ کی تفسیر سے پہلے شانِ نزول کے ساتھ سورہ کا مرکزی مضمون اور موضوع کی وضاحت ملتی ہے جس سے سورہ کو سمجھنے میں بہت مدد ملتی ہے۔ تفہیم القرآنکی زبان بہت شستہ‘ رواں ‘ عام فہم‘ بامحاورہ اور اُردو میں مستعمل انگریزی الفاظ کا خوب صورت استعمال‘ فلسفہ ‘ اقتصادیات وعمرانیات کے حوالے سے قرآن کا جامع تصور‘ عدل اجتماعی کی وضاحت قرآن کی روشنی میں اوراس کے علاوہ تفہیم القرآن کا اشاریہ اپنی مثال آپ ہے یہ تفسیر فاضلینِ دینی علوم اور جدید تعلیم یافتگان ہر ایک کے لیے یکساں مفید ہے۔

بیسویں صدی کے منکرین حدیث کا طبقہ بہت بڑی گمراہی کا باعث بنا۔ غلام احمدپر ویز نے نظام ربوبیت کے نام سے ایک فتنہ کھڑا کیا۔ مولانا مودودی کی کتاب سنت کی آئینی حیثیت میںاسلم جیراج پوری اوران کی پوری جمعیت کی اصلیت کی مکمل ومدلل وضاحت موجود ہے جس میں انھوں نے حدیث کے مقام ومرتبہ اوراساسِ دین کی تعمیر میں حدیث کے مرکزی رول کو نہایت مہارت سے ثابت کیا ہے۔ تفہیم القرآن میں اشتراکیت‘ سرمایہ دارانہ نظام اور استعماریت پر مناسب مقامات پر بھرپور تنقید کی گئی ہے اورقرآن کی تعلیمات کی آفاقیت وفوقیت کو مدلل انداز میں پیش کیا ہے۔ مولانا مودودی نے دوسری طرف غلام احمد قادیانی کے فتنے کی بھرپور اورمدلل ضلالت کو ثابت کیاہے۔

مولانا مودودی تمام علوم کو علوم القرآن میں رنگ دینا چاہتے تھے‘ چاہے وہ اقتصادی علوم ہوں کہ سائنسی علوم‘ جغرافیائی علوم ہوں کہ تاریخی علوم ‘ نفسیاتی علوم ہوں کہ طبی علوم‘ فلکیاتی علوم ہوں کہ طبقات الارضی علوم‘ معاشرتی علوم ہوں کہ سیاسی علوم‘ تعمیراتی علوم ہوں کہ تعلیماتی علوم‘    اخلاقی علوم ہوں کہ قانونی علوم‘انفرادی ‘ اجتماعی ‘ ملکی اور بین الاقوامی تمام معاملات اورمسائل    کے حل کے لیے علوم القرآن سے رجوع ہونے کی پرزور اورمدلل دعوت دیتے ہیں۔ اس طرح  تفہیم القرآن بیسویں صدی عیسوی میں تحریک فہم قرآن کی سرخیل ہے۔

تحقیقی مطالعہ قرآن کے جذبے سے علما حضرات وسعت قلبی سے کام لیتے ہوئے اگر  اس تفسیر کو اپنے مدارس میں بطور درسی کتاب شامل کریں تو فہم قرآن کے میدان میں یہ ایک عظیم خدمت ہوگی اور دنیا میں قرآنی انقلاب برپا ہونے کی نئی راہیں پیدا ہوںگی۔ ان شاء اللہ!